ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے صدر مملکت اور حکومتی اراکین کی ملاقات

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ کی صبح صدر مملکت اور حکومتی اراکین سے ملاقات میں شہید رجائی اور باہنر کی شہادت کے ایام کو ہفتہ حکومت کے طور پر منانے کا فلسفہ ان دو شہیدوں کے افکار و نظریات، اخلاق اور کردار کے زندہ رہنے کو قرار دیا اور مہنگائی کو کم کرنے، اقتصادی ثبات، صحت و سلامتی کے مسائل اور ایٹمی مذاکرات کو نتیجے تک پہچانے پر حکومت کی قدردانی کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملک کی عمومی حرکت میں دشمن کی دشمنی میں تسلسل، اغیار کے نفوذ کرنے اور اثر و رسوخ پیدا کرنے کے مقابلے میں ہوشیاری، حاشیہ سازی سے پرہیز، علمی پیشرفت کی حفاظت، امام اور انقلاب کے مبانی پر انحصار کرتے ہوئے فرہنگ و ثقافت کی مینیجمنٹ، غیر ملکی تجارت پر کنٹرول، اور مزاحمتی اقتصاد کے تحقق کے لئے منظم پروگرام کی تدوین جیسے مسائل پر حکام کی مکمل توجہ ہونا ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں کہ جو ہفتہ حکومت کی مناسبت سے انجام پائی تھی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان ایام کے ہفتہ حکومت سے نزدیک ہونے کو مبارک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں حضرت ثامن الحجج کا مرقد مطہر اس ملک کے افتخارات میں سے ایک ہے اور اس مقدس بارگاہ کے لئے جتنا کچھ کیا جا سکتا ہے انجام دیا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے نیز شہید رجائی اور شہید باہنر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس ہفتے کو ہفتہ حکومت نام دینے کا ایک ہدف ان دو عظیم اور سرافراز شہیدوں کے عمل و کردار کو حکومتی عہدیداروں کے لئے مثالی نمونہ قرار دیا جانا ہے۔ آپ نے امام رح کے اہداف پر ایمان، اخلاص، خدمت کے جذبے، عوامی ہونے اور لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے عہدے کو وسیلہ نہ بنانے اور اسلامی انقلاب کے مبانی کی پابندی کو شہید رجائی اور شہید باہنر کی واضح خصوصیات میں سے قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حکومتی عہدیداروں کو اس جانب متوجہ رہنا چاہئے چونکہ انکا کردار، رہن سہن اور سماج میں انکا رابطہ ایک ثقافت کو جنم دیتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس مقدمے کو بیان کرنے کے بعد صدر مملکت اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے گذشتہ دو سالوں کے دوران کی جانے والی جدوجہد اور کوششوں کی قدردانی کی اور بعض وزراء کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج جو رپورٹیں یہاں پیش کی گئیں وہ اچھی اور مناسب تھیں اور انہیں عوام کے سامنے بھی پیش کیا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کیا کہ حکام کی رپورٹیں بھی ایسی ہونی چاہئیں کہ عوام اپنی زندگی کی حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان رپورٹوں کی تصدیق کریں۔
آپ نے حکومت کے بعض مثبت اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مہنگائی کی شرح میں کمی اور اقتصاد کے میدان میں نسبی استحکام اور غیر معمولی اتار چڑھاو کو کنٹرول کرنا، موجودہ حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے جسے جاری رہنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ ہم دو رقمی مہنگائی پر راضی نہیں ہیں اور سالانہ مہنگائی کی شرح کو منفی دس فیصد تک نیچے جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اقتصادی جمود سے باہر نکلنے، صحت و سلامتی کے لئے منظم پروگرام، ملک میں علمی پیشرفت کے لئے پلاننگ، پانی کے سسٹم میں بہتری اور زراعت کے شعبے میں پانی کے استعمال کو کنٹرول کرنے اور آبیاری کا نظام بنانے جیسے اقدامات کو اس حکومت کے بہترین اقدامات قرار دیتے ہوئے اور ایٹمی مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی مذاکرات کو اختتام تک پہچانا بہت اہم کام ہے کہ جو انجام دیا گیا اور ہم امید کرتے ہیں کہ اگر اس سلسلے میں بعض مسائل اور مشکلات موجود ہیں تو انہیں برطرف کیا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے دشمنوں کے اہداف کی جانب توجہ نہ کئے جانے پر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کے پہلے دن سے لے کر آج تک امریکیوں اور صیہونیوں کی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کم نہیں ہوئی ہے اور اس حقیقت کو حکام کے ذہنوں میں کسی بھی وقت کم رنگ نہیں ہونا چاہئے۔
آپ نے فرمایا کہ البتہ دشمنی اور نقصان پہچانے کے طریقے ممکن ہے کہ نئے اور جدید ہوں لیکن تمام سیاسی اقتصادی اور ثقافتی حکام کو چاہئے اس جانب توجہ کریں کہ وہ دشمن کی پلاننگ کا حصہ نہ بنیں اور اپنے فیصلوں کے ذریعے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے اغیار کی مدد نہ کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ دشمن کے خصمانہ اور صریح اہداف اسکی باتوں اور اسکی تحریروں میں قابل درک ہیں اور کسی کو بھی یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دشمن نے آمادہ ہتھیاروں کے ساتھ اس ملت اور اس ملک کے خلاف محاذ بنا لیا ہے اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی منظم انداز میں دشمن کے مقابلے میں فیصلے اور اقدامات کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ صیہونیوں اور امریکیوں کی نہ ختم ہونے والی دشمنی کا ادراک صرف حکومتی اراکین سے مختص نہیں ہے بلکہ عوام خاص طور پر انقلاب کے دلسوز افراد کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت پر توجہ دیں، لیکن اس سلسلے میں حکام کی ذمہ داریاں کہیں زیادہ ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کے پیچیدہ اور تدریجی نفوذ کے مقابلے میں ہوشیار رہنے کو حقیقی ضرورت قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ چاہے جیسی بھی شرائط ہوں دشمن کے سامنے انقلابی مواضع کو بغیر کسی تعارف، ترس اور شرم کے صراحت کے ساتھ انقلابی مواقف اور امام بزرگوار کے مبانی کو بیان کیا جانا چاہئے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر غفلت برتی گئی تو پھر ہم اچانک متوجہ ہوں گے کہ دشمن نے کئی جگہ رخنہ اندازی کی ہے اور وہ ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں خطرناک کاموں میں مشغول ہے بنابرایں ہمیں مکمل طور پر ہوشیار رہنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کے درمیان وحدت کو ایک اور اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حتی بائیس بہمن کی ریلی میں بھی لوگ ایک دوسرے کے جیسے اور ایک گروہ یا تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے لیکن ان سب کی جہت اور سمت ایک ہی ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ معاشرے میں موجود اس اتحاد اور یکجہتی کے سلسلے میں مکمل طور پر ہوشیار رہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آج کے دور کی ترجیحات کو بیان کرتے ہوئے ملک کی علمی ترقی و پیشرفت کی حفاظت پر گفتگو کرتے ہوئےفرمایا کہ علم ملک کی ترقی اور پیشرفت کی بنیاد ہے اور اس کام پر جتنا بھی سرمایہ لگایا جائے وہ ایران کے مستقبل کے لئے ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اس انداز میں پلاننگ اور جدوجہد کرنی چاہئے کہ دوسرے عشرے چشم انداز میں علمی ترقی و پیشرفت برقرار رہے اور ان شاء اللہ علمی پیشرفت کے لحاظ سے ہمارا شمار دنیا کے دس ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گذشتہ عشرے کے دوران علمی حرکت کے جنرل فورم میں تبدیل ہونے کو علمی ترقی اور پیشرفت کا ضامن قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نشاط آور اور متحرک آئیڈیا کی حفاظت اور تقویت کئے جانے کی ضرورت ہے۔
آپ نے علمی اداروں اور سائنس اور ٹیکنالوجی پارکس کو ضروری اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا زریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح پلاننگ کی جائے کہ طالبعلم اپنے تعلیم کے مختلف ادوار میں عملی میدان اور سرگرمیوں میں داخل ہوسکیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ثقافت کو دیگر تمام زمانوں سے زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اقتصادی مشکلات فکر کی پراکندگی کا باعث نہیں ہوتی لیکن ثقافتی مشکلات بعض اوقات انسان کی نیند اڑا لے جاتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صحتمند ثقافتی اشیاء کی تولید اور مضر ثقافتی اشیاء کی تولید پر پابندی کو حکام کی دو اہم ذمہ داریاں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کے تمام ممالک میں ثقافتی اشیاء کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، بنا بر ایں اگر بعض اشیاء کہ جو نمایشی ہوں یا مکتوب ہوں، یا ان کی وجہ سے مبانی اور اصول میں تضاد پیدا ہورہا ہو تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان کا راستہ روکا جانا چاہئے۔
آپ نے ثقافتی آزادی کا مکمل انکار کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ ثقافتی میدان میں امام اور انقلاب کے مبانی اور افکار کو مدنظر رکھتے ہوئے منظم کرنا چاہئے اور ثقافتی صحتمند غذا کو معاشرے میں تیار کیا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اقتصاد کو ملک کی اصلی اولویت قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں چند نکات بیان فرمائے کہ جن میں پہلا نکتہ "منصفانہ پیشرفت" کے بارے میں تھا۔
آپ نے فرمایا کہ ہمیں اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اس اقتصادی حرکت میں طبقاتی فاصلے پیدا نہ ہوں اور غریبوں کے حقوق پامال نہ ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے محنت و جدوجہد کو جنرل فورم میں تبدیل کرنے اور سستی اور کاہلی کو معاشرے میں ایک مذموم عمل کے طور پر پہچنوائے جانے کو اقدامات اور پلاننگ کے اہم نکات قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں دولت و ثروت کی تخیلق اور کام کے مواقع پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی اور قدردانی اور کام کی درست روش کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے اور نوکری حاص کرنے کے درست طریقے میڈیا کے زریعے عوام کو بتائے جائیں کہ بعض ٹی وی کے پروگرام اس سلسلے میں بہت اچھے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اقتصادی پیشرفت کے لئے ملک میں موجودہ ظرفیتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر ملکی تجارت کامسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے عادلانہ اور منصفانہ تجارت اور مبادلے اور ایران کو غیر ملکی پروڈکٹس کی مارکیٹ میں تبدیل نہ ہونے پر تاکید فرمائی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزاحمتی اقتصاد کو ایک اہم موضوع قرار دیا اور تاکید فرمائی کہ اس سلسلے میں ہر طرح کے پروگرام حکومت کی توجہ کا سبب بننے چاہئیں۔
آپ نے اس سلسلے میں اداروں کی رپورٹوں پر انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بابت انجام دیئے گئے بعض کام مقدماتی ہیں، بعض مزاحمتی اقتصاد سے مربوط نہیں ہیں اور بعض کام ان اداروں کے موجودہ سرگرمیاں ہیں کہ جو مزاحمتی اقتصاد کی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ مزاحمتی اقتصاد ایک مکمل اور منسجم پیکیج اور روایتی علم و دانش کا ماحصل ہے اور اپنے حقق کے لئے نیز عملی منسجم پروگرام کا متقاضی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اس پروگرام میں تمام اداروں کا مشخص ایگزیکٹو حصہ اور مشخص زمان بندی ہونی چاہئے اور مشکلات اور مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال بھی ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس عملی پروگرام کے بننے کے بعد دوسرا قدم مزاحمتی اقتصاد کا تحقق، ایک قوی سربراہی کمیٹی کی تشکیل نہایت ضروری ہے جو اپنے کے زیر نظر سرگرمیوں، مشکلات کے حل کے لئے فوری اقدامات، صحیح اور موقع پر فیصلے اور اس پروگرام کو عملی بنانے کے مواقع فراہم کرے اور عوام کو اس کی رپورٹ دے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حکومتی عہدیداروں کو تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی بھی ایسے اقتصادی پروگرام پر عملدرآمد نہ کریں کہ جو مزاحمتی اقتصاد کی سیاست سے مطابقت نہ رکھتا ہو اور ترقی اور توسیع کے چھٹے پروگرام کو جتنا جلدی ممکن ہو سکے انجام دیں۔
آپ نے غیر سرکاری اداروں من جملہ بسیج کی ظرفیت سے استفادے اور اقتصاد دانوں اور سرگرم اقتصادی شخصیات سے مزاحمتی اقتصاد کے تحقق کے لئے ضروری قرار دیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر مزاحمتی اقتصاد کی سیاست کے اجرا کے لئے حقوقی، قانونی اور عدالتی تقاضوں کی ضرورت ہو تو پارلیمنٹ اور عدلیہ اس میں تعاون کے لئے مکمل طور پر آمادہ ہیں۔
آپ  نے فرمایا کہ صدر مملکت کی اقتصادی جمود کے بارے میں دی گئی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس جمود میں ایک مختصر تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے لیکن اگر اس جمود کا مقابلہ نہ کیا گیا تو موجودہ اقتصادی پیشرفت بھی خطرے سے دوچار ہوجائے گی اور مہنگائی کی شرح میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ان کاروباری مراکز کہ جو اقتصادی جمود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں سے بعض اداروں کو نقد رقوم نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے اس لئے بینکوں کو چاہئے کہ وہ میدان میں اتریں لیکن بعض ایسے مراکز بھی ہیں جن کو نقد رقوم کا مسئلہ درپیش نہیں بلکہ وہ بینکوں سے سرمایہ لے چکے ہیں لیکن انہوں نے اس سرمائے کو کہیں اور استعمال کیا ہے لہذا ان سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ کرنی چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ جمود کے مسئلے کے حل کے لئے بعض پروگرام نجی اداروں کے سپرد کئے جانے چاہئیں۔
آپ نے چار کھرب تومان سے زیادہ کے پروجیکٹ ادھورے رہ جانے کے متعلق رپورٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان پروجیکٹس کا دس فیصد بھی نجی اداروں کے سپرد کردیا جائے تو چار ارب تومان ایران کی اقتصاد کا حصہ بن جائے گا اور اس سے اقتصادی جمود کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زراعت کے شعبے پر پہلے سے زیادہ توجہ دیئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اور بنیادی پروڈکٹس میں خود کفیل ہونے کے لئے منظم پلاننگ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں میں جوان انجینئروں سے بھی زراعت کے شعبے میں استفادہ کرنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پھلوں کی بے جا درآمد کا راستہ روکنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دیہاتوں اور ایگری کلچرل  انڈسٹری اور دیہاتوں میں موجود مقامی ہینڈی کرافٹس کی صنعت پر سنجیدگی سے غور و فکر کئے جانے کی ضرورت ہے۔
آپ نے ملک میں موجود معدنی ذخائر کو ایک اہم ظرفیت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تیل کی منڈی میں تیل کی قیمت بڑی طاقتوں کے ایک اشارے اور خطے میں موجود بعض عناصر کے خبیثانہ اقدامات کی وجہ سے سو ڈالر سے چالیس ڈالر پر پہنچ جاتی ہے یہ کسی بھی صورت قابل اعتبار نہیں ہے اور ہمیں اس کے متبادل کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ اس کا بہترین متبادل معدنیات کی صنعت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ معدنیات کے شعبے میں نجی اداروں سے استفادہ کئے جانے اور معدنیات کو خام حالت میں بیچے جانے کا راستہ بھی روکا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے آبی ذخائر کے درست استعمال اور پانی کی بچت اور زراعت میں پانی کے درست استعمال کا بھی نہیات اہم موضوع قرار دیا۔
اس ملاقات کی ابتدا میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے گذشتہ دو سالوں کے دوران مختلف شعبوں میں حکومت کی کارکردگی پر رپورٹ پیش کی۔

700 /