رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح حج کے منتظمین اور زائرین بیت اللہ الحرام کے ایک گروہ سے ملاقات میں، پروردگار کی طرف سے فریضۂ حج کو مقرر کرنے کے مقصد کو "بشریت کے نظم و نسق کے لیے ایک مکمل اور رہنما نمونہ" قرار دیا اور فرمایا: اس فریضے کی ظاہری ساخت بالکل سیاسی اور اس کے اجزاء کا باطنی مضمون مکمل طور پر معنوی اور عبادتی ہے تاکہ تمام انسانیت کے مفادات حاصل ہوں۔ اور آج امت مسلمہ کا سب سے بڑا مفاد "اتحاد اور ہم افزائی" ہے تاکہ عالم اسلام کے مسائل حل ہوں۔ اگر یہ اتحاد ہوتا تو غزہ اور یمن جیسے سانحات رونما نہ ہوتے۔
حضرت آیت اللہ خامنہای نے اپنی گفتگو کی ابتدا میں بندرعباس کے سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ سے دوبارہ تعزیت کی، اور ان ہم وطنوں اور متاثرہ خاندانوں کے لیے صبر و سکون کی دعا کی اور فرمایا: پروردگار، ان صبر و استقامت پر جو انسان مختلف حادثات میں دکھاتا ہے، ہزار گنا زیادہ قیمتی اجر عطا فرماتا ہے۔
آپ نے قدرتی اور غیر قدرتی حادثات میں نظاموں کو پہنچنے والے نقصان کو دوسرے نظاموں کی کوششوں اور صلاحیتوں کی مدد سے قابل جبران قرار دیا اور فرمایا: جو چیز دل کو جلا دیتی ہے، وہ "عزیز خاندانوں کا کھو جانا" ہے، جس نے اس حادثے کو ہمارے اور سب کے لیے ایک مصیبت میں بدل دیا۔
رہبر انقلاب نے اپنی گفتگو کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے، زائرین بیت اللہ کے لیے حج کے اہداف اور مختلف ابعاد کی معرفت اور شناخت کو، اس اہم ترین فریضے کی صحیح ادائیگی کی تمہید قرار دیا اور قرآن کریم کی متعدد آیات کے حوالے سے فرمایا: قرآن کی حج سے متعلق کئی آیات میں لفظ "ناس" (لوگ) کا استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پروردگار نے اس فریضے کو تمام انسانوں کے امور کی تدبیر کے لیے مقرر کیا ہے، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں۔ لہٰذا حج کا درست انعقاد، بشریت کی خدمت ہے۔
آپ نے حج کی معرفتی نکات کی وضاحت کرتے ہوئے اسے واحد فریضہ قرار دیا جس کی ساخت اور ترکیب سو فیصد سیاسی ہے، کیونکہ یہ ہر سال لوگوں کو ایک مقررہ وقت اور جگہ پر مخصوص اہداف کے لیے جمع کرتا ہے، اور یہی عمل بذات خود سیاسی ماہیت رکھتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہای نے مزید فرمایا: حج کی سیاسی ساخت و ترکیب کے ساتھ ساتھ، اس کے اجزاء کا مواد سو فیصد معنوی اور عبادتی ہے، اور ہر جزو زندگی کے مختلف مسائل و ضروریات کی طرف علامتی اور سبق آموز اشارہ رکھتا ہے۔
آپ نے ان علامتی نکات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "طواف" کا درس یہ ہے کہ توحید کے مرکز اور محور کے گرد گردش ضروری ہے۔ طواف انسانیت کو سکھاتا ہے کہ حکومت، زندگی، معیشت، خاندان اور تمام معاملات کو توحید کے محور پر قائم کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہو تو نہ ظلم و قساوت ہوگی، نہ بچوں کا قتل عام، نہ زیادتیاں، اور دنیا ایک گلستان میں تبدیل ہو جائے گی۔
رہبر انقلاب نے "سعی صفا و مروہ" کو اس امر کی علامت قرار دیا کہ انسان کو ہمہ وقت مشکلات کے پہاڑوں کے درمیان کوشش کرتے رہنا چاہیے، اور کبھی بھی رکا، معطل یا حیران نہ رہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہای نے "عرفات، مشعر اور منیٰ کی طرف حرکت" کو دائمی حرکت کا سبق اور جمود سے پرہیز قرار دیا اور فرمایا: قربانی بھی ایک علامتی اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ بعض اوقات انسان کو اپنے سب سے عزیز افراد کو چھوڑنا پڑتا ہے، قربانی دینی پڑتی ہے، یا خود قربانی دینا پڑتی ہے۔
آپ نے "رمی جمرات" کو اس نکتے پر پروردگار کی تاکید قرار دیا کہ انسان کو جنّ و انس کے شیاطین کو پہچاننا چاہیے اور جہاں کہیں بھی شیطان کو دیکھے، اسے مارنا اور کچلنا چاہیے۔
رہبر انقلاب نے "لباسِ احرام پہننے" کو خدا کے حضور انسانوں کی عاجزی اور مساوات کی علامت قرار دیا اور فرمایا: یہ تمام اعمال بشریت کی زندگی کو سمت دینے کے لیے ہیں۔
رہبر انقلاب نے قرآن کریم کی ایک آیت کے حوالے سے حج کے "اجتماع" کے مقصد کو انسانی منافع کے حصول اور فہم سے تعبیر کیا اور فرمایا: آج امت اسلامی کے لیے اتحاد سے بڑھ کر کوئی منفعت نہیں ہے۔ اگر امت میں اتحاد، ہم آہنگی اور ہم افزائی ہو تو، آج غزہ اور فلسطین میں موجودہ مظالم واقع نہ ہوتے اور یمن اس طرح دباؤ کا شکار نہ ہوتا۔
آپ نے امت اسلامی کی جدائی اور تفرقہ کو سامراجیوں، امریکہ، صہیونی حکومت اور دیگر ظالم طاقتوں کے مفادات و حرص کے نفاذ کا ذریعہ قرار دیا اور فرمایا: امت کے اتحاد کے ساتھ اسلامی ممالک کی سلامتی، ترقی، اور ایک دوسرے کی مدد ممکن ہو جائے گی، اور حج کے موقع کو اسی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ خامنہای نے اسلامی حکومتوں، بالخصوص میزبانی کرنے والی حکومت کی حج کی حقیقت اور مقاصد کی وضاحت میں اہم و نمایاں ذمہ داری قرار دی اور فرمایا: مختلف ممالک کے حکام، علما، روشن فکر افراد، مصنفین اور رائے عامہ پر اثر رکھنے والے افراد پر واجب ہے کہ وہ حج کی حقیقت کو لوگوں کے لیے واضح کریں۔
رہبر انقلاب کے خطاب سے قبل، حجت الاسلام سید عبدالفتاح نواب، ولی فقیہ کے نمائندہ برائے امور حج و زیارت اور ایرانی حجاج کے سرپرست نے اس سال کے حج کا نعرہ "حج؛ قرآنی سلوک، اسلامی ہم آہنگی اور مظلوم فلسطین کی حمایت" قرار دیا اور رواں سال حجاج کے لیے اس ادارے کی منصوبہ بندیوں کی تفصیل بیان کی۔
حج و زیارت تنظیم کے سربراہ جناب بیات نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا: اس سال ۸۶ ہزار ایرانی، ۵۷۴ قافلوں کی صورت میں، ۲۳ ہوائی اڈوں سے سرزمین وحی کی طرف روانہ ہوں گے۔
"گزشتہ آٹھ مہینوں میں ۲۱۰ ہزار عمرہ مفردہ کی انجام دہی"، "عملے اور خادمین کی کارکردگی میں اضافہ"، "اس سال کے حج میں بیرون ملک ایرانیوں کے لیے ۲ قافلوں کی تخصیص" اور "ایرانی حجاج کی بہتر خدمت رسانی کے لیے خادمین کی مکمل آمادگی" ان نکات میں شامل تھے جن کا حج کے آغاز میں ذکر کیا گیا۔