ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا صوبہ خراسان شمالی کے یونیورسٹی اور مدارس کے اساتذہ سے خطاب


بسم ‌اللَّه‌ الرّحمن‌ الرّحيم‌

یہ اجتماع ظاہری شکل کے لحاظ سے بھی اور روحی و معنوی  اعتبار سے بھی بڑا ہی شاندار ،با شکوہ اور باعظمت اجتماع ہے۔ اس صوبے کے اساتذہ کی اتنی بڑی اورکثیر تعداد دیکھ کر رشک ہوتا ہے،خوشی و مسرت حاصل ہوتی ہے۔ جو باتیں اس جلسہ میں بیان کی گئیں وہ حقیقت  میں بہت ہی  ماہرانہ، نپی تلی اور پیشہ ورانہ باتیں تھیں۔ اس صوبے کا مادی وسائل و ذرائع کے لحاظ سے ملک کے نادار صوبوں میں شمار ہوتا ہے، حالانکہ یہاں بے پناہ  اور بیشمار قدرتی استعداد اور صلاحیت موجود ہے، یہ اعلی افکار، یہ روشن نظریات اور یہ ماہرانہ  باتیں دیکھ کر بڑی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ یہ جلسہ و اجتماع  اس حقیر کے لئے اللہ تعالی کا بہترین عطیہ اور ہدیہ ہے۔ یہاں آپ سب کی زیارت کرنے اور آپ کی باتیں سننے کے اس موقع کو اللہ تعالی کی نعمت سمجھتے ہوئے میں اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ دوستوں نے ان اجتماع میں جو تجاویز پیش کیں ان میں بعض کا تعلق اجرائی اداروں اور مختلف محکموں کے عہدیداروں سے ہے۔ اس سلسلے میں ہماری روش یہ ہے کہ تجاویز کو متعلقہ اداروں تک پہنچاتے ہیں، ہم خود کوئی اجرائی اقدام نہیں کرتے۔ تا ہم بعض تجاویز بڑی بنیادی قسم کی تجاویز ہیں۔ محترمہ خاتون معلمہ نے جو بات کہی وہ بڑی اچھی اور منطقی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح جو دیگر نکات بیان کئے گئے، میں نے انہیں نوٹ کر لیا ہے، یہ مطالعہ کرنے کے لائق ہیں، ان پر غور کرنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں معاشرے کے ان انتظامی امور میں جو ہم سے متعلق ہے ان باتوں اور تجاویز پر عمل کرنے اور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک نکتہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بڑی دلکش آواز میں ایک بہت ہی خوبصورت ترانہ پیش کیا گيا جس میں بڑے اچھے مفاہیم پیش کئے گئے ہیں۔ میں صرف اسی اجتماع و اجلاس کے لئے یہ بات نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میں چاہتا ہوں کا ملکی سطح پر اور پورے معاشرے کی سطح پر اس کا انعکاس ہو۔ حکام کے درمیان، عوام کے درمیان اور بالخصوص دانشور طبقے کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں محبت و چاہت کا اظہار بہت اچھی چیز ہے۔ اگر کچھ اساتذہ، معلم حضرات، علمی شخصیات اور ممتاز افراد کسی عہدیدار کی خدمت گزاری کی تعریف کرتے ہیں، اس سے محبت کا اظہار کرتے ہیں تو یہ بڑی اچھی چیز ہے۔ الحمد للہ ملک کے اندر یہ چیز موجود ہے۔ تاہم دنیا میں بہت سی جگہوں پر یہ چیز نادر ہے۔ یہ اسلام کی برکت سے ہے، یہ دینداری کی برکت سے ہے، اور یہ دو طرفہ عمل کا مظہر ہے۔؛ شاعر کہتا ہے؛
«راز كم گو من به تو عاشق‌ترم».
حکام اور عوام کے مابین یا دانشور طبقے اور عہدیداروں کے مابین یکطرفہ محبت ممکن ہی نہیں ہے، یکطرفہ لگاؤ نہیں ہوتا۔ اگر باہمی اور دوطرفہ کشش اور محبت نہ ہو تو یہ محبت پیچیدہ ہوکر ختم ہو جاتی ہے۔ تو محبت دو طرفہ ہوتی ہے۔ یہاں میں اس نکتے پر تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ یہ محبت بس چند الفاظ بیان کر دینے تک محدود نہ ہو، ایسے الفاظ کی صورت میں نہ ہو جن کا مبالغہ آمیز ہونا سب کے لئے نمایاں ہے۔ بیشک شعر اغراق اور مبالغہ کی زمین ہے لیکن اگر مجھ جیسے حقیر، چھوٹے اور ناقص انسان کے لئے ایسی اصطلاحات کا استعمال کیا جائے جو عالم خلقت کی منتخب اور ممتاز شخصیات کے لئے ہیں، جن کا تعلق معصومین علیہم السلام اور انبیاء و اولیائے پروردگار سے ہے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ ہمیں معاشرے کے اندر اس کی ترویج سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان اصطلاحات کو اگر ہٹا دیا جائے تب بھی دو طرفہ محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔
جو مطالب دوستوں نے یہاں بیان کئے ہیں ان میں بڑے اچھے اور اہم نکات تھے۔ ہمیں حقیقت میں اس کی شدید ضرورت ہے کہ ملک کے اندر تعلیم و تربیت کے شعبے کو زیادہ سے زیادہ رونق بخشیں۔ اسلامی نطام اور اسلامی انقلاب کا نقطہ نظر صرف یہ نہیں تھا اور آج بھی صرف یہ نہیں ہے کہ ملک ترقی کی دوڑ میں دنیا کے دیگر ممالک کے شانہ بشانہ نظر آئے، مادی و سائنسی اور دفاعی و سیاسی رقابت میں ان کے برابر دکھائی دے، جس کی دنیا کے سربراہان مملکت کو ہمیشہ فکر رہتی ہے۔ اسلام اور اسلامی حکومت کا نصب العین تبدیلی پیدا کرنا ہے، انسان کو اندرونی طور پر بدلنا ہے۔ ہمارے اندر فرشتہ صفت بننے کے عناصر و عوامل بھی موجود ہیں اور درندگی کے رجحانات بھی پائے جاتے ہیں۔ «لقد خلقنا الانسان فى احسن تقويم. ثمّ رددناه اسفل سافلين».(1) یعنی علو و ارتقاء اور سرافرازی و سربلندی کی صلاحیت بھی موجود ہے اور پستی ،سقوط و تنزل کے عوامل  بھی ہمارے اندر بیشمار اور لا تعداد ہیں۔ خلقت انسانی کا فلسفہ یہ ہے کہ روحانی اقدار کے اعتبار سے ممتاز اور مثبت و تعمیری صلاحیتیں انسان کی اپنی مرضی اور اپنی محنت سے حیوانی خصلتوں پر غلبہ حاصل کریں۔ اگر یہ غلبہ حاصل ہو گیا تو وہ حیوانی رجحانات بھی تعمیری سمت میں مڑ جائیں گے۔ جارحیت اور یلغار کا رجحان اگر تقوے کے پیرائے میں ڈھل جائے تو انسانی دائرے، سماجی و اخلاقی حدود کے دفاع کا کام کرنے لگتا ہے۔ صحیح مقصد کے لئے استعمال ہونے لگتا ہے۔ قرآن اور اسلام نے "قتال" کا حکم دیا ہے۔ قتال کے معنی ہیں قتل کر دینے کے۔ لیکن اسلام نے اگر قتال کا حکم دیا ہے تو اس کا مقصد انسان کے اندر موجود اس جذبے اور خصلت کو انسانیت کی ہدایت اور دنیا کی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال کروانا ہے۔ اس قتال کا مقصد ، بلند چوٹیوں کی طرف انسان کے سفر اور اعلی انسانی و بشری کمالات تک پہنچنے کے راستے میں جو رکاوٹیں ہیں انھیں دور اور برطرف کرنا ہے۔ اگر ان صلاحیتوں اور ان خصلتوں کو غلبہ حاصل ہو گیا تو دنیا آباد ہو جائے گی اور خوشبختی کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ دنیا اس نہج پر پہنچ جائے گی جہاں نہ کوئی حق تلفی ہوگی، نہ جارحیت، نہ کوئی پستی ہوگی نہ بے بضاعتی، نہ صلاحیتوں سے بے اعتنائی ہوگی اور نہ ہی صلاحیتوں کا غلط استعمال ہوگا۔ نہ غربت ہوگي نہ تفریق ہوگی۔ آپ ذرا تصور کیجئے کہ یہ کتنی عظیم دنیا ہوگی۔ انسان اس دنیا میں اپنی تمام وجودی خصوصیات کو بروئے کار لانے پر قادر ہوگا۔ ہماری وجودی خصوصیات اور صلاحیتیں بس اتنی ہی نہیں ہیں جن سے انسان آج موجودہ علمی مقام پر پہنچا ہے، صلاحیتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم اپنی جسمانی صلاحیتوں کے سلسلے میں بھی کم فکری سے کام لے رہے ہیں۔ ہم نے اب تک اپنی جسمانی صلاحیتوں کو بھی پوری طرح نہیں پہچانا ہے۔
میں اکثر یہ مثال دیتا ہوں کہ آپ ایک جمناسٹ کو ملاحظہ کیجئے۔ جس آدمی نے ورزش نہیں کی ہے، اس کی مشق نہیں کی ہے، وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ایک شخص اپنے جسم کو اس انداز سے موڑ سکتا ہو۔ لیکن جب انسان مشق کرتا ہے تو خواہ وہ کوئی غیر معمولی صلاحیت کا حامل نہ بھی ہو، دوسروں سے بالکل مختلف نہ بھی ہو، تب بھی مشق سے اپنے جسم میں یہ لچک پیدا کر سکتا ہے۔ اب آپ انسان کے اندر پنہاں ہزاروں صلاحیتوں کا اندازہ لگائیے اگر وہ سب حرکت میں آ جائیں تو کیسی عظیم توانائی پیدا ہو جائے گی۔ یہ ساری چیزیں اس دنیا میں بآسانی انجام پائیں گی جہاں انسان کے وجود کے اندر پست خصلتوں پر انسانی و روحانی صفات کا غلبہ ہوگا۔ یہی ہدف بھی ہے اور یہی فریضہ بھی ہے۔ اگر یہ نصب العین ہے تو پھر بڑی محنت اور جد وجہد کی ضرورت ہے۔
ہم اس راہ میں ابھی ابتدائی مراحل میں ہی ہیں خواہ  ہم کتنی ہی پیشرفت کر چکے ہوں لیکن ابھی ابتدائی منزلوں میں ہیں۔ علمی پیشرفت کی اہمیت کو کم کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ آپ دیکھتے ہیں کہ ہم کتنا فخر کرتے ہیں کہ علمی ترقی ہمیں حاصل ہوئی ہے، ٹکنالوجی کے شعبے میں ہم نے پیشرفت حاصل کی ہے، سیاسی شعبے میں ہمیں ترقی ملی ہے، تعمیراتی شعبے میں ہم کافی آگے پہنچ چکے ہیں، ہمارے پاس قومی توانائیاں موجود ہیں، ہم نے اپنا وقار قائم کیا ہے، یہ سب بہت قیمتی اور گراں قدر چیزیں ہیں لیکن یہ سب ابھی ابتدائی مراحل ہیں۔ جب انسان وطن عزیز کی ذمہ داریوں اور قوم کے اسلامی فرائض کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے تو پھر تعلیم و تربیت کے شعبہ کے کردار کی اہمیت اور تعلیمی ماحول کی افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملک کے اندر تعلیم و تربیت اور اعلی تعلیم کی کلیدی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
میں یہ بات عرض کرتا چلوں؛ اس طرح کے جو اجتماع و اجلاس ہوتے ہیں، چاہے وہ اساتذہ کے ساتھ ہوں یا طلباء کے ساتھ ہوں، البتہ خاص طور پر اساتذہ کے ساتھ جو اجلاس ہوتے ہیں، چاہےان کا انعقاد یہاں ہو یا تہران میں ہو، ہم ان میں  چند باتیں کرتے ہیں یا چند نکات سنتے ہیں، یہ بھی اپنی جگہ بہت مفید چیز ہے لیکن اس سے بڑھ کر ہمارا مقصود معاشرے میں استاد کے مقام و مرتبے اور اس کے خاص احترام کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں اس چیز کی بہت ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ استاد کی قدر و قیمت کو پہچانا جائے، خواہ وہ اسکولوں کے اساتذہ ہوں یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور پروفیسر حضرات ہوں۔ البتہ سب سے پہلے خود معلم کو اپنی قدر و قیمت سے باخبر ہونا چاہیے، تعلیم و تربیت کے اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے کے لئے اسے اپنی پوری توانائی سے استفادہ کرنا چاہیے اور اسے اپنی اس استعداد میں مسلسل اضافہ کرنا چاہیے۔ مختصر یہ کہ اس جلسے سے ہمارا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ ہم اس نو تشکیل شدہ صوبے کے اساتذہ کی صنف کا خاص احترام کرتے ہیں۔ حقیقت میں آپ اسکولوں کے اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور لیکچرر کتنے اہم اور قابل احترام افراد ہیں، ہم آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
دوستوں نے اس اجتماع و اجلاس میں جو نکات بیان کئے ان میں ایک اہم نکتہ جو ہمیشہ میرے بھی ذہن میں رہتا ہے، یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی شخصیت کی تعمیر کرنے اور اسے سنوارنے پر توجہ دینا چاہیے۔ اگر ہم بچپن میں اس بچے کی انسانی خصلت و سرشت کو تعمیر کرنے اور اسے زیور اخلاق سے آراستہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا فائدہ ہمیں ہمیشہ ملے گا۔ کچھ ایسے منفی اثرات ہوتے ہیں جو انسان کے اخلاقیات کو متاثر کرتے ہیں، لیکن اگر کمسنی میں ہی بچے کی شخصیت کی تعمیر کا عمل پورا ہو جائے تو منفی چیزوں کا اثر بہت محدود ہو جائے گا اور مددگار و معاون عناصر و عوامل اس کی آسانی سے مدد کریں گے۔
ایک محترمہ خاتون نے "فلسفیدن" کی اصطلاح استعمال کی۔ انہوں نے یہ بالکل صحیح اصطلاح استعمال کی ہے۔ دور حاضر میں مادی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں ایک اہم کام اور بنیادی چیز بچوں کو فلسفہ کی تعلیم دینا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے افراد کے لئے حیرت کی بات ہوگی کہ بچوں کے لئے بھی فلسفہ کی تعلیم ضروری ہے۔ بعض افراد کے ذہن میں یہ تصور رہتا ہے کہ فلسفہ ایک انتہائی پیچیدہ اور بڑی بھاری بھرکم چیز ہے جس پر انگشت شمار اور پختہ افراد ہی توجہ دیتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ فلسفہ سوچنے کا انداز سکھاتا ہے، فکر کا طریقہ سمجھاتا ہے، ذہن کو تفکر و تدبر کا عادی بناتا ہے، یہ چیز شروع سے ہی سکھائی جانی چاہیے۔ یہ بہت اہم قالب ہے۔ بچے کو شروع سے ہی غور و فکر کرنے کی عادت پڑنی چاہیے، تدبر کی عادت ہونی چاہیے یہ بہت اہم ہے، مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ومسرت ہوئی کہ تقاریر میں یہ نکتہ سننے کو ملا۔
ایک اور اہم نکتہ خود اعتمادی کا ہے۔ ہمیں بچے میں شروع سے ہی خود اعتمادی اور خود باوری پیدا کرنا چاہیے۔ یہ صرف پرائمری کے بچوں کی بات نہیں ہے بلکہ ہائی اسکولوں کے بچوں میں بھی اور یونیورسٹی کے طلبہ میں بھی اس نکتے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں بد قسمتی سے بالکل گمراہ کن ثقافت کی بنیاد رکھی گئی جس کے منفی اثرات اب تک پوری طرح مٹائے نہیں جا سکے ہیں۔ ہم نے انقلاب کے آغاز سے ہی اس سلسلے میں بہت تبلیغاتی کام انجام دئیے لیکن مغرب کی جانب نیازمندانہ نظر، مغرب کو بہت عظیم اور خود کو اس کے سامنے حقیر وکمتر سمجھنا، یہ فکر آج بھی پوری طرح ختم نہیں ہو پائی ہے، بلکہ آج بھی موجود ہے۔ یہ خود اعتمادی کے فقدان کا منفی نتیجہ ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ فلاں برانڈ کی قیمت زیادہ ہے لیکن ایک مخصوص طبقے میں اس کے خریدار بہت زیادہ ہیں، حالانکہ بالکل اسی معیار کی ایرانی مصنوعات موجود ہیں جو کیفیت میں شاید اس سے بہتر ہوں۔ یہ اسی طرز فکر کا نتیجہ ہے، یہ ایک طرح کی بیماری ہے، یہ ایک آفت ہے۔ اگر سننے میں آتا ہے کہ فلاں  متخصص و اسپیشلسٹ نے ملک کے اندر ہی تخصص واسپیشلائیزیشن کیا ہے، بیرون ملک نہیں گيا ہے، تو اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ جبکہ یہی ماہر جس نے ملک کے اندر ہی اعلی تعلیم حاصل کی ہے، اپنے نمایاں کاموں سے اس طرز فکر پر خط بطلان کھینچ دیتا ہے، چنانچہ حالیہ چند برسوں میں اس کی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں، تب جاکر یہ سوچ بدلتی ہے۔ لیکن اگر یہ سلسلہ چلتا رہے گا کہ فلاں صاحب نے ملک کے اندر ہی تعلیم حاصل کی ہے اور فلاں نے بیرون ملک جاکر تعلیم پوری کی ہے لہذا باہر تعلیم حاصل کرنے والا بہتر ہے، تو یہ بڑے عیب کی بات ہوگی۔
آپ نے شاید میری زبان سے یہ بات متعدد بارسنی ہوگی کہ میں بیگانو
ں سے تعلیم حاصل کرنے کی ہرگز مخالفت نہیں کرتا، ہرگز نہیں، میں نے بارہا تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ کسی کی شاگردی اختیار کرنا اور اس سے علم حاصل کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ عیب اور شرم کی بات یہ ہے کہ ہم یہ باور کر لیں کہ دوسروں کی فکر، ان کے کام اور ان کے ہاتھ پر ہماری نیازمندانہ اور محتاجانہ نگاہ ہمیشہ مرکوز رہے۔ یہ بری بات ہے، اس کو ختم کیا جانا چاہیے۔ ہم کبھی معاشرے میں ایک اچھی خصلت رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس اچھی خصلت کے لئے جب ہم کوئی مثال پیش کرنا چاہتے ہیں تو کسی مغربی ملک کی مثال لاتے ہیں! اس کی کیا ضرورت ہے؟ ہم اپنے مخاطب افراد کے ذہن میں یہ خیال کیوں بٹھا رہے ہیں کہ اچھے برے اور نمایاں و غیر نمایاں کی تشخیص کے لئے ہمیں مغرب کے طرز عمل کو دیکھنا چاہیے؟ بعض دوستوں نے اپنی تقریر میں "مغرب باوری" کی بات کی۔ "خود باوری اور خود اعتمادی" اسی کے مد مقابل جذبہ ہے۔ کسی کی دشمنی ہمارا مقصود نہیں ہے، یہ کسی جغرافیائی یا سیاسی خطے سے تعصب کی بات نہیں ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنی توانائیوں کو، اپنی استعداد اور صلاحیتوں کو، اپنی محنت کے ثمرات کو نظرانداز کرنے لگتی ہے، اس کا بھروسہ ان چیزوں سے اٹھ جاتا ہے تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو اغیار پر منحصر ممالک کا ہوتا ہے۔ چنانچہ پہلوی حکومت کے دور میں ہم نے خود بھی یہی انجام دیکھا اور دیگر ممالک میں بھی ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ہمیں اپنے نوجوانوں کے اندر، اپنے بچوں کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ مجھے کبھی کبھی ایسی رپورٹیں ملتی ہیں کہ کسی استاد نے اپنی کلاس میں یا یونیورسٹی کے کسی پروفیسر نے اپنے لیکچر کے دوران مسلمہ سائنسی پیشرفت کو شک و تردد کی نظر سے دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر اسٹیم سیلز کے شعبے میں، نینو ٹکنالوجی کے شعبے میں، دیگر علمی شعبوں میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں، الحمد للہ آج ایسے شعبوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ یہ ترقی حقیقی ترقی ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ترقی آنکھوں کے سامنے ہے۔ واضح طور پر دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ لیکن فلاں صاحب یونیورسٹی کی کلاس میں یا اسکول کی اپنی کلاس میں شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نہیں جناب ایسا نہیں ہے، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا! سوال یہ ہے کہ اس قسم کی باتیں کرکے ہم کون سا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر واقعی ہمیں اس بارے میں شک و شبہ ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے مخاطب نوجوانوں کے ذہنوں میں بھی وہی شبہ ڈالیں؟ ہمیں جاکر تحقیق کرنا چاہیے، حقیقت حال معلوم کرنا چاہیے۔ تا کہ خود اعتمادی اور خود باوری کا جذبہ پیدا ہو۔ خود اعتمادی کا جذبہ بہت اہم اور کلیدی جذبہ ہے۔
ایک اور اہم صفت بردباری کی صفت ہے ۔ سماجی تعلقات میں ہمیں جن چیزوں کی اشد ضرورت ہے ان میں ایک حلم و بردباری ہے۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات میں حلم و بردباری پر اسی لئے اتنی تاکید کی گئی ہے۔ بردباری نہ ہو تو ذاتی  اور شخصی سطح پر بھی اور سماجی سطح پر بھی گوناگوں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی حلقے بھی بردباری سے کام لیں تو کام بہترین انداز میں سرانجام پائیں گے۔ مختلف گروہ، کوئی کسی کا طرفدار ہے، کوئی کسی دوسرےکا حمایتی ہے، بس ان کے درمیان اگر بردباری ہو تو حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ حلم و بردباری کا مطلب برائیوں اور خرابیوں سے چشم پوشی کر لینا نہیں ہے اقدار اور اصولوں سے بے اعتنائی برتنا نہیں ہے، بلکہ رفتار و گفتگو کی روش کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ «ادع الى سبيل ربّك بالحكمة و الموعظة الحسنة و جادلهم بالّتى هى احسن».(2) اگر بحث و جدل بھی ہو، کسی نظرئے یا کسی مسئلے پر لفظی ٹکراؤ ہو تو وہ بھی «بالّتى هى احسن» بہترین انداز میں ہونا چاہیے۔
ایک اور مسئلہ تلاش ، جستجو اور اشتیاق کا ہے جس کا ذکر دوستوں کی تقاریر میں آیا، استفسار اور سوال کرنے کی عادت۔ اسی طرح ایک اور اہم نکتہ ہے اجتماعی کام، باہمی تعاون، امداد باہمی اور بلند ہمتی۔ بچوں اور نوجوانوں کو شروع ہی سے بلند ہمتی کی عادت ڈالنی چاہیے، گوناگوں مسائل جن پر عالمی سطح کے زاویہ نگاہ کے ساتھ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، عالمی سطح کی سوچ کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے، علاقائی سطح پر نہیں، لہذا ملکی اور صوبائی سطح کا تو کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ ایسے امور ہیں جن کا سو سالہ اور ڈیڑھ سو سالہ منصوبے کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں پانچ سالہ اور دس سالہ نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس کے لئے بلند ہمتی کی ضرورت ہے۔ گوناگوں امور کے متعلق بلند مدت  زاویہ فکر کی ضرورت ہے۔ یہ بچہ اور یہ طالب علم جو آج آپ کے ہاتھوں میں تربیت حاصل کر رہا ہے، چند روز بعد استاد بنے گا، ڈائریکٹر بنے گا، نمایاں ماہر فن بنے گا، ملک کے سیاسی شعبے کی بااثر شخصیت بنے گا، چند روز بعد معاشرے میں خاص اثر و نفوذ کا مالک بنے گا۔ اس کی ایسی تربیت کیجئے کہ اس کے اندر ضروری بلند ہمتی موجود ہو۔
ایک اور اہم نکتہ جذبہ عمل کا ہے ۔ ہماری ایک مشکل ہے غ فلت ، تساہلی اور کاہلی ہے۔ مطالعہ اور کتاب خوانی بہت ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں کتاب پر عدم توجہ کی مشکل موجود ہے۔ کبھی کبھی ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ کسی صاحب سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ چوبیس گھنٹے میں کتنے گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں یا کتاب بڑھنے کا کتنا وقت ملتا ہے؟ کسی کا جواب ہوتا ہے پانچ منٹ، کوئی کہتا ہے آدھا گھنٹہ! یہ سب سن کر تعجب ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈالنا چاہیے۔ یہ عادت پھر اس حقیر کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد پوری عمر ختم نہیں ہوگی۔  ویسے  بھی میں نوجوانوں سے کئی گنا زیادہ مطالعہ کرتا ہوں، لیکن اس سن میں مطالعہ کا فائدہ اور اثر نوجوانی کے مطالعہ کی نسبت کم ہوتا ہے۔ انسان کے لئے جو چیز سرمائے کے طور پر ہمیشہ باقی رہتی ہے وہ کم عمری میں کیا گيا مطالعہ ہے۔ آپ نوجوانوں اور بچوں کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو کتب کا مطالعہ کیجئے۔ مختلف موضوعات اور فنون پر عبور حاصل کیجئے۔ البتہ غیر اخلاقی ، گمراہ اور بیہودہ کتابوں کے مطالعہ سے  پرہیز کرنا چاہیے  لیکن یہ بات بعد کے مرحلے کی بات ہے۔ پہلی سفارش  تو یہ ہے کہ کتاب سے رجوع ہونے کی عادت پڑنا چاہیے۔ متعلقہ اداروں اور ذمہ دار افراد کو چاہیے کہ بہت خیال رکھیں، لوگوں کی رہنمائی کریں اچھی کتب کی طرف، بے سود کتابوں کے مطالعہ میں وقت ضا‏ئع ہونے سے بچائیں۔
ایک اور اہم نکتہ جس کا ذکر یہاں موجود ایک خاتون نے اپنی گفتگو میں کیا اور جسے میں نے نوٹ کر لیا ہے، وہ بھی بہت اہم نکتہ ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے بچوں میں جو خصوصیات اور عادات پیدا کرنا اور پروان چڑھانا چاہتے ہیں وہ یونہی وجود میں نہیں آئیں گی، اس کے لئے محنت کرنا ہوگی۔ محنت کرنا کس کا کام ہے؟ یہ کام اساتذہ کا ہے، خواہ وہ اسکولوں کے اساتذہ ہوں یا یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات ہوں۔ اساتذہ کو اس کے لئے پوری طرح آمادہ اور تیار رہنا چاہیے، اس کی مہارت اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے، اس کے لئے ایک ادارے کی ضرورت ہے جو تربیت و  ٹریننگ دے۔ یہ بالکل منطقی طریقہ ہے۔ وزیر تعلیم و تربیت بھی یہاں تشریف فرما ہیں، آپ کابینہ کی سطح پر اسے اٹھائیے اور آپ خود بھی اپنی وزارت کی سطح پر اس کا جائزہ لیجئے کہ اس سلسلے میں کیا اقدامات انجام دئیے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی کلاس میں آنے والے طلبہ کے اندر یہ خصائص پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ فن آنا چاہیے۔ ہر کسی کے پاس یہ فن نہیں ہے، یہ فن سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے مراکز قائم کئے جائیں جنہیں خاندانی ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کا نام دیا گيا ہے۔ یہ تجویز بعض دوستوں نے پیش کی جو بہت اچھی ہے، بالکل درست ہے، ان امور پر کام ہونا چاہیے۔ البتہ اس تجویز کا بنیادی مقصد خاندانوں کی اخلاقی صحتمندی و سلامتی ہے۔ تاہم یہ چیز اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی ضروری ہے۔ الحمد للہ اس شعبہ میں جو ہماری بھی دلچسپی کی چیز ہے اور جس سے ملک کے علمی و ثقافتی طبقے کو بھی خاص لگاؤ ہے، اس میں حاصل ہونے والی پیشرفت حقیقت میں عمدہ رہی ہے۔ اس میں کسی کو کوئي شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ چیزیں سب کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ انقلاب کے آغازمیں ہمارے یہاں طلباء کی تعداد تقریبا ایک لاکھ ستر ہزار تھی۔ آج یہ تعداد چالیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں اکیڈمک بورڈز کے ارکان کی تعداد تقریبا پانچ ہزار تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انقلاب کے ابتدائی دور میں پانچ ہزار کی اس تعداد کا بڑا ذکر ہوا کرتا تھا۔ بعض اساتذہ ملک چھوڑ کر چلے جاتے تھے تو یہ باتیں ہونے لگتی تھیں کہ ایک پروفیسر کم ہو گیا، دس پروفیسر کم ہو گئے! آج اکیڈمک بورڈز کے رکن اساتذہ کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ آج یہ تعداد دسیوں ہزار سے زیادہ ہے۔ اس وقت پورے ملک میں دو سو یونیورسٹیاں ہیں دو ہزار اعلی تعلیمی مراکز ہیں۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ ہم نے یہ کامیابیاں انتہائی تنگ دستی اور بے بسی کے عالم میں حاصل کی ہیں۔ یہ پابندیاں جن کے بارے میں آج کہا جا رہا ہے کہ ان میں شدت پیدا کر دی گئی ہے، یا یہ کہ ان میں دائمی شدت لائی جا رہی ہے، یہ شروع سے ہی موجود تھیں۔ ان سب کے علاوہ ہم نے جنگ کا بھی سامنا کیا، علاوہ ازیں مختلف ادوار میں تیل کی قیمت میں شدید کمی کا بھی سامنا ہوا۔ ہمارے اوپر مختلف قسم کی داخلی مشکلات مسلط کر دی گئیں۔ آبادی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ انقلاب کے شروعاتی دور میں ہماری آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی جو بڑھ کر دگنی ہو گئ۔ تو یہ ساری مشکلات تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود الحمد للہ ہم ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں ہیں۔
میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ علمی شعبے میں ہمیں جو اہم و نمایاں کامیابیاں ملی ہیں، ان میں کسی بھی پیشرفت کے سلسلے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی گروپ نے خاص مقام پر بھرپور وسائل کے ساتھ یہ کام انجام دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ نہیں۔ ایسا نہیں ہے، مختلف شعبے ایسے ہیں جن میں یہ ہوا کہ صاحب استعداد گروپ محدود وسائل اور حمایت کے ساتھ لگن سے کام کرتے ہوئے اچانک انتہائی بلندی پر پہنچ گیا۔ کئي سال قبل ہمارے دوست ممالک میں سے ایک ملک کے حکام، میں قصدا اس ملک کا نام نہیں لینا چاہتا، یہاں آئے تھے، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس فلاں پروجیکٹ پر کام کرنے کے لئےاتنا بجٹ ہے ، مثلا بایو ٹکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے کے لئے، پورا ملک اسی شعبے پر پوری محنت کے ساتھ لگ گیا۔ لیکن ہمارا طریق کار یہ نہیں رہا۔ ہمیں جو کامیابیاں ملی ہیں وہ مختلف گروہوں کی خاص دلچسپی اور بے پناہ صلاحیتوں کے نتیجے میں ملی ہیں۔ ایک چھوٹی سی تعداد نے محنت کی اور مثال کے طور پر ہم نے اسٹیم سیلز کے شعبے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ کچھ صاحب استعداد نوجوانوں نے ایک جگہ اسٹیم سیلز پر کام شروع کیا، انہیں تھوڑی بہت مدد ملی اور آپ نے دیکھا کہ اچانک انہوں نے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کر دیا۔ نینو ٹکنالوجی میں بھی بالکل یہی واقعہ ہوا۔ دوسرے متعدد شعبوں میں بھی یہی چیز دیکھنے میں آئی۔ میزائل سازی کے شعبے میں بھی یہی ہوا ہے، خواہ وہ سیٹلائٹ لیکر خلا میں جانے والے میزائل ہوں، یہ دفاعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے میزائل۔ یہ ساری کامیابیاں ایسی ہیں جو گہرے شوق و رغبت کے ساتھ کام شروع کرنے والے کسی گروپ نے کچھ ہی مدت میں ایسا کارنامہ انجام دیا کہ سب کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملک کے اندر استعداد کی کوئی کمی نہیں ہے اور ہم ابھی بہت آگے جا سکتے ہیں۔
اس وقت علمی پیشرفت کے لحاظ سے ایران کا دنیا میں سولہواں رتبہ ہے۔ کیا پہلے کوئی اس پر یقین کرسکتا تھا؟ اس کا اعلان دنیا کے معتبر تحقیقاتی مراکز نے کیا ہے۔ ایسے ہی ایک مرکز نے پیشین گوئی کی ہے کہ سنہ دو ہزار اٹھارہ تک ایران سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہوگا۔ تو وطن عزیز کے اندر استعداد اور صلاحیتیں اس انداز سے جاری ہیں۔ علمی ایجادات و اختراعات کے لحاظ سے دنیا میں ایران کا حصہ دو فیصد ہے، یعنی علمی پیداوار اور اختراعات کے شعبے میں ایران کی جو فطری شراکت ہونا چاہیے اس کی دگنی شراکت ایران کر رہا ہے۔ یہ بڑی نمایاں کامیابیاں ہیں اوربڑی اہم پیشرفت ہے۔
لہذا ہمارے حوصلے بلند رہنے چاہییں۔ ہمیں حکومتی سطح پر، اعلی حکام کی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تا ہم بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آپ اپنی کلاسوں میں، اسکولوں کی کلاسیں ہوں یا یونیورسٹیوں کی کلاسیں، بچوں اور نوجوانوں کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ اور پیشرفت کا حوصلہ بڑھائیے، پھر دیکھئے کہ وہ کس برق رفتاری سے ترقی کرتے ہیں۔ اگر ایسا کیا جائے تو ملک کو اس کے وجود سے بے پناہ فائدہ پہنچے گا۔ آپ جوش و جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ نوجوانوں کے راستے میں بہت سے خطرات موجود ہیں، ایک بڑا خطرہ مایوسی اور ناامیدی کا ہےمایوسی کی تلقین سے سختی سے پرہیز کرنی چاہیے۔
اس صوبے میں اسکولوں کی سطح پر بھی اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی کچھ مشکلات ہیں، ان کی رپورٹ مجھے مل چکی ہے اور کچھ مشکلات کا ذکر یہاں اس اجتماع و اجلاس میں بعض دوستوں نے اپنی گفتگو میں کیا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ یہ تمام مشکلات برطرف ہو جائیں گی۔ ہم ان مشکلات سے حکام کو باخبر کریں گے۔ اجرائی امور تو خیر متعلقہ عہدیدار ہی انجام دیں گے، ان کے کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ بیشک ہم تاکید کریں گے، تائید کریں گے، بات کو ان تک پہنچائيں گے اور ان سے کہیں گے کہ جہاں تک ممکن ہو ان کاموں کو انجام دیا جائے۔
میں نوجوانوں سے قرآن کی تلاوت اور قرآن کو سمجھنے اور درک کرنےکی سفارش کرتا ہوں۔ آپ قرآن سے اپنا رابطہ مضبوط و مستحکم کیجئے۔ ہر روز قرآن کی تلاوت کیجئے چاہے نصف صفحہ ہی کیوں نہ پڑھیں۔ یہ چیزیں انسان کو قرب الہی کا شرف عطا کرتی ہیں، اس سے انسان کا دل اور اس کی روح شادابی و فرحت کا احساس کرتی ہے۔ اسے وہ صبر و اطمینان حاصل ہوتا ہے جس کی انسان کو شدید ضرورت ہے اور جس کا ذکر اللہ نے بھی کیا ہے کہ «فأنزل اللَّه سكينته على رسوله و على المؤمنين و الزمهم كلمة التّقوى»؛(3)
یہ ایسی نعمت ہے کہ اللہ نے مؤمنین کے سامنے اپنی اس نعمت کو بیان کیا ہے کہ ہم نے تمہیں سکون اور طمانیت عطا کی، یہ طمانیت اسی راستے سے حاصل ہوتی ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔ اس کے لئے سب سے پہلے تو گناہوں سے اجتناب ضروری ہے۔
گناہوں سے دوری کی ہم جو بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے آپ تمام گناہ ترک کر دیجئے اس کے بعد دوسرے مرحلے میں قدم رکھئے، نہیں، یہ ضروری نہیں ہے۔ آپ دونوں کا آغاز ایک ساتھ کر سکتے ہیں۔ بس آپ کی کوشش یہ ہونا چاہیے کہ ہرگز کوئی گناہ انجام نہ دیں۔ اسی کو تقوی بھی کہتے ہیں۔ نماز میں خضوع و خشوع اور توجہ کے ساتھ تلاوت کلام پاک۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں روحانیت و معنویت عطا کرتی ہیں۔ ہمیں سکون اور طمانیت عطا کرتی ہیں۔اس سلسلے میں جھوٹے، مادی ، تخیّلی اور کاذب عرفاء کے گھر جانے کی ضرورت نہیں ہے حقیقت ان کے پاس نہیں ہے آپ جوانوں اور طلباء کی توجہ اسی دین اور دیانت کی طرف مبذول کریں اور اپنے مخاطب کے لئے اسے اساسی عنصر قراردیں ۔ انشاء اللہ ، اللہ تعالی بھی آپ کی مدد و نصرت کرےگا۔ وقت بظاہر تمام ہوگيا ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اسے ہمارے لئے مفید قراردے، اپنی توفیقات ہمارے شامل حال فرمائےکہ ہم اپنے فرائض پر اچھی طرح عمل کر سکیں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) تين: 4 و 5
2) نحل: 125
3) فتح: 26