حضرت آیتالله خامنہای، رہبرِ معظمِ انقلابِ اسلامی نے آج رات ایک ٹیلی وژن خطاب میں ملتِ عزیزِ ایران سے مخاطب ہوتے ہوئے، بسیج کو «ایک عظیم قومی سرمایہ، ہمہ گیر عوامی تحریک اور قومی طاقت میں اضافے کا عامل» قرار دیتے ہوئے، پے در پے آنے والی نسلوں میں اس کی مضبوط اور باوقار تقویت اور تسلسل کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے امریکہ اور صہیونی حکومت کی جانب سے ایران پر حملے کے کسی بھی مقصد کے حصول میں ناکامی کو ان کی قطعی اور حتمی شکست کی علامت قرار دیا، اور چند نصیحتیں بیان کرتے ہوئے عوام اور تمام سیاسی دھڑوں کو قومی اتحاد کے تحفظ اور تقویت کی دعوت دی۔
آپ نے بسیج کی عظمت کے لیے ذمہ داران کی عملی کاوشوں کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، بسیج کو ایک باوقار قومی تحریک قرار دیا جو الہی اور فطری خصوصیات سے سرشار، خود اعتمادی اور غیرت و حمیت کی حامل ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: بسیج کی چوتھی نسل، یعنی ملک بھر کے عزیز نوجوان، خدمت اور جدوجہد کے لیے پوری طرح آمادہ ہیں، اور بسیج کی یہ قیمتی اور نہایت اہم تحریک ملک میں پے در پے آنے والی نسلوں کے درمیان زیادہ گہری، مسلسل، کاملتر اور مضبوط صورت میں منتقل ہونی چاہیے۔
رہبرِ انقلاب نے بسیج جیسی تحریک کے وجود کو ہر ملک کے لیے رہنمائی کا باعث اور مفید قرار دیا اور فرمایا: ایران جیسے ملک کو، جو کھلم کھلا بین الاقوامی غنڈوں اور استعماری طاقتوں کے مقابل سینہ سپر کیے کھڑا ہے، دیگر تمام ممالک سے بڑھ کر بسیج کی ضرورت ہے۔
حضرت آیتالله خامنہای نے استعماری طاقتوں کی لالچ اور مداخلت کے مقابل اقوام کی مزاحمت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: مزاحمت کا وہ عظیم عنصر جو ایران میں بنیاد پکڑا اور پروان چڑھا، آج دنیا کے مختلف خطّوں میں—جن میں مغربی ممالک بلکہ خود امریکہ بھی شامل ہیں—فلسطین اور غزہ کی حمایت میں لگنے والے نعروں میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
آپ نے بسیج کی زندہ دلی اور نشاط کو دنیا بھر کی اقوام کی جانب سے ظالم طاقتوں کے مقابل مزاحمت کے فروغ کا سبب قرار دیا اور فرمایا: مزاحمت کے بڑھنے سے دنیا کے مظلوم طبقات اپنے لیے پشت پناہی اور قوت کا احساس کرتے ہیں۔
رہبرِ انقلاب نے بسیج کی حقیقت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: بسیج اپنی تنظیمی صورت میں اور سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کا حصہ ہونے کے ناتے دشمنوں کی نگاہ میں رعب و دبدبے کی حامل ہے اور عوام کے سامنے خدمت گزار چہرہ رکھتی ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بسیج کا وہ وسیع پس منظر ہے جو پورے ملک میں، ہر غیرت مند، خدمت کے لیے آمادہ، پُرجوش اور پُرامید فرد اور ادارے کے وجود میں جلوہ گر ہے—چاہے وہ اقتصادی میدان ہو، صنعتی شعبہ ہو، علمی و تحقیقی دنیا ہو، یونیورسٹی ہو یا حوزہ، پیداوار ہو یا کاروباری شعبے یا دیگر میدان۔
حضرت آیتالله خامنہای نے «بسیج کو اس وسیع اور ہمہ گیر مفہوم کے ساتھ» دشمن کے اُن منصوبوں کو ناکام بنانے والا عنصر قرار دیا جو فوجی، اقتصادی، پیداواری، ٹیکنالوجی اور دیگر تمام میدانوں میں بنائے گئے تھے، اور فرمایا: بارہ روزہ جنگ میں شہادت پانے والے ہمارے عزیز سائنس دان، میزائل کے ماہرین، بنانے والے اور داغنے والے، ہر وہ شخص جو مضبوط منطق اور واضح بیان کے ساتھ افواہوں اور وسوسہ انگیزیوں کے مقابل روشنی پھیلاتا رہا اور پھیلا رہا ہے، وہ ڈاکٹر اور نرسیں جو جنگ کے دوران اسپتال چھوڑ کر نہیں گئیں، اور وہ کھیلوں کے ہیرو جو بین الاقوامی میدانوں میں خدا، دین، ملک اور ملت سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں—چاہے وہ تنظیمی طور پر بسیج کے رکن ہوں یا نہ ہوں—سب بسیجی ہیں۔
آپ نے مزید فرمایا: امام خمینیؒ، جو اپنے بسیجی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے، اسی طرح کی ہمہ گیر بسیجی رجحان کے خواہاں تھے؛ ایسی بسیج جو کسی ایک طبقے تک محدود نہ ہو بلکہ تمام اقوام، اصناف اور معاشرتی طبقات کو اپنے دامن میں سمیٹ لے۔
رہبرِ انقلاب نے بسیج سے متعلق اپنی آخری نکتے میں تمام سرکاری اداروں کے ذمہ داران کو تاکید کی: ایک بسیجی کی طرح، ایمان، جذبے اور غیرت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔
حضرت آیتالله خامنہای نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں خطے کے حالات اور بارہ روزہ جنگ کے بارے میں فرمایا: بارہ روزہ جنگ میں ملتِ ایران نے بلا شبہ نہ صرف امریکہ بلکہ صہیونی حکومت کو بھی شکست دی۔ وہ آئے، شرارت کی، لیکن مار کھا کر خالی ہاتھ لوٹ گئے اور اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے، جو ان کے لیے ایک حقیقی شکست تھی۔
آپ نے صہیونی حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف بیس سالہ جنگی منصوبہ بندی کے دعوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انہوں نے ایسی جنگ کا منصوبہ بنایا تھا جس میں عوام کو بھڑکا کر نظام کے خلاف بھی کھڑا کیا جا سکے، لیکن معاملہ بالکل الٹ ہو گیا اور وہ اس طرح ناکام ہوئے کہ نظام سے اختلاف رکھنے والے افراد بھی نظام کے ساتھ آ کھڑے ہوئے اور ملک میں ایک ہمہ گیر اتحاد وجود میں آ گیا۔
رہبرِ انقلاب نے فرمایا: یقیناً ہمیں بھی نقصان اٹھانا پڑا اور جنگ کی فطرت کے مطابق ہم نے قیمتی جانوں کا نذرانہ دیا، لیکن اسلامی جمہوریہ نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ عزم اور اقتدار کا مرکز ہے اور ہنگاموں سے مرعوب ہوئے بغیر پوری قوت کے ساتھ کھڑے رہنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؛ اس کے ساتھ ساتھ، جارح دشمن کو پہنچنے والا مادی نقصان ہمارے نقصانات سے کہیں زیادہ تھا۔
حضرت آیتالله خامنہای نے بارہ روزہ جنگ میں امریکہ کو پہنچنے والے بڑے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس جنگ میں امریکہ کو شدید نقصان اٹھانا پڑا، کیونکہ جدید ترین حملہ آور اور دفاعی اسلحے کے استعمال کے باوجود وہ اپنے اصل مقصد یعنی ملت کو فریب دینے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رہا؛ بلکہ اس کے برعکس، ملت کا اتحاد مزید مضبوط ہوا اور انہوں نے امریکہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا۔
آپ نے غزہ کے سانحے میں صہیونی حکومت کی شدید رسوائی اور بدنامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے—جو خطے کی تاریخ کے اہم ترین المیوں میں سے ایک ہے—فرمایا: اس معاملے میں امریکہ غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ کھڑا رہا اور خود بھی بری طرح رسوا اور بدنام ہوا، کیونکہ دنیا کے عوام جانتے ہیں کہ امریکہ کے بغیر صہیونی حکومت اس پیمانے پر جرائم اور تباہی پھیلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
حضرت آیتالله خامنہای نے موجودہ دنیا کا سب سے زیادہ نفرت کا مستحق فرد صہیونی حکومت کا سربراہ قرار دیا اور دنیا پر حاکم سب سے زیادہ قابلِ نفرت تنظیم اور گروہ کو صہیونی حکومت کہا، اور مزید فرمایا: چونکہ امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہے، اس لیے صہیونیوں کی نفرت امریکہ تک بھی منتقل ہو گئی ہے۔
رہبرِ انقلاب نے دنیا کے مختلف علاقوں میں امریکہ کی مداخلتوں کو اس کی بڑھتی ہوئی تنہائی کی ایک اور وجہ قرار دیا اور فرمایا: امریکہ جہاں بھی مداخلت کرتا ہے، وہاں یا تو جنگ بھڑکتی ہے، یا نسل کشی، تباہی اور بے گھری جنم لیتی ہے۔
آپ نے یوکرین کی بے حد نقصان دہ اور بے نتیجہ جنگ کو امریکہ کی مداخلت کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا: موجودہ امریکی صدر، جو یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ وہ تین دن میں اس جنگ کو ختم کر دے گا، اب تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد اُس ملک پر اٹھائیس نکاتی منصوبہ مسلط کر رہا ہے جسے خود اس نے جنگ میں دھکیلا تھا۔
حضرت آیتالله خامنہای نے لبنان پر صہیونی حکومت کے حملوں، شام پر جارحیت، فلسطین کے مغربی کنارے میں اس کے جرائم اور غزہ کی افسوسناک صورتحال کو بھی جنگ اور جنایت میں صہیونی حکومت کی کھلی امریکی حمایت کی مثالیں قرار دیں اور فرمایا: البتہ بعض افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ ایران کی حکومت نے فلاں ملک کے ذریعے امریکہ کو پیغام بھیجا ہے؛ یہ سراسر جھوٹ ہے اور ایسی کوئی بات قطعاً موجود نہیں تھی۔
آپ نے صہیونی اور مجرمانہ ٹولے کی حمایت کے بدلے میں حتیٰ کہ اپنے دوستوں سے بھی امریکہ کی غداری، اور تیل و زیرِ زمین وسائل کی خاطر دنیا میں جنگ بھڑکانے کی اس کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے—جن کا دائرہ آج لاطینی امریکہ تک پھیل چکا ہے—فرمایا: ایسا ملک ہرگز وہ نہیں ہے جس کے ساتھ اسلامی جمہوریہ تعاون یا تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہو۔
حضرت آیتالله خامنہای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ملتِ ایران کو چند اہم نصیحتیں کیں جن میں سب سے پہلی قومی اتحاد کے تحفظ اور اس کی تقویت تھی۔
آپ نے فرمایا: مختلف طبقات اور سیاسی دھڑوں کے درمیان اختلافات موجود رہتے ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں—جیسا کہ بارہ روزہ جنگ میں ہوا—ہم سب ایک صف میں کھڑے رہیں، کیونکہ یہی ہم آہنگی اور یکجہتی قومی اقتدار کے لیے ایک نہایت اہم عنصر ہے۔
رہبرِ انقلاب نے صدرِ مملکت اور خدمت گزار حکومت کی حمایت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ملک کا انتظام سنبھالنا ایک مشکل اور بھاری ذمہ داری ہے، اور حکومت نے بھی اچھے اقدامات شروع کیے ہیں، جن میں شہید رئیسی کے ادھورے کاموں کا تسلسل بھی شامل ہے، جن کے نتائج انشاءاللہ عوام خود دیکھیں گے۔
اسراف سے اجتناب—چاہے وہ روٹی ہو، گیس ہو، پٹرول ہو یا خوراک کی دیگر اشیاء—رہبر انقلاب کی ملت کے لئے تیسری نصیحت تھی۔ آپ نے اسراف کو گھرانے اور ملک کے لیے سب سے بڑے خطرات اور نقصانات میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا: اگر اس قدر اسراف نہ ہو تو یقیناً ملک کی صورتحال کہیں بہتر ہو جائے گی۔
رہبرِ انقلاب کی آخری نصیحت یہ تھی کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں اور ہر معاملے میں—خواہ بارش ہو، امن ہو یا عافیت—دعا اور مناجات کو اپنا شعار بنائیں، تاکہ خداوندِ متعال اپنے فضل سے امور کی اصلاح کے اسباب فراہم کرے۔
