ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے سلووینیا کے صدر اور انکے ہمراہ وفد کی ملاقات

خطے کے ممالک کو موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے سرگرم ہونا چاہئے

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے سلووینیا کے صدر باروت پاکور اور انکے ہمراہ وفد سے ملاقات میں خطے کے تلخ اور دردناک حادثات و واقعات اور مختلف ممالک پر بے ثباتی اور جنگ مسلط کرنے میں بعض طاقتوں کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران غیر وابستہ ممالک سے ہمیشہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ بعض ممالک پر ڈالے جانے والے دبائو سے مقابلے کے لئے سرگرم کردار ادا کریں اور خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھ جائیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مغربی ایشیا کے ممالک میں انتہاپسندی پر مشتمل اختلافات اور داعش جیسے دہشتگرد گروہوں کے وجود میں آنے کی اصل وجہ بعض طاقتوں کی مداخلت اور تسلط کو قرار دیا اور مزید فرمایا کہ تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اختلافات اور جنگوں کی آگ کی کو ٹھنڈا کرنے کے سلسلے میں اپنی کوششیں کریں اور اسلامی جمہوریہ ایران بھی تسلط پسند طاقتوں کے پروپیگنڈے کے برخلاف اسی ہدف کے تحت سرگرمیاں انجام دے رہا اور موثر بھی ثابت ہوا ہے لیکن دوسرے ممالک کے امور میں کبھی بھی مداخلت نہیں کرتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے داعش کے خلاف امریکیوں کے اتحاد کو ناکام قرار دیتے ہوئے اور اس ناکامی کی وجوہات کے سلسلے میں موجود دو نظریات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلے نظریئے کے مطابق امریکیوں کا داعش کو نابود کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ برطانوی استعمار کی طرح کہ جس نے ہندوستان پر اپنے تسلط کے زمانے میں جس طرح کشمیر کو زخمی ہڈی کی مانند چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان جیسے دو ہمسایہ ممالک آج تک اختلافات کا شکار ہیں، داعش کے مقابلے میں بھی کوئی عمل انجام نہ دیں اور یہ بھی عراق اور شام میں ایک حل نہ ہونے والی مشکل کی طرح باقی رہ جائے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ دوسرے نظریئے کے مطابق امریکی، داعش کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن حالات و واقعات اب ایسے نہیں ہیں کہ وہ یہ کام انجام دے سکیں البتہ دونوں نظریات کا نتیجہ اب تک یکساں ہی رہا ہے اور آج عراق اور خاص طور پر شام کو اس وقت بہت زیادہ سخت اور پیچیدہ حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مغربی ایشیا کے ممالک میں بے ثباتی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال خاص طور پر پناہ گزینوں کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے عالم میں کہ جب یورپی ممالک صرف چند ہزار افراد کو پناہ دینے سے قاصر ہیں اسلامی جمہوریہ ایران کئی سالوں سے تقریبا تیس لاکھ افغانی باشندوں کی میزبانی اور انکے لئے زندگی گذارنے اور علم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے اور وسعت قلبی کے ساتھ ان پناہ گزینوں کے ساتھ انسانی برتائو کرتا چلا آ رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سعودی حکومت کے ہاتھوں یمن کے مظلوم عوام اور اسکے انفراسٹرکچر کو نابود کئے جانے کو آج کے دور میں خطے کا ایک دردناک سانحہ قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ غیر وابستہ ممالک کو چاہئے کہ وہ ان حادثات و واقعات کا مقابلہ کریں کیونکہ ایک قوم کو دبائو میں رکھنا پوری عالم بشریت کے غم و رنج کا باعث ہے۔
حضرت آِت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے ایران اور سلووینیا کے درمیان تعاون میں بے پناہ اضافے کے لئے موجود امکانات اور مواقع کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ ہمیں امید ہے کہ آج ہونے والے مذاکرات کو جلد ایک معاہدے کی شکل دے دی جائے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں ایران کی جانب سے معاہدے پر مکمل طور پر عمل کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے مقابل فریق کی جانب سے اپنے معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے پر شدید تنقید کی۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بھی شریک تھے، سلووینیا کے صدر باروت پاخور نے ایرانی حکام کے ساتھ اپنے مذاکرات کو بہت زیادہ سودمند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم تمام شعبوں میں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔
صدر پاخور نے ایران کو خطے میں امن و ثبات کا ضامن اور ایک قابل احترام ملک قرار دیا اور ایٹمی مذاکرات میں ایران کے رویئے کی تعریف اور گذشتہ چند سالوں کے دوران ایران کی ترقی و پیشرفت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سلووینیا اور ایران کے پاس مختلف شعبہ جات میں باہمی تعاون کے وسیع تجربات اور امکانات موجود ہیں۔
سلووینیا کے صدر نے تہران میں سلووینیا کے سفارت خانے کے افتتاح کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران سلووینیا کا بہترین دوست ہے اور ہم ایران میں سفارتخانہ کھولے جانے کو ایک عقلمندانہ اور حکیمانہ کام اور اپنا متفقہ قومی فیصلہ سمجھتے ہیں۔

 

700 /