ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حجاج بیت الحرام کے نام اہم پیغام


بسم الله الرحمن الرحيم

والحمدلله رب العالمين و الصلوة والسلام علي سيدالانبياء و المرسلين و علي آله الطيبين و صحبه المنتجبين

حج کے موسم کی آمد کو امت اسلامی کی عظیم عید شمار کرنا چاہیے۔ یہ گرانقدر ایام اورغنیمت موقع ہر سال مسلمانوں کو نصیب ہوتا ہے۔ یہ ایک طلائي اور معجزنما موقع ہے اگر اس کی قدر و قیمت کو پہچانا جائےاور اس سے بہتر انداز میں استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کو در پیش بہت سے مسائل و مشکلات  اور چیلینجوں کا حل نکل آئے گا۔

حج فیض الہی کا موجیں مارتا ہوا چشمہ ہے، آپ تمام سعادتمند حاجیوں کو اس وقت یہ عظیم مرتبہ حاصل ہوگيا ہے کہ صفا و صمیمیت اور معنویت سے لبریز اعمال و مناسک حج میں اپنے دل و روح کو اچھی طرح دھوئيں اور انھیں پاک و صاف بنائيں  اور اپنی تمام عمر کے لئے رحمت و قدرت و عزت کا شاندار ذخیرہ اکٹھا کریں۔ اللہ تعالی کے سامنے تسلیم و خشوع اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں کے دوش پر رکھی گئی ہیں ان کی نسبت عہد و وفا پر عمل ، نشاط و حرکت اور دین و دنیا کے کام میں اقدام، مسلمان بھائيوں کے ساتھ گفتگو و تعامل میں رحم،عفو اور در گذر،سخت و دشوار حوادث کے مد مقابل ہمت اور خود اعتمادی، ہر چیز اور ہر جگہ اللہ تعالی کی مدد و نصرت پر امید؛ مختصر یہ کہ آپ مسلمان کے ہم پلہ انسان کی ساخت کو ان ایام میں الہی تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنے لئے حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے آپ کو ان زیورات سے آراستہو پیراستہ بنا بنا سکتے ہیں اور ان ذخیروں سے فائدہ اٹھا کر ان کو اپنی قوم اور اپنے ملک کے لئے اور سرانجام امت اسلامی کے لئے سوغات اور ہدیہ کے طور پر لے جا سکتے ہیں ۔

امت اسلامیہ کو آج ایسے انسانوں کی سخت اور زيادہ سے زيادہ ضرورت ہے جو خلوص، صفا اور ایمان کے ساتھ عمل و فکر  اور معاند دشمنوں کے مقابلے میں مقاومت و پائداری کو معنوی اور روحی خودسازی کے ساتھ فراہم کریں۔ اور یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو ایسی مشکلات اور دشواریوں سے نجات دلائی جاسکتی ہے جو عزم و ایمان اور بصیرت کی کمی اور دشمن کی آشکارا عداوتوں کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر کئی عرصہ سے موجود ہیں۔

بیشک موجودہ دور مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کا دور ہے اور اس حقیقت کو ان چیلنجوں کے ذریعہ بھی درک کیا جاسکتا ہے جن سے آج اسلامی ممالک روبرو ہیں، اور اس  حقیقت کو بھی بالکل درک کیا جاسکتا ہے کہ ایسے ہی شرائط میں پختہ عزم و ایمان ، توکل ، بصیرت اور تدبیر کے ذریعہ مسلمان قوموں کو ان چيلنجوں کے مقابلے میں کامیابی اور سرافرازی سے ہمکنار کیاجاسکتا ہے اور ان کی تقدیر میں عزت و عظمت کو رقم کیا جاسکتا ہے، دشمن محاذ جو امت اسلامیہ کی عزت و بیداری کو برداشت نہیں کرسکتا وہ اپنی تمام قوت و قدرت کے ساتھ میدان میں پہنچ چکاہے اور وہ تمام سیاسی، اقتصادی، نفسیاتی، فوجی اور تبلیغاتی وسائل کے ذریعہ مسلمانوں کو کچلنے، منفعل کرنے اور انھیں آپس میں لڑانے کے لئے استفادہ کررہا ہے ۔

اگر ہم مغربی ایشائی ممالک پاکستان، افغانستان سے لیکر شام و عراق و فلسطین اور خلیج فارس کے ممالک نیز شمال افریقہ کے ممالک لیبیا ومصر و تیونس سے لیکر سوڈان تک اور بعض دیگر ممالک کے حالات کا جائزہ لیں تو بہت سے حقائق واضح اور روشن ہوجائیں گے۔داخلی جنگیں، مذہبی و دینی اندھے تعصبات،سیاسی عدم استحکام،وحشیانہ و بھیانک دہشت گردی کا رواج، انتہا پسند اور شدت  گروپوں کا ظہور جو تاریخ کی وحشی قوموں کی طرح انسانوں کے سینے چاک کرتے اور ان کے دلوں کو دانتوں سے پھاڑتے ہیں؛ ایسے مسلح انتہا پسند جو بچوں اور عورتوں کو قتل کرتے ہیں؛ مردوں کے سر قلم کرتے ہیں اور نوامیس و خواتین کو زیادتی اور تجاوز کا نشانہ بناتے ہیں اور حتی بعض موارد میں ان برے اور متنفر اعمال کو دین اور اسلام کے نام سے انجام دیتے ہیں، یہ سب کے سب شیطانی نقشے اور سازشیں ہیں جو اغیار و سامراج کی خفیہ ایجنسیاں اور علاقہ میں ان کا تعاون و ہمراہی کرنے والے حکومتی عناصر انجام دیتے ہیں اور ایسی کارروائیوں کو ان ممالک میں انجام دیتے ہیں جہاں ایسی کارروائیوں کے لئے ماحول سازگار ہوتا ہے وہاں کے عوام پر روزگار کو سیاہ بنادیتے ہیں اور ان کی خوشی کو بدبختی اور شیرینی کو تلخی سے  بدل دیتے ہیں یقینی طور پر ایسے حالات و شرائط میں یہ توقع اور امید نہیں رکھی جاسکتی کہ مسلم ممالک اپنی معنوی اور مادی خامیوں کی ترمیم کرسکیں اور بین الاقوامی اقتدار، علمی ترقی و پیشرفت اور معاشی فلاح و بہبود حاصل کرسکیں جو بیداری و تشخص کے برکات کا مظہر ہیں۔

یہ دشوار اور سخت حالات و شرائط، عالم اسلام میں رونما ہونے والی روحی آمادگی اور اسلامی بیداری کو عقیم اور غیر مؤثر اور ضائع و برباد کرسکتے ہیں اور ایک بار پھر مسلمان قوموں کو کئی برسوں تک الگ تھلگ اور انحطاط کا شکار بنا سکتے ہیں اور مسئلہ فلسطین جیسےعالم اسلام کے اساسی و بنیادی مسائل اور مسلمان قوموں کی امریکہ اور صہیونزم سےنجات حاصل کرنےکےمسائل کو فراموش کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس مشکل کا بنیادی اور اساسی علاج دو کلیدی جملوں میں موجود ہے جو حج کے آشکارا دروس میں شامل ہیں۔

اول: پرچم توحید کے سائے میں مسلمانوں کے درمیان برادری اور اتحاد

دوم: دشمن کی شناخت اور اس کی سازشوں اور منصوبوں کا مقابلہ

اخوت و برادری کا استحکام اور ہمدلی و ہمدردی حج کا عظیم درس ہے،یہاں حتی دوسروں کے ساتھ سخت روئی اور جدال ممنوع ہے یہاں یکساں لباس،یکساں اعمال، یکساں حرکات اور مہربانہ رفتار ان تمام افراد کے لئے برابری اور برادری کے معنی میں ہے جو توحید پر اعتقاد اور ایمان رکھتے ہیں اور اس طرح اسلام نے صریح طور پر ہر اس فکر و عقیدہ اور دعوت کو رد کردیا ہے جو توحید اور کعبہ پر اعتقاد و ایمان رکھنے والے مسلمانوں کے گروہ کو اسلام سے خارج سمجھتے ہوں۔

تکفیری عناصر جو آج صہیوینوں اور ان کے مغربی حامیوں کی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور وحشیانہ ، خوفناک  اور بھیانک جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں اور جو لوگ دینداری اور علماء کے لباس میں شیعہ و سنی اختلافات کو شعلہ ور کرتے ہیں  و ہ جان لیں کہ خود حج کے اعمال اور مناسک ان کے غلط دعوی پر خط بطلان کھینچ رہے ہیں۔

ایسے لوگوں پر تعجب ہے جو مشرکین سے برائت کی تقریب کو ممنوع جدال تصور کرتے ہیں جبکہ مشرکین سے برائت کی رسم کی جڑیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل میں نمایاں ہے۔ حالانکہ یہی لوگ مسلمانوں کے درمیان خونریز تصادم ایجاد کرنے میں مؤثر کردار ادا کررہےہیں۔

میں ، عالم اسلام کے بہت سے علماء اور امت اسلامیہ کے بہت سے دلسوز افراد کی طرح اعلان کرتا ہوں کہ ہر ایسی بات اور عمل جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ کو شعلہ ور کرنے نیز اسلامی مذاہب میں سے کسی ایک مذہب اور مسلمان گروہوں میں سے کسی ایک کے مقدسات کی توہین یا تکفیر کرنے کا باعث ہو تو یہ عمل ، خیمہ کفر و شرک کی خدمت اور اسلام کے ساتھ خيانت اور شرعی طور پر حرام ہے۔

دشمن اور اس کی سازشوں کی شناخت، دوسرا رکن ہے، سب سے پہلے، ہمیں کینہ پرور دشمن کے وجود کے بارے میں غفلت اور سستی نہیں کرنی چآہیے اور نہ ہی اسے فراموش کرنا چاہیے، حج میں رمی جمرات کی کئي بار تکرار  درحقیقت دشمن کو ذھن نشین رکھنے کی ایک دائمی علامت ہے، دوسرے، اصلی دشمن کی شناخت میں غلطی اور اشتباہ نہیں کرنا چاہیےجو آج عالمی سامراجی محاذ اور صہیونی نیٹ ورک پر مشتمل ہے، تیسرے، معاند دشمن کی روشوں اور سازشوں کو اچھی طرح پہچاننا چاہیے دشمن کی سازشوں میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنا، سیاسی اور اخلاقی فساد کی ترویج کرنا، ممتاز شخصیات کو لالچ دینا اور ڈرانا، قوموں پر اقتصادی دباؤ قائم کرنااور اسلامی اعتقادات میں شک و تردید پیدا کرنا شامل ہے اسی طرح ان کے دانستہ اور غیر دانستہ نوکروں اور حامیوں کو پہچاننا بھی بہت ضروری ہے۔

سامراجی حکومتیں جن میں امریکی حکومت سرفہرست ہے وہ پیشرفتہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اپنے اصلی اور حقیقی چہرے کو پوشیدہ رکھتی ہیں اور انسانی حقوق اور جمہوریت کے دعوے کے ساتھ قوموں کے سامنے مکر و فریب پر مشتمل رفتار اختیار کرتی ہیں، جبکہ مسلمان قومیں ہر روز ان کے فتنوں کی آگ کو اپنے جسم و جاں کے ذریعہ لمس کررہی ہیں۔ فلسطین کی مظلوم قوم پر ایک نظر دوڑانے سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ دسیوں سال سے غاصب صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں کی طرف سے لگائے جانے والے زخموں سے  چور چور ہے،یا پاکستان و افغانستان کے ہولناک حوادث سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی سامراجی طاقتوں اور ان کے علاقائی پٹھوؤں کی پیداوار ہے جس نے علاقائي مسلمانوں اور قوموں کی زندگی کو سخت و تلخ بنا کر رکھ دیا ہے۔یا شام کے حالات کو ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کا اسےصہیونیوں کے مخالفت اور اسلامی مقاومت کی حمایت کی بنا پر بین الاقوامی تسلط پسند دشمنوں اور ان کے علاقائي غلاموں نے اپنے وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے اور اسے داخلی جنگ میں گرفتار کردیا ہے۔یا بحرین اور میانمار کے مسلمانوں کو دیکھئے کہ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں غفلت کا مظآہرہ کیا جارہا ہے اور ان کے دشمنوں کی حمایت کی جارہی ہےیا ان قوموں کو ملاحظہ کیجئے جنھیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے مسلسل و پیہم فوجی حملے ، اقتصادی پابندیوں اور بد امنی کے سلسلے میں دھمکیاں دی جاتی ہیں اسطرح تسلط پسند نظام کے سربراہوں کا اصلی چہرہ سب کو دکھایا جاسکتا ہے۔

عالم اسلام کے دانشوروں اور دینی و مذہبی و ثقافتی اور سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ ان حقائق کو فاش کریں یہ ہم سب کا اخلاقی ، دینی اور مذہبی فریضہ ہے۔شمال افریقہ کے ممالک جو آج شدید داخلی اور اندرونی اختلافات کا شکار ہیں ان کو اپنی اس ذمہ داری پر دوسروں کی نسبت زيادہ عمل کرنا چاہیے یعنی انھیں دشمن کی شناخت اور اس کی سازشوں پر زيادہ سے زيادہ توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ان ممالک میں داخلی جنگ اور قومی گروہوں کے درمیان اختلافات بہت بڑا خطرہ ہیں اور امت اسلامی کے لئے ان خطرات کے نقصانات کا جبران اور تلافی کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

البتہ ہمیں اس کوئي شک و تردید نہیں ہےکہ اس علاقہ کی قومیں جنھوں نے اسلامی بیداری کے سلسلے میں اہم نقش ایفا کیا اور وہ پائداری و استقامت کا مظہر بنی ہوئي ہیں وہ باذن اللہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گی کہ وقت کی سوئیاں پیچھے کی طرف پلٹ جائیں اور فاسد و فاسق ڈکٹیٹروں کا دور دوبارہ شروع ہوجائے لیکن سامراجی طاقتوں کے نقش اور فتنہ کے بارے میں ان کی غفلت سے کام سخت اور دشوار ہوجائےگا اور عزت و عظمت اور امن و امان اور فلاح و بہبود کا دور کئی برس پیچھے چلا جائےگاہمیں اللہ تعالی کی طاقت و قدرت اور قوموں میں موجود ایمان، بصیرت اور پختہ عزم پر مکمل طور پر گہرا یقین ہے اور ان کو اسلامی جمہوریہ ایران میں تین عشروں سے زائد عرصہ سے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ اور تجربہ کررہے ہیں، ہم تمام مسلمان قوموں کو اس سرافراز و سربلند ملک میں اپنے شجاع بھائیوں کے تجربات سے استفادہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔

میں اللہ تعالی سے مسلمانوں کی عزت و صلاح اور دشمنوں کے مکر و فریب کو دور کرنے کی دعا کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے بیت اللہ الحرام کے آپ تمام حاجیوں کے حج کی مقبولیت، جسم و جاں کی سلامتی اور سرشار معنویت کا ذخیرہ  طلب کرتا ہوں ۔

والسلام عليكم و رحمة الله
سيّد علي خامنه‌اي
پنجم ذي‌الحجه 1434 مطابق با 19 مهرماه 1392