رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج عصر کے وقت، عدلیہ، پارلیمنٹ اور حکومت کے سربراہوں اور دیگر اعلی عہدیداروں اور ممتاز شخصیات سے ملاقات میں اپنے اہم بیانات میں موجودہ نظام حکومت کے مفید و کارآمد ہونے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اس بات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم مظلوم لیکن مقتدر قوم ہے اورخداوند متعال کے ذکرکے زیر سایہ، علم و عقل وعزم پر تکیہ و اعتماد کرتے ہوئے ، اپنے جائز حقوق کے حصول تک ، پائداری و استقامت کا سفر جاری رکھے گی۔
رہبر معظم نے "یاد الہی" کو ، شیطان اور مادی افکار کے مد مقابل، انسان کے دل و جاں کا محافظ قراردیااور قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت اور ذکر ویاد الہی پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہمیشہ خدا کی یاد میں رغبت و دلچسپی سے فردی و اجتماعی زندگی کے دشوار لمحات میں، ثابت قدمی اور پائداری حاصل ہوتی ہے ۔
رہبر معظم نے فرمایا: اپنی سنگین ذمہ داریوں کے پیش نظر، ملک کی انتظامیہ اور اعلی حکومتی عہدیداروں کو دیگر افراد کے مقابلے میں یاد الہی، خود سازی اور معنویات پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران کو سماج میں معنوی امور کا نقطہ عروج قراردیتے ہوئےفرمایا: مجاہدین اسلام کی وصف ناپذیر کیفیت، عوام میں مجاہدین اور ملکی سرحدوں کی حمایت کا شوق و شعف، خداوند متعال کے "ذکر کثیر" اور اخلاقی محاسن کا وہ اعلی نمونہ تھے ، جنکی نظیر نہیں ملتی، ان اقدار کو اسی سرعت و شتاب کے ساتھ ، معاشرے میں ترویج و فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں کافی محنت کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کے دور کو تاریخ ایران کے ایک سنہرے باب سے تعبیر کیا اور عوام کے ووٹ اور رائے سے ملک کے اعلی عہدیداروں کے انتخاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کئی ہزار سال تک اس ملک پر استبداد و ڈکٹیٹرشپ کی حکومت تھی، پورے عوام کی تقدیر کچھ خاص لوگوں کے ہاتھ میں تھی، لیکن آج عوامی حکومت کا بہترین نمونہ ، ایران میں حکمفرما ہے اور لوگوں کی منتخب حکومتوں نے انقلاب کے آغاز سے لے کر آج تک ، عظیم کام انجام دیئے ہیں اور عوام کی پشتپناہی سے عالمی سامراج سے بھی نبرد آزما ہیں۔
رہبر معظم نے فرمایا: دشمنوں کی رنگ برنگی سازشوں کے مقابلہ میں اسلامی نظام کی استقامت و پائداری اور اس میں روز افزوں شکوفائی نے، استکباری طاقتوں کو ذلت کی دھول چاٹنے پر مجبور کردیا ہے۔
رہبر معظم نے حکومتی عہدیداروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ اپنے فرائض کی اہمیت کو بہ خوبی درک کریں اور پورے عزم و توجہ سے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے علل و اسباب کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کے سد باب کی کوشش کریں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے موجود نظام حکومت کے بعض نمایاں کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: دشمن ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں تا کہ اسلامی نظام حکومت کی ناکامیوں اور خامیوں کو اچھا لیں لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ، ایران نے مختلف ، علمی ، سیاسی، ثقافتی شعبوں میں جو نمایاں پیشرفت حاصل کی ہے ، جن میں فرسودہ زراعتی نظام کو دوبارہ پٹڑی پر لانا ، لوگوں کے لئے رفاہ عام کے وسائل و اسباب کی فراہمی، ابتدائی صنعت کو ایٹمی توانائی جیسی پیچیدہ صنعت تک پہنچانا، جدید ٹیکنالوجی بالخصوص نانو ٹیکنالوجی میں پیشرفت، دنیا کے سامنے عوامی حکومت کا بہترین نمونہ پیش کرنا، عوامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط بنانا، ملت اسلامیہ کو اسے اپنی شناخت واپس دلوانے جیسے اہم امورشامل ہیں ۔ ان نمایاں کارناموں کی وجہ سے قومی اعتماد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور آج خطہ اور عالمی مسائل کے حل میں ایران کا ناقابل تردید کردار ہے، جس کےدوست و دشمن سبھی معترف ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ نظام حکومت کو مزید کارآمد بنانے کے لئے اسے علم و عقل اور عزم و ارادہ پر استوار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےفرمایا: ایرانی قوم ، امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر تمام صاحبان حق کی مانند مظلوم تو ضرور ہے لیکن صاحب اقتدار بھی ہے اور خداوند متعال کے " ذکر کثیر " کے زیر سایہ ، صحیح فکر و عقل و علم پر مبنی ، عملی اقدامات کو بروے کار لاتے ہوئے اس " مظلومیت و محرومیت " کے خاتمہ تک اپنی جد و جہد کو جاری رکھے گی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن کی مسلسل دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ دھمکیاں، ایرانی قوم کی روز افزوں آمادگی کا باعث بن رہی ہیں، البتہ ہمارے دشمنوں کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ "ضرب لگا کر بھاگنے " والی حکمت عملی ، ایران کے بارے میں کام نہیں آئے گی، اور جو کوئی بھی ایران پر حملہ کرنے کی جسارت کرے گا وہ اس کی آگ سے اپنے دامن کو نہیں بچاپائے گا۔
رہبر معظم نے ان دھمکیوں کا مقصد "عوام اور حکومت" پر رعب و دبدبہ جمانے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی حکومت و عوام کسی بھی لمحہ ان دھمکیوں سے نہ تو خائف ہوئے ہیں اور نہ ہی آئندہ مرعوب ہوں گے اور دشمن کی امیدوں کے برعکس ، روز بروز اپنی دفاعی طاقت میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کی دھمکیوں میں تسلسل کو ، فکر و منطق کے میدان میں " لیبرل ڈیموکریسی" کے فقر و تہی دستی کا آئینہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: خطہ اور عالمی سطح پر ایران کا حضور ، منطق و فکر اور معنوی جذبہ کا حضور ہے اور وہ حکومتیں جو لیبرل ڈیموکریسی کی پیداوار ہیں چونکہ ان میدانوں میں ان کے ہاتھ خالی ہیں لہذا دھمکی کی زبان کا استعمال کرتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ایک جاہل شخص ، کسی عالم و فاضل شخصیت کے سامنے اپنی قوت بازو اور طاقت کا ڈھونگ رچاتا ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آٹھویں پارلیمنٹ کے انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، سبھی سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کو ، ایسا کردار پیش کرنے کی ضرورت ہے جو قومی عزت ووقار میں اضافہ کا سبب بنے اور گزشتہ انتخابات کے مانند، دشمنوں کے لئے
نا امیدی اور یاس کا باعث بنے۔
رہبر معظم نے مختلف سیاسی رجحانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات کو ایک بلند و بالا مقصد و عنوان سے دیکھیں اور اس میں کسی طریقہ کا رخنہ ڈالنے ، تخریب کاری اور بد اخلاقی سے اجتناب کریں اور اپنے تمام وسائل کو بروے کار لائیں تا کہ انتخابات پورے شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوں۔
اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب احمدی نزاد نے اپنی حکومت کی گذشتہ ایک برس کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے ، ثقافتی میدان میں اسلامی اقدار کے اصول پر پابندی اور ان کی پاسداری کو موجودہ حکومت کا اصلی نصب العین قراردیتے ہوئےکہا : جدید علوم میں ریسرچ و تحقیق، جوان و خلاق محققین کی حمایت بھی موجودہ حکومت کے دستورالعمل کا حصہ ہے ،چونکہ ترقی و کمال کے زینے چڑھنے کے لئے"علم و ثقافت" دو نوں پر یکساں توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
جناب احمدی نژاد نے اقتصادی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا:
موجودہ شمسی سال (1385) میں تیل کی پیداوار سے حاصل شدہ درآمد سے قطع نظر،چھ اعشاریہ تین فی صد، اقتصادی رشد حاصل ہوا ، اس مدت میں تیل کے شعبہ میں پہلی مرتبہ تین فیصد رشد حاصل ہوا، شعبہ زراعت میں سات اعشاریہ دو فیصد ترقی ہوئی جو گذشتہ چند برسوں میں بے مثال ہے۔ بے روزگاری کی شرح جو سنہ 84 13 شمسی میں گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد تھی، رواں سال کے دوران گھٹ کر گیارہ اعشاریہ دو فیصد رہ گئی ہے۔ ملک کے مالیاتی نظام سے وصول شدہ رقم جو گذشتہ سال اٹھائیس اعشاریہ سات فیصد تھی، رواں سال کے دوران بڑھکر انتیس اعشاریہ پانچ فیصد تک پہونچ گئی۔
صدر جمہوریہ نے اس رپورٹ میں حکومت کے بعض جامع منصوبوں کی طرف بھی اشارہ کیا جو درج ذیل ہیں۔
· آمد و رفت کے وسائل کے بارے میں جامع نظام کی تدوین اور انرجی پر کنٹرول کی ضرورت
· بے روزگاری ختم کرنے کے لئے جامع و مکمل نظام کی تدوین
· لوہے اور آلومینیم کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے جامع نظام کی تدوین
صدر جمہوریہ نے مزید آگاہی دیتے ہوئے بتایا: ہوسنگ اسکیم کے تحت جوکہ پارلیمنٹ کی منظور شدہ اسکیم ہے، ہر سال پندرہ لاکھ جدید گھروں کی تعمیر کے لئے زمین اور دیگر بینکی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
جناب احمدی نژادنے موجودہ بینکی سسٹم میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا:لوگوں کی روز مرہ کی ضروری اشیاء کو سرمایہ داری کے منصوبوں سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے، بیمہ کے نظام میں بھی اصلاحات لازمی ہیں، گيس و تیل کے شعبہ میں داخلی و خارجی سرمایہ گزاری کی حمایت، حکومت کے منصوبہ میں شامل ہے ، صدر نے مزید کہا: ،موجودہ حکومت کی ایک انتہائی اہم ذمہ داری، قانون اساسی کی دفعہ چوا لیس کو عملی جامہ پہنانا ہے ، پارلیمنٹ میں بحث و گفتگو کے بعد اس سیاست پر عمل درآمد کا آغاز ہوجائے گا اور تمام ادارے اسی اصل کے تحت کام کریں گے۔
صدر احمدی نژاد نے موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے سلسلہ ميں کہا: ایٹمی توانائی کا مسئلہ، اسلامی انقلاب کی کامیابی کا ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کے خاتمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا: ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی آخری رپورٹ سے ایران کی حقانیت واضح ہوگئی ہے جس میں صراحت کے ساتھ کہا گيا ہے کہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام میں کوئی انحراف موجود نہیں ہے۔ اور مذکورہ عالمی ادارے نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے عدم انحراف کی تائید کی پوزیشن میں ہے ۔
جناب احمدی نژاد نے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ سے بعض طاقتوں کے خشم و غضب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: تمام مسائل و مشکلات کے باوجود ، ایرانی قوم گزشتہ دو برس کے مقابلہ میں، آج ایٹمی توانائی کے مسئلہ میں کہیں زیادہ پیشرفت حاصل کرچکی ہے اور اس قوم کے دشمنوں کی زبوں حالی اور ضعف میں روز افزوں اضافہ ہو تا جارہا ہے ۔
اس ملاقات کے اختتام پر نماز مغربین رہبر معظم انقلاب اسلامی کی امامت میں ادا کی گئی اور حاضرین نےرہبر معظم کے ہمراہ روزہ افطار کیا ۔