ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا دار الحدیث ادارے اور قرآن و حدیث تحقیقی مرکز کے اہلکاروں سے خطاب

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (امام مہدی ارواحنا فداہ ) کی ولادت با سعادت کے پر فیض و برکت  ایام ہیں، شعبان کا مبارک مہینہ اس عظیم و بابرکت ہستی کی ولادت سے مزين اور متبرک ہے، ہم اس عظیم مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ آپ کو اور  ہم کو حضرت ولی عصر امام زمانہ علیہ السلام کے پیروکاروں میں قرار دے اور آپ کے شیعوں میں ہمارا شمار فرمائے۔ ہم جناب ری شہری اور ان کا تعاون کرنے والے عزیز و محترم ساتھیوں (1)کا شکریہ ادا کرتے ہیں انھوں نے اس عید کی مناسبت سے اسلامی دنیا اور علمی سماج کو گراں اور عظیم قدر تحفہ دیا ہے۔ یعنی یہی مہدویت دانشنامہ اور انسائیکلوپیڈیا (2) جو ان خصوصیات سے آراستہ ہے جن کا ذکر کیا گيا اور واقعی یہ بڑی اہم خصوصیات ہیں۔ میرے خیال میں کل یا پرسوں کتاب مجھے دی گئی اور مجھے اس کی ورق گردانی اور مطالعہ کا تھوڑا سا وقت ملا اور یہ کتاب  مجھے بڑی اہم اور دلچسپ لگی۔ ان شاء اللہ میں اس کا شروع سے لیکر  آخر تک مطالعہ کرنے کے لئےوقت نکالوں گا اور اس کتاب کا مطالعہ کروں گا۔ بہرحال یہ کام بہت بڑا اور اہم کام ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ذہن ایک ضرورت اور نیاز کی طرف متوجہ ہو اور اس ضرورت اور نیاز کو دور کرنے کے لئے کمر ہمت باندھ لے احتیاج اور خلا کی نشاندہی کرے اور اس خلا کو پر کرنے اور نیاز و ضرورت کی تکمیل کے لئے کمر ہمت باندھ لی جائے۔ یہ سب کام انجام پذیر ہوا ہے، فطری بات ہے کہ ہم انسانوں کا انجام دیا ہوا کوئی بھی کام نقص و  عیب پوری طرح خالی نہیں ہوتا۔ یہ بہت زیادہ اہم بھی نہیں ہے کہ کتاب پوری طرح کامل ہے یا جامع ہے، کوئی کمی ہے یا نہیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج یہ کتاب موجود ہے، اس کی ضرورت کا احساس کیا گیا اور پھر اس کی تدوین کی ذمہ داری پوری کی گئی، بحمد اللہ کتاب معرض وجود میں آ گئی ہے۔ میں جناب ری شہری اور ان کا تعاون کرنے والے ساتھیوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ایک  جملہ ان بابرکت ایام کے متعلق اور حضرت بقیۃ اللہ امام زمانہ (ارواحنا فداہ ) کے وجود مقدس کے سلسلے میں عرض کرنا ہے اور ایک جملہ آپ کے اس قرآنی اور تحقیقاتی مرکز یا دار الحدیث کے بارے میں بعد میں پیش کروں گا۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے متعلق آپ کی کوششیں اور کاوشیں قابل قدر اور قابل تعریف ہیں، آپ نے محنت کے ساتھ اس موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ یہ اہم نکتہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدہ، ادیان کے نظریات اور آئيڈیالوجی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یعنی ادیان الہیہ ،کائنات، انسان، خلقت اور حیات انسانی کے بارے میں اپنا ایک نظریہ اور عقیدہ رکھتے ہیں،  یعنی ازل و قیامت کے بارے میں ادیان الہیہ ایک اپنا عقیدہ اور نظریہ ہے اور اسی نظریہ پر ادیان کےتمام قوانین و ضوابط، احکامات و افکار اور نظریات کی بنیاد ہے، ایک مسئلہ اس دنیا میں انسان کی زندگی کے سفر کے اختتام کا مسئلہ ہے۔ اس دوسری دنیا کا مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہے، بالکل الگ دنیا کا معاملہ ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ (اسی دنیا میں) انسانیت کہاں جا رہی ہے۔ اگر ہم طول تاریخ میں انسانی معاشرے کی مثال ایسے کارواں سے دیں جو اپنے راستے پر رواں دواں ہے، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کارواں کی منزل کہاں ہے؟ یہ کارواں کہاں جا رہا ہے؟ کس مقام پر اس کارواں کا سفر ختم ہونے والا ہے؟ یہ بڑا اہم اور کلیدی سوال ہے۔ ہر مکتب فکر اور آئيڈیالوجی میں اس سوال کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ ادیان آسمانی نے اس سوال کا جواب دیا ہے، تاہم غیر دینی مکاتب فکر کی طرف سے اس بارے میں جو جوابات دیئے گئے ہیں وہ یکساں نہیں ہیں، جبکہ ادیان الہیہ نے اس بارے میں جو جواب پیش کئے ہیں ان میں آپس میں مماثلت پائی جاتی ہے، جواب واضح اور طے شدہ معلوم پڑتا ہے۔ جہاں تک ہمیں، ادیان الہیہ کے بارے یا ان ادیان کے بارے میں اطلاعات ہیں، جو آسمانی ادیان سے ماخوذ ہیں چاہے وہ آسمانی ادیان کے دائرے میں نہ آتے ہوں لیکن بالکل واضح ہے کہ انہوں نے اپنے ضوابط و احکامات ادیان الہیہ سے اخذ کئے ہیں، یہ سارے ادیان یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ کارواں سرانجام ایک پسندیدہ، دلنشیں اور اچھی منزل پر پہنچے گا۔ اس منزل کی بنیادی خصوصیت انصاف ہے۔ انصاف ابتدا  سے لیکر آج تک انسان کا سب سے اہم اور بڑا مطالبہ رہا ہے۔ جو افراد اصولی نظریات اور بنیادی عقائد میں تنوع اور تبدیلی وغیرہ کے قائل ہیں، وہ بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ روز اول سے لیکر اب تک انسان کے کچھ بنیادی مطالبات رہے ہیں جن میں ایک اساسی اور کلیدی مطالبہ انصاف اور مساوات کا ہے۔ انسان انصاف کی تلاش میں ہے اور کبھی اپنے اس مطالبہ سے اس نے صرف نظر نہیں کیا ہے۔ سرانجام یہ مطالبہ پورا ہوگا۔ ہمارے یہاں احادیث میں آیا ہے؛«یَملَأُ الله بِهِ الاَرضَ قِسطاً وَ عَدلاً کَما مُلِئَت ظُلماً و جَورا» (
۳) بیشتر کتب میں «کَما مُلِئَت» ہے جبکہ بعض کتب احادیث میں: «بَعدَ ما مُلِئَت»ہے، یہ تمام ادیان کا جواب ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر انسان جانتا ہے کہ بشریت کا یہ کارواں سرانجام کہاں پہنچنے والا ہے۔ اگر ہم مثال دینا چاہیں تو یہ کہنا چاہیے کہ ایک مسافر اور ایک کارواں دشوار گزار مراحل ، نشیب  وفراز اور پیچ و خم سے، بڑی سخت گزرگاہوں سے، پہاڑوں سے، وادیوں سے، دروں سے، دلدل سے، کانٹوں سے بھری کھائیوں سے گزرتا ہے،اور لگاتار آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے، راستہ طے کرتا جا رہا ہے تاکہ خود کو ایک مقام پر پہنچا دے۔ وہ مقام کیا ہے؟ وہ مقام ایک شاہراہ ہے ، ایک اہم شاہراہ اور کھلا ہوا ہموار راستہ ہے۔ پوری تاریخ بشر میں تاحال ہمیں یہی کوہستانی علاقوں، نشیب و فراز، کانٹوں کی وادیوں، دلدلوں وغیرہ کا سفر ہی نظر آتا ہے۔ انسانیت اپنے اسی راستے پر رواں دواں ہے کہ خود کو کسی طرح اس شاہراہ تک پہنچا دے۔ یہ شاہراہ اور ہموار میدان در حقیقت امام زمانہ علیہ السلام کا دور حکومت ہے، یہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب ہم اس منزل پر پہنچیں گے تو ایک دم ہماری رفتار اوج پر پہنچ جائے گی اور پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہے، وہاں سے پھر نئے سفر کا آغاز ہوگا۔ در حقیقت یہ کہنا چاہیے کہ وہیں سے انسان کی اصلی زندگی اور بشر کی پسندیدہ حیات اور زندگی کا آغاز ہوگا۔ انسانیت اور بشریت ایسے راستے پر اپنے سفر کا آغاز کریگی جو صراط مستقیم ہوگا اور جو اسے پیدائش اور خلقت کے اصلی مقصد تک لے جائے گا، یہ راستہ انسانیت کو اس منزل پر پہنچائے گا، جہاں ایک ایک فرد کی بات نہیں ہے، اجتماعی صورت حال کا ذکر ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں انسانی مزاج بدل جائے گا۔ نہیں، انسانی فطرت تو اندرونی طور پر خیر و شر کے باہمی تصادم کی فطرت ہے۔ اس کے اندر عقل انسانی بھی ہے، فطرت انسانی بھی ہے، ساتھ ہی اس کی خواہشات و رجحانات بھی ہیں، انسان کی فطری خواہشات بھی اپنا کام کرتی رہتی ہیں، عقل اپنا کام انجام دیتی ہے۔ اس زمانے میں بھی یہ ٹکراؤ چلتا رہےگا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس زمانے میں انسان بالکل فرشتہ صفت بن جائے گا۔ نہیں، وہاں بھی یہ تصادم جاری رہے گا۔ ظاہر ہے کہ خیر و شر کا بھی وجود قائم رہے گا۔ لیکن زندگی کا راستہ ایسا ہوگا جو اصلاح نفس کے لئے، درست انداز میں آگے بڑھنے کے لئے، صحیح پیش قدمی اور حقیقی منزل کی جانب سفر کے لئے مددگار اور سازگار ہوگا۔ یہ خصوصیت ہے اس راستے اور شاہراہ کی اور یہی عدل و انصاف کا حقیقی مفہوم بھی ہے۔ ایسا ہونا یقینی ہے۔ اس راستے میں انسان کو جو کامیابیاں ملی ہیں وہ شک کے عادی انسان کے ذہن و دل کو یہ یقین دلانے کے لئے ہیں کہ جو وعدہ کیا گیا ہے وہ ضرور پورا ہوگا۔ جن آیتوں کی تلاوت کی گئی، میری نظر میں بڑی اہم اور دلچسپ آیتیں ہیں۔ ان آیات میں اس جگہ جہاں حضرت موسی کو پیدا ہونے کے فورا بعد، آپ کی مادر گرامی پانی میں ڈال دیتی ہیں، بڑا اہم نکتہ پوشیدہ ہے:۔ وَ اَوحَینآ اِلى‌ اُمِ‌ موسى‌ اَن اَرضِعیهِ فَاِذا خِفتِ عَلَیهِ فَاَلقیهِ فِى الیَمِّ ... اِنّا رآدّوهُ اِلَیکِ وَ جاعِلوهُ مِنَ المُرسَلین؛ (۴) یہاں دو وعدے کئے گئے ہیں۔ ایک وعدہ حضرت موسی علیہ السلام کو ان کی ماں کی آغوش میں واپس پہنچانے کا ہے اور دوسرا وعدہ ہے؛ «جاعِلوهُ مِنَ المُرسَلین»۔ یعنی وہی عمومی وعدہ جو بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا اور بنی اسرائیل جس کی بنیاد پر نجات دہندہ کے انتظار میں تھے۔ یہ نجات دہندہ اللہ کی طرف سے آنے والا تھا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے نجات دلانے والا تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت موسی (ع) کی ماں  پر وحی نازل کی تو ان سے یہ دوسرا وعدہ بھی کیا۔: جاعِلوهُ مِنَ المُرسَلین، یعنی اسے ہم اپنی طرف سے مبعوث کریں گے اور وہی رسول بنائیں گے جو اس عظیم وعدے اور عظیم تمنا کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا ہے۔ اللہ نے یہ دو وعدے کئے۔ ایک وعدہ فوری اور نقدی وعدہ تھا: «اِنّا رآدّوهُ اِلَیک» بعد کی آیتوں میں جن کی تلاوت جناب سبز علی (اجلاس کے آغاز میں تلاوت کلام پاک کرنے والے ایران کے معروف قاری قرآن) نے نہیں کی، ارشاد پروردگار ہے: فَرَدَدنهُ اِلى‌ اُمِّهِ کَى تَقَرَّ عَینُها وَ لا تَحزَنَ وَ لِتَعلَمَ اَنَّ وَعدَ الله حَقّ؛ (۵)، یہ جو ہم نے نوزائیدہ بچے کو اس کی ماں کی آغوش میں پلٹایا تو اس کا نتیجہ تھا، «تَقَرَّ عَینُها» اور «وَ لا تَحزَن»، مادر موسی کو خوشی ملی، اضطراب دور ہو گیا، دل کو قرار آگیا۔ بچے کو پلٹانے کا ایک اور نتیجہ بھی مقصود تھا۔ «وَ لِتَعلَمَ اَنَّ وَعدَ الله حَقّ» انہیں یقین ہو جائے کہ ہم نے جو وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم نجات دہندہ بھیجیں گے اور ایسے کو بھیجیں گے جو مصر میں بنی اسرائیل کو بدحالی سے باہر نکالے گا، وہ وعدہ سچا ہے، اس طرح انہیں یقین ہو جائے اور ان کا دل مطمئن ہو جائے۔ یعنی چھوٹا وعدہ اللہ تعالی کی جانب سے پورا کر دیا جاتا ہے تا کہ ہر اہل فکر انسان اس چھوٹے وعدے کی تکمیل سے یہ اطمینان حاصل کر لے کہ وہ بڑا وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ تاریخ میں انسانیت کے لئے دین کے ذریعے حاصل ہونے والی جن کامیابیوں کا ذکر ہے وہ انہی چھوٹے وعدوں کی تکمیل کا درجہ رکھتی ہیں، منجملہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل۔ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل بھی ایسے ہی وعدے کی تکمیل ہے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا تھا کہ اگر جدوجہد کروگے، اگر صبر و حوصلے کا مظاہرہ کروگے، اگر اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد اور توکل کروگے، تو ایسی جگہ سے ہم تمہیں قوت و طاقت عطا کر دیں گے کہ جہاں کے بارے میں کبھی تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہوگا۔ ایسا ہی ہوا۔ ایرانی قوم نے جہاد کیا، صبر و تحمل سے کام لیا، استقامت اور پائیداری کا مظاہرہ کیا، قربانیاں پیش کیں، جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تو وہ ہوا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا! کون سوچ سکتا تھا کہ اس اہم اور حساس علاقے میں، انتہائی اہم ملک کے اندر، دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت یافتہ شاہی حکومت کے مقابلے میں ایک انقلاب کامیاب ہو جائے گا اور ایک نئی حکومت تشکیل پا جائے گی وہ بھی دین کی بنیاد پر، فقہ کی اساس پر اور شریعت کی بنیاد پر؟ یہ بات کس کے تصور میں تھی ؟ کسی کے تصور میں نہیں تھی۔ اگر کوئی کہے کہ مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہو جائے گا تو غیبی طریقوں سے شاید اسے یہ علم ملا ہوگا ورنہ حالات اور اندازوں سے ہرگز ایسا نہیں لگتا تھا، مگر یہ ہو گیا۔ تو ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ اصلی وعدہ اور وہ عظیم وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ یہ اس عظیم تبدیلی کا ایک نمونہ تھا جو آگے چل کر رونما ہونے والی ہے۔
انتظار کرنا چاہیے۔ انسانی کارواں کے سفر کے نقطہ اختتام کے بارے میں ادیان الہیہ کا عقیدہ اور نظریہ بڑا امید افزا ہے۔ واقعی انتظار کا یہ جذبہ، حضرت امام زمانہ علیہ السلام سے رابطہ قائم کرنے کا جذبہ، حضرت کے ظہور کا انتظار اور اس دن کی آرزو میں زندگی بسر کرنا، اسلامی معاشرے کے لئے امید کا بہت اہم دریچہ ہے۔ ہم گشائش کے منتظر ہیں اور خود یہ انتظار اپنی جگہ کسی گشائش سے کم نہیں ہے، خود یہ انتظار گشائش کا دریچہ ہے، یہ اپنے آپ میں امید بخش اور حوصلہ افزا ہے۔ یہ انتظار عبث اور بے مقصد زندگی گزارنے کے احساس، بے وقعتی کے احساس، مایوسی کے احساس، مستقبل کے بارے میں گمراہی اور منزل گم کر دینے کے احساس سے نجات دلاتا ہے، امید عطا کرتا ہے، راستہ دکھاتا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کا مسئلہ ایسا ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کو حقیقی منتظرین میں قرار دے اور اس وعدہ کی تکمیل کے ذریعے ہمارے دلوں کو قرار اور آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائے۔
ان اہم کاوشوں کے سلسلے میں جو آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں نے جناب ری شہری کی قیادت میں ان برسوں کے دوران انجام دیں میں حقیقت میں ان پر آپ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں۔ بہت اچھا کام ہوا ہے، نئے انداز اور جدید نہج پر کام ہوا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ذہنوں کو خلا کی نشاندہی اور شناخت کے لئے حرکت میں لایا جائے، یہ اپنے آپ میں بڑا کارنامہ ہے۔ مشکل اور ضرورت کی شناخت ایک بڑا فن ہے۔ انسان جائزہ لے اور خلا کا احساس کر لے۔ آپ کے اس گروپ نے بحمد اللہ اس سلسلے میں بہت اچھی مثال قائم کی ہے، بڑے اہم امتحان پر پوری اتری ہے۔ خلا کی نشاندہی کرکے اسے پر کرنے کی کوشش کی ہے۔
قرآن و حدیث کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ مہدویت کے موضوع اور امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق امور، انتظار کا مسئلہ، طولانی عمر کا موضوع، آپ کی حکومت کا مسئلہ، انتظار کرنے والے افراد کے فرائض اور دیگر گوناگوں موضوعات کے سلسلے میں بہترین مرجع اور ماخذ ہے احادیث اور آئمہ علیہم السلام سے منقول احادیث اور ارشادات ہیں جن سے ہر شک و شبہ دور ہو جاتا ہے، یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ جیسا کہ جناب ری شہری نے اشارہ کیا، میں بھی یہی نظریہ رکھتا ہوں کہ عقلی دلائل کو تائید اور تصدیق کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، فیصلہ کن اور حتمی دلیل تو روایات و احادیث اور قرآنی آیات ہی ہیں اور انہیں پر تکیہ کرنا چاہیے، انہیں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ البتہ ضروری ہے کہ تنقیح (6) اور وضاحت کا عمل انجام دیا جائے۔ غیر محکم دلائل کو بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔ محکم باتوں اور دلائل کی کمی نہیں ہے، محکم اور مدلل باتیں اور محکم فکری بنیادیں اس میدان میں بحمد اللہ بڑی کثرت سے موجود ہیں جن پر تکیہ کیا جا سکتا ہے اور جنہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ سب کو کامیاب کرے۔ اس گراںقدر تحفہ پر ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں جو آپ نے اس عید کے ان مبارک ایام میں اسلامی معاشرے کو عطا کیا۔ انشاء اللہ ملک میں اہل علم افراد کی صنف اس عیدی سے اچھی طرح مستفیض اور بہرہ مند ہوگی۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱) اس تقریر سے قبل رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دار الحدیث علمی و تحقیقاتی مرکز کی علمی و تحقیقاتی کاوشوں اور کتب کی نمائش کا معائنہ کیا۔ اس موقعہ پر دار الحدیث ادارے کے سربراہ جناب آیت اللہ محمد محمدی ری شہری بھی موجود تھے۔
۲) دار الحدیث ادارے کی نمائش کے معائنے کے دوران اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف انسائيکلوپیڈیا کی رونمائی عمل میں آئی۔
۳) کتاب سلیم‌ بن ‌قیس‌هلالى، جلد ۲، صفحہ ۵۶۷
۴) سوره‌ قصص، آیت نمبر ۷
۵) سوره‌ قصص ، آیه‌ ۱۳
۶) تصحیح