ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

نئے شمسی سال کی مناسبت سے امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس میں زائرین سے خطاب

حقیقی تبدیلی سے مراد، کمزور پہلووں کو نمایاں اور درخشاں پہلووں میں تبدیل کرنا ہے

نئے ایرانی سال کے پہلے دن رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس کے زائرین اور مجاورین کے ایک بڑے اجتماع میں تبدیلی کو "مضبوط نکات کو تقویت دینے اور کمزوروں اور نقائص کو ختم کرنے" کے معنی میں ملک کی بنیادی ضرورت قرار دیا اور دشمنوں کے مکمل طور پر تبدیلی مخالف اہداف اور سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ہمیں محکم قوت ارادی، امید و ہوشیاری اور قومی خود اعتمادی پر بھروسہ کرتے ہوئے مضبوط ارادے کے ساتھ تبدیلی کے پیچیدہ اور مشکل کام کا آغاز کرنا چاہیے اور کمزور نکات کو، خاص طور پر اقتصادی، کو نمایاں اور روشن نکات میں تبدیل کرنا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے سال کی آمد کے موقع پر ایرانی قوم میں مقبول دعا کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: کسی بھی تبدیلی کے لیے خداوند متعال سے تقاضا کرتے ہوئے جدوجہد، کوشش اور ثابت قدم رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے بنیادی مسائل کے بارے میں رائے عامہ کی اگاہی کو فکر و حکمت کے حامل نوجوانوں کے متحرک ہونے کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا: ضروری ہے کہ تبدیلی کے مسئلے کو دیگر اہم مسائل کی طرح عوام کے ساتھ اٹھایا جائے کیونکہ اگر رائے عامہ کسی فکر اور خیال کو قبول نہ کرے تو اس سوچ پر عمل نہیں ہو سکے گا اور رفتہ رفتہ وہ مسئلہ بھلا دیا جائے گا۔
تبدیلی کے حقیقی تصور کا اس تصور سے جس کو دشمن تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں، فرق بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا: دشمنوں کا تبدیلی سے مقصد،  تبدیلی مخالف مطالبات ہیں اور وہ نظام کے اہداف کے بالکل برعکس ہیں، جن کی بد قسمتی سے اندر سے کچھ لوگ پیروی کرتے ہیں یا نقل کرتے ہیں، یا کسی دوسرے محرکات کے تحت، مختلف تعبیرات کے ساتھ وہی بات دہرائیں، جن میں آئین یا نظام کی ساخت کو تبدیل کرنا شامل ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ " ڈھانچے کی تبدیلی"، "تبدیلی"، "انقلاب" یا اس جیسے الفاظ سے دشمنوں کا اصل ہدف اسلامی جمہوریہ کے تشخص کو بدلنا ہے اور مزید کہا: دشمنوں کا ہدف اسلامی جمہوریہ، ملک اور نظام کے مضبوط پہلووں کو ختم کرنا ہے اور ان مسائل کو بھلانا کرنا ہے جو عوام کو اور ہمیں انقلاب اور خالص اور انقلابی اسلام کی یاد دلاتا ہے جس میں امام خمینی رح کے نام کا تکرار، ان کی تعلیمات کا فروغ، ولایت فقیہ کے اختیارات، 22 ​​بہمن اور انتخابات میں عوام کی پرجوش شرکت کا مسئلہ شامل ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوری نظام کی انفرادی اور فرمانبردار حکومت میں تبدیلی کو یا ایک ایسی حکومت جو جمہوریت کا روپ دھارے لیکن عملی طور پر مغرب کے احکامات کو سنے، استکبار کے بظاہر تبدیلی کی باتوں کا حتمی ہدف قرار دیتے ہوئے کہا: وہ اپنے ہر کام سے ایران پر سیاسی اور اقتصادی تسلط چاہتے ہیں تاکہ ملک کو لوٹ سکیں۔

اس فرق کے بیان کے بعد انہوں نے ملک کے مضبوط اور کمزور نکات کی شناخت کو تبدیلی کے لیے لازمی شرط قرار دیا اور کہا: تبدیلی کے مشکل راستے پر گامزن ہونے کے لیے قومی خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کو خود اعتمادی کا حامل قرار دیا اور قوم کی خود اعتمادی، استقلال اور جرأت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تبدیلی کی راہ میں دوسرا سب سے اہم عنصر بیداری ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے غفلت اور عدم ہوشیاری کو مضبوط پہلووں پر ممکنہ دھچکے کا سبب قرار دیا اور فرمایا: بعض ہمدرد اور نظام اور انقلاب سے لگاو رکھنے والے بعض اوقات ایک اچھی اور اصلاحی اقدام کے لیے نظام کی مضبوط پہلووں سے لاپرواہی اختیار کرکے نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسی غفلت سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مضبوط پہلووں کا تحفظ کرنے کیلئے ان کی شناخت کو ضروری قرار دیا اور ایرانی قوم کی بعض مضبوط نکات کا ذکر کرتے ہوئے نوجوانوں سے کہا کہ وہ ایسے مسائل کے بارے میں سوچ و بچار کریں اور ہمفکری پیدا کریں۔
انہوں نے ملت ایران کے مضبوط اور ٹھوس داخلی بنیاد کو ملک کی واضح مضبوط پہلوؤں میں سے ایک قرار دیا اور کہا: یہ داخلی طاقت اور استحکام عوام کے ایمان کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ لوگ بھی جو بعض دینی احکام پر پوری طرح عمل نہیں کرتے خدا، قرآن اور ائمہ پر ایمان رکھتے ہیں۔
انہوں نے ملت ایران کی اندرونی طاقت کی واضح علامات کو بیان کرتے ہوئے "دنیا کے استکباری طاقتوں کی کئی دہائیوں پر محیط پے در پے دشمنیوں کے تسلسل پر قوم کی فتح" کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: کون سا ملک اور انقلاب کئی سالوں سے طاقتور ترین ممالک کی پے در پے ضربوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا ہے اور اپنے گھٹنوں کو نہیں ٹیکا ہے؟
آیت اللہ خامنہ ای نے "بغاوت، پابندیاں، سیاسی دباؤ، میڈیا کے بے مثال پروپیگنڈے، سیکورٹی کی سازشوں اور بے مثال اقتصادی پابندیوں" کو دشمنوں کی مسلسل سازشوں کے مختلف پہلو قرار دیا اور مزید فرمایا: ان دشمنیوں کے حالیہ دور میں، امریکہ کے صدر اور بعض یورپی ممالک کے صدور نے گزشتہ سال شروع ہونے والے مختصر سطح پر فسادات کی کھل کر حمایت کی ان کی ہر قسم کے ہتھیاروں، سیاسی، مالی، سیکورٹی اور میڈیا کی مدد سے اسلامی جمہوریہ کو ہر ممکن کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن میدان میں اس کے بالکل برعکس ہوا اور اسلامی جمہوریہ نے اس عالمی سازش پر فتح حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ وہ مضبوط اور مستحکم ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 22 بہمن 1401 کے شاندار قومی جشن کو نظام کی مضبوط داخلی بنیاد کا مظہر قرار دیا، جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ پرجوش اور پرہجوم تھا، اور فرمایا: مختلف میدانوں میں قوم کی عظیم پیشرفت اس طاقت اندرونی دوسری نشانیاں ہیں۔ انہوں نے سخت ترین دباؤ اور اقتصادی ناکہ بندی کے دور میں پیشرفت کو  قوم کی شاندار کارکردگی قرار دیا اور کہا: امریکیوں نے اپنے تمام جھوٹے پن کے ساتھ اعتراف کیا کہ ایرانی قوم پر ان کے اقتصادی دباؤ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
آیت اللہ خامنہ ای، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت اور صحت، ایرو اسپیس، ایٹمی، دفاع، انفراسٹرکچر، طبی اور صحت کے مراکز، ریفائنریز اور دیگر شعبوں میں ترقی نینو اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں دنیا کے سرفہرست ممالک میں موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : خارجہ تعلقات کے میدان میں بھی دشمنوں کی ایران کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو سو فیصد مضبوط کرتے ہوئے دوسرے اہم ممالک کے ساتھ سیاسی، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی تعلقات کو وسعت دیتا رہے گا۔ 
انہوں نے مزید کہا: بعض اہم علاقائی معاہدوں میں شمولیت اور افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا خارجہ تعلقات کے میدان میں دیگر اہم پیشرفت ہیں، اس کے علاوہ ہم یورپیوں سے ناراض نہیں ہیں اور اگر وہ امریکہ کی بات ماننا چھوڑ دیں تو ہم ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایمان، قومی فخر کے احساس اور اندرونی طاقت پر انحصار کو ایرانی قوم کی ترقی کے عوامل اور زمینے کے طور پر شمار کیا اور فرمایا: نظام کی دیگر مضبوط پہلوؤں کو بشمول جمہوریت اور اسلامیت کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کے مضبوط پہلووں کو بیان کرنے کے بعد کمزوریوں اور اصلاح کی ضرورت کو بیان کیا اور فرمایا: تمام کمزوریوں میں سرفہرست معیشت اور اقتصادی پالیسیوں کا مسئلہ ہے، جن میں سے اکثر ان لوگوں کی میراث ہیں جو انقلاب سے پہلے برسرکار تھے اور کچھ کا تعلق انقلاب کے بعد کے دور سے ہے۔
انہوں نے ملکی معیشت کا سب سے اہم مسئلہ اور کمزور نکتہ معیشت کی ریاستی نوعیت اور 60 کی دہائی کی اقتصادی پالیسیوں سے وجود میں آنے والی نیشنلائزیشن کی زیادتی کو سمجھا اور مزید کہا: اس زیادتی کا نتیجہ بڑے پیمانے پر لوگوں کا سرمایہ پیدا کرنے والی معاشی سرگرمیاں سے کنارہ کشی ہے اور ایسے مسائل کا ابھرنا جو ہم آج ملک میں دیکھ رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مادہ 44 کی عمومی پالیسیوں کے اعلان کا مقصد اقتصادی سرگرمیوں کو عوام کے سپرد کرنا قرار دیا اور فرمایا: معیشت اور پیداوار کے اہم حصے عوام کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں اور جیسا کہ ہم نے کئی بار دہرایا ہے، ریاستی اور نیم ریاستی اداروں اور کمپنیوں کو،  نجی کمپنیوں سے مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: میں واضح طور پر اعلان کرتا ہوں کہ ایرانی قوم مضبوط ہے اور ترقی کر رہی ہے اور اپنی خامیوں کو دور کرنے اور تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے مزاحمتی محاذ کے لیے نظام کی مسلسل حمایت پر تاکید کرتے ہوئے یوکرائن جنگ میں ایران کی شرکت کے جھوٹے دعوے کو رد کیا اور کہا: ہم یوکرائنی جنگ میں شرکت کو دوٹوک اور واضح طور پر مسترد کرتے ہیں اور ایسی بات قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ یوکرین میں جنگ امریکہ نے نیٹو کو مشرق تک وسعت دینے کے لیے شروع کی تھی اور اب جبکہ یوکرین کے لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور مسائل کا شکار ہیں، امریکہ اور اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں اس جنگ سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور اس کی وجہ سے وہ جنگ کے خاتمے کے لیے ضروری امور میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملکی معیشت کے بنیادی نقائص کو بیان کرنے کے بعد جن کو تبدیلی کے پروگراموں کے ذریعے حل کیا جانا ضروری ہے، عوام کے بعض کمزور نکات کی طرف بھی اشارہ کیا اور فرمایا: پانی، بجلی، گیس، روٹی اور پٹرول کا بے جا استعمال۔ پرتعیش طرز زندگی، جو بعض اوقات عیش و عشرت کے مقابلے میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور شادی بیاہ کے اخراجات سمیت اخراجات میں اضافے کا سبب بنتی ہے، "ملکی پیداوار پر حساسیت کا نہ ہونا، جو بعض اوقات غیر ملکی مصنوعات سے بہتر معیار کی ہوتی ہے، لیکن اس کا استعمال نہ کرنا ایرانی کارکنوں کی بے روزگاری کا سبب بنتا ہے۔ " اور "چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظرانداز نہ کرنا، بشمول سیاسی مسائل میں، اور انہیں معاشرے میں تقسیم کا باعث بنا دینا" ان خرابیوں اور عیبوں میں سے ہیں جن کو عوامی طرزعمل  میں درست اور ٹھیک کیا جانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اہم نصیحت میں میڈیا کے عناصر اور ان تمام لوگوں کو جو عوام سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، خواہ ورچوئل اسپیس میں ہوں، پریس میں ہوں یا ریڈیو میں، امید افزائی پر تاکید کی اور فرمایا: دشمن کی جانب نوجوانوں کو مایوس کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف ہمیں بے شمار امید افزا امور کے ذریعے ملک میں امید پیدا کرنی چاہیے۔ سب کو اس کام کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
انہوں نے امید افزائی کا مطلب کمزوریوں کو چھپانا اور خود فریبی نہیں جانا اور مزید کہا: کمزوریوں کا اظہار بھی ہونا چاہیے لیکن ان کے ساتھ ساتھ امید افزا نکات اور ایک روشن مستقبل اور افق بھی دکھانا چاہیے اور اسے سب کی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے خطے میں امریکیوں کی کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: خطے میں نظام کا راستہ اور پالیسی واضح ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں لیکن امریکی پریشان اور بے بس ہیں کیونکہ اگر وہ خطے میں رہے تو افغانستان کی طرح بڑھتی ہوئی نفرت کے ساتھ قوموں کا سامنا کرنا پڑے گا اور خطہ چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے گا اور اگر وہ وہاں سے نکل جاتے ہیں تو اپنے عزائم کھو بیٹھتے ہیں اور یہ کشمکش ان کی واضح کمزوری کی علامت ہے۔

700 /