رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران میں ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمہ کے سلسلے میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس کے نام پیغام ارسال کیا ہے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ محترم و معززمہمانوں کو اس اجلاس میں شرکت کرنے اور یہاں تشریف لانے پر خوش آمدید کہتا ہوں یہ بات خوشی اورفخر کا باعث ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمہ کے سلسلے میں بین الاقوامی اجلاس کا میزبان ہے یہ بہترین موقع فراہم ہوا ہے امید ہے کہ آپ یہاں باہمی صلاح و مشورے کے ساتھ عالم بشریت کے لئےبہترین اور یادگار نتائج پر مبنی تجاویز پیش کریں گے۔
ایٹم شناسی اور جوہری ٹیکنالوجی انسان کی سب سے بڑی کاوش اور اس کی اہم تخلیقات میں شامل ہے جسے قوموں کی خدمت ،فلاح و بہبود اور ترقی و پیشرفت میں صرف ہونا چاہیے ایٹمی ٹیکنالوجی کا دامن بہت وسیع ہے اس کے ذریعہ طبی ، صنعتی اور انرجی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے جو بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔لہذا اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اقتصادی میدان میں جوہری ٹیکنالوجی کو ایک بہت بڑا اور ممتاز مقام حاصل ہے وقت گذرنے اور طبی، صنعتی اور انرجی کے شعبوں میں ضروریات میں اضافہ کے پیش نظر اس کی اہمیت دوچنداں ہوجائے گی اور اسی مقدار میں جوہری ٹیکنالوجی کے حصول میں بھی اضافہ ہوجائے گا لہذا مشرق وسطی کی قومیں جو دیگر قوموں کی طرح امن و صلح اور پیشرفت کی تشنہ ہیں انھیں بھی حق حاصل ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے اقتصادی ضمانت فراہم کریں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی مخالفت کا شایدایک مقصد یہی ہے تاکہ علاقائی قومیں اپنےاس قدرتی حق کے حصول پر اپنی توجہ مرکوز نہ کرپائیں ۔
سب سے حیرت انگیز اورعجیب بات یہ ہے کہ امریکہ جودنیا میں واحد ایٹمی مجرم ہے وہ جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ خود کو ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا مدعی قراردے رہا ہے جب کہ اس نے عملی طور پراس سلسلے میں آج تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اٹھائے گا اگر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے بارے میں امریکی دعوی جھوٹا نہ ہوتا تو کیا اسرائیلی حکومت بین الاقوامی قوانین بالخصوص این پی ٹی معاہدے کو نظر انداز کرکے مقبوضہ فلسطین کو ایٹمی ہتھیاروں کے انبار اورذخیرہ میں تبدیل کرسکتی تھی ؟
ایٹم کا نام جس طرح انسان کی علمی و سائنسی ترقی اور پیشرفت کا مظہر ہے اسی طرح انسان کی ایٹمی کاوش اور اس کا غلط استعمال تاریخ کے بدترین اور افسوسناک واقعہ کی یاد بھی دلاتا ہے اگر چہ بہت سے ممالک نے ایٹمی ہتھیار بنانے اور انھیں ذخیرہ اورجمع کرنے کا اقدام کیا ہے جو فی نفسہ مجرمانہ اقدام کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے اور جس سے عالمی امن کو زبردست خطرات لاحق ہیں لیکن صرف امریکی حکومت ہی ایک ایسی حکومت ہے جس نے ایٹمی جرم کا ارتکاب کیا ہے امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں جاپان کے مظلوم عوام پر ایٹم بم سے حملہ کرکے انھیں اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔
امریکی حکومت کی جانب سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کے وقت سے ہی ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمہ کی ضرورت عالمی برادری کے پیش نظر رہی ہے جس کی بنا پر وسیع پیمانے پر انسانی قتل عام ہوا اور امریکی ایٹمی حملے نے دنیا کو زبردست خطرے سے دوچارکردیا ایٹمی ہتھیاروں کے استفادہ سے نہ صرف وسیع پیمانے پر خرابی اورجانی نقصان ہوا ، بلکہ اس کے استعمال میں فوجی ، غیر فوجی ، چھوٹے ، بڑے، مرد و عورت کا فرق بھی ختم ہوگیا اور اس کے انسانیت سوز آثار نے سیاسی اور جغرافیائی سرحدوں کو بھی تہہ و بالا کردیا ، یہاں تک کہ بعد والی نسلوں پر بھی اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں لہذا اس قسم کے ہتھیاروں کا استعمال اور ان کے استعمال کی دھمکی انسانی حقوق اور انسان دوستی کے تمام بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی اور جنگی جرائم کی واضح علامت ہے سکیورٹی اور فوجی اعتبار سے بھی بعض طاقتوں کا ان ہتھیاروں سے مسلح ہونا انسانی حقوق کی آشکارا خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ ایٹمی جنگ میں کامیابی ممکن نہیں ، ایسی جنگ عقل اور انسانیت کے بالکل خلاف ہے لیکن اخلاقی ، عقلی ، انسانی اور حتی فوجی امور کے پیش نظر چند انگشت شمار حکومتوں نے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے بین الاقوامی مطالبے کو نظر انداز کیا ہوا ہے اوراپنے تحفظ و سکیورٹی کے خام خیال کے پیش نظر پوری دنیا کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
ایٹمی ہتھیاروں کی نگہداشت ، ذخیرہ اور ان کی تخریبی طاقت میں اضافہ پر یہ حکومتیں مصر ہیں جس کا مقصد رعب و دبدبہ ، اجتماعی قتل عام اور جھوٹی سلامتی و تحفظ پر مبنی خام خیالی ہے اس سے عام تباہی کو روکا نہیں جاسکتا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے اسی خام خیالی کی وجہ سے دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کا سلسلہ شروع ہوا ، اس غیر عاقلانہ رقابت میں بیشمار انسانی اور اقتصادی وسائل صرف کئے گئے ہیں بڑی طاقتوں میں سے ہر ایک اپنے خیال و تصور میں ایسی طاقت کی حامل ہے جس کے نتیجے میں وہ خود،اپنے رقیبوں اور کرہ ارض کی موجودات کو ،دس ہزار بار نابود کرسکتی ہے لہذا تحفظ کے اس تصور کو رقیب کی نابودی یا دیوانگی سے تعبیر کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
بعض ایٹمی طاقتیں حالیہ برسوں میں دوسری ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں اپنی ایٹمی پالیسی میں بہت آگے نکل گئي ہیں انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤکے معاہدے کو نظر انداز کرکے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید بنانے کا کام شروع کردیا ہےجو ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدے کی سب سے زیادہ خلاف ورزی وہ طاقتیں کررہی ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی شق نمبر 6 کو نقض کرکے ایٹمی ہتھیاروں کو فروغ دینے میں دوسروں پر سبقت لے رہی ہیں جس میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں کی فراہمی اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی حمایت شامل ہے انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کو فروغ دیکر ایٹمی معاہدے کی شق 1 کی بھی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطی کو زبردست خطرات لاحق ہیں بین الاقوامی سطح پر ایٹمی قوانین کی خلاف ورزی میں امریکہ کی جارح اور تسلط پسندحکومت سب سے آگے ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں کے ترک اور عدم پھیلاؤ پر مبنی کانفرنس کے شرکاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور ان کے خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنی تجاویز پیش کریں اور دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے عاری قراردینےکے لئے ٹھوس اقدامات عمل میں لائيں اور دنیا میں امن و صلح و ثبات قائم کرنے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
ہمارا اس بات پر اعتقاد ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ عام تباہی پھیلانے والے کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیار بھی عالم بشریت کے لئےزبردست خطرہ ہیں ایرانی قوم خود کیمیاوی ہتھیاروں کا نشانہ بن چکی ہےوہ دوسروں کی نسبت اس قسم کے ہتھیاروں کے ذخیرہ اور پیداوار کے خطرے کو زیادہ محسوس کرتی ہے اور ان ہتھیاروں سے عالم انسانیت کو نجات دلانے کے لئے وہ اپنے تمام وسائل کو کام میں لانے کے لئے تیار ہے۔
ہم ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو حرام اور دنیا کو ان ہتھیاروں سے محفوظ بنانےکے لئے سب کی تلاش و کوشش کو لازمی سمجھتے ہیں۔
سید علی خامنہ ای
27 / فروردین/ 1389
1 /جمادی الاول/ 1431