ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا برّی فوج کے اعلی افسروں اور کمانڈروں سے خطاب

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

آج کا دن میرے لئے بہت ہی شیریں اور پسندیدہ دن ہے  کہ مجھے آپ تمام عزیزوں ، بھائیوں اور مسلح افواج کے جوانوں اور آنکھوں کے نور کے اجتماع میں حاضر ہونے کا موقع ملا، میں  آپ سب کو قریب سے مشاہدہ کررہاہوں مجھے آپ کے سامنےچند جملے پیش کرنے کا موقع ملا ہے آپ  کی ان کارکردگیوں اور کارناموں سے استفادہ کروں جو آپ کے پاک و پاکیزہ اور نورانی قلوب کی دھڑکنوں اور جذبات کا مظہر ہیں ۔ فوج  کا یہ دن آپ سب کو مبارک ہو میری دعا ہے کہ آپ سبھی حضرات جن کی اکثریت نوجوان اہلکاروں پر مشتمل ہے اپنی زندگي کے اچھے ایام گزار رہے ہیں ، انشاء اللہ آپ ملک کے مستقبل کے لئے ملک کی عزت و سربلندی اور ایرانی قوم کے اقتدار کا ایک مظہر ، ایک محاذ اور ایک بلند نمونہ ثابت ہوں گے، خداوند متعال سے دعا کرتا ہوہے کہ وہ ایسی ہی صورتحال ہمیں نصیب فرمائے۔

بہت خوب الحمداللہ ۔بری فوج نے خاطر خواہ پیشرفت و ترقی حاصل کی ہے  جسے انسان واضح طور پرمحسوس کرسکتا ہے ترقی و پیشرفت اور کمال و ارتقاء کی یہ مبارک لہراسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل سے شروع ہوئی ہے ، اور کسی کو یہ تصور نہیں کرنا چآہیے کہ طاغوتی نظام کے دوران فوج میں مومن جوانوں کا فقدان تھا یا کم افراد پائے جاتے تھے، نہیں، ایسا نہیں ہے میرے اس دور میں بھی بعض فوجی افراد سے قریبی روابط تھے ، بعض افراد سے دوستانہ تعلقات تھے ، بعض لوگوں سے انقلابی اور جہادی رابطے تھے اس زمانے میں بھی فوج کے اندر مومن و صادق ، عاشق و دیندار انسانوں کی کمی نہیں تھی ، انسان ان لوگوں کو مختلف جگہوں اور موقعوں پر اور دینی و مذہبی اجتماعات میں دیکھتا تھا چنانچہ میں نے بھی دیکھا تھا دوسرے احباب بھی تھے جنہوں نے فوج کے اندر یا دیگر جگہوں انھیں مشاہدہ ہے اور ان سےآشنا ہیں ، البتہ انفرادی طور پر انسان کی سمت و سو کا معنی و مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور ادارے کے لحاظ سے انسان کی سمت و سو کا مطلب کچھ اور ہی ہوتا ہے جس وقت کسی معاشرے ، کسی ادارے یا کسی مجموعہ کی اجتماعی سمت و سو ، یا  اجتماعی ہدف و مقصد غلط ہو تو چاہے وہ معاشرہ کتنا ہی بڑا معاشرہ کیوں نہ ہو  اس کی کوششیں  نتیجہ تک نہیں پہنچ پائیں گی، اس دور میں کچھ ایسا ہی ماحول تھا ۔
حضرت امام  جعفرصادق علیہ السلام  سے منقول ہے، بظاہر حضرت امام صادق  علیہ السلام سے مروی ہے، کہ آپ نے حدیث قدسی سے نقل کیا ہے : لاعذّبنّ کلّ رعیّۃ فی الاسلام اطاعت اماما جائرا لیس من اللہ عزّوجلّ و ان کانت الرّعیّۃ فی اعمالھا برّۃ تقیّۃ ( بحار الانار جلد 25 ص 110) حدیث کا مضمون یہ ہے کہ اگرکسی معاشرے میں نظام کی باگ ڈور منحرف و فاسد ظالم و ستمگر انسانوں کے ہاتھوں میں ہو تو اس معاشرے میں موجود مؤمن افراد کا شخصی اور ذاتی  اقدام کسی منزل تک نہیں پہنچ پائےگا اور اس طرح کے معاشرے میں اگر لوگ تسلیم ہوجائیں اورظالموں کی مطیح بن جائیں تو خدا ان کو بھی عذاب میں مبتلا کردے گا ۔البتہ اسی حدیث میں اس کا دوسرا رخ بھی ہے ۔و لاعفونّ عن کلّ رعیّۃ فی الاسلام اطاعت اماما ھادیا من اللہ عزّوجلّ و ان کانت الرّعیّۃ فی اعمالھا ظالمۃ مسیئۃ "
اس کی تشریح کی ضرورت ہے صرف اس کے ظاہر پر ہی اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ مطلب کا خلاصہ اور مطلب کی جان یہ ہے کہ اگر کسی نظام میں ، کسی مجموعے میں ایک ملک کے اندر، ایک معاشرے میں ، حکمراں نظام ایک الہی نظام ہے ، ایک عادلانہ نظام قائم ہے تو وہ لوگ جو اس اسلامی نظام کے مطیع و فرمانبردار ہیں  وہ الہی عفو و رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں ولو یہ کہ ان سے کبھی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں ۔
آپ اس کو ایک ملک ، ایک امت اور ایک معاشرے کے سانچے میں شمار کرسکتے ہیں ایک بڑے ادارے کے ڈھانچے میں ، ایک ملک کی فوجی یونٹ کے دائرے میں بھی اس کو دیکھ سکتے اور شمار کرسکتے ہیں۔
اس  طاغوتی دور میں فوج نااہلوں کے تصرف و اختیار میں تھی، مگر جس وقت عوامی تحریک شروع ہوئی مؤمنین کے ایک گروہ اور ایمان کے اعلی سطح پر فائز کچھ عناصر نے اپنی راہ پہچان لی اور اپنی حیثیت و مقام کو جان لیا، انقلاب کی کامیابی کے ان ہی ابتدائی دنوں سے افراد آئے اور انہوں نے انقلابی عناصر کی مدد کی ۔ فوج کے ساتھ ایک مشترکہ زبان پیدا کرنے اور ان کے ساتھ ہم آواز ہونے کے لئے یہ ضروری تھا ، خوب ، ایک دوسرے سے کوئی آشنائی نہیں تھی نہ حکام، نہ انقلابی ، نہ مجاہدین ، نہ علماء نہ یونیورسٹیوں کے دانشور حضرات ، فوج سے کسی کا کوئی سروکار نہیں تھا، کوئی مشترکہ زبان و آواز نہیں تھی، انقلاب کی برکتوں سے یہ مشترک زبان پیدا ہوگئی ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا  فوجی ادارہ آج ہمارے ملک کے اہم عوامی اداروں میں شامل ہے، ان اہم اداروں میں اس کا شمار ہوتا ہےجن کے ذریعہ ملک اور نظام کی عمارت تعمیر ہوئی ہے ، جب ہم فوج پر نظر ڈالتے ہیں ، تو ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ ادارہ لوگوں سے قریب تر ، لوگوں کی خواہشات کے مطابق اور لوگوں کے احساسات و جذبات سے نزدیک تر ہے اور عوامی خدمات اور امداد میں نمایاں طور پر سب سے آگے ہے

یہ عنصر اور یہ جذبہ بڑا قیمتی جذبہ ہے اور یہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے یہ درست ہے کہ دنیا میں فوجیں ، قومی مفادات کی حفاظت کے نعرے لگا کرہی وجود میں آتی ہیں اور استعمال کی جاتی ہیں لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے ؟ کیا امریکی افواج عراق میں یا امریکی افواج افغانستان میں،امریکہ کے قومی مفادات کی حفاظت کررہی ہیں ؟ امریکی عوام کو افغانستان پر فوجی قبضہ سے کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ؟ کیا امریکی قوم  افغانستان میں عوام کے قتل عام سے راضی ہیں ؟ یہ کہ امریکہ کے زرخرید اور مزدور فوجی جوان آئیں، اور افغانستان میں لوگوں کے بدن چھلنی کریں اس کے بعد ان کے جنازوں کو پامال اور پھر ان کے جنازے اوربدن کے ٹکروں کے ساتھ یادگار کے طور پر تصویریں بنوائیں کیا یہ اقدام  امریکی قوم کےمفادات کے حصول کے لئے ہے؟! اگر کوئی امریکی حکمرانوں سے سوال کرے کہ جناب ! اس قدر وسیع فوج اور اتنے جدید اور غیر معمولی سطح کے فوجی ساز و سامان کی آپ کو کیا ضرورت ہے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے : قومی مفادات کے لئے !! لیکن کیا اس میں صداقت پائی جاتی ہے ؟ ! دنیا میں ہر جگہ تقریبا یہی صورت حال ہے یقین کے ساتھ میں اس کا دعوی نہیں کررہا ہوں ، تحقیق کریں تو ایسی ہی صورتحال سامنے آئے گي۔ چونکہ مجھے اس سلسلے میں مکمل اطلاع نہیں ہے ؛ ممکن ہے کسی جگہ یہ بات پوری طرح صادق نہ آتی ہو لیکن جو کچھ ہم نے مشاہدہ کیاہے اور ہمیں معلوم ہواہے دنیا میں اکثر یہی صورت حال ہے فوجیں قومی مفادات کے نام پر تشکیل پاتی ہیں لیکن قومی مفادات کی راہ میں عمل نہیں کرتیں بلکہ سیاسی جاہ طلبی کے کام آتی ہیں تاریخ کے طویل دور میں یہی کچھ ہوا ہے فوجیں یہاں سے حرکت میں آئيں ، دسیوں لاکھ سے بھی زائد جوانوں کو ساتھ لیا، یونان کی طرف چل پڑیں یہ ہمارے طاغوت کے تاریخ افتخارات میں سے ہے خشایار شاہ نے یونان پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے ، جس میں بعد میں شکست ہوئی اور ٹوٹے جہاز اور نابودی کے ساتھ ملک واپس ہوئے ۔ یہ سب کچھ قومی مفادات کے لئے نہیں ہوا ۔تاریخ کے طویل دور میں دنیا کی فوجیں ، جہاں تک ہم کو معلوم ہے اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے اور میری اور آپ کی جہاں تک معلومات ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ فوجیں کبھی قومی مفادات میۂ استعمال نہیں کی گئیں اور آج بھی ہم دنیا میں یہی کچھ مشاہدہ کررہے ہیں زيادہ تر یہی صورت سامنےہے  فوجیں  یا تو شخصی قوت و اقتدار کی توسیع کے لئے استعمال کی گئی ہیں یا طاغوتی قوتوں کی حفاظت کے کام آئی ہیں ۔انقلاب کے اوائل میں ان ہی شاہی محلوں میں سے ایک محل کے باہربری فوج کا حفاظتی دستہ تعینات تھا محل کےباہر ایک بورڈ آویزاں تھا جس کے اوپر کچھ اس طرح کی عبارت لکھ ہوئی تھی کہ : ہماری ، یعنی فوج کی ، بنیادی طور پر تشکیل کا مقصد طاغوت کی جان کی حفاظت کرنا ہے ! لہذا اس چیز کا قومی مفادات سے کتنا فاصلہ ہے ۔ اب اگر ہم دنیا میں ایک ایسی فوج دیکھیں کہ اس کے اعتقادات وہی ہوں جو عوام کے اعتقادات ہیں وہی احساسات ہوں جو قوم کے احساسات ہیں وہ خود بھی کسی خاص شخص یا افراد کے لئے نہیں بلکہ عوام الناس کے لئے کام کررہی ہو اور حقیقی معنی میں قومی مفادات کے لئے کام کرے تو یہ فوج بہت زيادہ لائق اور قابل قدر فوج ہوگی؛ اس فوج کو آپ نے تشکیل دیا ہے مجھے اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی ۔ اب وہی ان ملکوں کی بات ، جہاں تازہ ترین انقلاب آئے ہیں دیکھتے ہیں کیا نتیجہ سامنے آتا ہے اور وہ کیا کام کرتے ہیں ، لیکن اب تک تو مجھے اس طرح کی فوج کہیں نظر نہیں آئی ۔ ایک ایسی فوج جو نہ کسی شخصی اقتدار پسندی کے لئے ہو اور نہ ہی کسی شخص کے ساتھ اس کا خاتمہ وابستہ ہو ؛ میں اس بات پر تاکید کرنا چاہتا ہوں نہ اس بات سے خدا راضی ہوگا؛ نہ اسلامی احکام اجازت دیتے ہیں کہ تم میں سے کوئی کہے کہ ہماری فوج یا ہماری فوجی طاقت یا ہمارے عناصر، فلاں شخص کےلئے جان دیدیں ، نہیں یہ صحیح نہیں ہے  ہاں اسلام کی خاطر سب جان دیدیں ، فلاں شخص بھی اسلام کی خاطر مرجائے ملک کی خود مختاری کا پرچم سربلند رکھنے کے لئے جان دیدے، جو ایک اسلامی ملک ہے سب لوگ تیار ہیں اس راہ میں مرنے کےلئے  سب آمادہ رہیں  کیونکہ اس موت کا نام شہادت ہے اسی صورت میں یہ فوج الہی فوج اور معنوی فوج کہلائے گی ۔ یہ فوج اسلامی فوج کہی جائے گی ؛ یہ وہی شجرۂ طیبہ ہے کہ جس کے بارے میں ، میں نے عرض کیا انقلاب کے آغاز سے لیکرآج تک یہی ہدف و مقصد رہا ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم اس ہدف سے ہر روز نزدیک سے نزدیک تر ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ بات میں آپ سے عرض کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے تیس بتیس سال کے اس طویل دور میں فوج کی اس حرکت کو بہت قریب سے دیکھا ہے انقلاب اسلامی کے بعد  میں 17 اپریل کو سب سے پہلی فوجی پریڈ میں موجود تھا اس وقت سنہ 1979ء میں حضرت امام ( رح) اسپتال میں داخل تھے وہیں اسپتال کے سامنے ایک ڈائس تیار کیا گیا اور فوجی دستے آئے اور سلامی دی اورحضرت امام (رضوان اللہ علیہ ) نے اس دن کو فوج کا دن قراردیا، میں ابتدا ہی سےفوج کے حالات سے باخبر ہوں آپ کے درمیان اس اجتماع میں جو یہاں موجود ہے ، وہ لوگ جو ادھر تیس سال سے فوج میں ہیں ایسا، شاید کوئی نہ ہو کہ جس کی فارغ التحصیلی کے جشن میں میری شرکت نہ ہوئی ہو بظاہر میں آپ لوگوں کے درمیان ایک ایک شخص کی فارغ التحصیلی کے جشن اور  فوجی  گریڈ کی تقسیم میں موجود رہا ہوں آپ لوگ جو کالج میں گئے ہیں ، افسر بنے ہیں اور آپ کے شانوں پر نشان لگے ہوئے ہیں ، میں نے دیکھے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری فوج نے بیس سال پہلے کی نسبت، پندرہ سال پہلے کی نسبت ، بہت ترقی کی ہے ، اور انقلاب کے بعد سے تو بہت زيادہ ترقی ہوئی ہے ، یہ ایک اچھی پیش رفت ہے اس پیش رفت کو جاری رہنا چاہیے یہ پیشرفت وہ پیشرفت ہے کہ جس میں دنیا اور آخرت کی سعادت و کامرانی ہے ۔
آج ایک انقلابی لہر دنیا میں پیدا ہوچکی ہے جس کو سب جانتے اور پہچانتے ہیں کہ یہ انقلابی لہر تسلط پسند سامراجی طاقتوں کے خلاف ہے ہمارا اشخاص و افراد کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ اشخاص اس طرف کی دنیا سے ہوں یا اس طرف کی دنیا سے ہوں اعلی ہوں یا ادنی ہوں ، مسئلہ ، تسلط پسند نظام کا مسئلہ ہے ، تسلط پسند نظام سے مراد کیا ہے ؟ اس سے مراددنیا کا وہ نظام ہے جو دنیا کے ملکوں اور قوموں کو دوحصوں میں تقسیم کردیتا ہے تسلط پسند سامراجی ممالک اور تسلط پذیر ممالک میں سے بعض خبیث  ممالک اس مفہوم اور اس مضمون کو چھپاتے اور انکار کرتے ہیں ، زبان پر نہیں لاتے  اگرچہ کرتے وہی ہیں ، مگر بعض ایسے بھی سامراجی ممالک ہیں جواپنی ذاتی نادانی کی بنا پر، اس کو زبان سے کہہ دیتے ہیں ، جیسا کہ امریکہ کے سابق صدر نے صاف طور پر کہا تھا : " افغانستان کے مسئلے میں ، اور  امریکہ کے جڑواں تجارتی سینٹر پر حملے کے سلسلے میں ، جو کوئی بھی امریکہ کے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارا مخالف ہے ! اچھا یہ تو بالکل حماقت ہے ؛لیکن  دنیا کی تسلط پسند  طاقتیں دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو  اسی روش اور طریقے پر مرتب اور منظم کرتی ہیں ؛ اپنا تسلط دوسرے ممالک پر قائم کرتی ہیں ۔
دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کے لئے آج سب سے بڑی مشکل یہ کھڑی ہوگئی ہے کہ آج عالمی سطح پر ایک انقلابی لہر پیدا ہوگئی ہے جو سامراجی نظام کے خلاف ہے اس انقلابی لہر کا مرکز و محور اسلامی جمہوریہ ایران ہے اس انقلابی لہرکی مرکزيت آپ ہی لوگوں کو حاصل ہے اسلامی جمہوریہ  ایران نے بہت زيادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ابتدائی ایام میں جب ہم نے اس تحریک کا آغاز کیا تو دنیا میں کہیں سے اس کا مثبت جواب نہیں ملا، ہم نے سوچا تھا کہ بعض قومیں بہت جلد حرکت میں آکر اس تحریک سے ملحق ہوجائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا برسوں گزرنے کے بعد تدریجی طور پر آہستہ آہستہ یہ فکر قوموں کے ذہن میں راسخ ہوئی ،آہستہ آہستہ ان کے ذہن میں یہ سوچ پیدا ہوئی یہاں تک کہ آج یہ تحریکیں معرض وجود میں آگئی ہیں تاریخ کی تمام تحریکیں اسی طرح کی ہیں اگرچہ محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ میں رونما ہونے والی تمام تحریکیں یکایک رونما ہوئی ہیں لیکن کوئی بھی ایک دفعہ رونما نہیں ہوئی بلکہ سبھی تحریکیں تدریجی طور پر رونما ہوئی ہیں بس دھماکہ خیز وقت کا انتظار رہتا ہے کہ ایک حادثہ پیش آجائے ایک ہلادینے والا مسئلہ رونما ہو اور ناگہانی طور پر وہ صلاحیتیں ، وہ بکھری ہوئی قوتیں ایک فنر میں جمع ہوجائیں اور خود کو نمایاں اور آزاد کریں تو مصر جیسی اور دوسری جگہوں جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے تیس سال کا زمانہ لگا ہے تب کہیں جاکر یہاں پہنچے ہیں لہذا یہ تحریک اور حرکت ایک اہم حرکت ہے سامراجی اور استکباری قوتیں ، حقیقت میں اس تحریک سے خوف زدہ ہیں یہ دست و بازو کھینچنا گردنیں اینٹھنا، بائیکاٹ کےدعوے ، دھکیاں اور یہ تمام چیزیں ان کے خوفزدہ ہونے کا مظہر ہیں ۔

میں دعوی نہیں کرتا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران سے یا ایک حکومت یا ایک فوج کے عنوان سے خوف زدہ ہیں ، مسئلہ یہ نہیں ہے ؛ بلکہ وہ اس عوامی " لہر " سے اور اس عوامی تحریک سے خوقزدہ ہیں یہ بات ان کے لئے بالکل نئی ہے ماضی میں جس کی مثال نہیں ملتی ہے اس سے خوف زدہ ہیں یہ تحریک جو اس علاقے میں ہے اس کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی ہیں  اس کی شاخیں پھیلتی جا رہی ہیں اور روز بروز نئی روح پھونکتی جارہی ہیں ، وہ لوگ ہمارے مؤمن جوانوں سے ، ہمارے باصلاحیت اور پرعزم جوانوں سے ، ہمارے بلند و بالا قومی احساسات سے خوف زدہ ہیں ، جو بہت ہی عظیم اور اعلی ہیں  جوانوں میں  معرفت و شناخت موجودہے  آج ہمارے ملک میں معرفت و بصیرت کی سطح بہت ہی اچھی ہے ۔
آپ اس اہم اور حساس مجموعہ کا ایک حصہ ہیں مسلح افواج کا شعبہ بہت ہی حساس شعبہ ہے اس کی حفاظت بہت ضروری ہے یہ سلسلہ آپ کو باقی رکھنا چاہیے میں آج محترم کمانڈروں کے اجتماع میں ایک فوجی کمانڈر کا جملہ نقل کرنا چاہتا ہوں ،انقلاب کے ابتدائی دور میں وہ میرے پاس آئے اور انھوں نےایک جملہ کہا اور مجھ کو وہ جملہ بہت پسند آیا  جو بہت صحیح جملہ تھا ، اسی لئے وہ جملہ میرے ذہن میں بیٹھ گیا فوجی کمانڈر نے کہا تھا : فوجی " کمان " میں ایک عنصر یا ایک جزء " رہبری" کا پایا جاتا ہے ۔
آپ لوگ مستقبل میں ملک کی افواج اور سپاہ کے کمانڈر ہوں گے آپ کو اپنے اندر قیادت و رہبری کی اس قوت کو قوی و مستحکم بناناچاہیے ، قیادت یعنی ہدایت و راہنائی یعنی یہ کام کیجئے یہ کام نہ کیجئے ، امر و نہی ؛ قیادت یعنی اقدام ، حرکت ، روش و رفتار اور سنگ میل کی نشان دہی جو کرنے اور نہ کرنے کی جگہ لےلے " یہ کرو اور یہ نہ کرو" کے بغیر ہی حرکت ایجاد کردے ، تحرک جو دل کی گہرائی سے منسلک ہو، جسمانی حیثیت سے قریب ہونے کے بجائے دلوں میں قربت پیدا ہوجائے اس طرح کی حالت اپنے اندر پیدا کیجئے اور اپنے وجود میں اس کی تقویت کیجئے ۔ اگر یہ ہوگیا تو اس وقت ہمارے ملک اور ہماری قوم و ملت کی کامیابی یقینی ہے یعنی سخت و دشوار لمحات میں یہ احساس اور یہ حالت انسان کی مددگار ثابت ہوتی ہے ، میں نے اس طرح کے نمونے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے ہیں اب ان میں کچھ چہرے تو کافی مشہور ہیں اور ان کو سبھی جانتے اور پہچانتے ہیں شہید صیاد شیرازی،شہید بابائی ، یہ وہ لوگ ہیں جو جنگ کے آغاز سے لیکر جنگ کے آخرتک رہے ہیں اور درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں لیکن فوج کے  اندر اور فوجی ڈھانچے میں بھی میں نے اس طرح کے بہت سے افراد دیکھتے ہیں مسلح افواج کے درمیان ، جنگ کے دوران ؛ خود جنگی محاذوں پر ، فیصلہ کن جلسوں میں اور محاذ سے دور منصوبہ سازی کے میدان میں ایس افراد دیکھے ہیں، یہ ببہت بڑی اور اہم بات ہے ۔ جنگی محاذوں پر اگلی صفوں میں زیادہ تر جو اقدامات انجام پاتے ہیں وہ پختہ عزم و ارادے کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ جن میں بہت سے فیصلے محاذ جنگ کی پشت پر کئے جاتے اور عمل میں آتے ہیں اگر یہ فیصلے صداقت و اخلاص کے حامل ہوں اور اگلی صفوں تک خود کو پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں اس وقت وہ دلیرانہ کارنامے رونما ہوتے ہیں کہ انسان بعض اوقات ان شجاعت پر مبنی کارناموں کو واضح طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے ان چیزوں کو آپ لوگ بھی اپنے لئے نمونہ عمل بنائیں اور انھیں اپنی نظروں کے سامنے رکھیں۔
بہرحال، بری فوج بڑی اہمیت کی حامل فوج ہے ملک کے فوجی مجموعہ میں بری فوج ایک بہت ہی اہم حصہ ہے ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ فوجی شعبہ میں  " بری افواج " ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ممکن ہے عصر حاضر میں رائج دنیوی جنگوں میں زمینی مقابلہ کم ہو، چنانچہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے ؛ آجکل بحری افواج اوران کے دفاعی دستوں کے درمیان مقابلہ آرائیوں کا احتمال زيادہ رہتا ہے پھر بھی بری افواج کو ہمیشہ اور بروقت حقیقی شکل میں آمادہ اور تیار رہنا چاہیے اور اپنی ترقی اور پیشرفت میں نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے۔ حقیقی آمادگی کا مطلب یہ ہے کہ  فوج کے اندرجذبہ ایمان موجود ہو، فوجی اہلکار تعلیم و تربیت اور ضروری مہارت سے آشنا ہوں اور ہمیشہ مضبوط اورمستحکم رہیں ؛ فوجی اہلکاروں کی شخصیت میں اخلاق و رفتار دونوں اسقدر مضبوط اور مستحکم ہوں کہ وہ دنیا کے مکر و فریب میں نہ آئیں اور ان کے عزم و ارادہ میں کوئی خلل ایجاد نہ ہو اور  وہ خود اپنی نگاہ میں بھی عزت کا احساس کریں بعض اوقات زندگی کی لذتیں انسانوں کو ذلیل کردیتی ہیں انسان بعض لوگوں کو دیکھتا ہے کہ وہ پیسے کے لئے ذلیل ہوجاتے ہیں ، مقام و منصب کے لئے خود کو ذلیل کردیتے ہیں جنسی جذبوں کے تحت ذلیل ہوجاتے ہیں ، یہ انسان کی ذلت ہے ۔ صاحبان عزت اور صاحبان وقار و اقتدار وہ انسان ہیں جنہیں یہ خواہشات ذلیل نہ کرسکیں ، یقینا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی زندگی کی خواہشوں اور رونقوں سے چشم پوشی کرلے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ خواہشات انسان کی شخصیت پر غالب نہ آنے پائیں ورنہ اسلام نے ہرگز یہ حکم نہیں دیا ہے کہ آپ کے پاس پیسہ نہ ہو، آپ منصب و مقام حاصل نہ کریں اسلام کا یہ فرمان نہیں ہے کہ آپ مختلف خواہشات سے بہرہ مند نہ ہوں لیکن آپ خواہشات کے اسیر و غلام نہ بنیں ، آپ ان کو خود پر غالب نہ  ہونے دیں ان کے اسیر بن کر ذلیل نہ ہوں آپ کے پاس استقامت ، پائداری اور ثبات قدم ہونا چاہیے خواہشوں سے مقابلے اور مخالفت کی قوت ہونا چاہیے یہ چیز آپ کی آمادگی میں اہم حیثیت کی حامل ہے ۔
بہت خوب ، آپ تمام دوستوں ، بھائیوں ، جوانوں اور عزیزوں کے ساتھ بہت سی باتیں کرنے کے لئے ہیں لیکن دامن وقت میں اتنی گنجائش نہیں ہے  وقت بہت بیت گیاہے امیدوار ہوں کہ انشاء اللہ خداوند متعال آپ سب کو توفیق و تائید عطا فرمائے۔
پروردگارا! اس عظیم اجتماع پر اپنی برکتیں نازل فرما؛ پروردگارا: ایرانی قوم پر اپنی رحمتیں نازل فرا؛ اسلامی جمہوریہ ایران کی تمام مسلح افواج پر اپنی رحمتیں ، برکتیں اور نعمتیں  نازل فرما،
پروردگارا! تمام مسلح افواج کے درمیان ، فوج و سپا اور رضاکار دستوں کے درمیان  ، باہمی تعاون ، اخوت و بھائی چارگی ،اخلاص و دوستی پہلے کی نسبت زيادہ سے  زیادہ مضبوط و مستحکم بنادے۔
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ ،ہم سب کو اپنے ان بندوں میں قرار دے جن کے لئے تو نے " رضی اللہ عنھم و رضواعنہ " فرمایا ہے ۔
پروردگارا ! ہم کو اپنے ان خاص بندوں میں قرار دے جن کی نصرت، حمایت اور دفاع کا تونے وعدہ کیا ہے ۔
پروردگارا ! حضرت ولیعصر (ارواحنا فداہ ) کی دعائیں ہمارے شامل حال فرما اور ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول اور مستجاب فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ