ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

عید مبعث کے موقع پر ملک کے عہدیداروں، اسلامی ممالک کے نمائندوں اور سفیروں سے ملاقات

فلسطین کے لیے ایران کی غیر متزلزل حمایت ایران مخالف پروپیگنڈے کی جڑ ہے

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح عید مبعث کے موقع پر مملکت کے عہدیداروں، اسلامی ممالک کے نمائندوں اور سفیروں اور بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کے مہمانوں اور اس میں شرکت کرنے والوں سے ملاقات میں رسول اللہ ص کے عظیم اور انمول خزانوں سے استفادے کو امت اسلامیہ کے تمام مسائل کا حل اور دنیا اور آخرت کی سعادت تک پہنچنے کا راستہ قرار دیا اور مزید کہا: اگر اسلامی ممالک پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے تو غاصب صیہونی حکومت ملت اسلامیہ کی آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف مظالم اور جرائم کا ارتکاب کرنے کے قابل نہ ہوتی۔ اور ایران اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو اسی طرح ادا کرتا رہے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملت ایران اور دنیا کے مسلمانوں کو اس بابرکت عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے روز مبعث کو انسانیت کے لیے خدا کا سب سے بڑا اور قیمتی تحفہ اور نعمت قرار دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے خزانوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: توحید اور غلامی سے آزادی، بعثت کا سب سے بڑا خزانہ ہے، کیونکہ تاریخ میں ہر جنگ، جرم اور فساد خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سے پیدا ہوا ہے۔
انسانوں اور انسانی معاشروں کو کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے آزاد کرنے کے لیے ایک دوا کے طور سے "تزکیہ"، "تعلیم" یعنی انفرادی اور سماجی زندگی کو خدائی رہنمائی اور احکامات کے تحت منضبط کرنا، اور "حکمت" یعنی انسانی زندگی کو عقل، تدبیر اور حکمت کے ساتھ منظم کرنا۔ یہ پیغمبر کے مبعث کے وہ خزانے تھے جن کی قائد انقلاب اسلامی نے وضاحت فرمائی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے پیغمبر اکرم ص کے مشن کے خزانوں کو بیان کرنے کے لیے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے "استقامت" کو کسی بھی مقصد کے حصول کی کلید اور نسخہ قرار دیا اور مزید فرمایا: "عدل و انصاف کی برقراری" بھی دیگر الہی منفرد تحفوں میں سے ایک ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے بعثت کی برکت سے بنی نوع انسان کو عطا کئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے "اشداءُ علی الکفّارِ رحماءُ بینَهم" کی عظیم آیت کا حوالہ دیتے ہوئے مزید فرمایا: "اشداءُ کا مطلب دشمنوں کے سامنے ثابت قدم اور ناقابل تسخیر ہونا ہے، جس پر بدقسمتی سے غور نہیں کیا جاتا، البتہ منظم اور دانشمندانہ حکمت عملی کے ساتھ دوسرے معاشروں کے ساتھ رابطہ اچھی بات ہے ، لیکن اثر و رسوخ اگر قائم ہو تو، انسان اور معاشرہ عملی طور پر غیر ملکیوں کے زیر کنٹرول اور انتظام آجاتا ہے۔
انہوں نے معاشرہ کے افراد کے درمیان پیار، پاکیزگی اور اخلاص کو پیغمبر خاتم ص کی طرف سے ایک اور قیمتی تحفہ قرار دیا اور مزید کہا: دنیا کے طاغوتوں سے دوری و اجتناب اور جہالت، تعصب، جمود اور اندھیروں کی زنجیروں سے چھٹکارا حاصل کرنا اسلام اور بعثت کے ہزاروں قیمتی خزانوں میں سے ہے ۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بعثت کے خزانوں کو نہ پہچاننے، ان کے کفران اور عمل کے بجائے زبانی اقرار پر مطمئن رہنے کو اس عظیم نعمت کے مقابل انسانی معاشروں کے طرز عمل میں شمار کیا اور فرمایا: تفرقہ، پسماندگی اور بہت سی دوسری عملی اور علمی کمزوریاں بعثت کے ساتھ اس طرح کے برتاو کا نتیجہ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیسری اور چوتھی ہجری صدی میں انسانی معاشرے کی عظیم ترین تہذیب کی تخلیق کو قرآن کی تعلیمات کے جزوی نفاذ کا نتیجہ قرار دیا اور مزید فرمایا: آج بھی اگر مبعث اور قرآن کی منفرد نعمت سے استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کی کمزوریاں دور ہوجائیں گی اور خوشحالی اور ترقی کا زمینہ آمادہ ہوگا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کو امت اسلامیہ کی اہم کمزوریوں اور زخموں میں شمار کیا اور فرمایا: ایک قوم اور ایک ملک عالم اسلام کی آنکھوں کے سامنے نہ ختم ہونے والے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہی ہے اور ہر روز اس شریر حکومت کی وحشیانہ شر انگیزی کا شکار ہے۔ اور اسلامی ممالک اس تمام تر دولت، صلاحیت اور قابلیت کے باوجود صرف دیکھ رہے ہیں اور ان میں سے بعض ممالک خصوصاً حال ہی میں اس خونخوار حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے ایسے ممالک کی کمزوری کو جرائم کے مقابلے میں خاموشی اور صیہونیوں کے ساتھ تعاون کے نتائج میں سے ایک نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: حالات اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ، فرانس اور کئی دوسرے ممالک مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے خود کو عالم اسلام میں مداخلت کا حق دے چکے ہیں جبکہ وہ خود اپنے مسائل حل کرنے سے بے بس اور اپنے ممالک کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے تاکید کی: اگر اسلامی حکومتیں نجف کے عظیم علماء سمیت اپنے خیر خواہوں کی باتوں پر کان دھرتی اور غاصب حکومت کے مقابلے میں ڈٹ جاتیں تو آج مغربی ایشیا کے خطے کی صورتحال مختلف ہوتی اور امت اسلامیہ پہلے سے زیادہ متحد اور کئی لحاظ سے مضبوط ہوتی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے واضح اور شفاف موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کسی کا خیال کئے بغیر فلسطینی قوم کی کھل کر حمایت اور دفاع کرتے ہوئے ان کی ہر طرح سے مدد کرتا رہے گا۔ 
انہوں نے دشمنوں کی ایران مخالف پروپیگنڈے پر توجہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: بدقسمتی سے وہ حکومتیں جو فلسطینی قوم کی مدد کرنے کی ذمہ دار ہیں خود دشمنان اسلام کے ایران مخالف پروپیگنڈے پر دشمن کی ہمنوا ہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے بعثت کی تعلیمات کی طرف پلٹنا، مسلم قوموں کے اتحاد و یکجہتی اور اسلامی ریاستوں کے حقیقی نہ کہ رسمی تعاون کو امت اسلامیہ کے تمام مسائل کا حل قرار دیا اور اس کے آخر میں انہوں نے اپنے خطاب میں ترکی اور شام کے حالیہ بڑے زلزلے پر افسوس اور غم کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: سیاسی مسائل جیسے فلسطین اور امریکہ کی مداخلت کو ہر حال میں امت مسلمہ کی نظروں کے سامنے رہنا چاہیے۔ 
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت نے یہ بیان کیا کہ مبعث رسول ص کا ہدف قرآنی انسان اور اجتماع کی تعمیر ہے اور فرمایا: اسلامی انقلاب کے بعد اسلام کے اوائل کی طرح دشمنوں نے ہماری قوم کے خلاف فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تبلیغی جنگ کا آغاز کیا مگر اسکے باوجود ایران کے عوام نے مثالی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلط پسندوں ی ہر قسم کی سازشوں کو ناکام بنایا۔
22 بہمن مارچ میں لوگوں کے حالیہ بڑے کارنامے کو سراہتے ہوئے، جناب رئیسی نے اسے ملکی معاملات سے جڑے تمام لوگوں کے لیے دوہری ذمہ داری سمجھا اور زور دیا: "عوام کی شراکت سے کسے بھی مسئلے کا حل ناممکن نہیں اور ہم ملک کی قیادت اور معزز عوام سے عہد کرتے ہیں کہ مہنگائی کی موجودہ صورتحال پر بلا شبہ قابو پا لیں گے۔
صدر مملکت نے حالیہ موسم خزاں کے واقعات سمیت ایرانی قوم کے بارے میں دشمنوں کی غلط فہمیوں کی طرف اشارہ کیا اور واضح کیا: مغربی کیمپ کل تک کسی معاہدے پر اتفاق کرنے کا دعویٰ کررہا تھا لیکن جب وہ ایرانی عوام کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے تو وہ وہاں سے چلے گئے اور ملک میں ہنگاموں کا آغاز کیا اور کہا کہ وہ گلی کوچوں میں کام جاری رکھیں گے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی فورمز پر اپنی باوقار اور تعمیری موجودگی سے قوم کے مفادات کو پورا کرے گا۔

700 /