رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح صوبہ فارس کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں اساتذہ اور طلباء کے پرجوش اجتماع سے خطاب میں انقلاب اسلامی کے عمل اوراس کی کارکردگی کے بارے میں صحیح قضاوت کے لئے " جمہوری اسلامی کے طے شدہ راستوں ، اہداف اور اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں " پر وسیع نظر رکھنے کو ضروری قراردیتے ہوئےفرمایا: پائداری، جہد مسلسل، وحدت ، موانع کو بر طرف کرنے کی پیہم جد وجہد، مقصد کو پیش نظر رکھنا ، درحقیقت انقلاب کے تمام اہداف اور اصولوں کو پورا کرنے کا سامان فراہم کرےگا۔
رہبر معظم نے جوانوں کے ساتھ نشست کو بہت شریں ، لذت بخش اور دوستانہ قراردیا اور انقلاب کے ماضی، حال اورمستقبل کی وضاحت میں سطحی نگاہ کوپروگرام مرتب کرنے اور عملی قدم اٹھانے کے معنی میں ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی جیسے عظیم واقعہ کے بارے میں قضاوت کے وقت سطحی نگاہ ممکن ہے گمراہی اور غفلت کا باعث بن جائے لہذا اس سلسلے میں وسیع النظری سے استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے بارے میں درست قضاوت اور ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے اہداف کے بارےمیں سب سے پہلے غور و فکر کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی سے قوم کا مقصد ایسے ایران کی تعمیر تھا جو مستقل ،ظلم و استبداد اور وابستگي سے آزاد،سلامتی اور ثروت سے بہرہ مند ، دیندار ، اخلاق و معنویت کا حامل ، اور علم و پیشرفت کے میدان دوسری اقوام کے مقابلے میں آگے کی سمت رواں دواں ہو تاکہ دوسری اقوام پر واضح ہوسکے کہ اسلامی معاشرے کا نمونہ موجود ہے اور اس پر عمل بھی ممکن ہے۔
رہبر معظم نے انقلاب کے اہداف کے سرچشمہ اور توجہ کی تشریح میں ایرانی قوم کی تاریخی حرکت کو اسلامی اصولوں پر مبنی قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلام کے بارے میں بعض غلط تصورات و نظریات کے برخلاف انقلاب کے تمام دنیوی اور اخروی اہداف کا سرچشمہ اس کی اسلامی خصوصیت ہے کیونکہ دین مبین اسلام انسان کی تمام مادی اور معنوی ضروریات پر محیط ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی اور بیرونی موانع کے بارے میں غور و خوض کو انقلاب کی کارکردگی کےبارے میں دوسری ضرورت قراردیتے ہوئے فرمایا: سنت الہی کے پیش نظر ہر کوشش و تلاش بعض موانع سے روبرو ہوتی ہے تاکہ جہاد اور پائداری جیسے مفاہیم حقیقی لباس پہن سکیں اور ان مفاہیم کے محقق ہونے کی صورت میں مجاہدین کی کامیابی بھی سنت الہی کے پیش نظر محقق ہوجائے گی۔
رہبر معظم نے انقلاب کے اندرونی موانع کی تشریح میں " فکری و عقلی " کمزوریوں، راحت طلبی ، آرام پسندی، آسان تصور ، چیلنجوں سے گریز، مشکلات سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ نہ ہونے جیسی مشکلات اور ستمشاہی کے دور سے بعض باقی ماندہ غلط عادات و رسومات جیسے احساس کمتری، ظلم برداشت کرنا، مہدویت اور ظلم سے مقابلہ کرنےجیسے دینی مفاہیم اور احکامات کو غلط سمجھنے اور بعض انحرافی و میراثی عقائد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بہت سے موانع عوام اور حکام کی تلاش و کوشش کے نتیجے میں برطرف ہوگئے ہیں لیکن بعض ابھی بھی اسی طرح باقی ہیں۔
رہبر معظم نے انقلاب کے لئے بیرونی موانع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شرپسند اور انقلاب مخالف عناصر کی صف آرائی اور وہ تمام لوگ جنھیں انقلاب سے کسی نہ کسی عنوان سے نقصان پہنچااور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ بیرونی موانع تھے لیکن ایران کی عظیم قوم نے حقیقی معنی میں ان بڑے چیلینجوں سے ملک کی علمی پیشرفت و ترقی کے سلسلے میں بھر پور فائدہ اٹھایا لیکن بہر حال آٹھ سالہ مسلط کردہ اور طولانی جنگ سے کافی نقصانات بھی برداشت کرنا پڑے۔
رہبر معظم نے بڑی طاقتوں کے پروپیگنڈے اور امریکہ کی طرف سے سیاسی ، اقتصادی اور ذرائع ابلاغ کے گمراہ کن پروپیگنڈوں کو ایرانی قوم پر ضرب لگانے کا ایک اوربیرونی مانع قراردیتے ہوئے فرمایا: اندرونی اور بیرونی بڑی رکاوٹوں کے پیش نظر انقلاب کی کارکردگي اور ایرانی قوم کی اپنے اہداف کی سمت حرکت بہت اچھی رہی ہے۔
رہبر معظم نے انقلاب اسلامی کے مد مقابل بعض جدید بیرونی اور اندرونی رکاوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: غلط مصرف ،تجمل گرائی ، برتری اور اشرافیگری جیسے اندرونی موانع افسوس کے ساتھ آج بھی معاشرے میں موجود ہیں اور عوام اور حکام کی ہمت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان مشکلات کو حل کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے بیرونی صف آرائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ اپنی تمام سیاسی ، اقتصادی اور تبلیغاتی توانائی اور بین الاقوامی اثر و نفوذ کے ساتھ ایرانی عوام کے مد مقابل صف آرا ہے امریکی حکام اس مقابلے اور صف آرائی کے ذریعہ " بیرونی دشمن کے بہانے سے اپنی داخلی ناکامیوں اور کمزورپالیسیوں کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں" اور حقیقت یہ ہے کہ ایرانی عوام نے استقامت اور پائداری کا علم بلند کرکے اقوام عالم کو بیدار کیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ سمجھتا ہے کہ اس کی عالمی تسلط پسندانہ پالیسی کو ایران سے زبردست خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
رہبر معظم نے بیرونی اور اندرونی موانع کے ساتھ انقلاب کے آئندہ تقابل اورانقلاب کے ابتدائی دور کی نسبت موجودہ دور میں اس کی قوت کے نقاط کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: تجربات میں مزید اضافہ، علمی میدان میں کہیں زیادہ پیشرفت، اقتصادی شعبہ میں حرکت کرنے کی وسیع قدرت، مشرقی و مغربی نمونوں کے پیروی کے غلط ہونے کا ادراک و فہم اور اسلامی- ایرانی توسیع کے نقشہ کی تدوین پر کام، البتہ اس کی تدوین مزید سنجیدگی کے ہمراہ ہونی چاہیے یہ نقاط منجملہ قوت کے نقاط ہیں جو اگر بعض خصوصیات و شرائط کے ہمراہ ہوں تو ان کی بدولت ایرانی عوام تمام موانع پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوجائے گی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء اور یونیورسٹیوں میں سرگرم افراد کو اس ملاقات میں بیان ہونے والے مطالب پر تحقیق اور ان کی فصل بندی اور راہ حل پیش کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا : البتہ جامع اور کلی روش واضح ہے اور اس کا دار ومدار عوام اور حکام کی مسلسل جدوجہد اور کوششوں پر منحصر ہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: طلباء کی فضا میں درس، تحقیق اور تحلیل وتجزیہ ، انقلاب کے اہداف پر وسیع نظراور مکمل ہوشیاری ، دشمن کو یونیورسٹی اور طلباء کے مسائل سے سوء استفادہ کرنے کی اجازت نہ دینے اوراس پرکڑی نظر رکھنے سےیہ جامع روش ظہور پذیر ہوگی۔
رہبر معظم نے طلباء میں دینداری کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: خدا وند متعال پر توکل اور اس کی طرف توجہ، معنویت اور قرآن کریم کے ساتھ انس ولگاؤ ، دعائیں منجملہ صحیفہ سجادیہ کی دعائیں طلباء کی علمی تلاش میں برکت عطا کرتی ہیں اور ایسے شوم منصوبوں کی شکست کا موجب بنتی ہیں جن کی وجہ طلباء کی فضا میں دینی اور انقلابی ماحول کو کمرنگ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں قوم کے اتحاد منجملہ طلباء کی صفوں میں اتحاد کو " انقلاب کے اہداف کے محقق ہونے " اور موانع پر غلبہ پانے کی ایک اور شرط قراردیتے ہوئے فرمایا: طلباء کی یونینوں میں مثبت رقابت ضروری اور اچھی بات ہے لیکن روشوں کا اختلاف کسی جگہ بھی معمولی مسائل پر شور و غل برپا کرنے کا سبب نہیں بننا چاہیے۔
رہبر معظم نے فرمایا: علمی تلاش و کوشش، اتحاد ، دینداری اور عدالت کے ہمراہ اقتصادی پیشرفت انقلاب کے موجودہ دور کی بنیادی ضروریات ہیں جو اگر خلاقیت کے نکتہ نگاہ کے ہمراہ ہوں تو بے شک یہ امورانقلاب کے اپنے اہداف تک سرعت سے پہنچنے اور دشمنوں کی شکست کا موجب بنیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عدل و انصاف کو تمام اقتصادی سرگرمیوں کا ملاک و معیار قراردیتے ہوئے فرمایا: سرمایہ گذاری اور کام فراہم کرنا بہت بڑا کام اور ایک قسم کی عبادت ہے لیکن اس سلسلے میں قوہ مجریہ ، قوہ مقننہ اور قوہ عدلیہ کو نگرانی رکھنی چاہیے کہ کہیں عدالت کمرنگ یا فراموش نہ ہوجائے ۔
رہبر معظم نے طلباء کی یونینوں کے نمائندوں اور ممتاز طلباء کے سنجیدہ سیاسی ، سماجی اور علمی مطالبات پر خوشی کا اظہارکیا اور اس سلسلے میں بعض نکات کی طرف ان کی توجہ مبذول کرتے ہوئے فرمایا: ممتاز افراد کی حمایت کے سلسلے میں واضح و آشکار روش کا ہونا ضروری ہےاورحکام اس موضوع کو انجام دینے کی تلاش کررہے ہیں اور بعض اہم مسائل میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
رہبر معظم نے اعلی تعلیم کے افسروں کو طلباء کے لئے تحقیقاتی مراکز قائم کرنے کی طلباء کی تجویز پر غور وفکر اور اسے عملی جامہ پہنانے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: طلباء کے ماحول میں ایسی فضا فراہم کرنا چاہیے جو فکر و عمل اور گفتگو پر مشتمل ہو تاکہ حکام کے لئے ہدایت شدہ فضا وجود میں آجائے۔
رہبر معظم نے جوان طلباء کو مسلسل عدل و انصاف کا مطالبہ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: عدل و انصاف کا مطالبہ مؤمن جوان اور طالب علم کی شان و شوکت ہےاور اس کو حتی ایک لمحہ کے لئے بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔لیکن اس سلسلے میں مصادیق پر متمرکز نہیں ہونا چاہیےکیونکہ ممکن ہے یہ مسئلہ اشتباہات یا عدم اطلاعات کے ہمراہ ہو اور اس سے بعض قانون شکن افراد سؤ استفادہ کرنے کی کوشش شروع کردیں۔
طلباء کی دیگر تجاویز میں کلاسیک علوم پر توجہ، پیام نور یونیورسٹی کی مشکلات پر توجہ، حکومت کے لوائح پر اجراء سے قبل یونیورسٹیوں میں بحث وتحقیق شامل تھیں جن کے بارے میں رہبر معظم نے اشارہ فرمایا۔
رہبر معظم نے طلباء کے اہم کردار پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام اور ہمیں پروردگار متعال کے بعد مؤمن ، پر نشاط اور اصول پسند جوانوں پر اعتماد ہےاور ہمیں اطمینان ہے کہ انقلاب کے تمام اہداف و شعار آپ جوانوں کی ہمت کی بدولت حتمی طور پر محقق ہوجائیں گے۔
اس ملاقات کے آغاز میں صوبہ فارس کی یونیورسٹیوں کے بعض اساتذہ اور طلباء نے مختلف سیاسی ، سماجی، علمی ، یونیورسٹی اور ثقافتی مسائل پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ اجتماع رہبر معظم کی موجودگی میں طلباء کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
حضرات وخواتین:
ڈاکٹر سید ضیاء الدین تابعی – میڈيکل یونیورسٹی کے استاد
امین امامزادہ – شیراز یونیورسٹی کے ممتاز اورعالمی اختراعاتی مقابلوں میں منتخب طالب علم
منصور کنعانی- رضاکار طلباء کے نمائندے
سعیدہ پور احمدی- میڈيکل یونیورسٹی کی ممتاز طالبہ
سعید زہیری- طلباء کی اسلامی انجمن کے نمائندے
سیدہ جنان ہاشمیان- پیام نور یونیورسٹی کی ممتاز طالبہ
علی عباس آبادی- جامعہ اسلامی طلباء کے نمائندے
محمد امین- آزاد یونیورسٹی کے ممتاز طالب علم
مذکورہ افراد نے مندرجہ ذیل نکات پر تاکید کی:
شیراز میں جامع علوم و ہنر اکیڈمی کی تاسیس
یونیورسٹیوں کے اختیارات اور استقلال میں اضافہ
ملک میں تحقیقات کی متمرکز مدیریت اوریونیورسٹی تحقیقاتی وسائل میں اضافہ
توسیع کے پانچویں منصوبے کی تدوین میں قومی پیشرفت و توسیع کے نمونوں پر مکمل توجہ
طلباء کے لئے تحقیقاتی مراکز کا قیام اور طلباء کی علمی یونینوں میں فروغ
یونیورسٹیوں کی ثقافتی اور معنوی ضروریات فراہم کرنے پر کامل توجہ
تینوں قوا کی عدالت پر توجہ، محرومین پر مسلسل توجہ ، حکام کے لئے سادہ زندگی بسر کرنا،اقتصادی مفاسد سے وسیع پیمانے پر مقابلہ کرنا
ایرانی عوام کے حقوق اور انقلاب اسلامی کے اصولوں سے دفاع کے سلسلے میں طلباء کی تمام یونینوں کے درمیان اتحاد
حکومت کی تجاویز کی اجراء سے قبل یونیورسٹیوں میں تحقیق و بحث
عمومی ثقافت میں تبدیلی لانے کی ضرورت
آزاد فکری اور تحلیلی نشستوں کو فعال بنانا
یونیورسٹی حکام کا سافٹ ویئر تحریک کے سلسلے بیداری اور علم کی پیداوارپر توجہ مبذول کرنا
اس ملاقات میںاعلی تعلیم وریسرچ وٹیکنالوجی کے وزیر نے اپنے رپورٹ میں اعلی تعلیم کی کمی و کیفی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کے آغاز میں ملک میں 170 ہزار طلبا ء تھے جن کی تعداد اس وقت بڑھ کر تین ملین اور 300 ہزار تک پہنچ گئی ہے انھوں نے کہا : سن 1357 شمسی میں صوبہ فارس میں 2ہزار طلباء تحصیل علم میں مشغول تھے اور یہ تعدا اب 170 ہزار سے اوپر پہنچ گئی ہے۔
ڈاکٹر زاہدی نے کہا کہ بین الاقوامی معیاروں کی بنیاد پر اسلامی کانفرنس تنظیم نے جمہوری اسلامی ایران کو یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کے لحاظ سے عالم اسلام میں منتخب کیا ہے اور اس کام کے مقدمات فراہم ہوگئے ہیں۔
اس ملاقات میں اعلی تعلیم وریسرچ وٹیکنالوجی کے وزیر، صحت کے وزیر ۔ یونیورسٹیوں میں نمائندگی ولی فقیہ ادارے کے سربراہ ، شیراز یونیورسٹیوں کے سربراہان ، صوبہ فارس یونیورسٹیوں کے طلباء، پیام نور اور آزاد یونیورسٹی کے طلباء موجود تھے۔