ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے فضائیہ کے کمانڈروں اور اراکین کی ملاقات

ایئر فورس اور ائیر ڈیفنس آرمی کے افسروں اور ملازموں سے ملاقات میں خطاب
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم(‌ )
و الحمد لله ربّ العالمین و صلّی الله علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین‌
خوش آمدید میرے محترم بھائیوں، میرے لیے یہ بات بہت ہی خوشی  کا باعث ہے کہ ہر سال ۱۹ بہمن  یعنی ۸ فروری کو اسلامی جمہوری ایران کی فضائیہ کے اراکین سے ملاقات کا ایک بہانہ ، ایک وسیلہ میسر آتا ہے۔ الحمد للہ فضائیہ کے تازہ اور  رنگ برنگے باغات میں سے فضائیہ  کا خوبصورت دستہ  ہر سال یہاں حاضر ہوتا ہے اور ہمیں اُن کے ساتھ کچھ باتیں کرنا کا موقع مل جاتا ہے۔
آج کی مناسبت بہت ہی اہم مناسبت ہے؛  چونکہ ۱۹ بہمن کو جب فضائیہ نے خود کو انقلاب کے لیے پیش کیا اور امام کی خدمت میں حاضر ہوئے – وہ بھی ایک  مثالی نمونہ تھا؛  مٹھی بھر افراد،  ایک ادارے کا گلدستہ-  حقیقت میں  ملکی اقدار بدل گئی تھیں اور لوگوں کے ذہنوں پر چھائی فضا چھٹ چکی تھی؛ پتہ چلا کہ عوام کے لئے فوجی دھمکی  کہ جو شاہی دربار سے وابستہ فوج کے اعلی حکام ، خود دربار اور  امریکی  اصرار پر تھی،   ایک فریب ہے اور اُس کی کوئی حقیقت نہیں۔  اُس دن میں خود موجود تھا اور میں نے ولولے، شوق اور لوگوں کو  قریب سے دیکھا ؛ غیر معمولی اور بہت ہی  عجیب تھا۔ اس  غیر معمولی عمل کی قدر ککی جانی چاہیے؛ اس  پر معنی اور مؤثر  تحریک کو ہماری تاریخ اور ذہنوں سے محو نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ کے اہم حادثات، تاریخ کے مؤثر حادثات محض ایک  یاد داشت نہیں ؛  حقیقت میں ایک سبق ہے، راہنمائی کرنے والا  ایک ستارہ ہے۔ اُس دن  فضائیہ کا یہ اقدام ، ایک راہنما ستارہ ہے ان تمام افراد کے لئے جو اس سسٹم سے جڑا ہوئے ہیں یا آئندہ ملحق ہوں گے۔  خدا کا شکر ہے کہ اُس حادثے کے بعد بھی  فضائیہ نے واضح کیا کہ سیدھے اور صحیح راستے پر گامزن ہے؛  اورحقیقت میں ایسا ہی ہے۔ میں نے ان گذشتہ سالوں میں اور مختلف حادثات و واقعات کے موقع پر فوج اور مسلح اداروں کو نزدیک سے دیکھا ہے ، میں پورے یقین سے گواہی دے سکتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ  نے حقیقی معنو ں میں بہترین کام انجام دیا ہے، آپریشنز میں بھی، نگہبانی میں بھی، اندرونی ساخت میں بھی اور وسائل اور آلات کی فراہمی میں بھی، کئی سالوں سے ہمیں کوئی چیز نہیں بیچی  گئی ہے یا  کوئی قابل ذکر چیز  بھی نہیں بیچی  گئی[لیکن] فضائیہ  اپنے پیروں پر کھڑی رہی اور انشاء اللہ  اس کے بعد بھی اپنے پیروں پر کھڑی رہے گی اور دن بہ دن طاقتور بھی ہوتی جائیگی۔
ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اُنیس بہمن ۱۳۵۷  کو فضائیہ کے اس عمل پر لوگوں  نے فوراً  حمایت کی۔ یہ بھی ایک سبق ہے؛ یعنی ۲۱ اور ۲۲ بہمن کی رات، جب ایئر فورس بیس کو  فوجی دھمکی کا سامنا تھا – حملہ کردیا گیا تھا؛ اُن کا ارادہ یہ تھا کہ فضائیہ کو اس بغاوت پر تنبیہ کی جائے – یہاں پر لوگ فضائیہ کی مدد کے لئے دوڑ پڑے،  دیکھیں ، فوری طور پر ردعمل دکھایا گیا ؛ یعنی کسی  فوجی سسٹم کا لوگوں کے ساتھ ہونا، لوگوں کی خدمت کرنا، لوگوں سے جڑے رہنا اُن کی حمایت کا باعث بنتا ہے؛  یعنی عوام  حمایت کرتی ہے۔ عوام کا کسی فوجی سسٹم کی پشت پناہی کرنے یا نہ کرنے سے بہت فرق پڑتا ہے؛ وہاں اُنھوں نے اس عمل کا فوراً نتیجہ دریافت کرلیا۔
میں بھلا نہیں سکتا وہ آدھی رات کا  وقت – شاید ۲۱ ویں یا ۲۲ ویں بہمن کی رات تھی اور ہم لوگ راتوں کو خیابان ایران  پر  ایک گھر  میں جاتے تھے  اور متفرق ہو کر بیتوتہ کرتے  تھے- خیابان ایران پر چند لوگوں کی آواز سنائی دی جو لوگوں کو مدد کے لیے  خیابان پیروزی کی طرف بلا رہے تھے،  شاہی گارڈز نے حملہ کردیا ہے؛ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔  یعنی فضائیہ کی مدد  کیلئے کچھ لوگ وہاں گئے تھے؛  اور کچھ لوگ راستے میں تھے شہر کے مرکزمیں- جس حصے میں، میں تھا وہ خیابان  ایران  تھی، دوسری جگہوں پر بھی حتماً گئے ہوں گے-  اور لوگوں  کوآواز دے  دے کر بلا رہے تھے کہ آؤ فضائیہ کی مدد کرو؛ لوگ بھی دوڑے  دوڑے جاتے اور اُن کی مدد کرتے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے؛ یعنی جب آپ عوام کے ساتھ ہیں، عوام آپ کی حمایت کرتی ہے اور ایسی فوج جسے عوام کی حمایت حاصل ہو، وہ دشمن سے مقابلے میں کسی قسم کے خدشات کا شکار نہیں ہوتی۔
الحمد للہ آج کی فضائیہ اُس وقت کی فضائیہ اور انقلاب سے پہلے کی فضائیہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ نہ کہیں کہ انقلاب سے پہلے فضائیہ کے پاس نئے اور فلاں ساخت کے ہوائی جہاز تھے، آج ہمارے پاس ویسے ہوائی جہاز نہیں ہیں۔ جی ہاں، صحیح ہے کہ اُس وقت کی فضائیہ زرق و برق میں دوبی ہوئی تھی لیکن  کھوکھلی تھی؛ ممکن ہے آج ویسی زرق و برق نہ رکھتی ہو لیکن  آج قدرتمند ہے، مستحکم ہے،  اپنی اندرونی طاقت پر  استوارہے؛ آج آپ لوگ خود پر انحصار کرتے ہیں۔ فضائیہ کے محترم کمانڈر کی  رپورٹ میں آپ نے سنا کہ قطعات خود بنا رہے ہیں، آلات آپ خود بنا رہے ہیں، سہولیات آپ خود فراہم کرتے ہیں، کوئی بھی کام ہو  آپ اپنی تدبیر سے انجام دیتے ہیں؛ اُس وقت ایسا نہیں تھا۔ جی ہاں، اُس وقت بغیر حساب  کتاب کے پیسے لیتے تھے – کہ آج کل حکومتی عہدیداروں نے اُن وقتوں میں لئے گئے بے حساب کتاب رقومات کی جانچ پڑتال کی ہے –  اس کے بدلے میں جس قیمت پر بھی چاہتے تھے، مختلف آلات فضائیہ کے حوالے کرتے  تھے۔ البتہ انقلاب کے بعد بھی کچھ لوگ چاہ رہے تھے  F14 جسے کچھ وقت پہلے خریدا گیا تھا، اُسے بھی چاہتے تھے کہ واپس کردیں تاکہ یہ ہتھیار بھی باقی نہ بچے کہ خدا کے لطف و ارادے سے  ہم نے ایسا نہیں ہونے دیا ۔  آج فضائیہ خلاقیت کی حامل ہے، طاقت کی حامل ہے،  اس کی صلاحیت کا اُس وقت سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا؛  اور اسے روز بروز قوی تر ہونا چاہیے۔
 جب کسی قوم کو دشمن کی دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے، تو حکومت کا سر فہرست وظیفہ اس قوم کی امنیت کی حفاظت ہے۔ حکومت کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ ملک  اور عوام  کی حفاظت کرے۔ اس امنیت کی مختلف طریقوں سے حفاظت ہوتی ہے؛  اُن میں سے ایک طریقہ فوجی کے زریعے اور اسے تقویت پہچانے کے زریعےہے۔  آج آپ کے پاس ہر وہ وسیلہ ہونا چاہیے جو امنیت کو پائیدار کرسکے اور اُس کی ضمانت لے سکے؛ اُن میں سے بعض کو بنائیں گے، بعض کو خریدیں گے، بعض کو سنبھال کے رکھیں گے۔ فضائیہ کو دن بہ دن ترقی کرنی چاہیے؛  یعنی کسی حد  پر بھی قانع نہ ہوں۔
اس نظام اور لوگوں کے اس عظیم  اجتماع سےاپنے رابطہ کو – جیسا کہ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ۳۷ سالوں بعد بھی نظام اور انقلاب کی اسی طرح حمایت کر رہے ہیں- جتنا زیادہ مستحکم کریں گے لوگ مطمئن رہتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ  فوجی ادارے اُن کے ساتھ، اُن کے شانہ بشانہ، اُن کی پیشقدم اور اُن کی محافظ ہے۔ فوجی ادارے بھی مطمئن رہتے ہیں کہ لوگ اُن کے نقش قدم پر چل رہے ہیں  اور اُن کے حامی ہیں؛ یہ چند باتیں [فضائیہ کے بارے میں]
ہماری دو عیدیں نزدیک ہیں؛ ایک عید انقلاب جو ۲۲ بہمن والے دن ہے  اور تین دن بعد ہے؛ دوسری عید انتخابات؛ حقیقت میں انتخابات بھی عید ہے۔ ہمیں ان دو عیدوں کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ دونوں عیدیں ہمارے لئے پر معنی  اور  اہم مضمون کی حامل عیدیں ہیں۔ پہلی عید کے بارے میں  جو انقلاب کی عید ہے – ۲۲ بہمن کا دن- حقیقت میں ان ۳۷ سالوں میں ہماری قوم نے اس روز کو حقیقی عید کے طور پر منایا ہے۔ عید یعنی ایسی مناسبت جسے ہر سال دہرایا جائے؛ "عید" کی اصل  "عود" سے ہے؛  یعنی ہم ہر سال کسی دن کو کسی مناسبت سے تکرار کرتے ہیں؛ خوشحالی کی تکرار؛  ۲۲ بہمن والے دن اس خوشحالی کی تکرار جسے انقلاب کی کامیابی نے مشخص کیا ہے، ہر سال طاقت اور قدرت کے ساتھ مسلسل منائی جاتی  رہی ہے۔ یہ ایران اور پوری دنیا میں  بے نظیر ہے؛ یعنی ہمارے سامنے ایسے بھی ممالک ہیں جن میں انقلاب آیا [لیکن]  اتنے لوگوں کا انقلاب کی سالگرہ میں شرکت کرنا   اورملکی سطح پر اتنا عظیم  مجمع ، ایسا دنیا میں کہیں نہیں۔ یہ بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، ایک حقیقت ہے، ایک انفارمیشن ہے؛  فرض و گمان نہیں ہے؛  یہ حقیقت ہے۔ انقلابی ممالک میں انقلاب کی سالگرہ منائی جاتی ہے؛ وہاں پر چند لوگ ایوان کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں،  چند لوگ اُن کے سامنے پریڈ کرتے ہیں؛ یہ ہوجاتی ہے انقلاب کی سالگرہ؛  لوگ بھی اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ یہاں بنیادی طور پر انقلاب کی سالگرہ لوگوں کے  زریعے،عوام کے ذریعے منائی جاتی ہے اور اسکی نگہداری کی جاتی ہے، اس کی قدر کی جاتی ہے۔  لوگ سخت سردی ، مشکلات،  برفانی ہوا، بارش، برفباری  نیز ہر مشکل و پریشانی کے باوجود باہرنکلتے ہیں اور اپنے وجود کا  اظہار کرتے ہیں؛ لوگوں کا حاضر ہونا۔ یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اس سال ۲۲ بہمن کو شرکت کرنے والوں میں سے شاید آدھے ایسے ہوں جنہوں نے اصلاً ۲۲ بہمن [۵۷] کو دیکھا ہی نہیں ، اُن کی عمر اتنی نہیں ہے؛ ۲۲ بہمن [۵۷] کے بعد کی نسل ہیں لیکن شرکت کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ انقلاب کی تخلیق ہے؛ کیونکہ ہمارا انقلاب گولی ، توپ اور اس طرح کی چیزوں کا نہیں تھا،  لوگ سڑکوں پر اپنے  پورے وجود کے ساتھ حاضرتھے؛ لوگ نہ صرف اپنی مرضی، نہ [صرف] اپنے ارادے، نہ [صرف] احساسات بلکہ اپنے وجود کے ساتھ میدان میں آئے۔ سخت بھی تھا؛ اُن کے مقابلے میں فائرنگ تھی، قتل و غارت گری تھی، اُن کے مقابلے میں مختلف طرح کے خطرات تھے؛  لیکن انہوں نے ان تمام خطرات کو برداشت کیا اور سڑکوں پر آئے۔ اس قوی اور محکم  ارادے کے تسلسل نے پہلوی سے وابستہ بے  اساس اور بوسیدہ نظام  کی جڑوں کو اکھاڑ دیا؛ یعنی ارادے ، عزم، محبت اور پشت پناہی کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور میدان میں لوگوں کا جسمانی وجود؛ [یہ سب] شرکت کی علامت ہے۔ اس شرکت کو لوگوں نے ۳۷ سالوں سے حفظ کیا ہوا ہے، اس سال بھی دیکھا جائے گا کہ خدا کے فضل و کرم سے لوگوں کا متاثر ہ ہجوم اور دشمن شکن ہجوم سڑکوں پر ہوگا۔
اس یاد داشت کو پرانا نہیں ہونا چاہیے؛ اس عظیم حادثے کو غفلت اور فراموشی کی نظر نہ ہونے دیا جائے؛ انقلاب زندہ ہے اور ہم نے انقلاب  کا آدھا راستہ طے کیا ہے۔ میرے عزیزو! توجہ کریں کہ انقلاب اچانک رونما ہونے والا حادثہ نہیں ہے؛  انقلاب ایک تبدیلی ہے؛  یہ تبدیلی تدریجاً انجام پذیر ہوگی۔ جی ہاں، شروع میں انقلابی اقدام ضروری ہے،  انقلابی سسٹم کی تشکیل ضروری ہے لیکن جب تک یہ انقلاب اپنی بنیادوں کو مضبوط کرے اور اپنے اہداف کو عملی جامہ پہنائے، کام تدریجی طور پر آگے بڑھے گا، وقت کا  گزرنا ضروری ہے۔  اگر ایسا ہو کہ ہدف ذہنوں سے نکل جائے،  اُس حادثہ کو بھلا دیا جائے،  تو پھر ایسا ہوگا کہ جیسا بظاہر بہت سے انقلابی ممالک میں دیکھا گیا؛ بعض انقلابات شروع ہی میں دب گئے – مثلاً ان ہی کی طرح جو ہمارے زمانے میں، جو انہی چند آخری سالوں میں رونما ہوئے  اور واقعاًٍ ابتداء میں ہی ختم ہوگئے – بعض ایسے انقلاب بھی ہیں جنہیں جوانی میں موت آگئی۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے؛  اس کی وجہ بیان شدہ اہداف سے منحرف ہونا ہے۔  اُن اہداف کو باقی رہنا چاہیے؛  اجتماعی عدالت کا ہدف، اسلامی زندگی کا حقیقی معنوں میں تحقیق پیدا کرنے کا ہدف – جیسا کہ دنیاوی اور اُخروی عزت اسلامی زندگی میں ہے – ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کا ہدف کہ جس معاشرے میں علم بھی ہے، عدل بھی ہے، اخلاق بھی ہے، عزت بھی ہے، ترقی بھی ہے، ہدف یہ ساری چیزیں ہیں؛ ہم ابھی ان اہداف تک نہیں پہنچے ہیں اور ہم نے ابھی ان اہداف کے آدھے راستوں کو طے کیا ہے۔
انقلاب کے واقعےاور حقیقت کو ہمارے ذہنوں اور دلوں میں ہمیشہ زندہ  اورباقی رہنا چاہیے؛  دشمن کے محاذ نے اتفاقاً اسی چیز پر تکیہ کیا ہوا ہے۔ یہ جو آپ بیرونی خبروں میں دیکھتے ہیں کہ امریکا کے فلاں سیاستدان نے کہا ہے کہ ہم اسلامی جمہوری  نظام   کی حکومت کو نہیں بدلنا چاہتے [بلکہ] ہم اُن کے رویوں کو بدلنا چاہتے ہیں – بالآخر کہتے ہیں؛ سنا ہوگا- رویوں کی تبدیلی یعنی یہی چیز؛ یعنی ابھی تک نظام جمہوری اسلامی کا رویہ انقلابی تھا، انقلاب کی خدمت میں تھا، چاہتے ہیں اس کو تبدیل کردیں۔ میں نے اپنے سیاست دانوں سے بھی کہا ہے جو چند ماہ پہلے یہیں موجود تھے(‌ )  کہ انہیں اسلامی جمہوریہ کے نام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے؛  یہاں تک کہ اس بات سے بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ جمہوری اسلامی کی باگ ڈور  سر پر عمامہ رکھنے والے کے ہاتح میں ہو؛ اگر اسلامی جمہوریہ اپنی اصل کو کھو دے، اسلامی ہونے اور انقلابی ہونے کو ہاتھ سے جانے دے، یہ لوگ اُس سے میل ملاپ کرلیں گے۔  اُنہیں جس چیز سے دشمنی ہے وہ اسلامی جمہوریہ کا اصل محتوا ہے؛ دشمن کا محاذ اس طرح کا ہے۔ اُن کی پوری کوشش یہی ہے کہ  اسلامی جمہوریہ کی الٰہی اور اسلامی اہداف کی طرف حرکت، عزت اور قدرت کی طرف بڑھنے کے ہدف کو ختم کردیں؛ اس چیز کے درپے ہیں کہ دوبارہ اس ملک پر اپنا غلبہ حاصل کرلیں۔
ہم نے کئی سال دشمن کے زیر تسلط گزارے ہیں؛ ہر زمانے میں ایک طرح سے؛ قاچار کے زمانے میں ایک طرح سے، پہلوی کے زمانے میں دوسری طرح سے۔ قاچاریوں کے دور میں دو رقیبوں کے زیر تسلط تھے؛  برطانیہ اور اُس وقت کا روس؛  اُس وقت تک سوویت یونین بھی  نہیں تھی۔ یہ ایک امتیاز لیتا،  وہ آتا اور کہتا تم نے انہیں امتیاز دیا ہے ہمیں بھی دو؛ وہ بھی ایک امتیاز [لے لیتا]۔ دو طاقتوں کے درمیان، ملک میں امتیازات لینے کا ایک مقابلہ جاری تھا؛ ملک کے ان نا اہل حکمرانوں نے قوم کو اور قوم کے اہداف کو بھی ان پر قربان کردیا تھا۔ اان دنوں ایران کی آبادی ڈیڑھ دو  کڑوڑ سے زیادہ نہیں تھی۔  ملت ایران کی تمام چیزوں کو قربان کر دیا تھا۔ اُن کے زمانے میں اس طرح، پہلوی کے زمانے میں دوسری صورت میں جو کہ البتہ بدترین صورت تھی؛ یعنی اُن کے اہداف  کی تکمیل میں لگے ہوئے تھے اور اُن کے لئے ملک  کو مکمل طور پر آزاد  کر رکھا تھا۔ [کیونکہ] ایرانی اور اسلامی ثقافت قوم کو جدوجہد کے لئے  بیدار کرسکتی تھی،  اس  لئے اس ثقافت کو ہی بدل  دیا۔  وہ جوش و ولولہ جس کی وجہ سے تنباکو والے مسئلہ میں بیرونی کمپنی نے منہ کی کھائی، وہ انگیزہ جو مشروطیت والے مسئلے میں لوگوں کو میدان  میں لانے میں کامیاب ہوسکا، پہلوی زمانے میں کوشش کی گئی کہ اس انگیزہ اور جوش و ولولے کو ختم کردیا جائے؛ اُن کی کوشش یہی تھی۔ رضا خان اور محمد رضا بھی اُن کے نوکر تھے، وہ جو چاہتے یہ انجام دیتے۔ البتہ یہ لوگ خود بھی اعتقاد نہیں رکھتے تھے اور بے اعتقاد تھے لیکن انھوں جو بھی دستور صادر کیا انھوں نے انجام دیا۔ چند سالوں تک ملک کی حالت یہی رہی۔
یہ ملک اسلامی روح کی وجہ سے، ایرانی صلاحیتوں کی وجہ سے، ایرانی معاشرے کے امتیازات اور خصوصیات کی وجہ سے جیسا کہ ہمارے ہمسائے اور دنیا میں موجود معاشروں میں یہ امتیازات اور خصوصیات نہیں پائی جاتی اور عظیم امام کی طرح ایک غیر معمولی رہبر کے ظاہر ہونے کی وجہ سے، خود کو ان دباؤ اور سختیوں سے نکالنے ، اپنے قدموں پر کھڑے ہونے، اپنی بات کہنے ، اپنا کام انجام دینے، اپنی حرکت کو جاری رکھنے میں کامیاب ہوسکا۔ وہ چاہتے ہیں اس کو ختم کردیں؛ آج کل دشمن ان مورچوں پر کام کر رہا ہے۔
صحیح ہے کہ آج کل دشمن  کی زبان پر سخت جنگ کا شورو غوغا بھی  ہے- ممکن بھی ہے؛ اگرچہ ہم بعید سمجھتے ہیں لیکن محال نہیں سمجھتے -  لیکن جو چیز ابھی  ایجنڈے کے طور پر ہے وہ سافٹ وار ہے۔ سافٹ وار کا مقصد یہ ہے کہ  ایک ملک سے پورے اقتدار  کو سلب کرلیں؛ اسلامی  جمہوریہ کے نظام اور ایرانی قوم سے طاقت  و توانائی کو چھین لیں اور اُسے ایک ضعیف ، زبوں حال اور تسلیم شدہ قوم میں  بدل دیں؛ یہ اہداف ہیں۔  کسی قوم کے تسلیم ہوجانے کے بعد، اصلا کسی زمینی جنگ کی ضرورت نہیں رہے گی؛ اگر کسی وقت ضرورت بھی ہو تو بغیر کسی خدشے کے یہ کام انجام دینگے، جس کی آج جرات نہیں کرتے۔ اُس دن کہ جب خدانخواستہ ایرانی قوم کمزور ہوجائے، اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے، اُن کے لئے یہ کام بہت ہی آسان ہوجائے گا۔ ذہنوں میں انقلاب کو زندہ رکھنا، انقلابی تفکر کی حفاظت اور اپنے عمل، گفتگو، رویے، فیصلہ جات اور شرائط اور قوانین میں انقلابی سمت کا انتخاب؛ یہ تمام کام اُس خطرناک صورتحال کے پیش آنے میں روکاٹ بن سکتے ہیں؛ قوم  جس مستحکم اور مستقل راستے پر گامزن ہےیہ اُسے اور آگے لے جاسکتے ہیں۔ خوب،  یہ تو انقلاب کی عید سے مربوط تھا کہ انشاء اللہ ۲۲ بہمن والے دن سڑکوں اور مختلف میدانوں میں لوگوں کی شرکت، خدا کے لطف و کرم سے دشمن کو مایوس کردے گی۔ اُس کے بعد انتخابات کی عید؛ انتخابات بھی عید ہے۔
میں نے پہلے بھی انتخابات کے بارے میں کچھ گفتگو کی ہے؛(‌ )  انتخابات کے بارے باتیں بھی بہت ہیں۔انتخابات اسلامی جمہوری نظام  کے بدن میں تازہ خون ڈالنے کا نام ہے؛ قوم کیلئے طاقت اور قدرت کی تجدید ہے۔ ایک گروہ آکر چند ذمہ داریوں کو سنبھالتا ہے اور کچھ کام انجام دیتا ہے؛ کچھ لوگ کرپاتے ہیں، کچھ نہیں کرپاتے، بعض کرسکتے ہیں، بعض نہیں کرسکتے؛ قوم کیلئے یہ حق رکھا گیا ہے کہ  ایک خاص وقت میں – پارلیمنٹ کے بارے میں یا صدر مملکت کے عہدے کے لئے چار سال، اور خبرگان کے بارے میں تھوڑے سے زیادہ وقت کے لئے – میدان میں آئیں اور فیصلہ کریں کہ یہ ہو ں اور وہ نہ ہوں۔ اسے انتخابات کہتے ہیں؛ یعنی ملک، قوم اور لوگوں   ایک نئی روح، تازہ خون اور تازہ نفس دینا؛ یہ انتخابات ہے۔ اسی لئے میں اتنا اصرار کرتا ہوں کہ سب انتخابات میں شرکت کریں ۔ جب انتخابات میں سب شرکت کریں گے تو ملک کی عزت بڑھے گی،  اسلامی  جمہوری نظام کی عزت افزائی ہوگی، ملک بیمہ ہوجائے گا، جمہوری اسلامی کا نظام بیمہ ہوجائے گا۔ انتخابات یعنی اُن بلند وبالا اہداف سے تازہ بیعت کرنا؛ انتخابات کے معنی یہ ہیں۔ لہذا تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے اس عظیم  واقعہ میں شرکت کریں۔
دشمن کے اہداف میں سے ایک دائمی ہدف – کہ جن میں سر فہرست امریکا ہے – انقلاب کے شروع سے آج تک یہی رہا ہے کہ لوگوں اور نظام کے مابین ایک خطرناک دو قطبی وجود کو سامنے لائے؛ بالکل اس چیز کے برعکس جس کی اساس پر  اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی گئی ہے؛  یعنی لوگوں اور نظام کا مکمل طور پر آپس میں مل جانا۔ وہ چاہتے ہیں اس شگاف کو ایجاد کریں؛ البتہ کامیاب نہیں ہوئے۔ انتخابات بھی اُنہیں موارد میں سے ہے جس میں دشمن کا بہت مایوسی ہوئی ہے؛  یعنی لوگوں کے نظام سے مستحکم رابطے کی علامت ہے  اور یہ دو قطبی چاہت  دشمن کی خواہشات کو مکمل ختم کردیگا۔ اس لحاظ سے، انتخابات {اِن تَنصُرُوا اللہ} کا مصداق ہے۔
قرآن فرماتا ہے:اِن تَنصُرُوا اللہَ یَنصُرکُم ؛(‌ )  اگر تم خدا کی مدد کرو گے، خداوند متعال بھی تمہاری مدد کریگا۔ خدا کی مدد کرنے کا مطلب کیا ہے؟  خدا کی مدد کرنا یعنی زمین پر خدا کے تشریعی ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا۔  اس کی سب سے بڑی مثال ج اسلامی  جمہوریہ ہے؛ جو بھی  اسلامی  جمہوریہ کی جس طرح بھی مدد کرے،  {اِن تَنصُرُوا اللہ}ہے؛ اُس نے خدا کی مدد کی ہے۔ پھر اس کا جواب کیا ہے؟ یَنصُرکُم؛ خدا بھی تمہاری مدد کریگا۔ لیکن کیا ایسا ہوا نہیں؟  کیا انقلاب کے شروع سے ایسا نہیں ہے؟ کیا امتحان نہیں ہوا؟  انقلاب کے شروع سے آج تک کون سے لوگ ہم سے درگیر تھے؟ واقعاً سب لوگ ایک گہری نظر ڈالیں؛  البتہ اہل فکر و نظر یہ نگاہ رکھتے ہیں۔ انقلاب کے شروع سے، دنیا کے پہلے درجہ کی مادی طاقتیں اسلامی  جمہوریہ کے روبرو تھیں لیکن کوئی کام انجام نہ دے سکیں۔ جب کسی ملک میں انقلاب آتا ہے، یہ انقلاب کی فطرت ہے کہ کچھ بحران اور تباہ کاریاں وجود میں آتی ہیں۔ انھوں نے شروع کی اُن تباہ کاریوں میں کوشش کی کہ ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں؛  بغاوت کی کوشش کی، نہیں ہوسکا؛ زبردستی جنگ کو شروع کیا اور اس ملک پر آٹھ سال جنگ کو مسلط رکھا؛ اُن ہی ابتدائی ایام سے پابندی لگائی؛ یہ پابندیاں جو آپ دیکھ رہے ہیں، اُن ابتدائی پابندیوں کا تسلسل ہے  البتہ دن بہ دن بڑھاتے بھی رہے۔ خوب، کون سا ملک ثابت قدم رہ سکتا تھا؟  کون سا ملک ہے جو ان سب چیلنجز کے سامنے جدوجہد کرے؟  لیکن اسلامی جمہوریہ کا نظام اور ایران اسلامی نے جدوجہد کی؛  نہ فقط خود کو سنبھالا، اپنی طاقت میں اضافہ کیا۔ اسلامی جمہوریہ کی حالیہ طاقت ابتدائی ایام  سے قابل موازنہ نہیں ہے؛ علاقائی قدرت کے عنوان سے،  بعض مسائل میں عالمی قدرت کے عنوان سے؛  بعض مسائل میں آپ کا ملک سپر پاور ہے؛  دنیا کے سپر پاور ممالک کے عداد(‌ )  میں  ہے؛  دنیا کے بعض مسائل میں اس کی نظر اور رائے ، دنیا کی نمبر ایک طاقتوں سے زیادہ مؤثر ہے؛ آج ایسا ہی ہے؛  اس طرح بدل چکا ہے۔ یعنی خدا کی مدد آئی، {اِن تَنصُرُو اللہ}پہ جو آپ نے عمل کیا، اُس کے جواب میں{یَنصُرکُم} بھی شامل حال ہوا، خدا نے آپ لوگوں کی مدد کی؛ اگر خدا مدد نہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا۔ اس {اِن تَنصُرُو اللہ} کو جاری رہنا چاہیے۔ انتخابات میں لوگوں کی شرکت انہی چیزوں میں سے ایک ہے۔
البتہ انتخابات کے بارے میں میرے پاس بہت سی باتیں ہیں۔ کچھ باتیں بھی کہی جاتی ہیں، ان دنوں  کچھ باتیں کی جاتی ہیں، میں اُن کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا  جو لوگوں کے دلوں میں تردید اُن کے ذہنوں میں تشویش کا باعث بنے؛ غلط اور نامناسب باتیں، مسائل کو صرف اور صرف سیاسی عینک لگا کر دیکھنا، الہی نگاہ کو یکسر  فراموش کردینا؛ آج کل اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔  میں فی الحال یہ باتیں کرنا نہیں چاہتا؛ جو چیز میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ قوم جان لے اُس کی عزت، اُس کا افتخار، اقتدار اور اُس کا دشمن کے محاذ کے سامنے ثابت قدم رہنا،  اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے انقلابی وظیفہ کو بطور احسن انجام دے اور اُن میں سے ایک اہم ترین وظیفہ انتخابات ہے؛ یہ تو تھا قوم سے خطاب۔ انتخابات کے بارے میں ایک بات حکومتی عہدے داروں سے کرنا چاہتا ہوں۔ خوب،  حکومتی عہدیدار واقعاً زحمت اٹھاتے ہیں، کوشش کرتے ہیں؛  انتخابات منعقد کرنے کے لیے بھی اور ملک کے دوسرے مسائل کے لئے بھی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور زحمت اٹھاتے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انتخابات کی  ایڈورٹائزنگ اور پرنٹ میڈیا کے مسائل، اعلی حکام کو  بنیادی اور مسلسل درپیش مسائل سے غافل نہ کردیں۔ انتخابات بہت اہم ہیں؛ جیسا کہ ہم نے کہا اور کہتے رہیں گے، بہت زیادہ اہمیت ہے لیکن انتخابات ایک خاص زمانہ کا مسئلہ ہے، ایک خاص وقت کی بات ہے، یہ وقت گزر جائے گا، جو چیز باقی رہنے والی وہ ملک کے بنیادی مسائل ہیں کہ جن میں سے ایک ملک کا اقتصادی مسئلہ ہے؛  اقتصادی حدود میں ملک کی  پائیداری، مجموعی طور سے معاشی حل تاکہ دشمن ملک پر اقتصادی دباؤ نہ ڈال سکے  اور اپنی خواہشات اور ارادے کو لاگو نہ کرسکے۔  اگر ہم تیل کی صنعت پر انحصار نہ کریں،  ہم اگر اپنی گھریلو پیداوار کو تقویت دیں،  پھر جب تیل سو ڈالر سے تقریباً بیس ڈالر تک آجائے تو ہمارے قدم نہیں ڈگمگائیں گے۔  ہم اگر ملکی مصنوعات کو بڑھانے میں کامیاب ہوسکے تو ریکارڈ توڑ دیں گے،  پھر اگر دشمن  فلاں جنس کی درآمد   محدود کردے یا ممنوع کردے، ہماری بھنووں پر بل نہیں آئے گا۔ اندرونی اقتصاد کو مضبوط کرنا چاہیے۔ یہ ملک، ایک بڑا ملک ہے؛ ہم ایک بڑے اور چار موسموں والے ملک کے مالک ہیں، ہمارے ملک میں بہت وسائل ہیں اور ہمارے اہم ترین وسائل   میں ہماری افرادی قوت ہے؛ باصلاحیت، کار آمد، جوان، اور انگیزوں سے لبریز افرادی قوت ۔  پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد ہمارے ملک میں زیادہ ہے؛  دنیا کے زیادہ تر انجینئر ہمارے پاس ہیں؛ سائنس کے بہت سے مضامین میں دنیا کے چوتھے ، پانچویں نمبرپر ہیں۔ یہ افرادی قوت کوئی چھوٹی چیز نہیں؛ یہ کسی ملک کی ترقی کے لئے اعلی ترین منابع ہیں؛ ایسے میں اتنی وسیع زمین، یہ مختلف فصلیں،  ملک کے مختلف علاقوں کا مختلف موسم، اتنے عظیم وسائل جو اس ملک میں موجود ہیں، یہ سارے وہ وسائل ہیں جو ہمیں توانائی عطا کرتے ہیں کہ ہم اپنے اقتصاد کو پائیدار اقتصاد میں تبدیل کرلیں۔ جب آپ اپنے اقتصاد کو اندر سے پائیدار کرلیں گے، دوسرے آپ پر پابندی لگانے کے بجائے، آپ کے احسان مند ہوں گے؛ جب دیکھیں گے کہ اقتصادی دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود آپ کی ماتھے پر کوئی بل نہیں آتے، پیچھے نہیں ہٹتے، ہار ماننے پر مجبور نہیں ،  ایسے میں وہ پابندی لگا کر غلطی کریں گے؛ سمجھ جائیں گے کہ اس کام میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ بنیادی کام ہے۔ یہ جو میں کہتا ہوں "پائیدار اقتصاد" اور بار بار کہتا ہوں، اسی وجہ سے ہے۔ میں تقریباً دس یا بارہ سالوں  سے واضح الفاظ میں یہ بات کر رہا ہوں کہ اگر ملک کے اقتصاد  کو اندرونی طور پر پائیدار کرلیں، دشمن کی طرف سے کھڑی کی گئی بڑی بڑی مشکلات ختم ہوجائیں گی اور ہمارا روزگار، ہمارے جوان اور معاشرے کی بہت سی مشکلات جو بیکاری اور اضطراب کی وجہ سےہیں، ایسے میں پھر وہ واضح راہ حل تلاش کرلیں گے۔
ملک کے محترم اعلی حکام سے میری یہی گزارش ہے کہ انتخابات سے مربوط پرنٹ میڈیا کا جنجال اُنہیں خود میں جکڑ نہ لے، اسی میں پھنس نہ جائیں، اقتصاد کی فکر میں رہیں۔ وسائل کی اس سمت میں ہدایت کریں جس طرف کرنی چاہیے؛ یعنی پیداوار کی سمت؛ چاہے  زراعت کی پیداوار ہو، چاہے صنعتی پیدوار۔ اتنا بڑا اور عظیم ملک جس میں مختلف مصنوعات ہوں، انسان کو شرم آتی ہے جب دیکھتا ہے – میں تو اخبارات میں دیکھتا ہوں، آپ سڑکوں پر دیکھتے ہیں –دوسرے ممالک سے برآمد کئے ہوئے مختلف طرح کے پھل! ہماری نارنگیاں اور سیب درختوں پر  لٹکے رہ جائیں، ایسے میں ہم دوسرے ممالک سے پھل درآمد کریں؟ ان چیزوں کی فکر کرنی چاہیے؟  ان سب پر کام کرنا چاہیے۔ ملک کے وسائل کو پیداوار کی طرف لے جائیں، نہ کہ زیادہ وابستگی کی طرف، نہ ہی درآمدات کی طرف۔  پھر کوئی مسئلہ جیسے انتخابات کا مسئلہ جب سامنے آئیگا، سب پریشان ہوجائیں، سب [اس کی طرف] متوجہ ہوجائیں؛ ٹھیک نہیں، یہ مسئلہ گزرجانے والا مسئلہ ہے؛ جنہیں فکر کرنی چاہیے وہ فکر کر رہے ہیں، جنہیں عمل کرنا چاہیے وہ عمل کر رہے ہیں؛  اعلی حکام اور حکومتی اراکین  اپنے ذہنوں کو اس میں نہ الجھائیں۔ یہ وہ بات ہے جو میں اپنی عزیز عوام سے بھی کہنا چاہتا ہوں،  اپنے محترم حکام سے بھی عرض کرتا ہوں: ہماری تمام سیاست، ہمارے تمام رویوں کی توجہ دشمن کے ایک وسیع محاذ کی طرف ہونی چاہیے؛ ہماری تمام توجہات اسی طرف ہونی چاہئیں۔  کسی انسان کی، کسی سسٹم کی لوگ تعریف نہیں کرتے جب وہ دشمن کے وجود سے غفلت برتتا ہے؛ تعریف نہیں کرتے کہ بس انہیں باتوں سے خوش رہیں۔ خوب جی ہاں، وہ مسکراتا ہے، آپ بھی مسکراتے ہیں لیکن ہوشیار رہیں کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے کیا ہے! دشمنیوں کو بھولنا نہیں چاہیے، دشمنوں کو ذہن سے نہیں نکالنا چاہیے۔ دشمن کا ایک محاذ ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہمیں آج اپنی امنیت،  اقتصاد، معیشت اور ثقافت کے مسائل ، جوانوں کے مسائل اور معاشرتی مشکلات کے مسائل پر توجہ کرنی چاہیے کہ دشمن کی چال کیا ہے  اور تمام مسائل میں اس بنیاد پر سیاسی پالیسیاں اپنائیں، اسی بنیاد پر قانون بنائیں، انہی بنیاد پر اقدامات کریں، انہی بنیادوں پر بات کریں۔ دشمن سے غفلت برتنا کوئی فخر کی بات نہیں؛ ہم جان لیں کہ دشمن ہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں آقا آپ ہمیشہ دشمن دشمن کیوں کہتے رہتے ہیں؛ خوب [اگر] نہ کہیں، ہم بھول جائیں گے کہ دشمن ہے  پھر دشمن ہماری غفلت سے فائدہ اٹھائے گا  اور جو دل میں آئے گا کرے گا۔
دشمن کو پہچاننا ضروری ہے، اور اُس کی دشمنی کی بھی شناخت کرنی چاہیے، سعدی کے قول کے مطابق بھی جیسا کہ کہا – اس کا مفہوم یوں ہے- دشمن جب تمام کاموں سے تھک جاتا ہے، دوستی کا ہاتھ ہلاتا ہے؛ جب دوستی کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے ، پھر ایسا کام کرتا ہے جو کوئی دشمن نہیں کرسکا تھا؛(‌ )  یعنی  دوستی کے لبادے میں وار کرتا ہے۔ ہم سب کی توجہ اس طرف رہنی چاہیے۔ خوب، الحمداللہ اعلی حکام کی کارکردگی بہت اچھی ہے، بلا شبہ وہ  کاموں میں مشغول ہیں،  کوشش کر رہے ہیں؛ تاہم  دوہرے پن کا خیال رکھنا ضروری ہے؛ کیونکہ یہ دشمن بہت ہی شریر ہے، خوفناک اور بے حیاء دشمن ہے۔
امریکا آج کی دنیا میں عمومی افکار سے اٹھنے والے سادہ سوالوں تک کا جواب نہیں  دیتا۔  دنیا کے عمومی افکار امریکا سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک ملک ۱۱، ۱۲ ماہ سے مسلسل یمن پر بمباری کر رہا ہے، شہروں کو نابود کر رہا؟ آپ کو معلوم ہے یا نہیں؟ اگر آپ کو معلوم ہے تو حمایت کیوں نہیں کرتے؟ اگر معلوم ہے تو اعتراض کیوں نہیں کرتے؟  اگر معلوم ہے اور اس ظلم کے بارے میں جانتے ہیں،  تو پھر آپ کے ایندھن پہنچانے والے ہوائی جہاز اُن کی مدد کیوں کر رہے ہیں؟  آپ کیوںمدد کر رہے ہیں؟ کیوں حمایت کر رہے ہیں؟ آپ جو حقوق بشر کی بات کرتے ہیں، اس کا جواب دیں۔ یہ جو ہزاروں بچے، ہزاروں مرد اور عورتیں، شہری، گھروں میں، ہسپتالوں میں، اسکولوں میں  بغیر کسی دفاع کے مارے جاتے ہیں، دہشت گردی نہیں ہے؟ یہ حکومتی دہشت گردی کی خوفناک اور بے رحمانہ  شکل نہیں ہے؟ کیوں اُن کی حمایت کرتے ہیں؟  امریکی ان باتوں کا جواب نہیں دیتے؛  دنیا کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں، حقوق بشر کی طرفداری کا دعویٰ بھی کرتے ہیں! یہ تو صرف یمن کی بات ہے؛ یہ مسئلہ، گذشتہ سال کا ایک مسئلہ ہے؛ اُس طرف فلسطین ہے جو ۶۰ سال ۶۵ سال سے مسلسل۔ دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کے لوگوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، اُن کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں،  دیکھ رہے ہیں کہ اُن کے کھیتوں کو نابود کر رہے ہیں،  دیکھ رہے ہیں کہ عمارتیں تعمیر کر تے ہیں اور اُن گھروں میں صہیونی عناصر کو بندوقیں دیکر بٹھاتے ہیں اور اُنہیں مسلح رکھتے ہیں؛  [پس] کیوں حمایت کرتے ہو؟ کیوں رقومات دیتے  ہو؟  کیوں ہمیشہ  امریکا میں موجود صہیونی لابی کے سامنے جھک جاتے ہو اور ہمیشہ  چاپلوسی کرتے ہو؟ کیوں؟  یہ عمومی افکار کے سادہ سوالات ہیں۔  ان سوالوں کے ایک لفظ کا جواب نہیں دیتے۔ پھر دوستی کا دعویٰ کرتے ہیں، حقوق بشر سے دلچسپی کا دعویٰ کرتے ہیں، جمہوریت کا دعویٰ کرتے ہیں۔  ہمارے خطے میں جو امریکا کے  اتحادی ممالک ہیں ، اُن ممالک میں انتخابات کا نام نہیں لیا جاسکتا،  وہ انتخابات کے نام سے کسی چیز کو نہیں پہچانتے، اصلاً وہ سمجھتے ہی نہیں انتخابات کیا ہوتے ہیں، [لیکن] جمہوریت کے طرفدار امریکا نے ان کے ساتھ صیغہ اخوت پڑھا ہوا ہے؛ [وہ بھی] کس طرح! اُن کا ہر طرح سے دفاع کرتا ہے۔ ہمارا دشمن اس طرح کا دشمن ہے؛ امریکا اس طرح کا ایک وجود ہے۔ البتہ میں یہ بات کئی مرتبہ کر چکا ہوں کہ ہماری مراد امریکی حکومت ہے؛ ہماری مراد امریکی سسٹم ہے -  ہمیں امریکی عوام سے کوئی سروکار نہیں-  امریکا کا سسٹم اس طرح کا سسٹم ہے۔ خوفناک طریقوں سے غلط کاموں کو انجام دیتے ہیں، پھر لوگوں پر ہنستے بھی ہیں،  اور ان سوالوں کا کوئی جواب بھی نہیں دیتے! خوب، اگر واقعاً اُن کے پاس کوئی جواب ہے تو دنیا کے عمومی افکار کو جواب دیں۔  جب کسی ملک کا اس طرح کے دشمن سے سامنا ہو، تو ان کے حواس بحال رہنے چاہئیں؛ ایرانی قوم کے حواس بحال رہیں۔ خدا کے فضل سے ایرانی عوام کے حواس بحال ہیں  اور بحال تھے،  اور لوگوں کی یہ عظیم تحریک اب تک مکار، غدار اور  شریر دشمن کی تدبیروں کو بے اثر کرنے میں کامیاب رہی ہے؛ اس کے بعد بھی خدا کے فضل سے اس دشمن کو ذلیل کرے گی۔
میرے عزیزو! اپنی ذمہ داریوں کی قدر کو جانیں، اپنی جوانی کی قدر کریں؛ آپ جوان ہیں، انگیزہ رکھتے ہیں، ذمہ داری بھی رکھتے ہیں، آپ کام کرسکتے ہیں؛ اس طرح کی فضا میں، اس طرح کے ماحول میں کام کرنا عبادت ہے۔ خالص نیت کے ساتھ خدا کیلئے اور ملک، فوج اور فضائی آرمی کی ترقی کیلئے ان اہداف کی سمت کام کریں۔  جتنا زیادہ کام کریں گے، خداوند متعال آپ کی عمر اور آپ کی کوشش میں اتنی برکت عطا کرے گا۔
اُمید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ ہمارے معزز امام کی پاکیزہ روح اور شہداء کی پاکیزہ روح ، بالخصوص جمہوری اسلامی ایران کی فضائی آرمی کے شہداءآپ سب  اور ہم سب سے راضی ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  ۔اس ملاقات کے شروع میں  بریگیڈیر جنرل  پائلت حسن شاہ صفی (جمہوری اسلامی ایران کی فضائی آرمی کے آفسر) نے رپورٹ پیش کی۔
  ۔جمہوری اسلامی کے ملک سے باہر نمایندوں کے وزراء اور وزارت خارجہ کے مسئولین اور وزراء سے ملاقات کے دوران گفتگو (۱۰/ ۸/ ۱۳۹۴)۔
  ۔منجملہ، پورے ملک سے آئے امام جمعہ سے ملاقات کے دوران گفتگو(۱۴/ ۱۰/ ۱۳۹۴)۔
  ۔سورہ محمد، ساتویں آیت کا ایک حصہ۔
  ۔گنتی۔
  ۔گلستان سعدی، آٹھواں باب، (مختصر فرق کے ساتھ)۔