دریافت:
احکام آموزشی
- پہلا جلد
- پہلی فصل: تقلید
- دوسری فصل: طہارت
- سبق 5: پانی
سبق 5: پانی
پانی، پانی کی قسمیں، مضاف پانی، مطلق پانی، مطلق پانی کے احکام، پانی کے بارے میں شک کے احکام
1۔ پانی کی قسمیں
پانی
الف۔ مضاف
ب۔ مطلق 1۔ بارش کا پانی
مطلق 2۔ جاری پانی
3۔ کھڑا پانی: الف۔ کر - ب۔ قلیل
الف۔ مضاف پانی (گدلا اور نچوڑا ہوا پانی)
1۔ مضاف پانی کے معنی
مضاف پانی وہ ہے جس کو بغیر کسی قید اور نسبت کے پانی کہنا درست نہیں ،چاہے کسی چیز سے حاصل کیا گیا ہو مثلا تربوز یا گلاب وغیرہ کا پانی یا کسی چیز کے ساتھ اس طرح مخلوط ہو کہ پانی نہ کہا جاسکے مثلا شربت اور نمک کا پانی وغیرہ
2۔ مضاف پانی کے احکام
1۔ مضاف پانی نجس چیز کو پاک نہیں کرتا ہے (مطہرات میں سے نہیں ہے)
2۔ نجاست لگنے کی وجہ سے نجس ہوجاتا ہے (اگرچہ نجاست کم ہو اور پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے اور اگرچہ مضاف پانی کی مقدار کر کے برابر ہو)
3۔ مضاف پانی سے وضو اور غسل باطل ہے۔
4۔ اگر نجس مضاف پانی اس طرح جاری یا کر پانی سے مخلوط ہوجائے کہ اس کو مضاف نہ کہا جائے تو پاک ہوتا ہے۔
5۔ پانی مضاف تھا چنانچہ انسان کو شک ہوجائے کہ مطلق ہوا ہے یا نہیں تو مضاف پانی کا حکم رکھتا ہے یعنی نجس چیز کو پاک نہیں کرتا ہے اور اس سے وضو اور غسل بھی باطل ہے۔
ب۔ مطلق پانی (خالص پانی)
1۔ مطلق پانی کے معنی
مطلق پانی وہ ہے جس کو بغیر کسی قید اور شرط کے پانی کہا جاسکتا ہو مثلا بارش کا پانی، چشمے کا پانی وغیرہ
2۔ مطلق پانی کی قسمیں
الف۔ آسمان سے برستا ہے (بارش)
ب۔ زمین سے نکلتا ہے (جاری)
ج۔ نہ آسمان سے برستا ہے اور نہ زمین سے نکلتا ہے (کھڑا پانی)
اس کی مقدار تقریبا 384 لیٹر ہے (کر)
اس مقدار سے کم ہے (قلیل)
توجہ
پانی یا آسمان سے برستا ہے یا زمین (زیرزمین ذخیرہ) سے نکلتا ہے۔ یا نہ آسمان سے برستا ہے اور نہ زمین سے نکلتا ہے۔
جو پانی آسمان سے برستا ہے اس کو بارش کا پانی کہتے ہیں اور جو زمین سے نکلتا ہے اس کو جاری پانی کہتے ہیں۔ جو پانی نہ زمین سے نکلتا ہے اور نہ آسمان سے برستا ہے اس کو راکد (یعنی کھڑا پانی) کہتے ہیں چنانچہ اس کی مقدار تقریبا 384 لیٹر ہو تو کر پانی اور اگر اس سے کم ہو تو قلیل پانی کہتے ہیں۔
مطلق پانی کے احکام
1۔ مطلق پانی نجس چیز کو ان شرائط کے ساتھ (جن کو بیان کیا جائے گا) پاک کرتا ہے (مطہرات میں سے ہے)
2۔ قلیل پانی کے علاوہ مطلق پانی جب تک نجاست لگنے سے اس کا رنگ، بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے، پاک ہے۔
3۔ مطلق پانی سے وضو اور غسل صحیح ہے۔
4۔ دوسری چیزوں کی طرح پانی بھی نجس ہوجائے تو پانی کے ذریعے ہی پاک ہوگا اس طرح کہ اگر کر، جاری یا بارش کے پانی سے متصل ہوجائے اور مخلوط ہونے کی وجہ سے (نجاست کی وجہ سے آنے والی) تبدیلی ختم ہوجائے تو پاک ہوتا ہے لیکن جاری اور کر پانی سے متصل ہوجائے لیکن مخلوط نہ ہوجائے تو احتیاط کی بناپر نجاست کا حکم لگایا جائے گا۔
توجہمطلق پانی کے شرعی اثرات مرتب ہونے کے لئے عرف کی نظر میں مطلق کا عنوان لگنا کافی ہے بنابراین نمکیات کی موجودگی کے سبب پانی کا گاڑھا ہوجانا اس پر مطلق پانی کا عنوان لگنے میں مانع نہیں بنتا ہے مثلا ارومیہ جھیل کا پانی۔ اس سے نجس چیز کو دھویا جاسکتا ہے اور وضو اور غسل کرسکتے ہیں۔
4۔ مطلق پانی کی قسموں کے احکام
1۔ بارش کا پانی
1۔ اگر کسی نجس چیز جس پر نجاست نہ ہو،بارش برسے تو اس کو پاک کرتی ہے اور قالین اور لباس وغیرہ کو نچوڑنا لازم نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ بارش اتنی برسے کہ لوگ کہیں کہ بارش ہورہی ہے۔
2۔ اگر عین نجس پر بارش برسے اور دوسری جگہ (اس کا پانی) پہنچے چنانچہ عین نجاست ہمراہ نہ ہو اور نجاست کا رنگ، بو یا ذائقہ نہ ہو تو پاک ہے مثلا خون پر بارش برسے اور دوسری جگہ پہنچ جائے چنانچہ خون کے ذرات نہ ہوں یا خون کا رنگ، بو یا ذائقہ نہ ہو تو پاک ہے۔
3۔ اگر کسی جگہ بارش کا پانی جمع ہوجائے (حتی کہ کر سے کم ہو) جب تک بارش ہورہی ہے اگر کسی نجس چیز کو اس میں دھویا جائے تو پاک ہوگی اس شرط کے ساتھ کہ پانی کا رنگ، بو یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے تبدیل نہ ہوجائے۔
2۔ کر اور جاری پانی
1۔ اگر نجس چیز کو کر یا جاری پانی میں ڈالنے کی وجہ سے اس کا رنگ، بو یا ذائقہ تبدیل ہوجائے تو نجس ہوجاتا ہے اور اس صورت میں نجس اشیاء کو پاک نہیں کرتا ہے۔
2۔ اگر کسی نجس چیز کو کر سے متصل نلکے سے نکلنے والے پانی میں دھویا جائے تو اس کا غسالہ (دھوون) پاک ہے مگر یہ کہ نجاست کی وجہ سے اس کی تین صفات (رنگ، بو یا ذائقہ) بدل جائیں۔
3۔ نجس چیز کو نجاست برطرف کرنے کے بعد ایک مرتبہ کر یا جاری پانی میں ڈالیں یا کر سے متصل نلکے کے نیچے اس طرح رکھے کہ نجس شدہ تمام مقامات پر پانی پہنچ جائے تو پاک ہوجائے گی اور قالین اور لباس وغیرہ کو احتیاط واجب کی بناپر پانی میں ڈالنے کے بعد نچوڑنا اور جھاڑنا چاہئے۔
توجہ
پاک کرنے میں کر اور جاری پانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
3۔ قلیل پانی
1۔ قلیل پانی نجاست لگتے ہی نجس ہوجاتا ہے اگرچہ اس کا رنگ، بو یا ذائقہ نہ بدلے۔
2۔ اگر قلیل پانی میں کوئی نجس چیز گرجائے تو نجس ہوگا اور نجس چیز کو پاک نہیں کرے گا۔
3۔ اگر قلیل پانی کو نجس اشیاء پر ڈالا جائے تو ان کو پاک کرے گا[1] لیکن وہ پانی جو نجس چیز پر ڈالنے کے بعد نیچے جاری ہورہا ہے،[2] نجس ہے۔
4۔ وہ قلیل پانی جو آہستہ اور آرام سے نیچے گرتا ہے اور اس کا نیچلا حصہ نجاست سے ملتا ہے، چنانچہ اس طرح نیچے گر رہا ہو کہ اوپر سے نیچے گرنا کہا جاتا ہو تو اوپر والا حصہ پاک ہے۔
5۔ اگر قلیل پانی کر یا جاری پانی سے متصل ہو تو کر یا جاری کا حکم رکھتا ہے۔
5۔ پانی کے بارے میں شک کے احکام
1۔ جس پانی کا مطلق یا مضاف ہونا معلوم نہ ہو اور اسی طرح یہ بھی معلوم نہ ہو کہ پہلے مطلق تھا یا مضاف تو نجس چیز کو پاک نہیں کرے گا اور اس سے وضو اور غسل بھی باطل ہیں اگرچہ کر کی مقدار میں ہو لیکن اس صورت میں نجاست لگنے سے وہ پانی نجس نہیں ہوگا۔
2۔ جس پانی کا پاک یا نجس ہونا معلوم نہ ہو، شرعا پاک ہے اسی طرح اگر پانی پہلے پاک تھا اور معلوم نہ ہو کہ بعد میں نجس ہوا ہے یا نہیں تو پاک ہے لیکن جو پانی پہلے نجس تھا اور اب معلوم نہ ہو کہ پاک ہوا ہے یا نہیں تو نجس پانی کا حکم رکھتا ہے۔
3۔ جو پانی پہلے کر کے برابر تھا اب اگر انسان شک کرے کہ کر سے کم ہوا ہے یا نہیں تو کر کے حکم میں ہے۔
توجہپانی پر کر ہونے کے اثرات مرتب ہونے کے لئے اس کے کر ہونے پر علم ہونا واجب نہیں ہے بلکہ پہلے کر ہونا ثابت ہوجائے تو اب بھی کر ہونے پر بنا رکھنا جائز ہے (مثلا اگر معلوم ہو کہ ٹرین وغیرہ کے بیت الخلاء میں پہلے کر یا اس سے زیادہ مقدار میں پانی ہوتا تھا اور اب شک کریں کہ کر سے کم ہوا یا نہیں تو کر ہونے پر بنا رکھ سکتے ہیں۔
3۔ جو پانی پہلے کر سے کم تھا جب تک کر کی مقدار تک پہنچنے کا انسان کو یقین نہ ہوجائے قلیل پانی کا حکم رکھتا ہے۔
تمرین
1۔ پانی کی قسموں کے نام بیان کریں۔
2۔ مضاف اور مطلق پانی کی تعریف کریں۔
3۔ مطلق پانی کے احکام کی وضاحت کریں۔
4۔ نمکیات کی وجہ سے گاڑھا ہونے والے سمندر کے پانی سے وضو اور غسل کا کیا حکم ہے؟
5۔ پاک کرنے کے لحاظ سے کر اور جاری پانی کے درمیان کیا فرق ہے؟
6۔ جس پانی کا نجس یا پاک ہونا معلوم نہ ہو، کیا حکم رکھتا ہے؟
- سبق6: تخلی
سبق6 : تخلی
تخلی کے احکام۔ استبرا۔ استنجا
1۔ تخلی (پیشاب و پاخانہ کرنے) کے احکام
الف۔ قبلہ کی رعایت
1۔ انسان کو چاہئے کہ تخلی کے دوران قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرکے نہ بیٹھے۔
2۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ بچے کو تخلی کے دوران قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرکے نہ بٹھائے لیکن اگر بچہ خود بیٹھ جائے تو روکنا واجب نہیں ہے۔
ب۔ پوشاک
تخلی کے دوران اور دوسرے مواقع پر واجب ہے کہ انسان اپنے شریک حیات کے علاوہ دوسروں سے مرد ہو یا عورت، محرم ہو یا نامحرم حتی کہ تشخیص دینے والے نابالغ بچے سے بھی اپنی شرمگاہ کو چھپائے۔
ج۔ تخلی کے بعض مکروہات
1۔ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا
2۔ سخت زمین اور جانوروں کے بل میں پیشاب کرنا
3۔ پانی، مخصوصا کھڑے پانی میں پیشاب کرنا
4۔ پیشاب اور پاخانے کو روکنا
5۔ سڑکوں، گزرگاہوں اور پھلدار درخت کے نیچے تخلی کرنا
2۔ استبرا
1۔ پیشاب کرنے کے بعد مرد اگر استبرا کرے تو اس کے بعد پیشاب کے مخرج سے رطوبت خارج ہوجائے اور نہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یا کچھ اور تو اس رطوبت پر پاک ہونے کا حکم لگایا جائے گا اور اس کے بارے میں تحقیق کرنا لازم نہیں ہے۔
2۔ استبرا واجب نہیں ہے اور قابل توجہ ضرر کا باعث بنے تو جائز بھی نہیں ہے البتہ اگر استبرا نہ کرے اور پیشاب کرنے کے بعد کوئی مشتبہ رطوبت خارج ہوجائے تو پیشاب کا حکم رکھتی ہے۔
3۔ استبرا کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پیشاب بند ہونے کے بعد اگر پاخانے کا مخرج نجس ہوا ہو تو پہلے اس کو پاک کرے اس کے بعد تین مرتبہ بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی کو پاخانے کے مخرج سے آلہ تناسل کی جڑ تک کھینچے اور اس کے بعد انگوٹھے کو آلہ تناسل پر رکھے اور شہادت کی انگلی کو اس کے نیچے رکھے اور تین مرتبہ آلہ تناسل کے سرے تک کھینچے اور اس کے بعد آلہ تناسل کے سرے کو تین مرتبہ نچوڑے اس کے بعد پیشاب کے مخرج کو دھوئے۔
4۔ پاخانے کے مخرج کو پاک کرنے سے پہلے اور پاک کرنے کے بعد استبرا کرنے میں کیفیت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔
5۔ اگر کوئی پیشاب کے بعد استبرا اور وضو کرے اور اس کے بعد کوئی رطوبت خارج ہوجائے جس کے منی یا پیشاب ہونے میں مردد ہو تو حدث سے پاک ہونے پر یقین حاصل کرنے کے لئے واجب ہے کہ غسل اور وضو دونوں انجام دے۔
توجہبعض اوقات انسان سے خارج ہونے والی رطوبت کی اقسام
1۔ وہ رطوبت جو بعض اوقات منی کے بعد انسان سے خارج ہوتی ہے اس کو وذی کہتے ہیں۔
2۔ وہ رطوبت جو بعض اوقات پیشاب کے بعد نکلتی ہے اس کو ودی کہتے ہیں۔
3۔ وہ رطوبت جو مرد اور عورت ایک دوسرے سے کھیلنے کے بعد خارج ہوتی ہے اس کو مذی کہتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام رطوبتیں پاک ہیں اور طہارت ختم ہونے کا باعث نہیں ہیں۔
3۔ استنجا (پیشاب اور پاخانے کا مخرج پاک کرنا)
الف۔ پیشاب کا مخرج پاک کرنے کی کیفیت
1۔ پیشاب کا مخرج فقط پانی سے پاک ہوتا ہے۔
2۔ پیشاب برطرف ہونے کے بعد پیشاب کا مخرج احتیاط واجب کی بناپر قلیل پانی سے دو مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے۔
ب۔ پاخانے کا مخرج پاک کرنے کی کیفیت
1۔ پاخانے کا مخرج دو طریقوں سے پاک کیا جاسکتا ہے
1۔ پانی سے دھوئے تاکہ نجاست ختم ہوجائے اور اس کے بعد پانی ڈالنا لازم نہیں ہے۔
2۔ پتھر یا کپڑا وغیرہ کے تین ٹکڑوں سے نجاست کو صاف کرے اور اگر تین ٹکڑوں سے نجاست زائل نہ ہوجائے تو دوسرے ٹکڑوں سے اس کو مکمل صاف کرے اور تین ٹکڑوں کے بجائے پتھر یا کپڑے کے ایک ٹکڑے کے تین اطراف سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
3۔ پاخانے کا مخرج تین صورتوں میں صرف پانی سے پاک ہوتا ہے اور پتھر وغیرہ کے ذریعے پاک نہیں کیا جاسکتا ہے؛
الف۔ جب دوسری نجاست مثلا خون نکلا ہو
ب۔ باہر سے کوئی نجاست پاخانے کے مخرج پر لگی ہو
ج۔ مخرج کے اطراف معمول سے زیادہ آلودہ ہوچکے ہیں (دوسرے الفاظ میں پاخانہ مخرج سے نکل کر دوسرے اطراف تک پھیل گیا ہو)
تمرین
1۔ کیا نابالغ بچے سے شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے؟
2۔ تخلی کے بعض مکروہات بیان کریں۔
3۔ استبرا کا کیا حکم ہے؟
4۔ استبرا کے کیا فائدے ہیں؟
5۔ انسان سے خارج ہونے والی رطوبتوں کی اقسام کی وضاحت کریں۔
6۔ پیشاب اور پاخانے کے مخرج کو کیسے پاک کیا جاتا ہے؟
- سبق 7: نجاسات (1)
سبق 7: نجاسات (1)
1۔ نجس چیزیں (نجاسات)
1۔ پیشاب
2۔ پاخانہ
3۔ منی
4۔ مردار
5۔ خون
6۔ کتا
7۔ سؤر
8۔ احتیاط واجب کی بناپر مست کرنے والی مشروبات
9۔ وہ کفار جو کسی بھی آسمانی دین کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیںتوجہ
ہر چیز پاک ہونے کے حکم میں ہے مگر وہ چیزیں جن کی نجاست کا شارع مقدس نے حکم لگایا ہے۔
1۔2۔ پیشاب اور پاخانہ
نجس پیشاب اور پاخانہ
الف۔ انسان کا پیشاب اور پاخانہ
ب۔ پرندوں کے علاوہ خون جہندہ رکھنے والے ہر حرام گوشت حیوان کا پیشاب اور پاخانہ مثلا چوہا اور بلی
پاک پیشاب اور پاخانہ
الف۔ حلال گوشت حیوانات کا پیشاب اور پاخانہ پرندہ ہو مثلا چڑیا، کبوتر یا پرندہ نہ ہو مثلا گائے اور بھیڑ
ب۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حرام گوشت حیوانات کا پیشاب اور پاخانہ مثلا سانپ اور بغیر چھلکے کی مچھلی
ج۔ حرام گوشت پرندوں کا پیشاب اور پاخانہ مثلا کوا اور طوطا
1۔ انسان اور خون جہندہ (گرم خون) رکھنے والے ہر حرام گوشت حیوان کا پیشاب اور پاخانہ نجس ہے مگر حرام گوشت پرندوں کا فضلہ پاک ہے۔
2۔ حلال گوشت حیوانات کا پیشاب اور پاخانہ پاک ہے۔
3۔ جس حیوان کا حلال گوشت یا حرام گوشت ہونا معلوم نہ ہو اس کا پیشاب اور پاخانہ پاک ہونے کے حکم میں ہے۔
3۔ منی
1۔ انسان اور خون جہندہ رکھنے والے ہر حرام گوشت حیوان کی منی نجس ہے۔
2۔ حلال گوشت حیوانات کی منی احتیاط واجب کی بناپر نجس ہے۔
3۔ اگر کسی سے کوئی رطوبت نکلے اور نہیں جانتا ہو کہ منی ہے یا نہیں چنانچہ منی ہونے کا یقین نہ ہو اور منی نکلنے کی شرعی علامات ہمراہ نہ ہوں تو منی کا حکم نہیں رکھتی ہے اور پاک ہے۔
توجہ
منی کی علامتیں[1]
مردوں میں
1۔ شہوت (خوشگوار جنسی حالت جو جنسی طور پر مکمل آسودہ ہونے کے دوران وجود میں آتی ہے)
2۔ فشار اور اچھلتے ہوئے نکلنا
3۔ فتور (بدن کا سست ہونا)
عورتوں میں
1۔ شہوت
4۔ مردار (مردہ جسم)
انسان
مسلمان (کا مردہ جسم) نجس ہے ان صورتوں کے علاوہ؛
1۔ بے جان اجزا مثلا ناخن، بال اور دانت
2۔ معرکہ[2] میں شہید ہوا ہو
3۔ اس کو غسل دیا گیا ہو
کافر
کتابی (اہل کتاب) کے بے جان اجزا کے علاوہ (باقی جسم) نجس ہے
غیر کتابی کے تمام اجزا نجس ہیں
حیوان
کتا اور سؤر کے تمام اجزا نجس ہیں
کتا اور سؤر کے علاوہ خون جہندہ رکھتا ہو تو جاندار اجزا مثلا گوشت اور جلد نجس ہیں مگر یہ کہ اس کو شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو
بے جان اجزا پاک ہیں مثلا بال اور سینگ
خون جہندہ نہیں رکھتا ہو تو تمام اجزا پاک ہیں
1۔ انسان اور خون جہندہ رکھنے والے ہر حیوان کا مردار نجس ہے حرام گوشت ہو یا حلال گوشت۔
2۔ جس حیوان کو شرع میں معین دستور کے مطابق ذبح کیا گیا ہو اور نیز غسل میت دینے کے بعد انسان کا جسم مردار کے حکم سے مستثنی ہے اور نجس نہیں ہے۔
توجہغسل میت سے مراد اس کے تین غسل ہیں بنابر این جب تک تیسرا غسل مکمل نہ ہوجائے میت کا بدن نجاست کے حکم میں ہے۔
3۔ کتا، سؤر اور غیر کتابی کافر کے علاوہ باقی مردار کے وہ اجزا جن میں روح نہیں ہوتی ہے مثلا اون، بال، دانت اور سینگ وغیرہ پاک ہیں
مردار کے بارے میں چند نکتے
ہونٹ اور بدن کے دوسرے حصوں کی جلد جب ان کے اکھڑنے کا وقت پہنچ جائے اگرچہ ان کو اکھاڑا جائے تو بھی پاک ہے لیکن جس جلد کے اکھڑنے کا وقت نہ پہنچا ہو اور درد اور جلن کے ساتھ اکھاڑیں احتیاط واجب کی بناپر اجتناب کرنا چاہئے لیکن جدا ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک ہے۔
اگر زندہ موجود کا کوئی عضو مثلا ہاتھ یا پاؤں مکمل طور پر کٹ جائے تو نجس ہے۔
جان نکلنا ہی بدن کے نجس ہونے کا باعث ہوتا ہے اگرچہ ٹھنڈا نہ ہوا ہو اس حکم میں انسان اور حیوان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
اگر مکلف شک کرے کہ کوئی چیز حیوان کے اجزا میں سے ہے یا نہیں مثلا اپنے زیراستعمال چمڑے کے بارے میں شک کرے کہ قدرتی ہے یا مصنوعی تو پاک کا حکم رکھتا ہے اسی طرح اگر جانتا ہو کہ حیوان کا ہے لیکن یہ نہیں جانتا ہو کہ (وہ حیوان) خون جہندہ رکھتا ہے یا نہیں تو اس صورت میں بھی پاک ہے۔
حیوانات کا گوشت، چمڑا اور دیگر اجزا جو اسلامی ماحول میں فروخت کیا جاتا ہے یا کسی مسلمان کے قبضے ہیں، پاک کا حکم رکھتے ہیں لیکن اگر غیر مسلم ممالک سے درآمد کیا جاتا ہو چنانچہ ہمیں یقین ہو کہ اس حیوان کو تذکیہ[3] نہیں کیا گیا ہے تو نجس ہے لیکن اگر ہم جانتے ہوں یا احتمال دیں کہ تذکیہ ہوگیا ہے تو پاک ہے اور اس صورت میں جب اس کو درآمد کرنے والا مسلمان ہو اور اس کے تذکیہ کے بارے میں تحقیق اور جستجو کرنے کا احتمال دیں تو اس کا گوشت حلال ہے۔
5۔ خون
1۔ انسان اور خون جہندہ (گرم خون) رکھنے والے ہر حیوان کا خون نجس ہے، حرام گوشت ہو یا حلال گوشت
2۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوان مثلا مچھلی، کچھوا اور سانپ کا خون پاک ہے لیکن اس کو کھانا حرام ہے۔
3۔ اگر حلال گوشت حیوان کو شرع میں معین دستور کے مطابق ذبح کیا جائے اور معمول کے مطابق اس سے خون نکل آئے تو بدن میں باقی رہنے والا خون پاک ہے۔
4۔ بعض اوقات مرغی کے انڈے میں خون کا لوتھڑا پایا جاتا ہے، پاک ہے لیکن اس کو کھانا حرام ہے مگر یہ کہ ملانے سے ختم ہوجائے۔
6۔7 کتا اور سؤر
خشکی پر رہنے والا کتا اور سؤر نجس ہیں اور ان کے جاندار اور بے جان اجزا میں کوئی فرق نہیں ہے حتی کہ ان کے بدن کی رطوبتیں مثلا آب دہان اور بدن کا پسینہ بھی نجس ہے اسی طرح پالتو یا جنگلی سؤر جس کو "گراز کہا جاتا ہے" کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے لیکن دریائی کتا اور سؤر پاک ہیں۔
کتا اور سؤر کے بارے میں ایک نکتہ
(کتا اور) سؤر کے بال کو ان امور میں استعمال کرنا جو پاک ہونے سے مشروط ہیں مثلا وضو اور غسل کا برتن (میں استعمال کرنا) جائز نہیں ہے لیکن ایسے کام میں استعمال کرنا جو پاک ہونے سے مشروط نہیں ہے مثلا نقاشی کے قلم کے طور پر کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے۔
تمرین
1۔ نجاسات کون کونسے ہیں؟
2۔ کیا حرام گوشت پرندوں مثلا کوا، عقاب اور طوطے کا فضلہ نجس ہے؟
3۔ منی کی شرعی علامتوں کی وضاحت کریں۔
4۔ میت کا بدن کب پاک ہوتا ہے؟
5۔ غیر مسلم ممالک سے درآمد ہونے والے حیوانات کے اجزا مثلا چمڑا اور گوشت کب پاک ہیں؟
6۔ مرغی کے انڈے میں پایا جانے والا خون کا لوتھڑا پاک ہے یا نجس؟
[1] واضح رہے کہ مذکورہ علائم کی طرف اس وقت رجوع کیا جائے گا جب مائع کے منی ہونے کے بارے میں شک ہو
[2] یعنی جنگ کے میدان میں شہید ہوا ہو
[3] تذکیہ ان شرائط کو کہاجاتا ہے جو اسلام میں حیوانات کا گوشت حلال کرنے یا پاک کرنے کے لئے مقرر ہیں۔ حلال گوشت حیوان کے تذکیہ کا مطلب یہ ہے کہ حیوان کے اجزا کو پاک کرنا اور کھانے کے لئے اس کو حلال کرنا اور حرام گوشت حیوان میں (تذکیہ کا مطلب یہ ہے کہ) اس کے اجزا کو پاک کرنا۔ تذکیہ کے طریقے یہ ہیں؛ اونٹ کے علاوہ (باقی حیوانات کو) ذبح کرنا، اونٹ کو نحر کرنا اور جنگلی حیوانات کو شکار کرنا - سبق 8: نجاسات (2)
سبق 8: نجاسات (2)
8۔ مست کرنے والی مشروبات
مست کرنے والی مشروبات احتیاط (واجب) کی بناپر نجس ہیں۔
توجہ
اگر مست کرنے والا مادہ مائع اشیاء میں سے نہ ہو مثلا بنگ اور حشیش اور پانی یا کسی اور مائع میں مخلوط ہونے کی وجہ سے مائع کی شکل اختیار کرے تو نجس نہیں ہے۔
انگور یا انگور کا پانی خودبخود ابل جائے یا آگ کے ذریعے ابالا جائے لیکن دوتہائی حصہ کم نہ ہوا ہو اور مست بھی نہیں کرتا ہو تو نجس نہیں ہے لیکن اس کو کھانا حرام ہے
اگر کچے انگور کے ساتھ انگور کے کچھ دانے ہوں اور پورے دانوں تک پانی پہنچ جائے چنانچہ انگور کے دانے بہت کم ہوں اور پانی جوس کے اندر اس طرح ختم ہوجائے کہ انگور کا پانی نہ کہا جائے تو ابلنے سے حرام نہیں ہوگا لیکن اگر انگور کے دانوں کو الگ سے آگ میں ابالا جائے تو ان کو کھانا حرام ہے۔
ابالا ہوا کھجور، کشمش اور ان کا پانی پاک اور ان کو کھانا حلال ہے مگر اس بات پر یقین ہوجائے کہ مست کرتا ہے تو اس صورت میں حرام اور احتیاط واجب کی بناپر نجس ہے۔
الکحل جس کا ذاتی طور پر مست کرنے والی مشروبات میں سے ہونا معلوم نہیں ہے، طہارت کے حکم میں ہے۔
9۔ کافر
1۔ جو شخص خداوند عالم کے وجود یا معاد کا منکر ہو یا کسی بھی آسمانی دین پر اعتقاد نہ رکھتا ہو کافر اور نجس ہے۔
توجہ
2۔ اہل کتاب کافر طہارت کے حکم میں ہے
توجہ
اہل کتاب ـ یعنی وہ لوگ جو ادیان الہی میں سے کسی ایک پر اعتقاد رکھتے ہیں اور خود کو انبیاء الہی میں سے کسی ایک کے پیروکار سمجھتے ہیں مثلا یہودی، عیسائی، زرتشتی اور صابئی[1] ـ طہارت کے حکم میں ہیں۔
3۔ اگر کوئی مسلمان خداوند عالم یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عقیدے سے پھر جائے یا دین اسلام کی ضروریات میں سے کسی ایک کا انکار کرے چنانچہ اس کا انکار رسالت کے انکار یا پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جھٹلانے پر منتج ہوجائے تو مرتد اور نجس ہے لیکن صرف نماز، روزہ اور دوسرے شرعی واجبات کو ترک کرنا مسلمان کے مرتد اور کافر ہونے اور نجاست کا باعث نہیں بنتا ہے اور جب تک اس کا مرتد ہونا ثابت نہ ہوجائے دوسرے مسلمانوں کے حکم میں ہوگا۔
4۔ اگر کوئی شخص پیغمبر اکرم یا ائمہ کرام علیہم السلام میں سے کسی ایک کی شان میں دشنام طرازی کرے یا ان کے بارے میں غلو کرے اور ان کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھے تو نجس ہے۔
5۔ گمراہ فرقے بہائیت کے ماننے والے نجاست کے حکم میں ہیں۔
نجاسات کے بارے میں چند نکتے
نجاست خور حیوان اور حرام طریقے سے جنب ہونے والے کا پسینہ پاک ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ اس پسینے کے ساتھ نماز نہ پڑھے۔
حرام اور نجس گوشت (مثلا سؤر کا گوشت) کھانے والے شخص کا پسینہ اور آب دہان پاک ہے۔
نجس چیز کو پاک کرنے کے بعد اس میں رنگ یا بو کا باقی رہنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے بنابراین اگر لباس سے خون کو زائل کرے اور پانی سے دھوئے لیکن خون کا رنگ اس میں باقی رہ جائے تو لباس پاک ہے۔
قے، پاک ہے چاہے شیرخوار بچے کا ہو یا اس بچے کا ہو جو دودھ بھی پیتا ہے اور غذا بھی کھاتا ہے یا بالغ انسان کا ہو۔
تمرین
1۔ الکحل کے نجس ہونے کا معیار کیا ہے؟
2۔ کس صورت میں دین کی ضروریات کا انکار کرنا کفر کا باعث بنتا ہے؟
3۔ اہل کتاب سے مراد کون ہیں؟ اور طہارت و نجاست کے اعتبار سے کیا حکم ہے؟
4۔ طہارت اور نجاست کے اعتبار سے بہائیت کو ماننے والوں کا حکم بیان کریں۔
5۔ حرام سے جنب ہونے والے کا پسینہ کیا حکم رکھتا ہے؟
6۔ لباس کو دھونے کے بعد خون کا باقی رہنے والا پھیکا رنگ نجس ہے؟
[1] صابئی وہ ہے جو حضرت یحیی علیہ السلام کی پیروی کرنے کا دعوی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس حضرت یحیی کی کتاب موجود ہے
- سبق 9: نجاسات (3)
سبق 9: نجاسات (3)
نجاست ثابت ہونے کے طریقے۔ پاک اشیاء کے نجس ہونے کی کیفیت۔ نجاسات کے احکام۔ وسوسہ اور اس کا علاج
2۔ نجاست ثابت ہونے کے طریقے
کسی چیز کا نجس ہونا تین طریقوں سے ثابت ہوتا ہے
1۔ کسی چیز کے نجس ہونے پر انسان کو خود یقین یا اطمینان ہو
2۔ صاحب اختیار یعنی جس شخص کے پاس کوئی چیز ہو (مثلا گھر کا مالک، فروخت کرنے والا اور خادم) کسی چیز کے نجس ہونے کی خبر دے۔
3۔ دو عادل اور قابل اطمینان افراد گواہی دیں۔
توجہ
اگر کوئی بچہ بالغ ہونے کے قریب ہو اور کسی چیز کے نجس ہونے کی خبر دے جو اس کے اختیار میں ہو تو اس کو قبول کرنا چاہئے دوسرے الفاظ میں اس کے بارے میں اس کی بات معتبر ہے اور ممیز بچہ جو بالغ ہونے کے نزدیک نہیں ہے اس کی بات میں احتیاط کی رعایت کرنا چاہئے۔
3۔ پاک اشیاء کے نجس ہونے کی کیفیت
پاک چیز نجس ہونے کے لئے چار شرائط لازمی ہیں؛
1۔ پاک چیز نجس چیز کے ساتھ لگ جائے۔
2۔ دونوں یا کوئی ایک تر ہو
3۔ رطوبت اتنی ہو کہ دوسری چیز تک سرایت کرجائے۔
4۔ بدن کے اندرونی حصے میں ان دونوں کا ملاپ نہ ہوجائے
توجہ
رطوبت مسریہ (سرایت کرنے والی) کا معیار یہ ہے کہ اتنی مقدار میں ہو کہ ملاپ کے وقت رطوبت مرطوب چیز سے دوسری میں سرایت کرجائے
اگر پاک چیز نجاست یا متنجس چیز کے ساتھ لگ جائے اور انسان کو شک ہوجائے کہ دونوں میں سے ایک میں اتنی رطوبت تھی کہ دوسری تک سرایت کرجائے یا نہیں تو پاک چیز کی نجاست کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
کپڑا وغیرہ اگر تر ہو اوراس کا ایک حصہ نجس سے لگ جائے تو صرف وہی حصہ نجس اور باقی پاک ہے۔
مائع اور بہنے والی چیزیں مثلا شیرہ اور مائع تیل کا کوئی بھی حصہ نجس ہوجائے تو پورا نجس ہوتا ہے لیکن مائع نہ ہو تو صرف نجاست سے لگنے والا حصہ نجس ہے۔
متنجس اول (وہ چیز جس سے عین نجس لگا ہو اور نجس ہوگئی ہو) اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے اور کوئی ایک تر ہو تو پاک چیز کو نجس کردے گی اور متنجس دوم ( وہ چیز جو متنجس سے لگی ہو اور نجس ہوئی ہو) اگر کسی (تیسری) پاک چیز سے لگ جائے تو احتیاط واجب کی بناپر اس کو نجس کرتی ہے لیکن متنجس سوم کسی اور چیز سے لگ جائے تو نجس نہیں کرے گی۔
4۔ نجاسات کے احکام
1۔ نجس چیز کو کھانا اور پینا حرام ہے اسی طرح دوسروں کو کھلانا بھی جائز نہیں ہے لیکن اگر انسان دیکھے کہ کوئی نجس غذا کھا رہا ہے یا نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے تو اس کے نجس ہونے کے بارے میں بتانا لازم نہیں ہے۔
2۔ جو شخص کپڑا دھورہا ہو اس کو لباس کی نجاست سے آگاہ کرنا لازم نہیں ہے لیکن کپڑے کے مالک کو جب تک اس کے پاک ہونے پر یقین حاصل نہ ہو اس پر پاک ہونے کے اثرات مرتب نہیں کرسکتا ہے۔
3۔ اگر مہمان میزبان کے گھر کا کوئی سامان نجس کرے تو کھانے پینے اور غذائی ظروف کے علاوہ میزبان کو اطلاع دینا لازم نہیں ہے۔
4۔ اگر میزبان کو کھانے کے دوران معلوم ہوجائے کہ غذا نجس ہے تو مہمان کو بتانا ضروری ہے لیکن اگر مہمانوں میں سے کسی کو پتہ چل جائے تو دوسروں کو بتانا لازم نہیں ہے۔
5۔ جس نجس چیز کے بارے میں انسان کو شک ہوجائے کہ پاک ہوگئی ہے یا نہیں تو اس کے نجس ہونے کا حکم لگایا جائے گا اور جس پاک چیز کے بارے میں انسان کو شک ہوجائے کہ نجس ہوگئی ہے یا نہیں تو اس کے پاک ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔
6۔ اگر انسان تحقیق اور جستجو کرکے کسی چیز کے پاک یا نجس ہونے کو ثابت کرسکتا ہو تو تحقیق اور جستجو لازم نہیں ہے اور پاک ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔
5۔ وسواسی سے مربوط احکام
1۔ جو شخص طہارت اور نجاست کے بارے میں نفسیاتی طور پر شدید حساس ہو مثلا دوسرے کی نسبت کسی چیز کے نجس ہونے پر جلدی یقین کرتا ہو یا دوسرے کی نسبت زیادہ دیر سے کسی چیز کے پاک ہونے پر یقین کرتا ہو تو ایسے انسان کو فقہ میں "وسواسی" کہتے ہیں۔
2۔ اگر وسواسی کو کسی چیز کے نجس ہونے پر یقین ہوجائے تو اپنے یقین پر عمل کرنا لازم نہیں ہے مگر ان صورتوں میں جب متعارف طریقے سے یقین حاصل ہوجائے۔
3۔ وسواسی کے ہاتھ سے نجس چیز کو دھونے کا معیار عام انسان کے دھونے کے معیار جیسا ہے اور لازم نہیں کہ وسواسی کو نجاست کے برطرف ہونے اور طہارت پر یقین حاصل ہوجائے۔
4۔ وسواسی کو چاہئے کہ وسوسے کی بیماری سے نجات پانے کے لئے درج ذیل ہدایات پر عمل کرے؛
1۔ دین اسلام کے احکام آسان اور انسانی فطرت کے مطابق ہیں پس ان کو اپنے لئے مشکل نہیں بنانا چاہئے اور اس کام سے اپنے جسم اور روح کو تکلیف اور نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ ان مواقع پر اضطراب اور بے چینی کی وجہ سے زندگی تلخ ہوجاتی ہے اور اللہ تعالی ان کے اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے رنج اور عذاب سے راضی نہیں ہے۔ آسان دین کی نعمتوں کا شکرگزار ہونا چاہئے اور نعمت کا شکر (ادا کرنے کا طریقہ) یہ ہے کہ اللہ تعالی کی تعلیمات کے مطابق عمل کیا جائے۔
2۔ وسوسہ ایک محدود مدت کی کیفیت ہے جس کا علاج ممکن ہے۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لئے کسی معجزے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ذاتی ذوق اور سلیقے کے چھوڑ کر مقدس دین کے دستورات کی اطاعت کرنا چاہئے۔
3۔ دین مقدس کی نظر میں تمام اشیاء کی بنیاد طہارت اور پاکی پر ہے جب تک کسی چیز کے نجس ہونے کا یقین نہ ہوجائے وہ چیز پاک ہے اگرچہ اس کی نجاست کا زیادہ احتمال ہی کیوں نہ ہو۔
تمرین
1۔ بلوغ کی عمر کے نزدیک پہنچنے والا بچہ اپنے اختیار میں موجود چیز کی نجاست کے بارے میں خبر دے تو کیا اس پر اعتماد کرسکتے ہیں؟
2۔ پاک چیز کے نجس ہونے کے لئے کتنی شرائط لازم ہیں؟ وضاحت کریں۔
3۔ رطوبت مسریہ (سرایت کرنے والی رطوبت) کا کیا معیار ہے؟
4۔ متنجس چیز کتنے واسطوں تک نجس کرسکتی ہے؟
5۔ اگر مہمان میزبان کے گھر کا سامان نجس کردے تو میزبان کو اطلاع دینا واجب ہے؟
6۔ اگر وسواسی کو کسی چیز کی نجاست پر یقین ہوجائے تو کیا حکم ہے؟
- سبق 10: مطہرات (1)
سبق 10: مطہرات (1)
مطہرات
1۔ پانی
2۔ زمین
3۔ سورج
4۔ استحالہ
5۔ انتقال
6۔ اسلام
7۔ تبعیت
8۔ عین نجاست کا برطرف ہونا
9۔ مسلمان کا غائب ہونا
توجہنجس کو پاک کرنے والی چیزوں کو مطہرات کہتے ہیں
1۔ پانی
پانی کے ذریعے نجس چیز کو پاک کرنے میں کئی شرائط لازم ہیں؛
1۔2۔ پانی پاک اور مطلق ہو
3۔ نجس چیز کو دھوتے وقت مضاف نہ ہوجائے
4۔ نجس چیز کو دھونے کے بعد اس میں عین نجاست نہ رہ جائے
5۔ قلیل پانی سے پاک کرنے میں غسالہ[1] کا جدا ہونا شرط ہے۔
برتنوں کو پاک کرنے کا طریقہ1۔ نجس برتن کو قلیل پانی سے تین مرتبہ دھونا چاہئے لیکن کر اور جاری پانی میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہے۔
2۔ جس برتن سے کتے نے سیال چیز یا پانی پیا ہو یا چاٹا ہو تو پہلے مٹی سے مانجنا چاہئے اور اس کے بعد پانی سے دھونا چاہئے اور اگر قلیل پانی سے دھویا جائے تو مٹی سے مانجنے کے بعد دو مرتبہ دھویا جائے۔
3۔ جس برتن سے سؤر نے سیال غذا یا پانی پیا ہو سات مرتبہ دھونا چاہئے لیکن مٹی سے مانجنا لازم نہیں ہے۔
برتنوں کے علاوہ دوسری چیزوں کو پاک کرنے کا طریقہ
1۔ جو چیز نجس ہوئی ہو ، عین نجاست برطرف کرنے کی صورت میں اگر ایک مرتبہ کر یا جاری پانی میں ڈال دیں یا کر سے متصل نلکے کے نیچے اس طرح رکھ دیں کہ نجس ہونے والی تمام جگہوں پر پانی پہنچ جائے تو پاک ہوجاتی ہے اور قالین اور لباس وغیرہ کو احتیاط (واجب) کی بناپر پانی میں ڈالنے کے بعد نچوڑنا یا جھٹکا دینا چاہئے البتہ پانی سے باہر نچوڑنا یا جھٹکا دینا لازم نہیں بلکہ پانی اندر بھی کافی ہے۔
2۔ جو چیز پیشاب لگنے سے نجس ہوئی ہو اگر عین نجاست برطرف ہونے کے بعد قلیل پانی اس کے اوپر دو مرتبہ ڈالا جائے تو پاک ہوتی ہے اور جو چیز دوسری نجاستوں کے لگنے سے نجس ہوئی ہو عین نجاست برطرف ہونے کے بعد ایک مرتبہ دھویا جائے تو پاک ہوتی ہے۔
3۔ قلیل پانی میں دھونے والی چیز سے پانی کا جدا ہونا ضروری ہے اور اگر نچوڑنے کے قابل ہو مثلا قالین یا لباس ہو تو اس کو نچوڑنا چاہئے تاکہ اس سے پانی جدا ہوجائے۔
توجہ
نجس قالین وغیرہ کو پائپ کے پانی سے دھونے کی صورت میں غسالے کا پانی جدا ہونا شرط نہیں ہے بلکہ عین نجاست زائل ہونے کے بعد نجس حصے تک پانی پہنچنے اور پانی ڈالتے وقت ہاتھ پھیرنے کی وجہ سے غسالہ کا اپنی جگہ سے حرکت کرنے سے طہارت حاصل ہوتی ہے۔
نجس پانی کے گارے سے بنائے ہوئے تنور کا ظاہری حصہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے اور روٹی پکانے کے لئے تنور کا ظاہری حصہ جس سے خمیر لگ جاتا ہے، پاک ہونا کافی ہے۔
جو نجس لباس پاک کرتے وقت پانی کو رنگین کرتا ہے چنانچہ پانی مضاف ہونے کا باعث نہ ہو تو نجس لباس پر پانی ڈالنے سے پاک ہوجاتا ہے۔
جو نجس لباس دھونے کے لئے برتن میں ڈالا جائے اور پائپ کا پانی پورے لباس تک پہنچ جائے تو لباس، برتن، پانی اور لباس سے جدا ہونے والے ذرات جو پانی کے اوپر دکھائی دیتے ہیں اور پانی کے ساتھ باہر نکل جاتے ہیں سب پاک ہیں۔ (البتہ چنانچہ پہلے کہا گیا کہ لباس وغیرہ کو احتیاط کی بناپر پانی میں ڈالنے کے بعد نچوڑنا یا جھٹکنا چاہئے۔
تمرین
1۔ مطہرات کے نام ذکر کریں۔
2۔ برتنوں کو پاک کرنے کا طریقہ بیان کریں۔
3۔ کیا کر اور جاری پانی میں نجس کپڑے دھوئیں تو نچوڑنا لازم ہے یا عین نجاست کے زائل ہونے کے بعد پانی پہنچنا کافی ہے؟
4۔ متنجس لباس کو کر اور جاری پانی میں دھوتے وقت پانی سے باہر نچوڑنا لازم ہے یا پانی کے اندر نچوڑنا کافی ہے؟
5۔ کیا نجس پانی کے گارے سے بنے تنور کو پاک کرنا ممکن ہے؟
6۔ نجس لباس دھوتے وقت پانی کو رنگین کرے تو کیسے پاک کرسکتے ہیں؟
- سبق 11: مطہرات (2)
سبق 11: مطہرات (2)
2۔ زمین
جس شخص کے پاؤں کے تلوے یا جوتے زمین پر چلنے سے نجس ہوجائیں تو چنانچہ تقریبا دس قدم خشک اور پاک زمین پر چلے تو پاؤں کے تلوے اور جوتے پاک ہوجاتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ عین نجاست زائل ہوجائے۔
توجہ
تارکول پاؤں کے تلوے اور جوتے کو پاک نہیں کرتا ہے۔
3۔ سورج
1۔ سورج زمین اور تمام غیر منقول اشیاء مثلا عمارتیں اور ان میں استعمال ہونے والی چیزیں مثلا دروازہ، کھڑکی، دیوار وغیرہ، درخت اور گھاس کو پاک کرتا ہے۔
پاک کرنے کی شرائط
1۔ نجس چیز تر ہو
2۔ اس میں عین نجاست نہ ہو (اگر عین نجاست ہو تو سورج لگنے سے پہلے برطرف ہونا چاہئے)
3۔ سورج اس پر لگ جائے (بادل یا ہوا وغیرہ سورج لگنے میں مانع نہ بن جائیں)
4۔ سورج کے ذریعے خشک ہوجائے ( اگر مرطوب رہ جائے تو پاک نہیں ہوگا)
4۔ استحالہ
اگر نجس چیز اس طرح تبدیل ہوجائے کہ دوسری جنس بن جائے مثلا لکڑی جلنے کی وجہ سے راکھ بن جائے یا شراب سرکہ بن جائے یا کتا نمک کی کان میں گرنے سے نمک بن جائے تو پاک ہوجاتا ہے لیکن اگر جنس تبدیل نہ ہوجائے بلکہ صرف شکل بدل جائے مثلا گندم آٹا بن جائے یا چینی پانی میں حل ہوجائے تو پاک نہیں ہوتا ہے۔
توجہنجس مواد مثلا نجس تیل کو پاک کرنے کے لئے اس میں کیمیائی تبدیلیاں کرکے کچھ خصوصیات ایجاد کرنا کافی نہیں ہے (اس طرح کرنے سے استحالہ نہیں ہوگا)
5۔ انتقال
مچھر اور دوسرے حشرات انسان یا خون جہندہ رکھنے والے حیوانات کے بدن سے خون چوسیں تو جب تک انسان یا حیوان کا خون شمار ہوجائے، نجس ہے (مثلا زالو انسان کے بدن سے خون چوسے)۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس حشرات کا خون شمار ہوجائے تو پاک ہے۔ دوسری نجاسات کا بھی یہی حکم ہے۔
6۔اسلام
1۔ غیر کتابی کافر اعتقاد کے ساتھ کلمہ شہادتین اپنی زبان پر جاری کرے یعنی أَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِ لّا اللّهُ وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمّداً رَسُولُ اللّهِ تو مسلمان ہوتا ہے اور اس کے مسلمان ہونے سے اس کا بدن، منہ اور ناک کا پانی اور پسینہ بھی پاک ہوتا ہے۔
2۔ جس وقت کافر تھا اگر اس کا لباس رطوبت کے ساتھ اس کے بدن سے لگا ہو اور مسلمان ہوتے وقت بھی اس کے بدن پر (وہ لباس) نہ ہو تو نجس ہے بلکہ اگر اس کے بدن پر ہوتو بھی احتیاط واجب کی بناپر اس سے اجتناب کرے۔
7۔ تبعیت
1۔ تبعیت یہ ہے کہ کوئی نجس چیز پاک ہونے سے دوسری نجس چیز بھی پاک ہوجائے
2۔ اگر شراب سرکہ بن جائے تو اس کا برتن بھی جہاں تک ابلنے کے دوران شراب لگی ہے، پاک ہوتا ہے اسی طرح کپڑے اور وہ چیز جو معمولا شراب کے برتن پر ڈالی جاتی ہے اگر شراب کی رطوبت اس تک پہنچی ہے تو پاک ہوتا ہے۔
3۔ پاک کرنے کے وسائل مثلا ہاتھ اور وہ برتن جس میں نجس چیز کو دھویا ہے، نجس چیز کی تبعیت میں پاک ہوتا ہے اور علیحدہ دھونے کی ضرورت نہیں اور برتن کو تین مرتبہ دھونا واجب نہیں ہے مگر یہ استعمال کرنے سے پہلے نجس ہوا ہو تو اس صورت میں اس کو تین مرتبہ دھونا واجب ہے۔
8۔ عین نجاست کا برطرف ہونا
اگر حیوان کا بدن کسی نجس چیز سے آلودہ ہوجائے تو اس کے برطرف ہوتے ہی اس حیوان کا بدن پاک ہوتا ہے اور پانی سے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کے بدن کا اندرونی حصہ مثلا منہ یا ناک کا اندرونی حصہ بھی اسی طرح ہے، پس دانت سے نکلنے والا خون اگر آب دہان کے ساتھ باہر نکلے یا تھوکا جائے تو منہ پاک ہوتا ہے۔
9۔ مسلمان کا غائب ہونا
اگر یقین ہوجائے کہ کسی مسلمان کا بدن، لباس یا کوئی اور چیز نجس ہوگئی ہے اور اس مسلمان کو ایک مدت تک نہ دیکھے اور اس کے بعد دیکھے کہ وہ نجس چیز کو پاک چیز کی طرح استعمال کررہا ہے تو وہ چیز پاک ہونے کے حکم میں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس چیز کا مالک پہلے سے اس چیز کے نجس ہونے اور طہارت اور نجاست کے احکام سے باخبر ہو۔
تمرین
1۔ کیا تارکول پر چلنے سے پاؤں اور جوتے کا تلوا پاک ہوتا ہے؟
2۔ سورج کے ذریعے پاک کرنے کی شرائط کیا ہیں؟
3۔ استحالہ کے تین نمونے بیان کریں۔
4۔ نجس تیل میں کیمیائی طریقے سے اس طرح تبدیلی ایجاد کریں کہ کچھ جدید خاصیتیں پیدا ہوجائیں تو کیا پاک ہوتا ہے؟
5۔ زالو انسان کے بدن سے خون چوسے تو پاک ہے یا نجس؟ کیوں؟
6۔ کونسی چیز عین نجاست برطرف ہونے سے پاک ہوتی ہے؟
- سبق 12: مطہرات (3)
سبق 12: مطہرات (3)
طہارت ثابت ہونے کے طریقے۔ اصل طہارت۔ برتنوں کے احکام
2۔ طہارت ثابت ہونے کے طریقے
کسی بھی چیز کا پاک ہونا تین طریقوں سے ثابت ہوتا ہے
1۔ انسان کو نجس چیز کے پاک ہونے پر خود یقین یا اطمینان ہوجائے
2۔ ذوالید یعنی جس شخص کے اختیار میں کوئی چیز ہو (مثلا گھر کا مالک، فروخت کرنے والا یا نوکر) کہے کہ پاک ہوگئی ہے۔
3۔ دو عادل اور قابل اطمینان شخص گواہی دیں۔
توجہ
اگر بلوغت کی عمر کے نزدیک پہنچنے والا بچہ اس چیز کے پاک ہونے کی خبر دے جو اس کے اختیار میں ہو تو قبول کرنا چاہئے دوسرے الفاظ میں اس کے بارے میں اس کی بات معتبر ہے اور ممیز بچہ جو بلوغت کے نزدیک نہیں پہنچا ہے اس کی بات میں احتیاط کی رعایت کرنا چاہئے
3۔ اصل طہارت
طہارت اور نجاست کے بارے میں کلی قانون یہ ہے کہ اشیاء بنیادی طورپر پاک ہیں یعنی ہر وہ چیز جس کی نجاست پر یقین نہ ہو شرعی نظر سے طہارت کے حکم میں ہے اور تحقیق اور پوچھنا لازم نہیں ہے۔
2۔ اصل طہارت کے چند موارد اور نمونے
1۔ جو بچہ ہمیشہ خود کو نجس کرتا ہے اس کا گیلا ہاتھ، آب دہان اور بچی ہوئی غذا کے بارے میں جب تک نجس ہونے کا یقین نہ ہو، طہارت کے حکم میں ہے۔
2۔ اون اور غبار کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ نجس لباس سے جدا ہوئے ہیں یا پاک لباس سے تو پاک ہیں اسی طرح اگر جانتے ہوں کہ نجس لباس سے جدا ہوئے ہیں لیکن اس لباس کے پاک حصے سے جدا ہوئے ہیں یا نجس حصے سے۔
3۔ ڈرائی کلینر کو دینے والا لباس اگر پہلے سے نجس نہ ہو تو طہارت کے حکم میں ہے اگرچہ جانتے ہوں کہ ان مکانات کے مالک لباس دھونے کے لئے کیمیکل مواد استعمال کرتے ہیں
4۔ اس جگہ گرنے والا پانی جس جگہ کا پاک یا نجس ہونا معلوم نہ ہو، پاک ہے۔
5۔ شہر کے کچرے اٹھانے والی گاڑیوں سےسڑکوں پر گرنے والی پانی اگر پاک یا نجس ہونا معلوم نہ ہو تو طہارت کے حکم میں ہے اسی طرح سڑکوں پر موجود گڑے میں جمع ہونے والا اگر پاک یا نجس ہونا معلوم نہ ہو (تو پاک ہے)
6۔ بیوٹی پارلر کے لوازمات مثلا لپ سٹک کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ مردار سے تیار کیا گیا ہے یا نہیں تو جب تک شرعی طریقے سے ان کی نجاست ثابت نہ ہوجائے پاک ہے اور ان کو استعمال کرنا اشکال نہیں رکھتاہے۔
7۔ جوتے استعمال کرنے کے دوران اس وقت پاؤں نجس اور نماز کے لئے دھونا ضروری ہوگا جب اس جوتے کا ایسے حیوان کی جلد سے تیار ہونے پر یقین ہوجائے جس کو تذکیہ نہیں کیا گیا ہے اور اور یہ معلوم ہوجائے کہ اس جوتے کے اندر پاؤں سے پسینہ نکلا ہے۔ لیکن پسینہ آنے کے بارے میں شک ہو یا جس حیوان کی جلد سے تیار کیا گیا ہے اس کے تذکیہ کے بارے میں شک ہو تو طہارت کے حکم میں ہے۔
8۔ پینٹنگ اور مصوری وغیرہ میں استعمال ہونے والا برش اگر سؤر کے بال سے تیار ہونا معلوم نہ ہو تو پاک ہے اور اس کو ان کاموں میں بھی استعمال کرنا اشکال نہیں رکھتا جو طہارت سے مشروط ہیں۔
9۔ جس شخص کا مسلمان یا کافر ہونا معلوم نہ ہو طہارت کے حکم میں ہے اور اس کے دین کے بارے میں پوچھنا واجب نہیں ہے۔
10۔ غیر کتابی کفار (مثلا بدھ مت) کے ہوٹل اور گھروں کے دروازے، دیواریں، سامان اور ان میں موجود لوازمات کا پاک یا نجس ہونا معلوم نہ ہو تو طہارت کے حکم میں ہے (البتہ نجاست پر یقین ہونے کی صورت میں بھی ان سب کو دھونا واجب نہیں ہے۔ فقط ان نجس اشیاء کو پاک کرنا واجب ہےجو کھانے پینے اور نماز پڑھنے میں استعمال ہوتے ہیں)
11۔ مسلمانوں اور کفار کے مشترکہ استعمال کی چیزیں مثلا گاڑیوں اور ریل کی کرسی وغیرہ کا نجس یا پاک ہونا معلوم نہ ہو تو پاک ہیں۔
4۔ برتنوں کے احکام
سونے یا چاندی سے تیار شدہ برتن میں کھانا اور پینا حرام ہے لیکن ان کو اپنے پاس رکھنا یا ـکھانے اور پینے کے علاوہ ـ دیگر کاموں میں استعمال کرنا حرام نہیں ہے۔
توجہ
جس برتن پر سونے یا چاندی کا پانی چڑایا گیا ہے یا سونے یا چاندی سے مخلوط دھات سے تیار کیا گیا ہو اس طرح کہ سونے یا چاندی کا برتن نہیں کہا جاتا ہو تو سونے اور چاندی کے برتن کا حکم نہیں رکھتا ہے۔
تمرین
1۔ طہارت ثابت ہونے کے طریقوں کو بیان کریں۔
2۔ اصل طہارت کا کیا مطلب ہے؟
3۔ جو بچہ ہمیشہ خود کو نجس کرتا ہے، اس کے تر ہاتھ، آب دہان اور بچی ہوئی غذا کا کیا حکم ہے؟
4۔ کیا ڈرائی کلینر کو دینے والا کپڑا طہارت کے حکم میں ہے؟
5۔ سڑک پر موجود گڑھے میں جمع ہونے والا پانی پاک ہے یا نجس؟
6۔ سونے اور چاندے کے برتن رکھنے کا کیا حکم ہے؟
- سبق 13: وضو (1)
سبق 13: وضو (1)
وضو کا معنی۔ وضو کی کیفیت
1۔ وضو کا معنی
وضو مخصوص شرائط اور کیفیت کے ساتھ چہرے اور ہاتھوں کو دھونے اور سر کے اگلے حصے اور پاوں کے اوپر مسح کرنے کو کہتے ہیں۔ دین اسلام میں معنوی طہارت کا ذریعہ بننے والا یہ عمل بعض واجب اور مستحب اعمال کے لئے مقدمہ ہے مثلا نماز، طواف، قرآن کی تلاوت اور مسجد میں داخل ہونا وغیرہ
2۔ وضو کی کیفیت
چہرے کو پیشانی کے بالائی حصے سے ٹھوڑی کے آخر تک دھونا
ہاتھوں کو کہنیوں سے لے کر انگلیوں کے سرے تک دھونا
سر کے اگلے حصے کا مسح کرنا
پاؤں کی انگلیوں کے سرے سے لے کر جوڑ تک مسح کرنا
توجہ
وضو کی ترتیب یہ ہے کہ چہرے کو پیشانی کے بالائی حصے یعنی جس جگہ بال اگتے ہیں، سے لے کر ٹھوڑی کے آخر تک دھوئیں اس کے بعد دائیں ہاتھ کو کہنی سے لے کر انگلیوں کے سرے تک اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کو کہنی سے لے کر انگلیوں کے سرے تک دھوئیں اس کے بعد تر ہاتھ کو سر کے اگلے حصے پر پھیریں اور آخر میں تر ہاتھ کو دونوں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے لے کر جوڑ تک کھینچیں۔
الف۔ چہرے اور ہاتھوں کو دھونا
1۔ چہرے کو دھوتے وقت جتنا حصہ درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان آجائے دھونا چاہئے
2۔ بالوں کے اندر چھپے ہوئے چہرے میں بالوں کو دھونا کافی ہے اور وضو کا پانی جلد تک پہنچانا لازم نہیں ہے مگر یہ کہ بال اس قدر کم ہو کہ جلد واضح طور دکھائی دے۔
3۔ دھونا صدق آنے کا معیار یہ ہے کہ پانی پورے عضو تک پہنچ جائے اگر ہاتھ پھیرنے کی وجہ سے کیوں نہ ہو اور دھونا صدق آئے بغیر صرف تر ہاتھ کو اعضا کے ساتھ مس کرنا کافی نہیں ہے۔
4۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہئے اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھوئیں تو وضو باطل ہے۔
5۔ چہرے اور ہاتھوں کو پہلی مرتبہ دھونا واجب، دوسری مرتبہ دھونا جائز اور تیسری مرتبہ اور اس سے زیادہ دھونا غیر شرعی (حرام) ہے۔
توجہ
ہر مرتبہ کی تعیین کا معیار انسان کا ارادہ ہے پس اگر پہلی مرتبہ دھونے کی نیت سے کئی مرتبہ پانی ڈالیں تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
ب۔ سر اور پاؤں کا مسح
1۔ سر کی جلد پر مسح کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر مسح کرنا کافی ہے لیکن دوسرے حصوں کے بال آکر اگلے حصے پر جمع ہوگئے ہوں تو یا اگلے حصے کے بال اتنے لمبے ہوں کہ چہرے یا کندھوں پر ڈالا گیا ہو تو ان پر مسح کرنا کافی نہیں ہے اور مانگ نکال کر جلد یا بالوں کی جڑوں پر مسح کرنا چاہئے۔
توجہ
جس شخص کے سر کے اگلے حصے میں مصنوعی بال لگائے گئے ہوں چنانچہ ٹوپی کی مانند ہوں تو مسح کرنے کے لئے ان کو اتارنا چاہئے لیکن اگر سر کی جلد اگائے گئے ہوں اور ان کو اتارنا ممکن نہ ہو یا ضرر اور تکلیف کا باعث ہو اور بالوں کی موجودگی میں رطوبت کو سر کی جلد تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو بالوں کے اوپر مسح کرنا کافی ہے۔
2۔ پاؤں کے مسح کی جگہ پاؤں کے اوپر کسی ایک انگلی کے سرے سے لے کر جوڑ تک ہے۔
توجہ
اگر پاؤں کا مسح انگلیوں کے سرے کو شامل نہ کرے بلکہ انگلیوں کے کچھ حصے اور پاؤں کے اوپر مسح کریں تو وضو باطل ہے البتہ اگر شک ہو کہ مسح کرتے وقت انگلیوں کے سرے سے کیا ہے یا نہیں تو اس کا وضوصحیح ہونے کے حکم ہے۔
3۔ سر اور پاؤں کا مسح اس تری کے ساتھ ہونا چاہئے جو ہاتھوں پر وضو کے پانی سے بچا ہوا ہو اور اگر رطوبت باقی نہ ہو تو ہاتھ کو پانی سے تر نہیں کرسکتے ہیں بلکہ ہاتھ کو داڑھی یا ابرو کی رطوبت سے تر کرکے مسح کرنا چاہئے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے سر کا مسح کرے لیکن اوپر سے نیچے کی طرف کھینچنا لازم نہیں ہے۔
توجہ
اگر وضو کرنے والا وضو کی نیت سے چہرے اور ہاتھوں کو دھوتے وقت پانی کے نلکے کو کھولے اور بند کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور وضو صحیح ہونے میں کوئی اشکال ایجاد نہیں کرتا ہے لیکن بائیں ہاتھ دھونے کے بعد اور اس سے مسح کرنے سے پہلے اپنا ہاتھ تر نلکے سے لگائے تو اور ہاتھ پر موجود وضو کا پانی باہر کے پانی سے مخلوط ہوجائے تو وضو اور باہر کے پانی سے مخلوط رطوبت سے مسح صحیح ہونا محل اشکال ہے۔
چونکہ پاؤں کا مسح دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی پر باقی رہنے والی وضو کی رطوبت سے ہونا چاہئے پس ضروری ہے کہ سر کا مسح کرتے وقت ہاتھ پیشانی کے بالائی حصے تک نہ پہنچے اور چہرے کی رطوبت نہ لگے تاکہ ہاتھ کی رطوبت جو پاؤں کا مسح کرتے وقت ضروری ہے، چہرے کی رطوبت سے مخلوط نہ ہوجائے۔
4۔ مسح میں ہاتھوں کو سر یا پاؤں کے اوپر کھینچنا چاہئے پس اگر ہاتھ کو آرام سے رکھ کر سر یا پاؤں کو اس کے نیچے حرکت دیں تو مسح باطل ہے۔
5۔ مسح کی جگہ خشک ہونا چاہئے یا اس قدر تر نہ ہو کہ ہتھیلی کی تری اس پر کوئی اثر نہ کرے۔
توجہ
اگر پاؤں پر پانی کے کچھ قطرے موجود ہوں تو ان قطروں کو مسح کرنے کی جگہ سے صاف کرنا چاہئے تاکہ مسح کرتے وقت ہاتھ کی رطوبت پاؤں پر اثر کرے نہ برعکس
6۔ اگر پاؤں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کے لئے پانی سے نہ دھوسکیں تو تیمم کرنا چاہئے۔
وضو کی کیفیت کے بارے میں ایک نکتہ
وضو کے افعال اور کفییت میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے مگر یہ کہ مرد کے لئے مستحب ہے کہ کہنیوں کو دھوتے وقت بیرونی حصے سے شروع کرے اور عورت اندرونی حصے سے۔
تمرین
1۔ وضو کی کیفیت اور ترتیب کی وضاحت کریں۔
2۔ کیا چہرے اور ہاتھوں پر تین چلو پانی ڈالنے سے وضو باطل ہوتا ہے؟ کیوں؟
3۔ اگر وضو کرنے والا چہرے اور ہاتھوں کو دھوتے وقت پانی کے نلکے کو کھولے اور بند کرے تو کوئی اشکال ہے؟
4۔ اگر سر کے مسح کی رطوبت چہرے کی رطوبت سے مل جائے تو کیا وضو باطل ہوتا ہے؟
5۔ مسح کرتے وقت پانی کے چند قطروں کے پاؤں پر ہونے سے وضو کے لئے اشکال ہوگا؟
6۔ مرد اور عورت کے وضو میں کیا فرق ہے؟ بیان کریں۔
- سبق 14: وضو (2)
سبق 14: وضو (2)
وضو کی شرائط ((1))3۔ وضو کی شرائط
وضو کرنے والے کی شرائط(نیت) قصد قربت کے ساتھ وضو کرے
پانی کے استعمال میں کوئی مانع نہ ہو
وضو کے پانی کی شرائطوضو کا پانی مطلق ہو
پانی پاک ہو
پانی مباح ہو (غصبی نہ ہو)
وضو کے برتن کی شرطمباح ہو
وضو کے اعضاء کی شرائط
پاک ہوں
پانی پہنچنے میں کوئی مانع نہ ہو
وضو کی کیفیت کی شرائط
دھونے اور مسح کرنے میں ترتیب کی رعایت کی جائے (ترتیب)
وضو کے افعال کو پے درپے انجام دیا جائے (موالات)
اختیاری حالت میں وضو کے افعال کو خود انجام دے (مباشرت)وضو کے وقت کی شرط
وضو اور نماز کی مقدار کے برابر وقت باقی ہو
1۔ نیت
1۔ وضو کو قصد قربت یعنی اس مخصوص عمل کو خدا کے فرمان کو بجالانے کی نیت کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔
2۔ وضو کی نیت خالص ہو بنابراین اگر قصد قربت کے ساتھ ریا کیا جائے تو وہ ریا اصل عمل میں ہونے کی صورت میں وضو باطل ہے اور اگر وضو کے بعض واجب افعال کو ریا کے طور پر انجام دیا جائے تو اگرچہ یہ کام حرام ہے لیکن چنانچہ موالات ختم ہونے سے پہلے خالص قصد قربت کے ساتھ اس حصے کو دوبارہ انجام دئے تو وضو صحیح ہے۔
2۔ پانی کے استعمال میں کوئی مانع نہ ہو
1۔ اگر کوئی ڈرتا ہو کہ وضو کرنے سے مریض ہوگا یا پانی کو وضو کے لئے استعمال کرے تو پیاسا رہ جائے گا تو وضو نہیں کرنا چاہئے۔
2۔ اگر کوئی جانتا ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے اور وضو کرے تو اس کا وضو باطل ہے۔
3۔ وضو کا پانی مطلق ہو
وضو کا پانی مطلق ہونا چاہئے بنابراین مضاف پانی سے وضو کرنا باطل ہے۔
4۔ وضو کا پانی پاک ہو
وضو کا پانی پاک ہونا چاہئے بنابراین نجس پانی سے وضو کرنا باطل ہے۔
توجہ
اگر کسی کو پانی کا نجس یا مضاف ہونا معلوم نہ ہو یا فراموش کرے اور اس وضو کے ساتھ نماز پڑھی ہو تو اس نماز کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔
اگر کسی کے پاس نجس یا مضاف کے علاوہ پانی نہ ہو تو نماز کے لئے تیمم کرنا چاہئے۔
4۔ پانی
وضو کا پانی اور برتن مباح ہو
1۔ وضو کا پانی مباح ہونا چاہئے بنابراین غصبی پانی سے وضو کرنا جائز نہیں اور باطل ہے۔
2۔ اگر غصبی برتن میں مباح پانی ہو اور وضو ارتماسی کرے اور یا اس برتن سے چہرے اور ہاتھوں پر پانی ڈالے تو وضو باطل ہے لیکن اگر ہاتھ کی ہتھیلی یا کسی اور وسیلے سے اس برتن سے پانی نکالے اور چہرے اور ہاتھوں پر ڈالے تو اس کا وضو صحیح ہے اگرچہ غصبی برتن کو استعمال کرنے کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔
3۔ اگر کوئی شخص نہیں جانتا ہو کہ غصبی پانی اور برتن میں وضو باطل ہے اور حتی کہ وضو کے باطل ہونے کا احتمال بھی نہیں دیتا ہو تو اس کا وضو صحیح ہے۔
توجہ
جس مکان کا پانی تمام نمازیوں کے وضو کرنے کے لئے رکھا گیا ہو اس کو استعمال کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے۔
حکومتی اداروں کے مراکز اور مساجد میں وضو کرنا جن کو حکومت دوسرے اسلامی ممالک میں تعمیر کرتی ہے، جائز ہے اور شرعا کوئی مانع نہیں ہے۔
اگر واٹر بورڈ پریشر والا پمپ لگانے اور اور اس کو استعمال کرنے سے منع کرے تو پمپ لگانا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور پمپ سے حاصل ہونے والے پانی سے وضو کرنا محل اشکال ہے حتی کہ عمارتوں کی بالائی منزلوں میں رہنے والے پانی کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے پمپ استعمال کرنے پر مجبور ہوجائیں (پھر بھی محل اشکال ہے)
رہائشی اور غیر رہائشی عمارتوں کے صارفین شرعی نظر میں واجبات کی ادائیگی (مثلا ٹھنڈے اور گرم پانی کا خرچہ، ہوا کشی اور نگہبانی کے اخراجات) کے حوالےسے جتنی مقدارمیں مشترکہ وسائل کو استعمال کرتے ہیں اسی کے مطابق مدیون ہیں اور اگر پانی کے پیسے ادا کرنے سے انکار کریں تو ان کا وضو محل اشکال بلکہ باطل ہے۔
تمرین
1۔ وضو کرنے والے کی شرائط بیان کریں۔
2۔ وضو کے پانی میں کون کونسی شرائط ہونا ضروری ہے؟
3۔ حکومت اسلامی ممالک میں جو مراکز ، مساجد اور ادارے تعمیر کرتی ہے ان میں وضو کرنے کا کیا حکم ہے؟
4۔ اگر واٹر بورڈ پریشر پمپ لگانے اور اس کو استعمال کرنے سے منع کرے تو پمپ کے ذریعے حاصل ہونے والے پانی سے وضو کرنے کا کیا حکم ہے؟
5۔ رہائشی عمارتوں میں رہنے والے لوگ اگر سہولیات کے اخراجات ادا کرنے سے انکار کریں تو کیا ان کا وضو صحیح ہے؟
- سبق 15: وضو (3)
سبق 15: وضو (3)
وضو کی شرائط ((2))7۔ وضو کے اعضاء پاک ہوں
وضو کے اعضاء دھوتے اور مسح کرتے وقت پاک ہونا چاہئے لیکن جس حصے کو دھویا یا مسح کیا ہو اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے نجس ہوجائے تو وضو صحیح ہے البتہ نماز کی خاطر نجاست سے اس کو پاک کرنا واجب ہے۔
توجہ
اگر کوئی عضو پہلے نجس تھا اور شک کرے کہ پاک کرنے کے بعد وضو کیا ہے یا نہیں تو وضو صحیح ہے لیکن ہر صورت میں اس حصے کو دھونا چاہئے۔
8۔ وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی مانع نہ ہو
وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی مانع نہ ہو ورنہ وضو باطل ہے۔
توجہ
چہرے اور بال پر طبیعی طور پر لگنے والی چربی مانع شمار نہیں ہوتی ہے مگر اتنی زیادہ ہو کہ جلد اور بال تک پانی پہنچنے میں مانع بن جائے
ناخن پر لگی پالش کی تہہ ہو تو ناخن تک پانی پہنچنے سے مانع بنتی ہے اور وضو باطل ہے۔
مصنوعی رنگ جس کو عورتیں سر کے بالوں اور ابرو پر رنگ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں چنانچہ اگر صرف رنگ ہو اور بال تک پانی پہنچنے میں مانع بننے والی تہہ نہ ہو تو وضو صحیح ہے۔
سیاہی کی اگر تہہ ہو اور جلد تک پانی پہنچنے میں مانع بنے تو وضو باطل ہونے کا باعث ہے اور اس چیز کی تشخیص بندے کی اپنی ذمہ داری ہے۔
جسم پر ٹیٹو بنانا اگر صرف رنگ ہو یا جلد کے نیچے ہو اور جلد کے ظاہری حصے پر پانی پہنچنے میں کوئی مانع موجود نہ ہو تو وضو صحیح ہے۔
صرف پلاسٹر یا اعضاء کے خشک ہونے کے بعد ظاہر ہونے والا صابن وضو کے لئے مضر نہیں ہے مگر یہ کہ تہہ ہو جو جلد کے ظاہری حصے تک پانی پہنچنے میں مانع ہو۔
اگر جانتا ہو کہ وضو کے اعضاء سے کوئی چیز لگی ہوئی ہے لیکن پانی پہنچنے میں مانع بننے یا نہ بننے میں شک ہو تو اس کو برطرف کرنا چاہئے۔
اگر وضو سے پہلے جانتا ہو کہ بعض اعضاء پر پانی پہنچنے میں کوئی مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ پانی پہنچا ہے یا نہیں تو وضو صحیح ہے۔
اگر شک کرے کہ وضو کے اعضاء کے ساتھ پانی پہنچنے سے کوئی مانع چسپان ہے یا نہیں چنانچہ عرف کی نگاہ میں یہ احتمال بجا ہے ـ مثلا گارا بنانے کے بعد احتمال دے کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا ہوا ہے یا نہیں ـ تو تحقیق کرنا چاہئے یا ہاتھ کو اتنا ملنا چاہئے کہ اس کے برطرف ہونے یا جلد تک پانی پہنچنے کا اطمینان ہوجائے۔
9۔ ترتیب
وضو کو اسی ترتیب کے مطابق انجام دینا چاہئے جو پہلے بیان کیا گیا ہے اور اگر کسی اور ترتیب کے مطابق عمل کرے تو وضو باطل ہے۔
10۔ موالات
وضو کے افعال کو متعارف طریقے پرپے در پے انجام دینا لازم ہے اس طرح کہ اگر ان کے درمیان اتنا فاصلہ آئے کہ کسی عضو کو دھوتے یا مسح کرتے وقت اس سے پہلے دھویا ہوا عضو خشک ہوجائے تو وضو باطل ہے۔
11۔ مباشرت
جو شخص وضو کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ وضو کے تمام افعال کو خود انجام دے اور اگر کوئی اور اس کو وضو کرائے یا چہرے اور ہاتھوں پر پانی ڈالنے اور سر اور پاؤں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو وضو باطل ہے۔
توجہ
اگر کوئی بیماری وغیرہ کی وجہ سے خود وضو نہ کرسکے تو جتنی مقدار اس کی قدرت سے باہر ہے اس کے لئے دوسرے کی مدد حاصل کرے البتہ وضو کرنے والے کو چاہئے کہ خود نیت کرے اور اگر ممکن ہو تو اپنے ہاتھ سے مسح کا عمل انجام دینا چاہئے۔ اگر نہ کرسکے تو نائب اس کا ہاتھ پکڑے اور اس سے مسح کرائے۔ اگر اس سے بھی عاجز ہے تو نائب اس کے ہاتھ سے رطوبت لے کر مسح کرے۔ اگر اس شخص کے ہاتھ کی ہتھیلی نہ ہوتو مسح کے لئے کلائی اور کہنے کے درمیانی حصے سے رطوبت حاصل کرے اور اگر کلائی اور کہنی کا درمیانی حصہ بھی نہ ہو تو اس کے چہرے سے رطوبت حاصل کرے اور اس سے سر اور پاؤں کا مسح کرے۔
12۔ وضو اور نماز کے لئے وقت کافی ہو
اگر نماز کا وقت اس قدر تنگ ہو کہ وضو کرنے کی صورت میں پوری نماز کو وقت کے اندر نہیں پڑھ سکتا ہو اور ایک حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑھے تو اس صورت میں وضو نہیں کرنا چاہئے بلکہ تیمم کرکے نماز پڑھنا چاہئے البتہ اگر تیمم بھی وضو کے برابر وقت لے تو اس صورت میں وضو کرنا چاہئے۔
تمرین
1۔ وضو کے اعضاء کی شرایط کیا ہیں؟
2۔ وضو کی کیفیت کی شرائط کیا ہیں؟
3۔ اگر وضو کا کوئی عضو دھونے کے بعد لیکن مکمل ہونے سے پہلے نجس ہوجائے تو کیا حکم ہے؟
4۔ بال اور چہرے پر طبیعی طور پر لگنے والی چربی مانع شمار ہوتی ہے؟
5۔ اگر جانتا ہو کہ وضو کے اعضاء سے کوئی چیز لگی ہے لیکن شک کرے کہ پانی پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو کیا وظیفہ ہے؟
6۔ ترتیب اور موالات کے درمیان کیا فرق ہے؟ وضاحت کریں۔
- سبق 16: وضو (4)
سبق 16: وضو (4)
ارتماسی وضو۔ وضوئے جبیرہ۔ مبطلات وضو۔ وضو کے احکام4۔ ارتماسی وضو
1۔ ارتماسی وضو کا معنی
وضو میں جائز ہے کہ انسان چہرے اور ہاتھوں پر پانی ڈالنے کے بجائے وضو کی نیت سے ان کو پانی میں ڈال دے اور باہر لائے۔ اس عمل کو ارتماسی وضو کہتے ہیں۔
2۔ ارتماسی وضو کے احکام
1۔ ارتماسی وضو میں بھی اعضاء کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا واجب ہے۔
2۔ ارتماسی وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو فقط دو مرتبہ پانی میں ڈال سکتے ہیں۔ پہلی مرتبہ واجب ، دوسری مرتبہ جائز اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے۔ ہاتھوں کو پانی سے نکالنے کے دوران وضو کے لئے دھونے کی نیت کرنا چاہئے تاکہ اس طرح وضو کے پانی سے مسح کرسکیں۔
5۔ وضوئے جبیرہ
1۔ وضوئے جبیرہ کا معنی
جس چیز سے زخم اور چوٹ کو باندھا جاتا ہے اور زخم وغیرہ پر جو دوائی ڈالی جاتی ہے اس کو جبیرہ کہتے ہیں۔
اگر وضو کے اعضاء زخم، چوٹ یا جلنے کی وجہ سے بندھے ہوئے ہوں اور کھولنا ممکن نہ ہوتو (اوپر سے نیچے کی طرف ترتیب کی رعایت کرتے ہوئے) جن حصوں کو دھونا ممکن ہے دھونا چاہئے اور جبیرہ کو دھونے کے بجائے تر ہاتھ کھینچنا چاہئے اور اگر مسح کی جگہ پر جبیرہ ہوتو جبیرہ پر مسح کرنا چاہئے۔ اس کو وضوئے جبیرہ کہتے ہیں۔
2۔ وضوئے جبیرہ کے احکام
1۔ اگر وضو کے اعضاء (چہرے اور ہاتھ) پر زخم یا چوٹ ہو اور کھلا ہوا ہو چنانچہ پانی مضر نہ ہو تو دھونا چاہئے اور اگر دھونا مضر ہوتو اس کے اطراف کو دھونا چاہئے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ تر ہاتھ کو اس پر کھینچنا مضر نہ ہو تو کھینچنا چاہئے۔
2۔ اگر مسح کی جگہ پر زخم ہو اور تر ہاتھ کو نہیں کھینچ سکتا ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے لیکن زخم پر کپڑا رکھ کر ہاتھ کھینچنا ممکن ہوتو احتیاط واجب یہ ہے کہ تیمم کے علاوہ اس طرح مسح کرکے وضو بھی کرے۔
3۔ اگر وضو کے کسی عضو پر زخم ہو جس سے ہمیشہ خون نکلتا ہو تو واجب ہے کہ زخم پر جبیرہ رکھے کہ خون نہ نکلے مثلا نائلون
4۔ اگر کسی کومعلوم نہ ہو کہ اس کا وظیفہ تیمم ہے یا وضوئے جبیرہ تو احتیاط کی بناپر دونوں (تیمم اور وضوئے جبیرہ) انجام دے۔
5۔ جس شخص کے اعضا پر جبیرہ ہے اگر آخری وقت تک عذر برطرف ہونے سے مایوس ہو تو اول وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگر مایوس نہ ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز میں تاخیر کرے اور اگراس کا عذر برطرف نہ ہوجائے تو وضوئے جبیرہ کے ساتھ نماز پڑھے۔
6۔ مبطلات وضو
1۔ پیشاب نکلنا
2۔ پاخانہ نکلنا
3۔ معدہ یا انتڑیوں سے ہوا نکلنا
4۔ اس طرح نیند آنا کہ آنکھ نہ دیکھے اور کان نہ سنے
5۔ وہ چیزیں جو عقل کو زائل کرتی ہیں مثلا دیوانگی، مستی اور بے ہوشی
6۔ عورتوں کا استحاضہ
7۔ ہر وہ چیز جو غسل کا باعث بنتی ہے مثلا جنابت، حیض اور مس میت
توجہ
وضو کو باطل کرنے والی چیزوں کو مبطلات وضو کہتے ہیں۔
مبطلات وضو پیش آنےسے نابالغ بچہ بھی (بالغ افراد کی طرح) محدث ہوجاتا ہے (یعنی اس کا وضو باطل ہوجاتا ہے)
7۔ وضو کے احکام
1۔ جو شخص اپنا وضو باطل ہونے کے بارے میں جاہل ہو اور وضو کے بعد متوجہ ہوجائے تو واجب ہے کہ وضو سے مشروط اعمال کے لئے دوبارہ وضو کرے اور باطل وضو کے ساتھ نماز پڑھی ہے تو اس کو بھی دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
2۔ جو شخص وضو کے افعال اور شرائط مثلا پانی کا پاک ہونا اور غصبی نہ ہونا میں زیادہ شک کرتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے شک پر اعتناء نہ کرے
وضو میں شکاصل وضو میں شک (یعنی شک کرے کہ وضو کیا ہے یا نہیں)
نماز سے پہلے ہوتو وضو کرنا چاہئے
نماز کے دوران ہوتو اس کی نماز باطل ہے اور دوبارہ وضو کرکے دوبارہ نماز پڑھے
نماز کے بعد (شک کرے کہ وضو کے ساتھ نماز پڑھی ہے یا نہیں) تو جو نماز پڑھی ہے وہ صحیح ہے لیکن بعد والی نمازوں کے لئے وضو کرنا چاہئے
وضو باطل ہونے کے بارے میں شک کرے (یعنی شک کرے کہ وضو باطل ہوا ہے یا نہیں) تو وضو باطل نہ ہونے پر بنا رکھے
وضو صحیح ہونے کے بارے میں شک (وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ وضو صحیح کیا ہے یا نہیں) تو اپنے شک کی پروا نہ کرے ( اور صحیح ہونے پر بنا رکھے)
تمرین
1۔ ارتماسی وضو میں کئی مرتبہ چہرے اور ہاتھوں کو پانی میں ڈال سکتے ہیں یا فقط دو مرتبہ جائز ہے؟
2۔ کسی شخص کے اعضائے وضو پر زخم یا چوٹ ہو تو اس کا کیا وظیفہ ہے؟
3۔ کسی کے اعضائے وضو پر ایسازخم ہے کہ جبیرہ رکھنے کے باوجود ہمیشہ خون نکلتا ہے تو کیسے وضو کرے گا؟
4۔ مبطلات وضو بیان کریں۔
5۔ حدث اصغر کی وجہ سے کیا نابالغ بچہ بھی محدث ہوجاتا ہے؟
6۔ اگر کوئی وضو باطل ہونے یا نہ ہونے میں شک کرے تو کیا حکم ہے؟
- سبق 17: وضو کے اہداف
سبق 17: وضو کے اہداف
8۔ وضو کے اہداف (وہ افعال جن کے لئے وضو کرنا ضروری ہے)
1۔ عمل کے صحیح ہونے کی شرط یعنی اگر وضو کے بغیر اس عمل کو انجام دیا جائے تو صحیح نہیں ہے
(نماز میت کے علاوہ )تمام واجب اور مستحب نمازیں
نماز کے فراموش شدہ اجزا (سجدہ اور تشہد)
واجب طواف
2۔ عمل جائز (حرام نہ ہونے) کی شرط یعنی اگر وضو کے بغیر وہ عمل انجام دیں تو حرام ہے
قرآن کے حروف کو مس کرنا
خداوند عالم کے اسماء اور مخصوص صفات کو مس کرنا
انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء کو مس کرنا احتیاط واجب کی بنا پر
3۔ عمل کامل ہونے کی شرط مثلا قرآن پڑھنے کے لئے وضو کرنا
4۔ عمل وجود میں آنے کے لئے شرط مثلا طہارت کے ساتھ رہنے کے لئے وضو کرنا
5۔ عمل کی کراہت ختم کرنے کے لئے شرط مثلا جنابت کی حالت میں کھانا کھانا کہ وضو کرنے سے اس کی کراہت ختم ہوجاتی ہے۔
توجہتمام واجب اور مستحب نمازوں اور ان کے فراموش شدہ اجزا کے صحیح ہونے کے لئے وضو شرط ہے بنابر این کوئی بھی نماز وضو کے بغیر صحیح نہیں ہے مگر نماز میت جس کے لئے وضو لازم نہیں ہے۔
خانہ خدا کے واجب طواف کے صحیح ہونے کے لئے وضو شرط ہے اور اس کے بغیر طواف باطل ہے۔ واجب طواف سے مراد وہ طواف ہے جو حج اور عمرہ کا جز ہے اگرچہ وہ حج یا عمرہ مستحب ہو لیکن مستحب طواف جو حج اور عمرہ کے علاوہ بجا لایا جاتا ہے، کے لئے وضو لازم نہیں ہے۔
ا گر عرفا نماز کا وقت نزدیک ہوتو واجب نماز پڑھنے کے لئے وضو کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
طہارت کے ساتھ رہنے کی نیت سے وضو کرنا شرعا مستحب اور مطلوب ہے اور مستحب وضو کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے
مستحب ہے کہ انسان ہمیشہ باوضو رہے مخصوصا مسجد اور مقدس مکانات میں داخل ہوتے وقت، تلاوت قرآن اور سوتے وقت وغیرہ
وضو صحیح طریقے سے انجام دینے کے بعد جب تک وہ باطل نہ ہوجائے ہر طہارت سے مشروط عمل انجام دینا جائز ہے بنابراین لازم نہیں ہے کہ ہر نماز کے لئے الگ وضو کرے بلکہ ایک وضو سے جب تک وہ باطل نہ ہوجائے جتنی چاہے نمازیں پڑھ سکتا ہے۔
1۔ قرآن کو مس کرنا
وضو کے بغیر قرآن کے حروف کو چھونا حرام ہے۔ یہ قرآن کریم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ تمام قرآنی آیات و کلمات شامل ہیں جو دوسری کتابوں یا اخبارات، مجلے اور بورڈ وغیرہ پر ہوں۔
توجہبدن کے تمام حصے مثلا ہونٹ اور چہرہ وغیرہ ہاتھ کے حکم میں ہیں۔
2۔ اللہ تعالی، انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء کو مس کرنا
1۔ اللہ تعالی کی ذات سے مخصوص اسماء اور صفات کو وضو کے بغیر مس کرنا حرام ہے اور احتیاط (واجب) کی بناپر انبیائے کرام اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے نام بھی اللہ کے نام کا حکم رکھتے ہیں۔
2۔ لفظ جلالہ "اللہ" کو وضو کے بغیر مس کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ کسی مرکب نام مثلا عبداللہ یا حبیب اللہ کا جز ہو۔
3۔ اسلامی جمہوری ایران کا لوگو اگر عرف کی نظر میں اسم جلالہ شمار ہوجائے تو طہارت کے بغیر چھونا حرام ہے اس صورت کے علاوہ کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ احوط (استحبابی) یہ ہے کہ اس کو طہارت کے بغیر مس نہ کرے۔
4۔ وہ ضمیریں جو اللہ تعالی کی ذات کی طرف پلٹتی ہیں مثلا "بسمہ تعالی" میں موجود ضمیر لفظ جلالہ "اللہ" کا حکم نہیں رکھتی ہے۔
5۔ لفظ جلالہ "اللہ" کے بجائے ہمزہ اور تین نقطے لکھنے میں شرعا کوئی مانع نہیں ہے اور ہمزہ اور تین نقطے لفظ جلالہ کا حکم نہیں رکھتے ہیں اور وضو کے بغیر ان کو چھونا جائز ہے۔
6۔ صرف اس احتمال سے لفظ جلالہ "اللہ" کو لکھنے سے گریز کرنا تاکہ بے وضو افراد اس کو مس نہ کریں، کوئی مانع نہیں ہے
قرآنی آیات اور اللہ تعالی اور انبیاء و ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارکہ کو مس کرنے کے بارے میں چند نکات
قرآنی آیات یا اسماء مبارکہ لکھے ہوئے تعویز کو گلے میں ڈالنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے لیکن تحریر (طہارت کے بغیر) بدن سے نہ لگنے پائے۔
اگر کھانا کھاتے وقت قرآنی آیات مثلا آیت الکرسی یا اسماء مبارکہ لکھے ہوئے برتن استعمال کرنا چاہے تو باوضو ہو یا ہاتھ اور بدن قرآنی آیات اور اسماء مبارکہ سے مس نہ ہوجائیں تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
جو شخص کتابت کی مشین کے ذریعے قرآنی آیات یا اللہ تعالی اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے نام لکھتا ہے لازم نہیں کہ لکھتے وقت باوضو ہو (یہ کام طہارت سے مشروط نہیں ہے) لیکن وضو کے بغیر ان کو مس کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے
انگوٹھی پر نقش کلمات کو مس کرنے کے لئے طہارت شرط ہےمثلا قرآنی کلمات وغیرہ ہوتو طہارت کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے۔
قرآنی آیات اور اسماء جلالہ وغیرہ کا نشرو اشاعت کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے لیکن جس کو بھی مل جائیں شرعی احکام کی رعایت کرنا واجب ہے اور بے احترامی اور نجس کرنے اور وضو کے بغیرہاتھ لگانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
جن اخبارات میں قرآنی آیات اور اسماء مبارکہ لکھے ہوئے ہیں، ان مختلف کاموں مثلا روٹی لپیٹنا، ان پر بیٹھنا یا دسترخوان بنانا وغیرہ میں استعمال کرنا اگر عرفا بے احترامی شمار ہوجائے تو جائز نہیں ہے اور اگر بے احترامی شمار نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے
قرآنی آیات اور متبرک اسماء پر مشتمل اشیاء کو نہر یا کوہل میں پھینکنا اگر عرفا توہین شمار نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
اگر کسی ورق پر قرآنی آیات اور اللہ تعالی اور معصومین علیہم السلام کے اسماء ہونا ثابت نہ ہو تو اس کو جلانا اور پھینکنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے اور تحقیق اور جستجو لازم نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جن اوراق کو کاٹن سازی کی فیکٹری وغیرہ میں استعمال کرنا ممکن ہو یا ایک طرف تحریر اور دوسری طرف خالی ہونے کی وجہ سے لکھنے کے لئے استعمال کے قابل ہو تو اسراف کا امکان ہونے کی وجہ سے ان کو جلانا یا پھینکنا اشکال سے خالی نہیں ہے۔
قرآنی آیات اور متبرک اسماء کو زمین میں دفن کرنا یا پانی کے ذریعے گھلانا کوئی اشکال نہیں رکھتا لیکن ان کو جلانے میں اشکال ہے اور اگر بے احترامی شمار ہوجائے تو جائز نہیں ہے مگر اس صورت میں جب ضرورت تقاضا کرے اور قرآنی آیات اور متبرک اسماء کو جدا کرنا ممکن نہ ہو
قرآنی آیات اور متبرک اسماء کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا کہ دو حروف بھی متصل نہ ہوں اور پڑھنے کے قابل نہ رہیں تو اگر بے احترامی شمار ہوجائے تو جائز نہیں ہے اس صورت کے علاوہ بھی اگر لفظ جلالہ اور قرآنی آیات کے مٹنے کا باعث نہ ہو تو کافی نہیں اسی طرح بعض حروف کو اضافہ یا کم کرکے کلمات کی تحریری شکل میں تبدیلی لانا بھی ان حروف کا شرعی حکم زائل ہونے کا باعث نہیں جن کو قرآنی آیات یا لفظ جلالہ کی نیت سے لکھا گیا ہے البتہ حروف میں اس طرح تبدیلی آئے کہ ان کے مٹنے کے برابر ہوجائے تو حکم کا زائل ہونا بعید نہیں ہے اگرچہ احتیاط (مستحب) یہ ہے کہ وضو کے بغیر مس کرنے سے اجتناب کرے۔
تمرین
1۔ کیا واجب نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے اس کی نیت سے وضو کرنا جائز ہے؟
2۔ نماز صبح کے لئے وضو کرے تو کیا اس سے ظہر اور عصر کی نماز پڑھنا جائز ہے؟
3۔ کن کن اسماء کو وضو کے بغیر مس کرنا حرام ہے؟
4۔ "عبداللہ" اور "حبیب اللہ" جیسے اسماء کو وضو کے بغیر مس کرنے کا کیا حکم ہے؟
5۔کیا اسلامی جمہوری ایران کے لوگو کو وضو کے بغیر چھونا حرام ہے؟
6۔ کیا انگوٹھی کے اوپر نقش کلمات کو چھونا جائز ہے؟
- سبق 18: غسل (1)
سبق 18: غسل (1)
غسل کے معنی۔ غسل کی قسمیں۔ غسل کی کیفیت۔ غسل جبیرہ
1۔ غسل کے معنی
غسل سر سے لے کر پاؤں تک پورے بدن کو خاص شرائط اور کیفیت کے ساتھ دھونے کو کہتے ہیں۔
2۔ غسل کی قسمیں
1۔ واجب ، مردوں اور عورتوں کے درمیان مشترک غسل
1۔غسل جنابت
2۔ غسل مس میت
3۔ غسل میت
4۔ نذر، عہد یا قسم کا غسل
عورتوں سے مخصوص غسل
ماہواری (حیض) بند ہونے کے بعد غسل
2۔ بچہ جننے کے بعد خون (نفاس) بند ہونے کے بعد غسل
3۔ زنانہ خون زیری (استحاضہ) کے دوران غسل
2۔ مستحب غسل مثلا جمعہ کا غسل
3۔ غسل کی کیفیت
غسل کو دو طریقے سے انجام دے سکتے ہیں؛
1۔ ترتیبی: بدن کو خاص ترتیب کے ساتھ دھوئیں اس طرح کہ پہلے سر اور گردن ، اس کے بعد احتیاط واجب کی بناپر بدن کا دائیں حصہ پورا اور آخر میں بدن کا بائیں حصہ پورا دھوئیں
2۔ ارتماسی: پورے بدن کو ایک ہی مرتبہ پانی میں ڈال دے اس طرح کہ پانی پورے بدن تک پہنچ جائے۔
توجہ
غسل میں بدن اور اس کا حصہ شمار ہونے والے چھوٹے بالوں کے علاوہ احتیاط واجب کی بناپر لمبے بالوں کو بھی دھونالازم ہے۔
غسل کے دوران قبلے کی طرف رخ کرنا واجب نہیں ہے۔
غسل کے دوران بدن کےاعضاء خشک ہونا لازم نہیں بنابراین غسل سے پہلے سر اور بدن کو دھونا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے۔
اگر غسل ترتیبی کو اس ترتیب کے برخلاف انجام دے جس کو پہلے ذکر کیا گیا ہے، عمدا ہو یا سہوا یا مسئلہ نہ جانے کی وجہ سے، غسل باطل ہے۔
اگر غسل کے بعد معلوم ہوجائے کہ بدن کے کسی حصے تک پانی نہیں پہنچا ہے تو
غسل ارتماسی ہےتو دوبارہ غسل کرنا چاہئے مذکورہ حصہ معلوم ہو یا نہ ہو
اگر غسل ترتیبی ہے تو چنانچہ وہ حصہ معلوم نہ ہو تو دوبارہ غسل کرنا چاہئے
اگر معلوم ہو اور بائیں طرف ہے تو اسی حصے کو دھونا کافی ہے۔
اگر دائیں طرف ہے تو اس حصے کو دھوئے اور احتیاط واجب کی بناپر بائیں طرف کو بھی دھوئے۔
سر اور گردن ہو تو اس حصے کو دھوئے اس کے بعد پورے بدن کو دھوئے ۔ احتیاط واجب کی بناپر پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف کو دھوئے۔
4۔ غسل جبیرہ
غسل جبیرہ وضوئے جبیرہ کی طرح ہے۔
تمرین
1۔واجب غسلوں کے نام ذکر کریں۔
2۔ غسل کو کتنے طریقوں سے انجام دے سکتے ہیں؟
3۔ غسل ترتیبی میں سر اور بدن کے دیگر اعضاء کے درمیان ترتیب کی رعایت کافی ہے یا بدن کے دائیں اور بائیں طرف میں بھی ترتیب کی رعایت کرنا چاہئے؟
4۔ کیا غسل میں بدن کی جلد کے علاوہ لمبے بالوں کو بھی دھونا ضروری ہے؟
5۔ کیا غسل کے دوران قبلے کی طرف رخ کرنا واجب ہے؟
6۔ اگر غسل کے بعد پتہ چلے کہ بدن کے کسی حصے تک پانی نہیں پہنچا ہے تو کیا حکم ہے؟
- سبق 19: غسل (2)
سبق 19: غسل (2)
غسل کی شرائط۔ غسل کے احکام
5۔ غسل کی شرائط
جو شرائط وضو کے لئے بیان کی گئی ہیں مثلا پانی کا پاک ہونا وغیرہ غسل میں بھی شرط ہیں لیکن غسل میں اوپر سے نیچے اور اعضاء کو پے در پے دھونا لازم نہیں ہے بلکہ غسل کے درمیان کچھ دیر کے لئے دوسرا کام کرسکتے ہیں اس کے بعد اسی جگہ سے غسل کے باقی افعال کو انجام دے سکتے ہیں۔
توجہ
غسل ترتیبی میں جس حصے کو دھونا چاہے اگر وہ حصہ نجس ہو تو پہلے اس کو دھونا چاہئے لیکن غسل سے پہلے پورا بدن پاک ہونا واجب نہیں ہے بنابراین اگر کسی عضو کو غسل سے پہلے پاک کیا جائے تو غسل صحیح ہے لیکن نجس عضو کو غسل سے پہلے پاک نہ کیا جائے اور ایک ہی مرتبہ دھوکر اس کو پاک کرنے کے ساتھ ساتھ غسل بھی کرے تو غسل باطل ہے۔
غسل ارتماسی میں غسل انجام دینے سے پہلے پورا بدن پاک ہونا چاہئے۔
اگر کوئی چیز بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو تو برطرف کرنا چاہئے اور اگر اس کے برطرف ہونے پر اطمینان ہونے سے پہلے غسل کرے تو غسل باطل ہے۔
6۔ غسل کے احکام
1۔ اگر غسل کے دوران حدث اصغر[1] سرزد ہوجائے (مثلا پیشاب کرے) تو غسل صحیح ہے اور غسل کو دوبارہ شروع کرنا لازم نہیں ہے بلکہ اس کو جاری رکھنا چاہئے لیکن اگر غسل جنابت ہے تو دوسرے غسل کی طرح نماز اور طہارت سے مشروط دوسرے اعمال کے لئےوضو کے بدلے کافی نہیں ہے
2۔ اگر کسی کے ذمے کئی غسل ہوں چاہے واجب ہوں یا مستحب، چنانچہ اگر ان سب کی نیت سے ایک غسل بجالائے تو کافی ہے اوراگر ان میں غسل جنابت ہو اور اسی نیت سے غسل کرے تو دوسرے غسل کے بدلے کافی ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان سب کی نیت کرے۔
3۔ غسل جنابت کے علاوہ باقی غسل وضو کے بدلے کافی نہیں ہیں۔
4۔ اگر کسی کو غسل کے بعد یقین ہوجائے کہ وہ باطل تھا تو اس غسل کے ساتھ جتنی نمازیں پڑھی ہیں، سب کی قضا بجالائے۔
5۔ غسل میں شک
اگر غسل انجام دینے میں شک کرے ( مثلا شک کرے کہ غسل کیا ہے یا نہیں) تو غسل سے مشروط اعمال کے لئے غسل کرنا چاہئے لیکن اب تک جو نمازیں پڑھی ہیں صحیح ہے۔
اگر غسل کے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرے (مثلا غسل کرنے کے بعد شک کرے کہ اس کا غسل صحیح تھا یا نہیں) تو اپنے شک کی پروا نہ کرے (اور صحیح ہونے پر بنا رکھے)
6۔ اگر غسل کے دوران غسل کے کسی عضو کو دھونے کے بارے میں شک کرے تو اس کے بعد والے عضو کو دھونا شروع نہیں کیا ہے تو مشکوک عضو کو دھونا چاہئے اور بعد والے میں شروع ہوگیا ہے تو اپنے شک کی پروا نہیں کرنا چاہئے مگر یہ کہ بائیں حصے کو دھوتے وقت دائیں حصے کے کسی جز کو دھونے کے بارے میں شک کرے تو احتیاط یہ ہے کہ مشکوک حصے کودھوئے اس کے بعد بائیں طرف کے باقی حصے کو دھوئے۔
7۔ اگر غسل مکمل ہونے کے بعد آخری حصے (بائیں طرف) کے کسی جز کے دھونے میں شک کرے تو اسی حصے کو دھونا کافی ہے ۔ اسی طرح احتیاط واجب کی بناپر اگر دائیں طرف کے کسی جز کے دھونے کے بارے میں شک کرے تو صرف اسی جز کو دھونا چاہئے۔
تمرین
1۔ وضو اور غسل کی شرائط کے درمیان کیا فرق ہے؟
2۔ کیا غسل سے پہلے پورا بدن پاک ہونا شرط ہے؟
3۔ اگر غسل کے دوران کسی سے حدث اصغر سرزد ہوجائے تو کیا غسل کو دوبارہ انجام دینا چاہئے؟
4۔ اگر کسی کے ذمے کئی واجب یا مستحب غسل ہوں تو کیا ایک غسل باقی کے بدلے کافی ہے؟
5۔ کیا جنابت کے علاوہ باقی غسل ،وضو کے بدلے کافی ہیں ؟
6۔ اگر کسی کو غسل بجالانے یا نہ لانے میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟
[1] حدث اصغر سے مراد وہ چیزیں ہیں جو وضو کو باطل کرتی ہیں اور حدث اکبر سے مراد وہ امور ہیں جو غسل کا باعث بنتے ہیں
- سبق 20: غسل (3)
سبق 20: غسل (3)
غسل جنابت7۔ غسل جنابت
1۔ جنابت کے اسباب
انسان دو میں سے کسی ایک چیز کے سبب جنب ہوجاتا ہے
1۔ ختنہ گاہ کی مقدار تک دخول اور جنسی آمیزش (جیسے بھی ہو حلا ل ہو یا حرام، منی نکلے یا نہ نکلے، بالغ ہو یا نابالغ)
2۔ منی کا نکلنا (نیند میں ہو یا بیداری میں ، عمدا ہو یا بے اختیار)
توجہ
سالم اور صحت مند مرد سے نکلنے والی رطوبت اگر شہوت، اچھل اور بدن کی سستی کے ہمرا ہ ہو تو منی کا حکم رکھتی ہے۔ اور اگر منی کی تینوں علامتیں یا کوئی ایک نہ ہو یا اس کے بارے میں شک ہو تو منی کا حکم نہیں رکھتی ہے مگر یہ کہ کسی اور طریقے سے منی ہونے پر یقین ہوجائے۔
جنسی طور پر لذت کے اوج پر عورت کوئی مائع دیکھے تو منی کا حکم رکھتا ہے اور غسل کرنا چاہئے اور اگر شک کرے کہ اس مرحلے پر پہنچی یا نہیں یا مائع کے خارج ہونے کے بارے میں شک کرے تو غسل واجب نہیں ہے۔
دخول کے بغیر رحم کے اندر منی پہنچنا عورت کی جنابت کا سبب نہیں بنتا ہے۔
دخول ثابت ہوتے ہی اگرچہ حشفہ (ختنہ گاہ) کی مقدار ہی کیوں نہ ہو، مرد اور عورت پر غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ منی نہ نکلے اور عورت بھی لذت کے اوج پر نہ پہنچے۔
اگر جماع کے بعد عورت بلافاصلہ غسل کرے جب کہ اس کے رحم میں منی باقی ہو اور غسل کے بعد رحم سے منی خارج ہوجائے تو اس کا غسل صحیح ہے اور غسل کے بعد خارج ہونے والی منی نجس ہے اگرچہ مرد کی منی ہو، دوبارہ جنابت کا باعث نہیں ہے۔
طبی آلات کے ذریعے داخلی معائنہ کرنے سے جب تک منی خارج نہ ہوجائے عورتوں پر غسل واجب نہیں ہے۔
2۔ وہ کام جو جنب پر حرام ہیں۔
1۔ قرآن کے حروف اور اللہ تعالی کے اسماء اور مخصوص صفات اور اسی طرح احتیاط واجب کی بناپر انبیاء عظام اور ائمہ معصومین ؑ کے ناموں کو مس کرنا
2۔ مسجد الحرام اور مسجد النبی ﷺ میں داخل ہونا اگرچہ ایک دورازے سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل جائے۔
3۔ دوسری مساجد میں ٹھہرنا لیکن اگر ایک دروازے سے داخل ہوکر ٹھہرے بغیر دوسرے دروازے سے نکل جائے تو کوئی مانع نہیں ہے۔
4۔ مسجد میں کوئی چیز رکھنا
5۔ واجب سجدہ والے سوروں کی سجدہ والی آیات پڑھنا لیکن ان سوروں کی دوسری آیات پڑھنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے۔
توجہ
ائمہ معصومینؑ کے حرم احتیاط کی بناپر مسجد کا حکم رکھتے ہیں۔
امام زادوں کے حرم میں جنب شخص کا داخل ہونا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے۔
عزاخانے اور امام بارگاہ مسجد کا حکم نہیں رکھتے ہیں۔
سجدہ والی آیات سے مراد یہ ہیں: سورہ سجدہ (32) کی آیت 15، سورہ فصلت (41) کی آیت 37، سورہ نجم (53) کی آیت 62 اور سورہ علق (96) کی آیت 19 ۔ ان کو پڑھنے اور سننے والے پر واجب ہے کہ سجدہ کرے۔
3۔ غسل جنابت کے احکام
1۔ شرعی حکم کو بجالانے میں شرم کی گنجائش نہیں ہے۔ شرمانا واجب (مثلا غسل جنابت) کو ترک کرنے کے لئے شرعی عذر نہیں ہے بہرحال اگر کسی کے لئے غسل جنابت کرنا ممکن نہ ہوتو نماز اور روزے کے لئے اس کا وظیفہ غسل کے بدلے تیمم ہے۔
2۔ اگر کوئی غسل بجالانے سے معذور ہو مثلا کوئی جانتا ہے کہ اگر بیوی کے ساتھ جماع کرکے خود کو جنب کرے تو غسل کے لئے پانی نہیں ملے گا یا غسل اور نماز کے لئے وقت نہ ہو تو اپنی بیوی کے ساتھ اس شرط پر جماع کرسکتا ہے کہ تیمم پر قدرت رکھتا ہو ۔ جنابت اور غسل بجالانے سے معذور ہونے کی صورت میں طہارت سے مشروط اعمال کے لئے غسل کے بدلے تیمم کرے گا اور اس تیمم کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا، نماز پڑھنا، قرآن کے حروف کو مس کرنا اور طہارت سے مشروط دوسرے اعمال انجام دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ (البتہ اگر اس کا عذر وقت کی تنگی ہو تو احتیاط واجب کی بناپر فقط وہی کام کرسکتا ہے جس کے لئے تیمم کیا ہے)۔
3۔ اگر کوئی شخص منی خارج ہونے کے بعد غسل کرے اور غسل کے بعد اس سے کوئی رطوبت خارج ہوجائے جس کے بارے میں نہیں جانتا ہو کہ منی ہے یا دوسری چیز تو چنانچہ منی خارج ہونے کے بعد اور غسل سے پہلے پیشاب نہیں کیا ہے تو وہ منی کے حکم میں ہے اور دوبارہ غسل کرنا چاہئے۔
4۔ اگر کوئی شخص اپنے لباس پر دھبہ دیکھے اور نہیں جانتا ہو کہ منی ہے یا دوسری چیز تو جب تک منی ہونے اور اس کے اپنے بدن سے نکلنے کا یقین نہ ہو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
5۔ جس شخص پر غسل جنابت واجب ہو اور انجام دے چکا ہو تو نماز کے لئے وضو نہیں کرسکتا ہے اور نماز اور دوسرے اعمال جن کے لئے وضو کرنا ضروری ہے، کو اسی غسل کے ساتھ انجام دے سکتا ہے۔
6۔ اگر کوئی شخص غسل کے بعد شک کرے کہ اس کا غسل باطل ہوا ہے یا نہیں تو نماز کے لئے وضو کرنا لازم نہیں ہے لیکن احتیاط کے طور پر وضو کرنا چاہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
7۔ اگر کسی کے پاس غسل اور نماز کا وقت نہیں ہے تو اس کاوظیفہ تیمم ہے اگر تیمم کے بدلے –اس نماز کی خصوصی نیت کے بجائے–جنابت سے خارج ہونے کی نیت سے غسل کرے تو اس کا غسل صحیح ہے اگرچہ غسل کے بعد پتہ چلے کہ نماز کے لئے وقت نہیں تھا۔
تمرین
1۔ جنابت کے اسباب کون کونسے ہیں؟
2۔ کس صورت میں مرد سے خارج ہونے والی رطوبت کے منی ہونے کا حکم لگایاجاتا ہے؟
3۔ جماع کے بغیر عورتوں میں جنابت کیسے ثابت ہوتی ہے؟
4۔ کیا طبی وسائل کے ذریعے بدن کے اندرونی معائنے کے بعد عورتو ں پر غسل واجب ہوتا ہے؟
5۔ جنب پر کون کونسے کام حرام ہیں؟
6۔ اگر کوئی اپنے لباس پر دھبہ دیکھے اور نہیں جانتا ہو کہ منی ہے یا کوئی اور چیز تو کیا حکم ہے؟
- سبق 21: غسل (4)
سبق 21: غسل (4)
8۔ عورتوں سے مخصوص غسل
1۔ حیض
1۔ خون حیض[1]
1۔ لڑکی کے نو سال پورے ہونے سے پہلے آنے والا خون حیض نہیں ہے اگرچہ حیض کی علامات موجود ہوں۔
2۔ پاک ہونے پر یقین ہونے کے بعد عورت کو دھبے نظر آئیں چنانچہ خون نہ ہو تو حیض کا حکم نہیں رکھتے ہیں اور اگر خون ہو اگرچہ زرد رنگ اور دس دن سے تجاوز نہ کرے تو تمام دھبے حیض کے حکم میں ہیں۔ اس بات کی تشخیص عورت کے اپنے ذمے ہے۔
3۔ جو عورتیں مانع حمل کی دوائی استعمال کرتی ہیں چنانچہ عادت یا دوسرے ایام میں خون کے دھبے دیکھیں اگر ان میں حیض کی شرعی شرائط موجود نہ ہوں تو حیض کا حکم نہیں رکھتے ہیں بلکہ استحاضہ کے حکم میں ہیں۔
4۔ جو عورت ماہواری کی عادت رکھتی ہے مثلا سات دن اور مانع حمل کے وسائل استعمال کرنے کی وجہ سے ہر دفعہ دس دن سے زیادہ مثلا بارہ دن خون دیکھتی ہے تو جو خون عادت کے ایام میں دیکھے ، حیض اور باقی استحاضہ ہے۔
5۔ حمل کے ایام میں عورت جو خون دیکھتی ہے اگر اس میں حیض کی صفات اور شرائط موجود ہوں یا عادت کے ایام میں آئے اور تین دن جاری رہےاگرچہ بدن کے اندر کیوں نہ ہو تو حیض ہے ورنہ استحاضہ ہے۔
2۔ حائض کے احکام
1۔ جو چیزیں جنب پر حرام ہے حائض پر بھی حرام ہے۔
2۔ اگر حیض کی حالت میں عورت جنب ہوجائے یا جنابت کی حالت میں حائض ہوجائے تو حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل حیض کے علاوہ غسل جنابت بھی بجالانا واجب ہے البتہ جائز ہے کہ عملی طور پر غسل جنابت پر اکتفا کرے لیکن احتیاط (مستحب) یہ ہے دونوں غسل کی نیت کرے۔
3۔ اگر عورت حیض کی حالت میں غسل جنابت بجالائے تو اس کا غسل صحیح ہونا محل اشکال ہے۔
4۔ اگر کوئی عورت نذر کی وجہ سے معین روزہ رکھے اور روزے کی حالت میں حیض آئے تو –اگرچہ دن کے کسی ایک حصے میں کیوں نہ ہو– اس کا روزہ باطل ہوتا ہے اور پاک ہونے کے بعد اس دن کی قضا اس پر واجب ہے۔
2۔ استحاضہ
وہ خون[2] جو یائسہ کی عمر[3] میں عورت دیکھتی ہے، استحاضہ ہے بنابراین جس عورت کا باپ ہاشمی نہ ہو اگرچہ ماں سیدہ ہو اگر یائسہ ہونے کےبعد خون دیکھے تو استحاضہ کے حکم میں ہے۔
3۔ نفاس[4]
جس عورت نے بچہ سقط کرنے کا عمل انجام دیا ہو بچہ ساقط ہونے کے بعد (اگرچہ خون کا لوتھڑا کیوں نہ ہو) کوئی خون دیکھے تو نفا س کے حکم میں ہے۔
توجہ
نفساء پر بھی وہ تمام کام حرام ہیں جو حائضہ پر حرام ہیں۔
تمرین
1۔ پاک ہونے کے بعد عورت کو دھبے نظر آئیں جن میں نہ خون کے اوصاف ہیں اور نہ پانی سے مخلوط خون کے اوصاف ہیں، تو کیا حکم ہے؟
2۔ اگر کوئی عورت حمل کے ایام میں تھوڑی خون ریزی میں مبتلا ہوجائے لیکن یہ حمل کے سقط کا باعث نہ بنے تو اس کا کیا وظیفہ ہے؟
3۔ اگر عورت حیض کی حالت میں جنب ہوجائے یا جنابت کی حالت میں حیض آئے تو حیض سے پاک ہونے کے بعدکیا دونوں غسل اس پر واجب ہیں؟
4۔ کیا حیض کی حالت میں غسل جنابت صحیح ہے کہ جنب عورت کی ذمہ داری ساقط ہوجائے؟
5۔ یائسہ کی عمر میں عورت کو نظر آنے والے خون کا کیا حکم ہے؟
6۔ سقط کا عمل انجام دینے والی عورت نفاس کی حالت میں ہوگی یا نہیں؟
[1] حیض وہ خون ہے جو غالبا ہر مہینے چند دنوں کے لئے عورت کے رحم سے طبیعی طور پر خارج ہوتا ہے۔ یہ خون حمل کے دوران بچے کی غذا ہے۔
2] استحاضہ وہ خون ہے جو حیض اور نفاس کے ایام کے علاوہ عورت کے رحم سے خارج ہوتا ہے اور بکارت اور زخم سے مربوط نہیں ہے۔
[3] اس بات طرف کی توجہ رکھتے ہوئے کہ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای (مدظلہ العالی) یائسہ کی عمر کی تعیین میں احتیاط کرتے ہیں، ان کے مقلدین اس مسئلے میں عدول کی شرائط کی رعایت کرتے ہوئے دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
[4] نفاس وہ خون ہے جو بچے کی ولادت کے نتیجے میں ایک معین مدت تک عورت کے رحم سے نکلتا ہے۔ - سبق 22: مردوں کے احکام (1)
سبق 22: مردوں کے احکام (1)
غسل مس میت۔ محتضر کے احکام۔ موت کے بعد کے واجبات
1۔ غسل مس میت
اگر کوئی شخص میت کےٹھنڈے بدن کو مس کرے جس کو ابھی تک غسل نہیں دیا گیا ہو یعنی اپنے ہاتھ، پاؤں، چہرہ یا بدن کے کسی حصے کو میت کے بدن سے مس کرے تو واجب ہے ان کاموں کے لئے غسل کرے جن کے لئے حدث اصغر سے پاک ہونا ضروری ہے مثلا نماز، واجب طواف، قرآنی آیات کو مس کرنا۔ اس کو غسل مس میت کہتے ہیں۔
توجہ
میت کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اور غسل دینے سے پہلے اس کے بدن سے جدا ہونے والے کسی عضو کو مس کرنا اس کے مردہ جسم کو مس کرنے کے حکم میں ہے۔
زندہ شخص کے بدن سے جدا ہونے والے کسی عضو کو ہاتھ لگانے سے غسل مس میت واجب نہیں ہے۔
وہ موارد جن میں مردہ انسان کے جسم کو مس کرنا غسل مس میت کا سبب نہیں بنتا ہے؛
1۔ جو شخص میدان جنگ میں شہید ہوا ہو
2۔ جس مردے کا بدن ابھی ٹھنڈا نہ ہوا ہو
3۔ جس مردے کے تینوں غسل مکمل ہوچکے ہوں
اگر کوئی شک کرے کہ میت کو غسل دیا گیا ہے یا نہیں تو اس کے بدن یا اعضاء کو (البتہ ٹھنڈا ہونے کے بعد) مس کرے تو غسل مس میت کرنا واجب ہے اور غسل مس میت کئے بغیر نماز صحیح نہیں ہے لیکن اگر غسل ثابت ہوجائے تو بدن یا اس کے اعضاء کو مس کرنے سے غسل مس میت واجب نہیں ہے حتی کہ غسل میت کے صحیح ہونے میں شک کرے۔
اگر کوئی غسل مس میت کرے اور نماز پڑھنا چاہے تو وضو کرنا چاہئے اور غسل جنابت کے برعکس غسل مس میت وضو کے بدلے کافی نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص کئی میتوں کو یا ایک میت کو کئی مرتبہ مس کرے تو ایک غسل کافی ہے
2۔ محتضر کے احکام (وہ شخص جو نزع کی حالت میں ہو)
شائستہ ہے کہ مسلمان کو احتضا رکی حالت میں پشت پر اور قبلے کی سمت لٹائیں اس طرح کہ پاؤں کے تلوے قبلے کی جانب ہوں۔ بہت سارے فقہاء قدرت ہونے کی صورت میں خود محتضر اور دوسروں پر اس عمل کو واجب سمجھتے ہیں اور اس کوا نجام دینے میں احتیاط ترک نہیں ہونا چاہئے۔
3۔ مرنے کےبعد کے واجبات
غسل
حنوط
کفن
نمازدفن
توجہ
اسلام کی نظر میں زندہ مسلمان کی طرح مردہ مسلمان بھی احترام کے لائق ہے۔ مردہ مسلمان کااحترام مختلف اعمال مثلا غسل، کفن اور دفن وغیرہ کی شکل کیا جاتا ہے جو اسلام میں واجب ہیں اور تمام بالغ لوگ اس کام کے ذمہ دار اور مخاطب ہیں۔
مسلمان کا غسل، حنوط، کفن، نماز اور دفن واجب کفائی میں سے ہے یعنی ہر مکلف پر واجب ہےلیکن اگر ان میں سے بعض اس کام کو انجام دیں تو دوسروں سے ساقط ہےاور اگر کوئی بھی اس وظیفے پر عمل نہ کرے تو سب گناہ گار ہیں۔
اگر کوئی جانتا ہو کہ میت کا غسل، کفن، نماز یا دفن باطل ہوا ہے تو دوبارہ انجام دینا ضروری ہے لیکن اگر کوئی باطل ہونے کا گمان کرے یا شک کرے کہ درست انجام دیا ہے باطل تو اقدام کرنا لازم نہیں ہے
میت کے غسل، کفن، نماز اور دفن کے لئے اس کے ولی سے اجازت لینا چاہئے۔ میت کا ولی ماں باپ اور بچے اور اسی ترتیب سے باقی طبقات کے ورثاء ہیں۔ مردہ عورت کا شوہر دوسروں سے مقدم ہے۔
تمرین
1۔ مردہ انسان کے بدن سے جدا ہونے والے کسی عضو کو مس کرنے سے کیا غسل مس میت واجب ہوتا ہے؟
2۔ زندہ نسان کے بدن سے جدا ہونے والی ہڈی جس پر گوشت ہو کو مس کرنے سے کیا غسل مس میت واجب ہوتا ہے؟
3۔ کن صورتوں میں میت کے بدن کو مس کرنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے؟
4۔ کیا مسلمان کو احتضار کی حالت میں قبلے کی طرف رخ کرکے لٹانا واجب ہے؟
5۔ مرنے کے بعد کون کونسے کام واجب ہیں؟
6۔ میت کو غسل دینا واجب عینی ہے یا کفائی؟
- سبق 23: میت کے احکام (2)
سبق 23: میت کے احکام (2)
غسل میت۔ حنوط۔ کفن
4۔ غسل میت
1۔ میت کو تین غسل دینا واجب ہے
1۔ اس پانی سے جس میں تھوڑا سدر ڈال کر مخلوط کیا گیا ہو۔ (سدر کا پانی)
2۔ اس پانی سے جس میں تھوڑا کافور ڈال کر مخلوط کیا گیا ہو (کافور کا پانی)
3۔ خالص پانی سے
2۔ میت کو غسل دینے والے کی شرائط
1۔ شیعہ اثناء عشری مسلمان ہو
2۔ بالغ ہو
3۔ عاقل ہو
4۔ غسل کے مسائل جانتا ہو
5۔ اگر میت مرد ہے تو مرد اور عورت ہے تو عورت اس کو غسل دے۔توجہ
مردہ عورت کو اس کاشوہر اور مرد کو اس کی بیوی کا غسل دینا جائز ہے۔
3۔ دوسری عبادات کی طرح غسل میت میں بھی نیت لازم ہے یعنی غسل دینے والا غسل کو اللہ تعالی کا حکم بجالانے کی نیت سے انجام دے۔
4۔ اس میت کو غسل دینا واجب ہے جس میں درج ذیل شرائط موجود ہوں؛
1۔ مسلمان مرد یا عورت
2۔ مسلمان بچہ
3۔ سقط ہونے والا مسلمان بچہ اگر چار مہینے پورے ہوگئے ہوں اوراگر اس سے کم ہوتو واجب نہیں ہے۔5۔ اگر میت کے بدن کا کوئی حصہ نجاست سے آلودہ ہوجائے تو غسل سے پہلے اس کو دھونا چاہئے بنابراین خون ریزی والی میت کے بدن کو ممکن ہونے کی صورت میں غسل سے پاک کرنا چاہئے اور اگر (خود بخود) خون بند ہونے یا (طبی آلات کے ذریعے) اس کو بند کرنے کے لئے انتظار کرنا ممکن ہو تو (انتظار کرنا) واجب ہے۔
6۔ میت کی شرمگاہ کی طرف نگاہ کرنا حرام ہے اور اگر غسل دینے والا نگاہ کرے تو معصیت کی ہے لیکن اس کا غسل باطل نہیں ہے۔
7۔ اگر پانی نہ ملے یا اس کے استعمال میں مانع ہو تو میت کوہر غسل کے بدلے ایک تیمم کرے۔
5۔ حنوط
1۔ میت کو غسل کے بعد حنوط کرنا واجب ہے یعنی اس کی پیشانی، ہاتھوں کی ہتھیلی، گھٹنوں اور پاؤں کے دونوں انگوٹھوں پر اس طرح کافور ملنا چاہئے کہ کافور کا اثر ان اعضاء پر باقی رہے۔
2۔ کافور پسا ہوا اور تازہ ہونا چاہئے اس طرح کہ میت کو معطر کرے اور پرانا ہونے کی وجہ سے خوشبو ختم ہوگئی ہے تو کافی نہیں ہے۔
3۔ جس شخص نے حج کے لئے احرام باندھا ہے اور صفاومروہ کے درمیان سعی مکمل کرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو حنوط جائز نہیں ہے اسی طرح اگر عمرے کے احرام میں بال کاٹنے سے پہلے مرجائے تو اس کو حنوط نہیں کرنا چاہئے۔
6۔ کفن
1۔ مسلمان کی میت کو تین کپڑوں سے کفن دینا چاہئے۔
الف۔ لنگی جو اس کی کمر اور پاوں پر لپیٹتے ہیں۔
ب۔ پیراہن جو کندھے کے سرےسے پنڈلی تک آگے اور پیچھے کو چھپائے۔
ج۔ سر تاسری (چادر) کہ سر کے اوپر سے لے کر پاؤں کے نیچے تک کو اس طرح چھپائے کہ دونوں طرف باندھنا ممکن ہو اور اس کی چوڑائی اتنی ہو کہ دونوں اطراف کو ایک دوسرے پر رکھاجاسکے۔
2۔ اگر میت کا کفن اس کے بدن سے خارج ہونے والی یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہوجائے تو ممکن ہو نے کی صورت میں اس کو پاک یا تبدیل کرنا چاہئے یا اگر کفن ضائع نہ ہوجائے تو نجس شدہ حصے کو کاٹ لیں بنابراین اگر میت کا کفن غسل کے بعد اس سےنکلنے والے خون سے رنگین ہوجائے چنانچہ خون سے رنگین حصے کو دھونا یا کاٹنا یا تبدیل کرنا ممکن ہو تو (ایسا کرنا) واجب ہے اور چنانچہ امکان نہ ہوتو میت کو اسی حالت میں دفن کرنا جائز ہے۔
3۔ میت کے کفن کو اس کے اموال سے فراہم کرنا لازم نہیں ہے بلکہ اگر اس کے والدین، بچے، رشتہ دار حتی دوستوں اور دوسرے افراد میں سے کوئی ہدیہ کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
تمرین
1۔ میت کے تینوں کے غسل کے نام ذکر کریں۔
2۔ میت کو غسل دینے والے کی شرائط کیا ہیں؟
3۔ کیا سقط ہونے والے مسلمان بچے کو غسل دینا واجب ہے؟
4۔ میت کو حنوط کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کی کیا شرائط ہیں؟
5۔ میت کو کن کپڑوں میں کفن پہنایا جاتا ہے؟
6۔ کیا انسان کے لئے جائز ہے کہ اپنے لئے خریدے ہوئے کفن سے اپنے ماں باپ یا کسی رشتہ دار کی تکفین کرے؟
- سبق 24: میت کے احکام (3)
سبق 24: میت کے احکام (3)
نماز میت۔ دفن۔ نبش قبر کے احکام۔ شہید کے احکام۔ پھانسی پانےوالے کے احکام7۔ نماز میت
1۔ غسل، حنوط اور تکفین کے بعد مسلمان کی میت پر –اس ترتیب کے مطابق جو بیان کیا جائے گا– نماز پڑھنا واجب ہے۔
توجہجس بچے کے چھ سال پورے ہوگئے ہوں اور کم از کم والدین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو تو بالغ شخص کے حکم میں ہے اور اس کی میت پر نماز پڑھنا چاہئے۔
2۔ نماز میت میں نیت اور پانچ تکبیریں ہیں جن کے درمیان میں دعا اور صلوات کا ورد کیا جاتا ہے اور اگر نیت کے بعد اس ترتیب کے ساتھ پڑھے تو کافی ہے؛
1۔پہلی تکبیر کے بعد کہے: «اَشْهَدُ اَنْ لاَ اِلهَ اِلاَّ اللهُ وَ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ».
2۔ دوسری تکبیر کے بعد کہے: «اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ».
3۔تیسری تکبیر کے بعد کہے: « اَللّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِینَ وَ الْمُؤْمِناتِ».
4۔ چوتھی تکبیر کے بعد کہے: « اَللّهُمَّ اغْفِرْ لِهذَا الْمَیِّتِ» (اگر میت مرد ہو) یا «لِهذِهِ الْمَیِّتِ» (اگر میت عورت ہو)
5۔ پانچویں تکبیر کے بعد نماز تمام ہوتی ہے
توجہنماز میت کی تفصیلی کیفیت تفصیلی رسالوں اور دعا کی بعض کتابوں میں مذکور ہے۔
3۔ نماز میت پڑھنے والے کے لئے کھڑا اور رو بقبلہ ہونا ضروری ہےاور واجب ہے کہ میت کو اس کے سامنے پشت کے بل لٹائے اس طرح کہ اس کا سر نماز پڑھنے والے کی دائیں طرف اور پاؤں نماز پڑھنے والے کی بائیں طرف ہو۔
4۔ میت اور نماز پڑھنے والے کے درمیان کوئی چیز مثلا دیوار یا پردہ حائل نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر میت تابوت وغیرہ میں ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے۔
5۔ نماز میت پڑھنے کے لئے وضو، غسل اور بدن اور لباس کا پاک ہونا اسی طرح لباس کا غصبی نہ ہونا لازم نہیں ہے اگرچہ ان کی رعایت کرنا مستحب ہے۔
6۔ اگر میت کو عمدا یا فراموشی کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز میت کے بغیر دفن کیا گیا ہو یا دفن کے بعد معلوم ہوجائے کہ نماز میت باطل ہوگئی تھی تو جب تک اس کا بدن سڑ نہ گیا ہو اس کی قبر پر نماز پڑھنا چاہئے۔
7۔ دوسرے نمازوں کی جماعت اور امامت میں جو شرائط معتبر ہیں، نماز میت میں معتبر نہیں ہیں اگرچہ احوط (استحبابی) یہ ہے کہ نماز میت میں بھی ان شرائط کی رعایت کی جائے۔
8۔ دفن
1۔ گذشتہ وظائف (ٖغسل، حنوط، کفن اور نماز) کے بعد میت کو زمین میں دفن کرنا چاہئےاور اس کی قبر اتنی گہری ہو کہ اس کی بو باہر نہ نکلے اور درندے بھی اس کے بدن کو باہر نہ نکال سکیں۔
2۔ میت کو قبر میں دائیں پہلو پر اس طرح لٹانا چاہئے کہ اس کا چہرہ، سینہ اور پیٹ قبلے کی طرف ہو۔
دفن کے بارے میں چند نکتےجس مسلمان میت کو غسل دیا گیا ہو اس کی ہڈی نجس نہیں ہے اور اگر دفن کے دوران قبر میں پرانی ہڈی مل جائے تو اس کو مٹی کے نیچے دوبارہ دفن کرنا واجب ہے۔
مسلمانوں کی قبور کو اس شرط کے ساتھ کئی طبقوں میں بنانا جائز ہے کہ یہ کام نبش قبر اور مسلمان کی بے حرمتی کا باعث نہ بنے۔
دفن کے دن قبر پر پانی چھڑکنا مستحب ہے اور اس کے بعد بھی رجاء کی نیت سے کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے۔
9۔ نبش قبر کے احکام
1۔مسلمان کی قبر کو نبش کرنا(یعنی قبر کو کھودنا) جائز نہیں ہے مگر مخصوص موارد میں ؛
1۔ میت کو غصبی زمین میں دفن کیا گیا ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو
2۔ کفن یا میت کے ساتھ دفن ہونے والی دوسری چیز غصبی ہو اور اس کا مالک قبر میں رکھنے پر راضی نہ ہو۔
3۔ میت کو غسل یا کفن کے بغیر دفن کیا گیا ہو یا واضح ہوجائے کہ اس کا غسل باطل ہوا ہے یا غیر شرعی طریقے سے کفن دیا گیا ہے یا اس کو قبر میں رو بقبلہ نہیں لٹایا گیا ہے۔ ان تمام موارد میں اس صورت میں قبر کو کھودنا جائز ہے کہ میت کی بے احترامی نہ ہوجائے۔
4۔ کسی حق کو ثابت کرنے کے لئے میت کا بدن دیکھنا چاہیں۔
5۔ میت کو ایسی جگہ دفن کیا گیا ہے جہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہو (مثلا کفار کی قبرستان میں یا کچرا کنڈی میں)
6۔ اگر میت کی ہڈیاں خاک میں تبدیل ہوگئی ہوں تو اس کی قبر کو کھودنا جائز ہے۔
7۔ امامزادوں، شہداء، علماء اور صالحین کی قبور چنانچہ زیارتگاہ بن گئی ہیں تو اگرچہ سالوں گزرے ہوں ان کو کھودنا حرام ہے بلکہ اگر زیارتگاہ نہ ہوں تو بھی احتیاط واجب کی بناپر ان کو نہیں کھودنا چاہئے۔
10۔ شہید کے احکام
شہید کے بارے میں غسل اور کفن دینے کا حکم ساقط ہے۔
توجہاس موقع پر شہید سے مراد وہ شخص ہے جو میدان جنگ میں شہادت پر فائز ہوا ہو بنابراین اگر سرحدی شہرحق و باطل کے گروہوں کے درمیان میدان جنگ بن جائیں تو جو لوگ اہل حق کی طرف سے درجہ شہادت پائیں شہید کا حکم رکھتے ہیں لیکن جو افراد میدان جنگ کے علاوہ مارے جائیں اگرچہ شہید کا اجر و ثواب پائیں گے لیکن ان پر شہید کا حکم جاری نہیں ہوگا۔
11۔ پھانسی پانے والے کے احکام
جس مسلمان کے بارے میں پھانسی کو حکم جاری کیا گیا ہو، دوسرے مسلمان کا حکم رکھتا ہے اور اس پر میت کے تمام اسلامی آداب و احکام جاری ہوں گے مثلا نماز میت پڑھناوغیرہ
مردوں کے احکام کے بارے میں چند نکاتمیت کے ساتھ ہم جنس ہونا فقط اس کو غسل دینے میں شرط ہے۔ میت کو اس کے ہم جنس کے ذریعے غسل دینا ممکن ہوتو غیر ہم جنس کے ذریعے غسل دینا صحیح نہیں اور غسل میت باطل ہے (مگر شوہر اور بیوی کے بارے میں چنانچہ پہلے کہا گیا کہ مردہ عورت کو اس کے شوہر اور مرد کو اس کی بیوی کے ذریعے غسل دینا جائز ہے) لیکن تکفین اور تدفین میں ہم جنس ہونا شرط نہیں ہے۔
متعارف مقدار میں میت کی تجہیز کے ضروری تصرفات مثلا غسل، کفن اور دفن اس کے چھوٹے ولی کے اذن پر موقوف نہیں ہے اور چھوٹے بچے موجود ہونے کی وجہ سے کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
عورتوں کےلئے تشییع جنازہ اور میت کو اٹھانے میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
تمرین
1۔ نماز میت کا طریقہ بیان کریں۔
2۔ جس شخص کے اندر نماز جماعت کی امامت کی شرائط موجود نہ ہوں کیا اس کے لئے کسی مومن کے جنازے پر نماز پڑھانا جائز ہے؟
3۔ کیا قبور کو دو یا اس سے زیادہ طبقات پر مشتمل تعمیر کرنا جائز ہے؟
4۔ کس شہید کے بارے میں غسل اور کفن کا وجوب ساقط ہے؟
5۔ اگر کوئی مسلمان عدالتی نظام اور قوانین کے مطابق منشیات رکھنے کے جرم میں پھانسی کی سزا پائے تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟
6۔ کیا میت کے غسل، تکفین اور تدفین میں جنسی لحاظ سے مماثلت شرط ہے یا مرد اور عورت میں سے ہر ایک دوسرے کے ان امور کو انجام دے سکتا ہے؟
- سبق 25: تیمم (1)
سبق 25: تیمم (1)
تیمم کے موارد۔ وہ چیزیں جن پر تیمم صحیح ہے۔ تیمم کا طریقہ۔ تیمم جبیرہ1۔ تیمم کے موارد
وہ موارد جن میں وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرنا چاہئے
1۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے یا ہونے کے باوجود دسترس میں نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی فراہمی ممکن نہ ہو مثلا پانی کنویں میں ہے اور اس سے نکالنے کا کوئی وسیلہ نہ ہو ۔
2۔ پانی صحت کے لئے مضر ہو۔
3۔ پانی استعمال کرنے کی صورت میں خود یا وہ شخص پیاسا رہنے کا خوف ہو جس کی جان کی حفاظت اس پر لازم ہے۔
4۔ اپنے پاس موجود پانی سے نماز کے لئے بدن یا لباس کو پاک کرنا چاہتا ہو
5۔ پانی یا برتن کا استعمال اس پر حرام ہو مثلا غصبی ہو
6۔ نماز کا وقت تنگ ہو اور وضو اور غسل پوری یاآدھی نماز کا وقت کے بعد پڑھنے کا باعث بنیں۔
توجہاگر کسی کےلئے وضو یا غسل مضر ہو یا زیادہ تکلیف کا باعث ہو تو اس کے بجائے تیمم کرنا چاہئے اور چنانچہ وضو یا غسل کرے تو صحیح نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وضو یا غسل اس کے لئے مضر ہے (مثلا مریض ہوجائے گا) تیمم کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس کے ساتھ نماز صحیح ہےلیکن اگر اس کے ساتھ نماز پڑھنے سے پہلے پتہ چلے کہ مضر نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہےاوراگر اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلے کہ پانی مضر نہیں ہے تو احتیاط واجب کی بناپر وضو یا غسل کرے اور دوبارہ نماز بجالائے۔
آدھی رات کو جوانوں کے لئے غسل کا صرف معیوب یا مشقت ہونا شرعی عذر شمار نہیں ہوتا ہے بلکہ جب تک مکلف کے لئے غسل کرنا مضر اور حرج نہ ہو امکان ہونے کی صورت میں واجب ہے اور حرج (شدید اور حد سے زیادہ مشقت) یا ضرر کی صورت میں تیمم کرنا چاہئے۔
اگر کوئی شخص جنب ہوجائے اور بدن اور لباس کو دھونے یا لباس کو تبدیل کرنے کے لئے وقت نہ ہو اور سرد موسم وغیرہ کی وجہ سے ننگے ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو غسل جنابت کے بدلے میں تیمم کرکے اسی نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔ یہ نماز مجزی (کافی) ہے اور اس پر اس کی قضا واجب نہیں ہے۔
اگر وقت تنگ ہونے کی وجہ سے خوف ہو کہ غسل یا وضو کرنے کی صورت میں پوری نماز یا اس کا ایک حصہ وقت کے بعد بجالایاجائے گا تو تیمم کرکے نماز پڑھنا چاہئے۔
اگر نیند کی حالت میں انسان سے کوئی رطوبت خارج ہوجائے اور بیدار ہونے کے بعد کچھ یاد نہ آئے لیکن کپڑے کو گیلا دیکھے تو چنانچہ احتلام ہونے کا علم ہوتو جنب ہوگا اور غسل کرنا چاہئے اور وقت کم ہے تو بدن کو پاک کرنے کے بعد تیمم کرکے نماز پڑھنا چاہئے اور اگر وقت وسیع ہو تو غسل کرے لیکن اگر نہیں جانتا ہو (احتلام اور جنابت میں شک ہو) تو اس صورت میں جنابت کا حکم اس پر جاری نہیں ہوگا۔
جو اعمال طہارت سے مشروط نہیں ہیں مثلا زیارت، ان کےلئے غسل کے بدلے تیمم کا صحیح ہونا محل اشکال ہے لیکن غسل ممکن نہ ہونے کی صورت میں رجاء اور مطلوبیت کی نیت سے اس کو انجام دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
2۔ وہ چیزیں جن پر تیمم صحیح ہے۔
ہر وہ چیز جو زمین شمار ہوجائے مثلا مٹی، ریت، ڈھیلے اور پتھر (جپسم، چونے کا پتھر اور سیاہ پتھر وغیرہ) پر تیمم صحیح ہے اسی طرح جپسم اور پکی ہوئی اینٹ وغیرہ پر بھی (صحیح ہے)
توجہوہ معدنی اشیاء جو زمین کا جز شمار نہیں ہوتی ہیں مثلا سونااور چاندی وغیرہ پر تیمم صحیح نہیں ہے لیکن اعلی کوالٹی کے پتھر جن کو عرف میں معدنی پتھر کہتے ہیں مثلا سنگ مرمر وغیرہ پر تیمم صحیح ہے۔
سیمنٹ اور موزیک پر تیمم کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے اگرچہ سیمنٹ اور موزیک پر تیمم نہ کرنا احوط (استحبابی) ہے۔
3۔ تیمم کا طریقہ
1۔ نیت کرنا
2۔ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایسی چیز پر مارنا جس پر تیمم صحیح ہے۔
3۔ دونوں ہاتھوں کو ایک ساتھ پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر سر کے بال اگنے کی جگہ سے لے کر ابرؤں اور ناک کے بالائی حصے تک پھیرنا
4۔ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی کلائی سے لے کر انگلیوں کے سرے تک پورے حصے پر پھیرنا اور اسی ترتیب سے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو پورے بائیں ہاتھ پر پھیرنا۔
5۔ احتیاط واجب کی بناپر ہاتھوں کو دوسری مرتبہ زمین پر مارنا اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا۔
توجہمذکورہ ترتیب میں وضو کے بدلے تیمم اور غسل کے بدلے تیمم یکساں ہے۔
اگر پیشانی یا ہاتھ کی پشت کے مختصر حصے پر بھی مسح نہ کرے تو تیمم باطل ہے ، عمدا ہو، مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے یا فراموشی کی خاطر البتہ زیادہ دقت کرنا بھی لازم نہیں ہے اور اتنا اندازہ کافی ہے کہ لوگ کہیں کہ پوری پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر مسح کیا ہے۔
ہاتھ کی پوری پشت پر مسح کرنے پر یقین کرنے کے لئے کلائی کے بالائی حصے پر بھی مسح کرنا چاہئے لیکن انگلیوں کے درمیانی حصوں کو مسح کرنا لازم نہیں ہے۔
4۔ تیمم جبیرہ
جس شخص کا وظیفہ تیمم کرنا ہو اگر جس جگہ مسح کرنا ضروری ہے یا اس کا ہاتھ جس کے ذریعے مسح کرنا چاہئے زخم وغیرہ کی وجہ سے بندھا ہوا ہے تو اسی ترتیب کے مطابق تیمم کرے یعنی زخم کی وجہ سے بندھی ہوئی جگہ کو بدن کی جلد قرار دے۔
تمرین
1۔ تیمم کے موارد بیان کریں۔
2۔ اگر کوئی شخص نماز فجر کے لئے غسل نہ کرے اور اس خیال سے کہ غسل کرنے کی صورت میں مریض ہوگا، تیمم کیا ہو توکیا حکم ہے؟
3۔ نہانا مشکل اور حرج کا باعث ہونے کی وجہ سے ان اعمال کے لئے جو طہارت سے مشروط نہیں ہیں یا مستحب غسل مثلا جمعہ اور زیارت وغیرہ کے غسل کے بدلے تیمم کرسکتے ہیں یا نہیں؟
4۔ کیا جنب شخص وقت کم ہونے کی صورت میں تیمم کرکے نجس بدن اور لباس کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے یا بدن اور لباس کو پاک کرنے اور غسل کے بعد نماز کی قضا بجالانا چاہئے؟
5۔ جپسم، چونے کے پتھر اور اینٹ پر تیمم کرنے کا کیا حکم ہے؟
6۔ تیمم کے طریقے کے بارے میں وضاحت کریں۔
- سبق 26: تیمم (2)
سبق 26: تیمم (2)
تیمم کی شرائط۔ تیمم کے احکام5۔ تیمم کی شرائط
جس چیز پر تیمم کیا جائے؛
1۔ پاک ہونا چاہئے
2۔ مباح ہونا چاہئے (غصبی نہ ہو)
تیمم کے اعضاء کی شرط؛
ان پر کوئی مانع نہ ہو
تیمم کی کیفیت کی شرائط
1۔ پیشانی اور ہاتھوں کے اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرنا چاہئے
2۔ ترتیب کی رعایت کرنا چاہئے (ترتیب)
3۔ تیمم کے افعال کو پے درپے انجام دینا چاہئے (موالات)
4۔ تیمم کے افعال کو اختیاری حالت میں خود انجام دینا چاہئے (مباشرت)
1۔ جس چیز پر تیمم کیا جاتا ہے، پاک ہو
جس چیز پر تیمم کیا جاتا ہے پاک ہونا چاہئے
2۔ جس چیز پر تیمم کیا جاتا ہے، مباح ہو
جس چیزپر تیمم کیا جاتا ہے، مباح ہونا چاہئے (غصبی نہ ہو) لیکن اگر غصبی ہونا معلوم نہ ہو یا بھول جائے تواس کا تیمم صحیح ہے۔
3۔ تیمم کے اعضاء پر کوئی مانع نہ ہو
تیمم کے اعضاء پر کوئی مانع نہیں ہونا چاہئے بنابراین تیمم کے لئے انگوٹھی وغیرہ کو ہاتھ سے اتارناچاہئے ااور اگر پیشانی یا تیمم کے دیگر اعضاء پر کوئی چیز چسپان ہو یا کسی چیزنے چھپایا ہوا ہو تو پہلے اس کو برطرف کرنا چاہئے۔
توجہ
ہاتھ اور پیشانی پر اگنے والے بال تیمم کے لئے مانع نہیں ہیں لیکن اگر سر کے بال پیشانی پر آگئے ہوں تو ان کو اوپر کرنا چاہئے۔
اگر زخم وغیرہ کی وجہ سے تیمم کے اعضاء بندھے ہوئے ہوں چنانچہ کھولنا ضرر کا باعث یا دشوار ہوتو بندھے ہوئے ہاتھ سے یا بندھے ہوئے عضو پر مسح کرنا چاہئے۔
4۔ پیشانی اور ہاتھوں کے اوپر سے نیچے کی جانب مسح کرے
پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے۔
5۔ ترتیب
تیمم کو (تیمم کے باب میں بیان کی گئی ) ترتیب کے مطابق انجام دینا چاہئے اور اگر اس کے برخلاف عمل کرے تو باطل ہے۔
6۔ موالات
تیمم کے افعال کا پے در پے انجام دینا چاہئے اور ان کے درمیان اتنا فاصلہ ڈالے کہ نہ کہا جائے کہ تیمم کررہا ہے تو باطل ہے۔
7۔ مباشرت
تیمم کے افعال کو احتیاری حالت میں خود انجام دینا ضروری ہے اور دوسرے سے مدد نہیں لینا چاہئے اور اگر بیماری یا فالج وغیرہ کی وجہ سے تیمم نہ کرسکتا ہو نائب بنانا چاہئے اور نائب کو چاہئے کہ اس کو اس کے اپنے ہاتھوں سے تیمم کرائے اور یہ بھی ممکن نہ ہوتو نائب کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ کو زمین پر مارے اور اس کی پیشانی اور ہاتھوں پر پھیرے۔
تیمم کی شرائط کے بارے میں ایک نکتہ
اعضاء تیمم (پیشانی اور ہاتھوں کی پشت) کا پاک ہونا لازم نہیں ہے اگرچہ احتیاط کے موافق ہے۔
6۔ تیمم کے احکام
1۔ اگر ایسی چیز نہ ملے جس پر تیمم صحیح ہو تو قالین اور لباس وغیرہ پر موجود گردوغبار پر تیمم کرنا چاہئے اور وہ بھی نہ ملے لیکن تر مٹی دسترس میں ہو تو اس پر تیمم کرنا چاہئے اور ان میں سے کوئی بھی دسترس میں نہ ہونے کی صورت میں –مثلا ہوائی جہاز وغیرہ میں ہو–تو احتیاط واجب کی بناپر نماز کو وقت کے اندر وضو اور تیمم کے بغیر پڑھنا چاہئے اور اس کے بعد وضو یا تیمم کے ساتھ قضا کرے۔
2۔ جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو ، بنابراحتیاط واجب نماز کے وقت سے پہلے نماز کے لئے تیمم نہیں کرسکتا ہے لیکن اگر واجب یا مستحب کاموں کے لئے نماز کے وقت سے پہلے تیمم کیا ہے اور نماز کے وقت تک اس کا عذر باقی رہے تو اسی تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔
3۔ اگر کوئی جانتا ہو کہ اس کا عذر آخر تک برطرف ہوجائے گا تو اول وقت میں تیمم کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے بلکہ صبر کرنا چاہئے اور عذر برطرف ہونے کےبعد وضو یا غسل کے ساتھ نماز بجالانا چاہئے۔
4۔ اگر کسی نے غسل کے بدلے تیمم کیا ہو اور اس سے حدث اصغر سرزد ہوجائے مثلا پیشاب کرے تو جب تک تیمم کے جواز کا شرعی عذر برطرف نہ ہوا ہو احتیاط واجب کی بناپر طہارت سے مشروط اعمال کے لئے دوسری مرتبہ غسل کے بدلے تیمم کرے اور وضو بھی کرے اور وضو کرنے سے معذور ہوتو اس کے بدلے میں بھی ایک اور تیمم کرے۔
5۔ اگر پانی نہ ہونے یا دوسرے عذر کی وجہ سے تیمم کرے تو عذر کے برطرف ہونے کے بعد تیمم باطل ہوگا
6۔ جو چیزیں وضو کو باطل کرتی ہیں، وضو کے بدلے کرنے والے تیمم کو بھی باطل کرتی ہیں اور جو چیزیں غسل کو باطل کرتی ہیں غسل کے بدلے کرنے والے تیمم کو بھی باطل کرتی ہیں۔
7۔ اگر وقت کی کمی کی وجہ سے وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرے تو وقت نکلنے کے بعد تیمم باطل ہوگا اور بعد والی نماز کے لئے وضو اور غسل انجام دینا چاہئے۔
8۔ اگر پانی نہ ہونے یا وقت کی کمی کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سے غسل کے بدلے تیمم کرے تو اس تیمم پر شرعی غسل کے تمام آثار مرتب ہوں گے بنابراین غسل جنابت کے بدلے تیمم کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا، نماز پڑھنا، قرآن کریم کی آیات کو مس کرنا اور جنابت سے پاک ہونے سے مشروط دیگر اعمال بجالانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
9۔ اگر غسل جنابت کے بدلے تیمم کیا ہو تو نماز کے لئے وضو کرنا لازم نہیں ہے لیکن دوسرے غسل (مثلا غسل مس میت) کے بدلے تیمم میں نماز کے لئے وضو کرنا چاہئے یا عذر موجود ہونے کی صورت میں وضو کے بدلے ایک اور تیمم انجام دینا چاہئے۔
تمرین
1۔ تیمم کی شرائط کیا ہیں؟
2۔ کیا تیمم کے دوران انگوٹھی وغیرہ کو ہاتھ سے اتارنا لازم ہے؟
3۔ ہاتھ کی پشت یا پیشانی پر اگنے والے بال تیمم کے لئے مانع ہیں یا نہیں؟
4۔ کیا تیمم کے اعضاء (پیشانی اور ہاتھ کی پشت) کا پاک ہونا ضروری ہے؟
5۔ اگر انسان وضو نہ کرسکے اور تیمم بھی اس کے لئے ممکن نہ ہو تو کیا وظیفہ ہے؟
6۔ کیا غسل کے بدلے تیمم غسل کے یقینی اور قطعی احکام رکھتا ہے؟ یعنی اس کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا جائز ہے؟
-
- تیسری فصل: نماز
- چوتھی فصل: روزه
- پانچویں فصل: خمس
- چھٹی فصل: انفال
- ساتھویں فصل: جہاد
- آٹھویں فصل: امر بالمعروف اور نہی از منکر
-