ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

امام خمینیؒ کی بتیسویں برسی سے خطاب


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

ایک اور چودہ خرداد (امام خمینی کی برسی کی تاریخ 3 یا 4 جون) آ گئی اور ملک کا ماحول اس عظیم شخصیت، اس مرد عظیم، اس بے مثال رہبر، اس نرم دل انسان، اس فولادی ارادے والے شخص، اس محکم عزم سے لبریز انسان، اس گہرے اور روشن ایمان والی شخصیت اور اس عاقل و حکیم و دور اندیش انسان کی یادوں سے بھر ہو گیا۔ ہمارے ملک و قوم کو آج بھی اور مستقبل میں بھی برسوں تک امام خمینیؒ کی عظیم یاد کی پاسداری کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلامی جمہوریہ، امام خمینی کی سب سے اہم جدت و نوآوری

آج میں اپنے عزیز قوم سے جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ عظیم امام [خمینی] کی سب سے اہم جدت و نوآوری کے بارے میں ہے۔ امام کی بہت سی نوآوریاں تھیں ، لیکن یہ امام کی سب سے اہم جدت ہے: "اسلامی جمہوریہ" یہ عظیم امام خمینیؒ کی نوآوری تھی۔ یہ وہی مذہبی خودمختاری ہے جو "اسلامی جمہوریہ" کے نام سے باضابطہ قائم ہوگئی اور اس نظام کا لقب بنی جو ایرانی عوام کی فکر و ارادے ، اور عظیم امام خمینیؒ کی قیادت سے ابھر کر سامنے آیا۔

 

امام خمینی کی صلابت و قاطع عزم اور اسلامی جمہوریہ کی فتوحات نے دشمنوں کے منہ بند کردئے

میں یہاں یہ بحث شروع کرتا ہوں کہ دنیا کے نظاموں- انقلابی اور دوسرے نظاموں کے مابین جو گذشتہ ایک یا دو صدی میں تشکیل پائے تھے - مجھے کسی ایسے نظام کے بارے میں نہیں معلوم جس کے زوال، سقوط اور خاتمے کی پیش گوئی اسلامی جمہوریہ کی مانند اتنی کثرت کے ساتھ کی گئی ہو۔

اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے پہلے دن سے ہی اس عظیم تحریک کو تسلیم اور ہضم نہ کر پانے والے، ملک کے اندرونی اور بیرونی بدخواہ اور دشمن کہتے تھے کہ نظامِ اسلامی جمہوریہ، دو مہینے سے زیادہ، کبھی کہتے تھے چھے مہینے سے زیادہ اور کبھی کہتے تھے ایک سال سے زیادہ باقی نہیں رہے گا، اور صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔

امام خمینی کی صلابت، ان کی قطعیت، اس کے علاوہ آٹھ سالہ جنگ میں ایرانی قوم کی عظیم الشان فتوحات اور دیگر مختلف واقعات نے اس شورشرابے کو دبا دیا، یعنی دھیرے دھیرے یہ کم ہو گیا، کم ہوتا گیا اور امام خمینی کی عمر کے آخری ایام تک یہ ختم ہو گیا، اب یہ شورغل نہیں رہ گیا تھا لیکن امام خمینی کی وفات کے بعد بدخواہوں میں پھر سے رمق پیدا ہو گئی، ان میں امید پیدا ہو گئی اور انھوں نے اپنی آرزوؤں کو پیشن گوئی کی صورت میں بیان کرنا شروع کیا، انھی باتوں کو پھر سے دوہرانا شروع کیا۔ ایک فرسودہ ہو چکی لیکن بہت دعوے کرنے والی جماعت(1) نے سنہ انیس سو نوے میں ایک بیانیہ جاری کیا۔ اس بیانیہ میں اس نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ، ڈھلان کے سرے پر پہنچ چکی ہے، یعنی اب اگر اس نے ذرا سی بھی جنبش کی تو ختم ہو جائے گی، سقوط کر جائے گی۔ یہ سنہ انیس سو نوے کی بات تھی۔

کچھ سال بعد ایک دوسرے گروہ نے، کچھ افراد نے جو افسوس کہ ساتھ عہدیدار بھی تھے، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے رکن (2) بھی تھے، ان لوگوں نے بھی ایک خط میں لکھا کہ اسلامی جمہوریہ کے لیے بہت کم وقت باقی بچا ہے، مطلب یہ کہ اسلامی جمہوریہ آج کل میں ہی ختم ہونے والی ہے۔ یہ ایک دوسرا گروہ تھا، البتہ اس گروہ کے افراد کے رجحانات بھی تقریبا اسی جماعت کے رجحانات جیسے تھے یا پھر وہ اس جماعت کی طرف کسی حد تک جھکاؤ رکھتے تھے۔ ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی کچھ افراد، شخصیات، گروہ اور جماعتیں اسی طرح کی باتیں کرتی تھیں، چاہے ملک کے اندر، چاہے اغیار اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے سائے میں ملک کے باہر اس طرح کی باتیں کی جاتیں تھیں اور ریڈیو اور اس طرح کے ذرائع ان باتوں کو نشر کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو اسلامی جمہوریہ کا شیرازہ بکھرنے کی خوش خبری دیتے تھے۔ وہ اپنی آرزوؤں کو خبر اور تجزیے وغیرہ کی صورت میں بیان کرتے تھے اور ایک دوسرے کو خوش خبری دیتے تھے۔ آخر کار ایک دو سال قبل ہی امریکیوں نے بھی اس سلسلے میں اپنا حرفِ آخر سنا دیا تھا۔ ایک اعلی رتبہ امریکی عہدیدار (3) نے پورے وثوق سے کہا کہ اسلامی جمہوریہ اپنی چالیسویں سالگرہ نہیں دیکھ پائے گی۔ یہ تجزیے اور یہ پیشین گوئیاں، اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی دوسرے نظامِ حکومت کے زوال، نابودی اور اس کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں اس کی تشکیل کی ابتدا سے لے کر بعد کے برسوں میں اتنی کثرت کے ساتھ پیشین گوئیاں کی گئی ہوں۔

البتہ جو لوگ اس طرح کی پیشین گوئیاں کرتے تھے، ان کی نظر میں بہت سے انقلاب اور ان انقلابوں کے نتیجے میں برپا ہونے والے نظام تھے کیونکہ بہت سی تحریکیں اور انقلاب، چاہے وہ مشرقی ایشیا میں ہوں، جنوب مشرقی ایشیا میں ہوں، مغربی ایشیا میں ہوں، افریقا میں ہوں یا پھر یورپ میں ہوں، جیسے فرانس کا انقلاب کبیر، یہ سب وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد، ختم ہو گئے تھے۔ ان کی ابتداء تو بہت پرجوش تھی لیکن انجام بہت تلخ تھا۔ فرانس کا انقلاب کبیر، سلطنت کے خلاف وجود میں آنے کے تقریبا پندرہ سال بعد، ایک مضبوط آمرانہ حکومت پر ختم ہوا جو نپولین بوناپارٹ کی حکومت ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی یہی ہوا۔ پوری دنیا میں اس طرح کے نظاموں کے ساتھ یہی ہوا۔

خود ہمارے ایران میں بھی یہی ہوا تھا۔ ایران میں تحریک مشروطہ (آئینی تحریک) اتنے ولولے، شوروغل، جوش، فتووں اور دوسری چیزوں کے ساتھ وجود میں آئی اور جب تحریک مشروطہ پر دستخط ہوئے، مشروطیت کے فرمان پر دستخط ہو گئے تو اس کے پندرہ سال بعد رضا خان جیسا شخص، اس بھیانک آمریت کے ساتھ برسر اقتدار آ گیا، اس سیاہ آمریت کے ساتھ جو قاجاری دور حکومت سے کہیں زیادہ بدتر تھی۔ اس کے بعد پھر سنہ انیس سو پچاس اور اکاون میں، جو قومی تحریک کے سال ہیں، ایک تحریک وجود میں آئی، لوگ سڑکوں پر نکل آئے، ایران کے تیل کو اصطلاحا قومیا لیا گیا، یعنی برطانیہ کے چنگل سے چھڑا لیا گیا لیکن اس کے ایک دو سال بعد امریکی اور برطانوی بغاوت واقع ہوئی اور محمد رضا نے ایک انتہائی پیچیدہ، خطرناک اور سخت ظالمانہ آمریت کو طویل عرصے کے لیے پھر شروع کر دیا۔ مطلب یہ کہ اس طرح کے واقعات دنیا میں ہو چکے ہیں، دنیا میں یہ لوگ جس چیز کی توقع کر رہے تھے وہ اس طرح کے واقعات کے پیش نظر تھی۔ لیکن نہیں! الحمد اللہ امام خمینی کے انقلاب اور نظام کا نہ صرف یہ کہ شیرازہ نہیں بکھرا اور وہ نہ صرف یہ کہ وہ رکا نہیں بلکہ روز بروز زیادہ طاقتور ہوتا گیا، اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے، پسپائی اختیار نہیں کی اور روز بروز اپنی خودمختاری کو اور واضح کیا، آشکار کیا، بڑی بڑی توفیقات حاصل کیں، رکاوٹوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اس انقلاب اور اس نظام کے سامنے لگاتار کیسی کیسی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں؟! طرح طرح کی رکاوٹیں، سیاسی رکاوٹیں، معاشی رکاوٹیں، سیکورٹی کی رکاوٹیں وغیرہ وغیرہ، وہ ان سب پر غالب آیا اور آگے بڑھتا گیا۔ آج اسلامی جمہوریہ چالیس سال پہلے سے کہیں زیادہ وسعت کا حامل بھی ہے اور پیشرفتہ بھی ہے۔ وہ خداوند عالم کے فضل و کرم سے ہر پہلو سے آگے ہے۔

اسلام اور عوام کی ہمراہی، اسلامی جمہوریہ کی بقا کا راز

اب سوال یہ ہے کہ اس بقا کا راز کیا ہے؟ اس پیشرفت کا کیا راز ہے؟ کیوں اتنی زیادہ دشمنی کے باوجود اسلامی جمہوریہ کا انجام دوسرے انقلابوں اور دوسرے نظاموں جیسا نہیں ہوا؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا راز کیا ہے؟ میں عرض کرتا ہوں! اس باعظمت اور پر افتخار نظام اور اس کی بقا کا راز یہ دو الفاظ ہیں؛ یعنی جمہوری اور اسلامی۔ یہ دو الفاظ، ان دونوں الفاظ کا باہمی ساتھ اور ان دو لفظوں سے تشکیل پانے والے موجود (نظام) کو پائیدار ہونا بھی چاہیے۔ جمہوری بھی ہے اور اسلامی بھی۔ عوام اور اسلام، جمہوری یعنی عوامی اور اسلامی بھی۔ اسلامی جمہوریت!

اسلامی جمہوری نظام کا نظریہ پیش کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانا، امام خمینی کا عظیم کارنامہ

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اس فکر کو، اس نظریے کو، اسلامی جمہوریہ کے نظریے کو وجود بخشا اور اسے مختلف سیاسی نظریات کے میدان میں اتار دیا۔ جب اس دور میں مشرق و مغرب کے مختلف سیاسی نظریات، سیاسی مسائل اور سیاسی تفکر کے میدان میں موجود تھے اور امام خمینی نے ان کے درمیان اس نظریے کو میدان میں متعارف کیا اور پھر اسے عملی جامہ پہنایا، وجود عطا کیا۔ صرف ایک نظریہ پیش نہیں کیا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا، اسلامی جمہوری نظام کو وجود بخشا، یہ امام خمینی کا عظیم کارنامہ ہے۔

اسلام کی گہری شناخت اور عوام پر بھرپور اعتماد، اسلامی جمہوریہ کے نظریے کی تخلیق اور اسے عملی جامہ پہنانے میں امام خمینی کا اصلی سہارا!

امام خمینی رحمت اللہ علیہ مختلف جہات جیسے علم اور دینی معرفت کے لحاظ سے ایک عظیم انسان تھے۔ اس نظریے کو تخلیق کرنے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں ان کا اصلی سہارا، ایک طرف اسلام کے سلسلے میں ان کی گہری معرفت تھی، وہ اسلام کی شناخت رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ اسلامی حاکمیت، اسلام کے بنیادی  پیغامات میں سے ہے اور دوسری طرف وہ عوام پر بھی بھرپور اعتماد کرتے تھے۔ امام خمینی عوام پر پورا بھروسہ رکھتے تھے، ان کی توانائیوں پر، ان کے عزم پر، ان کی وفاداری پر۔ اس سلسلے میں ہماری بہت سی یادداشتیں ہیں، عوام پر ان کا اعتماد بہت عجیب تھا۔ سنہ انیس سو باسٹھ میں، جب تحریک اپنے ابتدائی ایام میں تھی، امام خمینی نے ایک دن اپنے درس میں بات کو سیاسی مسائل اور اس وقت جو مسئلہ چل رہا تھا اس کی طرف موڑ دیا اور قم کے صحرا کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر ہم عوام کو بلائیں تو یہ صحرا عوام سے بھر جائے گا! سنہ انیس سو باسٹھ میں کوئی یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عوام کو اس طرح کے کسی کام میں اپنے ہمراہ کیا جا سکتا ہے اور انھیں میدان میں اتارا جا سکتا ہے۔ امام خمینی اس نظریے کے دونوں حصوں کو یعنی اسلامی جمہوریہ کے نظریے کے دونوں حصوں کو، اسلامی حصے کو بھی اور جمہوری حصے کو بھی، اسلام سے متعلق سمجھتے تھے، انھوں نے اسے اسلام سے اخذ کیا تھا۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات پر ان کے عبور، ان کی گہری معرفت اور اسلامی مسائل کے ادراک میں ان کی جامعیت نے اس نظریے کو ان کے ذہن میں پروان چڑھایا تھا۔

اسلامی جمہوریہ کے نظریے کے مخالفین

میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس نظریے کے مخالفین بھی تھے۔ پہلے ہی دن سے اس معاملے کے دونوں پہلوؤں کے یعنی حکومت کے اسلامی ہونے اور اسلام کی حاکمیت کے بھی اور حکومت کے عوامی ہونے کے پہلو اور جمہوریت کے بھی سخت مخالفین تھے اور آج تک اس کے مخالفین ہیں جن کی اپنی آراء ہیں، میں ان کی طرف اشارہ کروں گا۔

(الف) اسلام کی حاکمیت کے مخالف گروہ: غیر مذہبی سیکولر اور مذہبی سیکولر

اسلام کی حاکمیت یعنی ملک کے نظام اور نظامِ زندگی کو اسلامی اقدار، اسلامی تعلیمات، اسلامی خطوط اور اسلامی احکام کے توسط سے چلایا جائے، اس نظرئے کے کچھ کٹّر مخالفین تھے۔ البتہ یہ سارے مخالفین یکساں نہیں تھے۔ ان میں ایک گروہ سیکولر نظرئے کے غیر مذہبی لوگوں کا تھا جن کا کہنا تھا کہ دین کو اس طرح کا حق ہی نہیں ہے، اس میں یہ ظرفیت ہی نہیں ہے کہ وہ سماجی مسائل میں داخل ہو سکے اور ملک کی سیاست، ملک کے سماجی نظام اور ملک کے انتظام و انصرام کو سنبھال سکے، دین میں یہ چیز پائی ہی نہیں جاتی۔ اگر کوئی دین کو مانتا بھی ہو تو دین نماز، روزے، ذاتی مسائل اور روحانی کشفیات اور ان جیسی باتوں کے لیے ہے۔ یعنی یہ کہ دین کی حاکمیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ تو دین کو معاشرے کے لئے افیم سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ دین، معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ نقصان بھی ہے۔ اسلام کی حاکمیت کے مخالفین کا یہ ایک گروہ تھا۔ دوسرا گروہ دین کو ماننے والوں کا تھا اور وہ دینی موقف کے زاویے سے دین کا دفاع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جناب! دین کو سیاست میں نہیں گھسنا چاہیے۔ دین کو سیاست سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے، دین کو کنارے ہی رہنا چاہیے، اسے اپنے تقدس کی حفاظت کرنا چاہیے، اسے سیاست کے میدان میں داخل ہی نہیں ہونا چاہیے جو ٹکراؤ، توتو میں میں اور لڑائی جھگڑے کا میدان ہے، اگر انسان ان لوگوں کے بارے میں صحیح رائے دینا چاہے تو یہ لوگ مذہبی سیکولر ہیں؛ یہ مذہبی ہیں لیکن حقیقت میں سیکولر ہیں، یعنی زندگی کے امور میں دین کی مداخلت پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتے۔ یہ گروہ بھی اسلام کی حاکمیت کا مخالف تھا۔

(ب) عوام کی حاکمیت کے مخالف گروہ: سیکولر لبرلز اور عوامی قوت پر بھروسہ نہ کرنے والے مذہبی افراد

عوامی حاکمیت کے مخالفوں یعنی جمہوریت کے مخالفین کے بھی دو محاذ تھے: ایک محاذ، سیکولر لبرلز کا تھا جو جمہوریت یا ڈیموکریسی کو تسلیم کرتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا دین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور جمہوریت کے میدان میں لبرلز اور ان کی اصطلاح میں ٹیکنو کریٹس کو آگے آنا چاہیے۔ بنابریں مذہبی ڈیموکریسی اور اسلامی جمہوریہ لایعنی ہے۔ تو اس طرح یہ لوگ اس نظریے کے جمہوریت والے حصے کے مخالف تھے۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو دین کو تو مانتے تھے لیکن کہتے تھے کہ جناب! دین کی حاکمیت کا عوام سے کیا لینا دینا ہے؟ اس میں عوام کا کیا کام ہے؟ دین کو حکومت کرنی چاہیے، دین کی حاکمیت ہونی چاہیے۔ تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے۔ اس دوسری رائے کے بعض نمونے کچھ عرصہ قبل انتہا پسندانہ شکل میں آپ نے داعش کی شکل میں ملاحظہ کیے جو اپنی سوچ میں، دین کی حاکمیت پر عقیدہ رکھتے تھے لیکن وہ عوام کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔

اسلامی تعلیمات پر مبنی اسلامی جمہوریہ کا نظریہ

امام خمینی اللہ پر توکل اور عوام پر اعتماد کے ساتھ اور دین کے بارے میں اپنی گہری شناخت کے سہارے مضبوطی سے ڈٹ گئے اور انھوں نے اس نظریے کو آگے بڑھایا اور اپنی اس عظیم جدت اور نوآوری کو معاشرے کی سطح پر جامۂ عمل پہنایا۔ اجمالا ہی سہی لیکن مجھے یہ بات ضرور عرض کرنی ہے کہ یہ ایک جذباتی بات نہیں ہے بلکہ ایک عالمانہ استنباط ہے کہ دین کو حکومت کرنی چاہیے اور اس حاکمیت میں عوام کی شراکت ہونی چاہیے، یعنی مذہبی جمہوریت، یہ چیز اسلام کے اندرون سے نکلی ہے اور بنیادی اسلامی تعلیمات پر استوار ہے۔

دین کی حاکمیت کا منبع قرآن و احادیث

مذہب کی حکمرانی قرآن میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ واقعی، اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے قرآن مجید میں صحیح  تفکر نہیں کیا ہے۔ ایک طرف قرآن مجید سورۂ نساء کی ایک آیت میں اعلان کرتا ہے: "وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ اِلَّا لِیطَاعَ بِاِذْنِ اللَّہ" (4) ہم نے پیغمبروں کو اس لیے بھیجا ہے کہ لوگ اذن خداوندی سے ان کی اطاعت کریں۔ تو وہ کس بات کی اطاعت کریں؟ انبیاء کی اطاعت کا موضوع  کیا ہے؟ قرآن مجید کی سیکڑوں آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ، جہاد کی آیات؛ عدل و انصاف قائم کرنے سے متعلق آیات ، حدود اور جرمانے سے متعلق آیات ، لین دین اور معاہدوں سے متعلق آیات ، بین الاقوامی معاہدوں سے متعلق آیات وَ اِن نَكَثوا اَیمـانَھُم (5) وغیرہ وغیرہ آخر تک۔ ان سب کا مطلب ہے حکومت۔ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان معاملات میں رسول کی اطاعت لازمی ہے۔ ملک کے دفاع کے معاملے میں ، حدود کے نفاذ کے معاملے میں ، معاشرتی لین دین اور معاہدوں کے معاملے میں ، دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدوں کے معاملے میں ، قسطوں کے قیام اور انصاف کے قیام کے معاملے میں ، معاشرتی انصاف کا قیام۔ ان سب میں ، پیغمبر کی اطاعت لازمی ہے۔ اس کا مطلب حکومت ہے؛ حکومت کا مطلب کچھ اور نہیں ہے۔ اسلام کی حکمرانی قرآن میں اس قدر واضح طور پر جھلکتی ہے۔

البتہ یہ چیز پیغمبرﷺ اور معصومین علیہم السلام کی سنت، حدیث اور ان کے اقوال میں بھی کثرت سے موجود ہے۔ جب یثرب کے لوگوں کے نمائندے مکے آئے اور پیغمبر کو یثرب آنے کی دعوت دی، جو بعد میں مدینۃ النبی بنا، انھوں نے منیٰ کے قریب پیغمبر سے بات کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے عہد لیا، کہا کہ میں آؤں گا لیکن تمھیں دفاع کرنا ہوگا، جان دے کر بھی حمایت کرنی ہوگی۔ ان لوگوں نے اسے قبول کیا اور وعدہ کیا۔ بعد میں، جب پیغمبر اکرمؐ مدینہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے اسلامی حکومت قائم کی ، حکمرانی قائم کی۔ یہ حاکمیت ان کی پیغمبری سے متعلق تھی یعنی کوئی اور بات نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ وہ پیغمبر تھے، اس لیے کہ لوگ ان پر ایمان لائے تھے، اس لیے انھوں نے حکومت تشکیل دی تھی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد، آپؐ جانشینی کے بارے میں اختلافات کے باوجود - جو آپ جانتے ہیں، پیغمبرؐ کی جانشینی سے متعلق تنازعہ پیدا ہوا تھا - لیکن جو مسلمان اور جو لوگ جانشینی پر متفق نہیں تھے، کسی کو بھی اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ جو حکومت بھی تشکیل دی جانی چاہئے اسے دین اور قرآن پر مبنی ہونا چاہیے۔ لہذا ، مذہب کی حکمرانی ، اسلام کی حکمرانی کا معاملہ ایک بہت ہی واضح معاملہ ہے اوراسلام کو ماننے کا ملازمہ ہے۔ یعنی، اگر کوئی اسلام پر یقین رکھتا ہےاور پھر صحیح طور سے اسلام کی علمی بنیادوں پر توجہ دیتا ہے تو معاشرے میں اسلام کی حکمرانی پر بھی یقین کرنا چاہئے۔

اسلامی حکومت کے قیام میں عوام کی ذمہ داری اور فرائض اور اپنی تقدیر کو خود تعین کرنے کا حق

جہاں تک ڈیموکریسی، جمہوریت، اور عوام کے ووٹوں کی اہمیت کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو دو تناظر سے دیکھنا چاہئے: ایک نقطہ نظر اس مسئلے کا مذہبی اور عقیدتی پہلو ہے جو ذمہ داری اور حق کا مسئلہ ہے۔ دوسرا تناظر مذہب کی حکمرانی کو عملی جامہ پہنانے کے امکان کا ہے جو عوام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

پہلا حصے کو- جو عوامی مشارکت ہے اور یہ مشارکت اسلامی حکومت میں ایک ضروری عنصر ہے - انسانوں کی ذمہ داری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید اور ہماری روایات میں ، معاشرے کی تقدیر کی طرف لوگوں کی ذمہ داری کے بارے میں بہت واضح تعلیمات موجود ہیں: : کُلُّکُم راعٍ وَ کُلُّکُم مَسئولٌ عَن رَعِیَّتِہ (6) یعنی معاشرے کے تمام افراد، معاشرے کی صورتحال کے سلسلے میں ذمہ دار ہیں۔ مَن اَصبَحَ لا یَھتَمُّ بِاُمورِ المُسلِمینَ فَلَیسَ بِمُسلِم (7) مسلمانوں کے امور سے مراد یہی جامع اسلامی امور ہیں جس میں تمام امور شامل ہیں۔ یا صفین کے اس مشہور خطبے میں ، جہاں اس خطبہ میں حکومت کے بارے میں بہت سی باتیں موجود ہیں ، وہاں امیر المومنین علیہ السلام کا ایک جملہ ہے جو میری نظر میں بہت زیادہ اہم ہے: وَ لَکِن مِن واجِبِ حُقوقِ اللّہِ سُبحانَہُ‏ عَلَى عِبادِہِ النَّصیحَۃُ بِمَبلَغِ جُھدِھِم وَ التَّعاوُنُ عَلَى اِقامَۃِ الحَقِّ بَینَھُم (8) خدا کا سب سے اہم اور ضروری حق یہ ہے کہ: التَّعاوُنُ عَلَى اِقامَۃِ الحَقِّ بَینَھُم معاشرے میں حق کے قیام کے لئے عوام کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ یعنی یہ عوام کی ذمہ داری ہے۔ عوام ذمہ دار ہیں ، انہیں ملک میں حق کی حکمرانی ، خدا کی حکمرانی قائم کرنے میں باہمی مدد کرنی ہوگی۔

امر بالمعروف کا فریضہ؛ یہ ایک عوامی فریضہ ہے اور سب سے اہم "معروف" حق اور عدل کی حکمرانی ہے۔ معاشرے میں ایک عدلاکی حکومت، حق کی حکومت ہونی چاہئے۔ لوگوں کو اس معروف کا حکم کرنا چاہئے۔ یہ فریضہ لوگوں کی ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔ یا معاشرتی انحرافات کے مقابلے کی ضرورت کا مسئلہ ، جسے امیر المومنینؑ نے خطبہ شقشقیہ میں حکومت کو قبول کرنے کی ایک وجہ کے طور پر بیان کیا ہے: وَ ما اَخَذَ اللّہُ عَلَی العُلَماءِ اَلّا یُقارّوا عَلیٰ کِظَّۃِ ظالِمٍ وَ لا سَغَبِ مَظلوم (9) یعنی خداوند متعال نے علماء سے یہ عہد لیا ہے کہ- بعد ہم عرض کریں گے علماء کے بارے میں- وہ سماجی فاصلوں، سماجی خلیجوں کے سامنے نہیں جھکیں اور سماجی دوریوں کو تسلیم نہیں کریں کہ ایک، زیادہ پیٹ بھرا ہونے کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہو جائے اور دوسرا بھوک کی وجہ سے۔ امیر المومنین نے "علماء" اس لیے فرمایا ہے کہ علماء کا طبقہ، ایک ممتاز طبقہ ہے اور اسی لیے ان پر اس حق کا اطلاق زیادہ ہوتا ہے، ان پر اس بات کی ذمہ داری زیادہ ہے، یا پھر اس وجہ سے ہے کہ علماء کا مطلب ہے جاننے والے؛ یعنی جس کو بھی اس کا علم ہو جائے، جو لاعلم ہے، فطری طور پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے لیکن جو مطلع ہو جائے، جسے علم ہو جائے، وہ فطری طور پر ذمہ دار ہوتا ہے۔ بنابریں یہ ایک عمومی ذمہ داری ہے۔ اب اس ذمہ داری کو کس طرح نبھایا جائے؟ یہ چیز، الگ الگ ادوار میں مختلف ہوتی ہے۔ آج انتخابات ہیں، ممکن ہے کسی دن کسی اور وسیلے سے ہو، لیکن یہ ذمہ داری موجود ہے۔ ایک طرف یہ 'ذمہ داری' اور دوسری طرف 'حق' یعنی مستقبل اور سرنوشست کے تعین کا حق موجود ہے۔ انسان آزاد ہیں، "لا تَکُن عَبدَ غَیرِكَ لَقَد خَلَقَكَ اللّہُ حُرّا" (10) امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے: تم دوسروں کے غلام نہ بنو، خدا نے تمھیں آزاد پیدا کیا ہے، تم خود انتخاب کرو، اپنے مستقبل کا تعین تم خود کرو؛ یہ اسلام کے مسلمہ اصولوں میں سے ہے۔

لہذا ، عوامی حکمرانی اور جمہوریت کا مسئلہ ان مذہبی تعلیمات پر مبنی کرتا ہے۔ یہ چیز قرآن میں ہے، حدیث میں ہے، نہج البلاغہ میں ہے، اور رسول کرمؐ اور امیرالمومنینؑ کے زمانے میں طرز عمل میں بھی، امیر المومنین خطبۂ صفین میں فرماتے ہیں: لا تَکُفّوا عَن مَشوِرَۃٍ بِحَقٍّ او مَقالَۃٍ بِعَدل (11) یعنی جھجک نہ دکھاؤ، مجھ سے کہو، میرے کام میں، میری روش میں، میرے طریقۂ کار میں مداخلت کرو، اپنی رائے دو۔ ایسا ہی ہے. عوام کی ذمہ داری اور عوام کا حق، یقینی طور پر اسلام کے اندرون سے نکلتا ہے۔ یہ پہلا تناظر ہے۔

حکومتوں کو عوامی پشت پناہی کی ضرورت

دوسرا زاویہ، عوامی پشت پناہی اور عوامی سہارے کا زاویہ ہے، یہ بھی بہت واضح ہے۔ حکومت، صرف دینی حکومت ہی نہیں بلکہ کوئی بھی حکومت اگر عوامی پشت پناہی کے بغیر ہو اور عوام اس کے حامی نہ ہوں تو وہ تلوار اور کوڑے کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگی۔ یعنی اس حکومت کے باقی رہنے کا امکان نہیں ہے۔ اسلامی اور قرآنی حکومت بہرحال ظالم، تلوار چلانے اور عوام پر بے جا کوڑے برسانے والی حکومت نہیں ہے اس لیے وہ عوامی پشت پناہی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ بنابریں نہ تو اس بات کا امکان تھا کہ عوامی پشت پناہی کے بغیر اسلامی جمہوریہ وجود میں آئے اور نہ اس کے وجود میں آنے کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ وہ اپنی حیات جاری رکھ سکے۔ بحمد اللہ، اسلامی جمہوریہ ایران باقی ہے اور آئندہ بھی باقی رہے گا۔

دوسرا تناظر ، جو حمایت اور عوامی پشت پناہی کی ضرورت کا نقطہ نظر ہے، یہ بھی واضح ہے۔ حکومت ، صرف مذہبی حکومت نہیں ، [بلکہ] دوسری حکومتیں ، اگر وہ عوام کی حمایت کے بغیر ہیں، اور عوام ان کی حمایت نہیں کرتے ہیں تو انہیں تلوار اور کوڑے کے ذریعہ زندہ رہنا پڑے گا۔ یعنی حکومت کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اب ، اسلامی اور قرآنی حکومت عوام پر ظلم ، تلوار اور کوڑے برسانے والی حکومت نہیں ہے، لہذا یہ عوام کی حمایت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لہذا ، اسلامی جمہوریہ کے لئے عوام کی حمایت کے بغیر وجود میں آنا ممکن نہیں تھا، اور نہ ہی اس کے وجود میں آنے کے بعد بھی اس کا جاری رہنا ممکن تھا۔ الحمد للہ یہ جاری ہے ، یہ اسی طرح جاری رہے گا۔

اسلامی جمہوریہ مغرب سے ماخوذ شدہ نہیں بلکہ ایک خالص مذہبی نظریہ ہے 

بنابریں مذہبی ڈیموکریسی جسے اسلامی جمہوریہ کا عنوان ملا اور جس نے رسمیت حاصل کر لی اور جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے تجویز کیا تھا، ایک خالص دینی نظریہ ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک بہت ہی بے بنیاد بیان ہے کہ بعض لوگوں نے جو یہ کہا کہ امام خمینی نے الیکشن کو، جمہوریت کو اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو مغرب والوں سے تکلف اور شرما حضوری وغیرہ کے سبب لیا ہے۔ وہ امام خمینی جن کی ہم برسوں سے شناخت رکھتے تھے اور ان کے ساتھ کام کیا، لوگوں نے امام خمینی کو دیکھا، وہ ایسے شخص نہیں تھے کہ کسی کے تکلف میں اور لوگوں کی باتوں کی خاطر خدا کی حکمرانی ترک کردیں۔ نہیں، اگر مذہب میں جمہوریت نہ ہوتی ، دین اور خدا کی جانب سے نہ ہوتی تو امام خمینیؒ کوئی ایسی شخسیت نہیں تھی جو اس کے تابع ہوجاتے۔ آپ نے امام خمینی کی زندگی میں اسے واضح طور پر دیکھا ہے، جس دن انھوں نے حجاب کا مسئلہ اٹھایا، ایک واجب العمل مسئلہ کہ خواتین کو اجتماعی جگہوں پر حجاب کرنا ہوگا، اس وقت بہت سے لوگ اس کے مخالف تھے، یہاں تک کہ خود امام خمینی کے بعض قریبی افراد بھی۔ ان میں سے ایک شخص ایک دن میرے پاس آئے اور کہنے لگے: جناب! یہ کیسی بات ہے جو آقا (امام خمینی) کہہ رہے ہیں؟ آپ جائیے اور ان سے کہئے کہ اسے چھوڑ دیں، البتہ میرا بھی وہی خیال تھا جو امام خمینی کا تھا، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ مخالف تھے لیکن امام خمینی کی یہی رائے تھی اور انھوں نے ٹھوس طریقے سے حجاب کے مسئلے کو پیش کیا، جو بالکل صحیح بات تھی۔ اسی طرح کی دوسری باتیں بھی تھیں۔

امام خمینی کی جانب سے عوام کی توانائی اور عزم کی طاقت سے استفادہ اور اس قوم کی قوت اور وقار میں اضافہ

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نئی مذہبی سوچ پیش کی۔ اس نئے اور پیشرفتہ مکتب کو اور اسلام کے اس حسین اور حیرت انگیز تصور کو، جو اس روشن نظریے اور عمیق معرفت پر مبنی تھا، پیش کیا اور اس ٹھوس اور منطقی منصوبے کے ذریعے ایرانی قوم کو میدان میں لے آئے جو صدیوں سے استبداد اور آمریت کی عادی ہو چکی تھی۔ انھوں نے قوم کو ملک کا مالک بنا دیا اور ایسا انتظام کیا کہ ایرانی قوم نے اپنے آپ پر یقین کر لیا، اس میں خود اعتمادی آ گئی۔ آپ عزیز نوجوانوں کے لیے، جنھوں نے اسلامی انقلاب سے پہلے کا زمانہ نہیں دیکھا ہے، یہ جاننا بہت سخت ہوگا کہ ملک کیسا تھا؟ ہم نے اس میں زندگی گزاری ہے، اس زمانے میں سانسیں لی ہیں؛ اس زمانے میں عوام سرے سے ہیچ تھے۔ اگر کوئی، لوگوں سے یہ کہتا کہ آپ ملک کے مسائل میں مداخلت کر سکتے ہیں یا آپ کو اس کا حق ہے تو یہ بات عوام کے لیے ناقابل یقین تھی، عوام پوری طرح سے کنارہ کش کر دیے گئے تھے، ان کا کوئی کردار تھا ہی نہیں؛ خاص طور پر پہلوی آمریت کے سیاہ دور کے آخری زمانے میں، جس کے بیس تیس برس ہم نے دیکھے ہیں۔ یہ عوام، اس طرح کے نہیں تھے، انھوں نے بڑی گھٹن میں زندگی گزاری تھی۔ امام خمینی نے اپنے ایک اہم اقدام سے عوام کو میدان میں اتار دیا، جوانوں نے خود کو صحیح طریقے سے پہچان لیا، قوم کو اپنی شناخت ہو گئی، امام خمینی نے قوم کی توانائی اور عزم کی عظیم طاقت کو استعمال کیا اسے اپنی قیادت و ہدایات سے ایسے مرحلے میں پہنچانے میں کامیابی حاصل کی کہ قوم عظیم کام انجام دینے لگی، اس نے کئی ہزار سالہ سلطنت کو اکھاڑ پھینکا، امام خمینی عوام کو میدان کے بیچ میں لے آئے اور عوام کے دین، عوام کی معرفت، عوام کے فہم و شعور کے ساتھ ایسا کچھ کیا کہ وہ ڈٹ جائیں، استقامت کریں اور روز بروز زیادہ مضبوط ہوتے جائیں۔

کبھی اسلامی جمہوریہ ایک چھوٹا سا پودا تھا، آج تنومند و تناور درخت اور شجرۂ طیبہ بن چکا ہے جسے کوئی بھی طوفان اکھاڑ نہیں سکتا۔ بہت سے خوفناک واقعات سامنے آئے لیکن یہ قوم اپنے آپ کو ان خوفناک حوادث میں بچائے رکھنے میں کامیاب رہی، جیسے آٹھ سالہ جنگ۔ آٹھ سال تک دنیا کی ساری بڑی طاقتیں، ایک حکومت کی حمایت میں صف آرا ہو گئیں کہ وہ ہم پر حملہ کرے، اسے ہتھیار دیے، اہم اطلاعات دیں، اسے جنگی فنون سکھائے، اس کی مالی امداد کی، یہ سب کچھ کیا تاکہ وہ اسلامی جمہوریہ کو نابود کر سکے لیکن ایرانی قوم پوری طاقت سے ڈٹ گئی اور انھیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، دشمن کی خواہش کے برخلاف وہ نہ صرف یہ خود جھکی نہیں اور اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ اس نے اپنی قوت و عزت کے میدان کو مزید وسعت دی۔

امام خمینی کی نظر میں عوام کے امور کا چارۂ کار: اسلامی موقف اور امور چلانے میں عوامی مطالبوں کی حکمرانی

امام خمینی، ان دو لفظوں، 'جمہوری' اور 'اسلامی' کو ملک کی مشکلات کا عقدہ کشا سمجھتے تھے۔ وہ ملک کے تمام مسائل کا حل یہی سمجھتے تھے کہ ہم اسلام پر عمل کریں اور عوام، میدان میں موجود رہیں؛ امام خمینی کا عقیدہ یہ تھا۔ یہ جو انھوں نے کہا کہ "نہ ایک لفظ کم، نہ ایک لفظ زیادہ" تو ایک لفظ کم یعنی بغیر اسلامی کے جمہوریہ یا جمہوریہ کے بغیر اسلامی؛ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ امام خمینی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ۔ یعنی اسلام کی حکمرانی اور عوام کی حکمرانی، یہ دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اسلام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ ڈھانچہ، اقدار اور موقف اسلام طے کرے گا، عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ حکومت چلانے کی روش اور شکل عوام طے کریں گے۔ اسلام کی حاکمیت، عوام کی حاکمیت، عوام کا ارادہ، مؤثر، اسلام کے احکام میں اثر بھی ہے، ان سب کو امام خمینی عقدہ کشا سمجھتے تھے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ملک کے تمام کاموں میں مشکلات کو دور کرنے والی یہی چیز ہے۔ ہم نے جب بھی عوام کو کام میں شامل کیا اور اسلام کی پابندی کی، آگے بڑھتے چلے گئے، امام خمینی کے دور میں بھی اور ان کی وفات کے بعد سے اب تک کے ان دسیوں برس میں بھی۔ میں یہ بات پوری صراحت سے اور تاکید کے ساتھ کہتا ہوں اور عوام کی آنکھوں کے سامنے موجود متعدد شواہد بھی اس کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ہم نے جہاں بھی عوام کو میدان میں اتارا، جہاں بھی اسلام کو اپنے کام کی کسوٹی اور اصل معیار قرار دیا، ہم نے پیشرفت کی؛ جہاں بھی ان دونوں میں سے کوئی ایک لڑکھڑایا، ہم آگے نہیں بڑھ سکے۔ فرض کیجیے کہ ہم عوام کو معاشی مسائل میں میدان میں اتار دیں، یہ جو میں کئی برس سے بار بار کہہ رہا ہوں کہ چھوٹے اور متوسط کارخانوں کو فروغ دیں، مدد کریں اور انھیں بڑھائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے اور متوسط کارخانے دسیوں لاکھ انسانوں کو روزی فراہم کرتے ہیں، یہ دسیوں لاکھ لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ عوام کی موجودگی ہی تو ہے، اگر ہم نے اس کی تقویت کی ہوتی تو آج ہماری معاشی حالت اس سے بہتر ہوتی۔

مختلف دیگر مسائل میں بھی ایسا ہی ہے۔ اگر ملک کے محترم عہدیداروں کے درمیان یہ بات رائج ہو جائے کہ وہ اسلامی مسائل کو بھی نظر میں رکھیں یعنی اسلامی حدود کی پوری طرح سے پابندی کریں ملکی مسائل میں بھی، غیر ملکی مسائل میں بھی، معاشی مسائل میں بھی، ثقافتی اور سیاسی مسائل میں بھی، اور عوام کی موجودگی کو بھی یقینی بنائیں یعنی کوئی ایسا میکینزم وجود میں لائیں کہ عوام کا ارادہ، عوام کی موجودگی اور عوام کی مرضی دخیل ہو سکے تو ملک کی تمام مشکلات دور ہو جائیں گی۔

نظام کے اسلامی ڈھانچے کے بارے میں امام خمینی کی نظریہ اور ان کی رائے اور بیانوں میں اسلام کی خصوصیات

تو اصل بات یہ تھی۔ امام خمینی کی باتیں بہت اہم ہیں۔ انھوں نے بڑی عجیب باتیں کی ہیں۔ میں نے ان کا ایک مختصر سا جملہ نوٹ کیا ہے جو میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ اسلام کے بارے میں بھی اور جمہوریت کے بارے میں بھی امام خمینی کی بڑے واضح اور ٹھوس باتیں ہیں۔ اسلام کے بارے میں وہ رجعت پرستوں کے اسلام اور التقاطیوں خوشہ چینوں (12) کے اسلام دونوں کو بڑے ٹھوس طریقے سے مسترد کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ رجعت پرستوں کو مسترد کرتے ہیں اور دوسری طرف التقاطیوں خوشہ چینوں کو، یعنی وہ افراد جو اسلام کے نام پر دوسروں کی باتیں، اپنے مخاطب کے سامنے اور معاشرے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ امام خمینی ان لوگوں کو بھرپور طریقے سے مسترد کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں اسلام، وہ اسلام ہے جو انصاف پسند ہے، سامراج مخالف ہے، بدعنوانی کے خلاف ہے، یہ سب، امام خمینی کی باتوں میں واضح ہے؛ ان کی وصیت میں بھی ہے اور ان کے بیانوں کی شائع شدہ بیس بائیس جلد کی کتاب میں بھی ہے۔ ہم نے تو یہ باتیں خود براہ راست امام خمینی کی زبان سے سنی ہیں، جو لوگ نہیں تھے اور جنھوں نے انھیں نہیں دیکھا ہے وہ ان بیانوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ امام خمینی کی باتیں پوری طرح سے واضح ہیں۔

امام خمینی جس اسلام پر عقیدہ رکھتے تھے وہ سامراج مخالف ہے، یعنی امریکا کے خلاف ہے، اغیار کی تسلط پسندی کے خلاف ہے، ملک کے داخلی امور میں اغیار اور باہری طاقتوں کی مداخلت کے خلاف ہے، دشمن کے مقابلے میں گھٹنے ٹیکنے کے خلاف ہے۔ بدعنوانی کا مخالف اسلام، وہ اسلام ہے جس پر امام خمینی عقیدہ رکھتے ہیں، وہ اسلام کسی کو بھی خصوصی امتیازات دیے جانے کا مخالف ہے۔ بعض شعبوں میں بدعنوانی کی موجودگی کے بارے میں جو چیزیں سامنے آتی ہیں وہ یقینی طور پر اسلام کے خلاف ہیں۔ اسلام، وہ اسلام ہے جو بدعنوانی سے مقابلہ کرے؛ اسلامی حکومت، وہ حکومت ہے جو بدعنوانی سے لڑے۔ اسلام رجعت پرستی کے خلاف ہے یعنی پرانے پچھڑے ہوئے افکار کو اس طرح زندگی کے میدان میں داخل کر دینا، نئے اسلامی افکار اور امام خمینی کے نئے افکار سے دوری اختیار کرنا۔ اسلام، اشرافیہ کلچر کے خلاف ہے، اسلام محرومین کا حامی ہے۔ اسلام، سماجی فاصلوں کا مخالف ہے، امیر اور غریب کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کے خلاف ہے۔

امام خمینی اپنی مبارک عمر کے اواخر میں، اپنی وفات سے کچھ مہینے پہلے اپنے ایک خط میں، ایک عہدیدار کو اس طرح لکھتے ہیں: آپ کو یہ دکھا دینا چاہیے کہ ہمارے عوام نے ظلم، ناانصافی اور رجعت پرستی کے خلاف قیام کیا اور خالص محمدی اسلام کو، شاہی اسلام، سرمایہ دارانہ اسلام، التقاطی اسلام اور ایک لفظ میں امریکی اسلام کی جگہ لے آئے۔ (13) یہ جنوری، سنہ انیس سو نواسی کا خط ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ یہ انقلاب کے آغاز کے جوش و خروش کے زمانے کا ہے، نہیں! امام خمینی نے اپنی وفات سے کچھ مہینے پہلے یہ خط لکھا تھا۔ بنابریں، اسلام کے بارے میں امام خمینی کا نظریہ اس طرح کا ہے۔

انتخابات؛ امام خمینی کی نظر میں جمہوریت اور عوامی شراکت کا مظہر

امام خمینی الیکشن کو جمہوریت کا مظہر سمجھتے تھے اور ایسا ہے بھی، یعنی آج ڈیموکریسی اور عوامی موجودگی، انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں کوئی وقت ایسا بھی آئے کہ انتخابات لایعنی ہو جائیں، عوامی موجودگی اور عوامی رائے کے اظہار کے لیے کچھ دوسرے طریقے سامنے آ جائیں، آج الیکشن ہے، امام خمینی کے زمانے میں بھی الیکشن تھا۔ انتخابات کے بارے میں امام خمینی کی کچھ بڑی اہم باتیں ہیں، جیسے: وہ انتخابات کو مذہبی فریضہ سمجھتے تھے؛ انھوں نے انتخابات کے سلسلے میں شرعی فریضے کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان کی وصیت میں ایک جملہ بڑا ہی متنبہ کرنے والا ہے، وہ فرماتے ہیں: "الیکشن میں شرکت نہ کرنا، بعض موقعوں پر ممکن ہے کہ گناہِ کبیرہ میں سر فہرست قرار پائے۔" الیکشن کے بارے میں امام خمینی کا نظریہ یہ ہے۔ یا ایک اور جگہ پر وہ فرماتے ہیں: "انتخابات میں شرکت میں کوتاہی کے کچھ دنیوی نتائج ہیں جو ممکن ہے کئی نسلوں تک سامنے آتے رہیں اور خداوند عالم بھی اس کا مؤاخذہ کرے۔" یہ امام خمینی کے فرامین ہیں اور انھی بیانوں کے ذریعے اور انھی ٹھوس قدموں کے ذریعے انھوں نے اسلامی جمہوریہ کو کھڑا کیا اور اسے مضبوط بنایا۔ بحمد اللہ امام خمینی کی وفات کے بعد ایرانی قوم نے اس الہی تحفے کو، یعنی اس مذہبی جمہوریت کو، جو ایک عطیۂ الہی تھا اور امام خمینی کے ہاتھوں، ایرانی قوم کو دیا گیا تھا، محفوظ رکھا ہے۔

دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی استقامت

ایرانی قوم، ایران کے دشمنوں اور ایرانی دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں، جنھوں نے مختلف طرح کی سازشیں کیں اور چالیں چلیں تاکہ عوام کو اس نظام سے دور کر دیں اور اسلام اور مذہبی ڈیموکریسی پر سے ان کا عقیدہ ختم کروا دیں، پوری طرح سے ڈٹ گئی اور اس نے ان سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ دشمن جب بھی اور جس شکل میں بھی سامنے آیا، اسے ایرانی قوم کی فولادی دیوار کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی ایسا ہی ہے، آج بھی دشمن کمین میں ہے، ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے اس نے بڑی امیدیں لگا رکھی ہیں لیکن اسے ایرانی قوم کے مضبوط حصار اور فولادی دیوار کا سامنا ہے۔ دشمنوں نے سیکورٹی کے میدان میں بھی سازشیں کیں، اقتصادی میدان میں بھی کھل کر دشمنی کی اور نظریاتی یلغار بھی کی لیکن ان سب میں انھیں ہزیمت اٹھانی پڑی۔

اسلامی جمہوریہ اور اس کی اسلامیت پر ضرب لگانے کے لیے دشمنوں اور مخالفین کی مختلف سازشیں

افسوس کی بات ہے کہ ایسے لوگ پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں جو دشمنوں کی باتوں کو کسی نہ کسی طرح ملک کے اندر دوہراتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے: 'آئیڈیالوجی کا خاتمہ'۔ یہ وہی مخالفین کی بات ہے۔ آئیڈیالوجی کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ اور مذہبی ڈیموکریسی کے سلسلے میں اسلام اور اسلامی افکار کو کنارے رکھ دیں اور اسی منحرف اور فاسد لبرل ڈیموکریسی کی سوچ کو اپنا لیں، جس نے آج پوری دنیا کے لوگوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ کچھ لوگ کسی دوسرے رخ سے بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دین کا تقدس اس میں ہے کہ وہ کنارے چلا جائے، یہ وہی بات ہے جو انقلاب کے آغاز میں کہی جاتی تھی۔ یہ دشمن کی بات بھی ہے اور ساتھ ہی انھی باتوں کی تکرار بھی ہے جو اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور انقلاب کے آغاز میں کہی جاتی تھیں۔ کچھ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ "اگر ہم اسلامی اصولوں کی پابندی کرنا چاہیں تو یہ جمہوریت سے میل نہیں کھاتی" یہ بات بھی اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کے دشمنوں کی باتوں کا ہی حصہ ہے لیکن ممکن ہے کہ بعض افراد، غفلت کی وجہ سے یہ بات کہہ رہے ہوں۔ میں یہ الزام نہیں لگاتا کہ جو بھی یہ بات کرے گا، وہ یقینی طور پر دشمن کا پٹھو ہے، نہیں! ممکن ہے کہ کبھی یہ بات غفلت کی وجہ سے کہی جائے لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بات، دشمن کی بات ہے اور دشمن چاہتا ہے کہ اسلامیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ کچھ لوگ جمہوریت کے لیے ہمدردی دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "جناب! جمہوریت کا جنازہ نکل گیا" لیکن اصل میں یہ لوگ جمہوریت کے زیادہ ہمدرد نہیں ہیں، یہ اسلامیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اسلام کو کنارے لگانا چاہتے ہیں تاکہ اس کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ حقیقت میں یہ بہت بڑی بھول ہوگی کہ ہم جمہوریت کو اسلامی افکار اور روح اسلامی سے دور کر دیں۔

آئین نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ آپ دیکھیے کہ آئین میں سیاسی و مذہبی افراد کو صدر، حکومت کے سربراہ اور مجریہ کے سربراہ کی حیثیت سے ملک کے تمام مسائل سپرد کیے گئے ہیں۔ یہ 'سیاسی و مذہبی افراد' کی قید کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ وہ سیاست کے میدان میں ملک کی مصلحت کو مد نظر رکھ سکیں، عوام کے اعتقادات اور عوام کے دین کے میدان میں لوگوں کی ہدایت اور مدد بھی کر سکیں اور دونوں میدانوں میں عاقلانہ طریقے سے کام کر سکیں۔ اسی طرح سے تقوی اور امانت داری کا مسئلہ، جس پر آئین میں تاکید کی گئی ہے، بہت ہی اہم مسئلہ ہے اور آئین نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔

انتخابات میں عدم شرکت یعنی نظام کی اسلامیت اور جمہوریت؛ دونوں ارکان کو کمزور بنانا

آج کل انتخابات کے ایام ہیں اور ہم انتخابات کے قریب ہیں۔ بحمد اللہ الیکشن کا ماحول دھیرے دھیرے رنگ پکڑ رہا ہے۔ بعض لوگ ہیں جو بے بنیاد بہانوں سے الیکشن میں شرکت کے فریضے کو انجام نہیں دینا اور اسے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کام، دشمنوں کی خواہش کے مطابق ہے جو ایران کے دشمن ہیں، اسلام کے دشمن ہیں اور مذہبی جمہوریت کے دشمن ہیں۔ یہ دونوں ارکان نمایاں طور پر نظر آنے چاہیے؛ جمہوریت بھی اور اسلامیت بھی۔ ان میں سے جسے بھی کمزور بنایا جائے گا، یقینی طور پر اسلام اور ایران، دونوں کو نقصان پہنچے گا، دونوں پر دشمن کی ضرب لگے گی۔

موجودہ مسائل کا حل، صحیح انتخاب سے ہوگا، عدم انتخاب سے نہیں

کچھ جملے میں موجودہ الیکشن کے بارے میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ، معاشی دباؤ کی وجہ سے، جسے ہم سب جانتے اور محسوس کرتے ہیں، اس شش و پنج میں ہیں کہ الیکشن میں حصہ لیں یا نہ لیں؛ یا بعض افراد کہہ رہے ہیں کہ "ہم نے الیکشن میں کسی امیدوار کو بڑے ولولے اور شوق سے ووٹ دیا لیکن بعد میں ہمیں مایوسی ہی اٹھانی پڑی! اس لیے بہتر ہے کہ الیکشن میں شرکت ہی نہ کریں۔" اس طرح کی اور بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ میرے خیال میں یہ دلیلیں صحیح نہیں ہیں۔ یہ باتیں، انتخابات میں شرکت کے ہمارے جوش کو کم نہ کریں۔ اگر مسائل ہیں، اگر نااہلی ہے تو ہم صحیح انتخاب اور اچھے انتخاب کے ذریعے اس کی تلافی کریں، نہ کہ عدم انتخاب سے۔ اگر واقعی انتظامی امور میں کوئی کمزوری ہے تو اس کا علاج اور چارۂ کار کیا ہے؟ چارۂ کار یہ ہے کہ ہم انتظامی امور میں بالکل بھی مداخلت ہی نہ کریں یا چارۂ کار یہ ہے کہ ہم مداخلت کریں اور ایک اچھی اور صحیح انتظامیہ کو وجود میں لائیں جو حقیقی معنی میں اسلامی بھی ہو اور عوامی بھی ہو؟ اس کا چارۂ کار یہی ہے نا؟ مطلب یہ کہ اگر کوئی ناراضگی ہے تو اس کی اس طرح تلافی کی جائے، انتخاب میں شرکت ہی نہ کرنے سے تو تلافی نہیں ہوگی۔

 

امیدواروں کی پچھلی کارکردگی سے ان کی اہلیت اور نعروں کی سچائی کا جائزہ لیا جائے

الیکشن میں بہت زیادہ غور کیا جانا چاہیے۔ میں زور دے کر کہتا ہوں کہ باتوں اور وعدوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ دوسروں کے سلسلے میں بھی ہم یہی بات کرتے ہیں، غیر ملکیوں کے بارے میں جو ہمیشہ صرف بات اور وعدے ہی کرتے ہیں، میں اسی ایٹمی مسئلے میں، جس پر مذاکرات جاری ہیں، محترم عہدیداروں سے ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ باتوں اور وعدوں پر اعتماد نہ کریں۔ بات تو عمل سے ہی بنتی ہے۔ بولنے، بات کرنے اور وعدہ کرنے پر تو بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے اہم مسائل میں بھی ایسا ہی ہے۔ بولنا تو بہت آسان ہے۔ کوئی بھی آ کر ایک دعوی کرتا ہے، ایک وعدہ کرتا ہے، ایک بات کہتا ہے، ان پر تو اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنا پڑے گا کہ ماضی میں اس شخص کا کوئی ایسا عمل ہے یا نہیں جو اس کے وعدے کی تصدیق کر سکے؟ اگر ہے تو اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ بنابریں کسی کی اہلیت اور اس کے کارآمد ہونے کو صرف باتوں سے طے نہیں کیا جا سکتا۔

امیدواروں کے لیے کچھ نکات: (1) بغیر سوچے سمجھے وعدہ کرنے سے گریز

مجھے خود محترم امیدواروں سے بھی کچھ توقعات ہیں جنھیں میں عرض کر رہا ہوں۔ ایسے وعدے نہ کریں جنھیں پورا کرنے کا انھیں، یقین نہ ہو۔ یہ وعدے ملک کے لیے نقصان دہ ہیں؛ کیوں؟ اس لیے کہ آپ کوئی وعدہ کریں گے اور پھر اگر آپ صدر بن گئے اور اس وعدے کو پورا نہیں کیا تو آپ عوام کو مایوس کریں گے، عوام کو نظام کی طرف سے مایوس کریں گے، انتخابات کی طرف سے مایوس کریں گے۔ بنابریں ایسے وعدے کرنا جائز نہیں ہے جنھیں پورا کرنے کا امیدواروں کو یقین نہ ہو۔ البتہ وہ ایسے وعدے کر سکتے ہیں جو پوری طرح سے واضح ہیں، مسلّم ہیں اور متعلقہ لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ وعدے پورے ہو سکتے ہیں لیکن ایسے وعدے نہیں کیے جانے چاہیے کہ "میں یہ کر دوں گا، وہ کر دوں گا" جبکہ ان کی کوئی پشت پناہی نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے عوام کو مایوسی ہوتی ہے اور یہ گناہ ہے۔

(2) ایسے نعرے پیش کرنے سے پرہیز جن پر خود ہی عقیدہ نہ ہو

صدارتی الیکشن کے محترم امیدواروں سے ایک توقع یہ بھی ہے کہ وہ ایسے ہی نعرے پیش کریں گے جن پر ان کا عقیدہ ہو۔ ہم افراد کو پہچانتے ہیں، جانتے ہیں کہ شاید دل میں وہ اس نعرے کو تسلیم ہی نہ کرتے ہوں؛ یہ صحیح نہیں ہے، عوام کے ساتھ ایمانداری سے پیش آنا چاہیے۔ خدانخواستہ ایسے نعرے نہ لگائے جائیں، جن پر خود امیدوار ہی کو یقین نہیں ہے۔

(3) امیدواروں کی جانب سے سماجی انصاف، بدعنوانی سے مقابلے، ملکی پیداوار کی مضبوطی کی پابندی

امیدواروں سے ایک اور توقع یہ ہے کہ وہ ٹھان لیں کہ اگر الیکشن میں کامیاب ہوئے تو اپنے آپ کو کچھ باتوں کا پابند سمجھیں گے۔ پہلی چیز یہ کہ سماجی انصاف قائم کرنے اور غریب و امیر کے فاصلے کو کم کرنے کے پابند رہیں گے۔ یعنی اس کام کو اپنے سب سے بنیادی کاموں میں قرار دیں گے۔ دوسرے یہ کہ بغیر کسی تکلف کے، بغیر کسی کا خیال کیے ہوئے بدعنوانی سے مقابلہ۔ خود کو اس کا پابند سمجھیں کہ وہ بدعنوانی سے مقابلہ کریں گے، خود کو اس کا پابند سمجھیں کہ وہ ملکی پیداوار کو تقویت پہنچائیں گے۔ ہم نے بارہا عرض کیا ہے اور یہ معاشیات کے ماہرین کی بھی رائے ہے، حقیر نے بھی اس بات پر کئی بار تاکید کی ہے کہ ملک کے اقتصادیات کی نجات کا راستہ، ملکی پیداوار کی تقویت ہے۔ ملکی پیداوار کی تقویت، اسمگلنگ کی روک تھام، بے لگام درآمدات پر روک، ان لوگوں سے مقابلہ جو درآمدات کے ذریعے اپنی جیب بھرتے ہیں اور ملکی پیداوار کے ذریعے درآمدات کو روکنے نہیں دینا چاہتے بلکہ درآمدات کے ذریعے ملکی پیداوار کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ امیدوار، اس طرح کے مقابلوں کو اپنے بنیادی اہداف میں سمجھیں اور اس کی پابندی کا وعدہ کریں۔ یہ آج کے امیدوار صاحب اپنے آپ کو اس کا پابند ظاہر کریں اور کھل کر کہیں کہ وہ اس کے پابند ہیں تاکہ اگر وہ الیکشن جیت گئے اور انھوں نے اپنے اس وعدے پر عمل نہیں کیا تو نگرانی کرنے والے ادارے ان سے سوال کر سکیں اور ان سے پوچھ سکیں کہ جناب آپ نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟

تمام لوگوں کی جانب سے سبھی کو الیکشن میں حصہ لینے کی دعوت دیے جانے کی ضرورت

میں نے پچھلے ہفتے(15) مجلس شورائے اسلامی کے محترم اراکین سے بات کی تھی اور ایک جملہ کہا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ جو لوگ اچھے مقرر ہیں وہ عوام کو الیکشن میں شرکت کی ترغیب دلائیں۔ یہ بات میں نے وہاں کہی تھی۔ اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ذمہ داری صرف ان لوگوں کی نہیں ہے جو اچھا بولتے ہیں بلکہ یہ عوام کے تمام طبقوں اور تمام افراد کی ذمہ داری ہے کہ خود تو الیکشن میں شرکت کریں ہی، دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ یہ حق کی تلقین ہے جو قرآن مجید میں ہے: "و تواصوا بالحق" (16) (اور وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے۔) یہ سب کا فریضہ ہے اور سبھی اسے انجام دیں، اہل خانہ، دوست، ساتھ کام کرنے والے، ساتھی اور جن سے بھی آپ کا سروکار ہے، سب کو الیکشن میں شرکت کی دعوت دیجیے۔

جن افراد کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ان میں سے بعض کی عوامی حیثیت کی بحالی کی ضرورت

میری باتیں پوری ہو گئیں۔ ایک ضروری انتباہ ہے جو میں اپنی باتوں کے آخر میں دینا چاہتا ہوں، یہ ایک دینی اور انسانی کام ہے، وہ انتباہ یہ ہے: امیدواروں کی اہلیت کی توثیق نہ ہونے کے عمل میں بعض افراد پر ظلم ہوا، ان کے بارے میں یا ان کے اہل خانہ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کہی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ قابل احترام اور پاکیزہ گھرانوں کو اس طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ غلط رپورٹیں تھیں اور بعد میں پوری طرح سے عیاں ہو گیا کہ وہ رپورٹیں غلط تھیں لیکن وہ لوگوں کی زبانوں پر آ گئیں اور افسوس کہ انھیں سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ سوشل میڈیا ہر نظارت سے آزاد ہے اور سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اس کی ایک مثال یہی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ طریقے سے ان چیزوں کو پیش کر دیا گیا۔ لوگوں کی عزت کی حفاظت کلیدی مسائل میں سے ہے، سب سے اہم انسانی حقوق میں سے ہے۔ میری درخواست ہے اور ذمہ دار اداروں سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ اس کی تلافی کریں۔ کسی کے بچے یا اس کے گھرانے کے بارے میں کوئی غلط رپورٹ دی گئی اور بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ غلط تھی، اس کی تلافی کی جائے اور اعادہ حیثیت عرفی کیا جائے۔

خداوند عالم ہمیں گناہ، ظلم اور مومن کی اہانت سے محفوظ رکھے۔ خداوند متعال ہمیں اپنے فریضوں کی خلاف ورزی سے محفوظ رکھے۔ خداوند عالم اپنے فضل اور اپنی رحمت سے اپنی وسیع رحمتوں کو امام خمینی کے شامل حال قرار دے، انھیں اپنے اولیائے عظام کے ساتھ محشور کرے اور برزخ و قیامت میں انھیں ہم سے راضی کرے۔ خداوند عالم شہداء کی پاکیزہ ارواح کو ہم سے خوشنود رکھے اور اپنے فضل و کرم سے ہمیں ان سے ملحق کرے۔ خداوند عالم ایرانی قوم کو نیکیاں نصیب کرے، اس الیکشن کو اس قوم کے لیے مبارک قرار دے اور اسے ان انتخابات میں قرار دے جنھوں نے دشمن کو دھول چٹائی ہے اور خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوگا، ان شاء اللہ۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

(1) ایران کا قومی محاذ

(2) چھٹی مجلس شورائے اسلامی کے بعض اراکین

(3) امریکہ کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی؛ جان بولٹن

(4) سورۂ نساء، آیت 64

(5) سورۂ توبہ، آیت 12 (اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ...)

(6) جامع‌الاخبار، صفحہ 119

(7) کافی، جلد 2، صفحہ 163

(8) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 216

(9) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 3

(10) نہج البلاغہ، خط نمبر 31،

(11) نہج البلاغہ، خطبۂ صفین

(12) قدیم فلاسفہ کے ایک گروہ کا نام جو ہر مکتب سے فلسفے کا کوئی نہ کوئی اصول لے کر اپنے نام سے فلسفی اقوال تیار کر لیا تھا۔ یہاں مراد ایسے افراد ہیں جو اسلام کے نام پر دوسرے مکاتب کے افکار پیش کرتے ہیں۔

(13) صحیفۂ امام خمینی، جلد نمبر 21، صفحہ نمبر 240، اسلامی انقلاب کی تاریخ کی تدوین کے لیے سید حمید روحانی کے نام لکھا گیا خط (5/1/1989)

(14) صحیفۂ امام خمینی، جلد نمبر 21، صفحہ نمبر 422

(15) مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے اراکین سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب (27/5/2021)

(16) سورۂ عصر، آیت نمبر 3