ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے وفد سے ملاقات

امریکہ کو فرات کے مشرقی علاقے سے باہر نکالا جانا چاہیے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے وفد سے ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت اور معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے مغرب کی دھوکہ دہی پر مبنی پالیسیوں اس کے خلاف ہوشیار رہنا ضروری سمجھا اور فرمایا: ایران اور روس کے درمیان طویل مدتی تعاون دونوں ممالک کے لیے انتہائی مفید ہے۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ عالمی واقعات ایران اور روس کے درمیان باہمی تعاون میں اضافے کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں اور فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان تیل اور گیس کے شعبے سمیت بہت سے مفاہمتیں اور معاہدے موجود ہیں جن پر عمل کرنا آخر تک ضروری ہے۔
انہوں نے ایران اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون کو خاص طور پر مغربی پابندیوں کے تناظر میں ضروری اور دونوں ممالک کے مفاد میں قرار دیا اور یوکرین کے واقعات کے حوالے سے کہا: جنگ ایک سخت اور مشکل زمرہ ہے اور اسلامی جمہوریہ اس بات پر بالکل بھی خوش نہیں کہ عام لوگ اس کا شکار ہوں لیکن یوکرین کے معاملے میں اگر آپ نے پہل نہ کی تو دوسری طرف اپنی پہل سے جنگ چھیڑ دینے گا باعث بنتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مغربی ممالک ایک مضبوط اور خودمختار روس کے مکمل مخالف ہیں، نیٹو کو ایک خطرناک موجود قرار دیا اور مزید فرمایا: اگر نیٹو کے لیے راستہ کھلا ہو تو وہ کسی سرحد کو نہیں پہنچانتا اور اگر اسے یوکرین میں نہ روکا گیا ہوتا کچھ وقت بعد میں، کریمیا کے بہانے، وہ اسی جنگ کا آغاز خود کرتے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: بے شک آج امریکہ اور مغرب پہلے کی نسبت کمزور ہیں اور بڑی کوششوں اور اخراجات کے باوجود شام، عراق، لبنان اور فلسطین سمیت ہمارے علاقے میں ان کی پالیسیوں کی کامیابی بہت کم ہوچکی ہے۔
انہوں نے شام کے مسئلے کو بہت اہم قرار دیا اور اس ملک پر فوجی حملے کی مخالفت کرنے اور اسے روکنے کی ضرورت پر اسلامی جمہوریہ کے موقف پر تاکید کرتے ہوئے کہا: شام کے مسئلے میں ایک اور اہم مسئلہ امریکیوں کی جانب سے فرات کے مشرق میں زرخیز اور تیل سے مالا مال علاقوں پر قبضہ ہے، جو کہ امریکہ کو اس علاقے سے نکال کر یہ مسئلہ حل کیا جانا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے علاقے کے امور میں صیہونی حکومت کی مداخلت کی مذمت کی اور صیہونیوں کے خلاف روسی صدر کے حالیہ مؤقف کی تعریف کی۔

انہوں نے مزید تاکید کی: اسلامی جمہوریہ کبھی بھی ایسی پالیسیوں اور پروگراموں کو برداشت نہیں کرے گا جو ایران اور آرمینیا کے درمیان سرحد کو بند کرنے کا باعث بنیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور روس کے درمیان طویل المدتی تعاون کو واقعی اور حقیقی طور سے دونوں ممالک کے فائدے کے لیے قرار دیا اور جناب پوتن سے فرمایا: آپ اور ہمارے صدر دونوں ہی عمل محور اور سنجیدہ ہیں، اس لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو اس عرصے میں اپنے عروج پر پہنچ جانا چاہیے۔
رشت-استارا ریلوے لائن شروع کرنے کی ضرورت کے بارے میں روس کے صدر کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے، انہوں نے اس کام کو شمال-جنوب ٹرانسپورٹ لائن کو مکمل کرنے اور دونوں ممالک کے لیے مفید سمجھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مغرب کے فریب کے خلاف ہوشیاری کو بھی ضروری قرار دیا اور فرمایا: امریکی زور آور اور چالاک ہیں اور سابق سوویت یونین کے انہدام کے اسباب میں سے ایک امریکی پالیسیوں کے سامنے دھوکہ کھا جانا بھی تھا، یقیناً روس نے آپ کے دور میں اپنی آزادی کو برقرار رکھا ہے۔
انہوں نے دونوں ممالک کے تعلقات میں قومی کرنسیوں کو بدلنے اور ڈالر کے بجائے دوسری کرنسیوں کو استعمال کرنے کی پالیسی کی بھی تصدیق کی اور کہا: ڈالر کو بتدریج عالمی لین دین کے راستے سے ہٹا دینا چاہیے اور یہ بتدریج ممکن ہے۔
اس ملاقات میں، جس میں ایران کے صدر جناب رئیسی نے شرکت کی، جناب پوٹن نے یوکرین کے واقعات کے بارے میں کہا: ’’کوئی بھی جنگ کے حق میں نہیں ہے اور عام لوگوں کی جانوں کا ضیاع بہت بڑا المیہ ہے، لیکن مغرب کے رویے نے ہمارے پاس رد عمل کے سوا کوئی چارہ نہیں چھوڑا۔"
روس اور یوکرین کے درمیان اختلافات کے عوامل اور جڑوں کا شمار کرتے ہوئے، خاص طور پر حالیہ برسوں میں مغرب اور امریکہ کے اشتعال انگیز اقدامات، بشمول یوکرین میں بغاوت، نیز نیٹو کی روس کی جانب کسی بھی پیش قدمی سے پرہیز کرنے کے اپنے سابقہ ​​وعدوں کے باوجود توسیعی پالیسی، روسی صدر نے کہا: یورپی ممالک نے کہا کہ ہم نیٹو میں یوکرین کی رکنیت کے خلاف ہیں، لیکن ہم نے امریکی دباؤ پر اس پر رضامندی ظاہر کی، جس سے ان کی خودمختاری اور آزادی کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔

جناب پوتن نے جنرل سلیمانی کی شہادت کو امریکیوں کی شرارت کی ایک اور مثال قرار دیا اور اپنی بیانات کے ایک اور حصے میں روس کے خلاف مغربی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: یہ پابندیاں مغرب کے لیے نقصان دہ ہیں اور اس کے نتیجے میں ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور خوراک کی فراہمی کا بحران۔
روس کے صدر نے امریکہ کی طرف سے دوسرے ممالک پر پابندی لگانے اور لوٹنے کے لیے ڈالر کے آلے کے غلط استعمال کا ذکر کرتے ہوئے اسے اس کے نقصان میں سمجھا جس نے کرنسی پر عالمی اعتماد کو کمزور کیا اور ممالک کی جانب سے متبادل کرنسیوں کو استعمال کرنے کی تحریک کو جنم دیا، انھوں نے کہا: روس اور ایران نئی کرنسیوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں قومی کرنسیوں کے استعمال کے نئے طریقے دریافت کئے جارہے ہیں۔
روس کے صدر نے قفقاز کے علاقے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے موقف کی توثیق کے بعد شام کے مسئلے پر دونوں ممالک کے موقف کو اس ملک کے شمال میں فوجی حملے کی مخالفت سمیت مکمل طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ قرار دیا اور کہا: فرات کے مشرق کا علاقہ شامی فوجی دستوں کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔
جناب پوتن نے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو تمام شعبوں اور منصوبوں میں پیش رفت کا حامل قرار دیا اور مزید کہا: ایران اور روس مل کر شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں اور فوجی میدان میں بھی ہم دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور چین کے ساتھ سہ فریقی مشقوں کی شکل میں فروغ دے رہے ہیں۔

700 /