ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

اہل بیت (ع) کی عالمی اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے مدعوین سے خطاب

تقسیم کی واحد حقیقی لکیر عالم اسلام کی عالم کفر و استکبار کے مقابل حد بندی ہے!

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح اہل بیت (ع) کی عالمی اسمبلی کے اراکین اور اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس میں شریک مہمانوں سے ملاقات میں اہل بیت ع کی عظمت اور مقبولیت کو اسلامی دنیا میں منفرد قرار دیا اور تاکید کی: اسلامی جمہوریہ کا نظام نظام تسلط کے خلاف اہل بیت ع کے بلند شده علم کے طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ عالم اسلام میں کوئی حقیقی مذہبی، نسلی، فرقہ وارانہ اور نسلی تقسیم نہیں ہے اور تقسیم کی واحد نمایاں اور حقیقی لکیر عالم اسلام کی کفر و استکبار کے عالمی محاذ کے مقابل حد بندی ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اہل بیت ع عالمی اسمبلی کو عالم اسلام میں اہل بیت ع کی عظمت اور مقبولیت سے استفادہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے مزید فرمایا: اسمبلی کو تمام مسلمانوں اور اہل بیت ع کی تعلیمات سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے محور اور الہام کا مرکز ہونا چاہیے اور یہ اس طرح عمل کرے کہ اہل بیت ع کی زینت بن سکے۔

رہبر معظم انقلاب نے اہل بیت ع کی تعلیمات کو انسانوں اور انسانی معاشروں کی تمام مختلف ضروریات کیلئے ایک مکمل مجموعہ قرار دیا اور فرمایا: آج اسلامی معاشروں کو اہل بیت ع کی تعلیم کے تمام پہلوؤں کی شدید ضرورت ہے اور عالمی اسمبلی کو درست اور دقیق منصوبہ بندی اور معقول طریقوں اور موثر وسائل کے استعمال کے ساتھ اس بھاری ذمہ داری کو ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے استکباری نظام کے سامنے اسلامی جمہوریہ نظام کے بلند ہونے والے پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: اہل بیت ع کے پیروکار اور دنیا بھر کے شیعوں کو اس بات پر فخر ہے کہ اسلامی نظام نے اپنے سینے کو سات سروں والے اژدہے کے مقابلے میں سپر کیا ہے۔ آمرانہ نظام، اور متکبروں کے اپنے اعتراف کے مطابق، اس نے ان کے بہت سے منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے ثابت قدم ضابطہ کو اہل بیت ع سے الہام قرار دیا اور فرمایا: ان چمکتے ستاروں نے اپنے علم اور عملی اسلوب سے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کس طرح قرآن پر فکر و عمل کے ساتھ اسلام کے راستے کی پیروی کرنی چاہیے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو عدل و انصاف اور روحانیت کا پرچم قرار دیا اور فرمایا: یہ ظاہر اور فطری عمل ہے کہ تسلط کی دنیا جس کے تمام عقائد اور اعمال مادی، پیسے اور طاقت پر منحصر ہیں، اس پرچم کے خلاف دشمنی اور عناد سے کام لے گی۔

انہوں نے امریکہ کو استکبار کے محاذ کا سرغنہ قرار دیا اور مزید کہا: امام خمینی رح نے قرآن سے متاثر ہو کر ہر ایک کو اسلامی معاشروں میں موجود غیر حقیقی تقسیم کی لکیروں کو ایک طرف رکھنے اور صرف ایک تقسیم کی لکیر کو قبول کرنے کا درس دیا جو کہ اسلام کی کفر اور استکبار کے ساتھ حد بندی ہے۔ 

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: اسی گہرے عقیدے کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت کو اسلامی انقلاب کے ایجنڈے میں اول ہی سے رکھا گیا تھا اور امام خمینی رح اپنی پوری قوت کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے ساتھ کھڑے رہے اور اسلامی جمہوریہ آج بھی عظیم الشان امام خمینی رح کے اسی سیاسی تفکر پر مبنی عمل کرتا ہے اور مستقبل میں بھی اس کے ساتھ وفادار رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے لئے پوری اسلامی دنیا کی اقوام میں جو منفرد ہمدردی پائی جاتی ہے، اس کی وجہ ایرانی عوام کی امام خمینی رح کی فکر پر عمل پیرا ہونا ہے، جو عالم اسلام میں مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسلی خطوط کی نفی ہے۔ آپ نے مزید کہا: اس بنیاد پر، ہم ہمیشہ تمام اسلامی ممالک سے "شیعہ اور سنی"، "عرب اور غیر عرب" اور دیگر تفرقہ انگیز خطوط جیسے مسائل کو نظر انداز کرنے اور بنیادی ماخذ اور اصولوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دیگر اقوام کو زور زبردستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دینے کو نظام تسلط کے غصے اور ان کی دشمنی کا سبب قرار دیا اور فرمایا: مختلف ممالک میں امریکہ کے مجرمانہ منصوبوں کو بے اثر کرنا، جس کی ایک مثال داعش تھی، ایرانو فوبیا اور شیعہ فوبیا پروپیگنڈہ، اور ایران پر دوسرے ممالک میں مداخلت کا الزام لگنے کا باعث بنی۔

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کرتا، مستکبروں کے الزامات کو اسلامی نظام کی نمایاں پیشرفت کو روکنے میں ناکامی کی وجہ قرار دیا اور مزید کہا: یقیناً سب کو استکباری پالیسیوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور اس کے ساتھ نہیں دنا چاہیے۔ 

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم اسلام میں اختلافات اور غیر حقیقی تقسیم کی لکیروں کو گہرا کرنے کی موجودہ استکباری پالیسی پر روشنی ڈالی اور فرمایا: شیعہ اور سنی، عرب اور غیر عرب، شیعہ کے خلاف شیعہ اور سنی کے خلاف سنی کو جنگ کے لیے اکسانا اور منصوبہ بندی کرنا جو اب کچھ ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے، بڑے شیطان امریکہ کی پالیسی ہے جس کے خلاف ہوشیار رہنا چاہیے۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اہل بیت ع کے پیروکاروں کو یکجہتی اور ہم آہنگی کا علمبردار ہونا چاہیے، مزید کہا: جیسا کہ ہم نے پہلے دن سے کہا ہے کہ اہل بیت ع کی عالمی مجلس کی تشکیل کا مطلب غیروں کے ساتھ تصادم اور دشمنی نہیں ہے اور شروع سے ہی ہم نے راہ راست پر چلنے والے غیر شیعہ بھائیوں کا ساتھ دیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کہ "کیا عالم اسلام میں دشمنوں کی سازشوں سے نمٹنے کی صلاحیت ہے" کے جواب میں فرمایا: اسلامی دنیا کی سافٹ ویئر اور ہارڈویئر صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے استکبار کو روکنے اور اسے پیچھے دھکیلنے کی صلاحیت ضرور موجود ہے۔ 
انہوں نے "اسلامی حقائق اور تعلیمات، خدا پر توکل، تاریخ پر ایک امید افزا نظر، مسئلہ مہدیت" کو اسلامی دنیا کی سافٹ وئیر صلاحیتوں میں سے شمار کیا  اور مغرب اور لبرل جمہوریت کے نظام کی فکری مردہ حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: بلاشبہ ہارڈویئر کے میدان میں استعمار کے ذریعے مستکبرین نے عالم اسلام کے وسائل سے استفادہ کرکے اور ہر طرح کے حربے استعمال کر کے اپنے آپ کو مضبوط کر لیا ہے لیکن ترقی کے لیے عالم اسلام کے قدرتی وسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسکی ایک مثال، یعنی تیل اور گیس کی اہمیت آج سب کے سامنے زیادہ واضح ہو گئی ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر عقیدہ رکھتے ہوئے کہ صلاحیتوں کی نشوونما کا دارومدار پختہ عزم، دشمن شناسی، امام خمینی رح کی طرح کی قیادت اور بے عملی کو ترک کرنے پر ہے اور فرمایا: آج اسلامی جمہوریہ ایک نمونہ اور زندہ حقیقت کے طور پر اس قابل ہو چکا ہے کہ ہر قسم کی دشمنیوں اور سازشوں کے سامنے مضبوطی کا مظاہرہ کرے، اور نئے اگے ہوئے پودے کو پرانے درخت میں تبدیل کردے۔ بلاشبہ نمونہ عمل ہونے کا مطلب سیاسی ڈھانچے کی تقلید نہیں ہے بلکہ امام خمینی رح کے اصولوں اور بنیادوں کی پیروی کرنا ہے۔
آخر میں انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا: عالم اسلام کا مستقبل روشن ہے اور ملت تشیع اس میں عظیم کردار ادا کر سکتی ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں اہل بیت(ع) کی عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل حجۃ الاسلام والمسلمین رمضانی نے اس مجلس کی جنرل اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے بارے میں رپورٹ پیش کی جو کہ 117 ممالک کی شخصیات کی موجودگی میں اور "اہل بیت(ع)، عقلیت، انصاف اور وقار کا محور" کے عنوان کے تحت منعقد ہوئی۔

700 /