ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

شہدائے کھیل کی اعزازی تقریب کے منتظمین اور انکی ماؤں کے وفد سے ملاقات

کھلاڑیوں میں دینی مسائل کی پابندی اہم روحانی و سماجی اثرات رکھتی ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے شہدائے کھیل کے اجلاس و اعزازی تقریب کے منتظمین اور کھلاڑی شہداء کی ماؤں کے وفد سے ملاقات میں بیانات جو کہ 20شہریوار 1401ء کو منعقد ہوئی، آج صبح تہران میں اس اجلاس کے مقام پر نشر ہوئے۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے قرآن کے اس بشارت کا ذکر کرتے ہوئے کہ شہداء زندہ ہوتے ہیں، فرمایا: شہداء باایمان سماج کو بشارت اور حوصلہ دیتے ہیں کہ مشکلات کے باوجود خدا کی راہ میں جہاد کرنا بہت اچھا انجام رکھتا ہے اور اس کا انجام نہ خوف کے ہمراہ ہے اور نہ ہی کسی غم کے ہمراہ۔
انہوں نے اس امید افزا بشارت کو تحرک اور پیشرفت کا سبب قرار دیا اور کہا: انقلاب اسلامی نے راہ خدا میں جہاد اور شہادت کے لیے ایک عوامی کشش پیدا کی اور 5000 سے زیادہ کھیلوں کے شہداء اس وسیع اور موثر کشش کی ممتاز نشانیاں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے کھیلوں کے موجودہ ماحول کو کھیلوں کے شہداء کی روحانیت سے متاثر ہونے اور ہمارے ملک کے کھلاڑیوں کی دینداری اور عزم کے جلووں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: انعامی تقریب کے پلیٹ فارم پر ایک خاتون کھلاڑی کی اسلامی حجاب میں مجودگی اور کسی اجنبی مرد سے مصافحہ نہ کرنا، شہداء کے اہل خانہ کو چیمپئن شپ کے تمغے ہدیہ کرنا، فتح کے بعد زمین پر سجدہ ریز ہونا اور فتح کے حصول کے بعد بارہ اماموں کے ناموں کا ذکر کرنا، اور کھلاڑیوں کے دستوں کی اربعین کی زیارت کے لیے روانگی تاریکی سے بھری آج کی مادی دنیا میں، قابل ذکر اور بے نظیر جلوے ہیں جنھیں ایرانی قوم کی روحانی اور اخلاقی گہرائیوں کو سمجھنے کے لیے ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے مختلف سماجی پرتوں میں روحانیت کو فروغ دینے میں مشہور کھلاڑیوں سمیت شخصیات کے نمایاں کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کھلاڑیوں اور کھیلوں کے منتظمین کی دینی مسائل کی پابندی اور مختلف میدانوں میں نمایاں شخصیات کی جہادی موجودگی آمادہ افراد پر بہت زیادہ روحانی اثرات مرتب کرتی ہے۔ 
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عمومی ورزش کو جسمانی صحت اور روحانی ترقی تازگی کا باعث اور ہر ایک کے لیے ضروری اور واجب چیز قرار دیا اور فرمایا: پیشہ ورانہ کھیل اور مقابلے اس لیے بھی بہت اہم ہیں کیونکہ یہ عام لوگوں کو عمومی ورزش کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ قومی افتخار کا ذریعہ بھی ہے۔ اس میں فتح سے پوری قوم خوشی اور فخر محسوس کرتی ہے اور اسی وجہ سے میں ہمیشہ کھیلوں کے فاتحین کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں۔
انہوں نے میدان میں تکنیکی فتح کو اقدار کی فتح کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا: ہمارے کھلاڑی صیہونی حکومت کے کھلاڑیوں کے ساتھ مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے تمغہ سے محروم رہے ہیں، یہ دراصل ایک فتح ہے کیونکہ مقابلہ کا مطلب غاصب حکومت کو تسلیم کرنا ہے جو بچوں کی قاتل ہے اور یہ اخلاقی فتح کو تکنیکی اور ظاہری فتح کی قیمت پر پامال کرنا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
انہوں نے یوکرین کی جنگ کے بعد کھیلوں کی پابندیوں کو کھیلوں میں سیاست کی عدم مداخلت کے بارے میں مستکبروں اور ان کے پیروکاروں کے دعووں کی قلعی کھل جانے سے تعبیر کیا اور کہا: اس معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی مغرب کے مفادات تقاضا کریں گے وہ اپنی سرخ لکیر کو آسانی سے عبور کر لیتے ہیں۔ 
آیت اللہ خامنہ ای نے کھلاڑیوں کو نصیحت کی کہ وہ میدان میں اور اس کے باہر اپنے طرز عمل کا خیال رکھتے ہوئے اپنے اور ملک و قوم کے عزت و وقار کی حفاظت کریں اور مزید فرمایا: ماضی میں ہمارے کھیلوں کا ماحول ہمیشہ خدا، معصوم اماموں اور مذہبی و اخلاقی پہلوؤں کے ذکر سے آراستہ رہا ہے لیکن مغرب والوں نے نئے کھیلوں کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو بھی لانے کی کوشش کی اور نئے کھیلوں کو سیکھتے اور ترقی کرتے ہوئے ہمیں اپنی ثقافت کو فروغ دینا چاہیے اور کھیلوں کو مغربی ثقافت کے نفوز کے لیے پل نہیں بننے دینا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے "مستطیل قرمز" فلم کے پروڈیوسروں کا بھی شکریہ ادا کیا جو کہ مقدس دفاع کے دور میں صوبہ ایلام میں فٹبال کے میدان پر بمباری کے دوران کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے ایک تعداد کی شہادت کے بارے میں بنائی گئی اور تاکید کی: فن پاروں سے حقیقت کا اظہار ایک ضروری کام ہے جو پوری توان کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔

 

700 /