ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

مرحوم کی زندگی کی ممتاز خصوصیات میں دشوار اور خطرناک میدانوں میں امر دین پر اہتمام شامل تھا/ علمی آداب، بات کا نفوذ اور بزرگ علماء کے محضر سے استفادہ نے انھیں ایک ہوشیار متعبد اور خضوع و خشوع کا مالک بنا دیا تھا

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے جامع ، عامل اورمراقب عالم دین مرحوم آیت اللہ حاج سید ہاشم نجف آبادی ( آیت اللہ خامنہ ای کے جد مادری) کی یاد میں منعقد سمینار کے نام اپنے پیغام میں اس عالم ربانی کی تجلیل کو شائستہ اقدام قراردیا اوراس متقی و پارسا مفسر و فقیہ کی حدیثی اور قرآنی کوششوں اوران کی شخصیت کے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:  پر خطر اور دشوار میدانوں میں دین کے امر پر اہتمام ، مسجد گوہر شاد میں مشہد کے علماء کی مجاہدت میں شمولیت ان کی زندگی کے ممتاز اور نمایاں خصوصیات اور نقاط تھے جس کی بنا پر رضا خانی اداروں کی طرف سے ان کے لئے جیل اور تبعید کی سختیوں کا تحمل ایک قہری نتیجہ شمار ہوتا تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا پیغام آج صبح (بروز جمعرات) مشہد مقدس میں منعقد سمینار میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر کے انچارج حجۃ الاسلام والمسلمین محمدی گلپائگانی نے پیش کیا جس کا متن حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عالم ربانی،متقی و پرہیز گار فقیہ اور مفسر مرحوم آیت اللہ آقائ حاج سید ہاشم نجف آبادی (رضوان اللہ علیہ) کے نام کی تجلیل اور تکریم ایک شائستہ کام ہے اور جسے دفتر تبلیغات اسلامی نے انجام دینے پر کمر ہمت باندھی ہے اس عالی مقام عالم دین نے علمی درجات کو نجف اشرف کےمعروف اور نام آور اساتید سے کسب کیا اور ان سے علمی گواھی اور اجازت حاصل کرنے کا شرف حاصل کیا۔ مشہد مقدس میں تقریبا  چالیس سال کے قیام کے دوران تفسیر قرآن پر ان کی توجہ سب سے زیادہ مرکوز رہی ، اور مسجد گوہر شاد ( شمال مغربی شبستان)  میں تفسیر کا جذاب درس کسی وقفہ کے بغیر اور مسلسل برپا رہتا تھا ، ہر رات نماز مغرب کے بعد ان کے مشتاق ان کے منبر کے ارد گرد جمع ہوجاتے تھے اور ان کے شیریں بیان اور گرم نفس سے کلام خدا کو سنتے تھے اور دسیوں سال تک اس حکمت و معرفت کے الہی اور قرآنی دسترخوان سے ان کے دوستدار مستفیض اور فیضیاب ہوتے رہے اوراس عالم ربانی نے خلوص کے ساتھ انہی شبانہ دروس کو زحمت اور محنت سے تحریر کیا  جو آج بحمد اللہ سب کے پاس ہے(1)۔ اس دور میں مشہد کے عام ماحول میں قرآن مجید کے بارے میں گرانقدر تلاش کے سلسلے میں وہ بےمثال انسان تھے ۔اہلبیت علیھم السلام کے کلمات میں توغل (2) وتبحر اورگہری مہارت اس عالم ربانی کی دوسری نمایاں خصوصیت تھی ۔ انھیں حدیث پر ایسا تسلط اور تبحر حاصل تھا کہ وہ ہر مجلس اور ہر محفل میں حاضرین اور سامعین کے کام کو نورانی کلمات سے شیریں کرتے تھےحتی خاندانی اجتماع میں بھی وہ ان نورانی کلمات کو بیان کرتے تھےجس میں یہ حقیر بھی بچپن، نوجوانی اور جوانی کے اوائل میں حاضر ہوتا تھا وہ مجلس کو اہلبیت اور آئمہ معصومین علیھم السلام کے کلمات کے ذکر سے منور کرتے تھے۔

ان کی ذاتی زندگی میں ان کا علمی ادب و رفتار ایسی تھی کہ ان کی بات دل کی گہرائی میں اتر جاتی تھی ۔ عالم سالک ، واصل الی اللہ مرحوم سید احمد کربلائی  جیسے نجف اشرف کے بزرگ علماء کے محضر سے اخلاق و توحیدی سلوک سے فیضیاب ہو کر وہ ایک ہوشیار متعبد اور خضوع اور خشوع کی شخصیت کے مالک بن گئے تھے۔ لباس ، غذا اور سماجی زندگی کی دیگرمتعارف  لذات کا ان کی زندگی میں کوئی نام و  نشان نہیں تھا۔ سخت و دشوار میدانوں میں دین کے امر  پر اہتمام،  سن 1314 میں مسجد گوھر شاد میں مشہد کے علماء کی مجاہدت میں شمولیت ان کی زندگی کے نماياں اور ممتاز نقاط اور خصوصیات تھے جس کی بنا پر انھیں رضا خانی اداروں کی طرف جیل میں قید اور چھ سال کے لئے سمنان اور شہر ری کی طرف شہر بدر کرنا ایک قہری نتیجہ تھا ۔

مرحوم آیت اللہ نجف آبادی ایک جامع عالم، عامل اور مراقب انسان تھے اور اس دور میں مشہد مقدس میں ان کے بیشمار دوستدار اور چاہنے والے تھےاور جب 1380 ہجری قمری میں ان کی وفات کی خبر قم پہنچی ، میں اس دوران قم میں قیام پذیرتھا تو مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی نے مدرسہ فیضیہ میں ان ایصال ثواب کے لئے عظیم الشان مجلس فاتحہ منعقد کی اور مجھ حقیر اور میرے بڑے بھائی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

اس مناسبت سے ان کے فاضل فرزند مرحوم حجۃ الاسلام والمسلمین آقائ حاج سید حسن میردامادی کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں ، انھوں نے باپ کی رحلت کے بعد اپنے والد کی روش کے مطابق تفسیر کا درس جاری رکھا اورانھوں نے کئی برسوں تک اپنے باپ کےدرس تفسیر کی محفل کو گرم رکھا ، اللہ تعالی ان سب پر اور ہم پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔

سید علی خامنہ ای

25/ فروردین/ 1394

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1: خلاصۃالبیان فی تفسیر القراں

2: گہرا نفوذ، عمیق اثر

700 /