ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

مدارس دینیہ کے معزز علماء، طلباء اور مبلغین سے ملاقات

جدید وسائل کے ساتھ موثر اور نئے طرز پر تبلیغ کی اہمیت

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح مدارس دینیہ کے معزز علماء، طلباء اور مبلغین سے ملاقات میں دین اور دینی اہداف کی ترویج کو مدارس کا سب سے اہم کام قرار دیا اور تبلیغ کے موثر اور جدید لوازمات، یعنی "سامعین کو جاننا، جارحانہ موقف رکھنے کے لیے عالمی پروپیگنڈے کے منظرنامے کی اصل ساخت کو جاننا اور جہادی جذبے کا حامل ہونا" پر زور دیا: نوجوان نسل کو، ملک کے مستقبل کے وارث اور معماروں کے عنوان سے جدید طریقوں اور آلات پر انحصار کرتے ہوئے تبلیغی مواد کی توجہ کا محور ہونا چاہیے۔

محرم الحرام کے موقع پر ہونے والی اس ملاقات میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تحقیق پر مبنی تبلیغی سرگرمیوں کی ملک کی ضرورت کو موجودہ سرگرمیوں سے کہیں زیادہ سمجھا اور تبلیغ اور اس کی وسعتوں اور باریکیوں کے بارے میں قرآن کریم کی متعدد آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: عوام کی سطح پر مذہب کو صحیح تبلیغ کے بغیر تحقق نہیں دیا جاسکتا۔

انہوں نے مدرسوں اور عظیم علماء کی زندگیوں میں تبلیغ کی دیرینہ روایت کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد مدارس کے فرائض میں تبلیغ کی ترجیح دوگنی ہو گئی ہے کیونکہ سیاسی نظام کا قیام مذہب کی بنیاد پر ہوا اور اس سے اسلام سے مستکبروں کی دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کے ایمان کو اسلامی نظام کی استقامت کی بنیاد قراردیتے ہوئے فرمایا: نظام کی حفاظت اور درحقیقت عوام کے ایمان کی حفاظت ایک واجب فریضہ ہے جبکہ موجودہ دور میں تبلیغ متعدد قسم کے طریقوں کی شکل میں جو سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ پر انحصار کرتے ہیں، بشمول انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت (انٹرنیٹ کے بعد کے دور کی ایک علامت کے طور پر) بہت زیادہ وسیع ہوگئی ہے، اس لیے عقل بھی یہ حکم دیتی ہے کہ ہم تبلیغ کو دشمنوں کے پروپیگنڈے کی خون بہانے والی تلواروں کے سامنے اولین ترجیح سمجھیں۔  

آیت اللہ خامنہ ای نے مغرب میں پروپیگنڈہ مشینری کی توسیع کے علاوہ پیغام کو قابل اعتماد بنانے کے طریقوں میں ہونے والی پیشرفت کو آج ایک حقیقت قرار دیا اور فرمایا: مغرب والے، نفسیات سمیت مختلف علوم کا استعمال کرتے ہوئے، 100 فیصد جھوٹے پیغامات کو سامعین کے ذہنوں میں سچائی بناتے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا: اگر ہم تبلیغ کے معاملے میں نئی   پیشرفت کے پیش نظر کوتاہی اور سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہم ثقافتی تبدیلی کا شکار ہو جائیں گے اور مغرب کی طرح ہم قدم قدم پر کبیرہ گناہوں کے معمول بن جانے کی مشکل میں پھنس جائیں گے، جس کا آسانی سے علاج نہیں کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ امام خمینی رح نے تاکید کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایران میں اسلام کو تقصان پہنچے گا تو اس کا اثر برسوں باقی رہے گا۔
تبلیغ کے مسئلے کی دگنی اہمیت اور ترجیح کو بیان کرنے کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں اساتید، بزرگ علماء، طلباء اور مبلغین سے ملاقات میں تبلیغ کے عملی نکات اور لوازمات کو بیان کیا۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کسی بھی تبلیغ میں سامعین کی شناخت کو انتہائی ضروری قرار دیا اور نوجوانوں اور جوانوں سمیت عام لوگوں کی بیداری کی سطح میں اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سامعین کی فکری سطح اور ضروریات کو مدنظر رکھے بغیر تبلیغ بے اثر ہو گی۔
انہوں نے اپنے بچوں پر والدین اور ماؤں کی مستقیم اور بالواسطہ تعلیم کے اثر میں کمی کو ایک حقیقی آفت قرار دیا اور کہا: بدقسمتی سے ورچوئل اسپیس اور میڈیا میں بہت سی مختلف صداوں کے ڈھیر میں، روایتی اور خاندانی مذہبی و ثقافتی تعلیمات کی منتقلی کو کنارہ کش کر دیا گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے قرآن میں لسان القوم کے مفہوم کو سامعین کی فکری اور ذہنی ساخت پر توجہ دینے کی ضرورت قرار دیا اور فرمایا: اگر تبلیغ کے مواد اور طریقے اس سطح کے لیے موزوں نہ ہوں اور سامعین کی ضروریات کے مطابق نہ ہوں تو تبلیغ ناکام ہو جائے گی۔
دوسرا عملی نکتہ جس کا ذکر آیت اللہ خامنہ ای نے تبلیغ کے سلسلے میں کیا ہے وہ خالصتاً دفاعی پوزیشن سے بچنے اور مخالف محاذ کی فکری بنیادوں پر حملہ کرنے کی ضرورت تھی۔
اس کے لیے انھوں نے ورچوئل اور غیر ورچوئل اسپیس میں موجودہ سرگرمیوں کے پس پردہ حقائق کو جاننا ضروری سمجھا اور کہا: اس بات کا بغور جائزہ لیا جانا چاہیے کہ آیا یہ فعال’تبلیغی-میڈیا-ورچوئل‘ عنصر آزادانہ طور پر کام کرتا ہے یا اس کے پیچھے پس پردہ عنصر ہے۔ -  جو بہت سے معاملات میں ہوتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے آپ کو لبرل جمہوریت کہنے والے اسلامی نظام کے مخالف محاذ کو جھوٹا اور کاذب قرار دیا اور عصری تاریخ کے بہت سے حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: ایران کے عوام کے خلاف محاذ، آزادی اور آزادانہ سوچ کے خلاف ہے، کسی بھی قسم کی جمہوریت جو استکبار پر منحصر نہیں ہے، اس
کے خلاف ہے، اور اس محاذ کے خلاف ملت ایران اور اسلامی نظام کی جدوجہد ایک تہذیبی اور عالمی جدوجہد ہے۔
انہوں نے بے گھر اور بیچارے یوکرینی قوم کی صورت حال کو مغرب کے استعماری اور استکباری عزائم کے تسلسل کا ثبوت قرار دیا اور کہا: یوکرینی عوام کو قتل کیا جانا چاہیئے کیونکہ مغربی ہتھیاروں کی پیداوار اور فروخت کرنے والی کمپنیوں کے مفادات جنگ کے تسلسل میں مضمر ہیں۔ 


رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج مغرب کی کمزوری کو پہلے سے کہیں زیادہ جانا اور فرمایا: امریکہ، جسے امام خمینی رح نے بڑے شیطان کے لقب سے نوازا، مختلف میدانوں جیسے "سیاسی، قوموں کے ساتھ محاذ آرائی، خود امریکی قوم سے تصادم، نسل پرستی، جنسی اخلاقیات، جرم اور ظلم" میں شیطانی خصلتوں اور برائیوں کا مجموعہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر کے اس حصے کو خلاصہ کرتے ہوئے تبلیغی دفاع کو ضروری اور فریضہ قرار دیا لیکن فرمایا: کسی کو اپنے آپ کو دفاع تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ عالمی حقائق کو صحیح طور پر دیکھ کر اور ان کے صحیح بیان سے دشمن کے محاذ کی بنیادیں کمزور کرنی چاہئیں۔ اور انھیں تبلیغ کے زریعے نشانہ بنانا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے جذبہ جہاد کو موثر تبلیغ کی تیسری ضرورت قرار دیا اور فرمایا: جذبہ جہاد کے بغیر تبلیغ کے منظرنامہ یا طرز عمل کو سمجھنے میں غلطیاں ہوں گی لیکن علمی کام کے ساتھ جدوجہد کا عنصر اس تبلیغ کے موثر واقع ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اہم نکتے میں میدان کے وسط میں علماء کی موجودگی کو بالکل ضروری قرار دیا اور فرمایا: علماء ہمیشہ میدان کے وسط میں پرامید، متحرک اور جہادی رہے ہیں۔
انہوں نے تبلیغی مسائل میں فکری مواد کو اہل فکر، اہل قلم، اہل نظر اور اہل فن سمیت تمام طبقوں کی ضروریات اور اس پر توجہ دینا ضروری سمجھا اور ساتھ ہی کہا: جوان اور نوجوان نسل پر خصوصی توجہ دی جائے، کیونکہ ملک کا مستقبل اسی نسل سے متعلق ہے، اور بغیر کسی شک و شبہہ کے پختہ ذہن کو بلا شبہ مستقبل کی تعمیر کرنی چاہیے۔
رہبر انقلاب نے عبادات اور گناہوں سے دوری سے نوجوانوں کی عملی وابستگی کو اہم قرار دیا اور اس میدان میں مساجد اور انجمنوں کے کردار کو موثر قرار دیا۔
اس گفتگو میں آیت اللہ خامنہ ای نے مساجد کی تعمیر نو اور احیاء کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: مساجد کو صرف نماز کے وقت ہی نہیں کھلنا چاہیے بلکہ مسجد کو لوگوں کی مستقل رفت و آمد کی جگہ ہونا چاہیے۔
شعبہ فن کے ماہرین کے ساتھ اپنی ماضی کی ملاقاتوں میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا: بعض اوقات ہم بعض طبقوں سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں۔ تاہم، ہم انہیں ضروری مواد اور فکری خوراک فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے اس ملاقات میں آخری نکتہ جس پر تاکید کی وہ دینی تبلیغ کی مقداری وسعت اور معیاری و علمی ارتقاء کے لیے ایک بہت بڑا دینی مرکز (پہلے قم میں اور پھر دوسرے بڑے مراکز میں) بنانے کی ضرورت تھا۔
انہوں نے اس مرکز کے لیے 3 اہداف بتائے: تازہ ترین اور جدید تبلیغی مواد کی تیاری اور پیداوار، جدید اور موثر تبلیغی روشوں کی تیاری اور حقیقی معنوں میں موثر تربیت۔
اس ملاقات کے آغاز میں ملک بھر کے مدارس کے منتظم حجۃ الاسلام و المسلمین اعرافی نے کہا: اخلاقی رجحان، عوام محوری اور جدید علم و آلات سے واقف طلباء اور مبلغین اپنے آپ کو معاشرہ کے مسائل کے تحت ذمہ دار سمجھتے ہیں  اور معاش، سماجی آفات، امتیازی سلوک کی روک تھام، عدالتی عدل و انصاف اور ورچوئل اسپیس کی صورتحال کو بہتر بنانے جیسے شعبوں میں ہمیشہ سرگرم اور مطالبہ گر رہے ہیں۔

700 /