ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

فضائیہ کے سینکڑوں کمانڈروں اور ارکان کی کمانڈر ان چیف سے ملاقات

اس سال کا 22 بہمن قومی اتحاد و یکجہتی کا مظہر ہوگا

19 بہمن 1357 کو فضائیہ کے کمانڈروں کے ایک گروہ کی جانب سے امام خمینی (رہ) سے تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر آج (بدھ کو) فضائیہ کے سینکڑوں کمانڈروں اور ملازمین نے کمانڈر ان چیف سے ملاقات کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں وفادار، انقلابی، عزیز، مقبول اور عظیم اور حیرت انگیز کاموں کو فروغ دینے والی فوج کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے 19 بہمن 1357 کے واقعہ کو اسی سال 22 بہمن میں انقلاب کی فتح کا ایک اہم اور موجیں پیدا کرنے والا عنصر قرار دیا اور انقلاب کے بعد کے سالوں کے 22 بہمن کیلئے بھی ایک علمبردار اور حوصلہ بخش واقعہ قرار دیا اور اختلاف اور بداعتمادی پیدا کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے ٹیکانے اور اس کو تباہ کرنے کے دشمن کے اصل ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس شیطانی منصوبے کے مقابل سب سے اہم نسخہ قومی اتحاد کو برقرار رکھنا ہے اور اس سال 22 بہمن انشاء اللہ قومی اتحاد اور یکجہتی کا مظہر ہوگا اور عوام تمام بدخواہوں کو یہ پیغام واضح طور پر پہنچائیں گے کہ بداعتمادی پیدا کرنے اور قومی یکجہتی کو تباہ کرنے کی ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 19 بہمن کے واقعہ کو 22 بہمن کیلئے ایک موثر اور حوصلہ بخش پیش خیمہ اور ملت ایران کی عظمت و عزت کو ظاہر کرنے والا قرار دیا اور فرمایا: 22 بہمن ایرانی قوم کی قابل فخر تحریک کا نقطہ اوج اور ایرانی قوم کی تاریخ کے سب سے شاندار دن کی نشانی ہے کہ اس دن عوام نے اپنی عظمت، عزت اور طاقت حاصل کی۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جس طرح 22 بہمن کو اب تک زندہ رکھا گیا ہے اسی طرح مستقبل میں بھی زندہ رکھا جائے، مزید کہا: زندہ انقلاب وہ انقلاب ہے جو اپنی روایات اور رسومات کو زندہ رکھتا ہے اور ہر دور میں ضرورتوں اور خطرات کا ادراک رکھتے ہوئے، ان ضروریات کو پورا کرسکے اور خطرات کو بے اثر کرسکے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے دنیا کے عظیم انقلابات مثلاً فرانس اور سوویت انقلابات میں سخت اور تلخ آمریتوں کی ناکامی یا واپسی کو اہم ضرورتوں اور خطرات سے چشم پوشی اور جزئی مسائل اور تنازعات میں مشغول ہوجانا قرار دیا اور کہا: اسلامی انقلاب نے خود کو ان آفات سے محفوظ رکھا۔ بلاشبہ ہمارے ہاں بھیمسائل تھے اور کوششیں اور عزم و ارادے مختلف حکومتوں میں یکساں نہیں تھے لیکن مجموعی تحریک اوج کی طرف اور مادی اور روحانی ترقی تھی۔

انہوں نے مختلف میدانوں میں ایرانی قوم کے اقدام، پیشرفت، بھرپور اور مضبوط منطق کا ذکر کرتے ہوئے اس سال ماہ رجب کے اعتکاف کی عبادت میں 80 کی دہائی کے نوجوانوں کی نمایاں موجودگی کو قومی ترقی کی مثال قرار دیا اور کہا: آپ نے دیکھا کہ انھوں نے 80 کی دہائی کے نوجوانوں کے بارے میں کتنے مضحکہ خیز لطیفے بنائے لیکن اس سال کے اعتکاف کے اعدادوشمار اور رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ معتکفین میں سے ایک بڑی تعداد اسی کی دہائی کے نوجوانوں کی تھی۔
رہبر انقلاب نے انقلاب کی حیات اور تروتازگی برقرار رکھنے کے لیے ضروری سمجھا کہ ضرورتوں کو پورا کرنے پر توجہ دی جائے اور ایک بنیادی اور اہم ضرورت یعنی "قومی اتحاد" پر توجہ اور تاکید کرتے ہوئے فرمایا: قومی اتحاد نے انقلاب کی فتح اور پیشرفت میں بہت اہم کردار ادا کیا اور دشمن کے خلاف ایک مضبوط اور فلک شگاف دیوار  ہے کہ آج اس اتحاد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے انقلاب کو گھٹنے ٹیکانے کو اسلامی نظام کے خلاف دشمن کا واضح منصوبہ اور ہدف قرار دیا اور کہا: یقیناً وہ اس کے برعکس کہتے ہیں جیسا کہ تقریباً 15 سال قبل امریکہ کے صدر نے مجھے ایک خط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ہم آپ کے نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے، لیکن اسی وقت ہمارے پاس اطلاعات تھیں کہ وہ اپنے مراکز میں اسلامی جمہوریہ کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دشمنوں کی اسلامی جمہوریہ کو تباہ کرنے کی کوششوں کی وجہ بیان کی اور فرمایا: اسلامی جمہوریہ نے اس اہم، اسٹریٹجک اور فائدہ مند خطے کو ان کے ہاتھ سے چھین لیا ہے اور اس کے علاوہ آزادی کے نعرے اور تسلیم نہ ہونے کو نہ صرف ایک سیاسی مسئلہ کے طور پر بلکہ ایک مذہبی عقیدہ کے طور پر بھی متعارف کرایا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: ہو سکتا ہے کہ بعض دوسرے ممالک بھی امریکہ سے آزادی کی پالیسی چاہتے ہوں، لیکن یہ پالیسی لیں دین، مذاکرات، مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور ممکنہ طور پر موثر لوگوں کو رشوت دینے میں تبدیل ہوجاتی ہے جیسا کہ آپ دنیا میں اس کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ میں آزادی اور تسلیم نہ ہونے کا نعرہ ایمان پر مبنی ہے اور قرآن نے متکبروں پر بھروسہ نہ کرنے کی تاکید کی ہے، اور اس پر لین دین نہیں کی جا سکتی، اور اس عقیدے کو عبور کرنے والا اسلامی جمہوری نظام میں کام کرنے کی اہلیت سے محروم ہو جائے گا۔
دشمن کے ہدف یعنی اسلامی جمہوریہ کو گھٹنوں کے بل گرانے اور دشمنی کی وجہ بیان کرنے کے بعد آپ نے اس مقصد کے حصول کے لیے حکمت عملی کی وضاحت کی اور فرمایا: ان کی حکمت عملی اختلاف پیدا کرنا ہے کیونکہ اس صورت میں مستقبل کی امیدیں ختم ہوجائیں گی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: سیاسی گروہوں کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا، لوگوں کا ایک دوسرے اور حکومت کے تئیں عدم اعتماد اور تنظیموں کے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرنا ایران کے بدخواہوں کے مقاصد کو حاصل کرنے کی حکمت عملیوں میں سے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کچھ اختلافات ہیں، لیکن انہیں تصادم میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک بار وہ خواتین کا مسئلہ اٹھاتے ہیں، ایک بار شیعہ اور سنی کا مسئلہ اور دوسری بار نسلی اختلافات کا مسئلہ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اختلاف پھیلانے کا سب سے اہم حربہ جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کو قرار دیا اور تاکید کی: جب دشمن قومی اتحاد کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتا ہے تو ہمیں اس اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھتے ہوئے اسے اس کی شیطانی خواہش میں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس سال کی 22 بہمن کو قومی اتحاد کا مظہر قرار دیا اور فرمایا: خدا کے فضل سے اس سال کا 22 بہمن موجودگی، وقار، ایک دوسرے پر لوگوں کے اعتماد اور قومی اتحاد کا مظہر ہوگا۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: عزیز عوام کو میری نصیحت ہے کہ اس ریلی اور عظیم دن کو قومی اتحاد اور اعتماد کا مظہر بنانے کی کوشش کریں اور دشمن کو یہ پیغام واضح طور پر پہنچائیں کہ اس کی قومی وحدت کو تباہ کرنے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے اور وہ آپس میں جدا نہیں ہو سکتے، لوگوں کو ایک دوسرے سے اور نظام سے اور نظام کو لوگوں کے بارے میں مایوسی کا شکار نہیں بناتے  یا لوگوں کے مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جنگ ​​میں نہیں گھسیٹ سکتے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اختلاف رائے اور سیاسی اختلافات میں کوئی حرج نہیں ہے، اور فرمایا: لیکن یہ اختلافات تصادم، ایک دوسرے پر تہمت لگانے اور الزام تراشی کا باعث نہیں بننا چاہیے اور دشمن کی حکمت عملی کے مقابلے میں ہم سب کو مل کر اتحاد کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ 
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں 19 بہمن 1357 کے واقعہ کو انقلاب کی فتح کا ایک موثر پیش خیمہ قرار دیا اور فرمایا: اس دن فضائیہ کمانڈروں کی بیعت کی تصویر کی اشاعت حالات میں انقلابی تبدیلی لائی کیونکہ حقیر اور جابر پہلوی حکومت کا عوام کو دبانے کے لیے واحد ہتھیار فوج کو استعمال تھا، لیکن عوام اور انقلابیوں کے حوصلے انقلاب کے ساتھ فوج کی صف بندی کو دیکھ کر بلند ہوئے اور طاغوتی حکومت کے رہنماؤں اور اس کے امریکی آقاووں کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے 19 بہمن 1357 کے سب سے اہم پیغام کو انقلاب کی مستقبل کی فوج کی تشکیل قرار دیا اور کہا: مدرسہ علوی میں فضائیہ کمانڈروں کی آمد نے جہاں ہر روز ہزاروں لوگ امام خمینی رح کی بیعت کے لیے آتے تھے، اس بات کو ظاہر کیا کہ مستقبل کی فوج ایک عوامی فوج ہے، ایک انقلابی فوج ہے، ایک با ایمان فوج ہے، یہ نظام کی پابند اور خطرہ مول لینے والی فوج ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: اس دن کے طاغوت، یعنی امریکی حکومت اور پہلوی ایجنٹوں کے مقابلے میں فوجی جوانوں کا خطرہ مول لینا، اس حالت میں کہ انقلاب کا انجام ابھی تک معلوم نہیں تھا، انقلاب کے بعد کئی سالوں تک جاری رہا اور اور فوج نے تمام حملہ آوروں کے خلاف اپنے سینے سپر کیا۔
انھوں 19 بہمن کو امام کی تصویر کو طاقت، عزت اور غیر متزلزل ایمان، دماوند چوٹی کی طرح مضبوط، اور ساتھ ہی ساتھ بادشاہی دور کی فوج کے جوانوں کے لیے ایک مہربان اور پدرانہ نظر کی تصویر اور مظہر قرار دیا، اور فرمایا: فوج عوام کے ساتھ کھڑی رہی، اور انقلابی رہی، اور یہ انقلابی ہونا ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ کچھ لوگ انقلابی ہو جاتے ہیں، لیکن وہ انقلابی نہیں رہتے، لیکن آج اسلامی جمہوریہ کی فوج پہلے دنوں سے کہیں زیادہ انقلابی، زیادہ دیانتدار اور پاکیزہ ہے اور جہاں ضرورت پڑتی ہے وہ بہادری اور بے لوثی کے ساتھ عوام کے شانہ بشانہ کردار ادا کرتی ہے اور ملک کے دفاع کے لیے استقامت دکھاتی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پہلوی دور کی فوج کے ساتھ آج کی فوج کے تقابل کو انقلاب کی طاقت اور عظیم کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت کا مظہر قرار دیا اور 1320 میں ھملے کے مقابل رضا خانی کی دعووں سے بھرپور فوج کے چند گھنٹوں میں منتشر ہونے یا 28 مرداد 1332 کو قومی حکومت اور عوام کے خلاف  محمد رضا کی فوج کا امریکی و برطانوی جاسوسوں کے ساتھ تعاون جیسی مثالیں بیان کیں اور  کہا: اس زمانے میں فوج اتنی بے توقیر، لالچی اور غیر ملکیوں کے زیر اثر تھی کہ اس وقت کسی فوجی افسر کو امریکی چھوٹے ملازم کے سامنے بولنے کی بھی ہمت نہ ہوتی تھی۔
انہوں نے آج کی فوج کو آزادی اور طاقت کی علامت، عوام اور حکام میں مورد اعتماد اور قابل احترام قرار دیا اور مزید کہا: آج فوج عوام کے ساتھ، عوام کے شانہ بشانہ اور عوام کے درمیان ہے اور اگر ماضی میں امریکیوں سے خریدے گئے ہوائی جہاز کے پرزوں کو چھونے کا حق بھی نہ تھا تو آج پابندیوں کے باوجود وہ خود ہوائی جہازوں کے خالق اور اختراع کرنے والے اور لوگوں کے لیے حیرت انگیز، عظیم اور باوقار کام کرنے والے ہیں، جس کی مثال کل دکھائی گئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان کوششوں کے روحانی نتیجہ کو اعلیٰ ترین قدر کا حصول قرار دیا جو کہ خدا کی بارگاہ میں محبوب ہونا ہے اور سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: عزیزو، فخر کریں کہ آپ اسلامی جمہوریہ کی فوج کا حصہ ہیں۔ قوم اور حکام دونوں ہی فوج کی قدر کرتے ہیں اور آپ کو بھی اپنی طاقتوں کو مضبوط کرنے اور ادارے کی کمزوریوں کو دور کرکے اپنی قدر کرنی چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں شام اور ترکی میں حالیہ زلزلے سے متاثر ہونے والے افراد کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی اور فرمایا: ہمارے ملک کے حکام نے بھی مدد کی ہے، الحمدللہ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ 
اس نشست کے آغاز میں فضائیہ کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر خالق وحیدی نے سائنسی اور علم محور، آلات کی تیاری، جنگی آمادگی، تربیت، تعمیرات اور امداد کے مختلف شعبوں میں اس فورس کی امید افزا اور موثر مصنوعات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔

700 /