رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج سہ پہر مختلف یونیورسٹیوں کے ممتاز علمی مقابلوں کے منتخب سیاسی اور ثقافتی تنظیموں سے وابستہ سینکڑوں طلاب سے اپنی ملاقات میں ، طلباء کی جانب سے ، سیاسی، ثقافتی، اور سماجی اور دیگر شعبوں میں اپنے مطالبات کو پیش کرنے کو ایک اچھا قدم اور اسے ہر طالب علم کی ذمہ داری قراردیتے ہوئے اس بات پر تاکید فرمائی کہ "عقل و منطق"کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ مطالبات و اہداف کو جامہ عمل پہنانے کی کوشش، یونیورسٹی اور دیگر علمی مراکز کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے۔
رہبر معظم نے اس ملاقات میں ، جوان طلباء کی طرف سے اپنے مطالبات اور نظریات پیش کرنے کےجذبے کو سراہتے ہوئے فرمایا: میں نے ہمیشہ سے اس بات پر تاکید کی ہے کہ ہمیں اس دن سے ڈرنا چاہیے جب طلباء کے زبان پر تالے پڑجائیں اور وہ اپنی مانگوں اور جایز مطالبات کو پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں ، خداوند متعال کے لطف و کرم کی بدولت آج یہ صورت حال نہیں ہے ، ہم سب کو اپنی تمام کوششوں کو بروئے کار لانا چاہیے تا کہ ملک کی جوان نسل میں اپنے مطالبات کو پیش کرنے کا جذبہ روز بروز فروغ پاسکے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ذارئع و وسائل کی محدودیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : تھوڑے عرصہ میں تمام مطالبات کو پورا کرنا تقریبا نا ممکن ہے بڑے اور عظیم اہداف کی حصولیابی کے لئے " طویل المیعاد " منصوبوں کی ضرورت ہے لیکن افراط و تفریط سے اجتناب کرتے ہوئے ، ان مطالبات کا پیش کرنا اور عقلانیت و اعتدال پر مبنی"تعاقب" یقینا ہماری یونیورسٹیوں کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے ۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے نوجوانوں اور طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ جان لیں کے آپکے مطالبات اور انکا تعاقب،مثمر ثمر ہوگا اور اسکے درخشان نتائج سامنے آئیں گے اگر یونیورسٹی کے مؤمن اور ذمہ دار طلباء نے سماج میں "عدالت خواہی" کا پرچم نہ لہرایا ہوتا تو لوگوں کی سیاسی فکر ، عدالت محور حکومت کے انتخاب پر منتج نہ ہوتی اور نہ ہی آج معاشرے میں عدالت و انصاف جیسے مفاہیم مورد بحث و گفتگو ہوتے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوان طلباء کو اپنے مطالبات میں پختہ فکر لانے اور انہیں متعلقہ مراکز میں پیش کرنے ، اور انکے تعاقب کی ضرورت کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: یہ سب امور مطالبات کو پورا کرنے کی راہ ہموار کرتے ہیں،لہذا ہمارے جوانوں کو ، سیاسی،سماجی اور علمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان مسائل پر بھی توجہ دینا چاہیے اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہیے ۔
رہبر معظم نے بلند مقاصد کے حصول کو سعی پیہم کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: طلباء کا اپنے مطالبات پر ثبات قدم حتی یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد ، ان مطالبات سے وفاداری ، یونیورسٹی کے ماحول کو صحیح سمت وسو دینے سے ان مسائل کو حل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
رہبر معظم نے یونیورسٹی میں ممتاز و برجستہ سیاسی شخصیات کی پرورش و تربیت کو ان مطالبات کی فضا قائم رکھنے کا ایک ذریعہ قراردیتے ہوئےفرمایا: قومی میڈیا کو برجستہ علمی ، سیاسی اور سماجی شخصیات کو متعارف کرانے کی سنجیدہ کوشش کرنا چاہیے ، طلباء کی مختلف تنظیموں کو سیاسی شخصیات کی تربیت کا بیڑا اٹھاتے ہوئے علمی محافل میں "بحث و استدلال" کی فضا کو فروغ دینا چاہیے اور طلباء کی فکری اور سیاسی بنیادوں کو مضبوط بناتے ہوئے ان میں امید کی کرن جگانا چاہیےتا کہ طلباء، آئندہ برسوں میں بھی اس فضا میں سانس لے سکیں اور اپنے بلند و بالا مقاصد کے حصول کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں تمام حکومتی اہلکاروں اور ملکی شخصیات پر تنقید اور ان سے اپنےجائز مطالبات و حقوق کا مطالبہ کرنے کو ، ایک طبیعی اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ یہ تنقید، انتظامیہ اور دیگر عہدیداران حکومت سے دشمنی اور ٹکراؤ کا باعث نہیں بننا چاہیے، تنقید اور دشمنی میں واضح فرق ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی پر مثبت تنقید نہ کی جائے اور اعلی حکومتی عہدیداروں اور رہبری سے اپنے جائز حقوق کا مطالبہ نہ کیا جائے اسلئے کہ محبت اور دوستی کی فضا کو بر قرار رکھتے ہوئے بھی تنقید کی جاسکتی ہے۔
رہبر معظم نے ایک طالب علم کی طرف سے ولایت فقیہ کی مخالفت کی حدود کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: مخالفت اور ضدیت کے معنی، دشمنی و عناد کے ہیں ، لیکن اگر کوئی شخص کسی چیز کا معتقد نہ تو اسکا مطلب ، مخالفت وضدیت نہیں ہے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ساتھ خصوصی ملاقاتوں کے بارے میں پھیلائی جانے والی بعض بے بنیاد افواہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر کسی مصلحت کی بنا پر کوئی بات کھلے عام بیان کرنے کے قابل نہ ہومثلا مصلحت یہ ہو کے یہ بات دشمن کو پتہ نہ چلے تو ظاہر ہے کہ ایسی بات کھلے عام بیان نہیں ہوگی ورنہ میری باتیں وہی ہیں جو میں عوام اور حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتوں میں گوش گذار کرتا رہتا ہوں اور خصوصی ملاقاتوں کے سلسلہ میں جو افواہیں پھیلائی جارہی ہیں ان میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: حکومت کی تائید و حمایت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسکے باریک و درشت ،چھوٹے، بڑے تمام امور میرے مورد تائید ہیں۔
رہبر معظم نے فرمایا: موجودہ حکومت انصافا ایک خادم، فعال اور سوفی صد میری مورد اعتماد حکومت ہے لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ رہبریت ، حکومت کی تمام سرگرمیوں اور انکی جزئیات سے آگاہ ہے اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ حکومت کی مختلف پالیسیوں پر تنقید نہیں کی جاسکتی ۔
رہبر معظم نے اس سلسلہ میں مزید فرمایا: رہبریت کے لئے حکومت کے تمام اداروں اور وزارتوں کی جزئی فعالیتوں سے مطلع ہونا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی ممکن! چونکہ ہر ایک کی ذمہ داری اور فریضہ متعین ہے ، لہذا رہبریت کو ملک کے اجرائی امور میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصہ میں ، علم اور سیاسی فکر میں پیشرفت، ایمان اور دینی معرفت میں عمق و گہرائی، دینی روشن فکری ، علم و سیاست کے نئے میدانوں میں قدم رکھنے کو ، یونیورسٹی اور اس کے طلباء سے عوام اور رہبریت کی توقعات قراردیتے ہوئے فرمایا: خدائی خلقت کا نظام ، حق کی سرافرازی و کامیابی پر استوار ہے ، اور جہاں کہیں بھی "ایمان اور محنت" پائے جاتے ہوں وہاں ترقی و کامیابی کا ہونا یقینی ہے ، اسی بناپر میں یونیورسٹیوں کے مستقبل کے بارے میں نہایت پر امید ہوں۔
اس ملاقات کے آغاز میں بعض ممتاز طلباء اور طلباء کی بعض سیاسی، ثقافتی اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے مختلف مسائل کے بارے میں اظہار خیال کیا، جن کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں۔
_ مہدی امام قلی، یونیورسٹیوں میں مستقل اسلامک اسٹوڈننٹس یونین کے نمائندہ۔
_ احسان کاوند کار، صنعتی انجینرینگ شعبہ کے اسکالر اور ممتاز محقق۔
_ محسن منصوری ،جامعہ اسلامی یونین کے نمایندہ۔
_آزادہ حاجتی، موجودہ سال کے میڈیکل امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے۔
_ سجاد ریحانی، پورے ملک کی یونیورسٹیوں میں رضاکار طلباء کی یونین کے نمایندے؛
_ احسان مشایخی، موجودہ سال کے یونیورسٹی داخلہ امتحان میں، ریاضیات میں پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والے
_ محمد مہدی مختاری، اسلامی آزاد یونیورسٹی میں اسلامی یونینوں کے نمایندے
_ مرتضی فیروز آبادی، طلباء کی "تحریک عدالت خواہی" کے نمایندے
_ مقامی نیا، اسلامی اعتدال تحریک کے نمایندے
_ شادی عزیززادہ ، امسال یونیورسٹی داخلا امتحانات میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے
_ عباس انسانی، امیر کبیر یونیورسٹی کے طلباء کی انجمن اسلامی کے جنرل سکریٹری
مذکورہ طلباء نے مندرجہ ذیل موضوعات پر زور دیا:
· بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ کے اہداف کی حصولیابی میں یونیورسٹی کے طلباء سے بھر پور استفادہ
· طلباء کی مختلف یونینوں اور انجمنوں کی سیاسی وابستگیوں اور مختلف سیاسی رجحانات سے استقلال اور عدم وابستگی
· ملکی ترقیاتی منصوبوں میں یونیورسٹیوں کی ممتاز و برجستہ شخصیات سے استفادہ
· مختلف اقوام میں ، اسلامی انقلاب کے اعلی اہداف و مقاصد کی ترویج و فروغ
· ملک کے "جامع علمی نظام" کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف سافٹ وئیرز کے لئے تحریک چلانا
· یونیورسٹیوں میں طلباء کی مختلف یونینوں اور انجمنوں کی تقویت اور انکا فروغ
· علم کی پیداوار، اس کے نقل و انتقال کو فروغ دینے کے لئے مختلف مراکز کی تاسیس،
· مختلف تحقیقاتی پروجیکٹوں میں طلباء کوشریک کرکے ، " شاگردوں کی تربیت " کی ثقافت کا احیاء
· یونیورسٹیوں کے طلباء میں "تحلیل و تجزیہ " کی قدرت کا فروغ
· حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کی انتظامیہ میں نزدیکی رابطہ قائم کرنا
· اعلی تعلیم کے حکام کا یونیورسٹیوں کے طلباء سے نزدیکی رابطہ کا قیام
· یونیورسٹیوں کے تدریسی نظام میں "تحقیق محوری" کی طرف خصوصی توجہ دینا
· سماج میں اسلامی انقلاب کی اقدار پر مبنی قومی امید و طراوت میں فروغ کا اہتمام
· اقتصادی مشکلات اور عدالت اجتماعی کی طرف ملک کے اعلی عہدیداروں کی توجہ مبذول کرانا
· یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء سے مختلف تحقیقاتی مراکز میں استفادہ کرنے پر تاکید
· یونیورسٹی طلباء کے عدالتی مقدمات کی رسیدگی میں تیزی وشتاب
· یونیورسٹی کے مختلف شعبوں ميں تعادل برقرارکرنا
· یونیورسٹی میں ، آزادئ فکر، عقلانیت اور عدالت محوری جیسے مفاہیم کو فروغ دینا
· بنیادی آئین کی دفعہ چوالیس کے نفاذ میں دقت و ظرافت سے کام لینے کی ضرورت پر تاکید
· دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں ثقافتی وحدت و یگانگی " کے قیام پر اہتمام
· یونیورسٹی طلباء کی مختلف یونینوں اور انجمنوں کی خالص "فکری و ثقافتی" شناخت کو باقی رکھنا اور ان سے سیاسی فائدہ نہ اٹھانے کی پالیسی پر عمل درآمد کرنا
· یونیورسٹی کے اعلی عہدیداروں اور اہلکاروں میں تنقید قبول کرنے کے جذبہ کو بیدار کرنا
· امام (رہ) و انقلاب کی وفادار تمام قوتوں سے استفادہ کرنا
· قومی اتحاد کی تقویت کے لئے ، ثقافتی اور قومی ضرورت کے متناسب ، ثقافتی پیداوار کو فروغ دینا
· یونیورسٹی کے طلباء کی مختلف مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا
· میڈیا کو ورزشی و ہنری و سینمائی شخصیات کے بجائے علمی و یونیورسٹیوں کی برجستہ شخصیات کو اسوہ کے طور پر سماج میں متعارف کرانا
اس ملاقات کے اختتام پر نماز مغربین حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی امامت میں ادا کی گئی اور اس کے بعد حضار نے رہبر معظم کے ہمراہ روزہ افطار کیا۔