ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی :

دسویں دور کے صدارتی انتخابات نے انقلاب اور اسلامی نظام میں نئی روح پھونک دی ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے آج شام صدر جمہوریہ جناب ڈاکٹر احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں ، عدالت ، بدعنوانیوں سے پیکار ، سادہ زیستی ، کمزور طبقات کی حمایت اور پسماندہ مناطق پر خصوصی توجہ دینے جیسے مسائل پر زور دیتے ہوئے بیروزگاری اور افراط زر پر قابو پانے کے لئیے انتھک کوششوں کی تاکید فرمائی۔

 

رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں بیس سالہ ترقیاتی منصوبے کو حکومت کی سرگرمیوں اور فعالیت کو پرکھنے کا معیار اور کسوٹی قرار دیا اور حکومت کو آئین کی دفعہ چوالیس کو عملی جامہ پہنانے، جلدبازی سے بچنے، دانشوروں کے نظریات پو توجہ دینے، ثقافتی امور کا خیال رکھنے، قانون کے پاس و لحاظ، خیر خواہانہ اور تعمیری تنقیدوں کی پذیرائی، دینی علمائے کرام کی سفارشات پر توجہ اور ایرانی و اسلامی نمونہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی۔
اس ملاقات میں گزشتہ کابینہ کا جز رہ چکی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا: بارہ جون کے ناقابل فراموش اور پرجوش انتخابات میں پچاسی فیصدی رائے دہندگان کی شرکت سے ملک کے حکام کے تعین کے سلسلے میں عوام کے احساس ذمہ داری اور اختیارات و ارادے کی عکاسی ہوتی ہے اور اسلامی نظام و انقلاب کے تعلق سے اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت پر سب کو شکر بجا لانا چاہئے۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے انتخابات میں چار کروڑ رائے دہندگان کی شرکت اور ڈھائی کروڑ ووٹوں کی بے مثال اکثریت سے نئے صدر کے انتخاب کے پیغام کو صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت پر تاکید کی اور فرمایا: اگر ملک کے حکام اور سیاسی شخصیات اس پیغام کو سمجھ لیں تو بہت سے مسائل و مشکلات کوحل کرنا آسان ہو جائے گا۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے دسویں صدارتی انتخابات میں پچاسی فیصدی ٹرن آوٹ کو انقلاب کے دشمنوں کے سر پر پڑنے والا جمہوری ہتھوڑا قرار دیا اور فرمایا: قوم اور اسلامی انقلاب نے اپنے اس عمل سے انتہائی پر زور انداز میں اپنی جمہوریت ثابت کی ہے۔ رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے اسلام پسندی کے جذبے کی تقویت کو بارہ جون کے انتخابات کا ایک اور اہم پیغام قرار دیا اور فرمایا: اسلام، انقلاب اور امام ( خمینی رہ) کی راہ کی پابندی کرنے کے تعلق سے انتخابی امیداواروں کے بیانوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ قوم کا میلان اسی سمت میں ہے جس کی وجہ سے محترم امیداواروں نے کوشش کی کہ خود کو امام (خمینی رہ) اور انقلاب سے وابستہ ظاہر کریں۔ رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: دسویں صدارتی انتخابات سے انقلاب اور نظام کی زندگی میں ایک نیا باب کھلا البتہ اس عظیم عوامی پیش قدمی کے سلسلے میں بعض لوگوں کا رد عمل شریفانہ اور اخلاقی قدروں کے مطابق نہیں تھا لیکن ملک اور تاریخ کے لئے جو چیز اہم اور یادگار ہے وہ عوام کی عظیم تحریک اور اسلامی انقلاب کے با برکت تسلسل کی الہی نعمت ہے۔ آپ نے حکام اور خاص طور پر صدر مملکت کو اس نعمت الہی کا شکر ادا کرنے، اس کی قدر کرنے اور غرور سے پرہیز کی دعوت دی اور فرمایا: عوام کے ووٹوں پر فخر کرنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی تواضع و خاکساری کا ثبوت دیتے ہوئے غرور و نخوت سے پرہیز ضروری ہے کیونکہ غرور شیطان کا ایک بڑا جال ہے جو اپنے ساتھ مختلف قسم کے انحراف اور انحطاط لاتا ہے۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نویں کابینہ کے اراکین کی زحمتوں کی قدردانی کی اور دسویں کابینہ کو عوامی خدمت کے میدان میں وارد ہونے پر خوش آمدید کہا۔ آپ نے فرمایا: موجودہ حالات، بہت بڑے پیمانے پر معیاری کام اور عمل کے متقاضی ہیں اور فضل الہی سے بلند ہمت صدر مملکت اسی سمت میں قدم بڑھائیں گے۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے حکومت سے دس اہم ترین سفارشات اور ہدایتیں کیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالی پر توکل اور توجہ، باطن کو مستحکم بنانا، تمام مشکلات اور دشواریوں پر غلبہ حاصل کرنے کا اہم راز ہے۔
آپ نے دسویں حکومت کو مختلف سازشوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنے کی ہدایت کی اور فرمایا: اس حکومت اور اسلامی نظام کے خلاف بہت سے اقدامات کئے جائیں گے لیکن قوم اور حکومت کے پاس توانائياں اور مواقع ان سازشوں اور دشواریوںسے کہیں زیادہ ہیں۔

رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے انصاف کے قیام، بد عنوانی کے خلاف اقدام، کمزور طبقوں کی مدد، سادہ زیستی، محروم علاقوں پر توجہ اور عوام کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے کے لئے بلا وقفہ سعی و کوشش کی سفارش کی اور فرمایا: اس راہ میں سعی و کوشش سے اللہ تعالی بھی راضی و خوشنود ہوگا اور عوام بھی خوش ہوں گے۔ رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے انصاف کی صحیح تعریف کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: تمام کاموں اور برتاؤ، حتی فیصلوں اور موقف میں انصاف اور اعتدال کو معیار قرار دینا چاہئے۔ رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے ملک کے عمومی سرمائے اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم کے فقدان کو بے انصافی کا واضح نمونہ قرار دیا اور فرمایا: سبسڈی کے مسئلے میں غریب طبقہ حکومتی امداد سے بہت کم بہرہ مند ہو پاتا ہے لہذا سبسڈی کو ہدف مند بناکر جس کے سلسلے میں گزشتہ حکومتوں سے بھی تاکید کی جاتی رہی ہے، اس مشکل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے انصاف کے سلسلے میں روحانیت اور عقل پسندی کو بھی ضروری قرار دیا اور فرمایا: ماضی میں بعض گروہوں کے انتہا پسندانہ برتاؤ میں اب ایک سو اسی درجے کی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے کیونکہ ان کی انصاف پسندی عقل و منطق اور فکر نظر پر مبنی نہیں تھی۔
حکومت سے رہبر معظم  انقلاب اسلامی کی تیسری اہم سفارش بیس سالہ منصوبے پر خصوصی توجہ دئے جانے کے تعلق سے تھی۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بیس سالہ منصوبہ ایک طرح سے آئین کے بعد ملک کی اہم ترین دستاویز ہے بنابریں حکومت کی کارکردگی اور موقف کو بیس سالہ منصوبے کے معیار پر تولنا چاہئے۔ آپ نے بیس سالہ منصوبے پر عمل درآمد کےآغاز کو چار سالہ کا عرصہ گزرے جانے کا ذکر کیا اور فرمایا: اس اہم دستاویز میں معین شدہ مستقبل کی سمت ہمیں بڑھنا چاہئے اور دسویں حکومت کو چاہئے کہ منصوبوں پرعملدرآمد کی رفتار کو منظم کرے اور اس دستاویز کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔
آئین کی دفعہ چوالیس کی پالیسیوں پر مکمل عملدرآمد پر بھی رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے خاص تاکید فرمائی۔ آپ نے اس سلسلے میں انجام دئے جانے والے کاموں کو ناکافی قرار دیا اور فرمایا: بنیادی ڈھانچوں میں تبدیلی اور اقتصادی تغیر کے نئے منصوبے کی منظوری کے انتظار میں نہیں بیٹھنا چاہئے اور یہ نہیں فرض کر لینا چاہئے کہ مسئلہ بند گلی میں پہنچ گيا ہے بلکہ دفعہ چوالیس کی پالیسیوں پرعملدرآمد کے سلسلے میں ہر ممکنہ شکل میں کوشش کرنا چاہئے۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے ملک و عوام کے اقتصادی مسائل بالخصوص افراط زر اور بے روزگاری کے حل کو انتہائی اہم قرار دیا اور فرمایا: ایسی منصوبہ بندی اور کوشش کی جانی چاہئے کہ عوام پر سے افراط زر کا بوجھ سرکاری سروسز کے اخراجات کے پہلو اور مختلف پہلوؤں سے کم ہو۔ رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اقتصادی منصوبوں میں جلد بازی سے اجتناب اور ماہرین کے نظریات سے مناسب انداز میں استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا: ماہرین کے نظریات اور تجاویز سے درست طور پر بالخصوص اقتصادی اور مالیاتی امور میں بھرپور استفادہ کیا جانا چاہئے کیونکہ اقتصادی امور میں ماہرین کے نظرئے سے بے توجہی بہت بڑے نقصانات پر منتج ہو سکتی ہے۔

ثقافتی امور پر توجہ اور مناسب ثقافتی اہداف کے تعین کے سلسلے میں بھی رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے صدر مملکت اور نئی کابینہ کو ہدایت کی۔ آپ نے فرمایا: حکام کا فریضہ، معاشرے کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی کے امور کی دیکھ بھال کرنا بھی ہے بنابریں، ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے آئی آر آئی بی، اسلامی ہدایت و ثقافت کی وزارت، تعلیم و تربیت کی وزارت اور اعلی تعلیمی ادارے کے وسائل اور توانائیوں کو اس طرح بروئے کار لانا چاہئے کہ عوام دینی اصولوں سے اور زیادہ مانوس اور ان کے پابند بنیں۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے دسویں حکومت کو قانون کی مکمل پاسداری اور اس پر عمل آوری کی ہدایت کی اور فرمایا: اگر کسی بھی مسئلے میں قانون کو نظر انداز کیا گيا تو یہ صرف ایک قانون توڑنے کی حد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ قانون سے بے اعتنائی کا دروازہ کھل جائے گا۔
نئی حکومت کے لئے رہبر معظم  انقلاب اسلامی کی آٹھویں سفارش تنقیدوں کے لئے سعہ صدر، خندہ پیشانی اور سنجیدہ سماعت کے سلسلے میں تھی۔ آپ نے فرمایا: داخلی سطح پر کی جانے والی بعض تنقیدیں جو غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی مدد سے سامنے آتی ہیں تخریبی اقدام ہے تاہم خیر خواہانہ اور مصلحت پر مبنی تنقیدیں بھی ہوتی ہیں جو بسا اوقات حکومت کے حامیوں کی جانب سے نہیں ہوتیں، ان پر توجہ دینے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے توہین اور کینہ توزی برداشت کرنے کے گزشتہ حکومت کے موقف کو اجر الہی کا باعث قرار دیا اور فرمایا: اس راہ میں تھکن کا احساس نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی چھوٹی موٹی تنقیدوں کو دشمنی پر محمول کرنا چاہئے۔
رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے صدر مملکت اور کابینہ میں ان کے ساتھیوں کو علمائے کرام کی نصیحتوں اور سفارشات کی قدر کرنے کی خاص ہدایت کی اور فرمایا: ملک کے مختلف علاقوں اور دینی تعلیمی مراکز میں جلیل القدر علمائے کرام، اسلامی نظام کے حامی ہیں اور حکومت کی خدمات پر بھی نظر رکھتے ہیں بنابریں ان کی سفارشات مہر و محبت اور ہمدردی کے جذبے کے تحت ہوتی ہیں جس کی قدر کرنا چاہئے۔

آپ نے اسی طرح یونیورسٹی سے وابستہ علمی شخصیات اور دانشوروں کی تنقیدوں کی پذیرائی کو حکومت کی تقویت کا باعث قرار دیا اور فرمایا: ممکن ہے کہ خیر خواہ دانشوروں کے کچھ اعتراضات بھی ہوں جس کا خیر مقدم کرکے اپنے لئے دانشوروں کے فعال اذہان کا ذخیرہ تیار کیا جا سکتا ہے۔
ترقی کا اسلامی و ایرانی نمونہ عمل تیار کرنا اور اس مہم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مفکرین سے استفادے کی ضرورت رہبر معظم  انقلاب اسلامی کی جانب سے نو تشکیل شدہ حکومت کے لئے آخری سفارش تھی۔ رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے انصاف اور ترقی کے منصوبوں کی فطری معیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس انداز سے آگے بڑھئے کہ چار سال کے دوران آپ کے اقدامات، ملک کے آئندہ حکام کے لئے مستحکم بنیاد فراہم کریں تاکہ تمام شعبوں میں نویں حکومت سے زیادہ مستحکم پیشرفت ہو۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے گزشتہ نویں حکومت کی کارکردگی کی مختصر رپورٹ پیش کی اور نئی دسویں حکومت کی ترجیحات کو بیان کیا۔
صدر مملکت نے انقلاب اور ملک کے لئے خود کو وقف کر دینے کے کابینہ کے اراکین کے عہد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا ارادہ یہ ہے کہ اندرونی ہم خیالی و ہم آہنگی اور تمام ماہرانہ و فکری صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام تک پہنچائے۔ ڈاکٹر احمدی نژاد نے دسویں کابینہ کی اہم ترین ذمہ داریوں میں ثقافتی امور پر توجہ اور معاشرے میں ثقافتی و اخلاقی فضا قائم کرنے کا نام لیا اور کہا کہ قانون کا پاس و لحاظ، شہریوں کے حقوق کی مکمل حفاظت، قومی اتحاد و یکجہتی کی تقویت، عوامی شراکت و نظارت کا فروغ، قانون اور قوم کے سامنے سب کا جواب دہ ہونا اور نوجوان نسل کے لئے نئے مواقع کی فراہمی، سماجی شعبے میں حکومت کے اہم منصوبے ہیں۔
ڈاکٹر احمدی نژاد نے انصاف اور الہی اقدار پر اصرار، اقتصادی بد عنوانیوں کے تسلسل اور سنجیدگی کے ساتھ مقابلے اور غربت و تفریق کے خاتمے کو حکومت کے دیگر اہم منصوبوں میں قرار دیا اور کہا کہ حکومت طے شدہ منصوبوں کے تحت ملک بھر میں اپنی موجودگی کو زیادہ موثر اور نمایاں بنائے گی۔
ڈاکٹر احمدی نژاد نے قانون کے دائرے میں سیاسی و سماجی آزادی کی حمایت، سیاسی امور میں قانون کی بالادستی، قوم کے حقوق اور انقلاب کے اقدار کے سلسلے میں استقامت و پامردی اور سیاسی بد عنوانیوں سے مقابلے کو سیاسی شعبے میں حکومت کی اہم ترجیحات قرار دیا۔ صدر مملکت نے اقتصادی شعبے میں آئين کی دفعہ چوالیس پر عملدرآمد کے قانون کو حکومت کی کارکردگی کا راہنما اصول قرار دیا اور کہا کہ "سہام عدالت" کے نام سے دئے جانے والے شیئروں کی تقسیم کا عمل پورا کرنا، کوآپریٹیو محکمے کی وسعت، ایکسپورٹ کا فروغ، سرمایہ کاری میں اضافہ اور افراط زر کی روک تھام حکومت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

خارجہ پالیسی کے سلسلے میں صدر مملکت نے عالمی میدان میں فعال اور موثر کردار جاری رکھنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ دسویں حکومت سامراجی طاقتوں کے سامنے اپنے ٹھوس موقف کے ساتھ عالمی سطح پر اپنا انقلابی سفر جاری رکھے گی۔
اس ملاقات کے اختتام پر رہبر معظم  انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز مغرب و عشا ادا کی گئی اور حاضرین نے آپ کے ساتھ روزہ افطار کیا۔

700 /