ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

عدلیہ کے سربراہ، حکام اور کارکنان کے گروہ سے ملاقات

سرگرمیوں کو پرکھنے کا بنیادی معیار عوام تک پہنچنے والا حتمی نتیجہ اور ماحصل ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح عدلیہ کے سربراہ، حکام اور ملازمین کے ایک گروہ سے ملاقات میں اس نظام کے اندر اور باہر عدلیہ کی منفرد اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ میں تبدیلی سے متعلق دستاویز کے مکمل نفاذ، بدعنوانی کے خلاف جنگ، اور عوامی حقوق کی بحالی، شرعی آزادیوں کی فراہمی، اور جرائم کی روک تھام عدلیہ کے اہم فرائض میں شامل ہیں اور مزید کہا: تمام اداروں کی سرگرمیوں کو پرکھنے کا بنیادی معیار حتمی نتیجہ اور ماحصل ہے جو لوگوں تک پہنچتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں جو کہ 7 تیر 1360 کے واقعہ کی برسی اور منافقین کی بمباری میں آیت اللہ بہشتی اور امام خمینی رح کے 72 ساتھیوں کی شہادت کی یاد میں منعقد ہوئی، ڈاکٹر بہشتی کو بلند علمی مقام، بہت محنتی، نظم و ضبط کا پیکر، جدت پسند اور صبر کا واضح مصداق، مخالفین کی تنقید کو حوصلے کے ساتھ سننےوالا اور دکھاوے کے بغیر سادہ انسان بیان فرمایا اور کہا: آج بھی شہید بہشتی کی اخلاقی اور اجتماعی خصوصیات سب کے لیے سبق ہیں.
انہوں نے عدلیہ کے پہلوؤں سے تفصیلی واقفیت کو جناب محسنی کی خوبیوں میں سے ایک قرار دیا اور اس ادارے کو نظام کے اہم ترین ستونوں اور بنیادوں میں سے ایک قرار دیا جس کے مثبت اقدامات سے لوگوں کی زندگیوں پر زبردست اثرات مرتب ہوتے ہیں اور نظام کے اہداف کو آگے بڑھاوا ملتا ہے، اور اس کے ممکنہ منفی اعمال اپنے ہمراہ رکاوٹیں اور اہم دھچکے بھی لاتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے عدلیہ کے ساتھ گزشتہ سال کی ملاقات میں اٹھائے گئے بعض مسائل سے نمٹنے کے سلسلے میں عدالتی نظام کی پیشرفت کو اچھا قرار دیا اور ساتھ ہی فرمایا: بعض شعبوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، اور کسی بھی صورت میں عدلیہ کی سرگرمیوں یا کسی دوسرے ادارے کی کارکردگی کو جانچنے کیلئے اعداد و شمار اور مقدار پر توجہ نہیں دینی چاہیے، بلکہ لوگوں تک پہنچنے والے کام کا نتیجہ اور حتمی ثمرات فیصلے کا معیار اور ذریعہ ہونا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ماہرین اور تجربہ کار افراد کی مثبت رائے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بار پھر عدلیہ میں تبدیلی کی دستاویز کو ایک اہم اور ٹھوس دستاویز قرار دیا اور انقلاب کے بعد عدالتی نظام کے وسیع تجربات کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا: ان قیمتی تجربات سے تبدیلی پیدا کرنے کے لیے، یعنی مثبت پہلوؤں کو اور مضبوط بنانے کے لیے اور منفی نکات صفر سے نزدیک کرنے کیلئے استعمال کیا جانا چاہیے۔

ضروری ڈھانچے کی تبدیلیاں، رجحانات یا بعض منتظمین میں ممکنہ تبدیلیاں، حکومت اور پارلیمنٹ کی مدد سے ضروری بجٹ فراہم کرنا، ضروری قوانین کی منظوری اور دستاویز کی تکمیل اور تجدید وہ اہم نکات تھے جن کا قائد انقلاب نے تبدیلی کی دستاویز کو عملی شکل دینے کے لیے عدالتی نظام کے عہدیداروں سے ذکر کیا۔ 
انہوں نے اداروں کے کام کی ترقی اور پیشرفت کے لیے ہنر مند اور ماہر افراد کے تبادلے اور تربیت کو ضروری قرار دیا جس پر تمام عہدیداروں کو سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
عدالتی نظام کے اندر اور باہر بدعنوانی کے خلاف جنگ ایک اور اہم نکتہ تھا جس پر رہبر انقلاب نے زور دیا: عدلیہ کے ججوں اور ملازمین کی بھاری اکثریت ایسے معزز لوگ ہیں جو واقعی کم آمدنی کے ساتھ مشکل ترین کام کرتے ہیں، لیکن ملک کے کسی بھی نقطے پر ایک چھوٹی اقلیت کا غلط استعمال عدلیہ کا چہرہ مسخ کر دیتی ہے اور اس پورے ادارے کے بارے میں غلط تصورات کا ذریعہ بنتی ہے، اس لیے ادارے کے اندر کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے سنجیدگی سے نمٹا جائے۔
انہوں نے عدالتی نظام کے خلاف متعصب اور بیمار لوگوں کی افواہوں کو حقیقت سے کوسوں دور قرار دیا، لیکن کہا: آپ کو عدلیہ کے اندر بدعنوانی کا خاتمہ کرنا چاہیے، خواہ وہ کتنی ہی کم ہی کیوں نہ ہو۔
آیت اللہ خامنہ ای نے بدعنوانی کے وبائی مرض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اگر اس سے نمٹا نہ جائے تو فرمایا: عدالتی نظام سے باہر بدعنوانی سے نمٹنے کے زمرے میں دیگر حکام اور اداروں کو بھی فعال ہونا چاہیے اور اپنے ماتحت اداروں میں بدعنوانی کی جڑوں سے سنجیدگی سے نمٹنا چاہیے تاکہ معاملہ عدلیہ تک پہنچ ہی نہ پائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اہم نکتے میں غیر منقولہ املاک کے غیر سرکاری لین دین کو بدعنوانی کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا اور تاکید کی: اس طرح کے لین دین کو غیر قانونی قرار دیا جانا چاہئے اور اگر پارلیمنٹ کی منظوری پر گارڈین کونسل کو کچھ اعتراضات بھی ہوں تو اس قانون کی حتمی منظوری ملک اور نظام کے بہترین مفاد میں ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے آئین میں عدلیہ کے فرائض کو بہت اہم قرار دیا جس میں عوامی حقوق کا نفاذ بھی شامل ہے اور فرمایا: ورچوئل اور غیر ورچوئل اسپیس پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور لوگوں کی نفسیاتی سلامتی میں خلل ڈالنا اس کے مصادیق میں سے ایک ہے۔ عوامی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے، جن کی منصوبہ بندی عدلیہ کو کرنی چاہیے اور اس مشکل کام کو بخوبی انجام دینے کے لیے نظم و ضبط اور قوانین فراہم کرنے چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی شرعی آزادیوں کو محفوظ بنانے کو بھی ضروری سمجھا اور فرمایا: آئین کی دویق تشریح کی بنیاد پر شریعت کی طرف سے دی گئی تمام آزادیوں کو عوام کو فراہم کیا جانا چاہیے اور حکومتی ادارے عموماً ان آزادیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور عدلیہ کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔
انہوں نے جرائم کی روک تھام کے قانونی فریضے کو پورا کرنے کے لیے عدالتی نظام کے لیے ایک سوچے سمجھے میکانزم کی منصوبہ بندی اور تشکیل کو ضروری قرار دیا اور کہا: ایسے اہم کاموں کو محض انفرادی، ووتی اور حکومتی اقدامات اور منصوبہ بندی سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ 
"مراجعین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ضرورت" ایک اور نکتہ تھا جس پر قائد انقلاب نے زور دیا تھا: جو شخص عدلیہ میں جاتا ہے، اگر اس کو ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ٹوٹے دل سے باہر آجاتا ہے، چاہے اس کا مقدمہ بعد میں حل کر بھی دیا جائے، اس لیے لوگوں سے اچھا برتاو کرنے کا فریضہ پورا کیا جائے، صبر و تحمل کے ساتھ۔
آخر میں آیت اللہ خامنہ ای نے عدلیہ کی میڈیا پر چہرے کو مناسب نہیں سمجھا اور فرمایا: میڈیا اور اشتہارات میں اس شاخ میں ہونے والے بہت سے کاموں کو دکھانے اور بتانے کے لیے صحیح طریقے استعمال نہیں ہوتے ہیں اور ریڈیو اور میڈیا ادارے اس کمزوری کا ایک پہلو ہیں لیکن دوسرا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے۔
انہوں نے عدلیہ کے سربراہ کی مختلف گروہوں کے ساتھ ملاقاتوں کو بہت اہم قرار دیا اور مزید کہا: وکلاء، سیاسی و اقتصادی ماہرین، طلباء اور فکر و نظر رکھنے والے نوجوان، پروفیسرز، علماء اور پیشہ ور افراد سے ملاقاتیں عدلیہ کے سامنے نئے افق کو وسعت دینے کا باعث بنیں گی۔ میڈیا میں ان موضوعات کی صحیح عکاسی ہونی چاہیے۔
اس ملاقات کے آغاز میں عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین محسنی اژه‌ای نے اس شاخ کی مختلف سرگرمیوں اور اقدامات کے بارے میں ایک رپورٹ میں دیگر شاخوں کے ساتھ ساتھ ممتاز صلاحیتوں کے حامل افراد کے ساتھ تعامل اور تعاون اور مختلف طبقوں کے لوگوں سے رابطے کو بے مثال کو قرار دیا اور فرمایا: ان ملاقاتوں کا نتیجہ ترجیحات کی نشاندہی اور تعین اور مسائل کے حل کے لیے متفقہ حل کو اپنانا ہے۔
جناب محسنی اژه‌ای نے مصنوعی ذہانت اور نئی ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو عدلیہ کی ترجیحات میں شمار کیا اور مزید کہا: اس کام نے بدعنوانی کی روک تھام، مسائل کی نشاندہی، عمل کو مختصر کرنے اور اخراجات کو کم کرنے میں بہت اچھا اثر ڈالا ہے۔

700 /