ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رضاکار شہداء کی قومی کانگریس کے منتظمین سے ملاقات

صہیونی حکومت کے مقابل جدووجہد کسی خاص گروہ نہیں بلکہ پوری امت کی ذمہ داری ہے۔

حضرت آیت‌اللہ خامنہ‌ای نے رضاکار شہداء کی قومی کانگریس کے منتظمین سے ملاقات میں رضاکاروں کو انسانی صفات اور انسان دوستی کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملتِ ایران کے اندر ایثار، فداکاری اور ہمدردی کا جو جذبہ موجود ہے، اسے زندہ اور جاری رکھنے کے لیے ثقافتی سطح پر سنجیدہ کام کی ضرورت ہے۔ آپ نے کہا کہ اس اعلیٰ انسانی روح کے مقابلے میں، صہیونی حکومت کی غزہ میں کی جانے والی درندگی اور مغرب کی طرف سے اس کی حمایت، ظلم کی بدترین مثال ہے، اور ان خونخواریوں اور باطل کے اس محاذ کے مقابلے میں کھڑا ہونا، صرف کسی خاص گروہ نہیں بلکہ پوری امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

آپ نے کانگریس کے منتظمین کی جانب سے امدادگران شہداء کے بارے میں کتابوں، فلموں اور کمپیوٹر گیمز کی تیاری کی رپورٹ کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ صرف ان آثار کی تخلیق کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ان آثار کو اتنا مؤثر اور وسیع بنایا جائے کہ کم از کم بیس ملین افراد تک یہ پہنچیں۔ ان موضوعات کی ترویج صرف تعلیمی اور ثقافتی حلقوں میں نہیں بلکہ عوامی سطح پر ہونی چاہیے تاکہ معاشرہ ان عظیم کرداروں سے واقف ہو اور انہیں اپنا نمونہ عمل بنائے۔

رہبر انقلاب نے نوجوانوں کے جذبے اور ہمت کو ملک کی ترقی کا محور قرار دیتے ہوئے کہا کہ صنعت، سیاست، تعمیرات، ادب اور فن کے میدانوں میں اگر بامقصد، باایمان اور پُرعزم نوجوان موجود ہوں تو ملک میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں رہتا۔ امدادگران کی ایثار پر مبنی خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ تھے جو گولیوں کی بارش میں دوسروں کی جان بچانے کے لیے دوڑتے تھے، اپنی جان کی پروا نہیں کرتے تھے، اور بعض اوقات دشمن کے زخمی قیدیوں کی بھی مدد کرتے تھے۔ یہ ایثار اور انسان دوستی کی وہ اعلیٰ مثالیں ہیں جو اس دنیا کے ظالم اور بےانصاف نظام سے یکسر مختلف ہیں۔

آپ نے دورانِ دفاع مقدس (جنگ) میں میدانِ جنگ کے قریب واقع صحرائی اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان صرف فنونِ لطیفہ کی زبان سے ہی ممکن ہے۔ آپ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان عظیم کارناموں کو دنیا کے سامنے جس طرح پیش کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا۔ جبکہ دوسری طرف وہ ممالک جن کا کوئی حقیقی تاریخی ورثہ یا ہیرو موجود نہیں، وہ فرضی اور جعلی ہیرو بنا کر دنیا میں ان کا خوب چرچا کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے ان حقیقی ہیروز، بالخصوص امدادگران شہداء کو متعارف کرائیں اور ان کی یاد اور تعلیمات کو معاشرے کی عمومی ثقافت میں شامل کریں تاکہ یہ معلوم ہو کہ امداد اور مدد ایک اسلامی، انسانی اور ہمیشگی فریضہ ہے جو ہر نسل میں جاری رہنا چاہیے۔

آپ نے صہیونیوں کی وحشی گری کو ایثار کے بالکل برعکس معمہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ نہ صرف ایمبولینسوں کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ اسپتالوں پر بمباری اور بچوں، خواتین اور زخمیوں کا قتل کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آج دنیا کا نظام ایسے انسان نما درندوں کے ہاتھ میں ہے، اور اسلامی جمہوریہ ایران اپنا شرعی و انسانی فریضہ سمجھتا ہے کہ ان خونخواروں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو۔

رہبر معظم نے مزید فرمایا کہ نہتے شہریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا، ہر انسان کا اخلاقی و انسانی فرض ہے، اور یہی احساسِ ذمہ داری ہے جو دلوں میں امید کو روشن رکھتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو مغربی طاقتوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے دشمنی پر اکسانے کا سبب بنتی ہے، کیونکہ اگر ہم ان کے مظالم پر خاموش ہو جائیں، تو وہ ہم سے دشمنی نہیں کریں گے۔ لیکن ہماری خاموشی، دراصل ان کے باطل نظام کی تائید ہوگی۔

آپ نے زور دے کر فرمایا کہ مغربی استکباری طاقتوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ان کے باطل تمدن کو مسترد کر دیا ہے۔ جبکہ باطل فطری طور پر نابود ہونے کے لیے ہے۔ البتہ اس کے خلاف کامیابی، صرف اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب ہم عمل کریں، استقامت دکھائیں، اور خاموشی، پیچھے ہٹنے، مصنوعی مسکراہٹیں بکھیرنے یا باطل کی مدح سرائی سے پرہیز کریں۔ کیونکہ یہی سستی اور بےعملی باطل کی پیش قدمی کا سبب بنتی ہے۔

700 /