ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

نۓ سوالات کے جوابات (اپریل)

 
چاند دیکھنے کا طریقہ
سوال ۱: کیا چاند دیکھنے کے لئے مسلح آنکھوں سے دیکھنے اور غیر مسلح (قدرتی) آنکھوں سے دیکھنے میں کوئی فرق ہے؟ نیا چاند اگر مسلح آنکھوں سے دیکھا جائے تو کافی ہوگا یا نہیں؟
آج کل جبکہ فلکیات کے علمی تخمینے اور اندازے رائج ہیں اور پوری دنیا میں جدید آلات سے لیس رصدگاہیں موجود ہیں، تو کیا رؤیت ہلال پہلے کی طرح روایتی انداز میں اور دیکھ کر ہی انجام پائے؟ در حالیکہ انتہائی دقیق اور بالکل درست محاسبات کے ذریعے مشخص طور پر چاند کی منزلیں معلوم ہیں!
جواب: رؤیت ہلال کے لئے مسلح اور غیر مسلح آنکھ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح اگر چاند عام آنکھ سے دیکھا جائے تو پہلی تاریخ کا حکم لگایا جاتا ہے، اگر عینک، دوربین یا ٹیلی اسکوپ کے ذریعے دیکھا جائے تو بھی قمری مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے، تاہم کمپیوٹر پر رؤیت ہلال کی تصویر کے انعکاس سے کہ جسے رؤیت کا نام نہیں دیا جاسکتا، مہینے کی پہلی تاریخ کا ثابت ہونا محل اشکال ہے۔ اسی طرح کلینڈر، جنتری اور منجمین کے علمی محاسبات کے ذریعے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی مگر یہ کہ انسان کو ان کے کہنے سے یقین حاصل ہوجائے۔
 
یوم الشک کا روزہ
سوال ۲: جس دن کے بارے میں معلوم نہ کہ شعبان کا آخری دن ہے یا ماہ رمضان کا پہلا دن ، اس دن کا روزہ واجب ہے یا نہیں، کیا اس دن ماہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھا جاسکتا ہے؟
جواب: جس دن کے بارے میں معلوم نہ کہ شعبان کا آخری دن ہے یا ماہ رمضان کا پہلا دن (کہ جسے یوم الشک کہا جاتا ہے) ، اس دن کا روزہ واجب نہیں ہے اور اگر کوئی شخص اس دن روزہ رکھنا چاہے تو ماہ رمضان کے روزے کی نیت سے نہیں رکھ سکتا، بلکہ آخر شعبان کے مستحب روزے یا قضا روزے وغیرہ کی نیت کرسکتا ہے اور اگر بعد میں معلوم ہو کہ ماہ رمضان تھا تو ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا ، لہذا اس دن کی قضا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ اگر دن کے دوران اسے علم ہوجائے کہ ماہ رمضان ہے تو اسی لمحے سے ماہ رمضان کی نیت کرنا ضروری ہے۔
* جب کبھی بھی قمری مہینے کی انتیس (۲۹) تاریخ کو مغرب کے وقت آسمان پر بادلوں موجود ہونے یا کسی اور وجہ سے چاند نظر نہ آئے یا چاند کی رؤیت کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو اس دن کو یوم الشک کہتے ہیں۔ لہذا اگر شک اس میں ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا ماہ رمضان کا پہلا دن، تو شعبان کا آخری دن شمار ہوگا اور اس دن مستحب یا قضا روزے کی نیت سے روزہ رکھنا جائز ہے تاہم ماہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھنا حرام ہے اور اگر شک اس میں ہو کہ ماہ رمضان کا آخری دن ہے یا شوال کا پہلا دن تو ماہ رمضان کا آخری دن شمار ہوگالہذا اس دن کا روزہ رکھنا واجب ہے۔

 

نقصان دینے کے باوجود روزہ رکھنا
سوال ۳: اگر کسی کو کوئی سنگین بیماری لاحق ہو جبکہ روزہ رکھنا اس کے کے لئے ضرر رکھتا ہو اور اس کے جسم کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے لیکن وہ شخص روزہ رکھنے پر مصر ہو تو کیا اس کا روزہ رکھنا شرعی طور پر اشکال رکھتا ہے؟
جواب: اگر وہ جانتا (یقین) ہے کہ روزہ رکھنا ا س کے لئے ضرر رکھتا ہے یا عقلی احتمال (گمان) دیتا ہے کہ ضرر ہے(یعنی نقصان اور ضرر کا خوف ہو) تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے بلکہ کچھ مقامات پر حرام بھی ہے، چاہے یہ یقین اور خوف ذاتی تجربے سے حاصل ہوا ہو یا امین ڈاکٹر کے کہنے سے یا دوسری عقلی (عقلاء کے طرز عمل پر مبنی) وجوہات سے ، لہذا اگر وہ روزہ رکھے تو صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس نے قصد قربت کی نیت سے روزہ رکھا ہو اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ اس کے لئے مضر نہیں تھا۔
 
ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود روزہ رکھنا
سوال ۴: میں کئی سالوں سے بیماری میں مبتلا ہوں اور تمام ڈاکٹر جن سے میں نے رجوع کیا ہے میرے روزہ رکھنے کے مخالف ہیں، سوائے ایک قلیل تعداد کے کہ جنہوں نے کچھ اصولوں کی پابندی کے ساتھ روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے تاہم میں روزہ رکھنے کا خواہاں ہوں۔ لہذا اس بات کے پیش نظر کہ سننے میں آیا ہے اگر روزہ رکھنا بیماری کے لئے نقصان دہ ہو تو ایسا روزہ رکھنا باطل ہے اور اس کی قضا واجب ہے، میں تردید کا شکار ہوگیا ہوں اور اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔
جواب: اس بات کی تشخیص کہ روزہ بیماری کے پیدا ہونے یا اس کی شدت کے بڑھنے میں مؤثر ہوگا اور روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا یا مضر اور نقصان دہ ہوگا، خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔ لہذا اگر ڈاکٹر کہے کہ روزہ مضر ہوگا لیکن اس کا کہنا اطمینان یا ضرر سے خوف کا باعث نہ بنے یا مکلف اپنے تجربے کی بنیاد پر دریافت کرچکا ہو کہ روزہ رکھنا نقصان دہ نہیں ہے تو ضروری ہے کہ روزہ رکھے۔ اسی طرح اگر ڈاکٹر کہے کہ روزہ مضر نہیں ہوگا لیکن خود اسے علم ہو کہ روزہ رکھنا اس کے لئے مضر ہے یا عقلی (عقلاء کے طرز عمل پر مبنی) خوف رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے لہذا اس پر روزہ رکھنا حرام ہے۔
 
ما فی الذمہ روزے کی نیت
سوال ۵: ایسا انسان جو نہیں جانتا کہ اس کے روزے قضا ہیں یا نہیں ، کیا مستحب روزے کے لئے یہ نیت کرسکتا ہے کہ اگر میرا کوئی روزہ قضا ہے تو اس کی نیت سے اور اگر نہیں ہے تو مستحب روزے کی نیت سے روزہ رکھتا ہوں؟ یا یہ کہ دونوں کی الگ الگ نیت کرنا ہوگی؟
جواب: جو انسان نہیں جانتا کہ اس کے روزے قضا ہیں یا نہیں ، اگر اس نیت سے کہ جو اس کا فریضہ (ما فی الذمہ)ہے (خواہ قضا روزہ ہو یا مستحب) روزہ رکھے اور حقیقت میں قضا روزہ اس کے ذمے ہو تو بطور قضا روزہ شمار ہوجائے گا۔
 

قضا روزہ ذمے پر ہونے کے باوجود مستحب روزہ رکھنا
سوال ۶: وہ شخص جو نہ جانتا ہو کہ اس کے ذمے قضا روزے ہیں اور مستحب روزہ رکھ لے تو وہ روزے مستحب روزے شمار ہوں گے یا قضا سمجھے جائیں گے؟
جواب: قضا روزوں کے ذمے پر ہوتے ہوئے مستحب روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے، البتہ اگر ظہر سے پہلے یاد آجائے کہ اس کے ذمے قضا روزہ ہے تو ماہ رمضان کے قضا روزے کی نیت کرسکتا ہے تاہم اگر ظہر کے بعد یاد آئے تو پھر قضا روزے کی نیت بھی صحیح نہیں ہے۔

نیتِ روزہ کی شرائط
سوال ۷: کیا نیت کے وقت جو روزہ رکھ رہے ہوں اس کی نوعیت کا تعین کرنا بھی لازمی ہے؟
جواب: ماہ رمضان کے روزوں میں نوعیت کا تعین کرنا لازمی نہیں ہے، بلکہ صرف روزے کی نیت کرلینا کافی ہے، تاہم ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے روزوں کے لئے لازمی ہے کہ روزے کی نوعیت، اگرچہ اجمالی طور پر ہی کیوں نہ ہو معین کی جائے، مثال کے طور پر جس کے ذمے صرف قضا روزے واجب ہوں ضروری ہے کہ مشخص طور پر قضا روزے کی نیت کرے یا مجمل طور پر (یعنی ما فی الذمہ) کی نیت کرے کہ جو روزہ اس کے ذمے ہے وہ رکھ رہا ہے۔ اگر اس کے ذمے کئی قسم کے روزے ہوں جیسے کہ قضا اور نذر کے روزے تو لازمی ہے معین کرے کہ جو روزہ رکھ رہا ہے ان میں سے کون سا ہے۔
 
پہلا روزہ رکھنے والے
سوال ۸: ایسی لڑکی جو حال ہی میں بالغ ہوئی ہے ، اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے شدید کمزوری کا شکار ہوجائے تو اس کے روزہ رکھنے کا حکم کیا ہے؟
جواب: وہ لڑکیاں جو بلوغت کی ابتدا میں ہوتی ہیں، واجب ہے کہ روزہ رکھیں اور صرف دشواری، جسمانی کمزوری وغیرہ کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ روزہ ان کے لئے ضرر رکھتا ہو یا روزہ (بھوک و پیاس) برداشت کرنا بہت زیادہ مشقت کے ہمراہ ہو۔
 
مسافر کا روزہ
سوال ۹: وہ انسان کہ ماہ رمضان میں جس کے سفر کی مدت دس دن سے کم ہو کیا روزے کا ثواب حاصل کرنے کے لئے ماہ رمضان کے علاوہ کسی دوسرے روزے کی نیت کرسکتا ہے؟
جواب: ماہ رمضان میں سوائے رمضان کے روزوں کے کسی دوسرے روزے کی نیت نہیں کی جاسکتی ، تاہم اس مسافر کے سلسلے میں کہ جو ماہ رمضان کا روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن اس نے نذر کی ہوئی ہو کہ سفر کے دوران روزہ رکھے گا تو اس صورت میں ماہ رمضان میں اس کے لئے نذر کا روزہ رکھنا صحیح ہے۔ البتہ ماہ رمضان میں نذر کا روزہ خود رمضان کا روزہ شمار نہیں ہوتا لہذا ضروری ہے کہ بعد میں رمضان کے روزے کی قضا کرے۔
 
روزے کی نیت سے پلٹ جانا
سوال ۱۰: اگر روزہ دار دن کے دوران کسی بھی وجہ سے روزے کی نیت سے پلٹ جائے لیکن بعد میں پشیمان ہو اور روزہ جاری رکھنے کی نیت اور ارادہ کر
لے جبکہ ایسا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو جو روزے کو باطل کردیتا ہے تو کیا اس دن کا روزہ صحیح ہے؟
جواب: معین واجب روزے جیسے کہ ماہ رمضان اور معین نذر کے روزے میں واجب ہے کہ نیت طلوعِ فجر سے لے کر مغرب تک تسلسل کے ساتھ باقی رہے۔ لہذا اگر روزے کے دوران روزے کی نیت سے پلٹ جائے اور اسے جاری رکھنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور دوبارہ روزہ جاری رکھنے کا ارادہ کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ البتہ ضروری ہے کہ مغرب کی اذان تک مبطلاتِ روزہ (روزہ باطل کرنے والے امور) کو انجام دینے سے پرہیز کرے۔
 
روزے کی حالت میں دانتوں کے درمیان موجود کھانے کے چھوٹے ذرات کا نگلنا
سوال ۱۱: کھانے کے وہ چھوٹے ذرات جو اذان صبح سے پہلے سے منہ اور دانتوں کے درمیان تھے اگر اذانِ صبح کے بعد منہ سے حلق میں داخل ہوجائیں، بھولے سے یا جان بوجھ کر تو کیا حکم ہے؟
جواب: اگر جان بوجھ کر نگل لے تو روزہ باطل ہوجائے گا لیکن اگر نہ جانتا ہو کہ دانتوں کے درمیان کھانے کے ٹکڑے موجود ہیں یا ان کا نگلنا عمدی (جان بوجھ کر) اور توجہ کے ساتھ نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوگا۔
 
روزے کے دوران انجکشن اور ڈرپ لگوانا
سوال ۱۲: کیا روزے کے دوران انجکشن یا ڈرپ لگوانا روزے کو باطل کردیتا ہے؟ کیا مختلف قسم کے طاقت والے اور دوسرے انجکشن میں اور اسی طرح ڈرپ کی مختلف اقسام کے درمیان کوئی فرق پایا جاتا ہے؟
جواب: احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار طاقت والے انجکشن اور رگوں میں لگائے جانے والے انجکشن کے استعمال سے اجتناب کرے۔ اسی طرح مختلف قسم کی ڈرپ لگوانے سے بھی پرہیز کرے لیکن طاقت والے انجکشن کےعلاوہ گوشت کی بافتوں میں لگائے جانے انجکشن جیسے کہ اینٹی بایوٹک یا پین کلر اور آرام بخش یا بے حس کرنے والے انجکش لگوانا جائز ہے۔ نیز وہ دوائی بھی استعمال کرنے میں حرج نہیں کہ جو چوٹ اور زخموں پر لگائی جاتی ہے۔
 
میگرن (آدھے سر کے درد) کا شکار افراد کا روزہ رکھنا
سوال ۱۳: میں میگرن (درد شقیقہ یا آدھے سر کےدرد) کا شکار ہوں اور ماہ رمضان کے پیش نظر اگر کھانا اور اپنی گولیاں نہ کھاؤں تو سر کے شدید درد میں مبتلا ہوجاتا ہوں پس کیا معالج ڈاکٹر کے دستور کو دیکھتے ہوئے مجھے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے یا روزہ رکھوں تو اسی حالت میں اپنی گولیاں کھا سکتا ہوں؟
جواب: گولیاں کھانا اس صورت میں کہ جب بیماری کے علاج کے لئے ضروری ہو تو کوئی حرج نہیں رکھتا تاہم روزہ باطل ہوجائے گا اور آپ کو وہ روزہ قضا رکھنا ہوگا۔
 
روزے کے دوران زبان کے نیچے رکھی جانے والی گولیوں کا استعمال
سوال۱۴: کیا زبان کے نیچے رکھی جانے والی گولی روزہ باطل کردیتی ہے جبکہ پوری گولی زبان کے نیچے والے لعاب کے ذریعے جسم میں جذب ہوجاتی ہے اور عملی طور پر کوئی چیز گلے (حلق) میں داخل نہیں ہوتی؟
جواب: اگر گولی سے مخلوط ہوجانے والا منہ کا لعاب باہر تھوک دیا جائے اور حلق میں کچھ داخل نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوگا۔
 
روزے کے دوران مسوڑھوں سے خون آنا
سوال ۱۵: اگر روزے کے دوران روزہ دار کے مسوڑھوں یا دانت سے خون آنے لگے، چنانچہ وہ خون منہ کے لعاب (تھوک) کے ساتھ مخلوط ہوجائے اور اسے نگل لیا جائے تو کیا اس کا روزہ صحیح ہوگا؟
جواب: اگرچہ منہ سے خون نکلنا روزے کو باطل نہیں کرتا لیکن واجب ہے کہ اسے حلق تک پہنچنے سے روکا جائے۔ ہاں اگر مسوڑھے اور دانت کا خون منہ کے لعاب میں شامل ہو کر مکمل طور پر مٹ جائے تو اس پر پاک ہونے کا حکم لگے گا ، لہٰذا اس کا نگلنا روزے کو باطل نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر منہ کے لعاب میں خون کی موجودگی کے بارے میں شک ہو تو اسے نگلنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور روزہ صحیح ہوگا۔
 
روزے کے دوران کھانا چکھنا
سوال ۱۶: کھانا چکھتے وقت یا بچے کے لئے کھانا چباتے وقت اگر اس کی کوئی مقدار حلق سے نیچے نہ اترے یا ارادے کے بغیر اور اتفاقی طور پر نیچے اتر جائے تو کیا روزے کی صحت پر کوئی اثر پڑے گا؟
جواب: بچے کے لئے کھانا چبانا اور ذائقہ معلوم کرنے کے چکھنا وغیرہ کہ عام طور پر اس طرح کھانا حلق تک نہیں پہنچتا، روزے کو باطل نہیں کرتا اگرچہ اتفاقی طور پر اور بے اختیار حلق تک پہنچ کر نیچے اتر جائے۔ تاہم اگر شروع سے ہی جانتا ہو کہ حلق تک پہنچ جائے گا تو نیچے اترجانے کی صورت میں روزہ باطل ہوجائے گا۔
 
روزہ دار کا کلی کرنا
سوال۱۷: اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں جان بوجھ کر اپنے منہ میں پانی لیتا ہے ،منہ دھونے یا وضو کے لئے کلی کرنے یا منہ ڈھنڈا کرنے کے لئے اور اس اعتماد کے ساتھ کہ پانی نیچے نہیں اترے گا لیکن بے اختیار پانی نیچے اتر جائے تو کیا روزہ باطل ہوگا اور اس کی قضا رکھنا ضروری ہوگا؟
جواب: اگر روزہ دار کو وضو کرتے وقت ( کہ مستحب ہے تھوڑا سا پانی منہ میں گھوما کر کلی کرے) اطمینان ہو کہ پانی نیچے نہیں اترے گا اور اس اطمینان کےساتھ کلی کرے لیکن پانی بے اختیار نیچے اترجائے تو اگر یہ کام واجب نماز کے وضو کے لئے ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے، تاہم اگر یہ کام واجب نماز کے علاوہ کسی اور چیز (نماز یا غیر نماز) کے وضو کی غرض سے یا وضو کے علاوہ کسی دوسرے کام مثلاً منہ ٹھنڈا کرنے وغیرہ کے لئے انجام دیا ہو اور پانی بے اختیار منہ سے نیچے اتر جائے تو بنا بر احتیاط اس دن کے روزے کی قضا رکھنا ہوگی۔

 

700 /