ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا اعلی حکام اور اہلکاروں سے خطاب:

ایرانی حکام اچھے ،منصفانہ اور عزتمندانہ معاہدے کی تلاش میں ہیں/ ایران کی مذاکراتی ٹیم کے اہلکار امین، غیور،شجاع اور دیندار ہیں/ معاہدے پر دستخط کے وقت تمام اقتصادی ، مالی اور بینکی پابندیوں کے خاتمہ پرتاکید

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج سہ پہر (بروز منگل) رمضان المبارک کی مناسبت  سے تینوں قوا کے سربراہان ، اعلی حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات  میں مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد اور معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے طریقوں، چيلنجوں اور مثبت نتائج کی تشریح کے ضمن میں ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں فیصلہ کن نکات بیان کئے اور ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ایران کی ریڈ لائنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود اور ویران کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے جبکہ ایران کے تمام حکام ریڈ لائنوں اور ایران کے مفادات اور مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اچھے ،منصفانہ اور عزتمندانہ معاہدے کی تلاش میں ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں رمضان المبارک کو ماہ تقوی قراردیا اورتقوی کی  ذاتی اور سماجی دو قسموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ذاتی تقوی در حقیقت وہ دائمی حالت اور مراقبت ہے جو انسان کو معنوی مہلک اور خطرناک چوٹیں کھانے سے محفوظ  رکھتی ہے البتہ دنیاوی امور میں بھی اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرتی تقوی کو عام سماجی اور اقتصادی مسائل میں جاری و ساری  قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی مسائل میں معاشرتی تقوی درحقیقت وہی مزاحمتی اقتصاد ہے جو ملک کو عالمی حوادث اور زلزلوں کے مقابلے میں یا عالمی زہرآلودہ  تیروں اور معاندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں محفوظ بناتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی طاقتوں کے مقابلے میں ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کے سلسلے میں گذشتہ سالوں میں اپنے مکرر انتباہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: حالیہ برسوں میں حکام نے اپنی توانائی اور طاقت کے مطابق اچھی کوششیں کی ہیں لیکن مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں ملک کی تمام توانائيوں اور ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض ممالک میں مزاحمتی اقتصاد کے نفاذ اور اس کے مثبت اثرات کی طرف اشارہ کیا اور مزاحمتی اقتصاد کو اندرونی پیداوار اور اندرونی توانائیوں پر استوار قراردیتے ہوئےفرمایا: اندرونی پیداوار کا مطلب تنہائی اور الگ تھلگ ہونا نہیں ہے بلکہ بیرونی نگاہ کے ساتھ اندرونی ظرفیتوں اور توانائیوں پر توجہ  دینا اور اعتماد کرنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کی تدوین کو طویل مشوروں اور خرد جمعی کی کوششوں کا  نتیجہ قراردیتے ہوئےفرمایا: مزاحمتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کے ابلاغ کے بعد بہت سے اقتصادی ماہرین نے ان پالیسیوں کی تائید کی  اور اب مزاحمتی اقتصاد ملک کی مروجہ اقتصادی ثقافت اور ادبیات کا حصہ بن گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اقتصاد کے ماڈل کو تیسری دنیا پر بڑی طقاتوں کے قدیم اور مسلط کردہ ماڈل کے مد مقابل قراردیتے ہوئے فرمایا: قدیم ماڈل کی نگاہ ملک سے باہرمرکوزہے جبکہ مزاحمتی اقتصاد داخلی اور اندرونی ظرفیتوں پر مشتمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے بعض افراد یہ کہیں کہ مزاحمتی اقتصاد کا ماڈل اچھا اور پسندیدہ ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے لیکن میں قطع و یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک کی تمام داخلی ظرفیتوں  اور توانائیوں سے استفادہ  کرکے مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کے بعد ملک میں موجود بعض ظرفیتوں  کو بیان کیا جو مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ ماہر اور خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار اور پڑھے لکھے افراد پہلی ظرفیت تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں ماہرین اور پڑھے لکھے افراد کی اتنی بڑی تعداد میں موجود افرادی قوت ،انقلاب اسلامی کے برکات میں شامل ہے بشرطیکہ غلط پالیسیاں معاشرے کے پیر ہونے اور جوانوں کی کمی کا موجب نہ بنیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے اوائل کی نسبت 25 گنا زیادہ  یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل 10 ملین جوانوں اور یونیورسٹیوں میں مشغول 4 ملین سے زائد جوانوں  کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ماہرین اور تحصیل کردہ جوانوں کی اتنی بڑی تعداد اسلامی نظام کے لئے فخر کا  باعث ہے اور یہ ایک عظیم فرصت بھی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اقتصادی مقام کو دوسری اہم ظرفیت قراردیتے ہوئے فرمایا: عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے اقتصاد اور معیشت میں ایران کا بیسواں رتبہ ہے اور استفادہ نشدہ ظرفیتوں سے استفادہ کی صورت میں ایران دنیا کے اقتصاد کے بارہویں رتبے تک پہنچ سکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیس اور تیل کے ذخائر میں مجموعی طور پر ایران کے پہلے مقام کو مزید ایک اہم ظرفیت قراردیا اور  شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ارتباط کو ملک کی ممتاز جغرافیائی پوزیشن  قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران کے پڑوس میں 15 ممالک ہیں جن کی آبادی 370 ملین ہے اور ایران کے قریب میں یہ ایک اہم بیرونی بازار ہے اور اسی طرح خود ایران کی آبادی 70 ملین سے زائد ہے جو ایک بڑا داخلی اور اندرونی بازار ہے اور اگر اسی اندرونی بازار پر توجہ مبذول کی جائے تو پیداوار کی صورتحال دگرگوں ہوجائے گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انرجی، روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ، ارتباطات ،بجلی گھروں ، ڈیموں کے سلسلے میں ملکی تعمیرات اور اسی طرح ملک میں مدیریتی تجربہ کو ایک اور ظرفیت شمار کرتے ہوئےفرمایا: ہمیں ان ظرفیتوں سے مناسب اور درست استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ ملک کی مشکل اچھے منصوبوں اور اچھی اور ماہرانہ باتوں میں کمی نہیں ہے بلکہ اصلی مسئلہ اور اصلی مشکل ان منصوبوں اوران  اچھی باتوں سے درست استفادہ نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مشکلات کو ملک کے اندرونی چیلنجوں کی وجہ سے قراردیا اور بعض چیلنجوں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: عمل میں غفلت،سادگی اور مسائل پر سطحی نظر رکھنے جیسے امور ملک کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئےفرمایا: لفظی بحثوں اور روشنفکری سے کام آگے نہیں بڑھےگا بلکہ مسائل اور بلند مدت امور کے حل کے لئے اقدام ، عمل اور جدوجہد ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض بڑے امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے  کے لئے طویل عرصہ اور ایک نسل کے برابر مدت گزرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں جب ملک کی علمی تحریک اور یونیورسٹیوں کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی شاید کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ 10 یا 15 سال کے بعد ملک کی موجودہ علمی تحریک  باصلاحیت اساتید اور جوانوں کی ہمت سے پیدا ہوجائے گی اور گذشتہ سالوں کی نسبت آج ملک کی علمی پیشرفت اور ترقی پر ہم حیران اور خیرہ کنندہ ہیں۔

موازی، آسان اور مہلک راستے ایک اور اندرونی چیلنج تھا جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات ضروری اشیاء کی فراہمی دو راستوں سے ممکن ہے ایک راستہ یورپ کا راستہ اور آسان راستہ ، جبکہ دوسرا راستہ غیر یورپی راستہ اور سخت راستہ، پہلا راستہ انسان کو مشکل میں مبتلا کردےگا اور دوست اس کو کمزور اور دشمن اس کو قوی بنا دیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: داخلی سطح پر ایک اور بڑا چیلنج جو درپیش ہے وہ عظیم  اور اساسی اشتباہ  ہے کہ کوئی یہ سوچ لے کہ اسلامی نظام اور عقائد پر مبنی اصولوں سے دور رہنے کی وجہ سے تمام راہیں کھل جائیں گی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت میں مشغول افراد خدمتگزار اور انقلاب اسلامی کے اصولوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور میرا ان سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر بعض یہ تصور کرتے ہیں کہ دشمن کے سامنے سے پیچھے ہٹنے یا اسلامی اصولوں کو نظر انداز کرنے سے تمام دروازے کھل جائیں گے حالانکہ حالیہ برسوں میں بعض ممالک میں اس غلط فکر کے برے نتائج ہم مشاہدہ کرچکے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی اصولوں پر استقامت اور پائداری ، پیشرفت اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا:  اندرونی چیلنجوں میں سے ایک چیلنج یہ ہے کہ بعض لوگ  تصور کرتے ہیں کہ عوام مشکلات کو برداشت نہیں کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر امور کےحقائق کو صداقت اور سچائی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو عوام استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کریں گے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی توانائیوں میں شک و تردید کو ایک اور چیلنج قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک کے جوان دانشوروں اور اقتصادی مجموعہ میں موجود لوگوں پر اعتماد اور ان کی توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےجہادی مدیریت، غفلت و راحت سے دوری اور سنجیدہ عزم و تلاش کو  مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کی اصلی شرط  قراردیتے ہوئے فرمایا: جہادی مدیریت کا مطلب اللہ تعالی پر توکل ، حکمت و تدبیر سے استفادہ اور بغیر کسی خوف و ہراس اور  پختہ عزم کے ساتھ  امور کو آگے بڑھانا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےجہادی مدیریت کے ہمراہ مزاحمتی اقتصاد کے متناسب ثقافت کی ترویج کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: ریڈیو ، ٹی وی ، ذرائع ابلاغ، حکام ، آئمہ جمعہ اور تمام ایسے افراد کو مزاحمتی اقتصاد کی ترویج کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے جنکا عوام کے اندر اثر و رسوخ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کفایت شعاری، داخلی اشیاء کے استعمال خصوصا حکومتی اداروں میں ، غیر ضروری  در آمدات پر کنٹرول ، اسمگلنگ کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ، پیداوار کی چھوٹی اور متوسط فیکٹریوں  پر توجہ، مالی و ارزی پالیسیوں اور بینکی نظام کی سرگرمیوں  پر تجدید نظر کو مزاحمتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے بہت ضروری قراردیتےہوئے فرمایا: ان تمام موارد کو عملی جامہ پہنانے کی اصلی شرط ،داخلی انسجام ، ہمدلی اور ہمزبانی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت اور حکام کے ساتھ تعاون کو سب پر لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: کسی بھی طرف سے حاشیہ سازی ناقابل قبول ہے جانبی مسائل اور حاشیہ سازی سے پرہیز کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اقتصاد سے متعلق موضوعات کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: ہم اقتصادی میدان میں بڑے کام انجام دے سکتے ہیں اور اس حساس مرحلے سے عبور کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات کی بعض تفصیلات،واضح مطالبات کی تشریح  اور ایٹمی معاملے کے بارے میں ریڈ لائنوں کی وضاحت سے قبل تین نکات پر تاکید کی۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ رہبری کی باتیں جو عام جلسات میں ہوتی ہیں بالکل وہی باتیں صدر جمہوریہ اور دیگر متعلقہ حکام سے خصوصی جلسات میں بھی بیان کی جاتی ہیں لہذا بعض تبلیغی خطوط غلط اور ناصحیح ہیں جن میں یہ کہا جاتا ہے کہ خصوصی جلسات کی بعض ریڈلائنوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے یہ باتیں حقیقت کے خلاف اور جھوٹی ہیں۔

دوسرا نکتہ جسے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی بحث کے مقدمہ کے طور پر بیان کیا، مذاکراتی  ٹیم کی دینداری، شجاعت ، غیرت اور امانتداری پر مبنی تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ ٹیم قومی غیرت،کامل دقت، گرہیں کھولنے اور ملکی امور کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں مد مقابل کئی فریقوں کے ساتھ مذاکرات میں مشغول ہے اور انصاف کے ساتھ ، شجاعت کے ساتھ اپنے مؤقف کو بیان کررہی ہے اور آگے کی جانب بڑھ رہی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر کوئی شخص مذاکرات کی تفصیلات کے بارے میں باخبر ہوجائے تو  وہ مذاکراتی ٹیم کے بارے میں پیش کی گئي باتوں کا اعتراف کرےگا البتہ ممکن ہے وہ تشخیص اور عمل میں خطا کرجائیں لیکن وہ  دیندار اور غیرتمند ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا تیسرا مقدماتی نکتہ ایٹمی مذاکرات کے ناقدین کے بارے میں تھا ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں تنقید کا مخالف نہیں ہوں اور اسے لازم اور ممد و معاون سمجھتا ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے عمل کرنے سے تنقید کرنا آسان ہے۔کیونکہ دوسروں کے عیب دیکھنا آسان ہے لیکن اس کی دشواریوں اور مشکلات کا ادراک مشکل ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میری اس بات کامقصد یہ نہیں کہ تنقید جاری نہیں رہنی چاہیے تنقید ہونی چاہیے لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ مذاکراتی ٹیم کو بھی تنقید والے مورد کے بارے میں علم  ہے لیکن بعض ضرورتوں کے پیش نظر وہ اس سے استفادہ کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی مختصر تاریخ بیان کی جو مذاکرات میں قابل توجہ مدد کرسکتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کا موضوع گذشتہ حکومت سے متعلق ہے کہ امریکہ نے ایک ثالث کو مذاکرات  کے لئے تہران بھیجا ، لہذا یہ موضوع مذاکرات کی درخواست سے متعلق  ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئےفرمایا: اس دور میں علاقہ کی ایک محترم شخصیت  ثالث کے طور پر میرے پاس آئی اور اس نے صراحت کے ساتھ کہا کہ امریکی صدر نے اس سے کہا ہے کہ وہ تہران جائے اور مذاکرات کے لئے امریکی درخواست پیش کرے ، امریکیوں نے اس ثالث سے کہا تھا کہ ہم ایران کو ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کرنے کے ساتھ ایران کے ایٹمی معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں اور پابندیوں کو 6 ماہ کی مدت میں ختم کردیں گے، البتہ ہم نے اس ثالث سے کہا کہ ہمیں امریکیوں  اور ان کی باتوں  پر کوئی اطمینان اور اعتماد نہیں ہے  لیکن ہم نے اس محترم ثالث کے اصرار پر قبول کرلیا کہ ہم اس مسئلہ کو ایک بار پھر امتحان کرلیں اور مذاکرات شروع ہوگئے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی چیلنجوں کے بارے میں دو اہم نکتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہر سفارتی مقابلے میں دو میدان ہوتے ہیں کہ جن پر توجہ مبذول کرنی چاہیے، اصلی میدان ،حقیقت،عمل اور سرمایہ کی پیداوار کا میدان ہے اوردوسرا میدان سفارتکاری اور سیاست کا میدان ہے جو اس سرمایہ کو قومی مفادات اور امتیاز میں تبدیل کرسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پہلے میدان میں خالی ہاتھ ملک،  درحقیقت  دوسرے میدان میں زیادہ لچک  نہیں دکھا سکتا، اور اسی منطق کے پیش نظر ایران قوی اور مضبوط  نتائج کے ساتھ مذاکرات کے میدان میں حاضر ہوا ہے اور 20 فیصد یورینیم کی افزودگی  اس کا ایک حصہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تمام بڑی طاقتوں نے ایران کو تہران  کے مرکزمیں نیوکلیئر میڈيسن  بنانے کے لئے 20 فیصد ایندھن بیچنے سے انکار کردیا یہاں تک کہ وہ دوسرے ممالک سے خریدنے میں بھی رکاوٹ پیدا کرتے تھے  لیکن ایران کے غیور دانشوروں اور قابل فخر سائنسدانوں نے اس ایندھن کو ملک کے اندر پیدا کیا اور اسے صفحہ ایندھن میں تبدیل کرکے دشمن کو مبہوت کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: 20 فیصد ایندھن تیار کرنے کے علاوہ دوسرے حقیقی اور عملی نتائج بھی  ہمیں حاصل ہوئے اور در حقیقت دشمن کے دباؤ کے مقابلے میں ایران کی استقامت اور پائداری مؤثر ثابت ہوگئی اور امریکی اس نتیجے تک پہنچ گئے کہ وہ پابندیوں سے اپنے مطلوبہ نتائج تک نہیں پہنچ سکتے، لہذا کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ پر ایران کے عدم اطمینان اور شک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس کے باوجود ہم تیار تھے کہ اگر امریکی اپنے اس ثالث کے ساتھ کئے گئے وعدوں  پر باقی ہیں  تو ہم بھی کچھ خرچ کریں گے کیونکہ عقل و محاسبہ کی بنیاد پر  مذاکرات میں کچھ چیزیں حاصل کرنے کے لئے کچھ چیزوں سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے لیکن انھوں نے مذاکرات کے کچھ عرصہ  بعد پھرعہد شکنی اور منہ زوری دکھانا شروع کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کی نظر میں اچھے معاہدے کو عادلانہ اور منصفانہ معاہدہ قراردیتے ہوئے فرمایا: مذاکرات کے دوران امریکیوں نے پابندیاں اٹھانے کے 6 ماہ کے دیئے گئےوعدے  کو پہلے ایک سال میں تبدیل کیا اس کے بعد منہ زوری دکھاتے ہوئے اسے مزید طولانی کردیا اور یہاں تک کہ مزید پابندیوں کی دھمکیاں دینے لگے اور اس کے ساتھ ہی فوجی کارروائی اور میز کے اوپر آپشنز اور میز کے نیچے آپشنز کی باتیں کرنا شروع کردیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات کے سلسلے میں اپنے مطالب کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: امریکی مطالبات میں غور و فکر اور مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ایران کی ایٹمی صنعت کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں وہ ایران کی ایٹمی شکل و صورت کو ایک  کارٹون اور ایک بےمعنی شکل میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کو 20ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی کی حقیقی ضرورت اور نیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود کرنے اور ایٹمی صنعت کے کثیر فوائد سے ایرانیوں کو محروم کرنے کے ساتھ دباؤ اور پابندیوں کو بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے ساتھ پیچیدہ مذاکرات کے حقائق کی تشریح کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکی حکومت کی ضرورت کے بارے میں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر وہ مذاکرات میں اپنے اہداف تک پہنچ سکیں  تو انھیں ایک بڑی کامیابی مل جائے گی کیونکہ انھوں نے ایران کی استقلال پسند قوم کو گھٹنے ٹیکنے اور تسلیم ہونے پر مجبور کردیا ، انھوں نے اس ملک کو شکست دیدی جو دوسرے ملکوں کے لئےنمونہ عمل بن سکتا تھا۔ ان کی  تمام عہد شکنیاں اور مکر و فریب انہی اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات کے آغاز سے لیکر آج تک ایران کے منطقی مطالبات پر تاکید کرتے ہوئےفرمایا: ہم ابتدا ہی سے ظالمانہ پابندیوں کو اٹھانے کے خواہاں ہیں اور پابندیاں اٹھانے کی بدلے میں کچھ چیزيں دینے کے لئے امادہ ہیں بشرطیکہ ایران کی ایٹمی صنعت محفوظ رہے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ایٹمی ریڈلائنوں کے بارے میں وضاحت کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلی ریڈلائن کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: ہم امریکیوں کے اصرار کے برخلاف  10 اور 12 سال کی طویل محدودیتوں کو قبول نہیں کرتے ، اور ہم نے محدود سالوں کی مقدار انھیں بتا دی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حتی محدود سالوں میں بھی ایٹمی ریسرچ، تحقیق اور توسعہ کے استمرار کو دوسری ریڈ لائن قراردیتے ہوئےفرمایا: وہ کہتے ہیں کہ 12 سال کی مدت میں کوئي کام نہ کیا جائے  لیکن ان کی یہ بات بڑي غلط  اور دوگنا غلط بات ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیسری ریڈ لائن کی وضاحت  کرتے ہوئے فرمایا: اقتصادی،مالی اور بینکی پابندیاں چاہے وہ سکیورٹی کونسل ، چاہے امریکی کانگریس اور چاہے امریکی حکومت سےمتعلق ہوں معاہدے پر دستخط کے وقت منسوخ ہوجانی چاہییں اور باقی پابندیاں بھی معقول فاصلوں میں ختم ہوجانی چاہییں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پابندیوں کے بارے میں امریکیوں کا فارمولہ  بڑا پیچیدہ ،عجیب و غریب اور دبیز فارمولہ  ہے معلوم نہیں کہ اس کے اندر سے کیا سامنے آنے والا ہے لیکن ہم صریح طور پر اپنے مطالبات کو بیان کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کی ریڈ لائنوں کے بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: پابندیوں کے خاتمہ کو ایران کے وعدوں اورتعہدات سے منسلک نہیں کرنا چاہیے وہ ایسا نہ کہیں کہ آپ اپنے وعدوں کو پورا کریں پھر بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی اس کی توثیق کرے اس کے بعد پابندیوں کو ختم کیا جائے ہمیں اس مسئلہ  کو ہر گز قبول نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پابندیوں کی منسوخی  کا نفاذ اور ایران کے وعدوں کا نفاذ باہم اور  یکساں ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم فریق مقابل کے وعدوں کے نفاذ کو بین الاقوامی ایٹمی  ایجنسی کی رپورٹ سے منسلک کرنے کے خلاف ہیں کیونکہ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے متعدد بار ثابت کیا ہے کہ وہ مستقل اور عادل ادارہ  نہیں ہے لہذا ہمیں بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی پر اطمینان نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کو اطمینان حاصل ہونا چاہیے یہ نامعقول اور غیر منطقی بات ہے اسے کیسے اطمینان حاصل ہوگا مگر یہ کہ وہ  ایران کی چپہ چپہ زمین کا معائنہ کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نامتعارف معائنوں ، ایرانی شخصیات سے تفتیش اور ایران کے فوجی مراکز کے معائنوں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے انھیں بھی ایٹمی ریڈ لائنوں میں شمار کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صراحت کے ساتھ تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مجھ سمیت ایران میں تمام ادارے ، حکومت ، پارلیمنٹ،عدلیہ سکیورٹی ، عسکری اور دیگر ادارے اچھے ایٹمی معاہدے کے خواہاں ہیں ایسا معاہدہ تدوین ہونا چاہیے جو عزتمندانہ، منصفانہ اور ایران کے قومی اور ملکی مفادات کا حامل ہو۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر چہ ہم پابندیوں کے منسوخ ہونے کے خواہاں ہیں لیکن انھیں ہم ایک اور زاویہ سے فرصت  بھی سمجھتے ہیں کیونکہ پابندیوں کی وجہ سے داخلی ظرفیتوں پر ہماری توجہ زیادہ مبذول ہوگئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں رمضان المبارک کی برکات سے بھر پور استفادہ بالخصوص اس مہینے کی اعلی مضامین پر مشتمل  دعاؤں سے فیض اٹھانے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: رمضان المبارک کا مہینہ ،خضوع اور استغفار کا مہینہ ، اللہ تعالی کی طرف لوٹنے ،خود سازی اور اخلاق کا مہینہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر حجۃ الاسلام والمسلمین روحانی نے 22 ماہ قبل گیارہویں حکومت کے کام کے آغاز سے اندرونی مسائل پو توجہ، حسن اعتماد ، مسالمت آمیز رفتار ، طبقاتی فاصلوں میں کمی ، افراط سے دوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیرونی سطح پر بھی حکومت نے دنیا کے ساتھ تعمیری روابط ، ریڈ لائنوں کے پیش نظر قومی عزت و استقلال کی حفاظت پر خاص توجہ دی اور اسی طرح ثقافتی مسائل میں بھی اسلامی احکام اور اخلاق کے خطوط کی حفاظت کے ساتھ  تمام اہل ثقافت واہل ہنر کے لئے مناسب مواقع فراہم کئے ہیں۔

صدر حسن روحانی نے  مذاکرات میں ایٹمی حقوق کے حصول اور ملک و معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے کوحکومت کی دو ترجیحات قراردیتے ہوئے کہا: ایرانی قوم کی استقامت و پائداری اور دباؤ اور پابندیوں کی ناکامی کی وجہ سے عالمی طاقتیں مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے مجبور ہوگئیں۔

صدر حسن روحانی نے ظالمانہ پابندیوں کو ناکام قراردیتے ہوئے کہا : ایرانی قوم حتی پابندیوں کے شرائط میں بھی سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو اچھی طرح حل کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور ہم نے پابندیوں کے شرائط میں عوام کی مدد سے مہنگائی پر قابو پالیا اور کساد بازاری سے خارج ہوگئے اور پابندیوں کے شرائط میں سرمایہ کاری کے رشد میں بھی اضآفہ ہوا ہے۔

صدر نے اسٹراٹیجک اجناس کے ذخائر میں اضافہ ، برآمدات  میں موجود رکاٹیں دور کرنے، کسادبازاری کا بل پیش کرنے، گندم کی درآمد میں کمی ، زراعت کی کشت میں تغییر و تحول، طبی خدمات ، کم درآمد طبقات کی مدد ، سبسیڈی اشیاء کی فراہمی ، بجٹ میں تیل پر انحصار میں کمی، موجودہ اخراجات میں کفایت شعاری ، پیداوار کے 8 ہزار صنعتی یونٹوں کا افتتاح اور ماحولیات کے شعبہ میں مفید اقدامات کو پابندیوں کے شرائط میں حکومت کے اہم اقدامات قراردیا۔

صدر روحانی نے حکومت کی تیل کی درآمدات میں کمی کو اس سال کے خاص شرائط میں شمار کرتے ہوئے کہا: ہمیں تلاش و کوشش، اتحاد ، ہمدلی اور انسجام کے ساتھ مشکلات سے بخوبی عبور کرنا چاہیے اور اس کام کو ہم عوام کے تعاون سے انجام دیں گے۔

صدر نے موجودہ شرائط میں غیر ضروری  فرسائشوں  کی معاشرے میں اجازت نہ دینے پر تاکید کرتے ہوئے کہا: آگر مقد مقابل فریق  نےمنہ زوری  نہ دکھائی  اور حد سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کی تو معاہدہ ہوجائے گا اور ہم تاریخ کے اس مرحلے سے عبور کرجائیں گے۔

صدر نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں کہا: بعض ممالک کی مداخلت  اور دہشت گردوں کے دباؤ کی وجہ سے علاقائي عوام  دگنے دباؤ کا شکار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران  دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور علاقائی عوام کی حمایت کے سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھےگا۔

700 /