آج حسینیہ امام خمینی (رہ)میں مولی الموحدین حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی مسعود و مبارک ولادت باسعادت کی مناسبت سے ملک بھر سے مختلف طبقات کےہزاروں افراد نےعشق و ایمان سے سرشار وبصورت جلوؤں کو پیش کیا اور یا علی (ع) کے ذکر کے ساتھ ولایت کے مقام و منزلت کے بارے میں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں اسلامی معاشرے میں اتحاد کی حفاظت اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے حضرت علی (ع) کے خصوصی اہتمام کی طرف اشارہ کیا اور دشمنوں کی طرف سے تفرقہ انگیزسازشوں کے مقابلے میں ہوشیاری اور باہمی اتحاد کو عالم اسلام بالخصوص ایرانی قوم کی موجودہ ضرورت قراردیا اور ایران کے حالیہ واقعات میں بعض مغربی ممالک کی مداخلت پر انھیں ایرانی عوام اور حکومت کے شدید رد عمل پر متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: 22 خرداد کے دن ایرانی عوام کی عظیم اور شاندار حرکت اورانتخابات میں 40 ملین کے قریب عوام کی بے مثال شرکت پر شکریہ در حقیقت باہمی اتحاد کی حفاظت ، ہمدلی ، مہربانی ، مشفقانہ نظر، شوق و نشاط اور عوام و ممتاز شخصیات کے درمیان انقلاب کی دائمی حرکت اور دوست ودشمن کی صحیح پہچان ہے۔
رہبر معظم نے ایرانی عوام کے اتحاد و انسجام میں اسلام اور انقلاب اسلامی کے کردار اور ہمدلی و اتحاد کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: 22 خرداد کے انتخابات میں 85 فیصد عوام کی بے مثال اور شاندار شرکت سے واضح ہوگیا کہ انقلاب اسلامی 30 سال گذرنے کے بعد بھی اتنے بڑے اور وسیع پیمانے پر عوام کو میدان میں لانے کی طاقت رکھتا ہے، لہذا دشمنوں نے بھی عوام کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے لئےاپنی سرگرمیاں تیز کردیں اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئے البتہ قوم کوچاہیے کہ وہ دشمن کی اس سازش کوناکام بنائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کی واضح پالیسی کی طرف اشارہ کیا اور امیدواروں کے درمیان باہمی رقابت کو ایک خاندان کی اندرونی رقابت قراردیتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے خاندان کے اندر رقابت کے نتیجے میں کبھی غیظ و غضب بھی پیدا ہوجائے لیکن اس مسئلہ کا اغیار سے کوئي ربط نہیں ہے۔
رہبر معظم نے ملک کے داخلی مسائل میں دشمن کی مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے داخلی مسائل میں دشمن کی مدالت کا مقصد عوام کے درمیان پھوٹ ڈالنا اور اختلافات پیدا کرنا ہے مغربی ممالک کے بعض رہنماؤں نے صدر ، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی سطح پر ایرانی قوم کے داخلی مسائل میں آشکارا مداخلت کی ہے جس کا ان سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ہم ایران کے اندرونی مسائل میں مداخلت نہیں کرتے جبکہ انھوں بلوہ کرنے والے افراد کی تشویق کی اور ایرانی عوام کو بلوائی قراردیا ۔
رہبر معظم نے فرمایا: بلوہ اور توڑ پھوڑ کرنے والے وہی چند عناصر ہیں جوایران میں بد امنی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے مغربی ممالک کے منظور شدہ بجٹ سے استفادہ کرتے ہیں اورانتخابات میں اگرگروہ کا امیدوار ووٹ حاصل نہ کرسکے تو ان میں قدرتی طور پر افسردگی اور ناراحتی کا احساس پیدا ہوتا ہے اس کا مطلب توڑ پھوڑ اور بلوہ کرنا نہیں کیونکہ ملک میں اکثریت و اقلیت انتخابات کے نتائج کی بنیاد پرہوتی ہے اور اس کے لئے قواعد و ضوابط موجود ہیں لہذا صہیونیوں کے زیر تسلط امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ میں ایرانی عوام کی بلوائیوں کے عنوان سے تبلیغ و ترویج در حقیقت ایرانی عوام کی سخت توہین ہے۔
رہبر معظم نے بعض مغربی حکومتوں کے رہنماؤں کو متنبہ کرتے ہوئےفرمایا: مغربی حکومتوں کو اپنی معاندانہ رفتار اور اپنے معاندانہ اظہارات پر دقیق نظر رکھنی چاہیے کیونکہ ایرانی قوم اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرےگی ۔
رہبر معظم نے فرمایا: ہم مغربی حکومتوں کی مداخلت اور انکی رفتار اور اظہارات کا محاسبہ کریں گے اور آئندہ باہمی روابط میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔
رہبر معظم نے ایرانی عوام کو مقتدر قوم اور اسلامی نظام کی جڑوں کو مضبوط و مستحکم قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر اسلامی جمہوریہ کے حکام کے درمیان ایکدوسرے کے بارے میں اختلافات بھی ہوں پھر بھی وہ ملک کے استقلال کی حفاظت اور دشمن کے سامنے استقامت دکھانے کے لئے متحد اور ایک آواز ہیں اور دشمن جان لے کہ وہ ایرانی عوام کے درمیان اختلافات ڈالنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
رہبر معظم نے فرمایا: سامراجی ممالک کے رہنماؤں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب دشمن کی بات سامنے آتی ہے تو ایرانی قوم دشمن کے مقابلے میں متحد اور ان کے خلاف آہنی مٹھی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
رہبر معظم نے ایرانی عوام کے ساتھ دشمنوں اور اغیار کی سازشوں کے گذشتہ تیس سال کے تجربہ کی طرف اشارہ کیا اور بعض مغربی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ یہ تصور نہ کریں کہ اگر آپ نے ایک گروہ کی حمایت کی یا کچھ افراد کے نام لے لئے تو وہ گروہ یا وہ افراد آپ کی طرف متمائل ہوجائیں گے ایسا ہر گز نہیں ہوگا کیونکہ آپ کا جھوٹ ایرانی قوم پر واضح اور آشکار ہے اور وہ جانتے ہیں کہ آپ مقصد ایرانی عوام کی صفوں میں بدگمانی پھیلانا ، اختلاف پیدا کرنا اور اسلامی نظام کے بارے میں بغض و کینہ و عناد کو جاری رکھناہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: بعض مغربی سامراجی ممالک اپنی منہ زور اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لئے اسلامی نظام کے استقلال اور پائداری کو ختم کرنے کا آشفتہ اور باطل خواب دیکھ رہے ہیں ہے اور مغربی حکومتوں کی طرف سے بعض افراد کی حمایت یا بعض کی مخالفت محض ایک فریب ہے کیونکہ ان کی نظر میں وہ فرددشمن ہے جو اسلامی نظام ، بنیادی آئین اور ایرانی عوام کے اعلی اہداف کا پابند ہے ۔
رہبر معظم نے فرمایا: اسلامی نظام کے تیس سالہ پائدار تجربہ اور ایرانی عوام کی طرف سے بعض سامراجی اور منہ زور مغربی طاقتوں کے منہ پر زوردار طمانچہ نے انھیں بیدار نہیں کیا ہے اور اس ملک و قوم پر ان کی طمع اور لالچی نگاہیں اسی طرح لگي ہوئی ہیں جبکہ وہ سخت اشتباہ میں ہیں اور اپنے اشتباہ کا نتیجہ وہ دیکھ لیں گے ۔
رہبر معظم نے اسلامی نظام کے خلاف بعض مخرب و معاند ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس قسم کے عناصر و عوامل گذشتہ برسوں میں بھی موجود رہے ہیں اور ان افراد کو جان لینا چاہیے کہ درندہ صفت دشمن ان سے اپنے مفادات کے پورا ہونے تک استفادہ کرےگا اور اس کے بعد انھیں دستمال کی طرح کوڑےدان میں پھینک دےگا۔
رہبر معظم نے دوست اور دشمن کی صحیح پہچان اور ہوشیاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ فریب خوردہ معدود اور چند عناصر دشمن کو غلط علامتیں بتاتے ہیں اور دشمن بھی ان علامتوں کے فریب میں آجاتا ہے لیکن عوام ، ممتاز شخصیات اور احزاب کو ہوشیار اور آگاہ رہنا چاہیے اور دوست و دشمن کی پہچان میں اشتباہ نہیں کرنا چاہیے جو رفتار دشمن کے ساتھ رکھنی چاہیے وہ دوست کے ساتھ نہیں رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم نے بدامنی پھیلانے والے بلوائیوں کے حساب کو عام لوگوں سے الگ قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کے امن و امان اور آسائش کو خطرے میں ڈالنے والوں اور جوانوں کو دھمکی دینے والوں کے ساتھ اسلامی نظام اپنی ذمہ داری کی بنیاد پر عمل کرےگا لیکن دوست اور دشمن کے درمیان اشتباہ نہیں کرنا چاہیے اور دوست کو ایک غلطی کی بنا پر دشمن نہیں سمجھنا چاہیے۔
رہبر معظم نے فرمایا: ادھر ان لوگوں کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے اور معاند دشمن کو دوست نہیں سمجھنا چاہیے اور اس کی باتوں کے فریب میں نہیں آنا چاہیے۔
رہبر معظم نے فرمایا: حق کے مدمقابل اور ہوشیار قوم کے سامنے ہر فتنہ ناکام ہوجائے گا اور دشمن نے حالیہ واقعات میں جن فتنوں پر امیدیں وابستہ کررکھی تھیں خدا کے فضل و کرم سے وہ سب ناکام ہوگئے ہیں۔
رہبر معظم نے فرمایا: فتنوں کے ختم ہونے کے بعد جو گرد و غبار باقی رہ جاتا ہے وہی قضیہ کی حقیقت اور اصل ہے اور یادگار و اصل حقیقت وہی انتخابات ہیں جن میں 40 ملین کے قریب افراد نے شرکت کی اور عوام نےاسلامی نظام کے بارے میں تیس سال بعد بھی اپنی محبت اور اعتماد کا اظہار کیا اور ایک صدر کو 24 ملین سے زائد ووٹوں کے ساتھ منتخب کیا۔
رہبر معظم نے اس عظیم نعمت پر حکام اور عوام کی جانب سےقدردانی اور شکر گذاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: عوام کے اس عظیم استقبال کے مقابلے میں حکام اور منتخب صدر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے جامع اور کامل خدمات انجام دیں اور ملک کی ترقی و پیشرفت اور ایران کی بزرگ قوم کے باہمی اتحاد کے سلسلے میں اپنی تلاش و کوشش جاری رکھیں۔
رہبر معظم نے عوام کی ذمہ داری کے سلسلے میں بھی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی عوام کو بھی دشمن کی مرضی کے خلاف اور باہمی اتحاد ، انسجام ، ہوشیاری شوق و نشاط اور انقلاب کے اہداف کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں حرکت کرنی چاہیے اور ان کا یہ قدم یقینی طور پر حضرت ولی عصر(عج) کی خوشنودی کا موجب قرارپائے گا۔
رہبر معظم نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں پیغمبر اسلام(ص) کے نزدیک حضرت علی (ع) کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کیا اور حضرت علی (ع) کی حیات طیبہ کو اسلامی تربیت کا اعلی نمونہ اور امت اسلامی کی سعادت و کمال کے لئے بہت سے دروس کا مجموعہ قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت علی(ع) کی عظیم الشان زندگی کا ایک عظیم درس عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے حق کی حمایت اور اسلامی معاشرے میں اتحاد کی حفاظت پر مبنی ہےاور حضرت نے اس راہ میں سخت اور دشوار امتحانات برداشت کئے ہیں حتی بعض موارد میں انھوں نے اسلام کی مصلحت کے لئے اپنے حق کو بھی نظر انداز کیا ہے۔
رہبر معظم نے مسلمانوں کی صفوں میں دشمن کی طرف سے اختلاف ڈالنے اور سنی اور شیعہ کو ایکدوسرے کے آمنے و سامنے قراردینے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالم اسلام کو اپنے اعلی اہداف اور ضرورتوں کے مطابق آج اتحاد کلمہ کی پہلے سے کہيں زیادہ ضرورت ہے اور اگر مسلمان اتحاد کی حفاظت کریں تو دشمن اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے ان کے ضعف سے استفادہ نہیں کرسکیں گے۔
واضح رہے کہ اس ملاقات میں عدلیہ یونیورسٹی کے بعض طلباء ، تہران کے آئمہ جماعات ، رضاکار فورس اور مشہد ، اہواز ، بوشہر ، سنندج ، ورامین ، مہریز، انار، مبارکہ ، ہرمز، نجف آباد ، کاشان ، اراک ، شہر رے اور سبزوار کےشہداء کے اہلخانہ موجود تھے۔