ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اہم پیغام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمدللَّه ربّ العالمين و صلّى اللَّه على محمّد و آله الطّاهرين‏

اللہ تعالی کی مہمانی کا شرف حاصل کرنے اور قرآن مجید کی دعوت پر لبیک کہنے والے آپ تمام سعدتمندوں کو شوق و تکریم کے ساتھ سلام و درود پیش کرتا ہوں۔ سب سے پہلی بات اور سفارش یہ ہے کہ اس عظیم نعمت کی قدر و قیمت پہچانیئے اور اس بےمثال و بے نظیر  فریضہ کے اہداف و مقاصد سے قریب ہونے  کے لئے اس کے فردی ، سماجی روحی اور بین الاقوامی پہلوؤں پر غور و خوض کرنے کی کوشش کیجئے اور اس سلسلے میں اپنے رحیم اور قدیر میزبان سے مدد حاصل کیجئے۔میں بھی آپ کے ہمدل و ہمزـان ہو اللہ تعالی کی بارگاہ میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی نعمت کو آپ پر تمام کرے کیونکہ اس نے آّ کو حج کے سفر کی توفیق عطا کی ہے اور وہ آپ کو کامل حج ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور خداوند کریم اسے قبول کرکے آپ کو پرہاتھ اور خیر و عافیت کے ساتھ اپنے وطن روانہ فرمائے،؛ انشاء اللہ۔

حج انسان کی معنوی اور روحی تعمیر ،پاکیزگی اور طہارت  (1) کے لئے بہترین موقع ہونے کے علاوہ عالم اسلام کے اہم مسائل  پر جامع اور ہمہ گير نگاہ رکھنے کا بھی اہم موقع ہے اور امت اسلامی سے متعلق اہم موضوعات حاجیوں کے آداب اور وظائف میں سر فہرست ہیں۔

آج ان اہم مسائل اور موضوعات میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس سلسلے میں امت مسلمہ کے مختلف حصوں میں فاصلوں کو کم کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ حج اتحاد و یکجہتی کا مظہر اور اخوت و برادری کا اہم مرکز ہے۔ حج کے دوران سب کو مشترکات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق سیکھناچاہیے۔سامراجی طاقتوں کے پلید ہاتھ اپنے مفادات کے لئے اختلافات ڈالنے کی دیرینہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن آج امت مسلمہ اسلامی بیداری کی بدولت سامراجی اور صہیونی محاذ کی عداوت اور دشمنی کو اچھی طرح پہچان کر اس کے خلاف حالت قیام میں ہے لہذا سامراجی طاقتوں نے بھی اختلافات پیدا کرنے کی اپنی پالیسیوں کو مزید تیزکردیا ہے، مکاّر دشمن ،مسلمانوں کے درمیان گھریلو اور مقامی سطح پر جنگوں کو شعلہ ور کرکے مجاہدت اور مقاومت کے جذبات کو منحرف کرنے پر کمر بستہ ہے دشمن کی اس کوشش کا مقصد غاصب صہیونی حکومت کے لئے امن فراہم کرنا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی اصلی دشمن حکومت ہے۔ مغربی ایشیائي ممالک میں منحرف سلفی تکفیری دہشت گرد گروہوں کی تشکیل اسی مکارانہ اور غدارانہ پالیسی کا حصہ ہے اور یہ ہم سب کے لئے ایک انتباہ ہے کہ اتحاد اور یکجہتی کے مسئلہ  کو آج ہم اپنی بین الاقوامی اور قومی ذمہ داریوں میں قراردیں۔

دوسرا اہم موضوع مسئلہ فلسطین ہے غاصب صہیونی حکومت کی تشکیل کو 65 سال ہوگئے ہیں  اور مسئلہ فلسطین میں مختلف قسم کے اہم اور حساس نشیب و فراز گزرے بالخصوص حالیہ برسوں کے خونی حوادث و واقعات کے بعد دو حقیقتیں سب پر واضح ہو گئی ہیں پہلی حقیقت یہ کہ اسرائیل اور اس کی حامی طاقتیں قساوت اور درندگی کا مظاہرہ کرکے تمام اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کرنے کے لئےکسی حد کی قائل نہیں ہیں۔ قتل و غارت، تباہی و بربادی، بچوں ، عورتوں اور مردوں کا قتل عام  اور جو بھی ظلم و ستم ان سے ہوسکتا ہے اسے وہ اپنے لئے مباح اور جائز سمجھتے ہیں اور اس پر وہ فخر بھی کرتے ہیں۔ غزہ کی حالیہ 50 روزہ جنگ میں بےگناہ اور معصوم فلسطینی بچوں کا گریہ، صہیونیوں قساوت قلبی اور ان کے ظلم و ستم کا آخری تاریخي نمونہ ہے جو حالیہ نصف صدی میں کئی بار تکرار ہوچکا ہے۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ غاصب صہیونی حکومت اور اس کے حامی و پشتپناہ ممالک  اپنےسفاکانہ اور وحشیانہ اقدامات اور ظلم و ستم کے باوجود اپنے اہداف تک پہنچنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ غاصب صہیونی حکومت کی مضبوطی اور استحکام کے لئے اس کے حامیوں نے جو احمقانہ پالیسیاں بنا رکھی تھیں اس کے باوجود غاصب صہیونی حکومت روزبروز اضمحلال اور نابودی اور تباہی کے قریب پہنچ گئی ہے۔ غاصب صہیونی حکومت کی پوری فوجی طاقت و توانائی کے مقابلے میں غزہ کے محصور اور مظلوم فلسطینیوں کی پچاس روزہ استقامت اور سرانجام غاصب صہیونی حکومت کی اس جنگ میں شکست و ناکامی اور فلسطینیوں کے شرائط کو تسلیم کرنا ، غاصب صہیونی حکومت کی ناتوانی اور کمزوری کی واضح علامت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ فلسطینی عوام کو ہمیشہ کی نسبت زیادہ امیدوار ہونا چاہیے اور حماس و جہاد اسلامی کے مزاحمتکاروں کو اپنے عزم و ہمت میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔مغربی کنارے کو بھی طاقت اور قدرت کے ساتھ اپنے قابل فخر دائمی راستہ کو طے کرنا چاہیے اور مسلمانوں  کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں  کہ وہ فلسطینیوں کی سنجیدگی کے ساتھ حمایت کریں اور مسلمان حکومت کو فلسطینیوں کی حمایت میں سچائی کے ساتھ قدم اٹھاناچاہیے۔

تیسرا مسئلہ جو اہمیت کا حامل ہے وہ عقلمندانہ اور ہوشمندانہ نگاہ ہے  اور اس سلسلے میں عالم اسلام کے دلسوز افراد کو چاہیے کہ وہ خالص محمدی (ص) اسلام اور امریکی اسلام کے درمیان فرق کو پہچانیں اور ان دو کے بارے میں خود کو اور دوسروں کو اشتباہات میں پڑنے سے بچائیں۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی (حضرت امام خمینی (رہ) ) نے پہلی بار ان دو مقولوں کے فرق کو نمایاں کیا اور عالم اسلام کے ساسی لغت نامہ میں ان دو مقولوں کو داخل کیا۔ خالص اسلام یعنی صفا و صمیمت اور معنویت کا اسلام، پرہیزگاری اور عوامی جمہوری اسلام، اسلام «اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار رُحَماءُ بَينَهُم»(2)ہے امریکی اسلام وہ ہے جسمیں اسلام کا لباس پہن کر امریکہ اور امت مسلمہ کےدشمنوں کی خدمت کی جائے، امریکی اسلام وہ ہے جس میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو شعلہ ور کیا جائے اور اللہ تعالی کے وعدوں پر اعتماد کے بجائے اللہ تعالی کے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کیا جائے۔ اور اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ لڑائی کے بجائے مسلمان بھائيوں کے ساتھ لڑائی کی جائے۔اور امریکہ کے ساتھ ملکر اپنی قوم اور دیگروں قوموں کے خلاف متحد ہوجائے، یہ اسلام نہیں ہے بلکہ خطرناک اور مہلک نفاق ہے اور ہر سچے مسلمان کو امریکی اسلام کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

عالم اسلام کے حقائق میں بصیرت اور گہری سوچ  رکھنے والے انسان اور حق کی تلاش و جستجو کرنے والے  انسان کے لئے یہ اہم مسائل اور حقائق واضح اور روشن ہوجاتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری اور تکلیف کسی ابہام کے بغیر معین ہوجاتی ہے۔حج اور اس کے مناسک اس بصیرت کے حصول کے لئے غنیمت موقع ہیں اور امید ہے کہ آپ سعادتمند حجاج کرام ، اللہ تعالی کے اس الطاف سے مکمل طور پر فائدہ اٹھائیں گے، میں آپ سب کو اللہ تعالی کے سپرد کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کی کوششوں کے قبول ہونے کی دعا کرتا ہوں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه‏
سيّد على خامنه‏‌اى‏
پنجم ذى‏‌الحجّة 1435 مطابق  آٹھ مهرماه 1393