ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

فلسطین اور لبنان میں اسلامی مقاومت نے اسرائیل کی طاقت کا طلسم توڑدیا ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح فلسطینی کی حمایت میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی تقریب کے آغاز اور لبنان و فلسطینی کی اسلامی مقاومت کی ممتاز شخصیات اور عالم اسلام کے پارلیمانی اعلی حکام اور سربراہوں کے اجتماع میں لبنان میں 33 روزہ جنگ اور غزہ میں 22 روزہ لڑائی میں اسرائيلی کی سیاسی اور فوجی میدان میں ذلت آمیز شکست کی طرف اشارہ کیا اور فلسطین کی آزادی اور نجات کا واحد راستہ استقامت اور پائداری کو قراردیا اور جنگي جرائم میں ملوث اسرائیلی حکام کو کیفر کردار تک پہنچانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایران نے مسئلہ فلسطین کے حل کا جمہوری اور منصفانہ حل پیش کیا ہے جس میں مقبوضہ فلسطین کے ساکن اور جلا وطن مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے ریفرنڈم کے ذریعہ عوامی حکومت کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ فلسطین میں فلسطینی عوام کے ارادوں پر مبنی نظام اور حکومت وجود میں آسکے۔

رہبر معظم نے تہران میں سربراہی اجلاس کے ہال میں آغاز ہونے والی اس عظیم کانفرنس کے شرکاء سے امریکہ ، بعض مغربی ممالک اور عالم اسلام میں موجود منافقین کی طرف سے اسرائیل کی وسیع اور بے دریغ حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لبنان اور غزہ میں اسلامی مقاومت کے ہاتھوں اسرائیل کی دو مرتبہ ذلت آمیز شکست نے اسرائیل کو نابودی اور زوال کے قریب تر کردیا ہے اور اب باشعور اور بیدار ضمیر مسلمان ہمت و جرئت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے جرائم پیشہ سیاسی اور فوجی حکام کی حفاظت کا طلسم باطل کرتے ہوئے انھیں عالمی سطح پر کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کریں اور انھیں عدالت کے کٹہرے میں لاکر سخت سزا دیں تاکہ جرم و جنایت کے جنون پرور ذہنوں کو ختم کیا جاسکے۔

رہبر معظم نے غزہ میں اسرائیل کےجرائم پیشہ حکام کے وحشیانہ جرائم کو ڈیر یاسین ، صبرا اور شتیلا کیمپوں میں اسرائیل کے وحشیانہ جرائم کی مانند قراردیتے ہوئے فرمایا: اسرائیلی حکام میں ظلم وستم اور جرم و جنایت روا رکھنےکی خصلت اسی طرح باقی ہے اور اسلامی بیداری کے مقابلے میں اسرائیل کی جھوٹی ہیبت کا طلسم ٹوٹ گیا ہے اور اب ان لوگوں کو ہوش میں آجانا چاہیے جو اسرائیل کے رعب و دبدبے کے خوف سے اس کے سامنے تسلیم ہونے اور اس کے ساتھ صلح آمیز اور پرامن زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔

رہبر معظم نے اسرائیل اور اس کےحامیوں کی طرف سے 60 سال تک وسیع پیمانے پر اسرائیل کی غاصب وناکام اور متزلزل حکومت کو قانونی بنا کر پیش کرنے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کو بہانہ بنا کرفلسطین پر قبضہ کیا لیکن مغربی میڈيا اور اسرائیل کے حامی ممالک ہولوکاسٹ کے بارے میں تحقیق کے مسئلہ پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور اس کے بارے میں تحقیق کو برداشت نہیں کرسکتے جس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مشروعیت کا مسئلہ بھی متزلزل اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے اور رائے عامہ میں اسرائیلی حکومت کے وجود کے بارے میں سنجیدہ سوال اٹھ رہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسرائيل کی موجودہ صورتحال کو پہلے سے کہیں زيادہ تاریک اور سیاہ قراردیا اور غزہ میں اسرائیل کے ہولناک جرائم پر عالمی سطح پر ہونے والے شدید اعتراضات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لبنان اور غزہ میں اسلامی مقاومت نے عالمی ضمیر کو بیدار کیا اور اس کی بدولت اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر محاذ قائم ہوگیا ہے جس کی گذشتہ ساٹھ سال میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔

رہبر معظم نے عالمی سطح پر اسلامی مقاومت کی حمایت کو امت اسلامی کے دشمنوں کے لئے بہت بڑی عبرت اور امت اسلامیہ بالخصوص مسلمان جوانوں کے لئے مبارک در س قراردیتے ہوئے فرمایا: موجودہ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کو واپس کرنے کے لئے جد و جہد کبھی صائع نہیں ہوتی اور اس سلسلے میں مؤمنین کے مدد کرنے کے سلسلے میں خداوند متعال کا وعدہ سچ اور حقیقت پر مبنی ہے۔

رہبر معظم نے ان لوگوں کی کوششوں کو بہت بڑا اشتباہ اور مغالطہ قراردیا جو اسرائیل کو 60 سالہ حقیقت سمجھنے اور اس کے ساتھ پرامن زندگی بسر کرنے کی سفارش کرتے ہیں انھ وںے فرمایا: کیا بالکان قفقاز، اور جنوب مغربی ایشیاء کے ممالک نے سابق سویت یونین سے آزاد ہونے کے بعد اپنے تشخص کو دوبارہ حاصل نہیں کیا؟ تو پھر فلسطینی کیوں اپنے عربی و اسلامی تشخص کو واپس نہیں لےسکتے جبکہ فلسطین عالم اسلام اور دنیائے عرب کا اٹوٹ انگ ہے اور فلسطین کے جوان عربوں میں سب سے زیادہ باہوش اور سب سے زیادہ بہادر ہیں وہ کیوں ظالمانہ حقائق کے مد مقابل کامیاب نہیں ہوسکیں گے؟

رہبر معظم نے فلسطینی عوام کی نجات کواسرائیل کے ساتھ صرف مذاکرات میں منحصر کرنےکو بہت بڑی غلطی اور اشتباہ قراردیتے ہوئے فرمایا: جو لوگ اس فریب پر اپنے دل خوش کئے ہوئے ہیں انھیں آج تک کیا ملا ہے؟ انھوں اسرائیل سے ایک ایسی نام نہاد اور توہین آمیز خود مختار حکومت حاصل کی جس کی بنا پر اسرائیل پورے فلسطین کا مالک بن گیا اور اسرائیل اس نام نہاد اورمضمحل حکومت کی آئے دن تذلیل کرتا رہتا ہے اوراسے ٹھوکریں مارتا اور اس کی توہین کرتاہے اس نے اس اقدام کے ذریعہ فلسطینیوں کے درمیان بغض و کینہ کو بیج بوکر انھیں ایکدوسرے کا دشمن بنادیاہے۔

رہبر معظم نے فرمایا: سلامتی کونسل نے گستاخ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو فورا تسلیم کر لیا اور اس تاریخی ظلم کے رونما ہونے اور جاری رہنے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد کئی عشروں کے دوران صیہونی حکومت کی گوناگوں جنگی جرائم، دیگر مجرمانہ اقدامات، نسل کشی کی کاروائی اور گھروں کی مسماری پر رضامندانہ سکوت اختیار کیا۔ یہاں تک کہ جب جنرل اسمبلی نے صیہونزم کو نسل پرست قرار دے دیا تو اس کی تائید کرنا تو درکنار عملی طور پر اس فیصلے سے ایک سو اسی درجے کا فاصلہ اختیار کر لیا۔

رہبر معظم نے فرمایا: سلامتی کونسل نہ صرف یہ کہ دنیا میں قیام امن کے سلسلے میں کوئی مدد نہیں کرتی بلکہ جب بھی انسانی حقوق، جمہوریت اور اس جیسی دیگر باتیں ان ممالک کے تسلط و غلبے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں یہ کونسل ان کا ساتھ دیتی ہے اور ان کے غیر قانونی کاموں پر دروغ اور فریب کا لبادہ ڈال دیتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقوام متحدہ، یا تسلط پسند طاقتوں اور بالخصوص صیہونی حکومت کی چاپلوسی اور تملق کے ذریعہ فلسطین کو نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ فلسطین کی نجات کا واحد راستہ استقامت و پائيداری ہے۔ فلسطینیوں کا اتحاد اور کلمہ توحید ہے جو جہادی تحریک کا لا متناہی ذخیرہ ہے۔ اس استقامت و پائيداری کے ستون، ایک طرف فلسطین کے اندر اور باہر مجاہد فلسطینی تنظیمیں اور فلسطین کے مومن و مجاہد عوام ہیں تو دوسری جانب پوری دنیا کی مسلم قومیں اور حکومتیں بالخصوص علما و دانشور، سیاسی شحصیات اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد ہیں۔ اگر یہ دونوں مستحکم ستون اپنی جگہ پر قائم رہیں تو بلا شبہ بیدار ضمیر، ذہن اور فکریں جو سامراج و صیہونزم کے میڈیا کے مسحورکن پروپیگنڈوں سے مسخ نہیں ہوئے ہیں دنیا کے ہر گوشے سے صاحب حق اور مظلوم کی مدد کے لئے آگے آئيں گے اور سامراجی نظام کو ان کے افکار و نظریات، جذبات و احساسات اور عمل و اقدامات کے ایک طوفان کا سامنا کرنا ہوگا۔

رہبر معظم نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: فلسطین کے عوام اور مجاہدین کا صبر و ضبط، استقامت و پائیداری اور تمام اسلامی ممالک سے ان کی ہمہ جہتی امداد و حمایت فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے شیطانی طلسم کو چکناچور کر دے گی۔ مسلم امہ کی عظیم توانائیاں فلسطین سمیت عالم اسلام کی تمام مشکلات کو حل کر سکتی ہیں۔

رہبر معظم نے فرمایا: تمام اسلامی ممالک مل کر اسرائیلی حکومت کو غزہ میں رونما ہونے والے مظالم اورجرائم پر سزا دےسکتے ہیں اور اسرائیل اور اس کے حامیوں کو مکمل بائیکاٹ کرکے انھیں عبرتناک سزا دے سکےت ہیں۔

رہبر معظم نے فرمایا: اسلامی بیداری کی برکت سے اس وقت ہماری قوم عظیم قوت کی مالک بن چکی ہے۔ مسلم ممالک کے بے شمار مسائل کا حل اس حیرت انگیز مجموعے کے اتحاد و بلند ہمتی پر موقوف ہے، جبکہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے ہنگامی مسئلہ ہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: کبھی کبھی یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ فلسطین تو ایک عرب مسئلہ ہے۔ اس سے مراد کیا ہے؟ اگر مراد یہ ہے کہ عربوں میں زیادہ قرابت داری کے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ زیادہ خدمت اور جد و جہد پر مائل ہیں تو یہ مستحسن چیز ہے اور ہم اس پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ لیکن اگر مراد یہ ہے کہ بعض عرب ممالک کے سربراہ فلسطینی عوام کی "یا للمسلمین " کی فریاد پر کوئی توجہ نہ دیں اور غزہ کےالمیہ جیسے معاملات میں غاصب و ظالم دشمن سے تعاون کریں اور دوسروں پر جو اپنی ضمیر کی آواز سن کر مضطرب ہیں، غرائیں کہ آپ غزہ کی مدد کیوں کر رہے ہیں تو پھر اس صورت میں کوئی غیور مسلمان، و باضمیر عرب اس بات کو قبول نہیں کرےگا اور اس کے کہنے والے کو سرزنش اور مذمت سے معاف نہیں رکھے گا۔

رہبر معظم نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: فلسطینی عوام کی ہمہ جہت مدد و مکمل حمایت تمام مسلمانوں کے لئے واجب کفائی ہے۔ جو حکومتیں اسلامی جمہوریہ ایران اور بعض دیگر مسلمان ممالک پر فلسطین کی مدد کی وجہ سے اعتراض کرتی ہیں، وہ خود بڑھ کر امداد و حمایت کی ذمہ داری سنبھال لیں تو دوسروں سے یہ اسلامی فریضہ ساقط ہو جائے گا۔ اور اگر ان کے پاس اس کی ہمت و توانائی و جرئت نہیں ہے تو بہتر ہوگا کہ کیڑے نکالنے اور قانون شکنی کے بجائے دوسروں کے ذمہ دارانہ اور شجاعانہ اقدامات کی قدر و قیمت کو پہنچانیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلے میں ایران کی تجویز کی طرف اشارہ رکتے ہوئے فرمایا: ہماری تجویز جمہوریت کے تقاضوں پر پوری اترتی ہے اور عالمی رای عامہ کا بھی مشترکہ مطمح نظر ہو سکتی ہے۔ وہ تجویز یہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر حق رکھنے والے تمام افراد بشمول مسلمان، عیسائی و یہودی، ایک ریفرنڈم میں شریک ہوکر اپنے نظام کا ڈھانچہ طے کریں۔ اس ریفرنڈم میں وہ فلسطینی بھی شرکت کریں جنہوں نے سالہا سال تک بے وطنی کی مشقتیں برداشت کی ہیں۔
مغربی دنیا کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس راہ حل کو قبول نہ کرنا، جمہوریت کا پاس و لحاظ نہ رکھنے کی علامت ہے جس کا وہ ہر لمحہ دم بھرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ان کے لئے قلعی کھول دینے والا امتحان ثابت ہوگا۔
اس سے قبل بھی ان کا امتحان فلسطین میں ہوا جب غرب اردن اور غزہ کے علاقے کے انتخابات کے نتیجے کو جو حماس کےبر سر اقتدار آنے کی صورت میں نکلا، قبول کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ جو لوگ جمہوریت کو صرف اس صورت میں قبول کرتے ہیں، جب تک اس کے نتائج ان کے حسب منشاء ہوں، در حقیقت جنگ پسند اور مہم جو ہیں۔ اب اگر وہ امن و آشتی کی بات کرتے ہیں تو وہ دروغ اور جھوٹ کو علاوہ کچھ نہیں۔

رہبر معظم نے فرمایا: میں بائیس روزہ جنگ کے شہیدوں کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے خون سے فلسطین اور غزہ کو اسلام و عرب دنیا میں عزت و سربلندی عطا کی۔ میں خدا وندتعال کی بارگاہ سے ان کے لئے رحمت و بخشش کی دعا کرتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کی تعمیر کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت غزہ کی تعمیر نو کا مسئلہ فلسطین کے ہنگامی ترین مسائل میں ہے۔ حماس کی حکومت جو فلسطینی عوام کی حکومت ہے اسے تعمیر نو سے متعلق تمام سرگرمیوں اور اقدامات کا محور ہونا چاہئے۔ مناسب ہوگا کہ مصری بھائی امداد کے لئے راستوں کو کھول دیں اور مسلم ممالک اور قوموں کو اس اہم ترین عمل میں اپنا فریضہ پورا کرنے دیں۔

700 /