رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح خبرگان کونسل کے چوتھے دورمیں قوم کے منتخب نمائندوں سے ملاقات میں ملک اوراسلامی نظام کے موجودہ مقام و منزلت کو انقلاب اسلامی کے بعد کے تمام برسوں کی نسبت بےمثال قراردیتے ہوئے فرمایا: قوم اور حکام انقلاب کے استمرار یعنی " صبر و شکر" اور کامیابی کے اصلی عوامل پر تکیہ کرتے ہوئے کامیابی اور کامرانی کے راستے پر گامزن رہیں گے۔
رہبر معظم نے امام محمد باقر (ع) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور آذر مہینے کی 24 تاریخ کو ہونے والے انتخابات میں عوام کی پر جوش شرکت ، حکام کی تلاش وکوشش ، مؤثر شخصیات کے حضور اورمختلف سیاسی جماعتوں اور طلباءیونینوں کی شرکت کو خوب توصیف کرتے ہوئے فرمایا: حکومت نے انتخابات کو اکٹھا منعقدکرانے کا پہلا کامیاب تجربہ کیا ہے جس میں کوئي بھی مشکل سامنے نہیں آئی۔
رہبر معظم نے خبرگان کونسل کے نمائندوں کا عوامی آراء سے منتخب ہونے کو ایک اہم مسئلہ اور دینی عوامی حکومت کا جیتا جاگتا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: دشمن خبرگان کونسل کی عظمت اور اہمیت سے خوب آشنا ہے ۔ اور اسی وجہ سے اس نے انتخابات منعقد ہونے سے کئی مہینے پہلے مختلف طریقوں سیاسی تبلیغات اور رعب ودبدبہ کے ذریعہ اس کی مخالفت پر کمر باندھ لی اور عوام کو انتخابات میں شرکت کرنے سے منصرف کرنے اور انتخابات سے دور کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا لیکن ایران کی مؤمن اور آگاہ اور ہوشیار قوم نے خبرگان کونسل کے گذشتہ انتخابات کی نسبت ان انتخابات میں وسیع پیمانے پر شرکت کی حتی خبرگان کونسل کی آراء شہری کونسلوں کی آراء سے زیادہ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں مراجع عظام ، طلباء یونینوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی شرکت کو انتخابات کی دیگر خصوصیات قرادیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال کی مدد سے حالیہ انتخابات میں اختلاف ، جدائی اور باہمی نزاع کا کوئي وجود نہیں تھا اور ملک و نظام کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
رہبر معظم نےعوام کےاندرونی جوش و جذبہ اور مختلف میدانوں میں عوام کی موجودگی اور اسلامی نظام کے ساتھ ان کے قلبی و ایمانی اور فکری لگاؤ کو اصلی عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک کے تمام حکام کو اسلامی نظام کے ساتھ عوام کے حقیقی لگاؤ کو باور اور اس کی قدر کرنا چاہیے۔ اور سب کو ملکر اس نادر اور بہت ہی گرانقدر جذبہ کی حفاظت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم نے قرآن مجید کی روشنی میں تمام میدانوں میں مؤمنین کی موجودگي کو خداوند متعال کی مدد و نصرت کی علامت قرار دیا اور عوام کے مختلف طبقات کی مختلف میدانوں میں موجودگی ، منجملہ 22 بہمن کی عظيم ریلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میدان میں مؤمنین کی فیصلہ کن موجودگی کوقوت بہم پہنچانا اور اس کی حفاظت کرنا تمام حکام کی اسلام کے ساتھ عملی پابندی کا مظہر ہے اور اگر عوام عملی میدان میں یہ مشاہدہ کریں کہ حکام اور حکومتی ادارے خدا کے لئے کام کررہے ہیں تو عوام کا نظام اور حکام کے ساتھ ایمانی اور قلبی لگاؤ مزید مضبوط اور قوی ہوجائے گا۔
رہبر معظم نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے سلسلے میں پروپیگنڈہ اور تبلیغ کو دشمن کی تلاش و کوشش قراردیا اور ملک کے اندر بعض افراد کی طرف سے قلم و بیان کے ذریعہ دشمن کی اس کوشش کوبار بار بیان کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں بالکل ہنگامی حالت نہیں ہے کیونکہ جمہوری اسلامی کے ساتھ گذشتہ 28 سالوں سے دشمنوں کی محاذ آرائی جاری ہے اور ایرانی عوام کو ان تمام برسوں میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوگا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے مشرق وسطی میں عمیق نفوذ اورفروغ کے بارے میں دشمن کے اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند طاقتوں کی طرف سے دشمنی میں شدت کے باوجود جمہوری اسلامی کی جڑیں روز بروز مضبوط اور عمیق ہوتی جارہی ہیں اور گذشتہ 28 برسوں کی نسبت نظام اسلامی آج مضبوط اور مستحکم ترین مقام پر پہنچ گيا ہے۔
رہبر معظم نے ایران کے صدر کے بیرون ملک سفر کے دوران " مختلف ممالک کے عوام ، جوانوں ، دانشوروں کی طرف سے" پرجوش استقبال کو مغربی ممالک کی تبلیغات کے غیر مؤثر ہونے کی واضح دلیل قراردیا اور انقلاب اسلامی کی نسبت عوام کا جوش و جذبہ انقلاب اسلامی کے ساتھ ان کی والہانہ محبت کی روشن علامت قراردیتے ہوئے فرمایا: آج ہماری منطق سب سے زيادہ مقبول ہماری حجت سب سے زيادہ مضبوط اور مسلمانوں کے دلوں میں انقلاب اسلامی کا اثر کافی گہرا ہوگيا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صبر و شکر کو انقلاب اسلامی کے استمرار اور کامیابی کا عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: صبر ہمیشہ سختیوں کو برداشت کرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ استقامت کے ساتھ آگے کی سمت گامزن رہنے کے معنی میں ہے۔کیونکہ متوقف ہونے کا ہر نقطہ دشمن کے حملے کے نقطے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ لہذا شجاعت ، دلیری ،تدبیر اور صحیح منصوبوں کے ساتھ انقلاب اسلامی کے اہداف اور قوم کے مقاصد کے حصول کی جانب گامزن رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شکر کو " انقلاب اسلامی کی کامیابی اور استمرار " کا دوسرا عامل قراردیا اور نعمتوں کی شناخت ،انھیں خدا کی طرف سے قرار دینے اوران سے صحیح و درست استفادہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اٹھائیس برس کے بعد اسلام کی حاکمیت ، امام (رہ) اور انقلاب کے نعروں کے جذاب اور زندہ ہونے، دنیا میں دین الہی کی تبلیغ میں جمہوری اسلامی کی علمبرداری اور ایرانی عوام کی اسلامی عزت جیسی عظيم نعمتوں پر ہمیں حقیقت میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے اسی سلسلے میں حکومت کی مسلسل جد وجہد و تلاش و کوشش کو خداوند متعال کی ایک اور نعمت قراردیتے ہوئے فرمایا: حکومت کے اہلکار حقیقی معنی میں رات دن تلاش و کوشش کررہے ہیں اور پروگرام کے تحت اسلامی نظام اور عوام کے اہداف کو جامہ عمل پہنانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں اور اس نعمت کا بھی قدر و شکر ادا کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم نے دشمنوں کے حیلوں اور سازشوں کے مد مقابل عوام اورقوم کی ممتاز شخصیات اوربا اثر افراد کی ہوشیاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمنوں کی سب سے مؤثرروش ملک میں سیاسی اختلاف پیدا کرنا ہے اسی لئے وہ کوشش کرتے ہیں تاکہ معمولی بہانوں کے ذریعہ بڑا محاذ قائم کرسکیں اور نظری اختلاف کو اصولی اختلاف بنا کر پیش کریں لہذا سبھی کو دشمن کے ان حیلوں سے آگاہ اور ہوشیار رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کا دوسرا ہدف حکام کو آگے کی جانب بڑھنے سے روکنا قراردیتے ہوئے فرمایا: دشمن دباؤ ، دھمکی اور الزام و تہمت اور مشکلات کو بڑا بنا کر اور عظیم اخراجات کا خوف دلا کر حکام کو شک و تردید میں مبتلا کرکے انقلاب اسلامی کی پیشرفت کو روکنا چاہتا ہے ۔ لیکن ایرانی عوام اور حکام قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق اس راہ پر استقامت و پائداری کے ساتھ گامزن رہیں گے اور دشمن کی اس سازش کو بھی ہوشیاری کے ساتھ ناکام بنادیں گے۔
رہبر معظم نے دشمن کی دوسری کوششوں میں گروہی اختلاف بھڑکانے کی طرف اشارہ کیا اور دشمن کی اس کوشش کو ناکام بنانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: خدا وند متعال کی مدد سے ایران میں شیعہ اور سنی ہوشیاری ، ہمدردی و ہمدلی کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں لیکن عراق کے دردناک حالات اور وسیع قتل عام کے عوامل کے بارے میں دشمنوں کی تبلیغات سے پتہ چلتا ہے کہ عالم اسلام میں اختلافات ڈالنے کے لئے خبیث دشمن اپنے ذہن میں کیسے شوم منصوبے لئے ہوئے ہے۔ جبکہ سب کو معلوم ہے کہ عراق میں وسیع قتل عام کرنے والے اور عوامی اجتماعات میں بم دھماکے کرانے والے حقیقت میں نہ شیعہ ہیں نہ سنی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام میں خبرگان کونسل کی ذمہ داری کو بہت ہی عظیم قراردیتے ہوئے فرمایا: خبرگان کونسل کا مشکل وقت میں ذمہ داری نبھانا بہت ہی اہم ہے لہذا خبرگان کونسل کے نمائندوں کو معرفت ، شجاعت اورروشن فکری کے ساتھ اس دن اپنی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے آمادہ رہنا چاہیے۔
اس ملاقات کے آغاز میں خبرگان کونسل کے نائب سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین ہاشمی رفسنجانی نے خبرگان کونسل کے چوتھے مرحلے کے آغاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: گذشتہ دو دنوں میں خبرگان کونسل کے اجلاس میں اتحاد و قومی انسجام اور عالم اسلام اور شیعہ و سنی کے درمیان دشمن کی طرف سےاختلاف ڈالنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے موضوعات پر بحث و تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
ہاشمی رفسنجانی نے خبرگان کونسل کے نمائندوں کی طرف سے بنیادی آئین کی دفعہ 44 کے بارے میں رہبر معظم کے بیان اور رہنمائی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا کہ ملک کی پیشرفت ، اقتصادی رونق اور سماجی انصاف کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں یہ سفارشات ممد و معاون ثاب ہونگی۔
خبرگان کونسل کے دوسرے نائب سربراہ آیت اللہ یزدی نے بھی خبرگان کونسل کے چوتھے دور کے پہلے اجلاس کے بارے میں مختصر رپورٹ پیش کی ۔