ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب نے شام کے صدر سے ملاقات کے موقع پر فرمایا:

استقامت اور مزاحمت شام کی وہ اہم خصوصیت ہے جو اسے دیگر عرب ممالک سے ممتاز کرتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب  اسلامی حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے آج شام کے صدر بشار اسد اور ان کی زیر قیادت ،ایران آنے والے وفد سے ملاقات  میں مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات کو اسلامی استقامت اور مزاحمت کے لئے سازگار اور امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے پیرو کاروں کے لئیے ناسازگار قرار دیتے ہو ئے اس بات پر زور دیا کہ استقامت اور مزاہمت کے اسلامی محاذکو اس موقع سے بھر پور فائیدہ اٹھاتے ہو ئے اپنے تعاون اور تعلّقات کو مزید مضبوط بنانا چاہئیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور شام کے اتحاد کو اس خطے میں استقامت کا مظہر قرار دیااور فرمایا : اس اتحاد کے نتائج اور اثرات ، فلسطین ، عراق اور لبنان کے معاملات نیز پورے خطے کے مسائل میں بالکل واضح ہیں ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ، اس خطے میں تحریک مزاحمت  کوختم کرنے اور استقامت کے محاذ سے عوام کے رابطے کو کمزور کرنے کی استعماری سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرمایا : ان سازشوں کو اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے اور خطے میں امریکہ کی تلوار کی دھار کند ہوتی جا رہی ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق میں امریکہ کی دشوریوں اور نامکمل اہداف کی طرف اشارہ کرے ہوئے فرمایا: صیہونی حکومت بھی اپنے تشہیراتی مشینری  کے باوجود شدید داخلی بحران سے دوچار ہے اور دن بدن  زوال کی طرف گامزن ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقے کے سلسلے میں امریکا کے بدلے ہو‏ئے رویہ  کو اسی زوال کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا:یہ رویہ موجودہ امریکی صدر کی سابقہ امریکی صدور سے بنیادی اختلاف  کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ ان کی جگہ پر جو کوئی بھی ہوتا علاقے میں کسی اور پالیسی کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تھا۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی  نے فرمایا کہ ایران اور شام کے ما بین تعاون کا میدان بہت وسیع ہے۔ آپ نے دستیاب مواقع اور وسائل سے بھرپور استفادے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: عرب ممالک میں شام کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی استقامت و مزاحمت ہے اور امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کی شام سے دشمنی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس موقع پر شام کے سابق صدر مرحوم  حافظ اسد کو بھی یاد کیا اور فرمایا: علاقے میں شام کو حاصل مقام و مرتبہ مرحوم کی کوششوں اور آزادانہ موقف کا ثمرہ ہے جسے بشار اسد بخوبی جاری رکھے ہو ئے ہیں ۔  قائد انقلاب اسلامی نے ایران، شام، ترکی اور عراق کے چار فریقی اتحاد کے قیام سے متعلق شام کے صدر کی تجویز کی تائید کی اور فرمایا: عراق سے شام کے موجودہ روابط اور تعلقات انتہائي مثبت قدم ہے اور عراق کے مسائل کے حل کے لئے اس ملک کی حکومت کی مدد کرنا چاہئے۔

اس ملاقات میں(جس میں ایرانی صدر جناب احمدی نژاد بھی موجود تھے ) شام کے صدر بشار اسد نے تہران اور دمشق کے اسٹریٹیجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور علاقے کے حالات کے  استقامت و مزاحمت کے لئے سازگار ہونے کےنظریے  کی تائید کی۔انہوں  نے کہا کہ مغربی حکومتیں بالخصوص امریکا شدید داخلی مشکلات اور علاقے میں متعدد دشواریوں سے دوچار ہیں، وہ اس خطے میں  حتی لبنان میں اپنا کوئي ہدف پورا نہیں کر سکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں چاروں ممالک ایران، شام، ترکی اور عراق کا تعاون اور اتحاد پورے علاقے کے لئے ثمر بخش ثابت ہوگا۔ شام کے صدر نے عراقی وزیر اعظم نوری مالکی کے دورہ شام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عراق کے ساتھ تعاون کے لئے شام کی بھرپور آمادگی کا اعلان کیا اور کہا کہ اغیار اور بعض علاقائی ممالک عراق میں شیعہ سنی اختلافات کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں بنابریں عراقی حکومت کی مدد کرکے ان اقدامات کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ شام کے صدر بشار اسد نے حالیہ صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر احمدی نژاد کو ملنے والی بھاری اکثریت اور عہدہ صدارت کے لئے ان کے دوبارہ انتخاب کو علاقے میں استقامت و مزاحمت کے محاذ کو پہلے سے زیادہ تقویت پہنچنے کا باعث قرار دیا اور کہا کہ ایران کے انتخابات کے بعد کے مسائل کے سلسلے میں بعض مغربی ممالک کی سازشوں کی شکست ان کے لئے بہت بڑی عبرت ہے اور ڈاکٹر احمدی نژاد کو ملنے والی بھرپور عوامی حمایت سے ان ممالک کو بھی پتہ چل گيا ہے کہ ایران کے عوام امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے راستے اور استقامت و مزاحمت کی راہ پر گامزن ہیں ۔

700 /