دریافت:
احکام نماز
- اہمیت اور شرائط نماز
س 1. جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والے یا اسے سبک شمار کرنے والے کا کیا حکم ہے؟
ج. نماز پنجگانہ شریعت اسلامیہ کے اہم واجبات میں سے ہیں، بلکہ یہ دین کا ستون ہیں اور ان کا ترک کرنا یا سبک سمجھنا شرعاً حرام اور عذاب کا موجب ہے۔
س 2. اگر کسی کو پانی یا ایسی چیز کہ جس پر تیمم صحیح ہے میسر نہ ہو (فاقد الطہورین) تو کیا اس پر نماز واجب ہے؟
ج. بنابر احتیاط وقت میں نماز پڑھے اور وقت کے بعد وضو یا تیمم کے ساتھ قضا کرے۔
س 3. آپ کی نظر میں واجب نماز میں کن موقعوں پر عدول کیا جا سکتا ہے؟
ج. مندرجہ ذیل موارد میں عدول کرنا واجب ہے۔
١۔ عصر کی نماز سے ظہر کی طرف، اگر نماز کے درمیان متوجہ ہو کہ اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے۔
٢ ۔ عشاء کی نماز سے مغرب کی نماز کی طرف، اگر نماز عشاء کے اثنا میں متوجہ ہوجائے کہ اس نے نماز مغرب نہیں پڑھی بشرطیکہ اس نے محل عدول سے تجاوز نہ کیا ہو ۔
٣۔ جن دو نمازوں کی ادائیگی میں ترتیب ضروری ہے ان کی قضا میں بھول کر بعد والی نماز کو پہلے شروع کر دیا ہو۔اور مندرجہ ذیل موقعوں پر عدول کرنا مستحب ہے۔
١۔ ادا نماز سے واجب نماز کی قضا کی طرف، بشرطیکہ ادا نماز کی فضیلت کا وقت فوت نہ ہو جائے۔
٢ ۔ جماعت کا ثواب حاصل کرنے کی غرض سے واجب نماز سے مستحبی نماز کی طرف۔
٣ ۔ جمعہ کے دن نماز ظہر میں سورۂ جمعہ کے بجائے بھول کر دوسرا سورہ شروع کر دیا ہو اور نصف یا اس سے کچھ زائد پڑھ چکا ہو البتہ اس صورت میں اگرچہ سورۂ جمعہ کی قرائت کا ثواب حاصل کرنے کیلئے واجبی نماز سے مستحبی نماز کی طرف عدول کرنا احتیاط استحبابی کے موافق ہے لیکن یہ بھی کرسکتا ہے کہ اس سورہ کو چھوڑ دے اور اس کی جگہ سورہ جمعہ پڑھے۔س 4. جمعہ کے دن جو نمازی جمعہ اور ظہر دونوں نمازیں پڑھنا چاہتا ہے، کیا وہ دونوں نمازوں میں صرف "قربةً الی اللہ" کی نیت کرے گا یا ایک میں "واجب قربة ً الی اللہ" اور دوسری میں فقط "قربةً الی اللہ" کی نیت کرے گایا دونوں میں "واجب قربةً الی ﷲ" کی نیت کرے؟
ج. دونوں میں قربت کی نیت کرنا کافی ہے اور کسی میں وجوب کی نیت ضروری نہیں ہے۔
س 5. اگر نماز کے اول وقت سے لے کر آخر وقت کے قریب تک منہ یا ناک سے خون جاری رہے تو ایسے میں نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر بدن کے پاک کرنے کا امکان نہ ہو اور وقت نماز کے ختم ہو جانے کا خوف ہو تو اسی حالت میں نماز پڑھے گا۔
س6. نماز میں مستحبی ذکر پڑھتے وقت کیا بدن کو پوری طرح ساکن رکھنا واجب ہے یا نہیں؟
ج. خواہ ذکر واجب ہو یا مستحب، اثنائے نماز میں دونوں کی قرائت کے وقت جسم کا مکمل سکون و اطمینان کی حالت میں ہونا واجب ہے۔ہاں مطلق ذکر کے قصد سے حرکت کی حالت میں ذکر پڑھنے میں اشکال نہیں ہے ۔
س 7. ہسپتالوں میں مریض کو پیشاب کے لئے نلکی لگا دی جاتی ہے جس سے غیر اختیاری طور پر سوتے جاگتے یہاں تک کہ نماز کے دوران بھی مریض کا پیشاب نکلتا رہتا ہے، پس یہ فرمائیں کہ کیا اس پر کسی اور وقت میں دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے یا اسی حالت میں پڑھی جانے والی نماز کافی ہے؟
ج. اگر اس نے اس حال میں اپنی نماز اس وقت کے شرعی فریضہ کے مطابق پڑھی ہو تو صحیح ہے اور اس پر نہ تو اعادہ واجب ہے اور نہ قضا۔
- اوقات نماز
س 8. مذہب شیعہ پنجگانہ نماز کے وقت کے بارے میں کس دلیل پر اعتماد کرتا ہے؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اہل سنت کے نزدیک وقت عشاء کے داخل ہوتے ہی نماز مغرب قضا ہو جاتی ہے، ظہر و عصر کی نماز کے بارے میں بھی ان کا یہی نظریہ ہے۔ اسی لئے وہ معتقد ہیں کہ جب وقت عشاء داخل ہو جاتا ہے اور پیش نماز، نماز عشاء پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جائے تو ماموم اس کے ساتھ مغرب کی نماز نہیں پڑھ سکتا، تاکہ اس طرح وہ مغرب اور عشاء کو ایک ہی وقت میں پڑھ لے؟
ج. شیعہ کی دلیل، آیات قرآن اور سنت نبویہ کا اطلاق ہے، اس کے علاوہ بہت سی روایات موجود ہیں جو خاص طور سے دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور اہل سنت کے یہاں بھی ایسی احادیث موجود ہیں جو دو نمازوں کو کسی ایک نماز کے وقت میں جمع کر کے ادا کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔
س 9. اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ نماز عصر کا آخری وقت مغرب ہے اور نماز ظہر کا آخری وقت مغرب سے اتنا پہلے تک ہے کہ جتنی دیر میں صرف نماز عصر پڑھی جا سکے۔ یہاں میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب سے کیا مراد ہے؟ کیا غروب آفتاب مراد ہے یا اس شہر کے افق کے اعتبار سے اذان مغرب کا شروع ہونا ہے؟
ج. نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے ۔
س 10. غروب آفتاب اور اذان مغرب میں کتنے منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے؟
ج. بظاہر یہ فاصلہ موسموں کے اختلاف کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔
س 11. میں تقریباً گیارہ بجے رات ڈیوٹی سے گھر پلٹتا ہوں اورکام کی خاطر رجوع کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ڈیوٹی کے دوران نمازمغربین نہیں پڑھ سکتا، تو کیا گیارہ بجے رات کے بعد نماز مغربین کا پڑھنا صحیح ہے؟
ج. کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ نصف شب نہ گزرنے پائے لیکن کوشش کیجئے گیارہ بجے رات سے زیادہ تاخیر نہ ہو بلکہ جہاں تک ممکن ہو نماز کو اول وقت میں پڑھیے۔
س12. نماز کی کتنی مقدار اگر وقت ادا میں بجالائی جائے تو نیت اداصحیح ہے ؟ اور اگر شک ہو کہ اتنی مقدار وقت میں پڑھی گئی ہے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج. نماز کی ایک رکعت کا وقت کے اندر انجام پانا نماز کے ادا شمار ہونے کے لئے کافی ہے، اور اگر شک ہو کہ کم از کم ایک رکعت کے لئے وقت کافی ہے یا نہیں، تو پھر ما فی الذمہ کی نیت سے نماز پڑھے ۔
س 13. مختلف ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی طرف سے بڑے شہروں اور ممالک کے دار الحکومت کے لئے نماز کے شرعی اوقات کے نقشے شائع ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان نقشوں پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے؟
ج. معیار یہ ہے کہ انسان کو اطمینان حاصل ہو جائے اور اگر اسے ان نقشوں کے واقع کے مطابق ہونے کا اطمینان نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ احتیاط کرے، اور انتظار کرے یہاں تک کہ اسے وقت شرعی کے داخل ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔
س 14. صبح صادق اور صبح کاذب کے مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اور اس سلسلہ میں نمازی کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟
ج. نماز اور روزے کے وقت کا شرعی معیار، صبح صادق ہے اور اسکی تشخیص خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔
س 15. دو شفٹ والے ایک ہائی سکول کے ذمہ دار حضرات ظہرین کی جماعت کو دو بجے ظہر کے بعد اور عصر کی کلاسیں شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے منعقد کراتے ہیں۔ تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ صبح کی شفٹ کے دروس اذان ظہر سے تقریباً پون گھنٹہ پہلے ختم ہو جاتے ہیں اور ظہر شرعی تک طلباء کو ٹھہرانا مشکل ہے، لہذا اول وقت میں نماز ادا کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر نماز کے اول وقت میں طلاب حاضر نہیں ہیں تو نماز گزاروں کی خاطر نماز جماعت کی تاخیر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س 16. کیا اذان ظہر کے بعد نماز ظہر کا پڑھنا اور وقت نماز عصر کے شروع ہونے کے بعد نماز عصر کا پڑھنا واجب ہے؟ اور اسی طرح کیا نماز مغرب و عشاء کو بھی اپنے اپنے وقت میں پڑھنا واجب ہے؟
ج. دونمازوں کے وقت کے داخل ہونے کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ وہ دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھے یا ہر ایک کو اسکے فضیلت کے وقت میں پڑھے۔
س 17. کیا چاندنی راتوں میں نماز صبح کے لئے ١٥ منٹ سے ٢٠ منٹ تک کا انتظار کرنا واجب ہے؟جبکہ آجکل گھڑیوں کی فراوانی کی وجہ سے طلوع فجر کا یقین حاصل کرنا ممکن ہے؟
ج. طلوع فجر جو نماز صبح اورروزہ شروع ہونے کا وقت ہے کے سلسلے میں چاندنی راتوں یا اندھیری راتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اگرچہ اس سلسلہ میں احتیاط اچھا ہے۔
س 18. صوبوں کے درمیان افق کے اختلاف کی وجہ سے اوقات شرعیہ کی مقدار میں جو اختلاف پیدا ہوتا ہے کیا وہ یومیہ واجب نمازوں کے تین اوقات میں ایک جیسا ہے؟ مثال کے طور پر اگر دو صوبوں میں ظہر کے وقت میں ٢٥ منٹ کا اختلاف ہو تو کیا دوسرے اوقات میں بھی اتنا ہی اور اسی مقدار میں اختلاف ہو گا یا صبح، مغرب اور عشاء میں یہ مختلف ہو گا؟
ج. فقط طلوع فجر، زوال آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت کے فرق کی مقدار کے ایک جیسا ہونے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات میں بھی اتنا ہی فرق اور فاصلہ ہو، بلکہ مختلف شہروں میں غالباً تینوں اوقات کا اختلاف متفاوت ہوتا ہے۔
س 19. اہل سنت نماز مغرب کو مغرب شرعی سے پہلے پڑھتے ہیں، کیا ہمارے لئے ایام حج و غیرہ میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اسی نماز پر اکتفا کر لینا جائز ہے؟
ج. یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی نماز وقت سے پہلے ہوتی ہے، اور ان کی جماعت میں شرکت کرنے اور ان کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ نماز کافی ہے، لیکن وقت نماز کا درک کرنا ضروری ہے، مگر یہ کہ وقت بھی تقیہ کے موارد میں سے ہو۔
س 20. گرمیوں میں ڈنمارک اور ناروے میں صبح کے چار بجے سورج نکلتا ہے اور ۲۳ بجے غروب کرتا ہے لذا مشرقی سرخی کے زوال اور طلوع و غروب کی رعایت کرتے ہوئے تقریباً ۲۲ گھنٹے کا روزہ بنتا ہے۔ ایسی صورت میں میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج. نماز پنجگانہ اور روزے کے اوقات کے لحاظ سے انسان کے لئے اسی جگہ کے افق کا خیال رکھنا واجب ہے جہاں وہ رہائش پذیر ہے اور اگر دن کے طولانی ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا غیر مقدور یا حرج پر مشتمل ہو تو اس وقت ادائے روزہ ساقط ہے اور بعد میں اس کی قضا واجب ہے۔
س 21. سورج کی شعاعیں تقریباً سات منٹ میں زمین تک پہنچتی ہیں تو کیا نماز صبح کے وقت کے ختم ہونے کا معیار طلوع آفتاب ہے یا اس کی شعاعوں کا زمین تک پہنچنا؟
ج. طلوع آفتاب کا معیار اس کا نمازگزار کے افق میں دیکھا جانا ہے۔
س 22. ذرائع ابلاغ ہر روز، آنے والے دن کے شرعی اوقات کا اعلان کرتے ہیں، کیا ان پر اعتماد کرنا جائز ہے اور ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے والی اذان کو وقت کے داخل ہوجانے کا معیار بنایا جا سکتا ہے؟
ج. اگر اس سے مکلف کو وقت کے داخل ہوجانے کا اطمینان حاصل ہوجائے تو اعتماد کرسکتاہے ۔
س 23. کیا اذان کے شروع ہوتے ہی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے یا اذان کے ختم ہونے کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کے بعد نماز شروع کی جائے اور اسی طرح کیا اذان کے شروع ہوتے ہی روزہ دار کیلئے افطار کرنا جائز ہے یا یہ کہ اس پر اذان کے ختم ہونے تک انتظار کرنا واجب ہے؟
ج. اگر اس بات کا یقین ہو کہ وقت داخل ہو جانے کے بعد اذان شروع ہوئی ہے تو آخر اذان تک انتظار کرنا واجب نہیں ہے۔
س 24. کیا اس شخص کی نماز صحیح ہے جس نے دوسری نماز کوپہلی نماز پر مقدم کر دیا ہو، جیسے عشاء کو مغرب پر مقدم کیا ہو۔
ج. اگر غلطی یا غفلت کی وجہ سے نماز کو مقدم کیا ہو اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو تو وہ نماز باطل ہے۔
س25. نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟ نیز نماز عشاء اور منیٰ میں رات بسر کرنے ( بیتوتہ ) کیلئے شرعی طور پر آدھی رات کو نسا وقت ہے ؟
ج. نماز عصر کا آخری وقت غروب آفتاب تک ہے اور آدھی رات کو معلوم کرنے کیلئے اول غروب سے طلوع فجر تک رات شمار کریں۔
س26. جوشخص نمازعصر کے اثناء میں متوجہ ہے کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی تو اسکی شرعی ذمہ داری کیا ہے ؟
ج. اگر اس خیال سے نماز عصر میں مشغول ہو کہ وہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور پھر نماز کے دوران متوجہ ہو کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی اور ہو بھی ظہر و عصرکے مشترکہ وقت میں تو فوراً اپنی نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹالے اور نماز کو مکمل کرے اور اسکے بعد نماز عصر پڑھے لیکن اگر یہ نماز ظہر کے مخصوص وقت(1) میں ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنی نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹالے اور نماز کو مکمل کرے اور اسکے بعد ظہر و عصر کی دونوں نمازوں کو ترتیب کے ساتھ انجام دے اور نماز مغرب و عشاء کے بارے میں بھی ایسا ہی حکم ہے ۔
1 ۔ ظہر کا مخصوص وقت اول ظہر سے لے کر اتنا وقت ہے کہ جس میں نماز پڑھی جاسکے یعنی جس میں غیر مسافر چار رکعتیں اور مسافر دورکعتیں پڑھ سکے ۔
- قبلہ کے احکام
س 27. درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں۔
١ ۔ بعض فقہی کتابوں میں ذکر ہے کہ خرداد کی ساتویں اور تیر کی پچیسویں تاریخ بمطابق ۲۸مئی اور۱۶ جولائی کو سورج عمودی طور پر خانہ کعبہ کے اوپر ہوتا ہے، تو کیا اس صورت میں جس وقت مکہ میں اذان ہوتی ہے اس وقت شاخص نصب کر کے جہت قبلہ کو معین کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر مسجدوں کے محراب کے قبلہ کی جہت، شاخص کے سایہ سے مختلف ہو تو کس کو صحیح سمجھا جائے گا؟
٢۔ کیا قبلہ نما پر اعتماد کرنا صحیح ہے؟ج. شاخص اور قبلہ نما کے ذریعہ اگر مکلف کو جہت قبلہ کا اطمینان حاصل ہو جائے تو اس پر اعتماد کرنا صحیح ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے،ور نہ تو جہت قبلہ کے تعین کیلئے مسجدوں کے محراب اور مسلمانوں کی قبروں پر اعتماد کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س 28. جب جنگ میں شدید لڑائی جہت قبلہ کی تعیین سے مانع ہو تو کیا کسی بھی طرف رخ کر کے نماز کا پڑھنا صحیح ہے؟
ج. اگر کسی طرف کا گمان نہ ہو اور وقت بھی ہو تو بنا بر احتیاط چاروں طرف نماز پڑھی جائے، ورنہ جتنا وقت ہو اس کے مطابق جس سمت میں قبلہ کا احتمال ہے اسکی طرف نماز پڑھے۔
س29. اگر کرۂ زمین کی دوسری سمت میں خانہ کعبہ کابالکل مقابل والا نقطہ دریافت ہو جائے، اس طرح کہ اگر ایک خط مستقیم زمین کعبہ کے وسط سے کرۂ ارض کو چیرتا ہوا مرکز زمین سے گزرے تو دوسری طرف اس نقطہ سے نکل جائے تو اس نقطہ پر قبلہ رخ کیسے کھڑے ہوں گے؟
ج. قبلہ رخ ہونے کا معیار یہ ہے کہ کرۂ زمین کی سطح سے خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرے، یعنی جو شخص روئے زمین پر ہے، وہ اس کعبہ کی طرف رخ کرے جو مکہ مکرمہ میں سطح زمین پر بنا ہوا ہے اس بنا پر اگر وہ زمین کے کسی ایسے نقطے پر کھڑا ہو جہاں سے چاروں سمتوں میں کھینچے جانے والے خطوط مساوی مسافت کے ساتھ کعبہ تک پہنچتے ہوں تو اسے اختیار ہے کہ جس طرف چاہے رخ کر کے نماز پڑھے، لیکن اگرکسی سمت کے خط کی مسافت اتنی کمترہوکہ اسکی بناپر عرفی لحاظ سے قبلہ رخ ہونا مختلف ہوجائے تو انسان پر واجب ہے کہ تھوڑے فاصلے والی سمت کا انتخاب کرے۔
س 30. جس جگہ ہم جہت قبلہ کو نہ جانتے ہوں اور کسی جہت کا گمان بھی نہ ہو تو ایسی جگہ پر ہمیں کیا کرنا چاہیے یعنی کس سمت کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ؟
ج. بنابر احتیاط چاروں طرف رخ کر کے نمازپڑھیں اور اگر چار نمازوں کا وقت نہیں ہو تو جتنی نمازوں کا وقت ہے اتنی ہی پڑھیں۔
س31. قطب شمالی اور قطب جنوبی میں قبلہ کی سمت کو کس طرح معین کیا جائے گا؟ اور کس طرح نماز پڑھی جائے گی؟
ج. قطب شمالی و جنوبی میں سمت قبلہ معلوم کرنے کا معیار نماز گزار کی جگہ سے کعبہ تک روئے زمین کے اوپر سب سے چھوٹا خط ہے اور اس خط کے معین ہو جانے کے بعد اسی رخ پر نماز پڑھی جائے گی۔
- نماز کی جگہ کے احکام
س 32. وہ مقامات جن کو ظالم حکومتوں نے غصب کر لیا ہے، کیا وہاں بیٹھنا، نماز پڑھنا اور گزرنا جائز ہے؟
ج. اگر غصبی ہونے کا علم ہو تو ان مقامات کا حکم، غصبی چیزوں جیسا ہے۔
س 33. اس زمین پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جو پہلے وقف تھی اور پھر حکومت نے اس پر تصرف کر کے اس میں اسکول بنا دیا ہو؟
ج. اگر اس بات کاقابل اعتنا احتمال ہو کہ اس میں مذکورہ تصرف شرعی لحاظ سے جائز تھا تو اس جگہ نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س34. اگر کوئی شخص ایک مدت تک غیر مخمس جا نماز یا لباس میں نماز پڑھے تو اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟
ج. اب تک اس میں جو نمازیں پڑھی ہیں، وہ صحیح ہیں۔
س 35. کیا یہ بات صحیح ہے کہ نماز میں مردوں کا عورتوں سے آگے ہونا واجب ہے؟
ج. احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں مرد اور عورت کے درمیان کم از کم ایک بالشت فاصلہ ہو اور اس صورت میں اگر مرد اور عورت عرض میں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہوں یا عورت آگے ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے۔
س36. مسجدوں میں امام خمینی اور شہدائے انقلاب کی تصویریں لگانے کا کیا حکم ہے، جبکہ امام خمینی مساجد میں اپنی تصویروں کے لگانے پر راضی نہ تھے، اور اس کی کراہت کے بارے میں بھی کئی مطالب موجود ہیں؟
ج. کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر یہ تصویریں مسجد کے حال کے اندر ہوں تو بہتر ہے کہ نماز کے وقت انہیں کسی طریقے سے ڈھانپ دیا جائے۔
س 37. ایک شخص سرکاری مکان میں رہتا ہے، اب اس میں اس کے رہنے کی مدت ختم ہو گئی ہے اور مکان خالی کرنے کیلئے اس کے پاس نوٹس بھیجا گیا ہے، لہذا خالی کرنے کی مقررہ تاریخ کے بعد اس مکان میں اس کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر مقررہ تاریخ کے بعد متعلقہ حکام کی طرف سے اس مکان میں رہنے کی اجازت نہ ہو تو اس کے لئے اس میں تصرف کرنا غصب کے حکم میں ہے۔
س 38. جس جائے نماز پر تصویریں اور سجدہ گاہ پر نقش و نگار بنے ہوئے ہوں، کیا ان پر نماز پڑھنا مکروہ ہے؟
ج. بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس سے شیعوں پر تہمت لگانے والوں کے لئے بہانہ فراہم ہوتا ہو تو ایسی چیزیں بنانا اور ان پر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح اگر اس سے توجہ ہٹ جائے اور نماز میں حضور قلب نہ رہے تو مکروہ ہے۔
س 39. اگر نماز پڑھنے کی جگہ پاک نہ ہو، لیکن سجدہ کی جگہ پاک ہو تو کیا نماز صحیح ہے؟
ج. اگر اس جگہ کی نجاست لباس یا بدن میں سرایت نہ کرے اور سجدہ کی جگہ پاک ہو تو ایسی جگہ پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س40. ہمارے دفتر کی موجودہ عمارت پرانے قبرستان پر بنائی گئی ہے۔ تقریباً چالیس سال سے اس میں مردے دفن کرنا چھوڑ دیا گیا تھا اور تیس سال پہلے اس عمارت کی بنیاد پڑی ہے۔ اب پوری زمین پر دفتر کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور اس وقت قبرستان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ کیا ایسے دفتر میں اس کے ملازمین کی نمازیں شرعی اعتبار سے صحیح ہیں یا نہیں؟
ج. اس میں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ شرعی طریقے سے ثابت ہو جائے کہ یہ جگہ جہاں مذکورہ عمارت بنائی گئی ہے، میت دفن کرنے کے لئے وقف کی گئی تھی اور اس میں غیر شرعی طریقے سے تصرف کر کے عمارت بنائی گئی ہے۔
س 41. مؤمن نوجوانوں نے امر بالمعروف کی خاطر ہفتے میں ایک یا دو دن سیر گا ہوں میں نماز قائم کرنے کا پروگرام بنایا ہے، لیکن بعض افراد نے اعتراض کیا ہے کہ سیر گاہوں کی ملکیت واضح نہیں ہے، لہذا ان جگہوں پر نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. موجودہ سیر گاہوں و غیرہ کو نماز قائم کرنے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور غصب کے فقط احتمال کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی۔
س 42. ہمارے شہر میں دو ملی ہوئی مسجدیں تھیں جن کے درمیان صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا، کچھ دنوں پہلے بعض مؤمنین نے دونوں مسجدوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے درمیانی دیوار کے اچھے خاصے حصے کو گرا دیا ہے، یہ اقدام بعض لوگوں کے لئے شک و شبہ کا سبب بن گیا ہے اور اب تک وہ اس بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ فرمائیں اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟
ج. دونوں مسجدوں کے درمیان کی دیوار کو گرانے سے ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔
س 43. شاہراہوں پر ہوٹلوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی بھی جگہ ہوتی ہے، پس اگر کوئی شخص اس ہوٹل میں کھانا نہ کھائے تو کیا اس کیلئے وہاں نماز پڑھنا جائز ہے یا اجازت لینا واجب ہے؟
ج. اگر اس بات کا احتمال ہو کہ نماز کی جگہ ہوٹل والے کی ملکیت ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے نماز پڑھنے کیلئے ہے جو اس ہوٹل میں کھانا کھائیں، تو اجازت لینا واجب ہے۔
س 44. جو شخص غصبی زمین میں نماز پڑھے، لیکن اس کی نماز، جائے نماز یا تخت پر ہو تو کیا اس کی نماز باطل ہے یا صحیح؟
ج. غصبی زمین پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہے خواہ وہ جائے نماز یا تخت پر ہی کیوں نہ پڑھی جائے۔
س45. وہ ادارے اور کمپنیاں جو آجکل حکومت کے اختیار میں ہیں ان میں بعض افراد ایسے ہیں جو یہاں پر قائم ہونے والی نماز جماعت میں شرکت نہیں کرتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں ان کے مالکوں سے شرعی عدالت کے فیصلہ پر ضبط کی گئی ہیں۔ براہ مہربانی اس سلسلے میں آپ اپنے فتوے سے مطلع فرمائیں؟
ج. اگر یہ احتمال ہو کہ ضبط کرنے کا حکم ایسے قاضی نے دیا تھا جس کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس نے شرعی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ضبط کرنے کا حکم دیا تھا تو شرعاً اس کا عمل صحیح تھا، لہذا ایسی صورت میں اس جگہ میں تصرف کرنا جائز ہے اور اس پر غصب کا حکم نہیں لگے گا۔
س 46. اگر امام بارگاہ کے پڑوس میں مسجد ہو تو کیا امام بارگاہ میں نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے؟ اور کیا دونوں جگہوں کا ثواب مساوی ہے؟
ج. اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے سے زیادہ ہے لیکن امام بارگاہ یا دوسری جگہوں پر نماز جماعت قائم کرنے میں شرعاً کوئی مانع نہیں ہے۔
س 47. جس جگہ حرام موسیقی بج رہی ہو کیا وہاں نماز پڑھنا صحیح ہے؟
ج. اگر وہاں نماز پڑھنا حرام موسیقی سننے کا سبب بنے تو اس جگہ ٹھہرنا جائز نہیں ہے، لیکن نماز صحیح ہے اور اگر موسیقی کی آواز نماز سے توجہ ہٹانے کا سبب بنے تو اس جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
س 48. ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے جن کو کشتی کے ذریعہ خاص ڈیوٹی پر بھیجا جاتا ہے اور سفر کے دوران نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور اگر وہ اسی وقت نماز نہ پڑھیں تو پھر وہ وقت کے اندر نماز نہیں پڑھ سکیں گے؟
ج. مذکورہ صورت میں ان پر واجب ہے کہ جس طرح ممکن ہو نماز پڑھیں اگر چہ کشتی میں ہی۔
- مسجد کے احکام
س 49. اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے، کیا اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے شہر کی جامع مسجد جانے میں کوئی اشکال ہے؟
ج. اگر اپنے محلہ کی مسجد چھوڑنا دوسری مسجد میں نماز جماعت میں شرکت کے لئے ہو خصوصاً شہر کی جامع مسجد میں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 50. اس مسجدمیں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جس کے بانی یہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ہم نے اپنے لئے اور اپنے قبیلہ والوں کے لئے بنائی ہے؟
ج. مسجد جب مسجد کے عنوان سے تعمیر کی جائے تو قوم ، قبیلہ اور اشخاص سے مخصوص نہیں رہتی بلکہ اس سے تمام مسلمان استفادہ کر سکتے ہیں۔
س51. عورتوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟
ج. مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت مردوں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔
س 52. دور حاضر میں مسجد الحرام اور صفا و مروہ کی سعی والی جگہ کے درمیان تقریباً آدھا میٹر اونچی اور ایک میٹر چوڑی دیوار ہے یہ مسجد اور سعی والی جگہ کے درمیان مشترک دیوار ہے ، کیا وہ عورتیں اس دیوار پر بیٹھ سکتی ہیں جن کے لئے ایام حیض کے دوران مسجد الحرام میں داخل ہونا جائز نہیں ہے؟
ج. اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر جب یقین ہوجائے کہ وہ مسجد کا جز ہے ۔
س 53. کیا محلہ کی مسجد میں ورزش کرنا اور سونا جائز ہے ؟ اور اس سلسلہ میں دوسری مساجد کا کیا حکم ہے؟
ج. مسجد ورزش گاہ نہیں ہے اور جو کام مسجد کے شایان شان نہیں ہیں انہیں مسجد میں انجام دینے سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور مسجد میں سونا مکروہ ہے ۔
س 54. کیا مسجد کے ہال سے جوانوں کی فکری ، ثقافتی اور عسکری ( عسکری تعلیم کے ذریعے ) ارتقاء کیلئے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؟ اور اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کاموں کے مراکز کم ہیں انہیں مسجد کے ایوان میں انجام دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟
ج. یہ چیزیں مسجد کے صحن اور بر آمدے کے وقف کی کیفیت سے مربوط ہیں ۔ اور اس سلسلہ میں مسجد کے امام جماعت اور انتظامیہ کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے البتہ امام جماعت اور انتظامیہ کے تحت نظر جوانوں کا مساجد میں جمع ہونا اور دینی کلاسیں لگانا مستحسن اور مطلوب فعل ہے ۔
س 55. بعض علاقوں ، خصوصاً دیہاتوں میں لوگ مساجد میں شادی کا جشن منعقد کرتے ہیں یعنی وہ رقص اور گانا تو گھروں میں کرتے ہیں لیکن دوپہر یا شام کا کھانا مسجد میں کھلاتے ہیں ۔ شریعت کے لحاظ یہ جائز ہے یا نہیں ؟
ج. مہانوں کو مسجد میں کھانا کھلانے میں فی نفسہ کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س56. پرائیوٹ کوآپریٹیو کمپنیاں رہائش کے لئے فلیٹ اور کالونیاں بناتی ہیں ۔ شروع میں اس بات پر اتفاق ہوتا ہے کہ ان فلیٹوں میں عمومی مقامات جیسے مسجد و غیرہ ہوں گے لیکن اب جب گھر اس کمپنی کے حصص کے مالکان کو دے دیئے گئے ہیں کیا ان میں سے بعض کے لئے جائز ہے کہ وہ اس معاہدہ کو توڑدیں اور یہ کہہ دیں کہ ہم مسجد کی تعمیر کے لئے راضی نہیں ہیں ؟
ج. اگر کمپنی اپنے تمام ممبران کی موافقت سے مسجد کی تعمیر کا اقدام کرے اور مسجد تیار ہوجانے کے بعد وقف ہوجائے تو اپنی پہلی رائے سے بعض ممبران کے پھرجانے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ لیکن اگر مسجد کے شرعی طور پر وقف ہونے سے قبل بعض ممبران اپنی سابقہ موافقت سے پھر جائیں تو ان کے اموال کے ساتھ تمام ممبران کی مشترکہ زمین میں ان کی رضامندی کے بغیر مسجد تعمیر کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کمپنی کے تمام ممبران سے عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط کرلی گئی ہو کہ مشترکہ زمین کا ایک حصہ مسجد کی تعمیر کے لئے مخصوص کیا جائے گا اور تمام ممبران نے اس شرط کو قبول کیا ہو اس صورت میں انہیں اپنی رائے سے پھر نے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ان کے پھرنے سے کوئی اثر پڑسکتا ہے ۔
س 57. غیر اسلامی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے مسجد میں ابتدائی اور مڈل کلاسوں کے تیس لڑکوں کو گروہ ترنم کی شکل میں جمع کیا ہے اس گروہ کے افراد کو عمرو فکری استعداد کے مطابق قرآن کریم ،احکام اور اسلامی اخلاق کا درس دیا جاتا ہے ۔ اس کام کاکیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ لوگ آلہ موسیقی جسے "ارگن" کہا جاتا ہے ، استعمال کریں تو اس کا کیاحکم ہے ؟ اور شرعی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں اس کی مشق کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج. مسجد میں قرآن کریم ، احکام اور اسلامی اخلاق کی تعلیم دینے اورمذہبی و انقلابی ترانوں کی تمرین کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن بہر حال مسجد کے شان و مقام اور تقدس کی رعایت کرنا واجب ہے اور نمازیوں کیلئے مزاحمت پیدا کرنا جائزنہیں ہے ۔
س58. کیا مسجد میں ان لوگوں کو جو قرآن کی تعلیم کے لئے شرکت کرتے ہیں ، ایسی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج ہے جن کو ایران کی وزارت ثقافت نے جاری کیا ہو؟
ج. مسجد کو فلم دکھانے کی جگہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن ضرورت کے وقت اور مسجد کے پیش نماز کی نگرانی میں مفید اور سبق آموزمذہبی اور انقلابی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 59. کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولادت کے موقع پر مسجد سے فرح بخش موسیقی کے نشر کرنے میں کوئی شرعی اشکال ہے؟
ج. واضح رہے کہ مسجد ایک خاص شرعی مقام رکھتی ہے ، پس اس میں موسیقی نشر کرنا اگر اس کی حرمت کے منافی ہو تو حرام ہے ، اگر چہ موسیقی غیر لہوی ہو۔
س60. مساجد کے لاؤڈاسپیکر ، جس کی آواز مسجد کے باہر سنی جاتی ہے، کا استعمال کب جائز ہے؟ اور اذان سے قبل اس پر تلاوت اور انقلابی ترانے نشر کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج. جن اوقات میں محلہ والوں اور ہمسایوں کے لئے تکلیف و اذیت کا سبب نہ ہو ان میں اذان سے قبل چند منٹ تلاوت قرآن نشر کرنے میں اشکال نہیں ہے۔
س61. جامع مسجد کی تعریف کیا ہے؟
ج. وہ مسجد جو شہر میں تمام اہل شہر کے اجتماع کے لئے بنائی جاتی ہے اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوتی ۔
س62. تیس سال سے ایک مسجد کا چھت والا حصہ ویران پڑا تھا اس میں نماز نہیں ہوتی تھی اور وہ کھنڈر بن چکا تھا ، اس کا ایک حصہ سٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے رضا کاروں نے کہ جو تقریبا پندرہ سال سے اس چھت والے حصے میں مستقر ہیں اس میں کچھ تعمیراتی کام کیا ہے کیونکہ اسکی حالت بہت ہی غیر مناسب تھی اور اسکی چھت گرنے کے قریب تھی اور چونکہ یہ لوگ مسجد کے شرعی احکام سے ناواقف تھے اور جو لوگ جانتے تھے انہوں نے بھی ان کی راہنمائی نہیں کی ۔ لہٰذا انہوں نے چھت والے حصے میں چند کمرے تعمیر کرائے کہ جن پر خطیر رقم خرچ ہوئی اب تعمیر کا کام اختتام پر ہے۔ براہ مہربانی درج ذیل موارد میں حکم شرعی سے مطلع فرمائیں:
١۔ فرض کیجئے اس کام کے بانی اور اس پر نگران کمیٹی کے اراکین مسئلہ سے ناواقف تھے تو کیا یہ لوگ بیت المال سے خرچ کئے جانے والی رقم کے ضامن ہیں ؟ اور وہ گناہگار ہیں؟
٢۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ رقم بیت المال سے خرچ ہوئی ہے ۔ کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ جب تک مسجد کو اس حصہ کی ضرورت نہیں ہے اور اس میں نماز قائم نہیں ہوتی ان کمروں سے مسجد کے شرعی احکام و حدود کی رعایت کرتے ہوئے قرآن و احکام شریعت کی تعلیم اور مسجد کے دیگر امور کے لئے استفادہ کیا جائے یا ان کمروں کو فوراً گرادینا واجب ہے؟ج. مسجد کے چھت والے حصے میں بنے ہوئے کمروں کو منہدم کر کے اس کو سابقہ حالت پر لوٹا نا واجب ہے اور خرچ شدہ رقم کے بارے میں اگر افراط و تفریط نہ ہوئی ہو اور جان بوجھ کر اور کوتا ہی کرتے ہوئے ایسا نہ کیا گیا ہو تو معلوم نہیں ہے کہ اس کا کوئی ضامن ہو اور مسجد کے چھت والے حصے میں قرائت قرآن ، احکام شرعی ، اسلامی معارف کی تعلیم اور دوسرے دینی و مذہبی پروگرام منعقد کرنے میں اگر نماز گزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو اورامام جماعت کی نگرانی میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور امام جماعت ، رضاکاروں اور مسجد کے دوسرے ذمہ دار حضرات کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تا کہ مسجد میں رضا کاروں کا وجود بھی مستمر رہے اور مسجد کے عبادی فرائض جیسے نماز و غیرہ میں بھی خلل واقع نہ ہو۔
س63. ایک سڑک کی توسیع کے منصوبے میں متعدد مساجد آتی ہیں۔ منصوبے کے اعتبار سے بعض مسجدیں پوری منہدم ہوتی ہیں اور بعض کا کچھ حصہ گرایا جائے گا تا کہ ٹریفک کی آمد و رفت میں آسانی ہو براہ مہربانی اس سلسلے میں اپنی رأے بیان فرمائیں؟
ج. مسجد یا اس کے کسی حصہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے مگر ایسی مصلحت کی بناء پر کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہ ہو ۔
س64. کیا مساجد کے وضو کے لئے مخصوص پانی کو مختصر مقدار میں اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے مثلا دوکاندار پینے، چائے بنانے یا موٹر گاڑی میں ڈالنے کے لئے اس سے استفادہ کریں واضح رہے کہ اس مسجد کا واقف کوئی ایک شخص نہیں ہے جو اس سے منع کرے؟
ج. اگر معلوم نہ ہو کہ یہ پانی صرف نماز گزاروں کے وضو کے لئے وقف ہے اور اس محلہ کے عرف میں یہ رائج ہو کہ اس کے ہمسائے اور راہ گیر اس کے پانی سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط بہتر ہے۔
س 65. قبرستان کے پاس ایک مسجد ہے اور جب بعض مومنین قبور کی زیارت کے لئے آتے ہیں تو وہ اپنے کسی عزیز کی قبر پر پانی چھڑکنے کے لئے اس مسجد سے پانی لیتے ہیں اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ پانی مسجد کے لئے وقف ہے یا عمومی استفادہ کیلئے ہے اور بالفرض اگر یہ مسجد کے لئے وقف نہ ہو تو معلوم نہیں ہے کہ یہ وضو اور طہارت کے ساتھ مخصوص ہے یا نہیں ۔ تو کیا اسے قبر پر چھڑکنا جائز ہے؟
ج. ان قبور پر پانی چھڑکنے کیلئے مسجد کے پانی سے استفادہ کرنا کہ جو اس سے باہر ہیں اگر لوگوں میں رائج ہو اور اس پر کوئی اعتراض نہ کرے اور اس بات پر کوئی دلیل نہ ہو کہ پانی صرف وضو اور طہارت کے لئے وقف ہے تو اس استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 66. اگر مسجد میں تعمیراتی کام کی ضرورت ہو تو کیا حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت ضروری ہے؟
ج. اگر مسجد کی تعمیر اہل خیر افراد کے مال سے کرنا ہو تو اس میں حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
س67. کیا میں یہ وصیت کر سکتا ہوں کہ مرنے کے بعد مجھے محلہ کی اس مسجد میں دفن کیا جائے :جس کے لئے میں نے بہت کوششیں کی تھیں کیونکہ میں چاہتا ہوں مجھے اس مسجد کے اندر یا اس کے صحن میں دفن کیا جائے؟
ج. اگر صیغۂ وقف جاری کرتے وقت مسجد میں میت دفن کرنے کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو تو اس میں دفن کرنا جائز نہیں ہے اور اس سلسلہ میں آپ کی وصیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
س 68. ایک مسجد تقریباً بیس سال پہلے بنائی گئی ہے اور اسے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نام مبارک سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ مسجد کا نام صیغہ ٔ وقف میں ذکر کیا گیا ہے یا نہیں تو مسجد کا نام مسجد صاحب زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بجائے بدل کر جامع مسجد رکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج. صرف مسجد کا نام بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 69. جن مساجد میں مومنین کے عطیوں اور مساجد کی خاص نذور سے بجلی اور ائرکنڈیشننگ کے سسٹم کا انتظام کیا جا تا ہے جب محلہ والوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو ان میں اس کے فاتحہ کی مجلس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مجلس میں مسجد کی بجلی اور ائرکنڈیشنر و غیرہ کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن مجلس کرنے والے اس کا پیسہ ادا نہیں کرتے شرعی نقطہ نظر سے یہ جائز ہے یا نہیں؟
ج. مسجد کے وسائل سے فاتحہ کی مجلس و غیرہ میں استفادہ کرنا وقف و نذر کی کیفیت پر موقوف ہے۔
س 70. گاؤں میں ایک نئی مسجد ہے جو پرانی مسجد کی جگہ بنائی گئی ہے موجودہ مسجد کے ایک کنارے پرکہ جس کی زمین پرانی مسجد کا جزہے ، مسئلہ سے نا واقفیت کی بنا پر چائے و غیرہ بنانے کے لئے ایک کمرہ تعمیر کیا گیا ہے اور اسی طرح مسجد کے نیم چھت جو کہ مسجد کے ہال کے اندر ہے پر ایک لائبریری بنائی گئی ہے، براہ مہربانی اس سلسلہ میں اپنی رأے بیان فرمائیں؟
ج. سابق مسجد کی جگہ پر چائے خانہ بنانا صحیح نہیں ہے اور اس جگہ کو دوبارہ مسجد کی حالت میں بدلنا واجب ہے اور مسجد کے ہال کے اندر کی نیم چھت بھی مسجد کے حکم میں ہے اور اس پر مسجد کے تمام شرعی احکام و اثرات مترتّب ہوں گے لیکن اس میں کتابوں کی الماریاں نصب کرنا اور مطالعہ کے لئے وہاں جمع ہونے میں ، اگر نمازگزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س 71. اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے کہ ایک گاؤں میں ایک مسجد گرنے والی ہے لیکن فی الحال اسے منہدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ راستہ میں رکاوٹ نہیں ہے کیا مکمل طور پر اس مسجد کو منہدم کرنا جائز ہے؟ اس مسجد کا کچھ اثاثہ اور پیسہ بھی ہے یہ چیزیں کس کو دی جائیں ؟
ج. مسجد کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے اور کلی طور پر مسجدکو گرانے سے وہ مسجد کے حکم کے خارج نہیں ہوگی ، اور مسجد کے اثاثہ و مال کو اگر اسکی خود اس مسجد کو ضرورت نہیں ہے تو استفادہ کے لئے دوسری مسجدوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔
س 72. کیا مسجد کے صحن کے ایک گوشہ میں مسجد کی عمارت میں کسی تصرف کے بغیر ، میوزیم بنانے میں کوئی شرعی حرج ہے جیسا کہ آج کل مسجد کے اندر لائبریری بنادی جاتی ہے؟
ج. اگر صحنِ مسجد کے گوشہ میں لائبریری یا میوزیم بنانا مسجد کے ہال اور صحن کے وقف کی کیفیت کے منافی یا مسجد کی عمارت میں تغیر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے ۔ مذکورہ غرض کے لئے بہتر ہے کہ مسجد سے متصل کسی جگہ کا انتظام کیا جائے۔
س 73. ایک موقوفہ جگہ میں مسجد ، دینی مدرسہ اور پبلک لائبریری بنائی گئی ہے اور یہ سب اس وقت کام کر رہے ہیں لیکن اس وقت یہ سب بلدیہ کے توسیع والے نقشہ میں آرہے ہیں کہ جن کا انہدام بلدیہ کے لئے ضروری ہے ، ان کے انہدام کے لئے بلدیہ سے کیسے تعاون کیا جائے اور کیسے ان کا معاوضہ لیا جائے تا کہ اس کے عوض نئی اور اچھی عمارت بنائی جاسکے؟
ج. اگر بلدیہ اس کو منہدم کرنے اور معاوضہ دینے کے لئے اقدام کرے اور معاوضہ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی ایسی اہم مصلحت کے بغیر کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے موقوفہ مسجد و مدرسہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے۔
س 74. مسجد کی توسیع کے لئے اس کے صحن سے چند درختوں کو اکھاڑنا ضروری ہے ۔ کیا ان کو اکھاڑنا جائز ہے ، جبکہ مسجد کا صحن کا فی بڑا ہے اور اس میں اور بھی بہت سے درخت ہیں؟
ج. اگر درخت کاٹنے کو وقف میں تغیر و تبدیلی شمار نہ کیا جاتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 75. اس زمین کا کیا حکم ہے جو مسجد کے چھت والے حصے کا جز تھی ، بعد میں بلدیہ کے توسیعی دائرے میں آنے کی وجہ سے مسجد کے اس حصہ کو مجبوراً منہدم کرکے سڑک میں تبدیل کردیا گیا؟
ج. اگر اس کے پہلی حالت کی طرف پلٹنے کا احتمال بعید ہو تو معلوم نہیں ہے اس پر مسجد کے شرعی اثرات مرتّب ہوں۔
س 76. ایک مسجد منہدم ہوچکی ہے اور اسکے مسجد والے آثار محو ہوچکے ہیں یا اسکی جگہ کوئی اور عمارت بنادی گئی ہے اور اسکی تعمیر نو کی کوئی امید نہیں ہے مثلاً وہاں کی آبادی ویران ہوگئی ہے اور اس نے وہاں سے نقل مکانی کر لی ہے کیا اس ( مسجد والی) جگہ کو نجس کرنا حرام ہے؟اور اسے پاک کرنا واجب ہے؟
ج. مفروضہ صورت میں معلوم نہیں ہے کہ اس کا نجس کرنا حرام ہو اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ اسے نجس نہ کیا جائے۔
س77. میں عرصہ سے ایک مسجد میں نماز جماعت پڑھاتا ہوں ، اور مسجد کے وقف کی کیفیت کی مجھے اطلاع نہیں ہے، دوسری طرف مسجد کے اخراجات کے سلسلے میں بھی مشکلات در پیش ہیں کیا مسجد کے سرداب کو مسجد کے شایان شان کسی کام کے لئے کرایہ پر دیا جاسکتا ہے؟
ج. اگر سرداب پر مسجد کا عنوان صادق نہیں آتا ہے اور وہ اس کا ایسا جز بھی نہیں ہے جس کی مسجد کو ضرورت ہو اور اس کا وقف بھی وقف انتفاع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س 78. مسجد کے پاس کوئی املاک نہیں ہیں کے جن سے اس کے اخراجات پورے کئے جاسکیں اور مسجد کے ٹرسٹ نے اسکے چھت والے حصے کے نیچے مسجد کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ایک تہ خانہ کھود کراس میں ایک چھوٹی سی فیکٹری یا دوسرے عمومی مراکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟
ج. فیکٹری وغیرہ کی تسیس کے لئے مسجد کی زمین کو کھودنا جائز نہیں ہے۔
س 79. کیا مسلمانوں کی مساجد میں کفّار کا داخل ہونا مطلقاً جائز ہے خواہ وہ تاریخی آثار کو دیکھنے کیلئے ہی ہو؟
ج. مسجد حرام میں داخل ہو نا شرعاً ممنوع ہے اور دیگر مساجد میں داخل ہونا اگر مسجد کی ہتک اور بے حرمتی شمار کی جائے تو جائز نہیں ہے بلکہ دیگر مساجد میں بھی وہ کسی صورت میں داخل نہ ہوں۔
س 80. کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے جو کفّار کے توسط سے بنائی گئی ہو؟
ج. کوئی حرج نہیں ہے۔
س 81. اگر ایک کافر اپنی خوشی سے مسجد کی تعمیر کے لئے پیسہ دے یا کسی اور طریقہ سے مدد کرے تو کیا اسے قبول کرنا جائز ہے۔
ج. اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 82. اگر ایک شخص رات میں مسجد میں آکر سوجائے اور اسے احتلام ہوجائے لیکن جب بیدارہو تو اس کیلئے مسجد سے نکلنا ممکن نہ ہو تو اس کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج. اگر وہ مسجد سے نکلنے اور دوسری جگہ جانے پر قادر نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ فوراً تیمّم کرے تا کہ اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنے کا جواز پیدا ہوجائے۔
- دیگر مذہبی مقامات کے احکام
س 83. کیا شرعی نقطۂ نظر سے امام بارگاہ کو چند معین اشخاص کے نام رجسڑڈ کرانا جائز ہے ؟
ج. دینی مجالس برپا کرنے کے لئے موقوفہ امام بارگاہ کو کسی کی ملکیت کے طور پر رجسٹرڈ کرانا جائز نہیں ہے اور معین اشخاص کے نام وقف کے طور پر رجسٹرڈ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال بعض معین افراد کے نام بطور وقف رجسٹرڈ کرانے کیلئے بہتر ہے کہ ان تمام افراد کی اجازت لی جائے جنہوں نے اس عمارت کے بنانے میں شرکت کی ہے۔
س 84. مسائل کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ مجنب شخص اور حائض عورت دونوں کے لئے ائمہ (علیہم السلام) کے حرم میں داخل ہونا جائز نہیں ہے ۔ براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں کہ کیا صرف قبہ کے نیچے کی جگہ حرم ہے یا اس سے ملحق ساری عمارت حرم ہے؟
ج. حرم سے مراد وہ جگہ ہے جو قبۂ مبارکہ کے نیچے ہے اور عرف عام میں جس کو حرم اور زیارت گاہ کہا جاتا ہے ۔ لیکن ملحقہ عمارت اور ہال حرم کے حکم میں نہیں ہیں لہذا ان میں مجنب و حائض کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ان میں سے کسی کو مسجد بنادیا گیا ہو۔
س85. قدیم مسجد کے ساتھ ایک امام بارگاہ بنائی گئی ہے اور آج کل مسجد میں نمازگزاروں کیلئے گنجائش نہیں ہے، کیا مذکورہ امام بارگاہ کو مسجد میں شامل کر کے اس سے مسجد کے عنوان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟
ج. امام بارگاہ میں نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر امام بارگاہ کو شرعاً صحیح طریقہ سے امام بارگاہ کے عنوان سے وقف کیا گیا ہے تو اسے مسجد میں تبدیل کرنا اور اسے ساتھ والی مسجد میں مسجد کے عنوان سے ضم کرنا جائز نہیں ہے۔
س 86. کیا اولاد ائمہ میں سے کسی کے مرقد کے لئے نذر میں آئے ہوئے سامان اور فرش کو محلہ کی جامع مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟
ج. اگر یہ چیزیں فرزند امام کے مرقد اور اس کے زائرین کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س 87. جو عزا خانے حضرت ابوالفضل العباس اور دیگر شخصیات کے نام پر بنائے جاتے ہیں کیا وہ مسجد کے حکم میں ہیں؟ امید ہے کہ ان کے احکام بیان فرمائیں گے۔
ج. امام بارگاہیں اور عزاخانے مسجد کے حکم میں نہیں ہیں۔
- نماز گزار کالباس
س88. جس لباس کی نجاست کے بارے میں شک ہے کیا اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے؟
ج. جس لباس کے نجس ہونے میں شک ہو وہ پاک ہے اور اس میں نماز صحیح ہے۔
س 89. میں نے جرمنی میں چمڑے کی ایک بیلٹ خریدی تھی کیا اس کو باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی شرعی اشکال ہے؟ اگر مجھے یہ شک ہو کہ یہ قدرتی اور طبیعی کھال کی ہے یا مصنوعی کی اور یہ کہ یہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال کی ہے یا نہیں تو میری ان نمازوں کا کیا حکم ہے جو میں نے اس میں پڑھی ہیں؟
ج. اگر یہ شک ہو کہ یہ قدرتی اور طبیعی کھال کی ہے یا نہیں تو اسے باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر طبیعی کھال ثابت ہونے کے بعد یہ شک ہو کہ وہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال ہے یا نہیں؟ تو وہ نجس نہیں ہے لیکن اس میں نماز صحیح نہیں ہے اور گذشتہ نمازیں جو اس حکم سے ناواقفیت کی بناپر پڑھی ہیں انکی قضا نہیں ہے۔
س90. اگر نماز گزار کو یہ یقین ہو کہ اس کے لباس و بدن پر نجاست نہیں ہے اور وہ نماز بجالائے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ اور اگر نماز کے دوران میں کوئی نجاست لگ جائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر اسے اپنے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا بالکل علم نہ ہو اور نماز کے بعد متوجہ ہوتو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر اعادہ یا قضاء واجب نہیں ہے لیکن اگر اثنائے نماز میں نجاست عارض ہوجائے اور وہ نجاست کو بغیر ایسا فعل انجام دینے کے جو نماز کے منافی ہے، دور کر سکتا ہو یا نجس لباس کو اتار سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نجاست دور کرے یا نجس لباس اتار دے اور اپنی نماز تمام کرے لیکن اگر نماز کی حالت کو باقی رکھتے ہوئے نجاست دور نہیں کرسکتا اور وقت میں بھی گنجائش ہے تو نماز توڑ کر پاک لباس اور بدن کے ساتھ نماز بجالانا واجب ہے۔
س 91. ایک شخص ایک زمانہ تک ایسے حیوان کی کھال۔ جس کا ذبح ہونا مشکوک ہو اور جس میں نماز صحیح نہیں ہوتی ۔ میں نماز پڑھتا رہا تو کیا اس پر اپنی نمازوں کا اعادہ کرنا واجب ہے ؟ کلی طورپر جس حیوان کے ذبح میں شک ہو اس کا حکم کیا ہے؟
ج. جس حیوان کاذبح مشکوک ہو وہ گوشت کھانے کی حرمت اور اسکی کھال میں نماز کے عدم جواز کے لحاظ سے مردار کے حکم میں ہے لیکن نجس نہیں ہے اور گذشتہ نمازیں اگر اس حکم سے ناواقفیت کی بنا پر پڑھی ہوں توصحیح ہیں۔
س 92. ایک عورت نماز کے درمیان متوجہ ہوتی ہے کہ اس کے کچھ بال نظر آ رہے ہیں اور فوراً چھپا لیتی ہے اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے یا نہیں؟
ج. جب تک جان بوجھ کر بالوں کو ظاہر نہ کیا ہو اعادہ واجب نہیں ہے۔
س93.ایک شخص پیشاب کے مقام کو مجبوراً کنکری ، لکڑی یا کسی اور چیز سے پاک کرتا ہے اور جب گھر لوٹتا ہے تو اسے پانی سے پاک کر لیتا ہے تو کیا نماز کے لئے اندرونی لباس ( انڈرویئر)کا بدلنا یا پاک کرنا بھی واجب ہے؟
ج. اگر لباس پیشاب کی رطوبت سے نجس نہ ہوا ہو تو اس کا پاک کرناواجب نہیں ہے۔
س 94. بیرون ملک سے جو بعض صنعتی مشینیں منگوائی جاتی ہیں وہ ان غیر ملکی ماہرین کے ذریعہ نصب کی جاتی ہیں جو اسلامی فقہ کے اعتبار سے کافر اور نجس ہیں اور یہ معلوم ہے کہ ان مشینوں کی فٹنگ گریس اور دوسرے ایسے مواد کے ذریعے انجام پاتی ہے کہ جسے ہاتھ کے ذریعے ڈالا جاتاہے نتیجہ یہ ہے کہ وہ مشینیں پاک نہیں رہ سکتیں اور کام کے دوران ان مشینوں سے کاریگروں کا لباس اور بدن مس ہوتا ہے اور نماز کے وقت مکمل طور سے لباس و بدن کوپاک نہیں کرسکتے تو نماز کے سلسلے میں ان کا فریضہ کیا ہے؟
ج. اس احتمال کے پیش نظر کہ مشینوں کو فٹ کرنے والا کافر، اہل کتاب میں سے ہو کہ جنکے پاک ہونے کا حکم لگایا گیاہے یا کام کے وقت وہ دستانے پہنے ہوئے ہو ۔صرف اس بناء پر کہ مشینوں کو کافر نے نصب کیا ہے ان کے نجس ہونے کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر مشینوں کی نجاست اور کام کے دوران میں کاریگر کے بدن یا لباس کے سرایت کرنے والی رطوبت کے ساتھ ان مشینوں کے ساتھ مس ہونے کا یقین ہوجائے تو نماز کے لئے بدن کا پاک کرنا اور لباس کا پاک کرنا یا بدلنا واجب ہے۔
س95. اگر نمازی خون سے نجس رومال یا اس جیسی کوئی نجس چیزا ٹھائے ہوئے ہو یا اسے جیب میں رکھے ہوئے ہو تو اس کی نماز صحیح ہے یا باطل ؟
ج. اگر رومال اتنا چھوٹا ہو جس سے شرم گاہ نہ چھپائی جاسکے تو اس کے نماز کے دوران ہمراہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 96. کیا اس کپڑے میں نماز صحیح ہے جو آج کل کے ایسے پرفیوم سے معطّر کیا گیا ہو جس میں الکحل پایا جاتا ہے؟
ج. جب تک مذکورہ پرفیوم کی نجاست کا علم نہ ہو اس سے معطر کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 97. حالت نماز میں عورت پر بدن کی کتنی مقدار کا چھپانا واجب ہے؟ کیا چھوٹی آستین والے لباس پہننے اور جوراب نہ پہننے میں کوئی حرج ہے؟
ج. عورتوں پر واجب ہے کہ وہ چہرے کی اتنی مقدار جس کا وضو میں دھونا واجب ہے اور کلائی تک دونوں ہاتھوں اور ٹخنوں تک دونوں پیروں کو چھوڑ کر پورے بدن اور بالوں کو ایسے لباس کے ساتھ چھپائیں کہ جو مکمل طور پر بدن کو ڈھانپ لیتا ہے اور اگر کوئی نامحرم ہو تو پیروں کو بھی چھپائیں۔
س 98. کیا حالت نماز میں عورتوں پر پاؤں کے اوپر والے حصے کو چھپانا بھی واجب ہے یا نہیں؟
ج. اگر نامحرم نہ ہو تو ٹخنوں تک پاؤں کا چھپانا واجب نہیں ہے۔
س99. کیا حجاب پہنتے وقت اورنماز میں ٹھوڑی کو مکمل طور پر چھپانا واجب ہے یا اس کے نچلے حصے ہی کو چھپانا کافی ہے اور کیا ٹھوڑی کا اس لئے چھپانا واجب ہے، کہ وہ چہرے کی اس مقدار کے چھپانے کا مقدمہ ہے جو شرعاً واجب ہے؟
ج. ٹھوڑی کا نچلا حصہ چھپانا واجب ہے نہ کہ ٹھوڑی کا چھپانا کیونکہ وہ چہرے کاجزء ہے۔
س 100. کیا ایسی نجس چیز جو شرمگاہ کو چھپانے کیلئے کافی نہیں ہے کے ساتھ نماز کے صحیح ہونے کا حکم صرف اس حالت سے مخصوص ہے جب انسان اس کے حکم یا موضوع کے سلسلے میں نسیان یا ناواقفیت کی بنا پر اس میں نماز پڑھ لے یا پھر یہ شبہۂ موضوعیہ اور شبہۂ حکمیہ دونوں کو شامل ہے؟
ج. یہ حکم نسیان یا جہل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ایسی نجس چیز ،کہ جو شرمگاہ کو چھپانے کیلئے کافی نہیں ہے، میں علم کی صورت میں بھی نماز صحیح ہے ۔
س 101. کیا نمازی کے لباس پر بلّی کے بال یا اس کے لعاب دہن کا وجود نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے؟
ج. جی ہاں نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے۔
- سونے چاندی کا استعمال
س102. مردوں کے بارے میں سونے کی انگوٹھی خصوصاً نماز میں پہننے کا کیا حکم ہے ؟
ج. کسی حالت میں مرد کیلئے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بناپر اس میں اس کی نماز بھی باطل ہے۔
س103. مردوں کے لئے سفید سونے کی انگوٹھی پہننے کا کیا حکم ہے؟
ج. جسے سفید سونا کہا جاتاہے اگر یہ وہی زرد سونا ہو کہ جس میں کوئی مواد ملا کراسکے رنگ کو تبدیل کردیا گیا ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس میں سونے کی مقدار اتنی کم ہو کہ عرف عام میں اسے سونا نہ کہا جائے تو اشکال نہیں ہے اور پلاٹینم کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
س 104. کیا اس وقت بھی سونا پہننے میں کوئی شرعی اشکال ہے جب وہ زینت کے لئے نہ ہو اور دوسروں کو نظر نہ آئے؟
ج. مردوں کے لئے ہر صورت میں سونا پہننا حرام ہے چاہے وہ انگشتر ہو یا کوی دوسری چیز اور چاہے اسے زینت کے قصد سے نہ پہنا جائے یا دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا جائے۔
س 105. مردوں کا تھوڑے سے وقت کے لئے سونا پہننا کیا حکم رکھتا ہے؟ کیونکہ ہم بعض لوگوں کو یہ دعوی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کم مدت کے لیے جیسے عقد کے وقت سونا پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے؟
ج. مردوں کے لئے سونا پہننا حرام ہے، اور تھوڑے یا زیادہ وقت میں کوئی فرق نہیں ہے
س 106. نماز گزارکے لباس کے احکام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اس حکم کے پیش نظر کہ مردوں کے لئے سونے سے مزین ہونا حرام ہے، درج ذیل دو سوالوں کے جواب بیان فرمائیں؟
١۔ کیا سونے سے زینت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے لئے مطلق طور پر سونے کا استعمال حرام ہے خواہ وہ ہڈی کے آپریشن اور دانت بنوانے کے لئے ہی کیوں نہ ہو؟
٢۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے شہر میں رواج ہے کہ نئے شادی شدہ جوان زرد سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اور عام لوگوں کی نظر میں یہ چیز انکی زینت میں سے شمار نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس شخص کے لئے ازدواجی زندگی کے آغاز کی علامت سمجھی جاتی ہے، تو اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ج.
١) مردوں کے سونا پہننے کے حرام ہونے کا معیار زینت کا صادق آنا نہیں ہے۔ بلکہ کسی بھی طرح اور کسی بھی قصد سے سونا پہننا حرام ہے، چاہے وہ سونے کی انگوٹھی ہو یا ہار یا زنجیر و غیرہ ہو، لیکن زخم میں بھرنے اور دانت بنوانے میں مردوں کے لئے سونے کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٢) زرد سونے کی انگوٹھی پہننا مردوں کے لئے ہر صورت میں حرام ہے۔س 107. سونے کے ان زیورات کو بیچنے اور انہیں بنانے کا کیا حکم ہے جو مردوں سے مخصوص ہیں اور جنہیں عورتیں نہیں پہنتیں؟
ج. سونے کے زیورات بنانا اگر صرف مردوں کے استعمال کے لئے ہو تو حرام ہے اور اسی طرح انہیں اس مقصد کے لئے خریدنا اور بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔
س108. ہم بعض دعوتوں میں دیکھتے ہیں کہ مٹھائی چاندی کے ظروف میں پیش کی جاتی ہے، کیا اس عمل کو چاندی کے ظروف میں کھانے سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟
ج. کھانے کے قصد سے چاندی کے برتن میں سے کھانے و غیرہ کی چیز کا اٹھانا اگرکھانے پینے میں چاندی کے برتنوں کا استعمال شمار کیا جائے تو حرام ہے۔
س 109. کیا دانت پر سونے کا خول چڑھوانے میں کوئی اشکال ہے؟ اور دانت پرپلاٹینم کا خول چڑھوانے کا کیا حکم ہے؟
ج. دانت پر سونے یا پلاٹینم کا خول چڑھوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر زینت کی غرض سے سامنے کے دانتوں پر سونے کا خول چڑھوائے تو یہ اشکال سے خالی نہیں ہے۔
- اذان و اقامت
س110. ماہ رمضان المبارک میں ہمارے گاؤں کا مؤذن ہمیشہ صبح کی اذان، وقت سے چند منٹ پہلے ہی دے دیتا ہے تاکہ لوگ اذان کے درمیان یااسکے ختم ہونے تک کھانا پینا جاری رکھ سکیں، کیا یہ عمل صحیح ہے؟
ج. اگر اذان دینا لوگوں کو شبہ میں مبتلا نہ کرے اور وہ طلوع فجر کے اعلان کے عنوان سے نہ ہوتو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 111. بعض اشخاص وقت نماز کے داخل ہونے کا اعلان کرنے کیلئے اجتماعی صورت میں عام راستوں میں اذان دیتے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ اس اقدام سے علاقے میں کھلم کھلا فسق و فساد روکنے کے سلسلے میں بڑا اثر ہوا ہے اور عام لوگ خصوصاً جوان حضرات اول وقت میں نماز پڑھنے لگے ہیں؟
لیکن ایک صاحب کہتے ہیں : یہ عمل شریعت اسلامی میں وارد نہیں ہوا اور بدعت ہے، ہمیں اس بات سے شبہ پیدا ہو گیا ہے، آپ کی رائے کیا ہے؟ج. یومیہ واجب نمازوں کے اول اوقات میں اعلان کی غرض سے اذان دینا اور سامعین کی طرف سے اسے دہرانا مستحبات مؤکدہ میں سے ہے اور سڑکوں کے کناروں پر اجتماعی صورت میں اذان دینا، اگر راستہ روکنے اور دوسروں کی اذیت کا سبب نہ بنے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س112. چونکہ بلند آواز سے اذان دینا عبادی، سیاسی عمل ہے اور اس میں عظیم ثواب ہے لہذابعض مؤمنین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر، واجب نماز کے وقت خصوصاً نماز صبح کے لئے اپنے اپنے گھروں کی چھت سے اذان دیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس عمل پر بعض ہمسائے اعتراض کریں تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج. متعارف طریقے سے چھت پر اذان دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 113. ماہ رمضان المبارک میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے سحری کے مخصوص پروگرام نشر کرنے کا کیا حکم ہے تا کہ سب لوگ سن لیں؟
ج. جہاں پر اکثر لوگ، رمضان المبارک کی راتوں میں تلاوت قرآن مجید، دعائیں پڑھنے اور دینی و مذہبی پروگراموں میں شرکت کے لئے بیدار رہتے ہیں، وہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر یہ مسجد کے ہمسایوں کی تکلیف کا موجب ہو تو جائز نہیں ہے۔
س114. کیا مساجد اوردیگر مراکز سے لاؤڈا سپیکر کے ذریعے اتنی بلند آواز میں کہ جو کئی کلومیٹر تک پہنچے، اذان صبح سے قبل قرآنی آیات اور اس کے بعد دعاؤں کا نشر کرنا صحیح ہے؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ سلسلہ کبھی کبھار آدھے گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہتا ہے؟
ج. رائج طریقہ کے مطابق نماز صبح کے وقت کے داخل ہو جانے کے اعلان کیلئے لاؤڈ اسپیکر سے اذان نشر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مسجد سے آیات قرآنی اور دعاؤں و غیرہ کا نشر کرنا اگر ہمسایوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو تو اس کے لئے شرعاً کوئی جواز نہیں ہے بلکہ اس میں اشکال ہے۔
س115. کیا نماز میں مرد، عورت کی اذان پر اکتفا کرسکتا ہے؟
ج. مرد کیلئے عورت کی اذان پر اکتفا کرنا محل اشکال ہے۔
س116. واجب نماز کی اذان اور اقامت میں شہادت ثالثہ یعنی سید الاوصیاء (حضرت علی علیہ السلام ) کے امیر و ولی ہونے کی گواہی دینے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ج. " اشہد ان علیا ً ولی اللہ" شرعی لحاظ سے اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے، لیکن اسے مذہب تشیع کے شعار کے عنوان سے کہا جائے تو بہت اچھا اور اہم ہے اور ضروری ہے کہ اسے مطلق قصد قربت کے ساتھ کہا جائے۔
س117. ایک مدت سے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا ہوں اور بعض اوقات تو اتناشدید ہوجاتا ہے کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس چیز کے پیش نظر اگر اول وقت میں پڑھوں تو حتماً بیٹھ کر پڑھوں گا لیکن اگر صبر کروں تو ہوسکتا ہے آخری وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکوں اس صورتحال میں میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج. اگر آخر وقت میں کھڑے ہوکر پڑھ سکنے کا احتمال ہو تو احیتاط یہ ہے کہ اس وقت تک صبر کیجئے لیکن اگر اول وقت میں کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ لی اور آخر وقت تک وہ عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز پڑھی ہے وہی صحیح ہے اور اسکے اعادے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اول وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی قدرت نہ تھی اور آپ کو یقین تھا کہ آخر وقت تک یہ ناتوانی برقرار رہے گی پھرآخر وقت سے پہلے وہ عذر زائل ہوجائے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن ہو جائے تو دوبارہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا واجب ہے۔
- قرأت اور اس کے احکام
س118. اگر نماز میں قرأت جہری (بلند آواز سے) نہ کی جائے تو ہماری نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. مردوں پر واجب ہے کہ وہ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھیں لیکن اگر بھولے سے یا جہالت کی وجہ سے آہستہ پڑھ لیں تو نماز صحیح ہے اور اگر جان بوجھ کر آہستہ پڑھیں تو نماز باطل ہے۔
س 119. اگر ہم صبح کی قضا نماز پڑھنا چاہیں تو کیا اسے بلند آواز سے پڑھیں گے یا آہستہ؟
ج. صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوںمیں چاہے وہ ادا ہوں یا قضا، حمد و سورہ کو ہر صورت میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے چاہے ان کی قضا دن میں ہی پڑھی جائے اور اگر جان بوجھ کر بلند آواز سے نہ پڑھی جائیں تو نماز باطل ہے۔
س120. ہم جانتے ہیں کہ نماز کی ایک رکعت: نیت، تکبیرة الاحرام، حمد و سورہ اور رکوع و سجود پر مشتمل ہوتی ہے، دوسری طرف مغرب کی تیسری رکعت اورظہر و عصر اورعشاء کی آخری دورکعتوں کو آہستہ پڑھنا واجب ہے، لیکن ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے جو نماز جماعت براہ راست نشر کی جاتی ہے اسکی تیسری رکعت میں امام جماعت رکوع و سجود کے ذکر کو بلند آواز سے پڑھتا ہے جبکہ رکوع و سجود دونوں ہی اس رکعت کے جزء ہیں جس کو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں حکم کیا ہے؟
ج. مغرب و عشاء اور صبح کی نماز میں بلند آواز سے اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا واجب ہونا صرف حمد و سورہ سے مخصوص ہے، جیسا کہ مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں کے علاوہ باقی رکعتوں میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا واجب ہونا صرف سورہ حمد یا تسبیحات (اربعہ) سے مخصوص ہے، لیکن رکوع و سجود کے ذکر نیز تشہد و سلام اور اسی طرح نماز پنجگانہ کے دیگر واجب اذکار میں مکلف کو اختیار ہے کہ وہ انہیں بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز سے۔
س 121. اگر کوئی شخص، روزانہ کی سترہ رکعت نمازوں کے علاوہ، احتیاطاً سترہ رکعت قضا نماز پڑھنا چاہتا ہے تو کیا اس پر صبح اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے یا آہستہ آوازسے بھی پڑھ سکتا ہے؟
ج. نماز پنجگانہ کے اخفات و جہر کے واجب ہونے میں ادا اور قضا نماز کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے، خواہ وہ قضا نماز احتیاطی ہی کیوں نہ ہو۔
س 122. ہم جانتے ہیں کہ لفظ " صلوة " کے آخر میں " ت ' ' ہے لیکن اذان میں "حی علی الصلاہ" ، "ھائ" کے ساتھ کہتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟
ج. لفظ "صلوة" کو وقف کی صورت میں "ھا" کے ساتھ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہی متعین ہے۔
س 123. تفسیر سورۂ حمد میں امام خمینی کے نظریہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ آپ نے سورۂ حمد کی تفسیر میں لفظ "مَلِکِ" کو "مالکِ" پر ترجیح دی ہے تو کیا واجب و غیر واجب نمازوںمیں اس سورۂ مبارکہ کو احتیاطاً دونوں طریقوں سے پڑھنا صحیح ہے؟
ج. اس مقام میں احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س124. کیا نماز گزار کے لئے صحیح ہے کہ وہ "غیر المغضوب علیھم"پڑھنے کے بعد فوری عطف کے بغیر وقف کرے اور پھر "ولاالضآلین" پڑھے اور کیا تشہد میں اس جملے "اللھم صل علی محمد" میں "محمد" پر وقف کرنا اور پھر "و آل محمد" پڑھنا صحیح ہے؟
ج. اس حد تک وقف اور فاصلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک وحدت جملہ میں خلل پیدا نہ ہو۔
س125. امام خمینی سے درج ذیل استفتاء کیا گیاہے :
تجوید میں حرف "ضاد" کے تلفظ کے سلسلہ میں متعدد اقوال ہیں، آپ کس قول پر عمل کرتے ہیں؟ اس کا جواب امام خمینی نے یوں لکھا : علماء تجوید کے قول کے مطابق حروف کے مخارج کی شناخت واجب نہیں ہے بلکہ ہر حرف کا تلفظ اس طرح ہونا واجب ہے کہ عرب کے عرف کے نزدیک اس حرف کا ادا ہونا صادق آجائے۔ اب سوال یہ ہے:
اولاً۔اس عبارت کے معنی کیا ہیں "عرب کے عرف میں اس حرف کا ادا ہونا صادق آ جائے"۔
ثانیاً۔کیا علم تجوید کے قواعد، عرف عرب اور ان کی لغت سے نہیں بنائے گئے ہیں جیسا کہ صرف و نحو کے قواعد بھی انہیں سے بنائے گئے ہیں؟ پس کس طرح ان دو کے درمیان فرق کا قائل ہونا ممکن ہے؟
ثالثاً ۔ اگر کسی کو معتبر طریقے سے یقین ہوجائے کہ وہ قرأت کے وقت حروف کو صحیح مخارج سے ادا نہیں کرتا یا بطور کلی حروف و کلمات کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا اور اسے سیکھنے کیلئے ہر لحاظ سے موقع فراہم ہے مثلا اسے سیکھنے کیلئے اچھی استعداد یا مناسب فرصت رکھتا ہے تو کیا استعداد کی حد تک صحیح قرأت کو سیکھنے کیلئے کوشش کرنا واجب ہے؟ج. قرأت کے صحیح ہونے میں معیار یہ ہے کہ وہ اہل زبان کہ جن سے تجوید کے قواعد و ضوابط لئے گئے ہیں، انکی قرأت کی کیفیت کے موافق ہو۔ اس بنا پر حروف میں سے کسی حرف کے تلفظ کی کیفیت میں علمائے تجوید کے اقوال میں جو اختلاف ہے اگر یہ اختلاف اہل زبان کے تلفظ کی کیفیت کو سمجھنے میں ہو تو اس کا مرجع خوداہل لغت کا عرف ہے، لیکن اگر اقوال کے اختلاف کا سبب خود انکا تلفظ کی کیفیت میں اختلاف ہو تو مکلف کو اختیار ہے کہ ان اقوال میں سے جس قول کو چاہے اختیار کرے اور جو شخص اپنی قرأت کو صحیح نہیں سمجھتا اس کیلئے امکان کی صورت میں صحیح قرأت کو سیکھنے کیلئے اقدام کرنا ضروری ہے۔
س126. جو شخص ابتداء سے یا اپنی عادت کے مطابق(نماز میں) حمد اور سورہ ٔ اخلاص پڑھنے کا قصد رکھتا تھا، اگر وہ" بسم اللہ "پڑھے لیکن بھول کر سورہ کو معین نہ کرے تو کیا اس پر واجب ہے کہ پہلے سورہ معین کرے اس کے بعد دوبارہ بسم اللہ پڑھے؟
ج. اس پر بسم اللہ کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے، بلکہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کیلئے اس بسم اللہ پر اکتفا کرسکتا ہے۔
س127. کیا واجب نمازوں میں عربی الفاظ کو کامل طور پر ادا کرنا واجب ہے؟ اور کیا اس صورت میں بھی نماز صحیح ہوگی جب کلمات کا تلفظ مکمل طور پر صحیح عربی میں نہ کیا جائے؟
ج. نماز کے تمام واجب اذکار جیسے حمد و سورہ کی قرأت و غیرہ کا صحیح طریقہ سے ادا کرنا واجب ہے اور اگر نماز گزار عربی الفاظ کو صحیح طور پر ادا کرنے کی کیفیت کو نہیں جانتا تو اس پر سیکھنا واجب ہے اور اگر وہ سیکھنے سے عاجز ہو تو معذور ہوگا۔
س128. نماز میں قلبی قرأت یعنی حروف کو تلفظ کئے بغیر دل میں دہرانے پر قرأت صادق آتی ہے یا نہیں؟
ج. اس پر قرأ ت کا عنوان صادق نہیں آتا اور نماز میں واجب ہے کہ کلمات کو اس طریقے سے ادا کیا جائے کہ اس پر قرأت صادق آئے۔
س129. بعض مفسرین کی رائے کے مطابق قرآن مجید کے چند سورے جیسے سورہ فیل و قریش اور انشراح و ضحی کامل سورے نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ان سوروں میں سے کوئی ایک سورہ مثلا سورہ فیل پڑھے تو اس پر اس کے بعد سورہ قریش پڑھنا واجب ہے، اسی طرح سورہ انشراح و ضحی کو بھی ایک ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ پس اگر کوئی شخص مسئلہ سے نا واقف ہونے کی وجہ سے نماز میں فقط سورہ فیل یا سورہ انشراح پڑھے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج. اگر اس نے مسئلہ سیکھنے میں کوتاہی نہ کی ہو تو گذشتہ نمازوں کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جائیگا۔
س 130. اگر اثنائے نمازمیں ایک شخص غافل ہوجائے اور ظہر کی تیسری یا چوتھی رکعت میں حمد و سورہ پڑھ لے اور نماز تمام ہونے کے بعد اسے یاد آئے تو کیا اس پر اعاد ہ واجب ہے؟ اور اگر یاد نہ آئے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟
ج. مفروضہ صورت میں نماز صحیح ہے۔
س 131. کیا عورتیں صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں حمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھ سکتی ہیں؟
ج. بلند بھی پڑھ سکتی ہیں اور آہستہ بھی لیکن اگر نامحرم انکی آواز سن رہا ہو تو آہستہ پڑھنا بہتر ہے۔
س132. امام خمینی کا نظریہ یہ ہے کہ نماز ظہر و عصر میں آہستہ پڑھنے کا معیار، عدم جہر ہے اور یہ بات واضح ہے کہ دس حروف کے علاوہ باقی حروف آواز والے ہیں، لہذا اگر ہم نماز ظہر و عصر کو آہستہ اور بغیر آواز کے (اخفات کی صورت میں ) پڑھیں تو اٹھارہ جہری حروف کا تلفظ کیسے ہوگا؟ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
ج. اخفات کا معیار جوہر صدا کو ترک کرنا(یعنی بالکل بے صدا پڑھنا) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد جوہر صدا کا اظہار نہ کر نا ہے اور جہر کا معیار آواز کے جوہر کا اظہار کرنا ہے۔
س133. غیر عرب افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں جو اسلام قبول کر لیتے ہیں لیکن عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے تو وہ اپنے دینی واجبات یعنی نماز وغیرہ کو کس طرح ادا کرسکتے ہیں؟ اور بنیادی طورپرکیا اس سلسلہ میں عربی زبان سیکھنا ضروری ہے یا نہیں؟
ج. نماز میں تکبیرة الاحرام ، حمد و سورہ، تشہد، سلام اور ہر وہ چیز جس کا عربی ہونا شرط ہے اس کا سیکھنا واجب ہے۔
س134. کیا اس بات پر کوئی دلیل ہے کہ جہری نمازوں کے نوافل کو بلند آواز سے پڑھا جائے اور اسی طرح اخفاتی نمازوں کے نوافل کو آہستہ آواز سے پڑھا جائے، اور اگر جواب مثبت ہو تو کیا جہری نماز کے نوافل کو آہستہ آواز میں اور اخفاتی نماز کے نوافل کو بلند آواز سے پڑھنا کافی ہے؟
ج. جہری نمازوں کے نوافل میں قرأت کو بلند آواز سے پڑھنا اور آہستہ پڑھی جانے والی نمازوں کے نوافل کو آہستہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر اس کے بر عکس عمل کرے تو بھی کافی ہے۔
س135. کیا نماز میں سورہ حمد کے بعد ایک کامل سورہ کی تلاوت کرنا واجب ہے یا قرآن کی تھوڑی سی مقدار کا پڑھنا بھی کافی ہے؟ اور پہلی صورت میں کیاسورہ پڑھنے کے بعد قرآن کی چند آیتیں پڑھنا جائز ہے؟
ج. بنابر احتیاط واجب ضروری ہے کہ روز مرہ کی واجب نمازوں میں حمد کے بعد ایک کامل سورہ پڑھا جائے اور کامل سورہ کے بجائے قرآن کی چند آیات پڑھنا کافی نہیں ہے، لیکن مکمل سورہ پڑھنے کے بعد قرآن کے عنوان سے بعض آیات کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س136. اگر تساہل کی وجہ سے یا اس لہجہ کے سبب جس میں انسان گفتگو کرتا ہے حمد و سورہ کے پڑھنے یا نماز میں اعراب اور حرکات کلمات کی ادائیگی میں غلطی ہوجائے جیسے لفظ "یولَد"کے بجائے "یولِد"لام کو زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس نمازکا کیا حکم ہے؟
ج. اگر یہ جان بوجھ کر ہو تو نماز باطل ہے اور اگر جاہل مقصر ہو(جو سیکھنے پر قدرت رکھتا ہو) تو بھی بنا بر احتیاط واجب اس کی نماز باطل ہے ورنہ صحیح ہے البتہ جو گذشتہ نمازیں اسی طریقے سے پڑھ چکا ہے اس نظر یے کے ساتھ کہ یہ صحیح ہے انکی قضا کسی صورت میں بھی واجب نہیں ہے۔
س137. ایک شخص کی عمر ٣٥ یا ٤٠ سال ہے، بچپنے میں اس کے والدین نے اسے نماز نہیں سکھائی تھی، یہ شخص اَن پڑھ ہے اس نے صحیح طریقہ سے نماز سیکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ نماز کے اذکار اور کلمات کو صحیح طرح ادا کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ بعض کلمات کو تو وہ ادا ہی نہیں کر پاتا تو کیا اس کی نماز صحیح ہے؟
ج. جس کے تلفظ پر قادر ہے اگر اسے انجام دے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
س138. میں نماز کے کلمات کا ویسے ہی تلفظ کرتا تھا جیسا میں نے اپنے والدین سے سیکھا تھا اور جیسا ہمیں ہائی اسکول میں سکھایا گیا تھا، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میں ان کلمات کو غلط طریقہ سے پڑھتا تھا، کیا مجھ پر۔امام خمینی طاب ثراہ کے فتوے کے مطابق۔ نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے؟ یا وہ تمام نمازیں جو میں نے اس طریقہ سے پڑھی ہیں صحیح ہیں؟
ج. مفروضہ صورت میں گزشتہ تمام نمازوں کی صحت کا حکم لگایا جائیگا نہ ان میں اعادہ ہے اور نہ ہی قضا۔
س139. کیا اس شخص کی نماز اشاروں کے ساتھ صحیح ہے جو گونگے پن کی بیماری میں مبتلا ہے اور وہ بولنے پر قادر نہیں ہے، لیکن اس کے حواس سالم ہیں؟
ج. مذکورہ فرض کے مطابق اس کی نماز صحیح اور کافی ہے۔
- ذکرنماز
س 140. کیا جان بوجھ کر رکوع و سجود کے اذکار کو ایک دوسرے کی جگہ پڑھنے میں کوئی حرج ہے؟
ج. اگر انہیں محض اللہ تعالیٰ کے ذکر کے عنوان سے بجا لائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور رکوع و سجود اور پوری نماز صحیح ہے۔
س141. اگر کوئی شخص بھولے سے سجود میں رکوع کا ذکر پڑھے یا اس کے برعکس، رکوع میں سجود کا ذکر پڑھے اور اسی وقت اس کو یاد آجائے اور وہ اس کی اصلاح کر لے تو کیا اس کی نماز باطل ہے؟
ج. اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
س142. اگر نماز گزار کو نماز سے فارغ ہونے کے بعد یا اثنائے نماز میں یاد آجائے کہ اس نے رکوع یا سجود کا ذکر غلط پڑھا تھا تو حکم کیا ہے؟
ج. اگر رکوع و سجود کے بعد متوجہ ہو تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔
س143. کیا نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا کافی ہے؟
ج. کافی ہے، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ پڑھے۔
س144. نماز میں تین مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا چاہیے لیکن اگر کوئی شخص بھولے سے چار مرتبہ پڑھ لے تو کیا خدا کے نزدیک اسکی نماز قبول ہے؟
ج. اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س145. اس شخص کا کیا حکم ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس نے نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ تین مرتبہ پڑھی ہیں یا کم یا زیادہ؟
ج. ایک مرتبہ پڑھنا بھی کافی ہے اور وہ بری الذمہ ہے اورجب تک رکوع میں نہیں گیا کم پر بنا رکھتے ہوئے تسبیحات کا تکرار کرسکتا ہے تا کہ اسے تین مرتبہ پڑھنے کا یقین ہوجائے۔
س146. کیا نماز میں حرکت کی حالت میں "بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد"کہنا جائز ہے نیزکیا یہ قیام کی حالت میں صحیح ہے؟
ج. اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ا صولی طور پر اسے نماز کی اگلی رکعت کے لئے قیام کی حالت میں کہا جاتا ہے۔
س147. ذکر سے کیا مراد ہے؟ کیا اس میں نبی کریمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھی شامل ہے؟
ج. جو عبارت بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مشتمل ہو وہ ذکر ہے اور محمد و آل محمدعلیھم السلام پر صلوات بھیجنا بہترین اذکار میں سے ہے۔
س148. جب ہم نماز وتر میں کہ جو ایک ہی رکعت ہے، قنوت کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور خداوند متعال سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں تو کیافارسی میں اپنی حاجات طلب کرنے میں کوئی اشکال ہے؟
ج. قنوت میں فارسی میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ قنوت میں ہر دعا کو ہر زبان میں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
- سجدہ اور اس کے احکام
س149. سیمنٹ اور پتھر کی ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج. ان دونوں پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ ان پر تیمم نہ کیا جائے۔
س 150. کیا حالت نماز میں اس ٹائل پر ہاتھ رکھنے میں کوئی اشکال ہے جس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوں؟
ج. کوئی اشکال نہیں ہے۔
س151. کیا اس سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال ہے جو چکنی اور کالی ہوگئی ہو اس طرح کہ ایک چکنی تہ نے اس کے اوپر کے حصے کو ڈھانپ رکھا ہو اور وہ پیشانی کے سجدہ گاہ پر لگنے سے مانع ہو؟
ج. اگر سجدہ گاہ پر اس قدرچکنامیل ہو جو پیشانی اور سجدہ گاہ کے درمیان حائل ہو تو اس پر سجدہ باطل ہے اورنماز بھی باطل ہے۔
س152. ایک عورت سجدہ گاہ پر سجدہ کرتی تھی اور اس کی پیشانی خاص کر سجدہ کی جگہ، حجاب سے ڈھانپی ہوئی ہوتی تھی تو کیا اس پر ان نمازوں کا اعادہ کرنا واجب ہے؟
ج. اگر وہ سجدہ کے وقت اس حائل کی طرف متوجہ نہ تھی تو نمازوں کا اعادہ کرنا واجب نہیں ہے۔
س153. ایک عورت سجدہ گا ہ پر اپنا سر رکھتی ہے اور یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کی پیشانی مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہوئی ہے، گویا چادر یا دوپٹہ حائل ہے جو مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہونے دے رہاہے، لہذا و ہ اپنا سر اٹھاتی ہے اور حائل چیز کو ہٹا کر دوبارہ سجدہ گاہ پر اپنا سر رکھ دیتی ہے، اس مسئلہ کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس عمل کو مستقل سجدہ فرض کیا جائے تو اس کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا حکم ہے؟
ج. اس پر واجب ہے کہ پیشانی کو زمین سے اٹھائے بغیراس طرح حرکت دے کہ وہ سجدہ گاہ کے ساتھ مس ہوجائے اور اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے زمین سے پیشانی کا اٹھانا لاعلمی یا فراموشی کی وجہ سے ہو اور یہ کام وہ ایک رکعت کے دو سجدوں میں سے ایک میں انجام دے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اعادہ واجب نہیں ہے، لیکن اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کیلئے علم کے ساتھ اور جان بوجھ کر سر اٹھائے یاایک ہی رکعت کے دونوں سجدوں میں ایسا کرے تو اس کی نماز باطل ہے اور اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔
س154. حالت سجدہ میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھنا واجب ہے لیکن یہ عمل ہمارے لئے مقدور نہیں ہے، کیونکہ ہم ان جنگی زخمیوں میں سے ہیں جو ویلچیئر سے استفادہ کرتے ہیں۔ لہذا نماز کے لئے ہم یا سجدہ گاہ کو پیشانی تک لاتے ہیں یا سجدہ گاہ کو کرسی کے دستہ پر رکھ کر اس پر سجدہ کرتے ہیں توکیا ہمارا یہ عمل صحیح ہے یا نہیں؟
ج. اگر آپ کرسی کے دستے، اسٹول اور تکیے و غیرہ پر سجدہ گاہ رکھ کر اس پر سجدہ کرسکتے ہیں تو ایسا ہی کریں اور آپ کی نماز صحیح ہے، ورنہ جو طریقہ بھی آپ کیلئے ممکن ہو خواہ اشارہ یا ایماء ہی سے رکوع و سجود کریں تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو مزید توفیق عنایت فرمائے۔
س155. مقامات مقدسہ میں زمین پر بچھائے گئے سنگ مرمر پر سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج. سنگ مرمر پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س156. سجدہ کی حالت میں انگوٹھے کے علاوہ پیر کی بعض دیگر انگلیوں کے زمین پر رکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج. اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س157. حال ہی میں نماز کے لئے ایک سجدہ گاہ بنائی گئی ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ نماز گزار کی رکعتوں اور سجدوں کو شمار کرتی ہے اور کسی حد تک شک کو دور کرتی ہے واضح رہے کہ جب اس پر پیشانی رکھی جائے تو وہ نیچے کی طرف حرکت کرتی ہے کیونکہ سجدہ گاہ کے نیچے لوہے کی اسپرنگ لگی ہوئی ہے، کیا ایسی صورت میں اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے؟
ج. اگر پیشانی رکھنے کی جگہ ان چیزوں میں سے ہو کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور پیشانی رکھنے کے بعد وہ ایک جگہ ٹھہر جاتی ہو تو اس پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س158. سجدوں کے بعد بیٹھتے وقت ہم کس پیر کو دوسرے پیر کے اوپر رکھیں؟
ج. مستحب ہے کہ بائیں پیر پر بیٹھے اور داہنے پیر کے ظاہری حصہ کو بائیں پیر کے باطنی حصہ پررکھے۔
س159. رکوع و سجود میں واجب ذکر پڑھنے کے بعد کون سا ذکر افضل ہے؟
ج. اسی واجب ذکر کا تکرار اور بہتر یہ ہے کہ وہ طاق پر تمام ہواور سجود میں اس کے علاوہ صلوات پڑھنا اور دنیوی و اخروی حاجات کیلئے دعاکرنا بھی مستحب ہے۔
س160. اگر ریڈیو ، ٹیپ ریکارڈر اور ٹی وی کے ذریعہ ایسی آیات نشر ہورہی ہوں جن میں سجدہ واجب ہے تو ان کو سننے کے بعد شرعی فریضہ کیا ہے؟
ج. سجدہ کرنا واجب ہے۔
- مبطلات نماز
س161. کیا تشہد میں "اشھد انّ امیر المؤمنین علیاً ولی اللہ" کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟
ج. نماز اورتشہد کو اسی طریقے سے پڑھیں جومراجع عظام کی توضیح المسائل میں بیان کیا گیا ہے اور اس میں کسی چیز کا اضافہ نہ کریں اگر چہ وہ بذات خود حق اور صحیح بھی ہو۔
س162. ایک شخص اپنی عبادتوں میں ریا کاری میں مبتلا ہے اور اب وہ اپنے نفس سے جہاد کر رہا ہے تو کیا اسے بھی ریا کاری سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور وہ ریاء سے کس طرح اجتناب کرے؟
ج. قربةً الی اللہ کے قصد سے جو عبادات بجالائی جائیں اور انہیں میں ایک ریا کے مقابلے میں جہاد ہے وہ ریا نہیں ہیں اور ریا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے چاہئے کہ وہ عظمت و شان خدا وندی اور دوسروں کے ضعف اور خدا کی طرف محتاج ہونے کو نظر میں رکھے نیز اپنی اور دیگر انسانوں کی اللہ تعالیٰ کے لئے عبودیت کے بارے میں غور کرے۔
س163. برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت، امام جماعت کے سورۂ حمد پڑھنے کے بعداجتماعی صورت میں بلند آواز سے لفظ "آمین" کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج. اگرتقیہ "آمین" کہنے کا اقتضا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔
س164. اگر ہم واجب نماز کے اثناء میں بچے کو کوئی خطرناک کام کرتے ہوئے دیکھیں تو کیا سورۂ حمد یا دوسرے سورہ یا بعض اذکار کے کچھ کلمات کو بلند آواز سے پڑھنا ہمارے لئے جائز ہے تا کہ بچہ متنبہ ہو جائے، یا اس بارے میں موجود کسی اور شخص کو متوجہ کریں تا کہ خطرہ دور ہو جائے؟ نیز اثنائے نماز میں ہاتھ کو حرکت دے کر یا بھنووں کے ذریعہ، کسی شخص کو کوئی کام سمجھانے یا اس کے کسی سوال کے جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر آیات و اذکار پڑھتے وقت، دوسروں کو خبردار کرنے کے لئے آواز بلند کرنا نماز کو اپنی ہیئت (حالت) سے خارج نہ کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ قرأت اور ذکر کو، قرأت و ذکر ہی کی نیت سے انجام دیا جائے۔ حالت نماز میں ہاتھ ، آنکھ یا ابرو کو حرکت دینا اگر مختصر ہو اور سکون و اطمینان یا نماز کی شکل کے منافی نہ ہو تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
س165. اگر اثنائے نماز میں کوئی شخص کسی مضحکہ خیز بات کے یاد آنے یا کسی ہنسانے والے سبب کے پیش آنے سے ہنس پڑے توکیا اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟
ج. اگر ہنسی جان بوجھ کر اور آواز کے ساتھ یعنی قہقہہ ہو تو نماز باطل ہے۔
س 166. کیا قنوت کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے؟ اور اگر یہ باطل ہونے کا باعث ہے تو کیا اسے معصیت و گناہ بھی شمار کیا جائے گا؟
ج. مکروہ ہے لیکن نماز کے باطل ہونے کا باعث نہیں ہے۔
س167. کیا حالت نماز میں دونوں آنکھوں کا بند کرنا جائز ہے، کیونکہ آنکھیں کھلی رکھنے سے انسان کی فکر نماز سے ہٹ جاتی ہے؟
ج. حالت نماز میں آنکھوں کو بند کرنے میں شرعی ممانعت نہیں ہے اگرچہ رکوع کے غیر میں مکروہ ہے ۔
س 168. میں بعض اوقات اثنائے نماز میں ان ایمانی لمحات اور معنوی حالات کو یاد کرتا ہوں جو میں ایران و عراق جنگ کے دوران رکھتا تھا اس سے نماز میں میرے خشوع میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیا اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟
ج. اس سے نماز کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
س169. اگر دو اشخاص کے درمیان تین دن تک دشمنی اور جدائی باقی رہے تو کیا اس سے ان کا نماز روزہ باطل ہو جاتا ہے؟
ج. دو اشخاص کے درمیان دشمنی اور جدائی پیدا ہونے سے نماز روزہ باطل نہیں ہوتا اگر چہ یہ کام شرعاً مذموم ہے ۔
- جواب سلام کے احکام
س170. جو تحیت (مثلا آداب وغیرہ) سلام کے صیغہ کی صورت میں نہ ہو تو اس کا جواب دینے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ج. اگر انسان نماز میں ہے تواس کا جواب دینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر حالت نماز میں نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کلام ہو جسے عرف میں سلام شمار کیا جاتا ہوتو جواب دے۔
س171. کیا بچوں اور بچیوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
ج. لڑکے اور لڑکیوں میں سے ممیز بچوں کے سلام کا جواب دینا اسی طرح واجب ہے جیسے مردوں اور عورتوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے۔
س172. اگر کسی شخص نے سلام سنا اور غفلت یا کسی دوسری وجہ سے اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ تھوڑا فاصلہ ہوگیا تو کیا اس کے بعد سلام کا جواب واجب ہے؟
ج. اگر اتنی تاخیر ہوجائے کہ اس کو سلام کا جواب نہ کہا جائے تو جواب دینا واجب نہیں ہے۔
س173. اگر ایک شخص چند لوگوں پر اس طرح سلام کرے :"السلام علیکم جمیعا"اور ان میں سے ایک نماز پڑھ رہا ہو توکیا نماز پڑھنے والے پر سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ اگرچہ حاضرین سلام کا جواب دے دیں۔
ج. اگر کوئی دوسرا جواب دے دے تو نمازی جواب نہ دے۔
س174. اگر ایک شخص ایک ہی وقت میں کئی بار سلام کرے یا متعدد اشخاص سلام کریں تو کیا سب کا ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے؟
ج. پہلی صورت میں ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے اور دوسری صورت میں ایسے صیغہ کے ذریعہ جواب دینا جو سب کو شامل ہو اور سب کے سلام کا جواب دینے کی غرض سے ہو تو کافی ہے۔
س175. ایک شخص "سلام علیکم"کے بجائے صرف "سلام"کہتاہے۔ کیا اس کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
ج. اگر عرف میں اسے سلام و تحیت کہا جاتا ہو تو اس کا جواب دینا واجب ہے۔
- شکیات نماز
س176. جو شخص نماز کی تیسری رکعت میں ہو اور اسے یہ شک ہو کہ قنوت پڑھا ہے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ اپنی نماز کو تمام کرے یا شک پیدا ہوتے ہی اسے توڑ دے؟
ج. مذکورہ شک کی پروا نہیں کی جائے گی اور نماز صحیح ہے اور اس سلسلہ میں مکلف کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔
س 177. کیا نافلہ نمازوں میں رکعات کے علاوہ کسی اور چیز میں شک کی پروا کی جائیگی؟ مثلاً یہ شک کرے کہ ایک سجدہ بجا لایا ہے یا د و؟
ج. نافلہ کے اقوال و افعال میں شک کی پروا کرنے کا وہی حکم ہے جو واجب نمازوں کے اقوال و افعال میں شک کا ہے، یعنی اگر انسان محل شک سے نہ گزرا ہوتو شک کی اعتناء کرے اور محل شک کے گزر جانے کے بعد شک کی پروانہ کرے۔
س178. کثیرالشک اپنے شک کی پروا نہیں کرے گا، لیکن اگر نماز میں وہ شک کرے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج. اس کا فریضہ یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں شک ہو اس کے بجا لانے پر بنا رکھے، مگر یہ کہ اس کا بجالانا نماز کے بطلان کا سبب ہو تو اس صورت میں اسے بجانہ لانے پر بنا رکھے اس سلسلہ میں رکعات، افعال اور اقوال کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
س 179. اگر کوئی شخص چند سال کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ اس کی عبادتیں باطل تھیں یا وہ ان میں شک کرے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج. عمل کے بعد شک کی پروا نہیں کی جاتی اور باطل ہونے کے علم کی صورت میں قابل تدارک عبادتوں کی قضاء واجب ہے۔
س 180. اگر بھول کر نماز کے بعض اجزاء کو دوسرے اجزاء کی جگہ بجا لائے یا اثنائے نماز میں اس کی نظر کسی چیز پر پڑ جائے یا بھولے سے کچھ کہہ دے تو کیا اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ اور اس پر کیا واجب ہے؟
ج. نماز میں بھولے سے جو اعمال سرزد ہو جاتے ہیں وہ باطل ہونے کا سبب نہیں ہیں؟ ہاں بعض موقعوں پر سجدہ سہو کا موجب بنتے ہیں، لیکن اگر کسی رکن میں کمی یا زیادتی ہو جائے تو اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
س181. اگر کوئی شخص اپنی نماز کی ایک رکعت بھول جائے اور پھر آخری رکعت میں اسے یاد آجائے مثلاً پہلی رکعت کو دوسری رکعت خیال کرے اور اس کے بعد تیسری اور چوتھی رکعت بجا لائے، لیکن آخری رکعت میں وہ اس بات کی طرف متوجہ ہو جائے کہ یہ تیسری رکعت ہے تو اس کا شرعی فریضہ کیا ہے؟
ج. سلام سے قبل اس پر اپنی نماز کی چھوٹی ہوئی رکعت کو بجا لانا واجب ہے، اس کے بعد سلام پھیرے، اور اس صورت میں چونکہ واجب تشہد کو اس کے مقام پر بجا نہیں لایا لذا واجب ہے کہ بھولے ہوئے تشہد کی خاطر دوسجدے سہو کے انجام دے اور احتیاط یہ ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے بھولے ہوئے تشہد کی قضا کرے۔
س 182. کسی شخص کے لئے نماز احتیاط کی رکعات کی تعداد کا جاننا کیسے ممکن ہے کہ یہ ایک رکعت ہے یا دو رکعت؟
ج. نماز احتیاط کی رکعتوں کی مقدار اتنی ہی ہو گی جتنی احتمالی طور پر نماز میں چھوٹ گئی ہیں۔ پس اگر دو اور چار کے درمیان شک ہو تو دو رکعت نماز احتیاط واجب ہے اور اگر تین اور چار کے درمیان شک ہو تو ایک رکعت کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط واجب ہے۔
س183. اگر کوئی شخص بھولے سے یا غلطی سے اذکار نماز، آیات قرآن یا دعائے قنوت کا کوئی لفظ غلط پڑھے تو کیا اس پر سجدۂ سہو واجب ہے؟
ج. واجب نہیں ہے۔
- قضا نماز
س 184. میں سترہ سال کی عمر تک احتلام اور غسل و غیرہ کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور ان امور کے متعلق کسی سے بھی کوئی بات نہیں سنی تھی، خود بھی جنابت اور غسل واجب ہونے کے معنی نہیں سمجھتا تھا، لہذا کیا اس عمر تک میرے روزے اور نمازوں میں اشکال ہے، آپ مجھے اس فریضہ سے مطلع فرمائیں جس کا انجام دینا میرے اوپر واجب ہے؟
ج. ان تمام نمازوں کی قضا واجب ہے جو آپ نے جنابت کی حالت میں پڑھی ہیں، لیکن اصل جنابت کا علم نہ ہونے کی صورت میں آپ نے جو روزے جنابت کی حالت میں رکھے ہیں وہ صحیح اور کافی ہیں اور ان کی قضا واجب نہیں ہے۔
س 185. افسوس کہ میں جہالت اور ضعیف الارادہ ہونے کی وجہ سے استمناء کیا کرتا تھا جس کے باعث بعض اوقات نماز نہیں پڑھتا تھا، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ میں نے کتنی مدت تک نماز ترک کی ہے،میرا نماز نہ پڑھنا مسلسل نہیں تھا بلکہ صرف ان اوقات میں نماز نہیں پڑھتا تھا جن میں مجنب ہوتا تھا اور غسل نہیں کر پاتا تھا میرے خیال میں تقریبا چھ ماہ کی نماز چھوٹی ہوگی اور میں نے اس مدت کی قضا نمازوں کو بجا لانے کا ارادہ کر لیا ہے، کیا ان نمازوں کی قضا واجب ہے یا نہیں؟
ج. جتنی پنجگانہ نمازوں کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ ادا نہیں کی ہیں یا حالت جنابت میں پڑھی ہیں، ان کی قضا واجب ہے۔
س186. جس شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں یا نہیں اگر بالفرض اس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں تو کیا اس کی مستحب اور نافلہ کے طور پر پڑھی ہوئی نمازیں، قضا نمازیں شمار ہو جائیں گی؟
ج. نوافل اور مستحب نمازیں، قضا نمازیں شمار نہیں ہوں گے، اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں تو ان کو قضا کی نیت سے پڑھنا واجب ہے۔
س187. میں تقریباً چھ ماہ قبل بالغ ہوا ہوں اور بالغ ہونے سے چند ہفتے پہلے تک میں یہ سمجھتا تھا کہ بلوغ کی علامت، صرف قمری حساب سے پندرہ سال کا مکمل ہونا ہے۔ مگر میں نے اب ایک کتاب کا مطالعہ کیا ہے جس میں لڑکوں کے بلوغ کی دیگر علامات بیان ہوئی ہیں،جو مجھ میں پائی جاتی تھیں، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ علامتیں کب سے شروع ہوئی ہیں، کیا اب میرے ذمہ نماز و روزہ کی قضا ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ میں کبھی کبھی نماز پڑھتا تھا اور گزشتہ سال ماہ رمضان کے مکمل روزے میں نے رکھے ہیں لہذا میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج. ان تمام روزوں اور نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے شرعی طور پر بالغ ہونے کے بعد، چھوٹ جانے کا یقین ہو۔
س188. اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں تین غسل جنابت انجام دے، مثلاً ایک غسل بیس تاریخ کو، دوسرا پچیس تاریخ کو اور تیسرا ستائیس تاریخ کو انجام دے، اور اسے یہ یقین ہو جائے کہ ان میں سے ایک غسل باطل تھا، تو اس شخص کے نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟
ج. روزے صحیح ہیں، لیکن احتیاط کی بنا پر نماز کی قضا اس طرح واجب ہے کہ اسے بری الذمہ ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔
س 189. ایک شخص نے ایک عرصہ تک حکم شرعی سے لاعلمی کی بنا پر غسل جنابت میں ترتیب کی رعایت نہیں کی تو اس کی نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر غسل اس طرح انجام دیا ہو جو شرعاً باطل ہو تو جو نمازیں اس نے حدث اکبر کی حالت میں پڑھی ہیں ان کی قضا واجب ہے، لیکن اس کے روزوں کی صحت کا حکم لگایا جائیگا اگر وہ اس وقت اپنے غسل کو صحیح سمجھتا تھا ۔
س 190. جو شخص ایک سال کی قضا نماز یں پڑھنا چاہتا ہے اسے کس طرح قضا کرنی چاہیے؟
ج. وہ کسی ایک نماز کو شروع کرے اور پھر انہیں نماز پنجگانہ کی ترتیب سے پڑھتا رہے.
س191. اگر کسی شخص پر کافی عرصے کی قضا نمازیں واجب ہوں توکیا وہ درج ذیل ترتیب کے مطابق ان کی قضا کر سکتا ہے؟
١) صبح کی مثلا بیس نمازیں پڑھے۔
٢) ظہر و عصر میں سے ہر ایک کی بیس بیس نمازیں پڑھے۔
٣) مغرب و عشاء میں سے ہر ایک کی بیس بیس نمازیں پڑھے اور سال بھر اسی طریقہ پر عمل پیرا رہے۔ج. مذکورہ طریقہ سے قضا نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س192. ایک شخص کا سر زخمی ہو گیا ہے اور یہ زخم اس کے دماغ تک جا پہنچا ہے اس کے نتیجہ میں اس کا ہاتھ، بایاں پیر اور زبان شل ہو گئی ہے چنانچہ وہ نماز کا طریقہ بھول گیا ہے اور وہ اسے دوبارہ سیکھ بھی نہیں سکتا ہے، لیکن کتاب سے پڑھ کر یا کیسٹ سے سن کر نماز کے مختلف اجزاء کو سمجھ سکتا ہے، اس وقت نماز کے سلسلہ میں اس کے سامنے دومشکلیں ہیں:
١) وہ پیشاب کے بعد طہارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی وضو کر سکتا ہے۔
٢) نماز میں قرأت اس کے لئے مشکل ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ اور اسی طرح تقریبا چھ ماہ سے اس کی جو نماز یں چھوٹ گئی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ج. اگر وضو یا تیمم کر سکتا ہوخواہ دوسروں کی مدد سے ہی تو واجب ہے کہ وہ جس طرح نماز پڑھ سکے، نماز پڑھے، چاہے کیسٹ سن کر یا کتاب میں دیکھ کر یاکسی اور طریقہ سے۔ اور اگر بدن کا پاک کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے حتی کہ کسی دوسرے کی مدد سے بھی تو اسی نجس بدن کے ساتھ نماز پڑھے اور اسکی نماز صحیح ہے اور گزشتہ فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا واجب ہے، مگر جس نماز کے پورے وقت میں وہ بے ہوش رہا ہو تو اس کی قضا واجب نہیں ہے۔
س193. جوانی کے زمانہ میں مغرب و عشاء اور صبح کی نماز سے زیادہ میں نے ظہر و عصر کی نمازیں قضا کی ہیں، لیکن نہ میں ان کے تسلسل کو جانتا ہوں نہ ترتیب کو اور نہ ان کی تعداد کو، کیا اس موقع پر اسے نماز "دور" پڑھنا ہوگی؟ اور نماز "دور" کیا ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
ج. قضا نمازوں میں ترتیب کی رعایت کرنا واجب نہیں ہے سوائے ایک دن کی ظہر و عصر اور مغرب و عشا کے اور جتنی نمازوں کے فوت ہونے کا آپ کو یقین ہو انہی کی قضا بجا لانا کافی ہے اور ترتیب کے حصول کے لئے آپ پر دوریعنی اس طرح نمازوں کا تکرار کرنا کہ انکے در میا ن ترتیب کا علم ہوجائے واجب نہیں ہے۔
س 194. شادی کے بعد کبھی کبھی مجھ سے ایک قسم کا بہنے والا مادہ نکلتا تھا، جسے میں نجس سمجھتا تھا۔ اس لئے غسل جنابت کی نیت سے غسل کرتا اور پھر وضو کے بغیر نماز پڑھتا تھا، توضیح المسائل میں اس بہنے والے مادہ کو "مذی" کا نام دیا گیا ہے، اب یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ جو نمازیں میں نے مجنب ہوئے بغیر غسل جنابت کر کے بغیر وضو کے پڑھی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
ج. وہ تمام نمازیں جو آپ نے بہنے والے مادہ کے نکلنے کے بعد غسل جنابت کر کے وضو کئے بغیر ادا کی ہیں، ان کی قضا واجب ہے۔
س 195. کافر اگر بالغ ہونے کے کچھ عرصہ بعد اسلام لائے تو کیا اس پر ان نمازوں اور روزوں کی قضا واجب ہے؟ جو اس نے ادا نہیں کیے ہیں؟
ج. واجب نہیں ہے۔
س 196. بعض اشخاص نے کمیونسٹوں کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کے زیر اثر کئی سال تک اپنی نماز اور دیگر واجبات ترک کر دئیے تھے، لیکن امام خمینی کی طرف سے سابق سوویت یونین کے حکمرانوں کے نام تاریخی پیغام کے آنے کے بعد انہوں نے خدا سے توبہ کر لی ہے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور اب وہ چھوٹ جانے والے تمام واجبات کی قضا نہیں کر سکتے، ان کا کیا فریضہ ہے؟
ج. جتنی مقدار میں بھی ممکن ہو ان پر چھوٹ جانے والی نماز اور روزوں کی قضا کرنا واجب ہے اور جس مقدار پر قادر نہیں ہیں اسکی وصیت کرنا ضروری ہے۔
س197. ایک شخص فوت ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ رمضان المبارک کے روزے اور قضا نمازیں ہیں اور اس کا کوئی بیٹا بھی نہیں ہے لیکن اس نے کچھ مال چھوڑا ہے کہ جو نماز اور روزوں میں سے صرف ایک کی قضا کیلئے کافی ہے تو اس صورت میں کس کو مقدم کیا جائے؟
ج. نماز اور روزہ میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں ہے،اور وارثوں پر واجب نہیں ہے کہ اسکے ترکہ کو اسکی نماز اور روزوں کی قضا کے لئے خرچ کریں مگر یہ کہ اس نے اسکی وصیت کی ہو تو اسکے ایک تہائی تر کہ سے اسکی جتنی نمازوں اور روزوں کی قضا کیلئے کسی کو اجیر بنانا ممکن ہے اجیر بنائیں۔
س 198. میں زیادہ تر نمازیں پڑھتا رہا ہوں اورچھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا کرتا رہا ہوں۔ یہ چھوٹ جانے والی نمازیں وہ ہیں جن کے اوقات میں، میں سو رہا تھا یا اسوقت میرا بدن و لباس نجس تھا کہ جن کا پاک کرنا دشوار تھا، لہذا نماز پنجگانہ، نماز قصر اور نماز آیات میں سے اپنے ذمے میں موجود نمازوں کا حساب کیسے لگاؤں؟
ج. جتنی نمازوں کے چھوٹ جانے کا یقین ہو انہی کی قضا بجالاناکافی ہے اور ان میں سے جتنی مقدار کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ وہ قصر ہیں یا نماز آیات، تو انہیں اپنے یقین کے مطابق بجا لائیے اور باقی کو نماز پنجگانہ کے طور پر پڑھیے اس سے زیادہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔
- ماں باپ کی قضا نمازیں
س 199. میرے والد فالج (برین ہیمبرج) کا شکار ہوئے اور اس کے بعد دو سال تک مریض رہے، اس مرض کی بنا پر وہ اچھے برے میں تمیز نہیں کر پاتے تھے یعنی ان سے سوچنے سمجھنے کی قوت ہی سلب ہو گئی تھی، چنانچہ دو برسوں کے دوران انہوں نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی نماز ادا کی۔ میں ان کا بڑا بیٹا ہوں، لہذا کیا مجھ پر ان کے روزہ اور نماز کی قضا واجب ہے؟. جبکہ میں جانتا ہوں کہ اگر وہ مذکورہ مرض میں مبتلا نہ ہوتے تو ان کی قضا مجھ پر واجب تھی۔ اس مسئلہ میں آپ میری راہنمائی فرمائیں۔
ج. اگر ان کی قوت عاقلہ اتنی زیادہ کمزور نہیں ہوئی تھی کہ جس پر جنون کا عنوان صادق آ سکے اور نماز کے پورے اوقات میں وہ بے ہوش بھی نہیں رہتے تھے تو ان کی چھوٹ جانے والی نمازوںاور روزوں کی قضا واجب ہے ورنہ اس سلسلے میں آپ پر کچھ واجب نہیں ہے۔
س 200. اگر ایک شخص مر جائے تو اس کے روزہ کا کفارہ دینا کس پر واجب ہے؟ کیا اس کے بیٹوں اور بیٹیوں پر یہ کفارہ دینا واجب ہے؟ یا کوئی اور شخص بھی دے سکتا ہے؟
ج. جو کفارہ باپ پر واجب تھا اگر وہ کفارۂ مخیرہ تھا یعنی وہ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے پر قدرت رکھتا تھا تو اگر اسکے ترکہ میں سے کفارہ کا دینا ممکن ہو تو اس میں سے نکالا جائے، ورنہ واجب یہ ہے کہ بڑا بیٹا روزے رکھے۔
س 201. ایک سن رسیدہ آدمی بعض معلوم اسباب کی بناپر اپنے گھروالوں سے الگ ہوجاتا ہے اور اس کیلئے ان سے رابطہ رکھنا مقدور نہیں ہے اور یہی اپنے باپ کا سب سے بڑا بیٹا بھی ہے، اسی زمانے میں اس کے والد کا انتقال ہو جاتاہے اور وہ باپ کی قضا نمازوںو غیرہ کی مقدار نہیں جانتا ہے اور اس کے پاس اتنا مال بھی نہیں ہے کہ وہ باپ کی نماز اجارہ پرپڑھوائے۔ نیز بڑھاپے کی وجہ سے خود بھی باپ کی قضا نمازیں بجا نہیں لا سکتا اسکی ذمہ داری کیا ہے؟
ج. باپ کی صرف انہی نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے چھوٹ جانے کا بڑے بیٹے کو یقین ہو اور جس طریقے سے بھی ممکن ہو بڑے بیٹے پر باپ کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔ ہاں اگر وہ انہیں ادا نہ کر سکتا ہوحتی کہ کسی کو اجیر بنا کر بھی تو وہ معذور ہے۔
س202. اگر کسی شخص کی اولاد میں سے سب سے بڑی بیٹی ہو اور دوسرے نمبر پر بیٹا ہو تو کیا ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے اس بیٹے پر واجب ہیں؟
ج. معیار یہ ہے کہ بیٹوں میں سب سے بڑا بیٹا ہو اگر اس کے والدکے اور بیٹے بھی ہوں لہذا مذکورہ سوال میں باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا اس بیٹے پر واجب ہے جو باپ کی اولاد میں سے دوسرے نمبر پرہے اور ماں کی چھوٹی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا بھی بنا بر احتیاط واجب ہے۔
س 203. اگر بڑے بیٹے کا باپ سے پہلے انتقال ہو جائے ۔خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ۔ تو کیا باقی اولاد سے باپ کی نمازوں کی قضا ساقط ہو جائے گی یا نہیں؟
ج. باپ کے روزہ اور نماز کی قضا اس بڑے بیٹے پر واجب ہے، جو باپ کی وفات کے وقت زندہ ہو خواہ وہ باپ کی پہلی اولاد یا پہلا بیٹا نہ بھی ہو۔
س 204. میں اپنے باپ کی اولاد میں بڑا بیٹا ہوں، کیا مجھ پر واجب ہے کہ باپ کی قضا نمازوں کی ادائیگی کی غرض سے ان کی زندگی میں ان سے تحقیق کروں یا ان پر واجب ہے کہ وہ مجھے ان کی مقدار سے با خبر کریں، پس اگر وہ با خبر نہ کریں تو میرا کیا فریضہ ہے؟
ج. آپ پر تحقیق اور سوال کرنا واجب نہیں ہے، لیکن اس سلسلہ میں باپ پر واجب ہے کہ جب تک اسکے پاس فرصت ہے خود پڑھے اور اگرنہ پڑھ سکے تو وصیت کرے بہر حال بڑے بیٹے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کے ان روزوں اور نمازوں کی قضا کرے کہ جن کے چھوٹ جانے کا اسے یقین ہے۔
س 205. ایک شخص کا انتقال ہوا ہے، اور اس کا کل اثاثہ وہ گھر ہے جس میں اس کی اولاد رہتی ہے، اور اس کے ذمہ روزے اور نمازیں باقی رہ گئے ہیں اور بڑا بیٹا اپنی روزمرہ مصروفیات کی بنا پر انہیں ادا نہیں کر سکتا، پس کیا ان پر واجب ہے کہ وہ اس گھر کو فروخت کر کے باپ کے روزے اور نمازیں قضاکروائیں؟
ج. مذکورہ فرض میں گھر بیچنا واجب نہیں ہے لیکن باپ کی نمازوں اور روزوں کی قضا بہر صورت اس کے بڑے بیٹے پر ہے، لیکن اگر مرنے والا یہ وصیت کر جائے کہ اس کے ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے اجرت پر نماز اور روزہ کی قضا کرائیں اورایک تہائی ترکہ بھی اس کی تمام نمازوں اور روزوں کی قضا کے لئے کافی ہو تو ترکہ میں سے ایک تہائی مال اس کام میں صرف کرنا واجب ہے۔
س 206. اگر بڑا بیٹا جس پر باپ کی قضا نماز یںواجب تھیں، مر جائے تو کیا اس قضا کو بڑے بیٹے کے وارث ادا کریں گے یا یہ قضا اسکے دوسرے بڑے بیٹے پر واجب ہو گی؟
ج. باپ کی جو قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب تھے، باپ کے فوت ہوجانے کے بعد اس بڑے بیٹے کے فوت ہوجانے کی صورت میں اسکے بیٹے یابھائی پر واجب نہیں ہیں۔
س 207. اگر باپ نے کوئی نماز نہ پڑھی ہو تو کیا اس کی ساری نمازیں قضا ہیں اور بڑے بیٹے پر ان کا بجا لانا واجب ہے؟
ج. بنا بر احتیاط اس کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔
س 208. جس باپ نے جان بوجھ کر اپنے تمام عبادی اعمال کو ترک کر دیا ہو تو کیا بڑے بیٹے پر اسکی تمام نمازوں اور روزوں کا ادا کرنا واجب ہے کہ جن کی مقدار پچاس سال تک پہنچتی ہے؟
ج. اس صورت میں بھی احتیاط ان کی قضا کرنے میں ہے۔
س 209. جب بڑے بیٹے پر خود اس کی نماز اور روزوں کی بھی قضا ہو اور باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا بھی ہو تو اس وقت دونوں میں سے کس کو مقدم کرے گا؟
ج. اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ جس کو بھی پہلے شروع کرے صحیح ہے۔
س 210. میرے والد کے ذمہ کچھ قضا نمازیں ہیں لیکن انہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہیں ہے اور میں ان کا بڑا بیٹا ہوں، کیا یہ جائز ہے کہ میں ان کی چھوٹ جانے والی نمازیں بجا لاؤں یا کسی شخص کو اس کا م کے لئے اجیر کروں جبکہ وہ ابھی زندہ ہیں؟
ج. زندہ شخص کی قضا نمازوں اور روزوں کی نیابت صحیح نہیں ہے۔
- نماز جماعت
س 211. امام جماعت نماز میں کیا نیت کرے؟ جماعت کی نیت کرے یا فرادیٰ کی؟
ج. اگر جماعت کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے تو واجب ہے کہ امامت و جماعت کا قصد کرے اور اگر امامت کے قصد کے بغیر نماز شروع کر دے تو اس کی نماز میں اور دوسروں کے لئے اس کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س212. فوجی مراکز میں نماز جماعت کے وقت۔کہ جو دفتری کام کے اوقات میں قائم ہوتی ہے۔ بعض کارکن کام کی وجہ سے نماز جماعت میں شریک نہیں ہو پاتے، حالانکہ وہ اس کام کو دفتری اوقات کے بعد یا دوسرے دن بھی انجام دے سکتے ہیں تو کیا اس عمل کو نماز کو اہمیت نہ دینا شمار کیا جائے گا؟
ج. اول وقت اور جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ دفتری امور کو اس طرح منظم کریں جس سے وہ لوگ اس الٰہی فریضہ کو کم سے کم وقت میں جماعت کے ساتھ انجام دے سکیں۔
س 213. ان مستحب اعمال، جیسے مستحب نماز یا دعائے توسل اور دوسری دعاؤں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو سرکاری اداروں میں نماز سے پہلے یا بعد میں یا اثنائے نماز میں پڑھی جاتی ہیں کہ جن میں نماز جماعت سے بھی زیادہ وقت صرف ہوتا ہے؟
ج. وہ مستحب اعمال اور دعائیں جو نماز جماعت کہ جو الہی فریضہ اور اسلامی شعائر میں سے ہے، کے ساتھ انجام پاتے ہیں، اگر دفتری وقت کے ضائع ہونے اور واجب کاموں کی انجام دہی میںتاخیر کا باعث ہوں تو ان میں اشکال ہے۔
س 214. کیا اس جگہ دوسری نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے جہاں سے قریب ہی نماز گزاروں کی بڑی تعداد کے ساتھ ایک اور نماز جماعت بر پا ہو رہی ہو اس طرح کہ اس کی اذان اور اقامت کی آواز بھی سنائی دے؟
ج. دوسری جماعت کے قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن مؤمنین کے شایان شان یہ ہے کہ وہ ایک ہی جگہ جمع ہوں اور ایک ہی جماعت میں شریک ہوں تاکہ نماز جماعت کی عظمت کوچار چاند لگ جائیں۔
س 215. جب مسجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے تو اس وقت بعض افراد فرادیٰ نماز پڑھتے ہیں، اس عمل کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر یہ عمل نماز جماعت کو کمزور کرنا اور اس امام جماعت کی اہانت اور بے عزتی شمار کیا جائے کہ جس کے عادل ہونے پر لوگ اعتماد کرتے ہیں تو جائز نہیں ہے۔
س 216. ایک محلہ میں متعدد مساجد ہیں اور سب میں نماز با جماعت ہوتی ہے اور ایک مکان دو مسجدوں کے درمیان واقع ہے اس طرح کہ ایک مسجد اس سے دس گھروں کے فاصلہ پر واقع ہے اور دوسری دو گھروں کے بعد ہے اور اس گھر میں بھی نماز جماعت بر پا ہوتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
ج. سزاوار ہے کہ نماز جماعت کو اتحاد و الفت کے لئے قائم کیا جائے نہ کہ اختلاف و افتراق کی فضا پھیلانے کا ذریعہ بنایا جائے اور مسجد کے پڑوس میں واقع گھر میں نماز جماعت قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ اختلاف و پراگندگی کا سبب نہ ہو۔
س 217. کیا کسی شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ مسجد کے مستقل امام ـکہ جس کو امور مساجد کے مرکز کی تائید حاصل ہے۔ کی اجازت کے بغیر اس مسجد میں نماز جماعت قائم کرے؟
ج. نماز جماعت قائم کرنا امام راتب کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب نماز جماعت قائم کرنے کے لئے امام راتب مسجد میں موجود ہو تو اس کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کی جائے، بلکہ اگر یہ مزاحمت فتنہ و شر کے بھڑک اٹھنے کا سبب ہو تو حرام ہے۔
س 218. اگر امام جماعت کبھی غیر شائستہ انداز سے بات کرے یا ایسا مذاق کرے جو عالم دین کے شایان شان نہ ہو تو کیا اس سے عدالت ساقط ہو جاتی ہے؟
ج. اگر یہ شریعت کے مخالف نہ ہوتو اس سے عدالت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
س 219. کیا امام جماعت کی کما حقہ پہنچاں نہ ہونے کے با وجود اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے؟
ج. اگر ماموم کے نزدیک کسی بھی طریقہ سے امام کی عدالت ثابت ہو جائے تو اس کی اقتداء جائز ہے اور جماعت صحیح ہے۔
س 220. اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو عادل و متقی سمجھتا ہو اور اسی لمحہ اس بات کا بھی معتقد ہو کہ اس نے بعض موقعوں پراس پر ظلم کیا ہے تو کیا وہ اسے کلی طور پر عادل سمجھ سکتا ہے؟
ج. جب تک اس شخص کے بارے میں ۔جس کو اس نے ظالم سمجھا ہے۔ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے وہ کام علم و اختیار سے اور کسی شرعی جواز کے بغیر انجام دیا ہے تو اس وقت تک وہ اس کے فاسق ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا۔
س 221. کیا ایسے امام جماعت کی اقتداء کرنا جائز ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کی قدرت رکھتا ہے، لیکن نہیں کرتا؟
ج. صرف امر بالمعروف نہ کرنا جو ممکن ہے مکلف کی نظر میں کسی قابل قبول عذر کی بنا پر ہو، عدالت کو نقصان نہیں پہنچاتا اور نہ ہی اس کی اقتداء کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
س222. آپ کے نزدیک عدالت کے کیا معنی ہیں؟
ج. یہ ایک نفسانی حالت ہے جو باعث ہوتی ہے کہ انسان ہمیشہ ایسا تقوا رکھتا ہو جو اسے واجبات کے ترک اور شرعی محرمات کے ارتکاب سے روکے اور اس کے اثبات کے لئے ا س شخص کے ظاہر کا اچھا ہونا ہی کافی ہے۔
س223. ہم چند جوانوں کا ایک گروہ عزاخانوں اور امام بارگاہوں میں ایک جگہ جمع ہوتا ہے، جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو اپنے درمیان میں سے کسی ایک عادل شخص کو نماز جماعت کے لئے آگے بڑھا دیتے ہیں، لیکن بعض برادران اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام خمینی نے غیر عالم دین کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دیا ہے، لہذا ہمارا فریضہ کیا ہے؟
ج. اگر عالم دین تک دسترسی ہو تو غیر عالم دین کی اقتدا نہ کریں۔
س224. کیا دو اشخاص نماز جماعت قائم کرسکتے ہیں؟
ج. اگر مراداس طرح نمازجماعت کی تشکیل ہے کہ ایک امام ہو اور دوسرا ماموم تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س225. اگر مأموم ظہر و عصر کی نماز باجماعت پڑھتے ہوئے اپنے ذہن کو متمرکز رکھنے کیلئے حمد و سورہ خود پڑھے جب کہ حمد وسورہ پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. ظہر و عصر جیسی اخفاتی نمازوں میں، اس کیلئے قرأت جائز نہیں ہے چاہے اپنے ذہن کو متمرکز کرنے کی غرض ہی سے ہو۔
س226. اگر کوئی امام جماعت ٹریفک کے تمام قوانین کی رعایت کرتے ہوئے سائیکل کے ذریعہ نماز جماعت پڑھانے جاتا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج. اس سے عدالت اور امامت کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔
س227. جب ہم نماز جماعت سے نہیں مل پاتے اور ثواب جماعت حاصل کرنے کی غرض سے تکبیرة الاحرام کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں اور امام کے ساتھ تشہد پڑھتے ہیں اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہو جاتے ہیں اور پہلی رکعت پڑھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت کے تشہد میں ایسا کرنا جائز ہے؟
ج. مذکورہ طریقہ، امام جماعت کی نماز کے آخری تشہد سے مخصوص ہے تا کہ جماعت کا ثواب حاصل کیا جا سکے۔
س 228. کیا امام جماعت کے لئے نماز کے مقدمات کی اجرت لینا جائز ہے؟
ج. اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 229. کیا امام جماعت کے لئے عید یا کوئی سی بھی دو نمازوں کی ایک وقت میں امامت کرانا جائز ہے؟
ج. نماز پنجگانہ میں دوسرے مامومین کی خاطرنماز جماعت کو ایک بار تکرار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، لیکن نماز عید کا تکرار کرنے میں اشکال ہے۔
س 230. جب امام نمازعشاء کی تیسری یا چوتھی رکعت میں ہو اور ماموم دوسری رکعت میں ہو تو کیا ماموم پر واجب ہے کہ حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھے؟
ج. واجب ہے کہ دونوں کو آہستہ آواز سے پڑھے۔
س 231. نماز جماعت کے سلام کے بعد نبی اکرمؐ پر صلوات کی آیت (ان اللہ و ملائکتہ…) پڑھی جاتی ہے۔ پھر نمازگزار محمد و آل محمد(علیہم السلام) پر تین مرتبہ درود بھیجتے ہیں اور اس کے بعد تین مرتبہ تکبیر کہتے ہیں اور اس کے بعد سیاسی نعرے لگاتے ہیں۔ یعنی دعا اور برائت کے جملے کہے جاتے ہیں جنہیں مؤمنین بلند آواز سے دہراتے ہیں کیا اس میں کوئی حرج ہے؟
ج. آیت صلوات پڑھنے اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ مطلوب ہے اور اس میں ثواب ہے اور اسی طرح اسلامی نعرے اور اسلامی انقلاب کے نعرے، (تکبیر اور اس کے ملحقات)کہ جو اسلامی انقلاب کے عظیم پیغام و مقاصد کی یاد تازہ کرتے ہیں، بھی مطلوب ہیں۔
س232. اگر ایک شخص مسجد میں نماز جماعت کی دوسری رکعت میں پہنچے اور مسئلہ سے ناواقفیت کی وجہ سے بعد والی رکعت میں تشہد و قنوت کہ جن کا بجا لانا واجب تھا نہ بجا لائے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟
ج. نماز صحیح ہے لیکن بنابر احتیاط تشہد کی قضا اور تشہد چھوڑنے کی وجہ سے دو سجدۂ سہو بجا لانا واجب ہے۔
س 233. نماز میں جس کی اقتداء کی جا رہی ہے کیا اس کی رضامندی شرط ہے؟ اور کیا ماموم کی اقتداء کرنا صحیح ہے یا نہیں؟
ج. اقتداء کے صحیح ہونے میں امام جماعت کی رضا مندی شرط نہیں ہے اور ماموم جب تک اقتدا کر رہا ہے اسکی اقتدا نہیں کی جاسکتی۔
س 234. دو اشخاص، ایک امام اور دوسرا ماموم جماعت قائم کرتے ہیں، تیسرا شخص آتا ہے وہ دوسرے (یعنی ماموم) کو امام سمجھتا ہے اور اس کی اقتداء کرتا ہے اور نماز سے فراغت کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام نہیں بلکہ ماموم تھا پس اس تیسرے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. ماموم کی اقتداء صحیح نہیں ہے، لیکن جب وہ نہ جانتا ہو اور اس کی اقتداء کر لے تو اگر وہ رکوع و سجود میں اپنے انفرادی فریضہ پر عمل کرے یعنی عمداً اور سہواً کسی رکن کی کمی اور زیادتی نہ کرے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
س 235. جو شخص نماز عشاء پڑھنا چاہتا ہے، کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ نماز مغرب کی جماعت میں شریک ہو؟
ج. اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 236. مامومین سے امام کی نماز کے مقام کے بلند ہونے کی رعایت نہ کرنے سے، کیا ان کی نماز باطل ہوجاتی ہے؟
ج. اگر امام کی جگہ، مامومین کی جگہ سے اس حد سے زیادہ بلند ہو کہ جس کی شرعاًاجازت ہے تو ان کی جماعت کے باطل ہونے کا سبب ہوگی۔
س237. اگر نماز جماعت کی ایک صف میں تمام وہ لوگ نماز پڑھیں کہ جن کی نماز قصر ہے اور اس کے بعد والی صف ان لوگوں کی ہو جن کی نماز پوری ہے تو اس صورت میں اگر اگلی صف والے دو رکعت نماز تمام کرنے کے فوراً بعد اگلی دو رکعت کی اقتداء کیلئے کھڑے ہو جائیں تو کیا بعد کی صف والوں کی آخری دو رکعت کی جماعت باقی رہے گی یا ان کی نماز فرادیٰ ہو جائے گی؟
ج. مفروضہ صورت میں کہ جہاں وہ فوراً اقتدا کر لیتے ہیں تو جماعت باقی رہے گی۔
س238. کیاوہ ماموم جو نماز کی پہلی صف کے آخری سرے پر کھڑا ہو ان مامومین سے پہلے نماز میں شامل ہو سکتا ہے جو اس کے اور امام کے درمیان ہیں؟
ج. جب وہ مامومین کہ جو اس کے اور امام کے درمیان ہیں، امام جماعت کے جماعت شروع کرنے کے بعد، نمازمیں اقتدا کے لئے مکمل طور پر تیار ہوں تو وہ جماعت کی نیت سے نماز میں شامل ہوسکتا ہے۔
س239. جو شخص یہ سمجھ کر کہ امام کی پہلی رکعت ہے اس کی تیسری رکعت میں شریک ہو جائے اور کچھ نہ پڑھے تو کیا اس پر اعادہ واجب ہے؟
ج. اگر وہ رکوع میں جانے سے پہلے ہی اس کی طرف متوجہ ہو جائے تو اس پر قرأت واجب ہے اور اگر رکوع کے بعد متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے، اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ سہواًقرأت ترک کرنے کے سبب دو سجدہ سہو بجا لائے۔
س240. سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں نماز جماعت قائم کرنے کیلئے امام جماعت کی اشد ضرورت ہے اور چونکہ میرے علاوہ اس علاقہ میں کوئی عالم دین نہیں ہے، اس لئے میں مجبوراً مختلف مقامات پر ایک واجب نماز کی تین یا چار مرتبہ امامت کراتا ہوں۔ دوسری مرتبہ نماز پڑھانے کے لئے تو سارے مراجع نے اجازت دی ہے، لیکن کیا اس سے زائد کو احتیاطاً قضا کی نیت سے پڑھایا جا سکتا ہے؟
ج. احتیاطاً قضا پڑھی جانے والی نماز کے ساتھ امامت صحیح نہیں ہے۔
س241. ایک یونیورسٹی نے اپنے اسٹاف کے لئے یونیورسٹی کی ایسی عمارت میں نماز جماعت قائم کی ہے جوشہر کی ایک مسجد کے نزدیک ہے، یہ بات جانتے ہوئے کہ عین اسی وقت مسجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے، یونیورسٹی کی جماعت میں شریک ہونے کا کیا حکم ہے؟
ج. ایسی نماز جماعت میں شرکت کرنے میں کہ جس میں ماموم کی نظر میں اقتداء اور جماعت کے صحیح ہونے کے شرائط پائے جاتے ہوں، کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ جماعت اس مسجد سے قریب ہی ہورہی ہو جس میں عین اسی وقت نماز جماعت قائم ہوتی ہے۔
س242. کیا اس امام کے پیچھے نماز صحیح ہے جو قاضی ہے لیکن مجتہد نہیں ہے؟
ج. اس کا تقرر اگر ایسے شخص نے کیا ہے جس کو اس کا حق ہے تو اس کی اقتداء کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔
س243. جو شخص نماز مسافر میں امام خمینی کا مقلد ہے، کیا ایک ایسے امام جماعت کی اقتداء کرسکتا ہے جو اس مسئلہ میں کسی اور مرجع کا مقلد ہو خصوصاً جبکہ اقتداء نماز جمعہ میں ہو؟
ج. تقلید کا اختلاف اقتداء کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے، لیکن اس نماز کی اقتداء صحیح نہیں ہے جو ماموم کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق قصر ہو اور امام جماعت کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق کامل ہو یا اسکے برعکس ہو۔
س244. اگر امام جماعت تکبیرة الاحرام کے بعد بھولے سے رکوع میں چلا جائے تو ماموم کا کیا فریضہ ہے؟
ج. اگر ماموم نماز جماعت میں شامل ہونے کے بعداور رکوع میں جانے سے پہلے اس طرف متوجہ ہوجائے تو اس پر فرادیٰ کی نیت کر لینا اور حمد و سورہ پڑھنا واجب ہے۔
س245. اگر نماز جماعت کی تیسری یا چوتھی صف کے بعد اسکولوں کے نابالغ بچے نماز کیلئے کھڑے ہوں اور ان کے پیچھے بالغ اشخاص کھڑے ہوں تو اس حالت میں نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. مذکورہ فرض میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س246. اگر امام جماعت نے معذور ہونے کے سبب غسل کے بدلے تیمم کیا ہو توکیایہ نماز جماعت پڑھانے کیلئے کافی ہے یا نہیں؟
ج. اگر وہ شرعی اعتبار سے معذور ہو تو غسل جنابت کے بدلے تیمم کرکے امامت کرا سکتا ہے اور اس کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
- اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے
س247. کیا قرأت صحیح ہونے کے مسئلہ میں فرادیٰ نماز نیز ماموم یا امام کی نمازکے درمیان کوئی فرق ہے؟ یا قرأت کے صحیح ہونے کا مسئلہ ہر حال میں ایک ہی ہے؟
ج. اگر مکلف کی قرأت صحیح نہ ہو اور وہ سیکھنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو اسکی نماز صحیح ہے، لیکن دوسروں کے لئے اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔
س248. حروف کے مخارج کے اعتبار سے، بعض ائمہ جماعت کی قرأت صحیح نہیں ہے توکیا انکی اقتداء ایسے لوگ کرسکتے ہیں جو حروف کو صحیح طریقہ سے ان کے مخارج سے ادا کرتے ہوں؟ بعض لوگ کہتے ہیں تم جماعت سے نمازپڑھ سکتے ہو لیکن اس کے بعد نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، لیکن میرے پاس اعادہ کرنے کا وقت نہیں ہے، تو میرا کیا فریضہ ہے؟ اور کیا میرے لئے یہ ممکن ہے کہ جماعت میں شریک تو ہوجاؤں لیکن آہستہ طریقے سے حمد و سورہ پڑھوں؟
ج. جب ماموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو تو اس کی اقتداء اور نماز جماعت باطل ہے اور اگر وہ اعادہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اقتداء نہ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے، لیکن جہری نماز میں آہستہ سے حمد وسورہ پڑھنا کہ جو امام جماعت کی اقتداء کے ظاہر کرنے کیلئے ہو صحیح اور کافی نہیں ہے۔
س249. بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چند ایک ائمہ جمعہ کی قرأت صحیح نہیں ہے، یا تو وہ حروف کو اس طرح ادا نہیں کرتے جس طرح وہ ہیں یا وہ حرکت کو اس طرح بدل دیتے ہیں کہ جس سے وہ حرف نہیں رہتاکیا ان کے پیچھے پڑھی جانے والی نمازوں کے اعادہ کے بغیر ان کی اقتداء صحیح ہے؟
ج. قرأت کے صحیح ہونے کا معیار، عربی زبان کے قواعد کی رعایت اور حروف کو ان کے مخارج سے اس طرح ادا کرنا ہے کہ اہل زبان یہ کہیں کہ وہی حرف ادا ہوا ہے نہ کوئی دوسرا حرف۔ تو اگر ماموم، امام کی قرأت کو قواعد کے مطابق نہ پائے اور اس کی قرأت کو صحیح نہ سمجھتا ہو تو اس کے لئے اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے اور اس صورت میں اگر وہ اس کی اقتداء کرے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے اور دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
س250. اگر امام جماعت کو اثنائے نمازمیں کسی لفظ کو ادا کرنے کے بعداس کے تلفظ کی کیفیت میں شک ہوجائے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد متوجہ ہوکہ اس نے اس لفظ کے تلفظ میں غلطی کی تھی تو اس کی اور مامومین کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. نماز صحیح ہے۔
س251. اس شخص اور خاص کر قرآن کے مدرس کا شرعی حکم کیا ہے جو تجوید کے اعتبار سے امام جماعت کی نماز کو یقین کے ساتھ غلط سمجھتا ہے، جبکہ اگر وہ جماعت میں شرکت نہ کرے تو اس پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں؟
ج. علم تجوید کے خوبصورت قرأت کے معیارات کی رعایت ضروری نہیں ہے لیکن اگر مموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو اور نتیجةً اس کی نظر میں اس کی نماز بھی صحیح نہیں ہے، ایسی صور ت میں وہ اس کی اقتداء نہیں کرسکتا، لیکن عقلائی مقصد کے لیے نماز جماعت میں ظاہری طور پر شرکت کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔
- معذور کی امامت
س252. اُن معذور افراد کی اقتدا کرنے کا کیا حکم ہے کہ جن کا ہاتھ یا پاؤں مفلوج ہوچکا ہو؟
ج. احتیاط اس کے ترک کرنے میں ہے۔
س253. میں ایک دینی طالب علم ہوں، آپریشن کی وجہ سے میرا دایاں ہاتھ کٹ چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے یہ معلوم ہو اکہ امام خمینی کامل کے لئے ناقص کی امامت کو جائز نہیں سمجھتے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ ان مامومین کی نماز کا حکم بیان فرمائیں جن کو ابھی تک میں نے امامت کرائی ہے؟
ج. مأمومین کی گزشتہ نمازیں کہ جنہوں نے حکم شرعی سے ناواقفیت کی بنا پر آپ کی اقتداء کی ہے، صحیح ہیں۔ ان پر نہ قضا واجب ہے اور نہ اعادہ۔
س 254. میں دینی طالب علم ہوں اور اسلامی جمہوریہ ایران پر مسلط کردہ جنگ میں میرا پیر زخمی ہوا اور میرا انگوٹھا کٹ گیا اور اس وقت میں ایک امام بارگاہ میں امام جماعت ہوں۔ کیا اس میں کوئی شرعی اشکال ہے یا نہیں؟
ج. امام میں اس قدر نقص امامت کیلئے مضر نہیں ہے ہاں اگر پورا ہاتھ یا پیر کٹا ہوا ہو تو امامت میں اشکال ہے۔
- نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت
س 255. کیا شارع مقدس نے عورتوں کو بھی مسجدوں میں نماز جماعت یا نماز جمعہ میں شریک ہونے کی اسی طرح ترغیب دلائی ہے جس طرح مردوں کو دلائی ہے، یا عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے؟
ج. عورتوں کے جمعہ و جماعت میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور ان کو جماعت کا ثواب ملے گا۔
س256. عورت کب امام جماعت بن سکتی ہے؟
ج. عورت کا فقط عورتوں کی نماز جماعت کے لئے امام بننا جائز ہے۔
س 257. استحباب و کراہت کے لحاظ سے مردوں کی طرح عورتوں کی نماز جماعت میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو اس وقت ان کا کیا حکم ہے؟ کیا جب وہ مردوں کے پیچھے نماز جماعت کے لئے کھڑی ہوں تو کسی حائل یا پردے کی ضرورت ہے؟ اور اگر نماز میں وہ مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو حائل کے لحاظ سے کیا حکم ہے؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جماعت ، تقاریر اور دیگر پروگراموں کے دوران عورتوں کا پردے کے پیچھے ہونا ان کی توہین اور شان گھٹانے کا موجب ہے؟
ج. عورتوں کے نماز جماعت میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو پردے اور حائل کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو نماز میں مرد کے برابر عورتوں کے کھڑے ہونے کی کراہت کو دور کرنے کے لئے سزاوار ہے کہ ان کے درمیان حائل ہو یہ توہم کہ حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کے درمیان حائل لگانا عورت کی شان گھٹانے اور اس کی عظمت کو کم کرنے کا موجب ہے محض ایک خیال ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، مزید یہ کہ فقہ میں اپنی ذاتی رائے کو دخل دینا صحیح نہیں ہے۔
س 258. حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان پردے اور حائل کے بغیر اتصال اور عدم اتصال کی کیا کیفیت ہونی چاہیے؟
ج. عورتیں فاصلہ کے بغیر مردوں کے پیچھے کھڑی ہوسکتی ہیں۔
- اہل سنت کی اقتدا
س 259. کیا اہل سنت کی اقتدا میں نماز جائز ہے؟
ج. وحدت اسلامی کے تحفظ کے لئے ان کے پیچھے نماز جماعت پڑھنا جائز اور صحیح ہے۔
س260. میں کُردوں کے علاقہ میں ملازمت کرتا ہوں، وہاں ائمہ جمعہ و جماعات کی اکثریت اہل سنت کی ہے ان کی اقتداء کے سلسلے میں کیا حکم ہے؟ اور کیا ان کی غیبت کرنا جائز ہے؟
ج. وحدت اسلامی کے تحفظ کیلئے ان کے ساتھ ان کی جماعت اور جمعہ کی نمازوں میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور غیبت سے پرہیز کرنا لازم ہے۔
س261. اہل سنت کے ساتھ معاشرت اور ان کے ساتھ میل جول کی بنا پر نماز پنجگانہ میں شرکت کے دوران بعض موقعوں پر ہم بھی ان ہی کی طرح عمل کرتے ہیں مثلاً ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا، وقت کی رعایت و پابندی نہ کرنا اور جائے نماز پر سجدہ کرنا، تو کیا ایسی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے؟
ج. اگر اسلامی اتحاد ان تمام چیزوں کا تقاضا کرے تو ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے یہاں تک کہ جائے نماز پر سجدہ و غیرہ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔
س262. ہم مکہ اور مدینہ میں، اہل سنت کے ساتھ نماز جماعت پڑھتے ہیں اور ایسا کام ہم امام خمینی کے فتوے کی وجہ سے کرتے ہیں اور بعض اوقات مسجد میں نماز کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے ظہر و مغرب کی نماز کے بعد، عصر و عشاء کی نمازیں بھی ہم اہل سنت کی مساجد میں سجدہ گاہ کے بغیر فرادیٰ پڑھتے ہیں، ان نمازوں کا کیا حکم ہے؟
ج. مذکورہ فرض میں اگر تقیہ کے خلاف نہ ہو تو ایسی چیز پر سجدہ کرے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔
س263. ہم شیعوں کیلئے دوسرے ممالک کی مساجد میں اہل سنت کی نماز میں شرکت کرنا کیسا ہے؟جبکہ وہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں؟ اور کیا ان کی طرح ہاتھ باندھنا ہمارے اوپر واجب ہے یا ہم ہاتھ باندھے بغیر نماز پڑھیں؟
ج. اگر اسلامی اتحاد کی رعایت مقصود ہو تو اہل سنت کی اقتداء جائز ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا واجب نہیں ہے بلکہ جائز ہی نہیں ہے مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔
س264. اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت قیام کی حالت میں دونوں طرف کھڑے ہوئے اشخاص کے پیروں کی چھوٹی انگلی سے انگلی ملانے کا کیا حکم ہے جیسا کہ اہل سنت اس کے پابند ہیں؟
ج. یہ واجب نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس سے نماز کا صحیح ہونا متاثر نہیں ہوتا۔
س265. حج کے زمانہ میں یا اس کے علاوہ برادران اہل سنت اذان مغرب سے قبل مغرب کی نماز پڑھتے ہیں، کیا ہمارے لئے ان کی اقتداء کرنا اور اس نماز پر اکتفاء کرنا صحیح ہے؟
ج. یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ وقت سے پہلے نماز پڑھتے ہیں، لیکن اگر مکلف کے لئے وقت کا داخل ہونا ثابت نہ ہوا ہو تو اس کا نماز میں شامل ہونا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر اسلامی اتحاد اس کا تقاضاکرے تو اس وقت ان کے ساتھ نماز پڑھنے اور اسی نماز پر اکتفا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
- نماز جمعہ
س 266. نماز جمعہ میں شریک ہونے کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ جبکہ ہم حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں زندگی گزار رہے ہیں، اور اگر بعض اشخاص امام جمعہ کو عادل نہ مانتے ہوں تو کیا نماز جمعہ میں شریک ہونے کی ذمہ داری ان سے ساقط ہے یا نہیں؟
ج. نماز جمعہ اگرچہ دور حاضر میں واجب تخییری ہے اور اس میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے، لیکن نماز جمعہ میں شرکت کے فوائد و اہمیت کے پیش نظر، صرف امام جمعہ کی عدالت میں شک یا دیگر کمزوربہانوں کی بنا پر مؤمنین خود کو ایسی نماز کی برکتوں سے محروم نہ کریں۔
س267. نماز جمعہ میں واجب تخییری کے کیا معنی ہیں؟
ج. اس کے معنی یہ ہیں کہ جمعہ کے دن مکلف کو اختیار ہے کہ وہ نماز جمعہ پڑھے یا نماز ظہر۔
س 268. نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کیاہے؟
ج. عبادی و سیاسی پہلو رکھنے والی نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس میں شرکت نہ کرنا شرعی لحاظ سے مذموم ہے۔
س 269. کچھ لوگ کمزوراور عبث بہانوں کی بنا پر نماز جمعہ میں شریک نہیں ہوتے اور بعض اوقات نظریاتی اختلاف کے باعث شرکت نہیں کرتے، اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیاہے؟
ج. نماز جمعہ اگرچہ واجب تخییری ہے، لیکن اس میں مستقل طور پر شرکت نہ کرنا شرعی طریقہ نہیں ہے۔
س270. نماز ظہر کا عین اس وقت جماعت سے منعقد کرنا، جب نماز جمعہ تھوڑے سے فاصلہ پر ایک اور مقام پر برپا ہو رہی ہو، جائز ہے یا نہیں؟
ج. بذات خود اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور اس سے مکلف جمعہ کے دن کے فریضہ سے بری الذمہ ہو جائے گا، کیونکہ دور حاضر میں نماز جمعہ واجب تخییری ہے، لیکن چونکہ جمعہ کے دن، نماز جمعہ کے مقام سے قریب با جماعت نماز ظہر قائم کرنے کا لازمی نتیجہ مؤمنین کی تفریق و تقسیم ہے اور شاید اسے عوام کی نظر میں امام جمعہ کی توہین اور بے حرمتی شمار کیا جائے اور اس سے نماز جمعہ سے لاپروائی کا اظہار ہو تو اس لئے با جماعت نماز ظہر قائم کرنا مؤمنین کے لئے مناسب نہیں ہے، بلکہ اگر اس سے مفاسد اور حرام نتائج بر آمد ہوتے ہوں تو اس سے اجتناب واجب ہے۔
س271. کیا نماز جمعہ و عصر کے درمیانی وقفہ میں نماز ظہر پڑھنا جائز ہے؟ اور اگر امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور شخص نماز عصر پڑھائے تو کیا عصر کی نماز میں اس کی اقتداء کرنا جائز ہے؟
ج. نماز جمعہ، نماز ظہر سے بے نیاز کر دیتی ہے، لیکن نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھ کر نماز عصر کو جماعت سے پڑھنا مقصود ہو تو کامل احتیاط یہ ہے کہ نماز عصر اس شخص کی اقتداء میں ادا کرے جس نے نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر بھی پڑھی ہو۔
س272. اگر نماز جمعہ کے بعد امام جماعت نماز ظہر نہ پڑھے تو کیا ماموم احتیاطاً نماز ظہر پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
ج. اس کے لئے نماز ظہر پڑھنا جائز ہے۔
س273. کیا امام جمعہ کیلئے واجب ہے کہ وہ حاکم شرع سے اجازت حاصل کرے؟ اور حاکم شرع سے کیا مراد ہے؟ اور کیا یہی حکم دور دراز کے شہروں کے لئے بھی ہے؟
ج. نماز جمعہ کی امامت کا اصل جواز اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن امامت جمعہ کے لئے امام کے نصب کے احکام کا مترتب ہونا ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہونے پر موقوف ہے۔ اور یہ حکم ہر اس سرزمین اور شہر کے لئے عمومیت رکھتا ہے کہ جس میں ولی فقیہ کی اطاعت کی جاتی ہو اور وہ اس میں حاکم ہو۔
س 274. کیا منصوب شدہ امام جمعہ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بغیر کسی مانع اور معارض کے اس جگہ نماز جمعہ قائم کرے جہاں اسے منصوب نہ کیا گیا ہو؟
ج. بذات خود نماز جمعہ قائم کرنا اس کے لئے جائز ہے، لیکن اس پر جمعہ کی امامت کے لئے نصب ہونے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
س275. کیا موقت اور عارضی ائمہ جمعہ کے انتخاب کے لئے واجب ہے کہ انہیں ولی فقیہ منتخب کرے یا خود ائمہ جمعہ کو اتنا اختیار ہے کہ وہ امام موقت کے عنوان سے افراد کو منتخب کریں؟
ج. منصوب شدہ امام جمعہ کسی کو اپنا وقتی اور عارضی نائب بنا سکتا ہے۔ لیکن نائب کی امامت پر ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہونے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
س276. اگر انسان منصوب شدہ امام جمعہ کو عادل نہ سمجھتا ہو یا اس کی عدالت میں شک کرتا ہو تو کیا مسلمین کی وحدت کے تحفظ کی خاطر اس کی اقتدا جائز ہے؟ اور جو شخص خود نماز جمعہ میں نہیں آتا، کیا اس کے لئے جائز ہے کہ و ہ دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دے؟
ج. اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے جس کو وہ عادل نہ سمجھتا ہو یا جس کی عدالت میں شک کرتا ہو اور نہ ہی اس کی نمازجماعت صحیح ہے، لیکن وحدت کے تحفظ کی خاطر جماعت میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ بہر حال اسے دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت سے روکنے اور دوسروں کو اس کے خلاف بھڑکانے کا حق نہیں ہے۔
س277. اس نماز جمعہ میں شریک نہ ہونے کا کیا حکم ہے کہ جس کے امام جمعہ کا جھوٹ مکلف پر ثابت ہو گیا ہو؟
ج. جو بات امام جمعہ نے کہی ہے اس کے بر خلاف انکشاف ہونا اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے غلطی یا توریہ کے طور پر یہ بات کہی ہو، لہذا صرف اس خیال اور توہم سے کہ امام جمعہ کی عدالت ساقط ہو گئی ہے خود کو نماز جمعہ کی برکتوں سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔
س278. جو امام جمعہ، امام خمینی یا عادل ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہو، کیا ماموم کیلئے اس کی عدالت کا اثبات و تحقیق ضروری ہے، یا امامت جمعہ کیلئے اس کا منصوب ہونا ہی اس کی عدالت کے ثبوت کے لئے کافی ہے؟
ج. امام جمعہ کے عنوان سے اس کے منصوب ہونے سے اگر ماموم کواس کی عدالت کاوثوق و اطمینان حاصل ہوجائے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہے۔
س279. کیا مساجد کے ائمہ جماعت کا ثقہ علماء کی طرف سے معین کیا جانا یا ولی فقیہ کی جانب سے ائمہ جمعہ کا معین کیا جانا اس بات کی گواہی ہے کہ وہ عادل ہیں یا ان کی عدالت کے بارے میں تحقیق واجب ہے؟
ج. اگر امام جمعہ یا جماعت کے طور پر منصوب کئے جانے سے ماموم کو ان کی عدالت کا اطمینان و وثوق حاصل ہو جاتا ہو تو ان کی اقتداء کرنا جائز ہے۔
س280. اگر امام جمعہ کی عدالت میں شک ہو یا خدا نخواستہ اس کے عادل نہ ہونے کا یقین ہو تو کیا اس کی اقتداء میںپڑھی جانے والی نمازوں کا اعادہ واجب ہے ؟
ج. اگر اس کی عدالت میں شک یاعدم عدالت کا یقین نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہو تو جو نمازیں آپ نے پڑھ لی ہیں وہ صحیح ہیں اور ان کا اعادہ واجب نہیں ہے۔
س 281. اس نماز جمعہ میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جو یورپی ممالک و غیرہ میں وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اسلامی ممالک کے طلباء قائم کرتے ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے اکثر افراد اور امام جمعہ بھی اہل سنت ہوتے ہیں؟ کیا اس صورت میں نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھنا ضروری ہے؟
ج. مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی خاطر اس میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نماز ظہر پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔
س282. پاکستان کے ایک شہر میں چالیس سال سے ایک جگہ نماز جمعہ ادا کی جا رہی ہے اور اب ایک شخص نے دو جمعوں کے درمیان شرعی مسافت کی رعایت کئے بغیر دوسری نماز جمعہ قائم کر دی ہے جس سے نماز گزاروں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ شرعاً اس عمل کا کیا حکم ہے؟
ج. کسی ایسے عمل کے اسباب فراہم کرنا جائز نہیں ہے جس سے مؤمنین کے درمیان اختلاف اور ان کی صفوں میں تفرقہ پیدا ہو جائے، بالخصوص نماز جمعہ کہ جو شعائر اسلامی اور مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر ہے۔
س283. راولپنڈی کی جامع مسجد جعفریہ کے خطیب نے اعلان کیا کہ تعمیری کام کی بنا پر مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ نہیں ہوگی، جب مسجد کی تعمیر کا کام ختم ہوا تو ہمارے سامنے یہ مشکل کھڑی ہو گئی کہ یہاں سے چار کلو میٹر کے فاصلہ پر دوسری مسجد میں نماز جمعہ قائم ہونے لگی، مذکورہ مسافت کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا صحیح ہے یا نہیں؟
ج. دو نماز جمعہ کے درمیان اگر ایک شرعی فرسخ کا فاصلہ نہ ہو تو بعد میں قائم ہونے والی نماز جمعہ باطل ہے اور اگر ایک ہی وقت میں دونوں کو اکٹھا قائم کیا جائے تو دونوں باطل ہیں
س284. کیا نماز جمعہ، جو جماعت کے ساتھ قائم کی جاتی ہے، کو فرادیٰ پڑھنا صحیح ہے؟ اس طرح کہ کوئی شخص نماز جمعہ کو ان لوگوں کے ساتھ فرادیٰ پڑھے جو اسے جماعت سے پڑھ رہے ہوں؟
ج. نماز جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جماعت سے پڑھا جائے، لہذا فرادیٰ صورت میں جمعہ صحیح نہیں ہے۔
س 285. جس شخص کی نماز قصر ہے کیا وہ امام جمعہ کے پیچھے نماز جمعہ پڑھ سکتا ہے ؟
ج. مسافرماموم کی نماز جمعہ صحیح ہے اور اسے ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
س286. کیا دوسرے خطبہ میں حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کا اسم گرامی مسلمانوں کے ایک امام کے عنوان سے لینا واجب ہے یاآپ کا نام لینے میں استحباب کی نیت ضروری ہے؟
ج. ائمہ مسلمین کا عنوان حضرت زہراء مرضیہ سلام اللہ علیھا کو شامل نہیں ہے اور خطبۂ جمعہ میں آپکا اسم گرامی لینا واجب نہیں ہے، لیکن برکت کے طور پر آپ کے نام مبارک کو ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ پسندیدہ امر ہے اور موجب ثواب ہے
س287. کیا ماموم، امام جمعہ کی اقتداء کرتے ہوئے جبکہ وہ نماز جمعہ پڑھ رہا ہو کوئی دوسری واجب نماز پڑھ سکتا ہے؟
ج. اس کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔
س288. کیا ظہر کے شرعی وقت سے پہلے نماز جمعہ کے خطبے دینا صحیح ہے؟
ج. زوال سے پہلے جائز ہے لیکناحتیاط یہ ہے کہ ان کا کچھ حصہ وقت ظہر میں واقع ہو۔
س 289. اگر ماموم دونوں خطبوں میں سے کچھ بھی نہ سنے بلکہ اثنائے نماز جمعہ میں پہنچے اور امام کی اقتداء کرے تو کیا اس کی نماز صحیح اور کافی ہے؟
ج. اس کی نماز صحیح اور کافی ہے، خواہ اس نے نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے رکوع میں ہی شرکت کر لی ہو۔
س290. ہمارے شہر میں اذان ظہر کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد نماز جمعہ قائم ہوتی ہے تو کیا یہ نماز، نماز ظہر سے کافی ہے یا نماز ظہر کا اعادہ ضروری ہے؟
ج. زوال آفتاب کے ساتھ ہی نماز جمعہ کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ زوال عرفی سے تقریباً ایک ، دو گھنٹہ سے زیادہ تاخیر نہ کرے۔
س291. ایک شخص نماز جمعہ میں جانے کی طاقت نہیں رکھتا تو کیا وہ اوائل وقت میں نماز ظہر و عصر پڑھ سکتا ہے؟ یا نماز جمعہ ختم ہونے کا انتظار کرے اور اس کے بعد نماز ظہر و عصر پڑھے؟
ج. اس پر انتظار واجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اول وقت میں نماز ظہرین پڑھنا جائز ہے۔
س292. اگر منصوب امام جمعہ صحیح و سالم ہو اور وہاں پر حاضر بھی ہو تو کیا وہ عارضی امام جمعہ کو نماز جمعہ پڑھانے کے لئے کہہ سکتا ہے؟ اور کیا وہ عارضی امام جمعہ کی اقتداء کر سکتا ہے؟
ج. منصوب امام جمعہ کے نائب کی امامت میں نماز جمعہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی منصوب امام کے لئے اپنے نائب کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال ہے۔
- نماز عیدین
نماز عیدین
س 293. آپ کی نظر میں نماز عیدین اور جمعہ، واجبات کی کونسی قسم میں سے ہیں؟
ج. عصر حاضر میں نماز عیدین واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن نماز جمعہ واجب تخییری ہے۔
س294. کیا نماز عیدین کے قنوت میں کمی اور زیادتی اس کے باطل ہونے کا سبب بنتی ہے؟
ج. اگر اس سے مراد قنوت کو لمبا یا مختصر پڑھنا ہو تو اس سے نماز عید باطل نہیں ہوتی لیکن اگر مراد انکی تعداد میں کمی بیشی کرنا ہو تو ضروری ہے کہ نماز عید اسی طرح پڑھے جیسے فقہی کتب میں مذکور ہے۔
س295. ماضی میں رواج یہ تھا کہ امام جماعت ہی مسجد میں عیدالفطر کی نماز پڑھایا کرتا تھا۔ کیا اب بھی ائمۂ جماعت کے لئے نماز عیدین پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟
ج. ولی فقیہ کے وہ نمائندے جن کو ولی فقیہ کی طرف سے نماز عید قائم کرنے کی اجازت ہو نماز عید پڑھا سکتے ہیں اسی طرح وہ ائمہ جمعہ بھی دور حاضر میں نماز عید، جماعت سے پڑھا سکتے ہیں جن کو ولی فقیہ کی طرف سے منصوب کیا گیا ہے، لیکن ان کے علاوہ باقی افراد کے لئے احوط یہ ہے کہ نماز عید فرادیٰ پڑھیں، اور رجاء کی نیت سے جماعت کے ساتھ پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ورود(یعنی اس نیت سے کہ اس کا حکم شریعت میں آیا ہے) کے قصد سے نہیں۔ ہاں اگر مصلحت کا تقاضا یہ ہو کہ شہر میں ایک ہی نماز عید قائم کی جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے ولی فقیہ کے منصوب کردہ امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور نہ پڑھائے۔
س296. کیا نماز عید فطر کی قضا کی جا سکتی ہے؟
ج. اس کی قضا نہیں ہے۔
س297. کیا نماز عید فطر میں اقامت ہے؟
ج. اس میں اقامت نہیں ہے۔
س 298. اگر نماز عید فطر کیلئے اما م جماعت، اقامت کہے تو اس کی اور دیگر نماز گزاروں کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. اس سے امام جماعت اور دیگر مامومین کی نماز کے صحیح ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
- نماز مسافر
نماز مسافر
س 299. مسافر کے لئے ہر نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے یا بعض نمازوں کو؟
ج. قصر کا وجوب پنجگانہ نمازوں کی صرف چار رکعتی یعنی "ظہر و عصر اور عشائ" کی نمازوں سے مخصوص ہے، صبح اور مغرب کی نماز قصر نہیں ہوتی۔
س300. مسافر پر چار رکعتی نمازوں میں وجوب قصر کے شرائط کیا ہیں؟
ج. یہ آٹھ شرطیں ہیں:
١۔ سفر کی مسافت آٹھ شرعی فرسخ ہو یعنی صرف جانے کا فاصلہ یاصرف آنے کا فاصلہ یا دونوں طرف کا مجموعی فاصلہ آٹھ شرعی فرسخ ہو، بشرطیکہ صرف جانے کی مسافت چار فرسخ سے کم نہ ہو۔
٢۔ سفر پر نکلتے وقت آٹھ فرسخ کی مسافت کو طے کرنے کا قصد رکھتا ہو۔ لہذا اگرابتدا سے اس مسافت کا قصد نہ کرے یا اس سے کم کا قصد کرے اور منزل پر پہنچ کر دوسری جگہ کا قصد کر لے اور اس دوسری جگہ اور پچھلی منزل کے درمیان کا فاصلہ شرعی مسافت کے برابر نہ ہو، لیکن جہاں سے پہلے چلا تھا وہاں سے شرعی مسافت ہو تو نماز پوری پڑھے۔
٣۔ سفر کے دوران شرعی مسافت طے کرنے کے ارادے سے پلٹ جائے، لہذا اگر چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے ارادہ بدل دے یا اس سفر کو جاری رکھنے میں متردد ہو جائے تو اس کے بعد اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہوگا، اگر چہ ارادہ بدلنے سے قبل اس نے جو نمازیں قصر پڑھی ہیں وہ صحیح ہیں۔
٤۔شرعی مسافت کو طے کرنے کے دوران اپنے سفر کو اپنے وطن سے گزرنے یا ایسی جگہ سے گزرنے کے ذریعے کہ جہاں دس روز یا اس سے زیادہ ٹھہرنا چاہتاہے قطع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
٥۔ شرعی اعتبار سے اس کا سفر جائز ہو، لہذا اگر سفر معصیت کاہو، خواہ وہ سفر خود ہی معصیت و حرام ہو جیسے جنگ سے فرار کرنا یا غرضِ سفر حرام ہو جیسے ڈاکہ ڈالنے کے لئے سفر کرنا، تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا اور نماز پوری ہوگی۔
٦۔ مسافر، ان خانہ بدوشوں میں سے نہ ہو کہ جن کا کوئی معین مقام (وطن) نہیں ہوتا بلکہ وہ صحراؤں میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں انہیں پانی، گھاس اور چراگاہیں مل جائیں وہیں پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔
٧۔ سفر اس کا پیشہ نہ ہو جیسے ڈرائیور اور ملاح و غیرہ اور یہ حکم ان لوگوں کا بھی ہے جن کا شغل سفر میں ہو۔
٨۔ حد ترخص تک پہنچ جائے اور حد ترخص سے مراد وہ جگہ ہے کہ جہاں پر شہر کی اذان نہ سنی جا سکے۔ - جس شخص کا پیشہ یا پیشے کا مقدمہ سفر ہو
جس شخص کا پیشہ یا پیشے کا مقدمہ سفر ہو
س301. جس شخص کا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہو، کیا وہ سفر میں پوری نماز پڑھے گااور اس کا روزہ بھی صحیح ہے ، یا یہ (پوری نماز پڑھنا) اس شخص سے مخصوص ہے جس کا خود پیشہ سفر ہو اور مرجع دینی، امام خمینی کے اس قول کے کیا معنی ہیں"جس کا پیشہ سفر ہو" کیا کوئی شخص ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کا پیشہ سفر ہو؟ اس لئے کہ چرواہے، ڈرائیور اور ملاح و غیرہ کا پیشہ بھی چرانا، ڈرائیونگ کرنا اور کشتی چلانا ہے، اور بنیادی طور پر ایسا کوئی شخص نہیں پایا جاتا کہ جس نے سفر کو پیشے کے طور پر اختیار کیا ہو؟
ج. جس شخص کا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہو، اگر وہ ہر دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ کام کیلئے اپنے کام کی جگہ پر جاتا ہے تو وہ وہاں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے اور فقہاء (رضوان اللہ علیھم) کے کلام "جس کا شغل سفر ہو" سے مراد وہ شخص ہے جس کے کام کا دارومدار سفر پر ہو جیسے وہ مشاغل جو آپ نے سوال میں ذکر کئے ہیں۔
س302. ان لوگوں کے روزے اور نماز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو ایک شہر میں کام کرنے کے لئے ایک سال سے زائد مدت تک قیام کرتے ہیں یا وہ رضاکار جو کسی شہر میں فوجی خدمت انجام دینے کے لئے ایک یا دو سال قیام کرتے ہیں، کیا ان پرہر سفر کے بعد دس روزکے قیام کی نیت کرنا واجب ہے تاکہ وہ روزہ رکھ سکیں اور پوری نماز پڑھ سکیں یا نہیں؟ اور اگر وہ دس روز سے کم قیام کی نیت کریں تو ان کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. مفروضہ صورت میں اس شہر میں نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔
س303. جنگی طیاروں کے پائلٹ، جو اکثر ایام میں فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں اور شرعی مسافت سے کہیں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس آتے ہیں، ان کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے۔
ج. اس سلسلہ میں ان کا حکم وہی ہے جو ڈرائیوروں، کشتیوں کے ملاحوں اور جہازوں کے پائلٹوں کا ہے یعنی سفر میں انکی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س304. وہ قبائلی جو تین یا چار ماہ کیلئے گرم علاقے سے سرد علاقے کی طرف یا برعکس نقل مکانی کرتے ہیں لیکن سال کا باقی حصہ اپنے ہی علاقے میں گزارتے ہیں تو کیا انکے دو وطن شمار ہوں گے ؟ نیز ان میں سے ایک مقام پر رہائش کے دوران میں جو دوسرے مقام کی طرف سفر کرتے ہیں اس میں انکی نماز کا قصر یا تمام ہونے کے لحاظ سے کیا حکم ہے ؟
ج. اگر وہ ہمیشہ گرم سے سرد علاقہ اور سرد سے گرم علاقہ کی طرف نقل مکانی کا قصد رکھتے ہوں تاکہ اپنے سال کے بعض ایام ایک جگہ گزاریں اور بعض ایام دوسری جگہ گزاریں اور انہوں نے دونوں جگہوں کو اپنی دائمی زندگی کے لئے اختیار کر رکھا ہو تو دونوں جگہیں ان کیلئے وطن شمار ہوں گی اور دونوں پر وطن کا حکم عائد ہوگا۔ اور اگر دونوں وطنوں کے درمیان کا فاصلہ، شرعی مسافت کے برابر ہو تو ایک وطن سے دوسرے وطن کی طرف سفر کے راستے میں ان کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔
س305. میں ایک شہر (سمنان)میں سرکاری ملازم ہوں اورمیری ملازمت کی جگہ اور گھر کے درمیان تقریبا ٣٥ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور روزانہ اس مسافت کو اپنی ملازمت کی جگہ پہنچنے کے لئے طے کرتا ہوں۔ پس اگر کسی کام سے میں اس شہر میں چند راتیں ٹھہرنے کا ارادہ کرلوں تو میں اپنی نماز کیسے پڑھوں گا؟ کیا مجھ پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر اگر میں جمعہ کو اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے سمنان جاؤں تو کیا مجھے پوری نماز پڑھنا ہوگی یا نہیں؟
ج. اگر آپ کا سفر آپ کی اس ملازمت کیلئے نہیں ہے جس کے لئے آپ روزانہ جاتے ہیں تو اس پر شغل والے سفر کا حکم عائد نہیں ہوگا، لیکن اگر سفر خود اسی ملازمت کیلئے ہو لیکن اسکے ضمن میں دیگرکا موں، جیسے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات و غیرہ کو بھی انجام دیں اور بعض اوقات وہاں پر ایک رات یا چند راتیں ٹھہر جائیں تو کام کے لئے سفر کا حکم ان اسباب کی وجہ سے نہیں بدلے گا، بلکہ آپ کو پوری نماز پڑھنا ہوگی اور روزہ رکھنا ہوگا۔
س306. اگر ملازمت کی جگہ پر کہ جس کیلئے میں نے سفر کیا ہے، دفتری اوقات کے بعد ذاتی کام انجام دوں، مثلاً صبح سات بجے سے دو بجے تک دفتری کام انجام دوں اور دو بجے کے بعد ذاتی کام انجام دوں تو میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج. دفتری کام کو انجام دینے کے بعد ذاتی کاموں کو انجام دینا " کام کیلئے سفرکرنے" کے حکم کو تبدیل نہیں کرتا۔
س307. ان رضاکاروں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو یہ جانتے ہیں کہ وہ دس دن سے زائد ایک جگہ قیام کریں گے، لیکن اس کا اختیار خود ان کے ہاتھ میں نہیں ہے؟ امید ہے امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں گے؟
ج. مفروضہ سوال میں اگر انہیں دس دن یا اس سے زائد ایک جگہ رہنے کا اطمینان ہوتو ان پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے، اور یہی فتوی امام خمینی کا بھی ہے۔
س308. ان سپاہیوں کے روزے اور نمازکا کیا حکم ہے جو فوج یا پاسداران انقلاب میں شامل ہیں اور دس دن سے زیادہ چھاؤنیوں میں اور دس دن سے زیادہ سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں؟ براہ مہربانی امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں؟
ج. اگر وہ دس دن یا اس سے زیادہ ایک جگہ قیام کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں یا وہ جانتے ہوں کہ دس دن یا اس سے زیادہ وہاں رہنا ہوگا تو وہاں پر انکی نماز پوری ہوگی اور انہیں روزہ بھی رکھنا ہوگا اور امام خمینی کا فتوی بھی یہی ہے۔
س 309. امام خمینی کی توضیح المسائل کے باب "نماز مسافر" ،"ساتویں شرط" میں آیا ہے: "ڈرائیور پر واجب ہے کہ پہلے سفر کے بعد پوری نماز پڑھے، لیکن پہلے سفر میں اس کی نماز قصر ہے خواہ سفر طویل ہی کیوں نہ ہو" تو کیا پہلے سفر سے مراد وطن سے چلنا اور لوٹ کر وطن واپس آنا ہے یا نہیں بلکہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جانے سے پہلا سفر مکمل ہوجائیگا؟
ج. اگر اسکی آمد و رفت عرف عام میں ایک سفر شمار ہوتی ہے جیسے استاد جو پڑھانے کیلئے اپنے وطن سے کسی شہر کی طرف سفر کرتاہے اور پھر شام کو یا اگلے دن اپنے گھر واپس آجاتاہے تو اس صورت میں اسکی رفت و آمد کو پہلا سفر شمار کیا جائے گا اور اگر عرف عام میں ایک سفر شمار نہ کیا جائے جیسے ڈرائیور جو سامان اٹھانے کیلئے ایک منزل کی طرف سفر کرتاہے اور پھر وہاں سے مسافروں کو سوار کرنے یا دوسرا سامان اٹھانے کیلئے سفر کرتاہے اور اسکے بعد اپنے وطن کی طرف پلٹ آتاہے تو اس صورت میں اپنی پہلی منزل مقصود تک پہنچ کر اسکا پہلا سفر مکمل ہوجائیگا۔
س 310. وہ شخص جس کا مستقل پیشہ ڈرائیونگ نہ ہو، بلکہ مختصر مدت کے لئے ڈرائیونگ کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہو، جیسے چھاؤنیوں و غیرہ میں فوجیوں پر موٹرگاڑی چلانے کی ذمہ داری عائد کر دی جاتی ہے، کیا ایسا شخص مسافر کے حکم میں ہے یا اس پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے؟
ج. اگر عرف عام میں گاڑی کی ڈرائیونگ کو اس مدت میں ان کا پیشہ سمجھا جائے تو اس مدت میں ان کا وہی حکم ہے جو تمام ڈرائیوروں کا ہے۔
س 311. جب کسی ڈرائیور کی گاڑی میں کوئی نقص پیدا ہو جائے اور وہ اس کے پرزے خریدنے اور اسے ٹھیک کرنے کیلئے دوسرے شہر جائے تو کیا اس طرح کے سفر میں وہ پوری نماز پڑھے گا یا قصر، جبکہ اس سفر میں اس کی گاڑی اس کے ساتھ نہیں ہے؟
ج. مذکورہ صورت میں بھی اس کا سفر شغل والا ہے اور نماز پوری ہے۔
- طلبہ کے احکام
طلبہ کے احکام
س 312. یونیورسٹیوں کے ان طلبہ کا کیا حکم ہے جو ہفتہ میں کم از کم دو دن تحصیل علم کیلئے سفر کرتے ہیں یا ان ملازمین کا کیا حکم ہے جو ہر ہفتہ اپنے کام کے لئے سفر کرتے ہیں؟ واضح رہے کہ وہ ہر ہفتہ سفر کرتے ہیں لیکن کبھی یونیورسٹی یا کام کی جگہ میں چھٹی ہوجانے کی وجہ سے وہ ایک ماہ تک اپنے اصلی وطن میں رہتے ہیں اور اس ایک ماہ کی مدت میں سفر نہیں کرتے تو جب وہ ایک ماہ کے بعد پھر سے سفر کا آغاز کریں گے تو کیا اس پہلے سفر میں انکی نماز قاعدے کے مطابق قصر ہو گی اور اس کے بعد وہ پوری نماز پڑھیں گے اور اگر اس کام والے سفر سے پہلے کسی ذاتی سفر پر گیا ہو تو حکم کیا ہوگا؟
ج. تحصیل علم کیلئے سفر میں نماز اور روزے کا حکم احتیاط پر مبنی ہے(1)، خواہ ان کا سفر ہفتہ وار ہو یا روزانہ ہو، لیکن جو شخص کام کے لئے سفر کرتا ہے خواہ وہ مستقل کام کرتا ہو یا کسی دفتر میں اگر وہ دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے کام کرنے کی جگہ اور اپنے وطن یا اپنی رہائشگاہ کے درمیان رفت و آمد کرتا ہو تو وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ رکھنا بھی صحیح ہو گا اور جب وہ کام والے دو سفروں کے درمیان اپنے وطن میں یا کسی اور جگہ پر دس دن کا قیام کرے تو ان دس دنوں کے بعد کام کے لئے کئے جانے والے پہلے سفر میں نماز قصر پڑھے گا اور روزہ نہیں رکھے گا لیکن اگر اپنے کام والے اس سفر سے پہلے کسی ذاتی سفر پر گیا ہو تو اس ذاتی سفر کے دوران نماز قصر اور اس کے بعد کام والے سفر کے درمیان پوری ہوگی لیکن بہرحال اس کام والے سفر کے دوران یہ احتیاط "کہ نماز پوری بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے" ترک نہ کیا جائے۔
س 313. میں رفسنجان کے قریب سکول میں ٹیچر ہوں لیکن یونیورسٹی میں داخلہ ہوجانے کی وجہ سے اس میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے پر بھی مامور ہوں چنانچہ ہفتے کے پہلے تین دن کرمان میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول ہوتا ہوں اور باقی دن اپنے شہر میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتاہوں میری نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے کیا مجھ پر طالب علم و الا حکم عائد ہوگا یا نہیں ؟
ج. اگر آپ تعلیم حاصل کرنے پر مأ مور ہیں تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ بھی صحیح ہے ۔
س 314. اگر دینی طالب علم یہ نیت کرے کہ وہ تبلیغ کو اپنا مشغلہ بنائے گا تو مذکورہ فرض کے مطابق وہ سفر میں پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور روزہ بھی رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اس شخص کا سفر تبلیغ، ہدایت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے نہ ہو بلکہ کسی اور کام کے لئے سفر کرے تو اس کے روزے نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر تبلیغ و ہدایت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو عرف عام میں اس کا شغل اور کام کہا جاتا ہو تو ان چیزوں کے لئے اس کے سفر کا حکم وہی ہے جو شغل کے لئے سفر کرنے والوں کا ہے اور اگر کبھی ان کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے سفر کرے تو دیگر تمام مسافروں کی طرح نماز قصر پڑھے اور اس کا روزہ صحیح نہیں ہے ۔
س 315. جو لوگ غیر معینہ مدت کے لئے سفر کرتے ہیں جیسے حوزہ علمیہ کے طالب علم یا حکومت کے وہ ملازمین جو کسی شہر میں غیر معینہ مدت کے لئے مامور کئے جاتے ہیں، ان کے روزوں اور نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. مذکورہ صورت میں اگر وہاں ایک دو سال ٹھہرنے کا ا رادہ ہو تو نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س 316. اگر دینی طالب علم اس شہر میں رہتا ہے جو اس کا وطن نہیں ہے اور وہاں دس روز قیام کی نیت کرنے سے قبل وہ جانتا تھا یا یہ قصد رکھتا تھا کہ شہر سے باہر واقع مسجد میں ہر ہفتے جائے گا۔ آیا وہ دس دن کے قیام کی نیت کر سکتا ہے یا نہیں؟
ج. قصد اقامت کے دوران شرعی مسافت سے کم اتنی مقدار باہر جانے کا ارادہ کہ جسے عرف میں ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کے ساتھ منافی شمار نہیں کیا جاتا، قصد اقامت کو ختم نہیں کرتا مثلاً اس کا ارادہ یہ ہو کہ ان دس دنوں کے دوران تین دفعہ اور ہر دفعہ تقریباً پانچ گھنٹے شرعی مسافت سے کم تک جائے گا اور واپس آئے گا۔
1 ۔ایسی صورت حال رکھنے والے افراد شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کسی دوسرے مجتہد کے فتوا کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور اگر رجوع نہ کریں تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نماز پوری بھی پڑھیں اور قصر بھی اور ماہ رمضان میں ضروری ہے کہ احتیاطاً روزہ رکھیں اور بعد میں اس کی قضا بھی کریں۔
- قصد اقامت اورمسافتِ شرعی
قصد اقامت اورمسافتِ شرعی
س 317. میں جس جگہ ملازمت کرتا ہوں وہ قریبی شہر سے شرعی مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے اور چونکہ دونوں جگہ میرا وطن نہیں ہے، لہذا میں اپنی ملازمت کی جگہ دس روز ٹھہرنے کا قصد کرتا ہوں تا کہ پوری نماز پڑھ سکوں اور روزہ رکھ سکوں اور جب میں اپنے کام کی جگہ پر دس روز قیام کرنے کا قصد کرتا ہوں تو دس روز کے دوران میں یا اس کے بعد قریبی شہر میں جانے کا قصد نہیں کرتا، پس درج ذیل حالات میں شرعی حکم کیا ہے؟
١۔ جب میں اچانک یا کسی کام سے دس دن کامل ہونے سے پہلے اس شہر میں جاؤں اور تقریباً دو گھنٹے وہاں ٹھہرنے کے بعد اپنے کام کی جگہ واپس آ جاؤں۔
٢۔ جب میں دس روز کامل ہونے کے بعد اس شہر کے کسی ایک معین محلے میں جاؤں اور میرے وہاں تک جانے کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ نہ ہو اورایک رات ، وہاں قیام کر کے میں اپنی قیامگاہ کی طرف واپس آجاؤں۔
٣۔ جب میں دس روز قیام کے بعد اس شہر کے کسی ایک معین محلہ کے قصد سے نکلوں، لیکن اس محلہ میں پہنچنے کے بعد میرا ارادہ بدل جائے اور میں ایک اور محلے میں جانے کی نیت کر لوں جو میری قیامگاہ سے شرعی مسافت سے زیادہ دور ہے؟ج.
١۔٢۔ قیام گاہ پر پوری نمازوالے حکم کے ثابت ہوجانے کے بعد خواہ وہ قیام گاہ میں کم از کم ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کی وجہ سے ہی ہو شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ایک دن جائے یا کئی دن اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپنی قیامگاہ سے دس دن کامل ہونے کے بعد نکلے یا دس دن کامل ہونے سے قبل، بلکہ نئے سفر سے پہلے تک پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔
٣۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شرعی سفر واقع ہی نہیں ہوا اس لیے قصد اقامت ختم نہیں ہوگا۔س 318. مسافر اپنے وطن سے نکلنے کے بعد اگر اس راستے سے گزرے جہاں سے اس کے اصلی وطن کی اذان کی آوازسنائی دے، یا اس کے وطن کے گھروں کی دیواریں دکھائی دیں تو کیا اس سے مسافت پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
ج. اگر اپنے وطن سے نہ گزرے تو اس سے شرعی مسافت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اس سے سفر کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، لیکن جب تک وہ اپنے وطن اور حد ترخص کے درمیان والے مقام میں ہے اس پر مسافر والا حکم جاری نہیں ہوگا۔
س 319. جہاں میں ملازم ہوں اور فی الحال جہاں میرا قیام ہے، وہ میرا اصلی وطن نہیں ہے اور اس جگہ اور میرے وطن کے درمیان شرعی مسافت سے زیادہ فاصلہ ہے۔ ملازمت کی جگہ کو میں نے اپنا اصلی وطن نہیں بنایا ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہاں فقط چند سال رہوں، میں بعض اوقات وہاں سے دفتری کاموں کے لئے مہینے بھر میں دو یا تین دن کے سفر پر جاتا ہوں لہذا جب میں اس شہر سے نکل کر جس میں، میں رہائش پذیر ہوں مسافت شرعی سے زیادہ دور جاؤں اور پھر وہیں لوٹ آؤں تو کیا مجھ پر واجب ہے کہ دس دن کے قیام کی نیت کروں یا اس کی ضرورت نہیں ہے؟ اور اگر دس دن کے قیام کی نیت واجب ہے تو شہر کے اطراف میں کتنی مسافت تک میں جا سکتا ہوں؟
ج. مذکورہ صورت میں اس جگہ آپ مسافر کا حکم نہیں رکھتے اور آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س 320. ایک شخص چند سال سے اپنے وطن سے چار کلومیٹر دور رہتا ہے اور ہر ہفتہ گھر جاتا ہے لہذا اگر یہ شخص اس مقام کی طرف سفر کرے کہ جس کا اس کے وطن سے ٢٥ کلو میٹر کا فاصلہ ہے، لیکن جس جگہ وہ چند سال تعلیم حاصل کرتا رہاہے وہاں سے اس کا فاصلہ ٢٢ کلومیٹر ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر وطن سے اس جگہ تک سفر کرے تو اسکی نماز قصر ہے ۔
س 321. ایک مسافر نے تین فرسخ تک جانے کا قصدکیا، لیکن ابتداء ہی سے اس کا ارادہ تھا کہ وہ اس سفر کے دوران ایک خاص کام کی انجام دہی کیلئے ایک چھوٹے راستے سے ایک فرسخ تک جائے گا پھر اصلی راستہ پر آجائے گا اور اپنے سفر کو جاری رکھے گا تو اس مسافر کے روزہ اور نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. اس پر مسافر کا حکم جاری نہیں ہو گا اور مسافت شرعی کو پورا کرنے کیلئے اصلی راستہ سے نکل کر دوبارہ اس پر لوٹ آنے کا شرعی مسافت کی تکمیل کیلئے اضافہ کرنا کافی نہیں ہے۔
س 322. امام خمینی کے (اس) فتویٰ کے پیش نظر کہ جب آٹھ فرسخ کا سفر کرے تو نماز قصر پڑھے اور روزہ نہ رکھنا واجب ہے، اگر جانے کا راستہ چار فرسخ سے کم ہو لیکن واپسی پر سواری نہ ملنے یا راستے کی مشکلات کے پیش نظر ایسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جو چھ فرسخ سے زیادہ ہو تو اس صورت میں نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر جانا چار فرسخ سے کم ہو اور فقط واپسی کا راستہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ہو تو نماز پوری پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔
س 323. جو شخص اپنی قیام گاہ سے ایسی جگہ جائے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو اور ہفتہ بھر میں اس جگہ سے متعدد بار دوسری جگہوں کا سفر کرے، اس طرح کہ کل مسافت آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو جائے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج. اگر وہ گھر سے نکلتے وقت شرعی مسافت کا قصد نہیں رکھتا تھا اور اس کی پہلی منزل اور ان دوسری جگہوں کے درمیان کا فاصلہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ تھا تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہوگا۔
س 324. اگر ایک شخص اپنے شہر سے کسی خاص جگہ کے قصد سے نکلے اور پھر اس جگہ اِدھر اُدھر گھومتا رہے تو کیا اس کا یہ اِدھر اُدھر گھومنا اس مسافت میں شمار ہو گا جو اس نے اپنے گھر سے طے کی ہے؟
ج. منزل مقصود پر ادھر ادھر گھومنا مسافت میں شمار نہیں ہو گا۔
س 325. کیا قصد اقامت کے وقت قیام گاہ سے چار فرسخ سے کم فاصلے پر جانے کی نیت کی جاسکتی ہے؟
ج. اقامت گاہ سے شرعی مسافت سے کم فاصلے تک جانے کا قصد اگر دس دن کے قیام کے صادق آنے کو ضرر نہ پہنچائے جیسے کہ اس کا ارادہ یہ ہو کہ ان دس دنوں کے دوران تین دفعہ اور ہر بار تقریباً پانچ گھنٹے شرعی مسافت سے کم تک جائے گا اور واپس آئے گا تو ایسی نیت قصد اقامت کے صحیح ہونے کے لئے مضر نہیں ہے۔
س 326. اس بات کے پیش نظر کہ اپنی قیامگاہ سے اپنی جائے ملازمت تک آنا جانا کہ جن کے درمیان ٢٤کلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے پوری نماز پڑھنے کا موجب ہے، اگر میں اپنی ملازمت کے شہر کے حدود سے باہر نکلوں یا کسی دوسرے شہر کی طرف جاؤں کہ جس کا فاصلہ میرے کام کرنے کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم ہے اور ظہر سے قبل یا بعد اپنی ملازمت کی جگہ واپس آجاؤں تو کیا میری نماز پھر بھی پوری ہوگی؟
ج. ملازمت کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم فاصلے تک جانے سے اگرچہ اس کا آپ کے کام کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو، جائے ملازمت پر آپ کے روزہ اورنماز کا حکم نہیں بدلے گا، اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آپ اپنی ملازمت کی جگہ پر ظہر سے قبل واپس آئیں یا اسکے بعد۔
س327. ایک شخص اپنے وطن سے ا س شہر کی طرف سفر کرتا ہے کہ جس کی ابتدا تک شرعی مسافت نہیں ہے لیکن جو نقطہ اس کی منزل مقصود ہے (جیسے اس کے دوست کا گھر) اس تک مسافت شرعی ہے تو کیا شرعی مسافت کا حساب کرنے کیلئے معیار شہر کی ابتدا ہے یا وہ نقطہ جو اس کی منزل مقسود ہے؟
ج. اگر اس نے کسی خاص نقطے کیلئے سفر کیا ہو اس طرح کہ شہر سے عبور اُس نکتہ تک پہنچنے کا راستہ ہو تو مسافت کا حساب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس نقطے کو مدنظر رکھا جائے لیکن اگر باوجود اس کے کہ اس کی کوئی خاص منزل مقصود ہے شہر میں بھی کام رکھتا ہو اس طرح کہ شہر میں پہنچ جانا منزل مقصود تک پہنچنا شمار ہوتا ہو تو شہر کی ابتدا معیار ہے۔
س328. میں ہر ہفتہ حضرت سیدہ معصومہ "علیہا السلام "کے مرقد کی زیارت اور مسجد جمکران کے اعمال بجالانے کی غرض سے قم جاتا ہوں، اس سفر میں مجھے پوری نماز پڑھنا ہوگی یا قصر؟
ج. اس سفر میں آپ کا حکم وہی ہے جوتما م مسافروں کا ہے اور آپ کی نماز قصر ہے ۔
س329. شہر"کا شمر" میری جائے ولادت ہے اور١٩٦٦(١٣٤٥ ہجری شمسی)سے ١٩٩٠ (١٣٦٩ ہجری شمسی) تک میں تہران میں مقیم رہاہوں اور اسے میں نے اپنا وطن بنا رکھا تھا اور اب تین سال سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ادارے کی طرف سے بندر عباس میں تعینات ہوں اور ایک سال کے اندر پھر اپنے وطن تہران لوٹ جاؤں گا، اس بات کے پیش نظر کہ میں جب تک بندر عباس میں ہوں ہر لحظے امکان ہے کہ مجھے بندرعباس کے ساتھ ملحق شہروں میں ڈیوٹی کیلئے جانا پڑے اورکچھ مدت مجھے وہاں ٹھہرنا پڑے اور ادارے کی طرف سے میری جو ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اسکے وقت کا بھی پہلے سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ براہ مہربانی سب سے پہلے میرے روزہ و نماز کا حکم بیان فرمائیں؟
دوسرے یہ کہ میری زوجہ کی نماز و روزہ کا کیا حکم ہے، جبکہ وہ خانہ دار ہے، اسکی جائے پیدائش تہران ہے اور وہ میری وجہ سے بندر عباس میں رہتی ہے؟ج. مذکورہ صورت میں آپ اُس جگہ مسافر والا حکم نہیں رکھتے اور آپ اور آپ کی بیوی کی نماز وہاں پوری ہے اور روزہ صحیح ہے۔
س330. ایک شخص نے ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا ہے، کیونکہ اسے علم تھا کہ وہاں دس دن ٹھہرے گا یا اس نے اس امر کا عزم کررکھا تھا، پھر اس نے ایک چار رکعتی نماز پوری پڑھ لی جس سے اس پر پوری نماز پڑھنے کا حکم لاگو ہوگیا۔ اب اسے ایک غیر ضروری سفر پیش آگیا ہے تو کیا اس کے لئے یہ سفر جائز ہے؟
ج. اس کے سفر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے خواہ سفر غیر ضروری ہو۔
س331. اگر کوئی شخص امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے سفر کرے اور یہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز سے کم قیام کرے گا، لیکن نماز پوری پڑھنے کی غرض سے دس روز ٹھہرنے کی نیت کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر وہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز قیام نہیں کرے گا تو اس کا دس دن ٹھہرنے کی نیت کرنا بے معنی ہے اور اس کی نیت کا کوئی اثر نہیں ہے بلکہ وہاں نماز قصر پڑھے گا۔
س332. غیر مقامی ملازم پیشہ لوگ جو اپنے کام والے شہر میں کبھی بھی دس روز قیام نہیں کرتے اور ان کا سفر بھی شرعی مسافت سے کم ہوتا ہے تو نماز کے سلسلہ میں ان کا کیا حکم ہے قصر پڑھیں یا پوری؟
ج. مفروضہ صورت میں اگر ملازمت کی جگہ میں دس دن قیام نہ کرے تو اس کا سفر شغل والا سفر شمار ہوگا اور رہائش گاہ، ملازمت کی جگہ اور ان دو کے درمیان نماز پوری ہوگی۔
س333. اگر کوئی شخص کسی جگہ سفر کرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ وہاں کتنے دن قیام کرنا ہے، دس روز یا اس سے کم تو وہ کس طرح نماز پڑھے؟
ج. مردد شخص کی ذمہ داری یہ ہے کہ تیس دن تک نماز قصر پڑھے اور اسکے بعد پوری پڑھے اگرچہ اسے اسی دن واپس پلٹنا ہو۔
س334. جو شخص دومقامات پر تبلیغ کرتا ہے اور اس علاقہ میں دس روز قیام کا قصد بھی رکھتا ہے تو اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر عرف عام میں یہ دو علاقے شمار ہوں تو وہ نہ دونوں مقامات میں قصد اقامت کرسکتا ہے اور نہ ہی ایک مقام پر، جبکہ وہ دس روز کے اندر دوسرے مقام تک رفت و آمد کا قصد رکھتا ہو۔
- حد ترخص
حد ترخص
س335. جرمنی اور یورپ کے بعض شہروں کا درمیانی فاصلہ (یعنی ایک شہر سے نکلنے اور دوسرے شہر میں داخل ہونے کے سائن بورڈ کی مسافت) ایک سو میٹر سے زیادہ نہیں ہوتا حتی کہ دو شہروں کے بعض مکانات اور سڑکیں تو ایک دوسرے سے متصل ہوتی ہیں، ایسے موارد میں حد ترخص کیسے ہوگی؟
ج. جہاں دو شہر ایک دوسرے سے اس طرح متصل ہوں جیساکہ مذکورہ سوال میں ہے تو ایسے دو شہر، ایک شہر کے دو محلوں کے حکم میں ہیں یعنی ایک شہر سے خارج ہونے اور دوسرے شہر میں داخل ہونے کو سفر شمار نہیں کیا جائے گا تاکہ اسکے لئے حد ترخص معین کی جائے۔
س 336. حد ترخص کا معیار شہر کی اذان سننا اور شہر کی دیواروں کو دیکھنا ہے، کیا (حد ترخص میں) ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے یا دونوں میں سے ایک کافی ہے؟
ج. احتیاط یہ ہے کہ دونوں علامتوں کی رعایت کی جائے اگرچہ بعید نہیں ہے کہ حد ترخص کی تعیین کے لئے اذان کا نہ سنائی دینا ہی کافی ہو۔
س 337. کیا حد ترخص میں شہر کے ان گھروں ۔ کہ جہاں سے مسافر شہر سے خارج ہوتاہے یا اس میں داخل ہوتا ہے۔ کی اذان کا سنائی دینا معیار ہے یا شہر کے وسط کی اذان کا سنائی دینا؟
ج. شہر کے اس آخری حصے کی اذان سننا معیارہے کہ جہاں سے مسافر شہر سے نکلتا ہے یا اس میں داخل ہو تا ہے۔
س 338. ہمارے یہاں ایک علاقہ کے لوگوں کے درمیان شرعی مسافت کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں شہر کے آخری گھروں کی وہ دیواریں معیار ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ شہر کے گھروں کے بعد جو کارخانے اور متفرق آبادیاں ہیں، ان سے مسافت کا حساب کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ شہر کا آخر اس کا کون سا حصہ ہے؟
ج. شہر کی آخری حدود کی تعیین عرف عام پر موقوف ہے اگر عرف عام میں کارخانوں اور متفرق آبادیوں کو شہر کا حصہ شمار نہ کیا جائے تو مسافت کا حساب شہر کے آخری گھروں سے کیا جائیگا۔
- سفر معصیت
سفر معصیت
س 339. جب انسان یہ جانتا ہو کہ وہ جس سفر پر جا رہا ہے، اس میں وہ گناہ اور حرام میں مبتلا ہو گا تو کیا اس کی نماز قصر ہے یا پوری؟
ج. جب تک اس کا سفر ترک واجب یا فعل حرام کیلئے نہ ہو تو اسکی نماز دیگر مسافروں کی طرح قصر ہے۔
س 340. جس شخص نے گناہ کی غرض سے سفر نہیں کیا، لیکن راستے میں اس نے معصیت کی غرض سے اپنے سفر کو تمام کرنے کی نیت کی ہے، توکیا اس شخص پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے یا قصر؟ اور اثنائے سفر میں جو قصر نمازیں پڑھ چکا ہے کیا وہ صحیح ہیں یا نہیں؟
ج. جس وقت سے اس نے اپنے سفر کو گناہ و معصیت کی غرض سے جاری رکھنے کی نیت کی ہے اس وقت سے اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے اور معصیت کی نیت کے بعد جو نمازیں اس نے قصر پڑھی ہیں ان کو دوبارہ پوری پڑھنا واجب ہے۔
س 341. اس سفر کا کیا حکم ہے جو تفریح یا ضروریات زندگی کے خریدنے کے لئے کیا جائے اور اس سفر میں نماز اور اس کے مقدمات کے لئے جگہ میسر نہ ہو؟
ج. اگر وہ جانتا ہے کہ اس سفر میں اس سے بعض وہ چیزیں چھوٹ جائیں گی جو نماز میں واجب ہیں تو احوط یہ ہے کہ ایسے سفر پر نہ جائے مگر یہ کہ سفر ترک کرنے میں اس کیلئے ضرر یا حرج ہو۔ بہر حال کسی بھی صورت میں نماز کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔
- احکام وطن
احکام وطن
س 342. میری جائے پیدائش تہران ہے، جبکہ میرے والدین کا وطن "مہدی شہر" ہے، لہذا وہ سال میں متعدد بار "مہدی شہر" جاتے ہیں، ان کے ساتھ میں بھی جاتا ہوں، لہذا میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میں " مہدی شہر"کو رہائش کے لئے اپنا وطن نہیں بنانا چاہتا، بلکہ میرا ارادہ تہران ہی میں رہنے کا ہے؟
ج. مذکورہ فرض میں آپ کے والدین کے اصلی وطن میں آپ کے روزہ و نماز کا حکم وہی ہے جودیگر مسافروں کے روزہ و نماز کا ہوتاہے۔
س 343. میں ہر سال چھ ماہ ایک شہر میں اور چھ ماہ دوسرے شہر میں رہتا ہوں جو کہ میری جائے پیدائش ہے اور یہی شہر میرا اور میرے گھر والوں کا مسکن بھی ہے، لیکن پہلے شہر میں بطور مستمر نہیں ٹھہرتا، مثلاً دو ہفتے، دس روز یا اس سے کم وہاں رہتا ہوں پھر اس کے بعد اپنی جائے پیدائش اور اپنے گھر والوں کی رہائش گاہ میں لوٹ آتا ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں پہلے شہر میں دس روز سے کم ٹھہرنے کی نیت کروں تو کیا میرا حکم مسافر کا ہے یا نہیں؟
ج. اگر آپ اُس شہر میں اتنا رہتے ہیں کہ عرف میں مسافر شمار نہیں ہوتے تو اس جگہ آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔
س 344. جو شخص محدود تک کسی جگہ رہنا چاہتا ہے کتنی مدت تک وہاں رہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہوگا؟
ج. اگر کسی جگہ کم از کم ایک دو سال رہنے کا ارادہ رکھتاہو تو اُس جگہ اُس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س 345. ایک شخص کا وطن تہران ہے اور اب وہ تہران کے قریب ایک دوسرے شہر کو اپنے لئے وطن بنانا چاہتا ہے، اور چونکہ اس کا روزانہ کا کسب و کار تہران میں ہے، لہذا وہ دس روز بھی اس شہر میں نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ چھ ماہ تک رہے بلکہ وہ روزانہ اپنے کام پر جاتا ہے اور رات کو اس شہر میں لوٹ آتا ہے۔ اس شہر میں اس کے نمازو روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج. نئے شہر کو وطن بنانے کی یہ شرط نہیں ہے کہ انسان اسے وطن بنانے کا ارادہ کرنے اور اس میں سکونت اختیار کرنے کے بعد مسلسل کچھ مدت اس جگہ رہے، بلکہ جب اسے نئے وطن کے طور پر انتخاب کرلے اور اس قصد کے ساتھ کچھ مدت "اگر چہ صرف راتیں" وہاں رہائش رکھے تو وہ اس کا وطن شمار ہوگا اسی طرح اگر ایسے کام انجام دے کہ جنہیں عام طور پر انسان کسی جگہ کو وطن بنانے کیلئے انجام دیتا ہے جیسے گھر تیار کرنا، کاروبار کی جگہ کا انتخاب کرنا "اگرچہ وہاں رہا نہ بھی ہو" تو وطن بن جائے گا۔
س 346. میری اور میری زوجہ کی جائے پیدائش "کاشمر" ہے، لیکن جب سے میں سرکاری ملازم ہوا ہوں اس وقت سے میں نیشاپور منتقل ہو گیا ہوں اگر چہ ماں باپ اب بھی کاشمر میں ہی رہتے ہیں۔ نیشاپور کی طرف ہجرت کے آغاز میں ہی ہم نے اصلی وطن (کاشمر) سے اعراض کر لیا تھا، مگر ١٥ سال گزر جانے کے بعداب ہم نے اپنا ارادہ پھر بدل لیا ہے۔
مہربانی فرماکر درج ذیل سوالات کے جواب بیان فرمائیں:
١۔ جب ہم اپنے والدین کے گھر جاتے ہیں اور چند روز ان کے پاس قیام کرتے ہیں تو میری اور میری زوجہ کی نماز کا حکم کیا ہے؟
٢۔ ہمارے والدین کے وطن (کاشمر) میں جاکر وہاں چند روز قیام کے دوران، ہمارے ان بچوں کا کیا فریضہ ہے جو ہماری موجودہ رہائش گاہ نیشاپور میں پیدا ہوئے اور اب بالغ ہو چکے ہیں؟ج. جب آپ نے اپنے اصلی وطن "کاشمر" سے اعراض کر لیا تو اب وہاں آپ دونوں کیلئے وطن کا حکم جاری نہیں ہو گا، مگر یہ کہ آپ زندگی گزارنے کیلئے دوبارہ وہاں لوٹ جائیں اور کچھ مدت تک وہاں اس نیت سے رہیں، اسی طرح یہ شہر آپ کی اولاد کا وطن بھی نہیں ہے، بلکہ اس شہر میں آپ سب لوگ مسافر کے حکم میں ہیں۔
س 347. ایک شخص کے دو وطن ہیں اوردونوں میں وہ پوری نماز پڑھتا ہے اور روزہ رکھتا ہے توکیا اس کے بیوی بچوں پر کہ جن کی وہ دیکھ بھال اور کفالت کرتا ہے، اس مسئلہ میں اپنے ولی اور سرپرست کا اتباع واجب ہے؟ یا اس سلسلہ میں وہ اپنا مستقل عمل کر سکتے ہیں؟
ج. زوجہ یہ کرسکتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے نئے وطن کو اپنا وطن نہ بنائے، لیکن بچے جب تک چھوٹے ہیں اور اپنی کمائی اور ارادے میں مستقل نہیں ہیں یا اس مسئلہ میں باپ کے ارادہ کے تابع ہیں تو باپ کا نیا وطن ان کے لئے بھی وطن شمار ہو گا۔
س 348. اگر ولادت کا ہسپتال (زچہ خانہ) باپ کے وطن سے باہر ہو اور وضع حمل کی خاطر ماں کو چند روز اس ہسپتال میں داخل ہونا پڑے اور بچے کی ولادت کے بعد وہ پھر اپنے گھر لوٹ آئے تو اس پیدا ہونے والے بچے کا وطن کو نسا ہو گا؟
ج. صرف کسی شہر میں پیدا ہونے سے وہ شہر اس بچے کا وطن نہیں بن جاتا، بلکہ اس کا وطن وہی ہے جو اس کے والدین کا ہے کہ جہاں بچہ ولادت کے بعد منتقل ہوتا ہے اور جس میں ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔
س 349. ایک شخص چند سال سے اہواز شہر میں رہتا ہے، لیکن اسے اپنے لئے وطن ثانی نہیں بنایا ہے، تو اگر وہ اس شہر سے شرعی مسافت سے کم یا زیادہ فاصلہ پر جائے اور دوبارہ اس شہر میں واپس آجائے تو وہاں واپس آنے کے بعد اس کے نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج. مذکورہ صورت میں چونکہ اُس جگہ عرفاً مسافر شمار نہیں ہوتا اس لیے اُس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س 350. میں عراقی ہوں اور اپنے وطن عراق کو چھوڑنا چاہتا ہوں، کیا میں پورے ایران کو اپنا وطن بنا سکتا ہوں؟ یا صرف اسی جگہ کو اپنا وطن قرار دے سکتا ہوں جہاں میں ساکن ہوں؟ یا اپنے لئے وطن بنانے کے لئے گھر خریدنا ضروری ہے؟
ج. نئے وطن کے لئے شرط ہے کہ کسی مخصوص اور معین شہر کو وطن بنانے کا قصد کیا جائے اور اس میں اتنا عرصہ زندگی بسر کرے کہ عرف عام میں کہا جائے یہ شخص اس شہر کا باشندہ ہے، لیکن اس شہر میں گھر و غیرہ کا مالک ہونا شرط نہیں ہے۔
س351. جس شخص نے بلوغ سے قبل اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کی تھی اور وہ ترک وطن کے مسئلہ کو نہیں جانتاتھا اور اب وہ بالغ ہوا ہے تو وہاں اس کے روزہ و نما زکا کیا حکم ہے؟
ج. اگر اس نے باپ کے ساتھ اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کی تھی اور اس شہر میں دوبارہ اس کے باپ کا زندگی بسر کرنے کا ارادہ نہ ہوتو وہ جگہ اس کیلئے وطن نہیں ہوگی۔
س352. اگر انسان کا ایک وطن ہو اور وہ فی الحال وہاں نہ رہتا ہو، لیکن کبھی کبھی اپنی زوجہ کے ہمراہ وہاں جاتا ہو تو کیا شوہر کی طرح زوجہ بھی وہاں پوری نماز پڑھے گی یا نہیں؟ اورجب زوجہ اکیلی اس جگہ جائے گی تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. صرف کسی جگہ کا شوہر کا وطن ہونا سبب نہیں ہے کہ وہ زوجہ کا بھی وطن ہو اور وہاں پر اس کے لئے وطن کے احکام جاری ہوں۔
س353. کیا جائے ملازمت وطن کے حکم میں ہے؟
ج. کسی جگہ ملازمت کرنے سے وہ جگہ اس کا وطن نہیں بنتی ہے، لیکن اگر وہاں اس کی رہائش ہو اور کم از کم ایک دو سال وہاں رہنے کا ارادہ رکھتاہو تو اس کا حکم مسافر والا نہیں ہوگا اور اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س354. کسی شخص کے اپنے وطن کو چھوڑنے کے کیا معنی ہیں؟ اور کیا عورت کے شادی کر لینے اور شوہر کے ساتھ چلے جانے سے وطن چھوڑنا ثابت ہوجاتا ہے یا نہیں؟
ج. وطن چھوڑنے سے مرادیہ ہے کہ انسان اپنے وطن سے اس قصد سے نکلے کہ اب دوبارہ اس میں نہیں پلٹے گا اسی طرح اگر اسے اپنے نہ پلٹنے کا علم یا اطمینان ہو، اور عورت کے صرف دوسرے شہر میں شوہر کے گھر جانے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے اصلی وطن سے اعراض کر لیا ہے۔
س355. گزارش ہے کہ وطن اصلی او روطن ثانی کے متعلق اپنا نظریہ بیان فرمائیں
ج. وطن اصلی : اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان اپنی زندگی کی ابتدا (یعنی بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں)میں نشو و نما پاتا ہے اور بڑا ہوتا ہے۔ وطن ثانی : اس جگہ کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی دائمی سکونت کیلئے منتخب کرے اگر چہ اُسے ہر سال چند ماہ یا طویل مدت مثلاً چالیس پچاس سال تک رہنے کیلئے منتخب کیا ہو۔
س356. میرے والدین شہرِ"ساوہ" کے باشندے ہیں، دونوں بچپنے میں تہران آگئے تھے اور وہیں سکونت اختیار کر لی تھی۔ شادی کے بعد شہر چالوس منتقل ہو گئے کیونکہ میرے والد وہاں ملازمت کرتے تھے، لہذا اس وقت میں تہران اورساوہ میں کس طرح نماز پڑھوں؟ واضح رہے میری پیدائش تہران میں ہوئی ہے، لیکن وہاں کبھی نہیں رہا ہوں۔
ج. مذکورہ صو رت میں وہاں آپ کا حکم دیگر مسافروں والا ہے ۔
س357. جس شخص نے اپنے وطن سے اعراض نہیں کیا ہے لیکن چھ سال سے کسی اور شہر میں مقیم ہے، لہذا جب وہ اپنے وطن جائے تو کیا وہاں اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے یا قصر؟ واضح رہے کہ وہ امام خمینی کی تقلید پر باقی ہے۔
ج. اگر اس نے سابق وطن سے اعراض نہیں کیا ہے تو وطن کا حکم اس کے لئے باقی ہے اور وہ وہاں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔
س 358. ایک طالب علم نے تبریز شہر کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے تبریز میں چار سال کیلئے کرایہ پر گھر لے رکھا ہے، علاوہ از ایں اب اس کا ارادہ ہے کہ اگر ممکن ہو ا تو وہ دائمی طور پر تبریز ہی میں رہے گا آج کل وہ ماہ رمضان مبارک میں کبھی کبھار اپنے اصلی وطن جاتا ہے تو کیا دونوں جگہوں کو اس کا وطن شمار کیا جائے گا؟
ج. اگر مقام تعلیم کو اس وقت وطن بنانے کا پختہ ارادہ نہیں کیا تو وہ جگہ اس کے وطن کے حکم میں نہیں ہے لیکن مذکورہ صورت میں اس جگہ مسافر والا حکم نہیں رکھتا اور اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے نیز اس کا اصلی وطن، حکم وطن پر باقی ہے جب تک اس سے اعراض نہ کرے۔
س 359. میں شہر "کرمانشاہ"میں پیدا ہوا ہوں اور چھ سال سے تہران میں مقیم ہوں، لیکن اپنے اصلی وطن سے اعراض نہیں کیا ہے، اور تہران کو بھی وطن بنانے کا قصد کیا ہے لہذا جب ہم ایک سال یا دو سال کے بعد تہران کے ایک محلے سے دوسرے محلے میں منتقل ہوتے ہیں تواس میں میرے روزے ونماز کا کیا حکم ہے؟ اور چونکہ ہم چھ ماہ سے زائد عرصہ سے تہران کے نئے علاقے میں رہتے ہیں تو کیا ہمارے لئے یہاں پر وطن کا حکم جاری ہوگا یا نہیں؟ اور جب ہم دن بھر میں تہران کے مختلف علاقوں میں آتے جاتے ہیں تو ہماری نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر آپ نے موجودہ تہران یا اس کے کسی ایک محلہ کو وطن بنانے کا قصد کیا ہو تو پورا تہران آپ کا وطن ہے اور اس میں آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے اور تہران کے اندر ادھر ادھر جانے پر سفر کا حکم نہیں لگے گا۔
س360. ایک شخص گاؤں کا رہنے والا ہے آج کل اس کی ملازمت اور رہائش تہران میں ہے اور اس کے والدین گاؤں میں رہتے ہیں اور وہاں پر انکی زمین و جائداد بھی ہے، وہ شخص ان کی احوال پرسی اور امداد کے لئے وہاں جاتا ہے، لیکن وہاں پر سکونت اختیار کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے واضح رہے کہ وہ گاؤں اس شخص کی جائے پیدائش بھی ہے، لہذا وہاں اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. اگر اس شخص کی اس گاؤں میں زندگی بسر کرنے اور اس میں رہائش رکھنے کی نیت نہ ہوتو وہاں اس پر وطن کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
س361. کیا جائے ولادت کو وطن سمجھا جائے گا خواہ پیدا ہونے والا وہاں نہ رہتا ہو؟
ج. اگر کچھ عرصہ(یعنی بچپن اور لڑکپن کا زمانہ) تک وہاں زندگی گزارے اور وہیں نشوو نما پائے تو جب تک وہ اس جگہ سے اعراض نہیں کرے گا اس وقت تک وہاں اس پر وطن کا حکم جاری ہوگا، ورنہ نہیں۔
س362. اس شخص کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے جو ایک سرزمین میں کہ جو اس کا وطن نہیں ہے طویل مدت (٩سال)سے مقیم ہے اور فی الحال اس کا اپنے وطن میں آنا ممنوع ہے، لیکن اسے یہ یقین ہے کہ ایک دن وطن واپس ضرور جائے گا؟
ج. سوال کی مفروضہ صورت میں اس شخص پر مسافر صدق نہیں کرتا اور اُس جگہ اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔
س363. میں نے اپنی عمر کے چھ سال گاؤں میں اور آٹھ سال شہر میں گزارے ہیں اورحال ہی میں تعلیم کیلئے مشہد مقدس آیا ہوں، لہذا ان تمام مقامات پر میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟
ج. وہ گاؤں جو آپ کی جائے پیدائش ہے اگر اُسے عرف میں آپ کا وطن شمار کیا جاتا ہے تو آپ کی نماز اُس جگہ پوری اور روزہ صحیح ہے اور اگر وطن کے صدق کرنے میں شک ہو تو محل احتیاط ہے اور اگر وہ گاؤں آپ کی جائے پیدائش نہیں ہے تو اُس پر وطن کے صدق میں شک ہونے کی صورت میں آپ کیلئے وطن کے احکام نہیں رکھتا اور جس شہر میں آپ نے کئی سال گزارے ہیں اگر آپ نے اسے وطن بنایا تھا تو وہ بھی اس وقت تک آپ کے وطن کے حکم میں رہے گا جب تک آپ وہاں سے اعراض نہ کریں لیکن مشہد کو جب تک آپ وطن بنانے کا قصد نہ کریں وہ آپ کا وطن شمار نہیں ہوگا لیکن اگر کم از کم ایک دو سال تک وہاں رہنے کا ارادہ ہو تو وہاں آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
- بیوی بچوں کی تابعیت
بیوی بچوں کی تابعیت
س364. کیا وطن اور اقامت کے سلسلے میں زوجہ شوہر کے تابع ہے؟
ج. صر ف زوجیت، جبری طورپر شوہر کے تابع ہونے کی موجب نہیں ہے، لہذا زوجہ کو یہ حق حاصل ہے کہ قصد اقامت اور وطن اختیار کرنے میں شوہر کے تابع نہ ہو، ہاں اگر زوجہ اپنا وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں شوہر کے تابع ہو توا اس کے شوہر کا قصد اس کے لئے کافی ہے، پس اس کا شوہر جس شہر میں وطن کی نیت سے دائمی اور مشترکہ زندگی کیلئے منتقل ہوا ہے وہی اس کا بھی وطن شمار ہوگا۔ اسی طرح اگر شوہر اس وطن کو چھوڑدے جس میں وہ دونوں رہتے تھے اور کسی دوسری جگہ چلا جائے تو یہ زوجہ کا بھی اپنے وطن سے اعراض شمار ہوگا اور سفر میں دس دن کے قیام کے سلسلے میں اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شوہر کے قصد اقامت سے آگا ہ ہو بشرطیکہ وہ اپنے شوہر کے ارادہ کے تابع ہو، بلکہ اگر وہ اقامت کے دوران اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتو بھی اس کا یہی حکم ہے ۔
س365. ایک جوان نے دوسرے شہر کی لڑکی سے شادی کی ہے، تو جس وقت یہ لڑکی اپنے والدین کے گھر جائے تو پوری نماز پڑھے گی یا قصر؟
ج. جب تک وہ اپنے اصلی وطن سے اعراض نہ کرے اس وقت تک وہاں پوری نماز پڑھے گی۔
س366. کیا بیوی یا بچے، امام خمینی کی توضیح المسائل کے مسئلہ "١٢٨٤"کے زمرے میں آتے ہیں؟یعنی کیا انکے سفر کے صدق کرنے کیلئے خود انکا سفر کی نیت کرنا شرط نہیں ہے ؟ نیز کیا باپ کے وطن میں ان سب کی نماز پوری ہوگی جو اسکے تابع ہیں ؟
ج. اگر سفر میں خواہ جبری طور پر ہی سہی وہ باپ کے تابع ہوں تو سفر کے لئے باپ کا قصد ہی کافی ہے، بشرطیکہ انہیں اس کی اطلاع ہو، لیکن وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں اگر وہ اپنے ارادہ اور زندگی میں خود مختار نہ ہوں، یعنی طبیعی اور فطری طورپر۔ باپ کے تابع ہوں تو وطن سے اعراض کرنے اور نیا وطن اختیار کرنے کے سلسلے میں کہ جہاں ان کا باپ دائمی طور پر زندگی گزارنے کیلئے منتقل ہوا ہے، باپ کے تابع ہوں گے۔
- بڑے شہروں کے احکام
بڑے شہروں کے احکام
س367. بڑے شہروں کو وطن بنانے کے قصد اور ان میں دس دن اقامت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ج. بڑے اور عام شہروں میں، احکام مسافر، وطن اختیار کرنے اوردس روز قیام کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ بڑے شہرکواسکے کسی خاص محلہ کو معین کئے بغیر وطن بنانے کا قصد کرنے اور کچھ مدت اس شہر میں زندگی گزارنے سے اس پورے شہرپر وطن کا حکم جاری ہو گا، جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی محلہ کو معین کئے بغیر ایسے شہر میں دس روز قیام کی نیت کرے تویہ اسکے تمام محلوں میں نماز پوری پڑھے گا اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔
س368. ایک شخص کوامام خمینی کے اس فتوے کی اطلاع نہیں تھی کہ تہران بڑے شہروں میں سے ہے ، انقلاب کے بعد اسے امام خمینی کے فتوے کا علم ہواہے، لہذا اس کے ان روزوں اور نمازوں کا کیا حکم ہے جو عادی طریقہ سے اس نے انجام دیئے ہیں؟
ج. اگر ابھی تک وہ اس مسئلہ میں امام خمینی کی تقلید پر باقی ہے تو اس پر ان گزشتہ اعمال کا تدارک واجب ہے جو امام خمینی کے فتوے کے مطابق نہیں تھے چنانچہ جو نمازیں ا س نے قصر کی جگہ پوری پڑھی تھیں ان کو قصر کی صورت میں بجا لائے اور ان روزوں کی قضا کرے جو اس نے مسافرت کی حالت میں رکھے تھے۔
- نماز اجارہ
نماز اجارہ
س369. مجھ میں نماز پڑھنے کی طاقت نہیں ہے، کیا میں کسی دوسرے شخص کو نائب بنا کر اس سے اپنی نمازیں پڑھوا سکتا ہوں؟ اور کیا نائب کے اجرت طلب کرنے اور نہ کرنے میں کوئی فرق ہے؟
ج. ہر شخص جب تک زندہ ہے جیسے بھی ممکن ہو اپنی واجب نماز کو خود ادا کرے، نائب کا اس کی طرف سے نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے خواہ وہ اجرت لے یا نہ لے ۔
س370. جو شخص اجارہ کی نماز پڑھتا ہے:
١۔ کیا اس پر، اذان و اقامت کہنا، تینوں سلام پڑھنا اور مکمل طور پر تسبیحات اربعہ پڑھنا واجب ہے؟
٢۔ اگر ایک دن ظہر و عصر کی نماز بجا لائے اور دوسرے دن مکمل طور پر پنجگانہ نمازیں پڑھے، توکیا اس میں ترتیب ضروری ہے؟
٣۔ نماز اجارہ میں کیا میت کے خصوصیات بیان کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ج. میت کے خصوصیات بیان کرنا ضروری نہیں ہے اورصرف نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کے درمیان ترتیب کی رعایت ضروری ہے اور جب تک عقد اجارہ میں اجیر کے لئے خاص کیفیت کی شرط نہ رکھی گئی ہو اور نہ ہی ذہنوں میں کوئی ایسی خاص کیفیت موجود ہو کہ جس کی طرف مطلق عقد اجارہ کا انصراف ہو تو ایسی صورت میں اس کیلئے ضروری ہے کہ نماز کو متعارف مستحبات کے ساتھ بجا لائے،لیکن ہر نماز کے لئے اذان کہنا واجب نہیں ہے ۔
- نماز آیات
نماز آیات
س371. نماز آیات کیا ہے اورشریعت میں اس کے واجب ہونے کے اسباب کیا ہیں؟
ج. یہ دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے ہیں، شریعت میں اس کے واجب ہونے کے اسباب یہ ہیں :
سورج گہن اور چاندگہن خواہ ان کے معمولی حصے کو ہی لگے، اسی طرح زلزلہ اور ہر وہ غیر معمولی چیز جس سے اکثر لوگ خوفزدہ ہوجائیں، جیسے سرخ، سیاہ یا پیلی آندھیاں کہ جو غیر معمولی ہوں یا شدید تاریکی، یا زمین کا دھنسنا ، پہاڑ کا ٹوٹ کر گرنا،بجلی کی کڑک اور گرج اور وہ آگ جو کبھی آسمان میں نظر آتی ہے۔ سورج گہن ،چاند گہن اور زلزلہ کے علاوہ باقی سب چیزوں میں شرط ہے کہ عا م لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائیں لذا اگر ان میں سے کوئی چیز خوفناک نہ ہو یا اس سے بہت کم لوگ خوف زدہ ہوں تو نماز آیات واجب نہیں ہے ۔س372. نماز آیات پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟
ج. اسے بجا لانے کے چند طریقے ہیں :
١۔ نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے اس کے بعد رکوع سے سر اٹھائے اورحمد و سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر رکوع سے بلند ہوکر حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع بجا لائے، پھر سر اٹھا ئے اور حمد وسورہ پڑھے اور اسی طرح اس رکعت میں پانچ رکوع بجا لائے پھر سجدے میں جائے اور دوسجدے بجا لانے کے بعد کھڑا ہو کر پہلی رکعت کی طرح عمل کرے پھر دو سجدے بجالائے اور اس کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔
٢۔ نیت ا ور تکبیرة الاحرام کے بعد سورہ حمد اور کسی سورہ کی ایک آیت پڑھ کر رکوع میں جائے (البتہ بسم اللہ کو ایک آیت شمار کرنا صحیح نہیں ہے) پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی سورہ کی دوسری آیت پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر سر اٹھاکر اسی سورہ کی تیسری آیت پڑھے ،پانچویں رکوع تک اسی طرح بجا لائے یہاں تک کہ جس سورے کی ایک ایک آیت ہر رکوع سے پہلے پڑھی تھی وہ تمام ہوجائے اس کے بعد پانچواں رکوع اور پھر دو سجدے بجالائے پھر کھڑا ہوجائے اور سورہ حمد اور کسی سورہ کی ایک آیت پڑھ کر رکوع کرے اور دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشہد و سلام پڑھ کر نماز ختم کر دے، چنانچہ اگر ( اس طریقے کے مطابق ) ہر رکوع سے پہلے کسی سورہ کی ایک آیت پر اکتفا کرے تو سورہ حمد کو رکعت کی ابتداء میں ایک مرتبہ سے زیادہ نہ پڑھے البتہ سورہ کے حصے کرنے کی صورت میں ضروری نہیں ہے کہ پوری ایک آیت پڑھے بلکہ ایک آیت (بسم اللہ کے علاوہ)کے بھی دو حصے کر سکتا ہے۔
٣۔ مذکورہ دو طریقوں میں سے ایک رکعت کو ایک طریقہ سے اور دوسری کو دوسرے طریقے سے بجا لائے۔
٤۔ وہ سورہ جس کی ایک آیت پہلے رکوع سے قبل قیام میں پڑھی تھی، اسے دوسرے ، تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے والے قیام میں ختم کردے اس صورت میں واجب ہے کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قیام میں سورہ حمد اور ایک دوسرا سورہ یا اسکی ایک آیت پڑھے اگر تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے ہو اور اس صورت میں واجب ہے کہ اس سورہ کو پانچویں رکوع سے پہلے مکمل کردے ۔س373. کیا نما زآیات اسی شخص پر واجب ہے جو اس شہر میں ہے کہ جس میں حادثہ رونما ہوا ہے یا ہر اس شخص پر واجب ہے جسے اس کا علم ہوگیا ہو، خواہ وہ اس شہر میں نہ ہو کہ جس میں نہ ہو کہ جس میں حادثہ رونما ہوا ہے؟
ج. نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو حادثے والے شہر میں ہو اسی طرح اس شخص پر بھی واجب ہے جو اس سے متصل شہر میں رہتا ہو، اس طرح کہ دونوں کو ایک شہر کہا جاتا ہو۔
س374. اگر زلزلہ کے وقت ایک شخص بے ہوش ہو اور زلزلہ ختم ہو جانے کے بعد ہوش میں آئے تو کیا اس پر بھی نما زآیات واجب ہے؟
ج. اگر اسے زلزلہ واقع ہونے کی خبر نہ ہو یہاں تک کہ وقوع زلزلہ سے متصل وقت گزرجائے تواس پر نماز آیات واجب نہیں ہے اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ نماز کو بجا لائے۔
س375. کسی علاقہ میں زلزلہ آنے کے بعد مختصر مدت کے درمیان بہت سے چھوٹے چھوٹے زلزلے اور زمینی جھٹکے آتے ہیں، ان موارد میں نماز آیات کا کیا حکم ہے؟
ج. ہر جھٹکا جسے مستقل زلزلہ شمار کیاجائے اسکے لئے علیحدہ نماز آیات واجب ہے خواہ شدید ہو یا خفیف۔
س376. جب زلزلے درج کرنے والا مرکز اعلان کرے کہ فلاں علاقہ میں جس میں ہم رہتے ہیں زلزلہ کے کئی معمولی جھٹکے آئے ہیں اور جھٹکوں کی تعداد کا بھی ذکر کرے، لیکن ہم نے انہیں بالکل محسوس نہ کیا ہوتو کیا اس صورت میں ہمارے اوپر نماز آیات واجب ہے یا نہیں؟
ج. اگر اس طرح ہو کہ کوئی اُسے محسوس نہ کرے اور صرف مشینوں کے ساتھ قابل ادراک ہو تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔
- نوافل
نوافل
س377. کیا نافلہ نمازوں کوبلند آواز سے پڑھا جائے یا آہستہ آواز سے ۔
ج. مستحب ہے کہ دن کی نافلہ نمازوں کو آہستہ اور شب کی نافلہ نمازوں کو بلند آواز سے پڑھا جائے۔
س378. نماز شب جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہے کیا اسے دو مرتبہ چار چار رکعت کر کے، ایک مرتبہ دو رکعت اور ایک مرتبہ ایک رکعت (وتر)پڑھ سکتے ہیں؟
ج. نمازشب کو چار چار رکعت کرکے پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
س379. جب ہم نماز شب پڑھتے ہیں تو کیا واجب ہے کہ کسی کو اسکی خبر نہ ہو اور واجب ہے کہ ہم تاریکی میں نماز شب پڑھیں؟
ج. تاریکی میں نماز شب پڑھنا اور اسے دوسروں سے چھپا نا شرط نہیں ہے ہاں اس میں ریا جائز نہیں ہے۔
س380. نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد اورخود نافلہ کے وقت میں، کیا نافلہ ظہر و عصر قضا کی نیت سے پڑھے جائیں یا کسی اور نیت سے؟
ج. احتیاط یہ ہے کہ اس وقت قربةً الی اللہ کی نیت سے پڑھے جائیں، ادا اور قضا کی نیت نہ کی جائے۔
س381. براہ مہربانی ہمیں نماز شب کے طریقہ سے تفصیل کے ساتھ مطلع فرمائیں؟
ج. نماز شب مجموعی طور پر گیا رہ رکعات ہیں، ان میں سے آٹھ رکعتوں کو، جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہیں، نماز شب کہتے ہیں اور انکے بعد دو رکعت کو نماز شفع کہتے ہیں اور یہ نماز صبح کی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی آخری ایک رکعت کو نماز وتر کہتے ہیں اس کے قنوت میں مومنین کے لئے استغفار و دعا کرنا اور خدائے منان سے حاجات طلب کرنا مستحب ہے، اس کی ترتیب دعاؤں کی کتابوں میں مذکور ہے۔
س382. نماز شب کا کیا طریقہ ہے؟ یعنی اس میں کونسا سورہ، استغفار اور دعا پڑھی جائے؟
ج. نماز شب میں کوئی سورہ، استغفار اور دعا اسکے جز کے عنوان سے شرط نہیں ہے، بلکہ نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد ہر رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اگر چاہے تو اسکے بعد دو سر ا سورہ پڑھے پھر رکوع و سجوداور تشہدو سلام بجالائے۔
- نماز کے متفرقہ احکام
نماز کے متفرقہ احکام
س383. وہ کون سا طریقہ ہے جس سے گھر والوں کو نماز صبح کیلئے بیدا ر کیا جائے؟
ج. اس سلسلے میں گھر کے افراد کے لئے کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔
س384. ان لوگوں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو مختلف پارٹیوں اور گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور بلا سبب ایک دوسرے سے بغض ، حسد اور حتی دشمنی رکھتے ہیں ؟
ج. انسان کیلئے دوسروں کے بارے میں بغض وحسداور عداوت کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے، لیکن یہ روزہ و نماز کے باطل ہونے کا سبب نہیں ہے۔
س385. اگر محاذ جنگ پر جہاد کرنے والا شدیدحملوں کی وجہ سے سورہ فاتحہ نہ پڑھ سکے یارکوع و سجود انجام نہ دے سکے تو وہاں پر کیسے نماز پڑھے؟
ج. اس کیلئے جس طرح نماز پڑھنا ممکن ہو پڑھے اور جب رکوع و سجود کرنے پر قادر نہ ہو تو دونوں کو اشاروں سے بجا لائے ۔
س386. والدین اولاد کو کس سن میں احکام و عبادات شرعی کی تعلیم دیں؟
ج. ولی کے لئے مستحب ہے کہ جب بچہ سن تمیز (اچھے برے کو پہچاننے کی عمر) کو پہنچ جائے تو اسے شریعت کے احکام و عبادات کی تعلیم دے۔
س387. شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کے بعض ڈرائیور مسافروں کی نماز کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ان کے کہنے پر بس نہیں روکتے تاکہ وہ لوگ اتر کر نماز پڑھ سکیں، لہذا بسا اوقات ان کی نماز قضا ہو جاتی ہے، اس سلسلہ میں بس ڈرائیور کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور ایسی حالت میں اپنی نماز کے سلسلہ میں سواریوں کا کیا فریضہ ہے؟
ج. سواریوں پر واجب ہے کہ جب انہیں نماز کے قضا ہو جانے کا خوف ہو تو کسی مناسب جگہ پر ڈرائیور سے بس روکنے کا مطالبہ کریں اور ڈرائیور پر واجب ہے کہ وہ مسافروں کے کہنے پر بس روک دے، لیکن اگر وہ کسی معقول عذر کی بنا پر یا بلا سبب گاڑی نہ روکے تو سواریوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر وقت ختم ہو جانے کا خوف ہو تواسی وقت چلتی گاڑی میں نماز پڑھیں اور ممکنہ حد تک قبلہ، قیام اور رکوع و سجود کی رعایت کریں۔
س388. یہ جو کہا جاتا ہے "چالیس دن تک شراب خور کا نماز و روزہ نہیں ہے" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت میں اس پر نماز پڑھنا واجب نہیں ہے؟ اور پھر وہ اس مدت کے بعد فوت ہوجانے والی نمازوں کی قضا بجا لائے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر قضا اور ادا دونوں واجب ہیں؟ یا پھر اس کا مقصد یہ ہے کہ اس پر قضا واجب نہیں ہے، بلکہ ادا ہی کافی ہے، لیکن اس کا ثواب دوسری نمازوں سے کم ہوگا؟
ج. اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب خوری نماز اور روزہ کی قبولیت میں رکاوٹ ہے، نہ کہ اس کی وجہ سے شراب خور سے نماز اور روزہ کا فریضہ ہی ساقط ہوجائے اور انکی قضا واجب ہو یا ادا اور قضا دونوں لازم ہوں۔
س389. اس وقت میرا شرعی فریضہ کیا ہے جب میں کسی شخص کو نماز کے کسی فعل کو غلط بجا لاتے ہوئے دیکھوں؟
ج. اس سلسلے میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ مگر یہ کہ جب وہ حکم سے ناواقف ہونے کی بنا پر غلطی کرے تو اس صورت میں اس کی راہنمائی کرنا واجب ہے۔
س390. نماز کے بعد نماز گزاروں کے آپس میں مصافحہ کرنے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ اس بات کی وضاحت کردینا بھی مناسب ہے کہ بعض بزرگ علماء کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیھم السلام سے کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے، پس مصافحہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن واضح ہے کہ مصافحہ کرنے سے نماز گزاروں کی دوستی اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے؟
ج. سلام اور نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کلی طور پر مومنین کا آپس میں مصافحہ کرنا مستحب ہے۔