ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

شعرا و ذاکرین و مداحان اہل بیت سے خطاب

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.

برادرانِ عزیز اور خواھرانِ محترم! آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ ان عزیز بھائیوں کے بہترین فن کے مظاہروں سے ہم نے بہت استفادہ کیا۔ نہایت بامعنی اور گہرے مفہوم پر مشتمل اشعار نے اس مجلس کو زمانہ حال کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا۔ بہت سی محفلیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ہجوم تو ہوتا ہے، مگر وہ اپنے زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں؛ جبکہ یہ محفل، آج کے زمانے کی محفل ہے۔ آپ کے یہ اشعار، یہ فن، یہ اظہارِ خیال، آپ کی باتیں، آپ کا اجتماع اور آپ کا جوش و خروش—سب نے مل کر اس مجلس کو تازگی اور معنویت عطا کی ہے۔

میں حضرت سیّدۃُ النساء، صدیقۂ طاہرہؑ کی ولادتِ باسعادت اور اسی طرح ہمارے عظیم  امام خمینی رح کی ولادت پر آپ سب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ حضرت صدیقۂ طاہرہؑ کے بارے میں میں صرف ایک جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ اس الٰہی اور عرش نشین خاتون کے فضائل، مناقب اور امتیازات ایسے نہیں کہ ہم انہیں اپنے بیانات میں سمو سکیں؛ یہ ہماری سمجھ، ہمارے تصور اور ہمارے ادراک سے کہیں بلند تر ہیں۔ تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک کامل نمونہ تھیں۔ کیا ہم عمل نہیں کرنا چاہتے؟ کیا ہم فاطمی طرزِ زندگی اختیار نہیں کرنا چاہتے؟ وہ اسوہ تھیں؛ لہٰذا اسوہ کے طرزِ عمل اور اسوہ کی راہ پر چلنا ہی ہمارا فرض ہے۔ وہ دینداری کا نمونہ تھیں، انصاف پسندی کا نمونہ تھیں، اور جہاد کا نمونہ تھیں۔ حضرت فاطمہ زہراؑ کا جہاد، دشوار ترین جہادوں میں سے ہے۔ اگر کوئی موازنہ کرنا چاہے تو شاید رسولِ خدا ﷺ کی تمام غزوات ایک طرف ہوں اور حضرت فاطمہ زہراؑ کا جہاد ایک طرف۔ وہ جہاد کی اسوہ تھیں۔ وہ تبیین کی اسوہ تھیں؛ مسجدِ مدینہ میں ان کا وہ شاندار خطبہ، وضاحت و تبیین کی ایک بے مثال، روشن اور سبق آموز مثال ہے۔ وہ نسوانی فرائض کی بھی اسوہ تھیں؛ شوہر داری، اولاد کی پرورش، حضرت زینبؑ کی تربیت اور دیگر بے شمار اسلامی اقدار۔ یہ وہ ظاہری پہلو ہیں جو ہمارے فہم اور مشاہدے میں آ سکتے ہیں؛ مگر باطنی اور عرش نشین مقامات ہماری نگاہ سے بلند تر ہیں اور بیان سے باہر ہیں۔

اور اب منقبت خوانی و نوحہ خوانی کے موضوع پر چند کلمات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میری آج کی گفتگو کا محور یہی ہے۔ آج منقبت خوانی و نوحہ خوانی ایک نہایت اہم میدان بن چکی ہے، جس پر تحقیق اور مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ آج منقبت خوانی و نوحہ خوانی محض آ کر پڑھ دینے، گریہ کروانے یا اس قسم کے امور تک محدود نہیں رہی؛ بلکہ ہمارے ملک میں یہ ایک ایسا سماجی و فکری مظہر بن چکی ہے جو تحقیق اور تدبر کا مستحق ہے۔ تحقیق سے مراد کیا ہے؟ یعنی گہرائی میں اتر کر یہ جاننا کہ ان اشعار، آوازوں، دھنوں اور طرزِ عمل کے پسِ پردہ کیا فکر اور کیا حقیقت کارفرما ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوریوں کی نشاندہی، کیونکہ ممکن ہے یہی جائزہ ہمیں بعض نقائص تک بھی پہنچا دے۔ پھر ترقی کے راستوں کی جستجو، یعنی یہ دیکھنا کہ منقبت خوانی و نوحہ خوانی کس طرح نشوونما پائے، کس طرح بلندی اور کمال کی طرف گامزن ہو۔ یہ تمام امور ایک ایسا مجموعہ ہیں جن پر اہلِ تحقیق و اہلِ دانش کو کام کرنا چاہیے، اور آج یہ کام نہایت ضروری ہے۔

یقیناً ماضی میں بھی منقبت خوانی و نوحہ خوانی موجود تھی؛ ہمارے زمانۂ شباب میں بھی منقبت خوان اور نوحہ خوان تھے—اگرچہ نہ اس وسعت کے ساتھ، نہ اس تعداد میں، نہ اس شعور اور نہ اس علمی سطح کے ساتھ—لیکن موجود تھے۔ ان میں بعض امتیازات بھی تھے، مثلاً وہ طویل اور شاندار قصائد زبانی یاد کر کے پڑھا کرتے تھے۔ تاہم مجموعی طور پر، ہمارے دور کی منقبت خوانی و نوحہ خوانی اور آج کی منقبت خوانی و نوحہ خوانی کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ آج یہ مظہر ہمارے معاشرے میں ایک حیرت انگیز قوت بن کر ابھرا ہے۔ میں یہ باتیں اس لیے عرض کر رہا ہوں تاکہ ہمارے عزیز منقبت خوان اور نوحہ خوان اس حقیقت کو سمجھیں کہ وہ کس قدر اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ آپ خود بھی اس سے آگاہ ہیں؛ آج کے اشعار اور آج کی گفتگو نے واضح کر دیا کہ منقبت خوان و نوحہ خوان بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں اور کس عظیم ذمہ داری کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ آج کئی دہائیوں کے بعد، منقبت خوانی و نوحہ خوانی یہ نہایت اہم مظہر بن کر ایک مؤثر عنصر کی صورت میں ملک کے سامنے آئی ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے مؤثر عوامل کی ضرورت ہے جو ذہنوں، عقلوں اور دلوں پر اثر انداز ہوں؛ پہلے ہمیں انہیں پہچاننا ہے اور پھر انہیں تقویت دینی ہے۔ میرا اصل مدعا یہی ہے، جسے میں آگے مزید عرض کروں گا۔

یقیناً منقبت خوانی و نوحہ خوانی کی تمام صورتیں ایک ہی سطح کی نہیں ہوتیں؛ ان میں کمی و بیشی اور تفاوت پایا جاتا ہے۔ جیسے دنیا کے تمام مظاہر یکساں نہیں ہوتے، اسی طرح یہاں بھی بعض بلند مرتبہ ہوتے ہیں، بعض اوسط درجے کے، اور بعض نسبتاً کم اثر رکھتے ہیں۔ تاہم اگر مجموعی اور معتدل انداز میں بات کی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آج منقبت خوانی و نوحہ خوانی، ادبیاتِ مقاومت کے اہم ترین مراکز میں سے ایک بن چکی ہے۔ آج منقبت خوانی و نوحہ خوانی، ادبیاتِ مقاومت کا ایک مضبوط پایہ اور مرکز ہے۔

اگر کوئی فکر یا نظریہ موجود ہو لیکن اس کے مطابق ادبی اظہار اور زبان موجود نہ ہو، تو وہ فکر آہستہ آہستہ ماند پڑ جاتی ہے اور بالآخر ختم ہو جاتی ہے۔ فکر و اندیشے کے شایانِ شان ادب کی تخلیق، ایک عظیم ہنر ہے۔ ان مراکز میں سے ایک اہم مرکز، جو ادبیاتِ مقاومت کو مرتب کرتا ہے، اسے وسعت دیتا ہے اور نسل در نسل منتقل کرتا ہے، وہ یہی منقبت خوانی و نوحہ خوانی اور اہلِ ہیئت کا یہ دینی و انقلابی رجحان ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ قومی مقاومت سے کیا مراد ہے؟ جب ہم “قومی ادبیاتِ مقاومت” کی بات کرتے ہیں تو دراصل قومی مقاومت کیا چیز ہے؟ آج کل “ مقاومتی محاذ” کی اصطلاح بکثرت سننے میں آتی ہے؛ یہ محاذ کس کے مقابل کھڑا ہے؟ یہ کس چیز کے خلاف مقاومت کر رہا ہے؟
قومی مقاومت سے مراد یہ ہے کہ دشمن انسانی زندگی کے جس بھی پہلو میں دباؤ ڈالے، تاکہ کسی قوم کو تسلیم پر مجبور کرے، اس دباؤ کے مقابل ڈٹ جانا۔ مقاومت کا مفہوم یہی ہے کہ انسان اور قوم دباؤ کو برداشت کرے، اس کے سامنے سینہ سپر ہو، ثابت قدم رہے، دشمن کے قدم اکھاڑ دے اور اس کے ہاتھ کاٹ دے۔

یہ دباؤ کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے؛ کبھی یہ عسکری دباؤ ہوتا ہے—جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، جسے نوجوانوں نے حالیہ عرصے میں اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور جسے ہم نے چالیس برس قبل بھی دیکھا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ کو کسی مسلط کردہ فیصلے کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ دباؤ عسکری وسائل سے بھی ہو سکتا ہے، معاشی ہتھکنڈوں سے بھی، یا میڈیا کی ہوچیگری، شورش اور ذہن سازی کے ذریعے بھی۔
آپ سائبر اسپیس پر نگاہ ڈالیں، بیرونی ریڈیو نشریات سنیں، نہ صرف صحافیوں اور نامہ نگاروں کے بیانات بلکہ دنیا کے اعلیٰ عسکری اور سیاسی حکام کے اقوال ملاحظہ کریں—یہ سب ایک ہی مرکز پر مرکوز نظر آئیں گے، اور وہ مرکز ہے اقوام کی مقاومت کو توڑنے کی کوشش، اور ان سب میں سرفہرست ملتِ ایران ہے۔ آج صورتحال یہی ہے۔

لہٰذا یہ دباؤ کبھی عسکری صورت میں ہوتا ہے، کبھی معاشی پابندیوں کی شکل اختیار کرتا ہے، کبھی میڈیا اور مجازی دنیا کے ذریعے ذہنوں پر حملہ کیا جاتا ہے، کبھی جاسوس سازی اور اندرونی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور کبھی دیگر حربوں کے ذریعے۔

اس دباؤ کا مقصد بھی مختلف ہو سکتا ہے؛ کبھی یہ علاقائی توسیع پسندی کے لیے ہوتا ہے، جیسا کہ آج امریکی حکومت بعض لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ کر رہی ہے؛ کبھی مقصد زیرِ زمین وسائل پر قبضہ ہوتا ہے، مثلاً کسی ملک کے تیل یا معدنی ذخائر کو اپنی گرفت میں لینا؛ کبھی دینی اور ثقافتی اقدار کو نشانہ بنایا جاتا ہے؛ کبھی طرزِ زندگی کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو زیادہ تر میڈیا کے ذریعے انجام پاتی ہے؛ اور ان سب سے بڑھ کر، سب سے بنیادی ہدف شناخت کی تبدیلی ہوتا ہے۔

سو برس سے زائد عرصے سے، جب مغربی طاقتیں قاجاری دور کے اواخر میں ایران میں داخل ہوئیں، ان کی مسلسل کوشش یہی رہی ہے کہ ملتِ ایران کی شناخت کو بدل دیا جائے—اس کی دینی شناخت، اس کی تاریخی شناخت اور اس کی ثقافتی پہچان۔ رضا خان نے اس سمت پہلا قدم اٹھایا مگر کامیاب نہ ہو سکا؛ اس کے بعد آنے والوں نے زیادہ چالاک اور سیاسی انداز میں اقدامات کیے، مگر وہ بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے؛ یہاں تک کہ انقلابِ اسلامی آیا اور اس نے ان تمام منصوبوں کو دریا برد کردیا۔

الغرض، خواہ معاملہ شناخت کے دباؤ کا ہو یا کسی اور نوعیت کے دباؤ کا، ہر صورت میں مقاومت ناگزیر ہے۔ اور مقاومت کا مفہوم کیا ہے؟ یعنی برداشت، ثابت قدمی، ڈٹ جانا، تسلیم نہ ہونا، اور دباؤ ڈالنے والے عنصر کو ناکام بنا دینا—یہی مقاومت کا حقیقی مفہوم ہے۔

آج ہم بار بار جبهۂ مقاومت کا ذکر اسی لیے کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ مقاومت صرف ایران تک محدود تھی، مگر آج یہ مقاومت خطے کے دیگر ممالک تک پھیل چکی ہے، بلکہ بعض مواقع پر خطے سے باہر بھی اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ یوں مقاومت بتدریج وسعت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

یقیناً ہماری ملت نے اسلامی جمہوریہ کے قیام اور انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے اولین دن سے ہی مقاومت کا مظاہرہ کیا ہے؛ اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا، ثابت قدمی اختیار کی، اور دشمن کے دباؤ کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کیا۔ دشمن نے ہر طرح کے حربے آزمائے—وہ کام جو اس نے ملتِ ایران کے خلاف کیے، اگر کسی اور ملک یا قوم کے ساتھ کیے جاتے تو اسے تہس نہس کر دیتے—لیکن ملتِ ایران مضبوطی سے کھڑی رہی، اور اسلامی جمہوریہ نے کامل استقامت اور بھرپور مقاومت کے ساتھ اپنے قدم جمائے رکھے۔

ہماری منقبت خوانی و نوحہ خوانی بھی انقلاب کے آغاز ہی سے اسی سمت گامزن ہو گئی؛ اگرچہ سب ایک ہی سطح پر نہ تھیں، لیکن یہ رجحان شروع ہو گیا، اور دورانِ جنگ اپنے عروج کو پہنچی۔ جنگ کے زمانے میں ان شہداء میں سے ہر ایک، ملتِ ایران کیلئے ایک پرچم کی حیثیت اختیار کر گیا—اور یہ سب منقبت خوانوں اور نوحہ خوانوں کے ذریعے ممکن ہوا۔ یہ انہی کا کردار تھا۔ جب شہید کا جنازہ آتا، اگر وہ منقبت خوان نہ ہوتا، اگر وہ حماسی اور ولولہ انگیز شاعری فضا میں گونج کر دلوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرتی، تو وہ شہید فراموش ہو جاتا۔ انہوں نے زینبی کردار ادا کیا؛ جس طرح حضرت زینبؑ نے کربلا کو زندہ رکھا اور تاریخ میں محفوظ کر دیا، اسی طرح یہ عمل بھی انقلاب کے آغاز سے شروع ہوا، مسلسل جاری رہا، اور آج بھی جاری ہے۔ البتہ میں جانتا ہوں کہ تمام منقبت و نوحہ خوانی کی محافل و مجالس آج کی اس محفل جیسی نہیں تھیں اور نہ ہیں، لیکن ہر محفل میں ایک رجحان، ایک زاویۂ نظر اور ایک حرکت ضرور پائی جاتی ہے جو ایران میں مقاومت کے مفہوم اور اس کے عملی مصداق کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

اب میری بات کا خلاصہ صرف اتنا ہے—میں بس یہی ایک جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں—کہ آج ہم محض عسکری ٹکراؤ سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں؛ اگرچہ عسکری درگیریاں موجود رہی ہیں، آپ نے انہیں دیکھا ہے، اور بعض لوگ مسلسل ان کے دوبارہ ہونے کا احتمال ظاہر کرتے رہتے ہیں، بلکہ کچھ لوگ دانستہ طور پر اس آگ کو ہوا دیتے ہیں تاکہ عوام کو شک و اضطراب میں مبتلا رکھیں اور خوف و ہراس پیدا کریں، حالانکہ ان شاء اللہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے—لیکن آج ہم ایک ہمہ گیر تبلیغی اور ابلاغی جنگ کے بیچ میں کھڑے ہیں۔ کس کے مقابل؟ ایک وسیع اور منظم محاذ کے مقابل۔ ہم ایک فکری اور روحانی جنگ میں داخل ہو چکے ہیں۔

دشمن اس حقیقت کو سمجھ چکا ہے کہ اس ملک، اس سرزمینِ الٰہی و روحانی کو محض دباؤ یا عسکری طاقت کے ذریعے سرنگوں نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے جان لیا ہے کہ اگر اسے یہاں کسی قسم کی مداخلت یا کامیابی درکار ہے تو اسے دلوں کو بدلنا ہوگا، ذہنوں اور افکار کو تبدیل کرنا ہوگا؛ چنانچہ وہ اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ اگرچہ ہم اس کے مقابل مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں، مگر آج خطرہ یہی ہے، یہی محاذ ہے، اور دشمن کا ہدف بھی یہی ہے۔

دشمن کا مقصد ہمارے ملک میں انقلابی مفاہیم کے روشن آثار کو مٹانا ہے؛ اس کا ہدف یہ ہے کہ آہستہ آہستہ عوام کو انقلاب کی یاد سے، انقلاب کے مقاصد سے، انقلاب میں انجام پانے والے عظیم کارناموں سے، اور امامِ انقلاب کی یاد سے غافل کر دے۔ اسی مقصد کے لیے وہ سرگرمِ عمل ہے، کوششیں کر رہا ہے، اربوں خرچ کر رہا ہے—اگرچہ وہ اس کا اعتراف نہیں کرتا، مگر ہم بخوبی جانتے ہیں۔ وہ مصنفین، فنکاروں، کتاب نویسوں، ناول نگاروں، ہالی ووڈ اور دیگر ذرائع کو بروئے کار لاتا ہے، اور مختلف ہتھیار استعمال کرتا ہے تاکہ ایرانی نوجوان کے ذہن کو بدل دے۔

اس میدان میں ہمارے مقابل جو محاذ سرگرم ہے، وہ نہایت وسیع ہے؛ اس کے مرکز میں امریکہ ہے، اس کے اطراف میں بعض یورپی ممالک کھڑے ہیں، اور اس کے کناروں پر وہ اجرتی ایجنٹ، غدار، بے وطن عناصر موجود ہیں جو یورپ اور دیگر مقامات پر جمع ہو کر محض نان و نوا حاصل کرنے کی خاطر اس راہ پر چل پڑے ہیں۔ ہم ان سب کے مقابل صف آرا ہیں۔

لہٰذا انقلاب کے محاذ اور مقاومت کے کارگزاروں پر لازم ہے کہ وہ دشمن کی اس صورتِ حال کو بخوبی پہچانیں، اور اپنی صف بندی کو دشمن کی آرائش، منصوبے اور مقصد کے مطابق ترتیب دیں۔ جس طرح عسکری میدان میں ہماری صف آرائی دشمن کے ہدف کے مطابق ہوتی ہے—اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن کسی خاص نقطے پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو ہم اسی مناسبت سے عسکری ترتیب اختیار کرتے ہیں تاکہ اسے ناکام بنایا جا سکے—بالکل اسی طرح تبلیغ و ابلاغ کے میدان میں بھی یہ کام انجام دیا جانا چاہیے۔

تبلیغی صف بندی کو اسی سمت مرکوز ہونا چاہیے جسے دشمن نے خود نشانہ بنایا ہے، اور وہ سمت ہے: معارفِ اسلامی، معارفِ شیعی اور معارفِ انقلابی۔ دشمن نے انہی کو ہدف بنایا ہے، لہٰذا انہی کے دفاع اور ترویج کے لیے ڈٹ جانا ضروری ہے۔ یقیناً یہ کام آسان نہیں، مگر خوش قسمتی سے آج ہمارے پاس حوزاتِ علمیہ میں ایسے بے شمار اہلِ علم اور فضلاء موجود ہیں جنہوں نے ان میدانوں میں کام کیا ہے، غور و فکر کیا ہے اور قیمتی فکری سرمایہ فراہم کیا ہے؛ اور ملک کی

منقبت خوانی و نوحہ خوانی کی برادری ان علمی وسائل سے بھرپور استفادہ کر سکتی ہے۔

آپ منقبت خوان اور نوحہ خوان حضرات اس انجمن کو، جس میں آپ موجود ہیں، انقلاب کی اقدار اور دیگر اعلیٰ اسلامی و انسانی اقدار سے وابستگی کا ایک مضبوط مرکز بنا سکتے ہیں؛ بالخصوص آج کے زمانے میں جبکہ خوش قسمتی سے نوجوان نسل کا رجحان مجالسِ اہلِ بیتؑ کی طرف بڑھا ہے۔ آج نوجوانوں کی مجالس و محافل میں شرکت بہت زیادہ ہے؛ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ آج مختلف شہروں میں—جیسا کہ ہمیں یا تو اطلاع کے ذریعے معلوم ہوتا ہے، یا ذرائع ابلاغ میں نظر آتا ہے، یا خبروں سے سنتے ہیں—نوجوان خوش دلی سے شریک ہوتے ہیں، سرگرم ہیں، محنت کرتے ہیں؛ اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے، اور نوجوان نسل کو اس ضدی، مکار اور افسوس کے ساتھ وسائل سے لیس دشمن کے اہداف کے مقابل محفوظ بنانا چاہیے۔

میں یہ تاکید کرتا ہوں کہ اہلِ بیتِ اطہارؑ کے بارے میں منقبت خوانی اور نوحہ خوانی کے دوران دینی تعلیمات کی وضاحت کو نمایاں حیثیت دی جائے۔ میری رائے میں ائمۂ ہدیٰؑ نے بنیادی طور پر دو عظیم فریضے انجام دیے: ایک دینی معارف کی وضاحت—جس کے ذریعے اسلامی تعلیمات محفوظ رہیں؛ اگر وہ ان تعلیمات کی وضاحت نہ فرماتے تو آج نہ اسلام باقی رہتا اور نہ ہی اس کے حقیقی اصول—اور دوسرا باطل کے خلاف جدوجہد۔ ائمہؑ مسلسل جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس موضوع پر میں برسوں سے گفتگو کرتا آیا ہوں۔ تمام ائمہؑ حق کی خاطر برسرِ پیکار رہے۔ امیرالمؤمنینؑ کے بعد—خواہ امام حسن مجتبیٰؑ کا دور ہو، خواہ امام حسینؑ کا زمانہ، یا بعد کے ائمہؑ کے ادوار—سب کے سب جدوجہد میں مصروف تھے؛ ظالم حکمرانوں کے خلاف، حق کے دشمنوں کے مقابل؛ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز سے، مختلف طریقوں سے، مگر سب نے جدوجہد کی۔ یہ پہلو ائمہؑ کی سیرت کے بیان میں لازماً اجاگر کیا جانا چاہیے۔ لہٰذا ایک بنیادی سفارش یہ ہے کہ دینی، جدوجہدی اور انقلابی معارف کی وضاحت کو محور بنایا جائے۔

ایک اور تاکید یہ ہے کہ دشمن کے مقابل صرف اس کی پیدا کردہ شبہات کے دفاع پر اکتفا نہ کیا جائے۔ بلاشبہ دفاع ضروری ہے اور دشمن کی گمراہ کن باتوں کا جواب دینا چاہیے، لیکن دشمن کے بے شمار نقائص بھی ہیں؛ ان کمزوریوں کو نشانہ بنائیے، ان پر بھرپور حملہ کیجیے—اور یہ حملہ شعری مفاہیم اور مؤثر کلام کے ذریعے کیجیے۔ خوش قسمتی سے آج بعض عزیزان نے اس میدان میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس صلاحیت کی کمی نہیں۔

ایک اور تاکید یہ ہے کہ منقبت خوانی اور نوحہ خوانی کے منبر کو اسلام کی قوت کے پہلوؤں سے لبریز کیجیے؛ چاہے ذاتی زندگی کے مسائل ہوں، سماجی امور ہوں، سیاسی معاملات ہوں یا دشمن کے ساتھ رویّے کا مسئلہ—اسلام ان تمام میدانوں میں گہرے اور مضبوط اصول رکھتا ہے۔ ان اصولوں سے اپنے منبر کو اس طرح بھر دیجیے کہ جو شخص آپ کی گفتگو اور آپ کے پروگرام میں شریک ہو، وہ قرآن اور قرآنی تعلیمات سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ منقبت خوانی اور نوحہ خوانی کو دین کی اشاعت، دینی تعلیمات اور انقلابی شعور کے فروغ کا ایک مؤثر اور اہم ذریعہ بنا دیجیے۔

یہ کام اس وقت بھی کسی حد تک انجام پا رہا ہے؛ اسے مزید وسعت دیجیے، اسے مضبوط کیجیے، اسے عام کیجیے، اور ہر موقع پر اسے پیشِ نظر رکھیے۔ بعض اوقات ایک خوش ساخت اور بامعنی نوحہ—جو آپ منبر پر پڑھتے ہیں—سامع کے دل پر ایسا گہرا اثر ڈالتا ہے جو ایک یا دو عقلی، فلسفیانہ اور منطقی خطبات سے کہیں زیادہ مؤثر اور دیرپا ہوتا ہے۔

خوش آہنگ اور خوش لحن پڑھنے کا ذکر آیا تو اس باب میں خاص طور پر ہوشیار رہنا چاہیے کہ کہیں کوئی خطا نہ ہو؛ شہنشاہی دور کی دھنیں اور نغمے ہماری دینی مفاہیم میں سرایت نہ کرنے پائیں۔ بعض اوقات آدمی کہیں کہیں ایسے نمونے سن لیتا ہے۔ خبردار رہیے! منقبت خوانی اور نوحہ خوانی کی طرز، آپ کی اپنی طرز ہے، آپ کی پہچان ہے، آپ کی اختراع ہے؛ وہ چیزیں جو آپ کے دشمنوں سے متعلق ہیں—وہی دشمن جن کے خلاف آپ نے قیام کیا، اور جن کی باطل ثقافت اور گمراہ کن اقدار کے خلاف آپ کی قوم اٹھی—انہیں ہرگز آپ کے کام اور آپ کے بیان میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔

لہٰذا جو بات میں محسوس کرتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ خوش قسمتی سے ملک کی پیش رفت کے اہم وسائل میں منقبت خوانی اور نوحہ خوانی کا یہ رجحان ایک نمایاں اور خاص مقام رکھتا ہے۔ آپ سرگرمِ عمل ہیں، محنت کر رہے ہیں، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا، اس میدان کو تحقیق کی بھی ضرورت ہے؛ اس کے ممکنہ نقصانات کی نشاندہی ہونی چاہیے، اس کی تکمیل اور ارتقا کے راستے تلاش کیے جانے چاہئیں، اس کے لیے مناسب مضامین اور شاید مناسب طرزیں بھی تیار اور فراہم کی جانی چاہئیں۔ منقبت خوانی اور نوحہ خوانی کو محفوظ رکھیے، اسے زندہ رکھیے، اسے ارتقا دیجیے اور اس مؤثر مظہر سے بھرپور فائدہ اٹھائیے۔

میں آپ سے عرض کروں کہ توفیق الہی سے اسلامی جمہوریہ ایران ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہمارے پاس کمزوریوں کی کمی نہیں؛ خوزستان کے گرد و غبار کا ذکر کیا گیا—یہ تو ان میں سے ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ملک میں اور بھی بہت سی مشکلات موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کر رہا ہے۔ ملتِ ایران روز بروز اسلام کے لیے عزت و وقار کا باعث بن رہی ہے، اور عملاً یہ دکھا رہی ہے کہ اسلام کا مفہوم کیا ہے: اسلام یعنی استقامت، اسلام یعنی قوت، اسلام یعنی صدق و صفا، اسلام یعنی خیرخواہی اور عدل پسندی۔ یہ حقائق ملتِ ایران بتدریج دنیا کے سامنے نمایاں کر رہی ہے۔

یقیناً کسی ملک میں بڑی تبدیلیاں فوراً نظر نہیں آتیں، اس لیے کہ وہ تدریجی ہوتی ہیں، طویل المدت ہوتی ہیں—نہ کہ وقتی اور آنی—کہ انسان ایک لمحے میں انہیں دیکھ لے؛ بلکہ آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ لہذا میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ توفیق الہی سے ہمارا معاشرہ بتدریج ترقی کر رہا ہے۔ آج کا نوجوان—سوائے انقلاب کے بالکل ابتدائی دنوں کے—بعد کے بعض ادوار کے مقابلے میں دینی امور کے حوالے سے کہیں زیادہ آگے ہے، اور ان شاء اللہ آئندہ اس سے بھی آگے بڑھے گا۔

اللہ تعالیٰ شہداء کی پاکیزہ ارواح اور ہمارے عظیم امام کی مقدس روح کو شاد رکھ، جنہوں نے ملتِ ایران کے سامنے اس راستے کو کھولا اور روشن کیا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں اہلِ بیتِ اطہارؑ کے چند منقبت خواں حضرات نے ثناءخوانی خوانی اور منقبت خوانی انجام دی۔

۲) خوزستان سے تعلق رکھنے والے ایک ثناء خواں کے اشعار کی طرف اشارہ ہے۔