ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اہم پیغام:

دشمنوں کی علاقائی انقلابات کو منحرف کرنے کی کوششیں/ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف ڈالنے کے خائنانہ منصوبے/ بعض اسلامی ممالک میں داخلی جنگیں چھیڑنے کی کوشش / تسلط پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انقلابی قوموں اور خکومتوں کو خوفزدہ کرنے کی تلاش

رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حج کے عظیم موقع پراپنے پیغام میں حج کی پر اسرار و رموز تقریب کو عالم اسلام کے اہممسائل کے بارے میں غور و فکر اور امت مسلمہ کی اصلاح کی راہوں کا جائزہلینے کے لئے بہت ہی اہم موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا: زخم خوردہ طاقتوں کی طرف سےعلاقائی انقلابات کومنحرف کرنے کی کوششیں ، مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ و اختلاف ڈالنے کی خائنانہ تلاش ، مغربی ممالک کا اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ، بعض اسلامی ممالک میں اندرونی جنگ کو شعلہ ورکرنے کی کوششیں اور انقلابی قوموں اور حکومتوں کو تسلط پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے خوفزدہ کرنے کی سامراجی طاقتوں کی کوششیں عالم اسلام کے اہم مسائل میں شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کےپیغام کا متن حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمين و صلوات الله و سلامه علي الرسول الاعظم الأمين و علي آله المطهّرين المنتجبين و صحبه الميامين.

رحمت و برکت سے سرشار حج کی بہار پہنچ گئی ہے ایک بار پھر سعادتمند افراد اس نورانی مقام پر اللہ تعالی کا فیض حاصل کرنے کے لئے پہنچ گئے ہیں یہاں کا زمان ومکان تمام حجاج کرام کو معنوی اور مادی ارتقاء کی دعوت دیتا ہے، اللہ تعالی کی فلاح و صلاح کےبارے میں عظیم دعوت پر یہاں ہر مسلمان مرد و عورت دل و زبان سے لبیک کہتا ہے یہاں سب کو اتحاد و یکجہتی ،اخوت و برادری اور پرہیزگاری کی مشق و تمرین کاموقع ملتا ہے، یہاں تعلیم و تربیت کا کیمپ ہے یہ امت مسلمہ کے تنوع،  اتحاد و عظمت کی عظیم نمائشگاہ ہے یہ شیطان اور طاغوت کے ساتھ مقابلہ کی اہم جگہ ہے، خداوند حکیم وقدیرنے اس جگہ کو ایسی جگہ قراردیا ہےجہاں مؤمنین اپنے مفادات اور منافع کو مشاہدہ کرسکتے ہیں جب بھی ہم اپنی عقل و خرد کی آنکھوں کو باز کریں گے تو یہ آسمانی وعدہ ہماری انفرادی اوراجتماعی زندگي کے تمام پہلوؤں پر محیط ہوجائےگا، حج کے شعائرکی خصوصیات دنیا و آخرت کے باہمی تعلق اور فرد واجتماع کےباہمی رابطہ کاشاندار مظہر ہیں، باعظمت و با شکوہ کعبہ، ایک  ابدی واستوار محورپر دلوں اور جسموں کا طواف، ایک مبداء و منتہی کے درمیان منظم و مسلسل سعی و تلاش؛ تمام حاجیوں کاباہم عرفات و مشعر کےفلاح و رستگار میدانوں کی جانب اجتماعی کوچ، اوروہ حالت و طراوت جو یہاں دلوں کو نصیب ہوتی ہے سب کا اجتماعی شکل میں شیطانی علامتوں پر حملہ،اوراس پر رمز وراز تقریب میں  ہدایت اور معنویت کے حصول کےلئے دنیا کے مختلف گوشوں اور مختلف رنگوں کے لوگوں کا حضور، در حقیقت اس فریضہ کی پرمعنی اور خاص خصوصیات ہیں۔

یہ ایسی تقریب ہے جو دلوں کو یاد خدا سے جلوہ گربناتی ہے اور انسان کے دل کی خلوت و تنہائی کو ایمان وتقوی کے نور سے منور کرتی ہے،اورانسان کو فردی و انفرادی حیثیت سے نکال کر امت مسلمہ کے مجموعہ کے حصہ بنادیتی ہے؛ اسے تقوی کا لباس پہناتی ہے جو اسےگناہ کےزہرآلودہ تیروں سے محفوظ رکھتاہے، انسان کے اندر شیطانوں اورطاغوتوں کا مقابلہ کرنے کا جوش و جذبہ اجاگر کرتی ہے؛ یہاں حج گزار امت اسلامی کی عظیم عظمت کے ایک نمونے کومشاہدہ کرتا ہےاوراس کی توانائی اور ظرفیت کا اسے علم ہوجاتا ہےاوروہ مستقبل کےبارے میں پر امیدہوجاتاہے؛ اس میں نقش آفرینی کےلئے آمادگی کا احساس پیدا ہوجاتاہے،نیزاگر اللہ تعالی کی توفیق اور مدد شامل حال ہو جائے تو پیغمبر اسلام (ص) کی  دوبارہ بیعت اور اسلام کےساتھ دوبارہ عہد وپیمان کو مضبوط اور مستحکم کرلیتا ہے۔اوراپنی اصلاح ، امت اسلامی کی اصلاح اور کلمہ اسلام کی سر افرازی اور سربلندی کے لئے اپنا عزم پختہ و راسخ کرلیتا ہے۔

اپنی اصلاح اور امت اسلامی کی اصلاح کےدونوں فریضے معطل نہیں ہوسکتے اوراہل تدبر و تفکر کے لئے عقل و خرد وبصیرت ، دینی ذمہ داریوں اور وظائف میں گہری سوج کے ساتھ اس کی حکمت عملی کوئی دشوارکام نہیں ہے۔

اپنی اصلاح ، شیطانی وسوسوں کا مقابلہ کرنے اور گناہ سے دوری اختیار کرنے کے ذریعہ حاصل ہوجاتی ہے،اورامت کی اصلاح، دشمن کی شناخت، اس کے منصوبوں کی پہچان، اس کی عداوتوں اور منصوبوں کو غیر مؤثر و ناکام بنانے کی جد وجہد وتلاش اور مسلمان قوموں کے باہمی اتحاد و یکجہتی کے ذریعہ حاصل ہوجاتی ہے۔

موجودہ دور میں عالم اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ شمالی افریقہ اور عرب خطے میں رونما ہونے والے انقلابی تغیرات ہیں جس کا امت اسلامیہ کی تقدیر و سرنوشت سے گہرا تعلق ہے، جو اب تک  کئی بدعنوان، امریکہ کی فرمانبردار اور صیہونزم کی مددگار حکومتوں کے زوال ، سقوط اور اسی قسم کی دیگر حکومتوں کے تزلزل کا باعث بنے ہیں۔ اگر مسلمانوں نے اس عظیم موقع کو گنوا دیا اور اسے امت اسلامیہ کی اصلاح کی راہ میں استعمال نہ کیا تو انھیں بہت بڑا نقصان اور خسارہ اٹھانا پڑےگا۔

اس وقت جارح و تسلط پسند سامراج ان عظیم اسلامی تحریکوں کو منحرف کر نے کے لئے پوری طرح حرکت میں آ گیا ہے۔
ان عظیم قیاموں میں مسلمان مرد و زن، امریکہ ایسے نواز ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں جو اپنی قوموں کی تحقیر و تذلیل پر کمر بستہ تھےاور جرائم پیشہ صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز کررہےتھے مسلمانوں نے موت و زندگی کی اس عظیم لڑائی میں اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی نعروں کو اپنا سفینہ نجات قراردیاہے اور ببانگ دہل اس کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ انھوں نے مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع اور غاصب حکومت کے خلاف جہاد کو اپنے مطالبات میں سر فہرست قرار دیا ہے۔ مسلم اقوام کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے امت اسلامیہ کے اتحاد کی دلی خواہش کا اعلان کیا ہے۔
یہ ان ملکوں میں عوامی تحریکوں کے بنیادی ستون ہیں جہاں حالیہ دو برسوں میں عوام نے آزادی و اصلاح پسندی کا پرچم لہرایا اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انقلاب کے میدانوں میں قدم رکھا ہے۔ یہی چیزیں عظیم امت اسلامیہ کی اصلاح کی بنیادوں کو مضبوطی و مستحکم کر سکتی ہیں۔ ان اساسی اصولوں پر ثابت قدمی ان ملکوں میں عوامی انقلابات کی فتح کی لازمی شرط ہے۔
دشمن انہیں بنیادوں کو متزلزل کر دینے کے در پے ہے۔ امریکہ، نیٹو اور صیہونزم کے بدعنوان مہرے کچھ لوگوں کی غفلت و سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم نوجوانوں کی طوفانی تحریک کو منحرف کرنے، انہیں اسلام کے نام پر ایک دوسرے سے دست و گریباں کر دینے اور سامراج مخالف اور صیہونیت مخالف جہاد کو عالم اسلام کی گلیوں اور سڑکوں پر اندھی دہشت گردی میں تبدیل کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں، تا کہ مسلمانوں کا خون ایک دوسرے کے ہاتھوں سے ‌زمین پر جاری ہو، دشمنان اسلام اپنی مسدود راہوں کو کھول سکیں اور اسلام اور مجاہدین اسلام کو بدنام  کریں اور ان کی چہرے کو مسخ کریں۔
اسلام اور اسلامی نعروں کے خاتمے کے سلسلے میں مایوس ہو جانے کے بعد انہوں نے اب مسلم فرقوں کے درمیان فتنہ ڈالنے کا رخ کیا ہے اور شیعہ خطرے اور سنی خطرے کی سازشی باتیں کرکے امت اسلامیہ کے اتحاد کے راستے میں رکاوٹیں ایجاد کر رہے ہیں۔
وہ علاقے میں اپنے زرخرید عناصر کی مدد سے شام میں بحران پیدا کررہےہیں تا کہ قوموں کی توجہ اپنے ممالک کے حیاتی مسائل اور گھات میں بیٹھے خطرات سے ہٹا کر اس خونریز مسئلے پر مرکوز کر دیں جسے انہوں نے خود عمدا پیدا کیا ہے۔ شام میں خانہ جنگی اور مسلمان نوجوانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام وہ مجرمانہ عمل ہے جو امریکہ، صیہونزم اور ان کی فرمانبردار حکومتوں کے ہاتھوں شروع ہوا ہے اور اس آگ کو مسلسل شعلہ ور کیا جارہا ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ مصر، تیونس او لیبیا کے ڈکٹیٹروں کی حامی سامراجی حکومتیں اب شام کے عوام کی جمہوریت پسندی کی حامی بن گئی ہیں؟ شام کا قضیہ در حقیقت شامی حکومت سے انتقام لئے جانے کا قضیہ ہے جس نے تین دہائیوں تک اکیلے ہی غاصب صیہونیوں کا مقابلہ اور فلسطین و لبنان کی مزاحمتی تنظیموں کا دفاع کیا ہے۔
ہم شام کے عوام کے طرفدار اور اس ملک میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت اور اشتعال انگیزی کے خلاف ہیں۔ اس ملک میں کوئی بھی اصلاحی اقدام خود وہاں کے عوام کے ہاتھوں اور خالص ملی و قومی طریقوں  سے انجام پانا چاہیے۔ یہ بہت ہی خطرناک بات ہے کہ عالمی تسلط پسند طاقتیں اپنی تابع فرمان علاقائی حکومتوں کی مدد سے کسی ملک میں بحران کھڑا کر دیں اور پھر اس ملک میں بحران کے نام پر خود کو ہر مجرمانہ کارروائی کا مجازتصور کرلیں، اگر علاقے کی حکومتوں نے اس پر توجہ نہ دی تو انہیں بھی اس استکباری مکر و فریب میں اپنی نوبت  آنے کا منتظر رہنا چاہیے۔
عزیزبھائیو اور بہنو! موسم حج، دنیائے اسلام کے حیاتی مسائل پر غور و فکر کا بہترین موقعہ ہے۔ علاقے کے انقلابات کا مستقبل اور ان انقلابات سے زخم کھانے والی طاقتوں کی ان انقلابوں کو منحرف کر دینے کی کوششیں، انہی مسائل میں شامل ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں انقلابی ملکوں کو بدگمانی میں مبتلا کر دینے کی خائنانہ سازشیں، مسئلہ فلسطین، مجاہدین کو تنہا اور فلسطین کے جہاد کی شمع کو خاموش کر دینے کی کوششیں، مغربی حکومتوں کی اسلام دشمنی پر مبنی تبلیغاتی مہم، پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکوتی بارگاہ میں گستاخانہ حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کی ان کی جانب سے حمایت، بعض مسلم ممالک میں خانہ جنگی اور انھیں تقسیم  کردینے کے مقدمات، انقلابی قوموں اور حکومتوں پر مغربی تسلط پسند طاقتوں سے مقابلہ کا خوف بٹھانا اور اس توہم کی ترویج کہ ان کے مستقبل کا انحصار انہی جارح طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے پر ہے، اسی قسم کے دوسرے اہم ترین اور حیاتی مسائل بھی ہیں جن کے بارے میں حج کے اس موقعہ پر آپ حجاج کرام کی ہمفکری اور ہمدلی کے زیر سایہ تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
بیشک نصرت و ہدایت خداوندی، جانفشانی کرنے والے مومنین کو امن و سلامتی کی راہ سے آشنا بنا دےگی۔ «و الذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا ..»

والسلام عليكم و رحمة و بركاته
سيّد علي خامنه‌اي
30 / مهر /
1391 ، مطابق پنجم ذي ‌الحجه  ۱۴۳۳


700 /