ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے چین کے صدر کی ملاقات

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جمہوریہ چین کے صدر شی جین پینگ اور انکے ہمراہ وفد سے ملاقات میں ملت ایران اور چین کے درمیان برسوں پرانے تجارتی اور ثقافتی رابطے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی ملت اور حکومت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ چین جیسے آزاد اور خودمختار اور قابل اطمینان ممالک سے اپنے رابطے برقرار کرے اور آج بھی ہماری یہی کوشش ہے اسی لئے ایران اور چین کے سربراہان مملکت کا اس بات پر اتفاق کہ دونوں ملکوں کے درمیان پچیس سالہ رابطے کی اسٹریٹجی بنائی جائے ایک صحیح اور حکمت آمیز امر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شاہراہ ریشم کے دوبارہ احیاء اور اس راستے میں واقع ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ سے متعلق چین کے صدر کی رائے کو بالکل منطقی اور قابل قبول آئیڈیا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پابندیوں کے دور میں چین کی جانب سے کئے جانے والے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انرجی کو دنیا کے اہم ترین موضوعات میں سے قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران علاقے میں واحد خود مختار ملک ہے جس پر انرجی کے سلسلے میں بھروسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ علاقے کے بعض ملکوں کے برخلاف ایران کی انرجی سے متعلق پالیسیاں کسی بھی غیر ایرانی وجہ یا عامل سے متاثر نہیں ہوتیں۔
آپ نے بعض ملکوں اور خاص طور پر امریکا کی تسلط پسندانہ پالیسیوں اور دیگر ملکوں کے ساتھ انکے غیر صادقانہ تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس صورت حال کی وجہ سے دنیا کے خود مختار ممالک آپس میں تعاون کے فروغ پر توجہ دے رہے ہیں اور پچیس سالہ اسٹریٹجک تعلقات سے متعلق ایران اور چین کا معاہدہ اسی تناظر میں ہے اور ان معاہدوں کا یقینی طور پر عملدرآمد کے مرحلے تک پہنچنا ضروری ہے جس کے لئے دو طرفہ سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی ثقافت میں مشرق کی جانب رجحان و میلان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اہل مغرب کبھی بھی ملت ایران کا اعتماد جیت نہیں سکے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کے سلسلے میں مغربی ملکوں میں سے امریکا کی پالیسیوں کو سب سے زیادہ معاندانہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ انھیں معاندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ایران کے عوام اور حکام خود مختار ملکوں سے تعلقات کے فروغ پر توجہ دے رہے ہیں۔
آپ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ متحدہ چین کا موضوع اسلامی جمہوریہ ایران کی حتمی اور اصولی پالیسیوں کا جز ہے، دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی تعاون بڑھانے سے بارے میں چینی صدر کی گفتگو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور اسی طرح اسلام کی غلط  اور منحرفانہ تفسیر و تشریح کی وجہ سے ہمارا علاقہ ایسی بدامنی کا شکار ہو گیا ہے جس میں توسیع کا خطرہ موجود ہے، لہذا عقلمندانہ تعاون کے ذریعے اس کا راستہ روکنےکی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے بعض ممالک کو اس منحرفانہ فکر کی جڑ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مغربی ممالک بھی اس نظریئے اور دہشت گرد گروہوں کے اصلی سرچشمے کا مقابلہ کرنے کے بجائے یورپ اور امریکا میں مسلمانوں پر حملے اور سختیاں کر رہے ہیں، جبکہ صحیح اسلامی طرز فکر سے ان دہشت گرد تنظیموں کا کوئی تعلق نہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعض دہشت گرد تنظیموں کے لئے حکومت اسلامی کا لفظ استعمال کرنے پر امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کے اصرار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ مسلمانوں کی توہین ہے اور اس سے مشکل کا ازالہ ہونے کے بجائے بالواسطہ طور پر ان گروہوں کی تقویت کا راستہ ہموار ہوگا۔
آپ نے دہشت گردی سے جنگ کے لئے الائنس کی تشکیل کےامریکی دعوے کو فریب اور دھوکا گردانتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تمام مسائل میں امریکیوں کا رویہ ایسا ہی ہے وہ کسی بھی مسئلے میں نیک نیتی سے کام نہیں کرتے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اختتام پر فرمایا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ تہران میں ہونے والے معاہدوں کے نتائج حقیقی معنی میں دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی بھی موجود تھے۔
ملاقات میں چین کے صدر نے اپنے دورہ ایران پر خوشی کا ظہار کرتے ہوئے اور ایران کے عوام اور حکومت کے پرتپاک اور صادقانہ جذبات کا شکریہ ادا کیا اور ان دوستانہ جذبات کو دونوں ملکوں کے درمیان طویل مدتی تعاون اور رابطوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور چین کے درمیان تعاون میں باہمی مفادات کی بنیاد پر روز افزوں وسعت آنی چاہئے۔
چینی صدر نے قدیمی شاہراہ ریشم کے ذریعے ایران اور چین کے برسوں پرانے رابطے کا حوالہ دیتے ہوئے شاہراہ ریشم کو امن، پیشرفت اور دوستانہ تعلقات کا مظہر قرار دیا اور کہا کہ اس راستے پر واقع ممالک کو چاہئے کہ وہ باہمی تعاون کا دائرہ بڑھا کر اس علاقے کی معیشت کو درہم برہم کر دینے کی امریکی سازشوں کے مد مقابل اپنے مفادات کا دفاع کریں اور اپنے اہداف تک رسائی حاصل کر یں۔
چین کے صدر شی جین پینگ نے کہا کہ بعض بڑی طاقتیں یکطرفہ نظریہ اور "یا ہمارے ساتھ ورنہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ" جیسے جنگل کے قوانین مسلط کر دینے کی کوشش میں مصروف ہیں، لیکن نئی معیشتوں کے طلوع نے بڑی طاقتوں کی اجارہ داری کو للکارتے ہوئے خود مختار حکومتوں کے نظریات اور پالیسیوں کے لئے میدان ہموار کر دیا ہے۔
چین کے صدر نے چین کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام اور ایران کی جانب سے 'متحدہ چین' کی حمایت  کو آپسی اعتماد اور دو خود مختار ملکوں کی پالیسیوں کا نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم خود مختار پیشرفت کے راستے پر گامزن ہیں اور اس بات کی آمادگی رکھتے ہیں کہ جس طرح پابندیوں کے دور میں ہم ایران کے ساتھ تھے، پابندیاں اٹھ جانے کے بعد بھی تمام شعبوں میں ایران کے ساتھ اپنا تعاون بڑھائیں۔
چین کے صدر شی جین پینگ نے ایران کے اندر جغرافیائی اعتبار سے اور افرادی قوت اور انرجی کے لحاظ سے موجود بے پناہ خصوصیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چین اور ایران کی معیشتیں ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والی ہیں اور اس سفر میں ہم نے 25 سالہ اسٹرٹیجک تعاون کے لئے منصوبہ بندی پر اتفاق کیا ہے اور ہم ثقافتی، تعلیمی، سائنسی، عسکری اور سلامتی کے میدانوں میں اسٹرٹیجک پارٹنرز کی سطح پر تعاون کے فروغ کے لئے آمادہ ہیں۔
چین کے صدر نے دہشت گردی اور علاقے کے پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی تعاون بڑھانے کی خاطر میکینزم تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
شی جین پینگ نے نیز رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو کو حکیمانہ اور دور اندیشی پر مبنی قرار دیتے ہوئے چین کی حکومت اور قوم آپ کے سلسلے میں دوستانہ اور والہانہ جذبات رکھتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ ماضی کی طرح آئندہ بھی آپ، دونوں ملکوں کے تعلقات کی پیشرفت میں مدد کریں گے۔

700 /