ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا رضاکار دستوں اور ان کے کمانڈروں کے شاندار اجتماع سے خطاب:

عالمی استکبار بالخصوص امریکہ کی حق ناپذیر ، فریبکارانہ روشوں اور خصوصیات کی تشریح/ دشمن کو مایوس کرنے کا راستہ صرف قوم کے اقتدار اور استقامت پر استوار/ حکومت اور حکام کی ٹھوس حمایت/ ایٹمی معاملے میں قومی حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے آج صبح (بروز بدھ) رضاکار دستوں کے ہزاروں افراد اور ان کے کمانڈروں کے ایک شاندار اجتماع سے خطاب میں رضاکاردستوں کو اسلامی نظام کے ثبات، اقتدار اور طاقت کا مظہر قرار دیا، اور عالمی استکبار بالخصوص امریکہ کی حق ناپذیر ، فریبکارانہ روشوں اور خصوصیات کی تشریح کے ساتھ قوم کے اقتدار اور استقامت کو دشمن کو مایوس کرنے کا واحد راستہ قراردیا  اور حکومت و حکام کی ٹھوس حمایت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایٹمی مذاکرات میں ریڈ لائنوں کی رعایت کرنی چاہیے اور قوم کے حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اس عظیم اجتماع میں رضاکار دستوں کو ایرانی قوم کی عظمت کا مظہر اور ملک کی اندرونی سطح پر مؤثر طاقت قراردیتے ہوئے فرمایا: رضاکار فورس اور بسیج اسلامی نظام ، انقلاب اور ملک کے دوستوں کے لئے مسرت، خوشی ، امید اور اعتماد کا باعث اور دشمنوں اور مخالفین کے لئے خوف و ہراس کا باعث ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بسیج و رضاکارفورس کے ہفتہ اورحضرت زینب سلام اللہ علیھا کے عظیم رزم و جہاد کے ایام کے باہمی تقارن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا رزم و جہاد ، عاشورا کے رزم و جہاد اور معرکہ کی تکمیل ہے اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا جہاد درحقیقت عاشورا کے جہاد کی حفاظت اور اسے زندہ رکھنے کے معنی میں ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت زینب(س)  کے کام کی عظمت کو صرف عاشورا کے جہاد کے ساتھ قابل موازنہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلام کی یہ عظیم اور شیر دل خاتون تمام مصیبتوں اور تلخ حوادث کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور بلند و مضبوط چوٹیوں کی طرح ثابت قدم اور استوار رہی ، اور ایک دائمی پیشوا اور دائمی نمونہ میں تبدیل ہوگئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کوفہ کے عوام کے سامنے اور اسی طرح ابن زیاد اور یزید کے دربار میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے فولادی اور ٹھوس خطبوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام عاشور کے دن عزت و عظمت کا پیکر تھے اسی طرح کربلا کی یہ عظیم خاتون بھی عزت و عظمت کا پیکر تھی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت زینب (س)کی استقامت کے نتیجہ کو تاریخ میں حق کی راہ میں استقامت کی حرکت کے وجود میں آنے کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہماری حرکت کا نمونہ بھی زینبی حرکت اور ہمارا ہدف بھی اسلام ، اسلامی معاشرے اور انسان کی عزت و عظمت  پر استوار ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت زینب سلام اللہ علیھا اور تمام انبیاء ، اولیاء اور مؤمنین کے اندر ایسے جذبے کے پیدا ہونے کے اصلی عامل کو اللہ تعالی کے عہد و پیمان کے ساتھ صادقانہ رفتار و عمل  قراردیتے ہوئے فرمایا: قرآن کریم صداقت پسند رفتار کو انبیاء الہی ، اولیاء کرام ، مؤمنین اور عام لوگوں کے لئے لازمی قراردیتا ہے اور ہم سب کو اللہ تعالی کے ساتھ کئے ہوئے عہد کے بارے میں جواب دہ ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کریم کی اس صریح نص کی بنیاد پر یہ عہد وپیمان دشمن کے مقابلے میں فوجی، سیاسی اور اقتصادی جنگ میں استقامت و پائداری اور دشمن کو پیٹھ نہ دکھانے کا عہد ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس عہد کی بنیاد پر جہاں کہیں دشمن کے ساتھ مقابلے اور زور آزمائی کا میدان ہو وہاں دشمن کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور مؤمنین کے عزم و ارادہ کو دشمن کے ارادے پر غالب بنانا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاپنے خطاب کے اس حصہ میں کچھ عرصہ پہلے اپنی " قہرمانانہ نرمش یا دلیرانہ نرمی " کی تعبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض افراد نے قہرمانانہ نرمش کی تعبیر کو اسلامی نظام کے اصولوں اور اہاداف سے ہاتھ کھینچنا قراردیا اور بعض دشمنوں نے بھی اسی بنیاد پر اسلامی نظام کی اصولوں سے عقب نشینی کا دعوی کیا جبکہ یہ تعبیریں غلط اور خلاف واقعہ ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دلیرانہ نرمی کا مطلب ہنرمندانہ طور پر مختلف طریقوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی نظام کے گوناگوں اہداف تک پہنچنے کا نام ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عظیم اسلامی تمدن کے ایجاد و پیشرفت کے لئے اسلامی نظام کے گوناگوں اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ اہداف مرحلہ وار شکل و صورت میں ہیں اور ان مراحل کو متعلقہ حکام ، دانشور، راہنما اور ہادی مشخص کرتے ہیں اور پھر ان تک پہنچنے کے لئے اجتماعی حرکت شروع ہوجاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ صحیح نظام ، اسلامی نظام کی پیشرفت کے لئے منطقی حرکت ہے لہذا تمام سیاستدانوں اور ملک کے اعلی مدیروں اور اسی طرح بسیج اور رضاکار فورس میں سرگرم افراد کو اسے مد نظر رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسکے بعد کچھ سوالات پیش کرتے ہوئے فرمایا: کیا اسلامی نظام کی پیشرفت ، اسلامی نظام کی جنگ افروزی کے معنی میں ہے؟

کیا اسلامی نظام ، تمام عالمی اقوام اور ممالک کو چیلنج کرنا چاہتا ہے؟ جیسا کہ ایرانی قوم کے بعض دشمن منجملہ علاقہ کی غاصب صہیونی حکومت دیوانے کتے کی طرح یہی کچھ بھونکتی رہتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نقطہ نظر، دشمن کے نقطہ نظر کے بالکل مد مقابل ہے کیونکہ اسلامی نظام کا ہدف ، اسلام، قرآن ،پیغمبر اسلام (ص)  اور آئمہ طاہرین(ع) کے درس اور سیرت پر استوار ہے جو تمام قوموں کے ساتھ عدل و انصاف اور احسان اور نیکی کے درس پر مشتمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دنیا کے لئے حقیقی خطرہ ، دنیا کی شرارت پسند طاقتیں ہیں جن میں اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت اور اس کے حامی ممالک شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام ہمیشہ تمام انسانوں اور دوسری اقوام کے ساتھ تعاون ، محبت، اخوت اور برادری کا درس دیتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام  کو حتی امریکی قوم کے ساتھ  کوئی دشمنی نہیں ہے، اگر چہ امریکی حکومت ، ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے ساتھ عداوت ، دشمنی اور کینہ رکھتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: وہ نقطہ استکبار ہے جو اسلامی نظام کے مد مقابل ہے اور اسلامی نظام جس کا مقابلہ کررہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حقیقت پر تاکید کے بعد رضاکار فورس کے کئي ہزار افراد اور ان کے کمانڈروں سے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے موجودہ دور میں استکبار کی تاریخی خصوصیات کو بیان کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن کریم میں لفظ استکبار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تاریخ میں استکبار کی ہڈیوں کا ڈھانچہ ثابت ، لیکن ان کی روشیں متفاوت اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں ہر قسم کی غیر عاقلانہ رفتار اور مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تمام میدانوں منجملہ استکبار کے ساتھ مقابلہ اور مخالفت ،منصوبہ بندی، درایت اور حکمت پر مبنی ہونی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے استکباری نظام کے ساتھ عاقلانہ اور مدبرانہ رفتار کے تحقق کے لئے " استکباری نظام  کی خصوصیات اور اس کی سمت و سو کی" پہچان کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند نظام کی خصوصیات کے صحیح ادراک اور پہچان کے بغیر اس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے حکیمانہ منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے استکباری نظام کی خصوصیات کی تشریح کے سلسلے میں خود برتری اور خودپسندی کو استکبار کی ایک اصلی خصوصیت قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب ایک ملک یا ایک بین الاقوامی نظام اپنے آپ کو اصل ، برتر اور محور سمجھ لے تو عالمی تعلقات ایک خطرناک موڑ اختیار کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دیگر ممالک کے امور میں مداخلت کو حق سمجھنے، اپنے نظر یات کو دیگر قوموں پر مسلط کرنے اور عالمی مدیریت کا دعوی کرنے اور اسی طرح تسلط پسند نظام کی خود برتری اور خود پسندی کے خطرناک نتائج کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: امریکی حکام اس طرح بات کرتے ہیں جیسے وہ پوری دنیا اور علاقہ کی دیگر اقوام اور ممالک کے مالک ہوں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حق قبول نہ کرنے کو استکبار کی خود برتری اور خود پسندی کی دوسری خصوصیت قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےقوموں کے حقوق کے مقابلے میں استکبار اور امریکیوں کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے پر امن  ایٹمی پروگرام کی مخالفت ، قوموں کے حقوق کے بارے میں تسلط پسند نظام کی مخالفت کا واضح نمونہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہر انسان اور ہر ملک جو منطق اور استدلال رکھتا ہے وہ حق بات کو تسلیم کرلیتا ہے لیکن استکبار حق بات اور دوسروں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے کی تلاش و کوشش کرتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسروں پر ظلم و ستم اور جرم و جنایت کو جائز سمجھنے کو استکبار کی ایک اور خصوصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند نظام ان قوموں اور انسانوں کے لئے کسی قدر و منزلت کا قائل نہیں ہے جو اس کے تابع نہیں ہیں اور ہر قسم کے جرم و جنایت کو ان کے حق میں جائز سمجھتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں امریکہ کی مقامی باشندوں کے ساتھ قابل نفرت رفتاراور انگریزوں کی آسٹریلیاکے مقامی باشندوں کے ساتھ بد رفتاری اور امریکہ کی طرف سےافریقہ کے سیاہ فام افراد کو غلام بنانے کے سلسلے میں متعدد مثالوں کی طرف اشارہ کیا۔


700 /