ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

مناسک حج

    • حج کی فضيلت اور اہمیت
    • حج ترک کرنے کا حکم
    • حج اور عمرہ کے اقسام
    • حج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہ
    • حج اِفراد اورعمرہ مفردہ
    • حج قِران
    • حج تمتع کے کلی احکام
    • پہلا حصه حَجة الاسلام اورنيابتي حج
    • دوسرا حصه عمرہ کے اعمال
    • تیسرا حصہ حج کے اعمال
    • حج اور عمرہ کے استفتائات
      • استطاعت
        پرنٹ  ;  PDF

        استطاعت
         
         سوال۱: اگر کسی شخص کا ذریعہ معاش خمس و زکات ہو اور خمس و زکات ضرورت سے اتنا زیادہ آجائے کہ حج کے مخارج  کے برابر ہو تو کیا دوسری تمام شرائط کے ہوں تو وہ مستطیع ہوگا یا نہیں ؟
          جواب: اگر وہ خمس وزکات لینے کا شرعا حق رکھتاہو (مستحق ہو)اور باقی بچے ہوئے پیسے حج کے مخارج کے لئے کافی ہوں اور دوسرے تمام شرائط بھی رکھتاہو تو وہ شخص مستطیع ہے۔
         
         سوال ۲ : حج پر جانے سے پہلے مسافروں کا میڈیکل چیک اپ (معائنہ) ہوتا ہے اور  جو لوگ جسمانی توانائی نہیں رکھتے وہ میڈیکل چیک اپ میں ردّ ہوجاتے ہیں تو ایسے لوگ جن کے پاس اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، کیا اب بھی مستطیع ہیں؟ میڈیکل رپورٹ ردّ ہونے کی وجہ سے اب وہ مستطیع نہیں کہلائیں گے؟
          جواب: مذکورہ فرض میں یہ شخص مستطیع نہیں ہے ۔
         
         سوال ۳: وہ مہر جس کا وقت (مدت)معین ہو اور شوہر پر واجب ہوکہ اگر طاقت رکھتاہو تو مہر کو اس خاص مدت میں ادا کرے لیکن اگر بیوی مہر کا مطالبہ نہ کرے اور اسے مہر کی ضرورت بھی نہ ہو تو کیا اس رقم سے مدت دار مہر کو ادا کرنا واجب حج پر مقدم ہے یا نہیں؟
          جواب: بیوی کی طرف سے مطالبہ کئے بغیر مہر کو ادا کرنا واجب نہیں ہے اور مذکورہ فرض میں حج بجا لانا مقدم ہے۔
         

        سوال ۴: حج کي استطاعت کو حاصل کرنے کيلئے چند ماہ رقم جمع کی جاسکتی ہے ؟ بالخصوص اگر وہ جانتاہو کہ وہ اس طريقے کے علاوہ مستطيع نہيں ہوسکتا؟
          جواب: اس طرح سے استطاعت کا حاصل کرنا واجب نہيں ہے ليکن اگر انسان حجة الاسلام کے اخراجات کے برابر رقم جمع کیا ہواور مستطیع ہوجائے تو اس پر حجة الاسلام واجب ہےاور جو شخص حجة الاسلام بجا لانا چاہتا ہو تو وہ جائز طریقے سے مال کسب کر سکتا ہے۔
         

        سوال ۵: کيا والدين سے ملنا :معاشرتي،  شرعي يا ذاتي ضرورت شمار ہوتي ہے اور اگر ايسا ہے تو کيا جو شخص استطاعت رکھتا ہے اس کيلئے جائز ہے کہ وہ حج کو مؤخر کر دے اور اسکی رقم والدين سے ملنے پر خرچ کردے ؟ (فرض یہ ہے کہ والدین سے ملاقات کا لازمہ سفر کرنا وغیرہ ہے)
          جواب: مستطيع پر واجب ہے کہ حج کرے اور اپنے آپ کوکسی طرح سے استطاعت سے خارج کرنا جائز نہيں ہے اگر چہ صلہ رحمي کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہواور صلہ رحم صرف ملنے پر منحصر نہيں ہے بلکہ خط لکھ سکتا ہے  يا ٹيليفون کرسکتا ہے ۔ ہاں اگر والدين کہ جو دوسرے شہر ميں ہيں ان سے ملنا اسکي اپني حالت اور انکي حالت کے پيش نظر ضروري ہو اس طرح کہ اسے اسکي عرفي ضروريات ميں سے شمار کيا جائے اور اسکے پاس اتنا مال بھي نہ ہو جو والدين کي ملاقات اور حج کے اخراجات دونوں کيلئے کافي ہو تو وہ اس حالت ميں مستطيع  نہيں ہے۔
         
        سوال ۶: اگر دودھ پلانے والي عورت مستطيع ہوجائے ليکن اسکے حج پر جانے سے شيرخوار بچے کو نقصان پہنچتاہو تو کيا وہ حج کو ترک کرسکتي ہے؟
          جواب: اگر نقصان اس طرح ہو کہ دودھ پلانے والي کيلئے شير خوار کے پاس رہنا ضروري ہے يا اس سے دودھ پلانے والي عورت عسر و حرج سے دوچار ہوتی ہو تو اس پر حج واجب نہيں ہے۔
         

        سوال ۷:جس عورت کے پاس سونے کے کچھ زيورات زینت کے لئے ہوں اور اگر وہ انہيں بيچ دے تو وہ حج کے لئے مستطیع ہو سکتی ہے لیکن اس زیور کے علاوہ اسکے پاس دوسرا کوئی مال نہیں ہے۔ کيا عورتوں کے زيورات استطاعت سے مستثني ہيں يا اس پر واجب ہے کہ وہ حج کے اخراجات کيلئے انہيں بيچے اور استطاعت حاصل کرے؟
          جواب: اگر ان زيورات کی اسے ضرورت ہو اور وہ اسکي حيثيت سے زيادہ نہ ہوں تو اس پرحج کيلئے انہيں بيچنا واجب نہيں ہے اور وہ مستطيع نہيں ہوگي۔
         

        سوال ۸: ايک عورت حج کيلئے استطاعت رکھتي ہے ليکن اس کا شوہر اسے اسکي اجازت نہيں ديتا تو اسکي ذمہ داري کيا ہے ؟
          جواب: واجب حج ميں شوہر کي اجازت شرط نہيں ہے لیکن اگر شوہر کي اجازت کے بغير حج پر جانے سے عورت عسر و حرج ميں مبتلا ہوتي ہو تو وہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے۔
         
         سوال ۹: اگر نکاح کے وقت ميرے شوہر نے مجھ سے حج کرانے کا وعدہ کيا ہو تو کيا ميرے اوپر حج واجب ہوجائيگا؟
          جواب: اس طرح کے قول اور وعدے سے آپ پر حج واجب نہیں ہوگا۔
         
         سوال ۱۰: کيا حج کي استطاعت حاصل کرنے کيلئے ضروريات زندگي ميں تنگي لانا جائز ہے ؟
          جواب: يہ جائز ہے ليکن شرعا واجب نہيں ہے البتہ يہ تب ہے جب تنگي صرف اپنے آپ پر کرے ليکن اہل و عيال جنکا خرچ اس پر واجب ہے  ان پر معمول کي حد سے زیادہ تنگي کرنا جائز نہيں ہے۔
         
        سوال ۱۱:ماضي ميں،  میں دين کي پابندي نہیں کرتا تھا اور ميرے پاس اتنا مال تھاجو سفرِ حج کيلئے کافي تھا ( يعني ميں مستطيع تھا) ليکن اپني اس حالت کيوجہ سے ميں حج پر نہيں گيا۔ اب موجودہ دور میں ميرے لئے کيا حکم ہے؟کیونکہ اس وقت ميرے پاس لازمي رقم نہيں ہے ۔ دوسری جانب اسکے دو راستے ہيں ايک ادارہ حج ميں نام لکھوا کر اور دوسرا پرائیوٹ حج ہے جس ميں خرچہ زيادہ ہے تو کيا ادارہ حج کے ہاں نام لکھوا دينا کافي ہے ؟
          جواب: اگر آپ ماضي ميں استطاعت کے تمام شرائط پائے جاتے تھے تو حج آپ پر مستقر ہوچکا ہے اور آپ پکو ہر جائز اور ممکن طريقے سے حج پر جانا چاہیے البتہ ایسی صورت میں کہ آپ عسر و حرج میں مبتلا نہ ہوں۔ لیکن اگر آپ سب جہات سے ماضی میں مستطيع نہيں تھے تو مذکورہ صورت ميں آپ پر حج واجب نہيں ہے۔
         
         سوال ۱۲:ان دنوں حج اور زیارات کا اداہ اور نیشنل بینک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے کہ حج تمتع کے درخواست دہندگان دس لاکھ تومان مضاربہ کی صورت میں اس کے اکاونٹ میں جمع کرینگےاور یہ رقم حج پہ جانے تک اس شخص کے اکاونٹ میں باقی رہے گی اور اس معاہدہ کے مطابق ہر سال کے آخر میں اس اکاونٹ کے مالک کو مضاربہ کا نفع ملے گا۔
          حج و زیارت کا ادارہ صرف ان لوگوں کو اولویت دیتا ہے جنہوں نے پہلےنام لکھوایا ہے اورتقریبا تین سال کے بعد اس کی باری اعلان ہوتی ہے اور اپنی چاہت کے مطابق انہیں حج پر بھیج دیتا ہے۔ جانے کا وقت جب آتا ہے تو  اکاونٹ میں پیسے ڈالنے والا شخص رقم کو بینک سے لیکر باقی اخراجات کے ساتھ حج و زیارات کے ادارہ کے اکاونٹ میں ڈال دیتا ہے اور پھر حج پہ مشرف ہوتا ہے ۔ اب معاہدہ کتبی تھا اور رقم کے مالک اور بینک کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے تو اس صورت میں جو رقم مضاربہ کے نفع کی صورت میں لیتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
          جواب: مذکورہ صورت میں کتبی معاہدہ جسکی طرف اشارہ ہوا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مضاربہ سے حاصلہ شدہ نفع بھی اوکانٹ کے مالک کے لئے حلال ہے اور اگر اصل مال سے خمس نہ نکالا ہو تو اس پر خمس واجب ہے اور  جو منفعت ملی ہے اگر حج پہ جانے والے سال سے پہلے دریافت نہیں کرسکتا تھا تو اس سال کے درآمد میں شمار ہوگا  اور اسی سال حج کے اخراجات میں شمار ہوگا اور خمس نہیں ہے۔
         

        سوال 13:کیا کوئی شخص حج پہ جانے کے لیے فوت شدہ نسان کی رسید،  اس کے تمام ورثاء کی اجازت سے استعمال کرسکتا ہے؟ کیا تمام ورثاء کی اجازت مقدمہ واجب کی طرح ہے یا نہیں؟ (مثلاً ناموں کا اندراج،  ٹکٹ خریدنا اور دوسرے  کام) اور اگر وہ شخص بغیر ورثاء کی اجازت کے  اسی رسید کے ساتھ حج پہ چلا جائے  اور باقی تمام شرائط بھی رکھتا ہو تو کیا اُس کا حج صحیح ہے اور کیا  حجۃ الاسلام شمار ہوگا یا نہیں؟
          جواب: فوت شدہ انسان کی رسید  استعمال کرنے کے لئے تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے  اور اگر ورثاء کی اجازت  کے بغیر رسید کو استعمال کرے ،  اگر میقات سے لیکر بعد تک کی استطاعت بھی اسی رسید کے  ذریعے ہو تو اس کا حج "حجۃ الاسلام" شمار نہیں ہوگا لیکن اگر میقات سے لیکر بعد  تک،  حج کے اخراجات خود اٹھائے  اور تمام شرائط بھی موجود ہوں تو اس کا حج "حجۃ الاسلام" کے لئے کافی ہوگا۔
         
         سوال 14:اگر کسی نے حج کے لئے نام لکھوایاہو اور اس کی رسید بھی لے لی ہو اور وصیت کی ہو کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا اس کی نیابت میں حج کو انجام دے لیکن والد کے انتقال کے بعد خود بیٹا مستطیع ہوجائے لیکن وہ صرف باپ کے نام کی رسید پر ہی حج پہ جاسکتاہو۔آیا وہ اس رسید کو استعمال کرتے ہوئے اور میقات تک پہنچنے کے بعد باپ کی نیابت میں حج کو انجام دے گا یا چونکہ خود اس کو استطاعت حاصل ہوگئی ہے اپنے حج کو انجام دے گا ۔
          جواب: اس سوال کے مطابق چونکہ بیٹا باپ کی وصیت اور اس کے نام کی رسید کی وجہ سے حج پہ جاسکتاہے ۔ اور وصیت حج  میقاتی کے علاوہ،  ثلث سے زیادہ بھی نہیں ہے یا پھر ورثاء نے اجازت دے دی ہےتو اس صورت میں بیٹا باپ کی نیابت میں حج کو انجام دے گا۔
         
        سوال 15: اگر گزشتہ مسئلہ میں باپ کی وصیت نہ ہو لیکن ورثاء باپ کے نام کی رسید کو اولاد میں سے کسی ایک کو دیں کہ وہ باپ کی نیابت میں حج انجام دے جب کے وہ خود مستطیع ہوگیاہو ۔ کیا وہ اس رسید کو استعمال کرتے ہوئے اور میقات تک پہنچنے کے بعد باپ کی نیابت میں حج کو انجام دے یا چونکہ خود مستطیع ہوگیاہے اپنے لئے حج کو انجام دے؟
          جواب: اس صورت میں بھی باپ کی نیابت میں حج مقدم ہے ۔

          سوال 16: گزشتہ دو مسئلوں میں چونکہ اس کا فریضہ باپ کی نیابت میں حج کو انجام دینا ہے لیکن اگر اس نے خود اپنا حج انجام دیا ہو تو کیا یہ حج "حجۃ الاسلام" شمار ہوگا یا نہیں؟
          جواب: اس حج کا "حجۃ الاسلام"ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے ۔
         
         سوال 17: اگر باپ کا انتقال ہوگیاہو اور وہ مستطیع ہو اور بیٹا باپ کے نام کی رسید پر حج کے لئے روانہ ہو اور جب میقات پر پہنچے تو وہ خود بھی مستطیع ہوجائے اب اسے کیا کرنا چاہیے؟ یہ واضح رہے کہ نہ تو کوئی وصیت کی گئی تھی اور نہ ہی اس سے یہ کہا گیاتھا کہ وہ نیابت کرے (نائب بنے)لیکن چونکہ وہ تنہا وارث تھا اور وہ حج کا سفر کرنے کے قابل صرف اس وجہ سے ہواتھا کہ وہ اکیلا وارث تھا ۔
          جواب: اس صورت میں وہ شخص اپنے حج کو انجام دے گا اور والد کے لئے کسی کو نائب بنائے گا۔
      • نیابتی حج
      • حج اِفراد اور عمرہ مفردہ
      • مکہ سے خارج اور اس میں داخل ہونا
      • میقات
      • احرام اور اسکا لباس
      • محرمات احرام
      • طواف اور اسکی نماز
      • سعی
      • مشعر (مزدلفہ)
      • حلق و تقصیر
      • ذبح اور قربانی
      • منیٰ میں رات گزارنا اور وہاں سے کوچ کرنا
      • رمی جمرات
      • متفرقہ مسائل
700 /