ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

یوم مزدور پر محنت کش طبقے، مزدور تنظیموں اور وزارت سماجی بہبود کے حکام سے ملاقات

کام، معاشرے کی حیات کا باعث ہے/ محنت کش کی قدر و قیمت معاشرے کی حیات کے مساوی ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح ایک ہزار سے زائد مزدوروں، مزدور تنظیموں کے ارکان اور وزارت تعاون، محنت اور سماجی بہبود کے عہدیداروں سے ملاقات میں محنت کشوں، مزدور برادری کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت پر تاکید کی۔ 
انھوں نے محنت کشوں کے دشمنوں کی اشتعال انگیزی کے مقابلے میں ہوشمندانہ ردعمل کی تعریف کی اور "کام اور محنت کے ساتھ آمدنی اور سرمایے کے درمیان براہ راست تعلق" کے حوالے سے ماحول سازی کو ملک اور معاشرے کی حقیقی ضرورت قرار دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے یہ بیان کیا کہ محنت کشوں کے ساتھ سالانہ نشست کا مقصد معاشرے میں محنت کش کی قدر و منزلت کو اجاگر کرنا ہے اور مزید فرمایا: "کام" دراصل معاشرے کی زندگی ہے کیونکہ اس میں کام کرنے والوں، عوام اور ملک کی زندگی کی تمام ضروریات اور تقاضے پورے ہوتے ہیں، لیکن اگر محنت کش نہ ہوں تو کام، اس کے نتائج اور ملک کی ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں، اس لیے محنت کش کی قدر و قیمت معاشرے کی زندگی اور لوگوں کی زندگی کی قیمت کے برابر ہے۔
انہوں نے کام اور کارکن کی اہمیت کے ادراک کو حقیقی اور مفید کام پیدا کرنے کی کوشش کی وجہ قرار دیا اور کہا: کام کی ملک اور معاشرے کو اہم ضرورت، زندگی کو چلانے کے لیے کام کی ضرورت، کام کے لیے انسان کی روحانی ضرورت اور برائی سے مقابلے اور مختلف قسم کی بدعنوانی روکنے میں کام کا مکمل طور پر نمایاں اثر کا رونما ہونا حقیقی کام اور روزگار پیدا کرنے کے لیے منصوبہ بندی، سرمایہ کاری اور اقدامات کی بے انتہا اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے آمدنی اور کام کے درمیان براہ راست تعلق اور اس میدان میں ماحول سازی کی ضرورت کو بیان کیا اور فرمایا: اسلام کے نقطہ نظر سے آمدنی محنت اور کوشش سے حاصل ہونی چاہیے۔ پس دلالی، سودے بازی، سٹے بازی، رشوت خوری، سود خوری اور کسی خاص شخص سے تعلق کی وجہ سے مال و دولت کا حصول،  قرآنی منطق اور حکم خداوندی کے خلاف ہے۔
انہوں نے معاشرے میں مترفین اور دولت، بدعنوانی اور غرور میں ڈوب جانے والے افراد کے وجود کو آمدنی اور کام اور کوششوں کے درمیان رابطہ منقطع ہونے کا نتیجہ قرار دیا اور مزید کہا: اس میدان میں ماحول سازی بہت مشکل اور طویل مدتی کام ہے لیکن بہت ضروری ہے اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہد میں ہر قدم اس ماحول کی تشکیل کیلئے ایک قدم ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے بدعنوانی کے سات سروں والے اژدہے کے خلاف ہمہ جہت جنگ کی ضرورت کے بارے میں 20 سال قبل اپنے فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر حکومتیں اور حکام اس وقت سے اقدامات کرتے تو آج ہم بہتر حالات میں ہوتے۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اور پارلیمنٹ اس جنگ کو سنجیدگی سے آگے بڑھائیں گے۔
انہوں نے اندرونی بدعنوانوں کے خلاف لڑنے کی جرات نہ ہونے کو بیرونی دشمن کی غنڈہ گردی کے خلاف مقابلے میں شجاعت نہ ہونے کی وجہ سمجھا اور مزید کہا: مثال کے طور پر اگر کسی اہلکار میں کاروبار کے غلط استعمال کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہو یا وہ بینک کریڈٹ اور بڑے بینک قرض داروں کا مقابلہ نہیں کرتا، تو وہ امریکہ جیسی غنڈہ گرد حکومت کے مطالبات کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔
قائد انقلاب کی تقریر کا دوسرا حصہ محنت کش طبقے کے تئیں عہدیداروں کے فرائض کے لیے وقف تھا۔

انہوں نے کارکنوں کی لسانی تعریف کو اچھا لیکن ناکافی قرار دیا اور حکام، کاروباری افراد اور سرمایہ کاروں کو تاکید کی: کارکن کی زندگی میں بہتری اور ملازمت کے تحفظ پر اسکا اطمینانِ خاطر اور زندگی کے پہیے کا آسانی سے چلنے پر اسکا بھروسہ، کام اور مصنوعات کے معیار کو بڑھاتا ہے، لہذا ، کارکنوں کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوئی بھی کوشش درحقیقت زیادہ منافع کے لیے سرمایہ کاری  ہوتی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیداوار کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی اور محنت کشوں کو پیداوار کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا اور فرمایا: اس سال کے نعرے کا ایک اہم حصہ یعنی پیداوار میں اضافہ محنت کش طبقے سے متعلق ہے اور محنت کشوں کو اس میدان میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اطمینان خطر اور اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ 
"محنت کشوں کی آمدنی کی عادلانہ تقسیم" ایک اور نکتہ تھا جس پر قائد انقلاب نے زور دیا: مصنوعات کی قدر پیدا کرنے میں محنت کش کا حصہ دوسرے عناصر اور عوامل سے زیادہ ہے، اس لیے مصنوعات کی اضافی قدر پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ محنت کشوں کی تعلیم، مہارتوں میں اضافے اور تجربات کی منتقلی کے شعبے میں انجیدہ منصوبہ بندی کی جائے۔
انہوں نے محنت کش پر توجہ دینے کا مطلب سرمایہ کار کو نظر انداز کرنا اور اس کے خلاف محاذ کھڑا کرنا نہیں جانا اور اشارہ کیا: صنعتکار اور محنت کش، کمیونسٹوں کے برعکس جو جھوٹ سے جنگ اور تصادم کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں، ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور اس سلسلے میں جو چیز منصفانہ روابط کا باعث بنے گی وہ انصاف، ہمدلی، یکجہتی، اور خدا کو حاضر و ناظر جاننا ہے۔
اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب نے مزید فرمایا: یقیناً بعض صورتوں میں سرمایے کا عنصر محنت کشوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے جس کی روک تھام ضروری ہے، جبکہ سرمایہ کاروں اور تاجروں کی ممکنہ محدودیتوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
انہوں نے مزدوروں کی صلاحیتوں میں اضافے کو فریضہ قرار دیا اور اس روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جو "مزدور پر ظلم تمام نیکیوں کی بربادی اور جنت کی خوشبو کے حرام ہونے کا سبب جانتی ہے" کہا: مزدور پر ظلم صرف اجرت نہ دینا نہیں ہے بلکہ انشورنس، صحت، تعلیم، خلاقیت، مہارت افزائی، صحت اور ملازمت کے تحفظ کے شعبوں میں اقدامات نہ اٹھانا بھی مزدوروں پر ظلم ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزدور برادری کے 14000 شہداء کو مزدوروں کے ہاتھوں میں 14000 عزت کا جھنڈے قرار دیا اور انقلاب اور نظام کے ساتھ مزدوروں کی وفاداری کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا: محنت کش برادری کی وفاداری کی سب سے اہم نشانی ان دہائیوں میں ان کا ہوشمندانہ طرز عمل ہے جس کا مطلب دشمن گروہوں کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے جو انقلاب کے آغاز میں کارخانوں کو بند کر کے نظام کو زمین بوس کرنا تھا اور اسی طرح غیر ملکی بدخواہوں کے بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے کے سامنے بھی ہوشیاری سے کھڑا ہونا ہے جو محنت کش طبقے کو نظام کے مقابلے پر لانا چاہتا ہے۔

اسی دوران رہبر معظم انقلاب نے مزدور طبقے میں بعض اعتراضات کو، جن میں تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر یا غلط اور بدعنوان حوالگیوں پر احتجاج بھی شامل ہے،  حق بجانب قرار دیا اور فرمایا: یہ احتجاجات دراصل حکومت اور نظام کی مدد کر رہے ہیں اور انہیں آگاہ کر رہے ہیں، اور ان معاملات میں جب بھی عدلیہ جیسے ذمہ دار ادارے بیچ میں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ حق محنت کشوں کے ساتھ ہے۔
اسی تناظر میں انہوں نے مزید کہا: خوش قسمتی سے تمام احتجاجات میں مزدور طبقے نے دشمنوں کے ساتھ اپنی حد بندی کا اعلان کرتے ہوئے اور نظام کے ساتھ ہمراہی اور دوستی پر زور دیتے ہوئے بدخواہوں کو احتجاج اور اجتماعات کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک اور نکتے کا اظہار کرتے ہوئے تعلیم یافتہ لیکن بے روزگار نوجوانوں یا غیر متعلقہ ملازمتوں کے حامل نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ایسے نوجوانوں کے لیے جو بنیادی طور پر تعلیم اور روزگار کی تلاش میں نہیں ہیں، روزگار پیدا کرنے کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: یہ تمام نوجوان ملک کا سرمایہ ہیں۔ سیاسی، معاشی اور سماجی ماہرین کو چاہیے کہ وہ ان سرمایوں کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کی فکری مدد کریں۔
انہوں نے وزیر محنت کی رپورٹ کو بھی اہم نکات پر مشتمل سمجھا اور اپنی سابقہ ​​ذمہ داریوں میں جناب مرتضوی کے اچھے ریکارڈ اور اعلان کردہ منصوبوں پر عمل درآمد کی ضرورت کا ذکر ہوئے فرمایا: ہر کسی کو اعداد و شمار دینے میں محتاط رہنا چاہئے، خاص طور پر اہم معاملات میں جیسے کہ روزگار، رہائش اور انشورنس، تاکہ کچھ پچھلی حکومتوں کے برعکس، فراہم کردہ تمام اعداد و شمار درست اور خطا اور غفلت کے بغیر ہوں۔
اس میٹنگ کے آغاز میں، کام، محنت اور سماجی بہبود کے وزیر جناب مرتضوی نے اس وزارت کے پروگراموں اور سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی، جس میں روزگار پیدا کرنے، کارکنوں کی تربیت اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے، انکی حمایت کے شعبوں میں توسیع، مدد کے خواہاں افراد کے لیے سپورٹ میں اضافہ، سماجی تحفظ اور انشورنس سپورٹ میں اضافہ جیسے نکات شامل تھے۔

700 /