ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

امام خمینیؒ کی مناسبت سے سالانہ تقریب سے خطاب

امام خمینیؒ کی رحلت کے 36 سال بعد بھی انکے اثرات متعدد محازوں پر قابل مشاہدہ ہیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح امام خمینیؒ کے حرمِ مطہر میں عوام کے عظیم اور پرجوش اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے دنیا پر مرتب ہونے والے نمایاں اثرات کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: امامِ راحل عظیم الشان نے ایمان سے سرچشمہ لینے والی دانائی اور دوراندیشی کے ساتھ، انقلاب اور ملک کی عزتمند اور طاقتور پیشرفت کے تسلسل کے بنیادی اصولوں کو "قومی خودمختاری" کے کلیدی مفہوم کے تحت متعین فرمایا، اور یہی اصول عزیز ایران کو ترقی، عوامی خوشحالی، پائیدار امن، بین الاقوامی مقام میں مزید بلندی، اور ایک تابناک مستقبل تک لے جائیں گے۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے ایٹمی مسئلے کو ایک قومی معاملہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران کا مکمل اور باوقار ایٹمی ایندھن کا سائیکل حاصل کرنا دراصل قوم اور ہمارے نوجوان سائنسدانوں کے "ہم کر سکتے ہیں" کے یقین کا نتیجہ ہے۔ آپ نے ایٹمی صنعت کے دیگر سائنسی و صنعتی میدانوں میں اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کی جانب سے پیش کیا جانے والا ایٹمی منصوبہ اس رہنما اصول "ہم کر سکتے ہیں" سے مکمل تضاد رکھتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا: ایٹمی صنعت، اگر اس میں افزودگی (enrichment) نہ ہو، تو عملاً بے فائدہ ہے، اور امریکہ و صہیونی ریاست یہ جان لیں کہ وہ ایران میں ایٹمی صنعت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے اپنے ہدف میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔

آپ نے امام خمینیؒ کو اسلامی جمہوریہ کے طاقتور، مستحکم اور ترقی یافتہ نظام کے عظیم معمار قرار دیتے ہوئے فرمایا: اُس عظیم ہستی کی رحلت کے چھتیس برس بعد بھی اُن کی موجودگی اور اُن کے انقلاب کے اثرات، دنیا میں بڑی طاقتوں کے زوال، کثیر قطبی نظام کی تشکیل، امریکہ کی ساکھ اور اثر و رسوخ کے شدید انحطاط، حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ میں صہیونزم سے نفرت کے عروج، اور مختلف اقوام کی بیداری اور مغربی اقدار کے انکار جیسے امور میں نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

رہبر انقلاب نے اس امر پر زور دیا کہ جب ایک دینی عالم نے ایرانی قوم کو متحد کیا، امام اور عوام نے خالی ہاتھوں ایک تا دندان مسلح، بیرونی طاقتوں پر انحصار کرنے والے پہلوی نظام کو شکست دی، اور امریکی و صہیونی غاصبوں کو ایران سے باہر نکالا تو مغربی دنیا حیران رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے لیے دوسرا بڑا صدمہ، امام کی بصیرت اور پیہم جدوجہد سے اسلامی جمہوری نظام کا قیام تھا۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے یاد دلایا کہ امریکہ کو امید تھی کہ ایران میں کوئی مفاہمت پسند حکومت اقتدار میں آئے گی اور ان کے ناجائز مفادات کی راہ دوبارہ ہموار ہو جائے گی، لیکن امام خمینیؒ نے ایک اسلامی اور دینی حکومت کے قیام پر اپنے واضح اور دوٹوک مؤقف کا اعلان کرکے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا، اور یوں دشمنوں کی تباہ کن سازشوں کا آغاز ہوا۔

آپ نے اس بات پر زور دیا کہ مغرب، خاص طور پر امریکہ، نے اسلامی انقلاب کے خلاف جتنے متنوع، شدید اور تباہ کن منصوبے بنائے، وہ جدید تاریخ میں کسی بھی انقلاب کے خلاف بے مثال ہیں۔ آپ نے فرمایا: نسلی اور لسانی فتنے بھڑکانا، مخالف گروہوں کو مسلح کرنا، چپقلش پیدا کرنا، خونخوار صدام جیسے درندے کو ایران پر حملے کے لیے اکسانا، امام کے قریبی ساتھیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا — یہ سب دشمن کی دشمنی کے مظاہر ہیں، اور بعد کے عشروں میں ایٹمی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے یہی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا۔

رہبر انقلاب نے دشمنوں کی جانب سے "ہمہ گیر پابندیاں"، "طبس پر امریکہ کا ناکام فوجی حملہ"، اور "خلیج فارس میں ایرانی مسافر بردار طیارے پر میزائل حملہ" جیسے اقدامات کو بھی ملت ایران اور انقلاب کے خلاف بدترین دشمنی کی مثالیں قرار دیا اور فرمایا: ان تمام سازشوں کے پیچھے استعماری حکومتیں، بالخصوص امریکہ اور صہیونی حکومت، اور اُن کے خفیہ ادارے جیسے سی آئی اے (CIA)، برطانیہ کا ایم آئی سکس (MI6)، اور قابض صہیونی ریاست کا موساد شامل رہے ہیں۔

آپ نے ان گھناؤنی سازشوں کا مقصد اسلامی جمہوری نظام کو کمزور کرنا قرار دیا اور تاکید کی: ایرانی قوم اور نظام نے ان سب سازشوں کے سامنے صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور ہزار سے زائد سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہی ہے، اور آئندہ بھی قوت و صلابت کے ساتھ آگے بڑھے گی۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے جذبات کے غلبے کو عقلانیت پر ایک بڑا خطرہ اور انحراف کا سبب قرار دیا، جیسا کہ فرانس کے انقلاب میں پیش آیا، اور فرمایا: امام خمینیؒ نے الٰہی حکمت اور غیبی ایمان سے متأثر عقلانیت کے ذریعے اسلامی انقلاب کو اس مہلک آفت سے محفوظ رکھا اور اجازت نہ دی کہ جذبات کا طوفان، انقلاب اور عوام کی تحریک کو اس کے اصلی راستے سے ہٹا دے۔

آپ نے "ولایت فقیہ" اور "قومی خودمختاری" کو امام کی عقلانیت کے دو بنیادی ستون قرار دیا اور فرمایا: "ولایت فقیہ" انقلاب کے دینی پہلو کی محافظ ہے اور عوام کے ایمانی جوش اور ایثار سے ابھرنے والی تحریک کو انحراف سے بچاتی ہے، جبکہ "قومی خودمختاری" امام کے بہت سے افکار اور اہداف کی مظہر ہے۔

 

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے قومی خودمختاری کو دنیا سے علیحدگی یا تنہائی کے مترادف سمجھنے کو ایک غلط تعبیر اور مغالطہ قرار دیا اور فرمایا: قومی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ ایران اور اس کی عوام اپنی طاقت پر انحصار کرتے ہوئے، دوسروں پر تکیہ کیے بغیر، نہ امریکہ جیسے ملکوں کے سبز اشارے کی منتظر ہو اور نہ ہی ان کے سرخ اشارے سے خوف زدہ ہو، بلکہ وہ خود اپنے حالات کو سمجھتے ہوئے، بغیر کسی عالمی طاقت کی اجازت یا مخالفت کے، اپنے فیصلے خود کرے اور ان پر عملدرآمد بھی کرے۔

آپ نے قومی خودمختاری سے متعلق امام خمینیؒ کی بیانات سے اخذ کیے گئے پہلے اصول یعنی "ہم کر سکتے ہیں" پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: سابق طاغوتی حکومت کے برعکس، جو قوم کو "ہم نہیں کر سکتے" کا احساس دیتی تھی، امام خمینیؒ نے خوداعتمادی اور "ہم کر سکتے ہیں" کے جذبے کو ایرانی قومی شناخت، نوجوانوں اور سیاستدانوں میں زندہ کیا۔ ملک کے سائنسی، صنعتی، دفاعی، تعمیراتی اور ترقیاتی میدانوں میں حاصل ہونے والی حیران کن کامیابیاں اسی جذبے اور عقیدے کا ثمر ہیں۔

رہبر انقلاب نے دشمنوں کی جانب سے اس روحیہ "ہم کر سکتے ہیں" کو ختم کرنے کی مسلسل کوششوں کو اس عنصر کی بے نظیر اہمیت کی دلیل قرار دیا اور فرمایا: آج بھی، ہسته‌ای مسئلے کے سلسلے میں عمان کی ثالثی سے جاری مذاکرات میں، امریکیوں کی طرف سے پیش کردہ تجویز مکمل طور پر "ہم کر سکتے ہیں" کے اصول کے منافی ہے۔

آپ نے "مقاومت" کو قومی خودمختاری کا ایک اور بنیادی عنصر قرار دیا، جس کا مطلب ہے اپنے عقائد پر عمل پیرا رہنا اور بڑی طاقتوں کے جبر، تحمیل اور من مانی کے آگے سر نہ جھکانا۔ آپ نے دفاعی طاقت کے فروغ کو ایک اور بنیادی اصل قرار دیتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے ابتدائی دنوں میں ہماری دفاعی پیداوار کی سطح نہایت پست اور صفر کے قریب تھی، لیکن امام کی ترغیب اور تاکید کے بعد اس میدان میں ترقی کا آغاز ہوا، یہاں تک کہ آج دنیا کے دفاعی ماہرین، بعض شعبوں میں ایران کو علاقے کی اولین دفاعی طاقت مانتے ہیں یا پابندیوں کے باوجود ایرانی صلاحیتوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔

قومی خودمختاری سے متعلق امام خمینیؒ کی فکری و عملی منظومہ کا ایک اور حصہ "تبیین" ہے۔ رہبر انقلاب نے فرمایا: امام نے اپنی تحریک کے آغاز ۱۳۴۱ھ (1963ء) سے اپنی وفات تک اہم قومی و عالمی مسائل کو عوام کے سامنے واضح کیا۔ امام کے وہ خطوط، جو انہوں نے اپنی عمر کے آخری سال میں عوام، حوزہ علمیہ اور دانشوروں کے نام لکھے، ان کے بہترین تحریری آثار میں شمار ہوتے ہیں۔ امام کی توضیحات صرف جذبات پر مبنی نہ تھیں بلکہ ان میں استدلال اور عقلانیت بھی تھی، وہ بیک وقت دلوں اور ذہنوں سے مخاطب ہوتے تھے۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے "استقامت" کو ایک اور بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے فرمایا: استقامت کا مطلب ہے صراطِ مستقیم پر قائم رہنا اور اس راہ کو چھوڑے بغیر اس پر مسلسل گامزن رہنا۔ امام خمینیؒ نے عوام اور نوجوانوں کی سوچ اور دلوں کو انہی اصولوں سے آشنا کیا، اور انقلاب کی شناخت اور اس کے مسلسل سفر کو عقل و بصیرت کی بنیاد پر اس راستے میں جاری رکھا۔

آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بعض لوگ عقلانیت کی دعوت دے کر اصل میں امریکہ اور دیگر زورگو طاقتوں کے سامنے جھکنے کی وکالت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ عقلانیت نہیں ہے۔ عقلانیت وہ ہے جس کی بنیاد پر امام خمینیؒ نے قوم اور ملک کو طاقتور بنایا، ایران کو دنیا میں باعزت مقام بخشا، اور قوم کے سامنے ایک تابناک مستقبل رکھا۔ ان شاء اللہ، امام کی عقلانیت پر استوار اس ملی تحریک کے تسلسل سے ایران میں پائیدار سلامتی، ترقی، عمومی خوشحالی اور بین الاقوامی سطح پر مزید بلندی حاصل ہوگی۔

رہبر انقلاب نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں ایٹمی مسئلے کی وضاحت اور عوام کو کچھ اہم نکات سے آگاہ کرنے پر توجہ دی۔ آپ نے فرمایا: ایران نے اپنے نوجوانوں کی ذہانت اور محنتی سائنسدانوں کی کوششوں سے مکمل ایٹمی ایندھن کے سائیکل تک رسائی حاصل کی ہے، جبکہ دنیا میں اس صلاحیت کے حامل ممالک کی تعداد بہت محدود ہے۔

آپ نے فرمایا کہ ایٹمی صنعت کی افادیت صرف سستی اور صاف بجلی کی پیداوار تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک "صنعتِ مادر" یعنی بنیادی اور کلیدی صنعت ہے۔ ماہرین و سائنسدانوں کی رپورٹس کے مطابق—جنہیں عوام کے سامنے بھی پیش کیا جانا چاہیے—اس صنعت کا تعلق یا اثر بنیادی سائنسی اور انجینئرنگ کے شعبوں جیسے نیوکلیئر فزکس، انرجی انجینئرنگ، مٹیریل انجینئرنگ، اور ساتھ ہی حساس اور دقیق ٹیکنالوجیز مثلاً میڈیکل آلات، ایرو اسپیس، اور الیکٹرانک سینسرز پر بھی ہے۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے اس صنعت کے طبی و دواسازی میدانوں میں فائدوں کا بھی ذکر کیا، جیسے کہ پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص و علاج، نیز زراعت اور ماحولیات سے متعلق صنعتوں میں اس کی اہمیت۔ آپ نے فرمایا: ایٹمی صنعت میں "یورینیم کی افزودگی" (enrichment) ایک بنیادی اور کلیدی نکتہ ہے، اور ہمارے دشمن اسی مقام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ بغیر افزودگی کے، ایٹمی صنعت عملاً بے معنی ہو جاتی ہے، کیونکہ اس صورت میں ایٹمی بجلی گھروں کے لیے ایندھن کی فراہمی کے لیے ہمیں دوسروں کے در پر دستِ سوال دراز کرنا پڑے گا۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی ہم سے کہے کہ تم تیل تو رکھتے ہو، مگر ریفائنری بنانے اور اپنا پٹرول پیدا کرنے کا حق نہیں رکھتے، اور اپنی ضروریات کے لیے تمہیں دوسروں کی مرضی کے مطابق چلنا ہوگا۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب تک ایران کے پاس افزودگی اور ایندھن کی پیداوار کی صلاحیت موجود نہ ہو، تو اگر ہمارے پاس سو ایٹمی بجلی گھر بھی ہوں، تب بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ ایندھن کی فراہمی کے لیے ہمیں امریکہ کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا پڑے گا، اور وہ ممکن ہے اس کے بدلے میں درجنوں شرائط عائد کریں، جیسا کہ یہ تلخ تجربہ دہہ ۱۳۸۰ شمسی (۲۰۰۰ کی دہائی) میں ۲۰ فیصد ایندھن کے حصول کی کوشش کے دوران پیش آیا۔

انہوں نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اُس وقت امریکہ کے صدر کی درخواست پر ایران کے دو دوست ممالک نے ثالثی کی تاکہ ایران اپنی 3.5 فیصد افزودہ شدہ یورینیم کا کچھ حصہ دے اور بدلے میں 20 فیصد ایندھن حاصل کرے تاکہ طبی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ ایران نے اس تبادلے کو قبول کر لیا، اور میں نے کہا تھا کہ فریقِ مقابل کو پہلے بندرعباس بندرگاہ پر 20 فیصد ایندھن پہنچانا ہوگا، اور ہم اُس کے بعد جانچ کے بعد تبادلہ کریں گے۔ لیکن جب انہوں نے ہماری سنجیدگی اور اصول پسندی دیکھی، تو اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے اور ایندھن دینے سے انکار کر دیا۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے فرمایا: تاہم اُسی سیاسی کشمکش کے دوران ہمارے سائنسدانوں نے خود ملک کے اندر 20 فیصد ایندھن تیار کر لیا۔

رہبر انقلاب نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ کی پہلی اور اصل مطالبہ یہی ہے کہ ایران کو اس صنعت اور اس کے مختلف فوائد سے مکمل طور پر محروم کر دیا جائے، اور ہزاروں نوجوان ایٹمی سائنسدانوں کو مایوس اور بے روزگار کر دیا جائے۔ انہوں نے فرمایا: امریکہ کے گستاخ اور بدزبان حکام اپنے اس مطالبے کو مختلف الفاظ میں بار بار دہراتے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ان جبرآمیز مطالبات کی حقیقت، ایران کی ترقی اور خودانحصاری سے دشمنی پر مبنی ہے۔ انہوں نے تاکید کی: ہم نے یہ حقائق اس لیے بیان کیے تاکہ ایرانی قوم ان امور سے آگاہ ہو، اور ذمہ داران کو چاہیے کہ ان باتوں کی مزید وضاحت کریں۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے زور دے کر کہا: "ہمارا جواب امریکہ کی شور و غوغا اور بے تدبیری پر مبنی حکومت کی ہر یاوہ گوئی کے بارے میں بالکل واضح ہے۔" آپ نے چند سال قبل ایک امریکی صدر کی وہ بے بسی یاد دلائی جب اس نے کہا تھا کہ اگر میں کر سکتا تو ایران کی ایٹمی صنعت کے پیچ و پرز کھول دیتا۔ رہبر انقلاب نے فرمایا: آج ہماری ایٹمی صنعت کے پیچ و پرز کہیں زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں، اور جیسے وہ صدر اپنے مقصد میں ناکام رہا، موجودہ امریکی اور صہیونی حکام بھی جان لیں کہ وہ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

انہوں نے مزید فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کا امریکہ اور دیگر ایٹمی صنعت مخالفین کو پہلا جواب یہ ہے کہ ان کے دعووں کی قانونی بنیاد ہی مشکوک ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں: ایرانی قوم کی سرنوشت خود اس کے ہاتھ میں ہے، تم کون ہوتے ہو کہ ایران کے افزودگی رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں فیصلہ کرو؟ تمہیں اس میں کوئی قانونی حق حاصل نہیں۔

رہبر انقلاب نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں غزہ میں صہیونی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے لرزہ خیز اور ناقابلِ تصور جرائم کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: وہ ایک مرکز قائم کرتے ہیں جس میں غذا تقسیم کی جا رہی ہوتی ہے، اور پھر وہیں لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ اس حد کی پستی، خباثت، سنگ دلی اور شرارت واقعی حیرت انگیز ہے۔

آپ نے امریکہ کو ان جرائم میں شریک جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا: یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار کہتے ہیں کہ امریکہ کو اس خطے سے نکلنا ہوگا۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری کو بہت بھاری قرار دیا اور فرمایا: آج کسی مصلحت اندیشی، مصلحت پرستی، بے طرفی یا خاموشی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی اسلامی حکومت کسی بھی بہانے یا کسی بھی شکل میں صہیونی ریاست کی حمایت کرتی ہے—چاہے وہ تعلقات کو معمول پر لا کر ہو، فلسطینی عوام کی مدد کی راہ بند کر کے ہو، یا صہیونی جرائم کو جواز فراہم کر کے—تو اسے یقین ہونا چاہیے کہ یہ ننگ و عار ہمیشہ اس کی پیشانی پر ثبت رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے صہیونیوں سے تعاون کرنے والوں کے لیے خداوند کی سخت اور سنگین آخروی سزا کی یاد دہانی کرواتے ہوئے فرمایا: دنیا میں بھی اقوام ان خیانتوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گی۔ مزید برآں، صہیونی حکومت پر تکیہ کرنا کسی بھی حکومت کے لیے امن کا ضامن نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ حکومت اللہ تعالیٰ کے قطعی وعدے کے مطابق زوال پذیر ہے، اور ان شاء اللہ، اس انجام کی تکمیل میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے عرفہ کے دن کو دعا، خشوع، توجہ اور توسل کا بہار قرار دیا اور ملت ایران، خاص طور پر نوجوانوں کو تاکید کی کہ عرفہ کے بابرکت موقع سے بھرپور استفادہ کریں، امام حسینؑ کی عاشقانہ دعا پڑھیں، اور جہاں تک ممکن ہو صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر 47 کی تلاوت کریں اور خدا کے حضور راز و نیاز کریں۔

تقریب کے آغاز میں حجت‌الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے خطاب کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کو تاریخ کا سب سے زیادہ عوامی انقلاب قرار دیا اور فرمایا: "عزت" قوم کی شناخت کا ستون ہے، اور ہمیں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ امام خمینیؒ اور رہبر معظم نے بارہا تاکید فرمائی ہے، "اسلامی عزت" اور "قومی عزت" کو کسی بھی صورت میں نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

امام خمینیؒ کے حرم کے متولی نے لبنان، عراق، یمن اور فلسطین میں اسلامی انقلاب کی بدولت پیدا ہونے والی بیداری اور مزاحمت کو اہم قرار دیا اور غزہ میں صہیونی حکومت کے مظالم پر بعض ممالک کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: آج بھی امام کی وہ صدا گونج رہی ہے کہ "اسرائیل کو مٹ جانا چاہیے"، کیونکہ وہ ایک سرطانی غدہ (کینسر کا پھوڑا) ہے۔

 

 

700 /