رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج بعثت پیغمبر اسلام کی مناسبت سے عوام کے مختلف طبقات اور اسلامی نظام کے حکام سے ملاقات فرمایا: آج اسلامی معاشرے کی سب سے اہم اور اصلی ضرورت بعثت کے پیغام پر عمل کرنا ، عقل و خرد کو معیار قرار دینا، اخلاقی اقدار کو حاکم بنانااور قانونی نظم و ضبط کی بنیاد پر کام کرناہے اور اس سلسلے میں اہم شخصیات اور بزرگوں کی ذمہ داریاں سب سے اہم ہیں۔
عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موقع پر مختلف عوامی طبقات اور اسلامی نظام کے حکام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعثت پیغبر اسلام (ص)کو تاریخ بشریت کا نہایت اہم موڑ قرار دیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ اور ایرانی عوام کو عید بعثت کی مناسبت سےمبارکباد پیش کی اور عاقلانہ تربیت و علم و دانش اور تفکر و تدبر کو بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے پیغام کا سب سے اہم جز قرار دیتے ہوئےفرمایا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا کام اسلامی معاشرے میں عقل و خرد کی بالادستی کو قائم کرنا تھا کیونکہ معاشرے میں عقل و خرد اور فکری صلاحیت کی تقویت و پرورش، تمام مشکلات کا حل ہے کیونکہ اس سے نفس کو قابو میں رکھنے اور اللہ تعالی کی بندگی پرگامزن رہنےکی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اخلاقی تربیت کو بعثت کے پیغام کا دوسرا اہم حصہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: معاشرے میں اخلاقی قدروں کا رواج اس لطیف ہوا کی مانند ہے جو صحتمند زندگی کی ضامن ہوتی ہے اور انسان کو حرص و طمع، جہالت و نادانی، دنیا طلبی و مادہ پرستی، ذاتی بغض و عناد اور ایک دوسرے سے بدگمانی سے دور رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلام میں نفس کی پاکیزگی نفساور اخلاقی فضائل کو تعلیم پر بھی ترجیح دی گئی ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے قانونی نظم و ضبط کو بعثت کے پیغام کا تیسرا حصہ قرار دیا اور اسلامی احکامات اور فرامین پر عملدرآمد میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیش پیش رہنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ ساری مثالیں اسلامی معاشرے کے لئے معیار اور کسوٹی کا درجہ رکھتی ہیں، اور میدان زندگی انسانوں کی آزمائش کا مقام ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے موجودہ وقار کو گزشتہ تیس برسوں کی آزمایشوں میں کامیابی اور سربلندی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے ان کامیابیوں کے بدلے میں ملت ایران کو بہت عظیم ثمرات عطا کئے ہیں اور آج بھی لوگ بلند اسلامی اہداف کی سمت گامزن اور رواں دواں ہیں جس کا نتیجہ ملت ایران کے اندر اپنی شناخت اور اپنے با وقار ہونے کا احساس ہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: یہ جو دنیا کی سامراجی طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جو مقابلے کا راستہ اتیار کیاہے اور اسلامی نظام کو اپنے اہداف کی راہ میں خاص طور پر مشرق وسطی کے علاقے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھتی ہیں وہ ایرانی حکومت و قوم و اسلامی نظام کی عظمت کا غماز ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان ثمرات کو دین کے احکامات پر عمل کرنےکے سلسلے میں ایرانی عوام کی پیشقدمی کا نتیجہ قرار دیا اور معاشرے کی علمی شخصیات اور اہم رہنماؤں کے کردار کو عوام کے لئے نمونہ عمل قرار پانے کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ تیس برسوں میں ایرانی عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ وفادار اور تحمل و برداشت کی قوت سے سرشار ہیں ۔ صدارتی انتخابات کے بعد کے مسئلے میں بھی ملت ایران کی یہ خصوصیت ایک بار پھر نمایاں ہوئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سماجی زندگی کی سطح پر ایرانی قوم کے اندر الگ الگ طرز فکر موجود ہیں اور ہر کوئی اپنا نظریہ پیش کرتا ہے، لیکن جیسے ہی ملت ایران کو یہ احساس ہوتا ہے کہ (اسلامی) نظام سے دشمنی کی بات آ گئی ہے اور "کوئی ہاتھ" نظام پر وار کرنے کے لئے کسی تحریک کو منظم کر رہا ہے تو قوم اس سے دوری اختیار کر لیتی ہے خواہ وہ اسی نعرے کا سہارا کیوں نہ لے جس کی ملت ایران معتقد ہے۔
رہبر معظم نے حالیہ واقعات کو ملت ایران کے لئے گزشتہ برسوں کے تجربات کے ساتھ ہی حاصل ہونے والا اہم درس اور تجربہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: یہ واقعات اس درس اور تجربے کے حامل تھے کہ ایسے وقت میں بھی کہ جب کوئی بڑا عمل مکمل امن و ثبات کی فضا میں انجام پا رہا ہو تب بھی دشمنوں کے مکر و حیلے سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسے عالم میں کہ جب سارے لوگ کہہ رہے تھے کہ چار کروڑ لوگوں کی شرکت سے منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات آغاز انقلاب سے اب تک کا بے نظیر واقعہ اور تیس سال کے بعد بھی عوام کو میدان میں لانے کی اسلامی نظام کی صلاحیت کا ثبوت تھا، سب کو محسوس ہو گیا کہ ایسے عالم میں بھی قوم پر ضرب لگانے کے دشمنوں کے منصوبوں سے غفلت نہیں برتنا چاہئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہ کرنے کے دشمنوں کے دعوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایسے وقت جب ان کی مداخلت اور خاص طور پر ان کے ذرائع ابلاغ کا کردار بالکل آشکارا ہے، ان کا یہ دعوا بے حیائی کی علامت ہے۔
رہبر معظم نے چند سال قبل قوموں کو خود مختاری و عزت و وقار کی راہ سے منحرف کرنے کے ہدف سے جاری سامراج کے ذرائع ابلاغ اور خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اپنے انتباہ کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا: ملت ایران کے دشمن اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نادان و غافل بلوائی گروہوں کے لئے بد امنی، تخریبی اقدامات اور جھڑپوں کے سلسلے میں اعلانیہ احکامات اور ہدایات جاری کرتے ہیں اور دوسری جانب یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتے جبکہ بالکل واضح اور آشکارا طور پر مداخلت کر رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بلوائیوں اور عوام کے درمیان فرق قائم کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: سامراجی ذرائع ابلاغ بلوائیوں کی حمایت کے مقصد سے انہیں ایرانی عوام کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ ایرانی عوام تو وہ کروڑوں لوگ ہیں جو ان بلوائیوں اور تخریب کاروں کو دیکھتے ہی خود کو الگ کر لیتے ہیں اور انہیں نفرت و بیزاری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا : کسی بھی عہدے اور مقام پر فائز کوئی بھی شخص اگر معاشرے کو بد امنی کی جانب لے جانے کی کوشش کرے گا تو وہ ایرانی قوم کی نظر میں منفور قرار پائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا : ملت ایران کے بلند اہداف اور دنیا و آخرت کی سعادت و خوشبختی کا حصول امن و سکون کے ماحول میں ہی ممکن ہے۔
رہبر معظم نے امن و امان کی صورت حال کو نقصان پہنچانے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا اور بااثر شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اہم شخصیات ہوشیار رہیں کیونکہ ان کی ہر وہ بات، تجزیہ اور اقدام جو معاشرے کے امن و امان کے ردہم و برہم ہونے کا باعث ہو، ملت ایران کی ترقیو پیشرفت اور اہداف کے خلاف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے بیان، موقف حتی اپنے سکوت کے تئیں محتاط رہے کیونکہ ان مسائل کے سلسلے میں سکوت جن کو بیان کرنا ضروری ہے در حقیقت فریضے پر عملدرآمد نہ کرنا ہے اور ایسی باتیں کہنا جو نہیں کہنی چاہئیں فریضے کے خلاف عمل کرنے سے عبارت ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بڑی شخصیات محتاط رہیں کیونکہ ان کے سامنے بڑے عظیم امتحان کا لمحہ آن پہنچا ہے جس میں کامیاب نہ ہونا صرف ناکام ہو جانا نہیں بلکہ ان کے سقوط کا موجب ہوگا۔ رہبر معظم نے ایسے انجام سے نجات کا راستہ عقل و خرد کو معیار قرار دینا قراردیتے ہوئے فرمایا: عقلمندی یہ رائج سیاست بازی نہیں ہے کیونکہ سیاست بازی عقل کے منافی ہے اور جو لوگ سیاست بازی کو عقلمندی تصور کرتے ہیں وہ غلطی کر رہے ہیں۔
رہبرمعظم نے فرمایا : صحیح عقلی طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت کی راہ ہموار کرتا ہے اور اس کا معیار یہ ہے کہ ہم خود فیصلہ کریں کہ ہمارا بیان اور موقف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے اخلاص کے ساتھ ہے یا بعض افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کیلئے۔ ہمیں خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغامات پر غور کرنے اور اسے ایک جشن سے بالاتر واقعہ کی حیثت سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےفرمایا: بعثت، انسانیت کے لئے بہت اہم موڑ ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دس سالہ حکومت کے زمانے میں جو اقدامات کئے اور تاریخ انسانیت میں جو تبدیلیاں پیدا کیں ان کا کسی بھی اقدام اور تبدیلی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر جمہوریہ ڈاکٹر احمدی نژاد نے عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سےمبارکباد پیش کی اور انسانوں کو جہل و ظلم کی تاریکی سے نجات دلانے اور انہیں نور ہدایت کی سمت گامزن کرنے میں اس عظیم تاریخی واقعہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا : پیغمبر اسلام، دین کے احکامات پر عمل کے سلسلے میں سب سے پیش پیش رہتے تھےاور انسانیت کی موجودہ مشکلات کی بنیادی وجہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات سے دوری ہے۔
عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موقع پر مختلف عوامی طبقات اور اسلامی نظام کے حکام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعثت پیغبر اسلام (ص)کو تاریخ بشریت کا نہایت اہم موڑ قرار دیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ اور ایرانی عوام کو عید بعثت کی مناسبت سےمبارکباد پیش کی اور عاقلانہ تربیت و علم و دانش اور تفکر و تدبر کو بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے پیغام کا سب سے اہم جز قرار دیتے ہوئےفرمایا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا کام اسلامی معاشرے میں عقل و خرد کی بالادستی کو قائم کرنا تھا کیونکہ معاشرے میں عقل و خرد اور فکری صلاحیت کی تقویت و پرورش، تمام مشکلات کا حل ہے کیونکہ اس سے نفس کو قابو میں رکھنے اور اللہ تعالی کی بندگی پرگامزن رہنےکی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اخلاقی تربیت کو بعثت کے پیغام کا دوسرا اہم حصہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: معاشرے میں اخلاقی قدروں کا رواج اس لطیف ہوا کی مانند ہے جو صحتمند زندگی کی ضامن ہوتی ہے اور انسان کو حرص و طمع، جہالت و نادانی، دنیا طلبی و مادہ پرستی، ذاتی بغض و عناد اور ایک دوسرے سے بدگمانی سے دور رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلام میں نفس کی پاکیزگی نفساور اخلاقی فضائل کو تعلیم پر بھی ترجیح دی گئی ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے قانونی نظم و ضبط کو بعثت کے پیغام کا تیسرا حصہ قرار دیا اور اسلامی احکامات اور فرامین پر عملدرآمد میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیش پیش رہنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ ساری مثالیں اسلامی معاشرے کے لئے معیار اور کسوٹی کا درجہ رکھتی ہیں، اور میدان زندگی انسانوں کی آزمائش کا مقام ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے موجودہ وقار کو گزشتہ تیس برسوں کی آزمایشوں میں کامیابی اور سربلندی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے ان کامیابیوں کے بدلے میں ملت ایران کو بہت عظیم ثمرات عطا کئے ہیں اور آج بھی لوگ بلند اسلامی اہداف کی سمت گامزن اور رواں دواں ہیں جس کا نتیجہ ملت ایران کے اندر اپنی شناخت اور اپنے با وقار ہونے کا احساس ہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: یہ جو دنیا کی سامراجی طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جو مقابلے کا راستہ اتیار کیاہے اور اسلامی نظام کو اپنے اہداف کی راہ میں خاص طور پر مشرق وسطی کے علاقے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھتی ہیں وہ ایرانی حکومت و قوم و اسلامی نظام کی عظمت کا غماز ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان ثمرات کو دین کے احکامات پر عمل کرنےکے سلسلے میں ایرانی عوام کی پیشقدمی کا نتیجہ قرار دیا اور معاشرے کی علمی شخصیات اور اہم رہنماؤں کے کردار کو عوام کے لئے نمونہ عمل قرار پانے کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ تیس برسوں میں ایرانی عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ وفادار اور تحمل و برداشت کی قوت سے سرشار ہیں ۔ صدارتی انتخابات کے بعد کے مسئلے میں بھی ملت ایران کی یہ خصوصیت ایک بار پھر نمایاں ہوئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سماجی زندگی کی سطح پر ایرانی قوم کے اندر الگ الگ طرز فکر موجود ہیں اور ہر کوئی اپنا نظریہ پیش کرتا ہے، لیکن جیسے ہی ملت ایران کو یہ احساس ہوتا ہے کہ (اسلامی) نظام سے دشمنی کی بات آ گئی ہے اور "کوئی ہاتھ" نظام پر وار کرنے کے لئے کسی تحریک کو منظم کر رہا ہے تو قوم اس سے دوری اختیار کر لیتی ہے خواہ وہ اسی نعرے کا سہارا کیوں نہ لے جس کی ملت ایران معتقد ہے۔
رہبر معظم نے حالیہ واقعات کو ملت ایران کے لئے گزشتہ برسوں کے تجربات کے ساتھ ہی حاصل ہونے والا اہم درس اور تجربہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: یہ واقعات اس درس اور تجربے کے حامل تھے کہ ایسے وقت میں بھی کہ جب کوئی بڑا عمل مکمل امن و ثبات کی فضا میں انجام پا رہا ہو تب بھی دشمنوں کے مکر و حیلے سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسے عالم میں کہ جب سارے لوگ کہہ رہے تھے کہ چار کروڑ لوگوں کی شرکت سے منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات آغاز انقلاب سے اب تک کا بے نظیر واقعہ اور تیس سال کے بعد بھی عوام کو میدان میں لانے کی اسلامی نظام کی صلاحیت کا ثبوت تھا، سب کو محسوس ہو گیا کہ ایسے عالم میں بھی قوم پر ضرب لگانے کے دشمنوں کے منصوبوں سے غفلت نہیں برتنا چاہئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہ کرنے کے دشمنوں کے دعوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایسے وقت جب ان کی مداخلت اور خاص طور پر ان کے ذرائع ابلاغ کا کردار بالکل آشکارا ہے، ان کا یہ دعوا بے حیائی کی علامت ہے۔
رہبر معظم نے چند سال قبل قوموں کو خود مختاری و عزت و وقار کی راہ سے منحرف کرنے کے ہدف سے جاری سامراج کے ذرائع ابلاغ اور خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اپنے انتباہ کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا: ملت ایران کے دشمن اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نادان و غافل بلوائی گروہوں کے لئے بد امنی، تخریبی اقدامات اور جھڑپوں کے سلسلے میں اعلانیہ احکامات اور ہدایات جاری کرتے ہیں اور دوسری جانب یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتے جبکہ بالکل واضح اور آشکارا طور پر مداخلت کر رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بلوائیوں اور عوام کے درمیان فرق قائم کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: سامراجی ذرائع ابلاغ بلوائیوں کی حمایت کے مقصد سے انہیں ایرانی عوام کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ ایرانی عوام تو وہ کروڑوں لوگ ہیں جو ان بلوائیوں اور تخریب کاروں کو دیکھتے ہی خود کو الگ کر لیتے ہیں اور انہیں نفرت و بیزاری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا : کسی بھی عہدے اور مقام پر فائز کوئی بھی شخص اگر معاشرے کو بد امنی کی جانب لے جانے کی کوشش کرے گا تو وہ ایرانی قوم کی نظر میں منفور قرار پائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا : ملت ایران کے بلند اہداف اور دنیا و آخرت کی سعادت و خوشبختی کا حصول امن و سکون کے ماحول میں ہی ممکن ہے۔
رہبر معظم نے امن و امان کی صورت حال کو نقصان پہنچانے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا اور بااثر شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اہم شخصیات ہوشیار رہیں کیونکہ ان کی ہر وہ بات، تجزیہ اور اقدام جو معاشرے کے امن و امان کے ردہم و برہم ہونے کا باعث ہو، ملت ایران کی ترقیو پیشرفت اور اہداف کے خلاف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے بیان، موقف حتی اپنے سکوت کے تئیں محتاط رہے کیونکہ ان مسائل کے سلسلے میں سکوت جن کو بیان کرنا ضروری ہے در حقیقت فریضے پر عملدرآمد نہ کرنا ہے اور ایسی باتیں کہنا جو نہیں کہنی چاہئیں فریضے کے خلاف عمل کرنے سے عبارت ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بڑی شخصیات محتاط رہیں کیونکہ ان کے سامنے بڑے عظیم امتحان کا لمحہ آن پہنچا ہے جس میں کامیاب نہ ہونا صرف ناکام ہو جانا نہیں بلکہ ان کے سقوط کا موجب ہوگا۔ رہبر معظم نے ایسے انجام سے نجات کا راستہ عقل و خرد کو معیار قرار دینا قراردیتے ہوئے فرمایا: عقلمندی یہ رائج سیاست بازی نہیں ہے کیونکہ سیاست بازی عقل کے منافی ہے اور جو لوگ سیاست بازی کو عقلمندی تصور کرتے ہیں وہ غلطی کر رہے ہیں۔
رہبرمعظم نے فرمایا : صحیح عقلی طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت کی راہ ہموار کرتا ہے اور اس کا معیار یہ ہے کہ ہم خود فیصلہ کریں کہ ہمارا بیان اور موقف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے اخلاص کے ساتھ ہے یا بعض افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کیلئے۔ ہمیں خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغامات پر غور کرنے اور اسے ایک جشن سے بالاتر واقعہ کی حیثت سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےفرمایا: بعثت، انسانیت کے لئے بہت اہم موڑ ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دس سالہ حکومت کے زمانے میں جو اقدامات کئے اور تاریخ انسانیت میں جو تبدیلیاں پیدا کیں ان کا کسی بھی اقدام اور تبدیلی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر جمہوریہ ڈاکٹر احمدی نژاد نے عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سےمبارکباد پیش کی اور انسانوں کو جہل و ظلم کی تاریکی سے نجات دلانے اور انہیں نور ہدایت کی سمت گامزن کرنے میں اس عظیم تاریخی واقعہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا : پیغمبر اسلام، دین کے احکامات پر عمل کے سلسلے میں سب سے پیش پیش رہتے تھےاور انسانیت کی موجودہ مشکلات کی بنیادی وجہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات سے دوری ہے۔