ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

حجاج بیت اللہ الحرام کے نام پیغام

رہبر معظم کا حجاج بیت اللہ الحرام کے نام پیغام۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمداللہ رب العالمین و الصلٰوۃ علیٰ سید المرسلین و علیٰ آلہ الطیبین و صحبہ الصادقین
حج کا موسم ہر سال کی ماننداس سال بھی معنوی بشارتوں کے ساتھ پہنچ گیاہے اور عالم اسلام کو قیمتی اور گرانبہا موقع فراہم ہوا ہے ۔اگر چہ بے شمار لوگوں کو حج کرنے کی تڑپ ہوتی ہے لیکن جن خوش نصیب افرادکی یہ آرزو پوری ہوئی ہے اگر چہ وہ امت اسلامی کی بہت بڑی تعداد میں سے بہت کم ہیں اور یہ خود انکےاس لازوال چشمہ سے دائمی تمسک و پیوستگی کا نتیجہ ہے خانۂ محبوب میں مسلمانوں کی سالانہ ملاقات دلوں کو ایک جانب سے قبلۂ آفرینش کے ساتھ اور دوسری طرف سے بچھڑے دوستوں کے ساتھ دوبارہ ملادیتی ہے اور امت اسلامیہ کے پیکر میں معنویت کے اعتبار سے بھی اور اس کی اپنی سیاست کے لحاظ سے بھی نشاط و شادابی پیدا کردیتی ہے ۔
مادی آلودگیوں سے پاک ہونا ، ہر جگہ وہرکام میں ، خدا کودیکھنا اگر چہ کچھ ہی دنوں کے لئے ہے لیکن پھر بھی انسان کے لئے ایک بہت بڑی سعادت و توشہ آخرت ہے حج کے تمام آداب و مناسک اس لئے ہیں کہ فریضۂ حج بجا لانے والا اس معنوی تجربے کو حاصل کرے اور اس لذت کو جان و دل سے محسوس کرے ۔سیاسی پہلو میں ، حج میں اصلی محور امت اسلامیہ کے باہمی اتحاد و یکجہتی کے تشخص کا مظاہرہ کرنا ہے ۔مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوری دشمنوں کو انکی صفوں میں اختلاف و تفرقہ ڈالنے کاموقع فراہم کرتی ہے امت اسلامیہ مختلف قوموں ، نسلوں اور مذاہب کے ماننے والوں سے تشکیل پائی ہے اور زمین کے حساس اور اہم علاقوں اور الگ الگ جغرافیائی خطّوں میں اس کا آباد ہونا اس کے تنوع اوراس کےعظیم پیکر کے لئے ایک مضبوط نقطہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس وسیع و عریض دنیا میں اس کی مشترکہ ثقافت ، میراث اور تاریخ (امت اسلامیہ ) کو مزید فعال و کارآمد بنا سکتا ہے اور طرح طرح کی انسانی و فطری قابلیتوں و صلاحیتوں کو مسلمانوں کے لئے بروئے کار لا سکتا ہے ۔مغربی سامراج نے اسلامی ملکوں میں داخل ہوتے ہی اسی نکتہ کو مد نظر رکھا اور اس نے تفرقہ انگیز عوامل کو مسلسل اشتعال دلانے کی کوشش شروع کردی ۔
سامراجی سیاستدانوں کو بخوبی یہ معلوم تھا کہ اگر عالم اسلام متحد ہوگیا تو اس پرسیاسی اور اقتصادی تسلّط جمانے کا راستہ مسدود ہوجائے گالہذاانہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی ہمہ گیر اور طویل المیعاد کوشش شروع کردی اوراس خبیثانہ سیاست کی آڑ میں انہوں نے لوگوں کی غفلت اور سیاسی و ثقافتی حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی ملکوں پر اپنا تسلّط جمانا شروع کردیا۔
گذشتہ صدی میں اسلامی ممالک میں حریت پسندانہ تحریکوں کی سرکوبی اور ان ملکوں پر تسلّط جمانے میں سامراجی طاقتوں کی پیشقدمی اور ان میں استبدادی حکومتوں کا قیام یا انکی تقویت اور ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ کھسوٹ و انسانی وسائل کی نابودی و تباہی اور اسکے نتیجے میں مسلمان قوموں کو علم و ٹیکنالوجی کے قافلے سے پیچھے کردینا یہ سب کے سب سامراجی منصوبے مسلمانوں کےاختلاف و عدم اتحاد کی وجہ سے ممکن ہوئے ہیں جو کبھی کبھی دشمنی ، جنگ و جدال اور برادر کشی پر بھی منتج ہوئے ہیں ۔ اسلامی بیداری کے آغاز سے مغربی سامراج کو سنگین خطرے کا سامنا ہوا ۔ جس کا نقطۂ عروج ایران میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام تھا ۔
مشرق و مغرب کے سیاسی مکاتب کی شکست اور سامراجی طاقتوں کی اُن اقدار کے غلط ثابت ہونے اور ان کی دھجیاں بکھر جانے سے جنہیں وہ انسانیت کی فلاح و کامیابی کا واحد ذریعہ سمجھتی تھیں مسلمان قوموں کے درمیان اسلامی خود آگہی کی بنیاد مضبوط ہوئی اور اس چراغ الٰہی کو خاموش کرنے اور اس نور کو چھپانے میں استکباری طاقتوں کی پے در پے ناکامیوں نے مسلمان قوموں کے دلوں میں امید کے پودے کو مضبوط و بارور بنادیا ہے ۔
آج کے فلسطین کو دیکھئے جہاں آج " صیہونی قبضے سے آزادی " کے جامع اصول پر کاربند حکومت بر سر اقتدار آئي ہے اور پھر ماضي میں فلسطینی قوم کی غربت ، تنہائي اور ناتوانی سے اس کا موازنہ کیجئے ، لبنان پر نگاہ ڈالئے جہاں کے دلیر و فداکار مسلمانوں نے اسرائیل کی مسلّح فوج کو شکست دی جسے امریکہ و مغرب اور منافقوں کی پوری مدد حاصل تھی اور پھر اس کا اُس لبنان سے موازنہ کیجئے کہ صیہونی جب چاہتے تھے اور جہاں تک چاہتے تھے کسی مزاحمت کے بغیر آگے تک چلے جاتے تھے ۔
عراق پر نگاہ ڈالئے کہ جس کی غیرت مند قوم نے مغرور امریکہ کی ناک رگڑ دی اور اس کی فوج اور ان سیاستدانوں کو جو کبر و نخوت کے عالم میں عراق پر اپنی مالکیت کا دم بھرتے تھے سیاسی ، فوجی اور اقتصادی دلدل میں پھنسا دیا اور پھر اس کا اس عراق سے موازنہ کیجئے جس کے خونخوار حاکم نے امریکہ کی پشتپناہی سے لوگوں کا جینا حرام کررکھا تھا، افغانستان پر نگاہ ڈالئے کہ امریکہ اور مغرب کے تمام وعدے جہاں فریب اورجھوٹ ثابت ہوئےاور جہاں مغربی اتحادیوں کی غیر معمولی اور بے تحاشا لشکرکشی نے اس ملک کی تباہی و ویرانی اورلوگوں کوغربت زدہ بنانے ان کا قتل عام کرنے اور منشیات کے مافیا گروہوں کو روز بروز مضبوط بنانے کے سواء اور کچھ نہیں کیاہے اور سرانجام اسلامی ملکوں میں جوان معاشرے اور پروان چڑھتی ہوئی نسل پر نگاہ ڈالئے جس میں اسلامی اقدار کا رجحان بڑھ رہا ہے اور امریکہ و مغرب سے نفرت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ۔
ان تمام واقعات پر نگاہ ڈالنے سے مغربی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی بد بختی اور شکست خوردہ پالیسیوں کی حقیقی تصویر کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام واقعات اس بات کی بشارت دے رہے ہیں کہ امت اسلامیہ متحد ہورہی ہے ۔
اس وقت امریکی حکومت ، مغربی سرمایہ داری اور مفسد صیہونی کارندے اسلامی بیداری کی زندہ حقیقت کو درک کررہے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اسلحہ و فوجی قوت اس حقیقت کے مقابلے میں کارگر نہیں ہے اپنی تمام تر قوت و صلاحیت فریب اور سیاسی شعبدہ بازیوں میں صرف کررہے ہیں ۔آج وہ دن ہے جب امت مسلمہ کو خواہ اس کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں یا ثقافتی شخصیتوں و دانشوروں یا پھر عوام الناس، سب کو پہلے سے زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے انہیں چاہئے کہ دشمن کے حیلوں کو سمجھیں اور ان کا مقابلہ کریں دشمن کے پاس سب سے موثر حیلہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی آگ کو بھڑکانا ہے ۔ اسلام دشمن عناصر پیسے اور مسلسل جد وجہد کے ذریعہ مسلمانوں کو اختلافات میں الجھانا چاہتے ہیں اور ایکبار پھر غفلتوں ، نادانیوں ،کج فہمیوں ، اور تعصبات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں ۔
آج ہر وہ اقدام جو عالم اسلام میں تفرقہ انگیزی کا باعث ہو تاریخی گناہ ہے وہ لوگ جو دشمنانہ طریقے سے مسلمانوں کےایک عظیم گروہ کو بے بنیاد بہانوں سے کافر قرار دے رہے ہیں ، وہ لوگ جو باطل گمان و خیالات کی بنیاد پر مسلمانوں کے کچھ فرقوں کے مقدسات اور مذہبی مقامات کی اہانت کررہے ہیں ، وہ لوگ جولبنان کے ان جانباز جوانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں جو امت اسلامیہ کی سربلندی اور عالم اسلام کے لئے باعث فخرہیں وہ لوگ جوامریکہ اور صیہونیوں کی خوشامد کے لئے ہلال شیعی یا شیعہ بیلٹ کے نام سے موہوم خطرے کی باتیں کررہے ہیں ، وہ لوگ جو عراق میں عوامی اورمسلمان حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اس ملک میں بد امنی اور برادر کشی کو ہوا دے رہے ہیں وہ لوگ جو حماس کی حکومت پر ہرطرف سے دباؤ ڈال رہے ہیں جو ملّت فلسطین کی محبوب اور منتخب حکومت ہے وہ لوگ خواہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ایسے مجرم شمار ہوتے ہیں کہ تاریخ اسلام اورآئندہ کی نسلیں ان سے نفرت کریں گی اور انہیں غدار دشمنوں کا پٹھو سمجھیں گی ۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عالم اسلام کی حقارت و پسماندگی کا دور ختم ہوچکاہے اوراب نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے یہ خیال باطل کہ مسلمان ملکوں کو ہمیشہ مغرب کے سیاسی و ثقافتی اقتدار کے پنجہ میں اسیر رہنا ہے اور انفرادی و اجتماعی فکر وگفتار و عمل میں مغرب کی ہی تقلید و پیروی کرنا ہے اب خود مغرب والوں کے ہاتھوں اور اس کے غرور و طغیان و انتہا پسندی کے نتیجے میں مسلمان قوموں کے ذہنوں سے پاک ہوچکا ہے۔
مغرب خاص طور پر امریکہ کی سرپرستی میں آنے کے بعد کھلم کھلا ظلم و ستم غیر منطقی اقدامات اور بے حد و حساب غرور و تکبر کی وجہ سے عالم اسلام میں اقدار دشمن عنصر میں تبدیل ہوگياہے فلسطینی عوام سے مغربی ملکوں کا سلوک اوراس کے مقابلے میں خونخوار صیہونی حکومت کے ساتھ ان کا رویّہ ، ایٹمی ہتھیار رکھنے پرمبنی صیہونی حکومت کے اعتراف کے مقابلے میں ان کا موقف اور دوسری طرف پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی سے استفادے کے ایران کےحق کے خلاف ان کا موقف ، لبنان پر فوجی حملے کے لئے ان کی حمایت اور جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے ان کی فوجی اورسیاسی حمایت اوردوسری طرف اپنا دفاع کرنے والے لبنانی جانبازوں سے ان کی دشمنی عرب حکومتوں سے ان کی مسلسل و دائمی سودے بازی اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے ذریعے خود مغرب کا بلیک میل ہونا ،اسلامی مقدسات کی اہانت کرنے والوں حتی اس دین الہی کی شان میں پاپ جیسے مغرب کے اعلی ترین عہدیداروں کی کھلی اہانت و افترا پردازی کی حمایت اور دوسری طرف ہولوکاسٹ اور صیہونیت کے بارے میں تحقیق و شک و تردید کو جرم شمار کیاجانا، ڈیموکریسی کے نام پرعراق و افغانستان میں قتل عام تباہی و ویرانی اورفوجی حملہ اوردوسری طرف فلسطین و عراق و لاطینی امریکہ میں منتخب جمہوری حکومتوں یا جہاں کہیں بھی امریکہ اور صیہونیزم کے آلۂ کار اقتدار میں نہ آئے ہوں ان حکومتوں کے خلاف سازشیں کرنا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پروپیگنڈہ اور دوسری طرف عراق اور دوسری جگہوں کے دہشت گردوں سے خفیہ ساز باز اور حتی ان کی مدد کرنا ، ان نامعقول اور دشمنانہ حرکتوں اور اقدامات نے مسلمان قوموں پر حجت تمام کردی ہے اور اسلامی بیداری میں مدد دی ہے ۔
آج خواہ وہ چاہیں یا نہ چاہيں دنیائے اسلام میں گہری اورمضبوط تحریک کا آغاز ہوچکاہے اور یہی وہ تحریک و بیداری ہےجو اپنے مناسب وقت پر امت اسلامیہ کی حیات نو ، آزادی اورعزت کا باعث بنےگی ۔
یہ ایک فیصلہ کن تاریخی مرحلہ ہے اس مرحلے میں علماء ، دانشوروں اور روشن خیال لوگوں کے کاندھوں پرسنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،ان لوگوں کی طرف سے ہر طرح کی کمزوری ، سست روی ، کوتاہی اور خود غرضی سے ایک المیہ بپا ہوسکتاہے ۔علماء دین کو مذہب کے نام پر اختلافات کو ہوا دئے جانے کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے ۔روشن خیال لوگوں کو جوانوں کے اندر امید کی روح پھونکنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے ۔سیاستدانوں اور حکام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو میدان میں موجود رہنے کی تلقین کرتے رہیں اور عوام پر بھروسہ کریں ! اسلامی حکومتیں اپنی صفوں میں اتحاد کو مضبوط بنائیں اور تسلّط پسندوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں اس حقیقی قوت سے استفادہ کریں ۔آج امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ادارے عراق ، لبنان اور شمالی افریقہ کے ممالک میں جہاں جہاں ان کی رسائی ہوسکتی ہے پوری قوت کے ساتھ مذہبی اختلاف کے جراثیم پھیلارہے ہیں ۔حج کے اجتماع کو ہمیں اس مہلک بیماری کے مقابلے میں محفوظ رکھنا چاہئے اور آیۂ شریفہ واطیعو اللہ و رسولہ و لا تنازعوا فتفشلوا و تذہب ریحکم و اصبروا ان اللہ مع الصابرین(اور اللہ اور اسکے رسول (ص) کی اطاعت کرواورآپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤاور تمھاری ہوا بگڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) ،کو مسلسل اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے ۔آج مشرکین سے برائت و بیزاری تمام مسلمان قوموں کی قلبی اور فطری آواز ہے ۔موسم حج وہ تنہا موقع ہے جب یہ آواز ان تمام قوموں کی جانب سے فلک شگاف نعرے کی شکل اختیار کرسکتی ہے ۔اس موقع کو غنیمت سمجھئے اور امت مسلمہ کے لئے دعا اور مہدی موعود سلام اللہ علیہ و عجل اللہ فرجہ کے ظہور میں تعجیل کی دعا کے ساتھ اس بحر بیکراں میں اپنے پورے وجود کو غوطہ زن کیجئے اور گناہوں کو دھوڈالئے آپ سب کے لئے کامیابی ، خوشبختی اور حج کی مقبولیت کے لئے دعا گو ہوں ۔
سیدعلی خامنہ ای
3/دی ماہ/ 1385 مطابق 24/12/2006

700 /