رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیتاللّٰہ خامنہای نے آج صبح ہفتۂ مزدور کے موقع پر ہزاروں محنت کشوں سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ "پیداوار کے لیے سرمایہ کاری" کے نعرے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے لازم ہے کہ معاشرہ محنت کشوں پر بھرپور توجہ دے، کیونکہ یہی طبقہ سب سے قیمتی سرمایہ اور معاشرے کی بقا و استحکام کا ایک بنیادی ستون ہے۔
آپ نے اس ضمن میں چند اہم نکات کی طرف توجہ دلائی، جن میں محنت کشوں کی روزگار کی سلامتی، کام کیلئے محفوظ ماحول، مہارتوں میں اضافہ، اور ان کی پیداوار میں حاصل ہونے والے منافع میں شراکت شامل ہیں۔ آپ نے فرمایا: "ایرانی مصنوعات کے استعمال کو ایک رائج عمل میں تبدیل ہونا چاہیے۔ البتہ اس ثقافت سازی کے ساتھ ساتھ داخلی مصنوعات کے معیار میں بھی اضافہ ہونا ضروری ہے۔"
حضرت آیتاللّٰہ خامنہای نے اپنے خطاب میں غزہ اور فلسطین میں جاری صہیونی جرائم اور نہتے فلسطینی عوام کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا: "یہ سب کچھ امریکہ اور برطانیہ کی حمایت سے انجام پا رہا ہے۔ لہٰذا دنیا کی اقوام کو چاہیے کہ وہ صہیونی رژیم اور اس کے حامیوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور ہرگز اس بات کی اجازت نہ دیں کہ فلسطین کا مسئلہ فراموش کر دیا جائے۔"
رہبر انقلاب نے اپنے خطاب کا آغاز حضرت امام رضا علیہالسلام کی ولادت باسعادت کی مبارکباد سے کیا اور شہید صدر مملکت، آیتاللّٰہ رئیسی کی یاد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: "شہید رئیسی، عوام اور بالخصوص محنت کش طبقے کے مسائل کے حوالے سے بے پناہ سنجیدگی رکھتے تھے۔"
انہوں نے وزیر محنت و تعاون کی جانب سے مزدوروں کے حالات کار اور ضروریات کے بارے میں بیان کردہ نکات کو درست اور توجہ طلب قرار دیتے ہوئے کہا: "اگر متعلقہ حکام سنجیدگی دکھائیں اور فیصلہ کریں تو ان مشکلات کو دور کرنا ممکن اور عملی ہے۔"
آپ نے فرمایا: "کار و محنت کا مسئلہ براہ راست ملک کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ مزدور حضرات اپنی قدر پہچانیں کیونکہ وہ حلال روزی کماتے ہیں۔ ان کی کمائی میں نہ لوٹ مار ہے، نہ مفت خوری، اور نہ ہی دوسروں کے مال پر ہاتھ ڈالنے کا شائبہ۔ وہ اپنی محنت سے نہ صرف اپنا روزگار کماتے ہیں بلکہ پیداوار کے ذریعے پورے معاشرے کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ یہ دونوں انسانی اعتبار سے نہایت عظیم اقدار ہیں اور اللہ کے نزدیک یہ ایک 'حسنہ' (نیکی) شمار ہوتی ہیں۔"
رہبر انقلاب نے مزید وضاحت کی: "کام و محنت، انسانی زندگی کے نظم و بقا کا بنیادی ستون ہے۔ علم اور سرمایہ اگرچہ اہم ہیں، لیکن اصل کام کارگر انجام دیتا ہے۔ یہ کارگر ہی ہے جو سرمایے میں روح پھونکتا ہے۔"
آپ نے فرمایا کہ رواں سال کے نعرے "پیداوار کے لیے سرمایہ کاری" کے تناظر میں سب سے قیمتی سرمایہ خود کارگر ہے۔ "صرف مالی سرمایہ کاری، اگر کارگر کی قوت، ارادہ اور صلاحیت سے خالی ہو تو بے سود ثابت ہوتی ہے۔"
آپ نے مزید فرمایا: "اسی لیے دشمنوں نے انقلاب کے آغاز سے ہی یہ کوشش کی کہ کارگروں کو اسلامی نظام کے ساتھ تعاون سے باز رکھیں، انہیں مایوس کریں اور ان کو انقلاب کے خلاف کر دیں۔"
آپ نے اس حوالے سے انقلاب کے ابتدائی ایام میں کمیونسٹ گروہوں کی جانب سے ہڑتالوں اور پیداوار کو مفلوج کرنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "آج بھی وہی محرکات موجود ہیں، لیکن اُس وقت بھی کارگروں نے ان کا مقابلہ کیا، اور آج بھی وہ ان کی سازشوں کو رد کر رہے ہیں۔"
رہبر انقلاب نے فرمایا: "اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس اہم قومی سرمایہ یعنی مزدور طبقے کی حفاظت ہو، تو مختلف حکومتی و غیر حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی۔"
کارگروں کے لیے "روزگار کی سلامتی" کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے آپ نے کہا: "کارگر کو یقین ہونا چاہیے کہ اس کی ملازمت جاری رہے گی، تاکہ وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کر سکے اور یہ نہ سمجھے کہ اس کا روزگار دوسروں کی مرضی پر منحصر ہے۔"
آپ نے گزشتہ برسوں میں بعض فیکٹریوں اور پیداواری مراکز کی بندش کو مزدوروں کے لیے خطرہ قرار دیا اور فرمایا: "ان اداروں کو بعض اوقات خام مال کی کمی یا مشینوں کی فرسودگی کا بہانہ بنا کر بند کر دیا گیا، جبکہ ان مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ پیداوار کو ہی بند کر دیا جاتا۔"
رہبر انقلاب نے بعض افراد کی جانب سے فیکٹریوں کی قیمتی زمینوں کو منافع کی غرض سے فروخت کرنے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: "یہ کام پیداواری نظام کی تباہی اور مزدوروں کی برطرفی کی قیمت پر انجام دیا گیا، جس کی نگرانی حکومت، عدلیہ اور دیگر اداروں کو کرنی چاہیے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔"
آپ نے شہید صدر رئیسی کی حکومت میں تقریباً آٹھ ہزار بند یا نیم بند کارخانوں کی بحالی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے فرمایا: "یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ فیکٹریوں کو بند ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اور ان کی پیداواری صلاحیت کو دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے، اور یہ ان کی حکومت کے اعزازات میں سے ایک ہے۔"
حضرت آیتاللّٰہ خامنہای نے اس مسئلے کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا اور فرمایا: "جس طرح مزدور کو روزگار کا تحفظ درکار ہے، ویسے ہی صنعت کار اور سرمایہ کار کے لیے بھی تحفظ لازم ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ یہ سمجھے کہ سرمایہ کاری اس کے نقصان کا باعث بنے گی۔ اگر کارآفرین کو نقصان کا اندیشہ ہو گا تو وہ سرمایہ کاری سے ہچکچائے گا، اور اس کا نتیجہ پیداواری زوال کی صورت میں نکلے گا۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیتاللّٰہ خامنہای نے مزدوروں کی سلامتی کو ایک اہم فریضہ قرار دیتے ہوئے، گزشتہ برسوں کے دوران پیش آنے والے افسوسناک کان کنی کے حادثات کا ذکر کیا اور فرمایا: "حاصل شدہ اطلاعات کے مطابق، سلامتی کے مسائل صرف کانوں تک محدود نہیں بلکہ تمام پیداواری مراکز میں مزدوروں کی سلامتی، چاہے وہ فنی اقدامات کے ذریعے ہو یا سماجی بیمہ کے تحت، ایک سنجیدہ اور لازم العمل معاملہ ہے۔"
آپ نے کارگروں کے لیے مہارت افزائی کو ایک اور بڑی ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا: "فنی و پیشہ ورانہ تنظیموں اور تربیتی اداروں میں مہارت افزائی کے لیے اچھا خاصا انفراسٹرکچر موجود ہے۔ ساتھ ہی، بڑی کمپنیاں بھی اپنی پیداوار کے ساتھ متوازی طور پر کارگروں کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے کورسز کا اہتمام کر سکتی ہیں۔"
رہبر انقلاب نے بارہا ملکی مصنوعات کے استعمال پر زور دیتے ہوئے اسے کارگروں کے لیے سب سے مؤثر حمایت شمار کیا اور فرمایا: "اگرچہ کچھ افراد نے اس سلسلے میں صحیح رویہ اختیار نہیں کیا، لیکن جہاں بھی اس پر عمل ہوا، ملک کو فائدہ پہنچا۔ کیونکہ ایرانی جنس خریدنا ایرانی مزدور اور سرمایہ کار کی حمایت ہے، جبکہ غیر ملکی جنس خریدنا، غیر ملکی محنت کش اور سرمایہ کار کی مدد ہے، جو انصاف و انسانیت کے خلاف ہے۔"
آپ نے بعض داخلی مصنوعات کے اعلیٰ معیار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "ہمیں یہ عادت بنانی چاہیے کہ ایرانی، ایرانی مصنوعات کا استعمال کرے، سوائے اُن اشیاء کے جن کی اندرون ملک پیداوار نہیں۔"
حضرت آیتاللّٰہ خامنہای نے ایک سرکاری ادارے کی جانب سے بعض مقامی مصنوعات پر درآمدی پابندی ختم کرنے کی تجویز پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا: "درآمدات کا دروازہ کھولنا ایک آسان فیصلہ ضرور ہے، مگر ملک اور مزدور طبقے کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر داخلی پیداوار کا معیار کم ہو، تو اس معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کریں، جیسا کہ چند سال پہلے جب ملکی گاڑیوں کے معیار پر اعتراض ہوا تو ہم نے کہا: وہی ایرانی نوجوان جو اقتصادی اور سائنسی محاصرے کے باوجود ایسا میزائل بنا سکتا ہے کہ دشمن اس کے سامنے تعظیم سے کھڑا ہو جاتا ہے، وہ یقینا بہتر معیار والی کم مصرف گاڑیاں بھی بنا سکتا ہے۔"
آپ نے کارگر کو پیداوار میں حاصل ہونے والے منافع میں شریک کرنے کو ایک مؤثر قدم قرار دیا اور فرمایا: "جب مزدور یہ محسوس کرے کہ وہ منافع کا حصہ دار ہے، تو اس کی محنت میں انگیزہ، کام کے معیار اور پیداواری یونٹ کی پائیداری میں اضافہ ہو گا۔"
آپ نے کارگروں کے لیے رہائش کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے فرمایا: "رہائشی کوآپریٹوز یا صنعتی مراکز کے اطراف میں رہائش گاہیں بنانا ایک ضروری اقدام ہے۔"
رہبر انقلاب نے کام و محنت کے اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "مارکسی فلسفے میں کام اور زندگی کا ماحول تضاد و دشمنی پر مبنی ہوتا ہے، اور مزدور کو سرمایہ دار کا دشمن سمجھا جاتا ہے، جس نے کئی برسوں تک دنیا کو الجھائے رکھا۔ لیکن اسلام کام اور زندگی کے ماحول کو اتحاد، تعاون اور ہم افزائی کا میدان سمجھتا ہے، جہاں دونوں فریقین اخلاص سے پیشرفت میں حصہ لیتے ہیں۔"
آپ نے واضح فرمایا کہ "مزدور" سے مراد صرف صنعتی مزدور نہیں بلکہ تمام محنت کش مثلاً تعمیراتی مزدور، زراعتی مزدور، میوہ منڈیوں کے کارگر، اور وہ خواتین جو گھریلو صنعت کے ذریعے جدید ذرائع ابلاغ سے اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں، سبھی کو سماجی تحفظ اور دیگر سہولیات ملنی چاہئیں۔
رہبر معظم انقلاب نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں مسئلہ فلسطین کی طرف پلٹتے ہوئے فرمایا: "ایسی بدنیت پالیسیاں جاری ہیں جو مسئلۂ فلسطین کو فراموشی کے سپرد کرنا چاہتی ہیں۔ مسلم اقوام کو چاہیے کہ وہ اس کی اجازت نہ دیں۔ شایعات، بےربط اور غیر ضروری گفتگو سے فلسطین، غزہ اور صہیونی مظالم کو نظرانداز نہ ہونے دیا جائے۔"
آپ نے فرمایا: "دنیا کو صہیونی رژیم اور اس کے حامیوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔ امریکہ واقعی صہیونیوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اگرچہ بعض سیاسی بیانات ایسے دیے جاتے ہیں جن سے مختلف مفہوم اخذ ہو سکتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مظلوم فلسطینی صرف صہیونیوں سے نہیں، بلکہ امریکہ اور برطانیہ سے بھی لڑ رہے ہیں، کیونکہ وہ قاتل کی نہ صرف مدد بلکہ اسلحہ اور وسائل بھی فراہم کرتے ہیں۔"
آپ نے تاکید کی: "چند وقتی حادثات یا کھوکھلے نعرے مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے کا سبب نہیں بننے چاہئیں۔ اللہ کی توفیق اور عزت و جلال سے، فلسطین ان صہیونی غاصبوں پر فتح پائے گا۔ یہ باطل کا وقتی غلبہ ختم ہو کر رہے گا۔"
رہبر انقلاب نے فرمایا: "جو کچھ وہ شام میں انجام دے رہے ہیں، وہ ان کی طاقت کی علامت نہیں بلکہ کمزوری کی دلیل ہے اور مزید کمزور بننے کا سبب بنے گا۔"
آخر میں، آپ نے امید ظاہر کی: "خدا کرے کہ ایرانی قوم اور دیگر مومن اقوام، فلسطین کی فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔"