ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

آیت اللہ قاضی کی شخصیت کم نظیر، اور وہ حسنات دہرمیں سےہیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مرحوم آیت اللہ سید علی قاضی (رہ) کی علمی ، معنوی ، عرفانی اورعملی شخصیت کی یاد و احترام میں منعقدہ کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مرحوم آقائ قاضی دہر کے حسنات میں سے ہیں اوربیشک بزرگوں میں ان کی شخصیت کم نظیر ہے۔

تبریز یونیورسٹی کے وحدت ہال میں حجۃ الاسلام والمسلمین محمدی گلپائگانی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کو پیش کیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭

مرحوم آقائ حاج میرزا علی آقائ قاضی کی یاد میں سمینار کا اقدام بہت ہی خوب ، سزاواراورعمدہ اقدام ہے؛ انشاء اللہ یہ کام بہت ہی مفید کام ثابت ہوگا۔ مرحوم آقائ قاضی – میرزا علی آقائ قاضی – دہر کے حسنات میں سے ہیں، بیشک مرحوم قاضی کی ممتاز علمی اورعملی شخصیت بزرگوں کے درمیان اگر بے نظیر نہ کہیں توکم نظیرضرورہے۔

مرحوم نے اپنے معنوی و عرفانی مقالات کے علاوہ بہت سے شاگردوں کی تعلیم و تربیت بھی کی، ان کا یہ عمل بہت ہی گرانقدر ہے؛ ہم نے ان میں سے بعض بزرگ شخصیات سے ملاقات اوران کی زیارت کی ہے: مرحوم آقائ طباطبائی، مرحوم آقائ آ سید محمد حسن الہی – مرحوم کے بھائي- مرحوم آقائ آ میرزا ابراہیم شریفی- جومرحوم آقائ قاضی کے داماد تھے، جو زابل میں تھے اورآقائ قاضی کے ممتاز شا گردوں میں سے تھے- مرحوم آقائ حاج شیخ عباس قوچانی، اور حال ہی میں مرحوم آقائ بہجت اور ان کے علاوہ دوسرے بزرگ بھی تھے جیسے مرحوم آقائ حاج شیخ محمد تقی آملی، مرحوم آقائ شیخ علی محمد بروجردی اور دوسری متعدد شخصیات۔

اس سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حوزات علمیہ میں ہمارےعلمی، فقہی وحکمی سلسلے میں  اور اس صراط مستقیم میں ایک خاص الخاص طبقہ و سلسلہ موجود ہے جو سب کے لئے نمونہ عمل بن سکتا ہے جو درحقیقت چھوٹے بڑے علماء، تمام افراد اورجوانوں کے لئے بھی نمونہ عمل بن سکتا ہے۔  یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے صرف  ظواہر پر ہی عمل نہیں کیا،بلکہ انھوں نےمعرفت، سلوک اور توحید کی راہ میں تلاش و کوشش اور جد وجہد کی اور اعلی درجات تک پہنچے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے سلوک و عرفان کی اس عظیم حرکت میں تصوف و عرفان کےبعض  تخیّلاتی اور مصنوعی سلسلوں کی طرح عمل نہیں کیا بلکہ صرف شرع مقدس کے ذریعہ اسے حاصل کیا ہے۔

مرحوم آقائ قاضی کا یہی سلسلہ ، ان بزرگوں کا یہ مجموعہ ، جس کا آغاز مرحوم حاج سید علی شوشتری سے ہوتا ہے سب کے سب طراز اول کے مجتہد تھے،یعنی مرحوم آ سید علی شوشتری جو شیخ کے شاگرد تھے اور شیخ کے سلوک و اخلاق کے استاد تھے، فقہ و اصول میں شیخ کے شاگرد تھے اور سلوک و اخلاق میں شیخ کے استاد تھے، شیخ ان کے پاس آتے تھے اور استفادہ اور فیض حاصل کرتے تھے ۔ شیخ کی وفات کے بعد وہ بھی مختصر مدت تک زندہ رہے لیکن اس  مختصر مدت میں شیخ نے جہاں درس چھوڑا تھا وہاں سے انھوں نے پڑھانا شروع کردیا؛ مرحوم حاج سید علی شوشتری کےدرس میں شرکت کرنے والے شاگردکہتے تھے کہ ہم نے علمی لحاظ سے شیخ اور ان کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں کیا یعنی ان کا علمی و فقہی مقام بھی اتنا ہی بلند تھا، ان کے ممتاز شاگرد مرحوم آخوند ملا حسین قلی ہمدانی ہیں جو عرفانی، معنوی اور سلوکی لحاظ سے بلند و بالا مقام پر فائز ہیں یعنی مرحوم آخوند ملا حسینقلی کی عظمت و رفعت قابل توصیف نہیں ہے؛وہ علمی قابلیت کے لحاظ سے علم فقہ و اصول میں شیخ کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے؛لیکن عرفان، سلوک اور توحید کا ان کی زندگی پر زیادہ غلبہ تھا کیونکہ وہ اس  راہ پر گامزن تھے، ان کے شاگرد جو مرحوم آقائ قاضی کے اساتید تھے جیسے مرحوم حاج سید احمد کربلائی، مرحوم حاج شیخ محمد بہاری اور ان جیسے دوسرے افراد، یہ سب وہ افراد تھے جو فقہی لحاظ سے اعلی ترین درجے پر فائز تھے؛یعنی مرحوم حاج سید احمد کربلائی ایسی شخصیت تھے کہ مرحوم میرزا محمد تقی شیرازی اپنی احتیاطات کے سلسلے میں ان کی طرف مراجعہ کرتے تھے اور وہ یقینی طور پر مرجعیت پر فائز تھے؛ لیکن وہ خود قبول نہیں کرتے تھے؛شکوہ کرتے کہ آپ احتیاطات میں میری طرف کیوں رجوع کرتے ہیں مرجعیت قبول کرنے سے اجتناب کیا اور اسی عالم معنویت میں رہے، ہمارے جد مرحوم آقائ آسید ہاشم نجف آبادی نے مرحوم آ سید احمد کو دیکھا تھا ، درک کیا تھا؛ وہ کہتے تھے کہ جب ہم رات میں یا سحر کے وقت مسجد سہلہ کی طرف جاتے تھے یا واپس آتے تھے ، راستے میں آ سید احمد کا گھرپڑتا تھا تو گھر سے مرحوم کے رونے کی آواز آتی تھی، ان لوگوں کے معنوی حالات اس قسم کے تھے۔

خوب، مرحوم آقائ قاضی بھی ان کے شاگرد ہیں البتہ مرحوم قاضی اپنے باپ مرحوم آقائ آ سید حسین کے بھی شاگرد ہیں اور بعد میں جب وہ نجف آئے تو وہاں مرحوم آ سید احمد کے شاگرد بن گئے ، دس یا بارہ سال تک مرحوم سید مرتضی کشمیری کے شاگرد رہے ، البتہ مرحوم قاضی کے فرزند مرحوم آقائ آسید محمد حسن نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ مرحوم قاضی ، مرحوم سید مرتضی کشمیری کے سامنے تلمذ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی مصاحبت و ہمنشینی سے استفادہ کرتے تھے؛لیکن اسی کتاب یا مرحوم آقائ آ سید محمد حسین طہرانی کی کسی کتاب میں، میں نے پڑھا ہے ابھی میرے ذہن میں نہیں کہ کہاں پڑھا ہے، کہ مرحوم آقائ قاضی کہتے ہیں کہ میں نے نماز پڑھنا سید مرتضی کشمیری سے سیکھا ہے،آپ ملاحظہ کریں کہ ان کلمات کے کتنے گہرے اورعمیق معانی ہیں۔ ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں ہم اچھے اور بہترین انداز میں نماز ادا کررہے ہیں، یہ بزرگ عارف کئی سال تبریزمیں اپنے والد کی تربیت میں رہے اور معنوی لحاظ سے کافی آگے بڑھ چکے تھے لیکن جب نجف پہنچتے ہیں اور دس سال تک مرحوم آ سید مرتضی کشمیری کے پاس جاتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ میں نے نماز ان سے سیکھی ہے، مرحوم حاج میرزا علی  آقائ قاضی کے شاگرد نقل کرتے ہیں کہ انھیں زندگی میں سخت مالی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا تھا عیال کی کثرت تھی اور فقربھی تھا لیکن جب نماز پڑھتے تھے تو پوری دنیا سے غافل ہوجاتے تھے یعنی نماز میں ذکر خدا میں اس طرح خضوع و خشوع کے ساتھ مشغول اور مصروف ہوجاتے تھے کہ پوری دنیا سے فارغ ہوجاتے تھے، یہ غیر معمولی گذرگاہیں  خاص الخاص طبقہ و افراد کی گذر گاہیں ہیں، ہمارے لئے اس لحاظ سے حجت ہیں کہ ہم سمجھ جائیں کہ یہ بھی ہے؛ یہ درجات، یہ سلوک، یہ خلوص اور یہ حرکت اللہ تعالی کی راہ میں ہے۔

یہ لوگ مکاشفات کا اظہار بھی نہیں کرتے تھے، ان سے بہت سے چیزیں نقل ہوئیں اورمرحوم آقائ قاضی کی زندگی کے عجائب کے بارے میں منقول شدہ چیزيں مؤثق بھی ہیں اور نقل شدہ چیزیں ایک دو نہیں بلکہ کثرت سے ہیں؛ مؤثق بھی ہیں جن طرق سے نقل ہوئی ہیں وہ صحیح اورقابل یقین ہیں، لیکن یہ چیزیں ان بزرگوں کے نزدیک کوئی اہم اور قابل توجہ چیزیں نہیں تھیں خود یہ بزرگ اپنے شاگردوں سے کہتے تھے؛ اگر مکاشفہ کی کوئی حالت آپ کے لئے حاصل ہوجائے اس پر توجہ نہ دیں ، آپ اپنا کام کرتے رہیں ، اپنے ذکر کو جاری رکھیں،اس خشوع کی حالت کی حفاظت کریں؛ یعنی یہ ہیں  ان کے درجات ۔

بہر حال ایسی شخصیات کی یاد تازہ کرنا ، انھیں پہچنوانا اور ان کی معرفی بہت ہی اہم بات ہے البتہ اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ ایسے  افراد کی معرفی کے سلسلے میں ماہر اور باکمال افراد سے استفادہ کرنا چاہیے۔ یعنی ایسے افراد آئيں جو لفظ و زبان کے ذریعہ ان کے بارے میں ہمیں بتائیں تاکہ ہم کچھ استفادہ کرسکیں ورنہ مرحوم آقائ حاج میرزا علی آقائ قاضی اور ان جیسے افراد کے علمی و فقہی درجات تو بہت بلند ہیں ان کے بارے میں بیان کرنا کافی نہیں کیونکہ وہ تو اعلی درجات پر فائز ہیں۔

خوب، الحمد للہ انھیں طولانی عمر بھی عطا ہوئی، انھیں بہت سی توفیقات بھی حاصل ہوئیں، انھوں نے بہت سے شاگردوں کی تربیت  بھی کی،اور سلوک و عرفان کے لحاظ سے بھی وہ کم نظیر ہیں یعنی حقیقت میں ان کی شخصیت ممتاز شخصیت ہے مرحوم کے فرزند مرحوم آقائ آ سید محمد حسن نےجو کتاب لکھی ہے میں نے اسے مکرر پڑھا ہے اس کتاب میں کچھ خطوط ہیں البتہ کتاب کے متن و حاشیہ کو یکساں طور پر لکھا گیا ہے اور متن و حاشیہ میں تمییز پیدا کرنا مشکل ہے البتہ  ممکن ہے پسماندگان کے پاس اصل متن موجود ہو، اگر توجہ کی جائے تو اس میں چار پانچ خطوط ہیں جن میں ایک ممکنہ طور پر آقائ طباطبائی کے نام ہے،البتہ عنوان نہیں ہے لیکن متن کو دیکھ کر انسان سمجھ جاتا ہے کہ یہ خط آقائ طباطبائی کے نام ہے؛ ایک خط ممکنہ طور پر مرحوم آقائ آ سید محمد حسن الہی کے نام ہے، ایک دو خط مرحوم آ شیخ ابراہیم شریفی زابلی کے نام ہیں جو مرحوم کے داماد تھے؛ ایک خط ماہ رجب یا ذی قعدہ کے حلول کی مناسبت سےتمام شاگردوں کے نام ہے جس میں کہتے ہیں کہ ماہ حرام شروع ہوگیا ہے اور حرام مہینوں کی اہمیت کے بارے میں کچھ باتیں ذکر کرتے ہیں؛ ممکن ہے بعض خطوط دوسروں کے نام ہوں ؛ اگر آپ ان خطوط کو الگ اور جداگانہ طور پر شائع کریں تومیری نظر میں یہ کام بہت اہم یادگار کام ہوگا؛ بہر حال تمام حضرات کا سپاس گزار ہوں اور امید کرتا ہوں کہ کام اچھی طرح جاری رہے۔

٭ رہبر معظم کے پیغام کا متن آیت اللہ سید علی قاضی کی یاد منانے والی کانگریس کے ارکان کے اجتماع سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے منتخب کیا گیا ہے جو 26 /4/1391 ہجری شمسی میں انجام پذیر ہوا۔

700 /