ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

شہید رئیسی اور ان کے ساتھ شہید ہونے والوں کی پہلی برسی پر خطاب

جناب رئیسی ایک الٰہی حکومت کے ذمہ دار کی تمام خصوصیات کا مکمل مصداق تھے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے آج صبح شہید رئیسی، دیگر شہدائے خدمت اور گذشتہ دہائیوں میں شہید ہونے والے بعض اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات میں، شہداء کی تعظیم اور ان کی ستائش کا مقصد غور و فکر اور سبق حاصل کرنا قرار دیا۔ انہوں نے شہید صدر جمہوریہ آیت‌الله رئیسی کی قلبی، زبانی اور عملی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: عزیز رئیسی ایک الٰہی حکومت کے ذمہ دار کی تمام خصوصیات کا مکمل مصداق تھے۔ انہوں نے تھکن سے بے نیاز ہو کر عوام، قوم کی عزت و آبرو اور وقار کے لیے بے لوث خدمت کی، اور ان کا یہی طرزِ عمل ہم تمام ذمہ داران، نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک عظیم درس ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں، مذاکرات کے حوالے سے امریکی فریق کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا اور کہا کہ غیر مستقیم مذاکرات کے دوران جو بڑے بول بولے جا رہے ہیں، اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے فرمایا: امریکیوں کی یہ بات کہ ہم ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت نہیں دیں گے، انکی حد سے بڑھی ہوئی بات ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی پالیسی اور اپنے طے شدہ راستے کو اسی طرح جاری رکھے گا۔

اس ملاقات میں جو کچھ اعلیٰ حکام کی موجودگی میں انجام پائی، رہبر انقلاب نے شہید آیت‌الله آل ہاشم، شہید امیرعبداللهیان، عملہ پرواز کے شہداء، آذربائیجان شرقی کے شہید گورنر اور سیکیورٹی کے شہید کمانڈر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا: طاغوتی حاکمیت سے دوری اور الٰہی حاکمیت کے راستے پر گامزن ہونا ملک کے انتظامی نظام کے لیے ایک نہایت اہم معیار ہے، اور شہید رئیسی اس معیار کا کامل مصداق تھے۔

رہبر معظم انقلاب نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں فرمایا: خودبینی، عوام کی تحقیر، اور اپنی ذمہ داریاں عوام پر ڈال دینا فرعونی حکومت کی نمایاں خصوصیات ہیں، جبکہ شہید رئیسی ان تمام خصلتوں کے بالکل برخلاف تھے۔ وہ خود کو عوام کی صف میں، بلکہ بعض مواقع پر ان سے بھی کمتر سمجھتے تھے اور اسی نگاہ کے ساتھ ملک کی خدمت کرتے تھے۔

انہوں نے شہید رئیسی کی سب توانائی کو خدا کے بندوں کی خدمت میں صرف کرنے اور سیاسی یا سماجی مقام سے کسی قسم کا شخصی فائدہ نہ اٹھانے کو ایک بہت بڑا درس قرار دیا اور فرمایا: اسلامی نظام میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ان صفات کے حامل ہوں، مگر یہ ضروری ہے کہ یہ خصوصیات اور رویے ایک عوامی ثقافت میں تبدیل ہوں۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے فرمایا: کسی انسان کی شخصیت کو پہچاننے کے لیے اس کے دل، زبان اور عمل کو معیار بنایا جانا چاہیے۔ شہید رئیسی کا دل خدا کے حضور خاشع اور ہمیشہ ذکر میں مشغول تھا۔ ان کی زبان سچ اور صراحت کی آئینہ دار تھی اور ان کے عمل میں مسلسل محنت اور تھکن نہ محسوس ہونے والی جدوجہد تھی۔

انہوں نے مزید فرمایا: دعا، توسل اور اللہ سے انس شہید رئیسی کی پوری زندگی کا حصہ تھا، چاہے وہ عہدے پر فائز ہوں یا نہ ہوں۔ ان کا دل عوام کی محبت سے سرشار تھا اور وہ عوام کی توقعات یا نکتہ چینیوں سے شکوہ کیے بغیر اپنی سنگین ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے۔ ان کا دل خدا سے بھی جڑا تھا اور عوام سے بھی، اور ان کا مکمل وجود اسلامی فرائض کی انجام دہی کے لیے وقف تھا۔

رہبر انقلاب نے کہا: آقای رئیسی نے شعبہ عدلیہ کی سربراہی قبول کرنے یا صدارتی انتخابات میں شرکت کا فیصلہ صرف الہی فریضے کو ادا کرنے کے لیے کیا۔ بہت سے لوگ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ فرض کی ادائیگی کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن ہم یہ وصف حقیقتاً رئیسی کے اندر دیکھتے تھے۔

انہوں نے فرمایا: شہید رئیسی کی زبان، خواہ داخلی مسائل ہوں یا بین الاقوامی میدان، ہمیشہ صریح اور سچائی سے بھرپور تھی۔ وہ اپنی پوزیشن پر واضح طور پر کھڑے ہوتے اور دشمن کو یہ اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ ایران کو دھونس یا لالچ دے کر مذاکرات کی میز پر لایا گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے زور دے کر کہا: مخالف فریق کا براہ راست مذاکرات پر اصرار کرنے کا مقصد، ایران کو سرنگوں اور مغلوب دکھانا ہے۔ لیکن شہید رئیسی نے انہیں یہ موقع نہیں دیا۔ ان کے دورِ صدارت میں بھی مذاکرات غیر مستقیم ہی ہوتے رہے، جیسا کہ آج بھی ہو رہے ہیں، لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اور ہمیں ابھی بھی معلوم نہیں کہ ان کا کوئی نتیجہ نکلے گا یا نہیں۔

آپ نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک ایران میں افزودگی کے عمل کو روکنے پر مُصر ہیں، اور فرمایا: "میں کسی اور موقع پر قوم کو یہ وضاحت دوں گا کہ وہ اس قدر اصرار کیوں کر رہے ہیں اور ان کا اصل مقصد کیا ہے۔"

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے شہید آیت‌الله رئیسی کی صاف گوئی اور صداقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "اس اخلاقی عظمت کی اہمیت اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے جب ہم اُسے اُن مغربی حکمرانوں کی جھوٹی زبانوں سے موازنہ کرتے ہیں، جو دنیا کے کان امن اور انسانی حقوق کے نعرے لگا لگا کر بھرتے ہیں، مگر غزہ میں بیس ہزار سے زائد معصوم بچوں کے قتلِ عام پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں، اور ان مجرموں کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں۔"

رہبر انقلاب نے شہید رئیسی کی عملی فعالیت اور خدمت گزاری کو اُن کی ممتاز خصوصیات میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: "شہید رئیسی سراپا عمل اور انتھک محنت کی مثال تھے۔ وہ خدمت کو عبادت سمجھتے اور دن رات کی تمیز کیے بغیر مسلسل کام میں مشغول رہتے۔ جب بھی اُنہیں یہ تاکید کی جاتی کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور کام کے دباؤ سے بچیں، تو وہ مسکرا کر کہتے: 'میں کام سے نہیں تھکتا۔'"

آپ نے شہید رئیسی کی عوامی خدمات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: "پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، بند یا معطل کارخانوں کو دوبارہ چلانا، اور ادھورے منصوبوں کو مکمل کرنا—یہ سب وہ خدمات تھیں جو براہِ راست عوام کی زندگیوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایران کی قومی عزت، وقار اور اعتبار کو بھی بلندی بخشی۔"

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "تیرہویں حکومت کے آغاز میں اقتصادی ترقی کی شرح قریب قریب صفر تھی، جو اُس کے اختتام تک پانچ فیصد کے قریب پہنچ گئی، اور یہ پیشرفت قومی فخر اور عزت کی علامت ہے۔"

آپ نے مزید فرمایا: "اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرآن کریم یا شہید قاسم سلیمانی کی تصویر کو بلند کرنا اُن اقدامات میں شامل تھا جن کے ذریعے شہید رئیسی نے ایرانی قوم کو عزت بخشی۔"

رہبر انقلاب نے اپنے بیان کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: "شہید رئیسی اور اُن کے نوجوان رفقاء کے کردار میں انقلاب کے ابتدائی ایّام کے شہداء، خصوصاً شہید رجائی کے نوجوان ساتھیوں کی روشنی، جذبہ، احساسِ ذمہ داری اور خلوص کی جھلک نمایاں تھی۔ یہ انقلاب کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔"

آپ نے مزید فرمایا: "ایسے مخلص، فداکار اور مؤثر انسانوں کی مسلسل تربیت، امام خمینیؒ کی سب سے بڑی فتح اور عظیم کامیابی ہے۔"

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اردیبهشت کے ہوائی حادثے میں شہید ہونے والے افراد یا تو انقلاب کی کامیابی کے وقت بچے تھے یا ابھی دنیا میں نہیں آئے تھے، فرمایا: "ایسے نوجوانوں کی پرورش، اور ملک کے کونے کونے میں لاکھوں دوسرے نوجوانوں کی تربیت، اسلامی انقلاب کا امتیاز اور اس کی حقیقی طاقت ہے۔"

اُنہوں نے کہا: "یہی انقلاب ہے جو انیس سالہ نوجوان آرمان علی‌وردی کو اُسی راہ پر چلا سکتا ہے جس میں چالیس سال قبل نوّے سالہ آیت‌الله اشرفی اصفهانی نے جامِ شہادت نوش کیا۔"

اُنہوں نے تاکید کی: "ایسا انقلاب، جس میں مسلسل جذب کرنے اور متحرک رکھنے کی یہ قوت ہو، شکست سے دوچار نہیں ہو سکتا۔ ہمیں چاہیے کہ اس انقلاب، اس کی انسان سازی کی قوت، اس کی برکت سے حاصل ہونے والی پیشرفت، اور ملت ایران کی اس عظیم تحریک کی قدر کریں، اور خداوند متعال سے دعا کریں کہ یہ انقلاب اپنی رہگزر پر گامزن رہے، تاکہ ایرانی قوم کا یہ ابدی درس دیگر اقوام اور بنی نوع انسان کے لیے بھی روشنی کا مینار بنے اور ہمیشہ باقی رہے۔"

700 /