ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

رمضان المبارک رشد وترقی اور عظمت و بلندی کی پربرکت بہار ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج سہ پہر کوتینوں قوا کے سربراہان ، مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ اور اسلامی نظام کے حکام اور اہلکاروں سے ملاقات میں رمضان المبارک کو انسان کے رشد وترقی اور عظمت و بلندی کی پربرکت بہار اور مؤمنین کے اتحاد و استقامت پر تاکید کرتے ہوئے اسے سعادت و کامیابی کا واحد راستہ قراردیا اور بلدیاتی کونسلوں اورخبرگان کونسل کے آنے والے اہم انتخابات میں حکام ، سیاسی و سماجی گروہوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے اسےاچھے انداز میں ادا کرنےکی ہدایت کی۔

رہبر معظم نے خداوند متعال اورعوام کے سامنے حکام کے احساس تعہد کوالہی برکات و رحمت کے نزول کا باعث قراردیا اور رمضان المبارک کی گرانقدر فضیلتوں اور بلند ظرفیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جسم و جان کے روزہ کے ذریعہ اس عظیم و مبارک مہینے کو تقوی کی تقویت اور رستگاری کی بہترین فرصت میں تبدیل اور جد وجہد و تلاش و کوشش کے ذریعہ دل کو شر کے عوامل سے پاک کیا جاسکتا ہے حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی سنگین ذمہ داری کے پیش نظر اس سلسلے میں مزید تلاش و کوشش کریں۔

رہبر معظم نےاسلامی نظام میں ذمہ داری کو باعث فخر قراردیا اور اس کے سنگین بار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دنیا کی طاغوتی طاقتیں ایسے نظام کے مد مقابل صف آرائي پر کمربستہ ہیں جو پیغمبروں (ع) کے تاریخی پیغام کی روشنی میں انسانوں کو سعادت تک پہنچانے کی تلاش میں ہے لیکن جیسا کہ حالیہ 27 برسوں ، دفاع مقدس اور دیگر میدانوں میں ثابت ہوگیا ہے کہ اتحاد ، پائداری و ثابت قدمی اور ایمان کی بدولت قطعی کامیابی اور نہائی فتح ایرانی عوام کو نصیب ہوگي۔

رہبر معظم نے تمام قوا اور اداروں کے حکام اور اہلکاروں کو اختلافات سے دور رہنے کی سفارش کرتے ہوئےفرمایا: البتہ خدا وند متعال کے فضل و کرم سے حکام اور اہلکاروں کے اندر دلی الفت و محبت پہلے سے کہيں زیادہ موجود ہے لیکن دشمن کی طرف سے اختلاف ڈالنے کی کوششوں کے مد مقابل ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور فکری و رفتاری اختلاف کو دو گروہوں میں تقسیم ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

رہبر معظم نے اسی سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر نظام کسی کلی مسئلہ میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو سب کو متحد ہوکر اس فیصلہ و مؤقف کی حمایت کرنی چاہیے اور آج تک ایسا ہی ہوا ہے اور خدا کی نصرت و مدد سے اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔

رہبر معظم نے تینوں قوا بالخصوص حکومت کی تقویت کو حکام اور عوام کی اہم ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: حکومت کی نصرت ومدد ، ملک کی نصرت و مدد ہے اور اسی وجہ سے کلی طور پر میں نےہمیشہ حکومتوں کی حمایت کی ہے۔

رہبر معظم نے نویں حکومت کی اچھی تلاش و کوشش کو سراہتے ہوئے فرمایا: صدر کا سب کو احترام کرنا چاہیے اور اگر حکومت کے کسی کام پر اعتراض ہے تو اسے کسی طریقے سے حکومت کے اہلکاروں تک پہنچانا چاہیے لیکن اگرحکومت کی نااہلی اورکوتاہی درست بھی ہو تو بھی اسکے خلاف تبلیغ و پروپیگنڈہ صحیح نہیں ہے البتہ ایسا نہیں ہے اور حکومت کے خلاف اس قسم کی تبلیغ غیر منصفانہ ہے۔

رہبر معظم نے قوہ عدلیہ اور مقننہ کو بھی کمزور بنانے کو غلط قراردیتے ہوئے فرمایا: تنقید کرنا صحیح اور عقلمندانہ کام ہے لیکن نااہل قراردینا صحیح نہیں ہے۔

رہبر معظم نے عوام کے سامنےحکام کا ایکدوسرے کے بارے میں اظہار ناراضگي کے عمل کو غلط قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی عوام کی کیا غلطی ہے کہ ایکدوسرے کے بارے میں اظہار ناراضگی کرکے ہم ان کے دل کو شکستہ بناتے ہیں؟

رہبر معظم نے حال ہی میں جنگ کے خاتمہ اور قرارداد کے بارے میں بعض مسائل کو بڑا بنا کر پیش کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر یہ باتیں بیان نہ کی جاتیں تو اچھا ہوتا لیکن اب جبکہ بیان کی جا چکی ہیں تو ان کے بارے میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی نہیں کرنی چاہیے اور اس طریقہ سے بات کرنی چاہیے کہ کوئی اہم واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔

رہبر معظم نے جنگ کے حقائق اور واقعیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سیاسی اور فوجی حکام کی فراواں خدمات کے ساتھ کچھ کمزوریاں بھی تھیں جس کے نتیجے میں حضرت امام(رہ) کو قرارداد کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑا اور عوام کو ان اطلاعات کے بارے میں مناسب موقع پراور بتدریج آگاہ کیا جائے گا۔

اور تمام توانائیوں ، کمزوریوں اور کوتاہیوں کے نتیجے میں جو کچھ ہوا وہ شکست اور تسلیم کے معنی میں نہیں تھا کیونکہ امت کے عظيم الشان امام(رہ) پر امید مستقبل، استقامت اور ثابت قدمی کا مظہر تھے اور انھوں نے جنگ اور قرارداد کو قبول کرنے اور دیگر واقعات کے سلسلے تمام فیصلے اسی بنیاد پر کئے اور ہمیں بھی اسی روش کی تعلیم دی ۔

رہبر معظم نے شجاعت کے ہمراہ تدبیر کو امام(رہ) اور انقلاب کی منطق و روش قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام آج بھی ایران کی مؤمن قوم کی طاقت و قدرت کے سہارے ،بصیرت و تدبیر اور شجاعت و دلیری کے ساتھ اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہناتا ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں اور نزاکتوں کے مطابق اپنے اہداف تک پہنچنے کی کوشش کررہا ہے جیسا کہ ایٹمی معاملے میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔

رہبر معظم نے دو سال قبل یورینیم کی افزودگی کو متوقف کرنے کے فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم اس راستے کا تجربہ نہ کرتے تو شاید آج ہمیں اپنی سرزنش کرنا پڑتی کہ کیوں ہم نے اس طریقہ کار کا امتحان نہیں کیا لیکن آج ہم مکمل طور پرمضبوط و مستحکم ہوکر آگے کی سمت بڑھیں گے اور اب کوئی بھی ایران کو ایٹمی راستے پر گامزن ہونے کو غلط قرار نہیں دے سکتا کیونکہ ہم نے اس دوسرے راستے کا بھی تجربہ کرلیا ہے۔

رہبر معظم نے اسی سلسلے میں فرمایا: البتہ اس کا نتیجہ دوسال پہلے بھی معلوم تھا ان ایام کے بارے میں جو حالات و واقعات ثبت ہوئے ہیں وہ ایک دن عوام کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے بہرحال وہ فیصلہ اس دور کے اعتبار سے ضروری تھا۔

رہبر معظم نےایٹمی پروگرام کے بارے میں بیان کئے گئے مطالب کا خلاصہ کرتے ہوئے فرمایا: ہماری پالیسی " پیشرفت، واضح منطق ، ایرانی عوام کے حق پر ثابت قدمی " سے واضح ہے البتہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی ہمارا مقصد بالکل واضح اور انسانی بنیادوں پر استوار ہے۔

رہبر معظم نے اپنے خطاب میں خبرگان کونسل اور بلدیاتی کونسلوں کے انتخابات کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ دونوں انتخابات اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اور ملک کے ہر فرد اور سیاسی و سماجی تنظیموں کو ان انتخابات کی نسبت اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔

رہبر معظم نے انتخابات کے سالم منعقد کرانے اور عوام کی آراء کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات کی فضا میں امن و سکون بھی اہم ہےاور اس سلسلے میں تمام ذرائع ابلاغ ، نشریات اور مقررین کو ہوشیار اور آگاہ رہنا چاہیے کیونکہ تخریب و توہین سے انتخابات کی فضا مکدر ہوجاتی ہے اور دوسروں کی توہین و تخریب بالکل جائز نہیں ہے۔

رہبر معظم نے فرمایا: انتخابات میں عوامی حضور کو یقینی بنانا سب کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کسی دوسرے وقت میں بھی عوام سے گفتگو کروں گا۔

رہبر معظم نے حکومتی اور فوجی اہلکاروں پر زوردیا کہ وہ انتخابات میں کسی بھی عنوان سے اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں اور ووٹر لسٹوں کی تیاری میں بھی مداخلت نہ کریں بلکہ اس طرح عمل کرنا چاہیے تاکہ حکومتی اہلکاروں کا انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہ پڑے۔

رہبر معظم نے اسی طرح عراق ، فلسطین اور لبنان میں امریکی پالیسیوں کی شکست و ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ علاقائی ممالک کو غیر حقیقی مسائل کے ذریعہ ڈرانے کی کوشش اور ایران کو الگ تھلگ کرنے کی تلاش میں مصروف ہے لیکن جس طرح اب تک اسے ناکامی کا سامنا رہا ہے اس کے بعد بھی اس شکست ہی نصیب ہوگی۔

رہبر معظم نے فرمایا: امریکہ، ایران کو ماوراء طاقت ظاہر کرکےاور شیعی ہلال جیسے مسائل بیان کرکے علاقائی ممالک کو ڈرانے کی تلاش و کوشش کررہا ہے اور علاقہ کے سیاسی حکام اور حکومتوں کو امریکی مکر وفریب کے بارے میں ہوشیار اور آگاہ رہنا چاہیے۔

رہبر معظم نے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے ہی ایران ایک طاقتور ملک میں تبدیل ہوگیا اور حالیہ برسوں میں اس کی طاقت و قدرت کی علامتیں مزید آشکار ہوگئی ہیں اور یہ طاقت قوم پر اعتماد اور اسلامی اصولوں سے تمسک کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہے اور ایران کی طاقت کسی بھی علاقائی ملک کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران حق و انصاف کا حامی اور ظلم و ستم اور تجاوز کا مخالف ہے۔

اس ملاقات میں صدر احمدی نژاد نے مختلف شعبوں میں حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: عدل و انصاف کا نفاذ نویں حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے لہذا گذشتہ ایک سال میں حکومتی بجٹ اور بینکی سہولیات اور ملک کے مالی ذخائر کومنصفانہ طور پر ملک کے تمام حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عدالت سہام کی تقسیم کابھی جلد ازجلد آغاز کردیا جائے گا۔

صدر احمدی نژاد نے مالی بدعنوانیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کو عدل و انصاف کے نفاذ کے سلسلے میں حکومت کا اہم قدم قراردیتے ہوئے کہا: اقتصادی بد عنوانیوں کے ساتھ مقابلہ در حقیقت سرمایہ کاری کے شعبے میں امن فراہم کرنے کے معیاروں میں شامل ہے اور اس سے سرمایہ کاری میں کمی واقع نہیں ہوگی۔

صدر احمدی نژاد نے بےروزگاری کے خاتمہ ، جوانوں کی شادیوں اور مسکن کے سلسلے میں حکومتی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس سلسلے میں بینکی سہولیات کی مناسب فراہمی اور امام رضا (ع) قرض الحسنہ صندوق کی تشکیل اور سریع منافع بخش صنعتوں کی تاسیس اور تیل کے علاوہ دوسری اشیاء کے صادر کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں ۔ صدر احمدی نژاد نے کہا: حکومت کے منصوبوں کی روشنی میں سن 84 ہجری شمسی میں تیل کے علاوہ دوسری اشیاء کے صادر کرنے میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور سنہ 85 ہجری شمسی کی پہلی ششماہی میں 5/58 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

صدر احمدی نژاد نے دیہاتوں میں دو ہزار مکانوں کی تعمیر، مکانوں کی کل قیمت سے زمین کی قیمت کو خارج کرنے، شعبہ صنعت میں سرمایہ کاری میں 101 فیصد اضافہ ، زراعت کی اصلی محصولات کی نقدی خریداری ، اور شعبہ زراعت میں سرمایہ کاری میں تین فیصد اضافہ ، ایکسچینج معاملات میں شفافیت،حکومتی اخراجات میں کمی، تعمیراتی بجٹ میں اضافہ، مہنگائی کو ختم کرنے کا منصوبہ، ثقافتی شعبہ میں اصلاحات، سیاحت میں توسیع اور بجٹ میں دفعہ 13 کو شامل کرکے شہری حمل و نقل میں اصلاحات اور ایندھن کے مصرف میں کمی اور گذشتہ ایک سال ہونے والے دیگر اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کابینہ کے ارکان نے اس مدت میں ملک کے 19 صوبوں کا دورہ کیا ہے اور اب تک منظور ہونے والے تین ہزار و تین سو پروگراموں میں 60 فیصد پروگراموں کو عملی جامہ پہنایا جاچکا ہے۔

صدر احمدی نژاد نے خارجہ پالیسی میں ایٹمی معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : حکومت کو گذشتہ ایک سال میں فعال ڈپلومیسی کے ذریعہ اس مسئلے میں کافی پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور غیر وابستہ تحریک کے 118 ممالک ، اسلامی کانفرنس تنظیم کے 57 ممالک اور ڈی ایٹ اور اکو کے سربراہوں نے ایران کے پرامن ایٹمی حقوق کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

صدر احمدی نژاد نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نےایٹمی معاملے پر مذاکرات سےممکنہ استفادہ کیا ہے اورحکومت مذاکرات کو جاری رکھنے کی پالیسی پرگامزن رہےگي۔ ایرانی عوام کا کارواں تدبیر اور استقامت اور کسی قسم کے خوف و ہراس کے بغیرعزت کے راستے پر گامزن رہےگا۔

اس ملاقات کے اختتام پر حاضرین نے نماز مغرب و عشاء رہبر معظم انقلاب اسلامی کی امامت میں ادا کی اور اس کے بعد معظم لہ کے ہمراہ روزہ افطار کیا۔

700 /