ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی

ملک میں تحولات کی باگ ڈور اورمدیریت یونیورسٹی اور حوزہ کے ممتاز افراد کے ہاتھ میں ہونی چاہیے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ سمنان کے سفر کے دوسرے دن صوبہ کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلباء اور اہلکاروں سے ملاقات میں تحول و تبدیلی کو الہی سنت قراردیا اور پیشرفت و ترقی پر منتج ہونے والے تحول کی سرحدوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں تحولات کی لگام اورمدیریت یونیورسٹی اور حوزہ کے ممتاز افراد کے ہاتھ میں ہونی چاہیےاور اس سلسلے میں پیشرفت و ترقی کے عالمی معیاروں کے علاوہ اسلامی نظام کے خصوصی معیاروں پر بھی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم نے جد وجہد، تلاش و کوشش ، مستقبل پر امید ، پیشرفت و ترقی کی تمنا ، وافر استعداد اور شوق و نشاط کو طلباء کی عظیم خصوصیات قراردیتے ہوئے فرمایا: ان خصوصیات کو اہداف کی شناخت، ہمت و جد جہد اور مقاصد و اہداف تک پہنچنے کی طریقوں کی پہچان و شناخت کے ہمراہ ہونا چاہیےتاکہ پیشرفت و ترقی اور افتخار کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوسکے۔

رہبر معظم نے معاشرے میں ہر انسان کے اثر انداز ہونے کے بارے میں قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: الہی سنت کی بنیاد پر ہر معاشرے کی تبدیلی و تحول اسی معاشرے کے افراد کے ہاتھوں انجام پذیر ہوتا ہے اور ہر فرد و ہر شخص کی رفتار معاشرے میں مثبت یا منفی تحولات کے سلسلے میں مؤثر ہوتی ہے۔

رہبر معظم نے تحول کو انسان کی بقا اور عظمت کا راز قراردیا اور تحولات اور تبدیلیوں کا استقبال اور ٹہراؤ اور متوقف ہونے سے پرہیز کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تحول اور ہرج و مرج اور بحران میں فرق ہے جیسا کہ عدم پیشرفت و متوقف ہونے اور اجتماعی و سماجی ثبات میں بھی فرق ہے اور جو چیز مدنظر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں پیشرفت متوقف نہیں ہونی چاہیے بلکہ معاشرے میں ثبات کے ساتھ صحیح سمت میں سریع تحول اور تبدیلی بھی عمل میں آنی چاہیے۔

رہبر معظم نے صحیح پیشرفت اور تحول کے راستوں کی تشریح، اصولوں اور اصلی بنیادوں کی حفاظت ، قومی تشخص کی حفاظت و احترام ، مستقبل پر نگاہ امید ، شوق و نشاط، تنقید پذیری، رقابت کی ترویج، منصوبہ بندی اور درست راستے کے انتخاب پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ان ضرورتوں کے مد مقابل سیاسی اور رفتاری آشوب وبحران ، پستی، تخریبکاری اور قومی تشخص اور معاشرے کی اصلی بنیادوں پرعدم توجہ جیسے امور ہیں جو تحول کا سبب بننے کے بجائے عدم پیشرفت کا موجب بنتے ہیں۔

رہبر معظم نے اسی سلسلے میں قومی تشخص کے مفہوم کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: قومی تشخص دینی تشخص کے مقابلے میں نہیں ہےبلکہ ایک قوم کے تمام اعمال اور اعتقادات کا مجموعہ ہے اور قدرتی بات ہے کہ ایک مؤمن و موحد قوم کے اعتقادات بھی قومی تشخص کے عناصر کی تشکیل میں شامل ہوتے ہیں۔

رہبر معظم نے فرمایا: انسانی معاشرے میں تحول و تبدیلی ایک ناگزیر امر ہے اور عالمی تحولات کا صہیونی سرمایہ داروں کے ذریعہ کنٹرول کیا جانا آج سب سے بڑا خطرہ ہے اور قوموں کے مفادات پر تسلط اور قبضہ کرنے کے لئے عالمی گروہوں نے مال و طاقت کے ذریعہ فوجی نیٹو تشکیل دیا تھااور اب عالمی معاشرے کے قومی تشخص کو ختم کرنے اور اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے ثقافتی نیٹو تشکیل دے رہے ہیں تاکہ اپنے گوناگوں اور وسیع ذرائع ابلاغ کے ذریعہ قوموں اور ملکوں کے سیاسی ، ثقافتی ، اقتصادی اور سماجی تحولات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے سکیں اور اس مسئلہ پر ہوشیاری کے ساتھ توجہ مبذول رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم نے تحولات کی صحیح سمت کی ضرورت اور ملک میں نئی مدیریت کے تحولات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ماضي میں مشغول رہنے اور خلاقیت کی نفی کرنے سے کہیں نہیں پہنچا جاسکتا جیسا کہ سیاسی ، ثقافتی ،عقیدتی اور اقتصادی ہرج ومرج اور بحران سے کبھی پیشرفت حاصل نہیں ہوسکتی لہذا صحیح راستہ صرف " خلاقیت اور آزاداندیشی " کی راہ کو باز رکھنے اور اس میں تحول پیدا کرنے والے راستے کی مدیریت ہے۔

رہبر معظم نے حوزہ و یونیورسٹی کے ممتاز افراد اور فعال طلباء کو ملک میں تحول کی مدیریت کا رکن اعلان کرتے ہوئے فرمایا: اس سلسلےمیں حکام کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں لیکن ان تحولات کی مدیریت حوزہ اور یونیورسٹی کے ممتاز افراد کے دوش پر عائد ہوتی ہے جو ترقی و پیشرفت اور تکمیل کا سبب ہیں۔

رہبر معظم نے پیشرفت کو ہرصحیح تحول کا ہدف قراردیا اور اس کی تعریفوں ، نسخوں اور مختلف معیاروں اور کبھی اس میں انحرافی تعریفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:حقیقی پیشرفت کا نسخہ سمجھنے کے لئے بحثیں حقیقی تھیوری پر معطوف ہونی چاہییں پھر پیشرفت کا نمونہ اور منصوبہ معین ہونا چاہیے اور پھر اس میں ترجیحی بینادوں پرسرمایہ کاری اور آگے کی سمت حرکت کرنا چاہیے۔

رہبر معظم نے عالمی تناظر میں پیشرفت کے معیاروں کی تشریح میں صنعت سے ماوراء سوچنے، بنیادی ضرورتوں میں خودکفیل ہونے ، مصرف میں اضافہ، علمی ارتقاء ، شہریوں کو خدمات باہم پہنچانے میں پیشرفت وارتقاء ، زندگی کو پر امیدبنانے اور ارتباطات کے رشد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ معیار حقیقی پیشرفت اور تحول میں اسی وقت مؤثر واقع ہوسکتے ہیں جب قومی تشخص کے اصلی عناصر کی بنیاد پر استوار ہوں ۔

رہبر معظم نے فرمایا: اگر قومی تشخص اور بنیادی اصولوں کو مد نظر نہ رکھا گیا ، تو بعض پیشرفتہ مغربی ممالک کی طرح بظاہر پیشرفت کے معیاروں میں اضافہ ممکن ہے لیکن ایسی پیشرفت عملی طور پر اندرونی بے انصافی ، دوسری قوموں پر دھونس و دباؤ کی پالیسی، ایٹم بم جیسے تباہ کن ہتھیاروں کی ساخت اور استعمال ، فساد اور بد اخلاقی کی ترویج اور خاندانی و سماجی رابطوں اور محبتوں کے خاتمہ پر منتج ہوگي لہذا ایرانی قوم ایسی پیشرفت کی خواہاں نہیں ہے جو ان تخریبی بنیادوں پر استوار ہو۔

رہبر معظم نے پیشرفت اور تحول کی صحیح بنیادوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام میں حقیقی پیشرفت و تحول کوعالمی معیاروں پر استوار ہونے کے علاوہ قومی ثروت کے اضافہ ، انصاف پسندی ، علمی اقتدار، اخلاقی ، معنوی اور انسانی عطوفت کے رشد ، قومی عزت و وقار میں اضافہ ، بے روزگاری، تبعیض ، فقر و فساد و جہالت و لاقانونیت کے خاتمہ ، مدیریتوں کے علمی ارتقاء، سماجی نظم و ضبط، اجتماعی ذمہ داری کے احساس میں اضافہ اور ثقافتی استقلال پر استوار ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی اورحوزہ کے ممتاز افراد سے سماجی مشکلات کے بارے میں تحقیق اور ان مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں تجاویز پیش کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: اس قسم کی تحقیقات سے پیشرفت و تحول کی راہیں ہموار کرنے میں مدد ملےگی۔

رہبر معظم نے یونیورسٹی اساتذہ اور طلباء کی طرف سے پیش کئے جانے والےمطالبات منجملہ مدیریت ریسرچ سینٹر قائم کرنے کو اہم قراردیا اور متعلقہ حکام پر زوردیا کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنی توجہ زيادہ سے ویادہ مبذول کریں ۔

اس ملاقات کے آغاز میں مندرجہ ذيل افراد نے صوبہ کے مختلف مسائل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

٭ سمنان یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر علی خیر الدین نے صوبہ سمنان کی یونیورسٹیوں کے سربراہوں کی نمائندگی میں۔

٭ ڈاکٹر نیما امجدی ممتاز ریسرچ اسکالر، ڈاکٹر مرجان بہرامی سمنان میڈيکل یونیورسٹی کے ممتاز طالبعلم، آقای آریا فر انجینئرنگ میں ممتاز محقق، محترمہ مریم صفری آزاد یونیورسٹی انگریزی کی طالبہ ، آقای مصطفی قربانی۔ رضاکار طلباء یونین کے انچارج،

صوبہ سمنان کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلباء نے اپنے خطاب میں مندرجہ ذیل اہم نکات پیش کئے:

٭ انقلاب اسلامی سے پہلے صوبہ سمنان میں ایک یونیورسٹی بھی نہیں تھی لیکن اب 29 یونیورسٹیاں موجود ہیں۔

٭ طلباء کی تعداد 1357 میں ایک ہزارتھی اور اب بڑھ کر 59 ہزار تک پہنچ گئی ہے

٭ صوبہ سمنان کا آبادی کے لحاظ سے طلباء کی تعدادمیں پہلا مقام ہے اور ہر دس افراد میں ایک فرد طالبعلم ہے

٭ ملک کی پیشرفت میں تمام علمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے آمادگی کا اظہار

٭ ضلعی سطح پر قائم یونیورسٹیوں پر زيادہ توجہ مبذول کرنے کی ضرورت پر زور

٭ ملک کا جامع علمی خاکہ و نقشہ تیار کرنے میں تعاون پر آمادگی کا اظہار

٭ علمی و تحقیقاتی شعبوں میں تشویق اور وسائل میں اضافہ پر تاکید

٭بعض یونیورسٹیوں کی فیس میں بے جا اضافہ پر تشویش

٭ ممتاز افراد کے لئے علمی بینک کی تشکیل

٭ اعلی تعلیمی نظام میں اصلاح

٭ یونیورسٹی اور طلباء کے ماحول میں انصاف پسندی اور حریت جیسے نعروں کے زندہ رکھنے پر تاکید

٭ بنیادی علوم پر مزید توجہ

700 /