ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی :

تسلط پسند نظام کے خلاف اقدام، صرف اسلامی جمہوریہ ایران سے مخصوص ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے وزیر خارجہ ، وزارت خارجہ کے اہلکاروں اور دیگر ممالک میں تعینات ایرانی سفیروں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندوں سے ملاقات میں انقلاب اسلامی کو تسلط پسند نظام کے خلاف تعامل کے عنوان سے بین الاقوامی روابط میں ایک نئی منطق و نئي پالیسی کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیروں اور نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تسلط پسند نظام کے خلاف قوی ، مضبوط ،مفید اور کارآمد سفارتی اقدام عمل میں لائیں اور اس اہم کام کو انجام دینےکے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلامی اور شرعی پراصولوں عمل پیرا رہیں۔

رہبر معظم نے تسلط پسند نظام کے خلاف عملی اقدام کو اسلامی جمہوریہ ایران سے مخصوص قراردیتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند نظام میں دو عنصر موجودہیں جس میں ایک تسلط پسند اور دوسرا تسلط پذیر ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے پہلے ہی صاف اعلان کردیا کہ وہ نہ تسلط پسند ہے اور نہ کسی کا تسلط قبول کرےگا۔

رہبر معظم نے دنیا میں تسلط پسند نظام کے خلاف اقدام اور بین الاقوامی روابط ، حکومتوں ، سیاسی شخصیات اور مفکرین کی طرف سے اس کے استقبال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند نظام کے خلاف اقدام کو عوام کی زبردست ، قوی اور  مضبوط پشتپناہی حاصل ہے اور عوام کی عظیم طاقت تسلط پسند نظام کے خلاف ہے۔

رہبر معظم نے دنیا کےدوسرے انقلابوں کے بر عکس،  انقلاب اسلامی کے پہلے دن سے لیکر اب تک عوام کی ولولہ انگیز اور روز افزوں حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کونسا ملک ہے جس میں 31 برس گزرنے کے بعد اس کی سالگرہ کے موقع پر لوگ بڑی تعداد میں شرکت کریں یہ فخر صرف انقلاب اسلامی کو حاصل ہے کہ اس کو عوام کی ہمیشہ بھر پور حمایت حاصل رہی ہے۔ اور عوام کی طرف سے یہ عظیم حمایت اور پشتپناہی بہت ہی اہم موضوع ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران سے مخصوص ہے۔

رہبر معظم نے اسلامی جمہوریہ ایران کےجوان دانشمندوں کی حیرت انگیز علمی پیشرفت کو تسلط پسند نظام کے خلاف پالیسی کا اہم اور مؤثر حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند نظام کے خلاف ایک اور مضبوط و مستحکم عنصر  انتخابات میں عوام کی بھر پور اور بے مثال شرکت ہے جو عوامی حکومت کا مظہر ہے اور انتخابات میں عوام کی شرکت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ۔

رہبر معظم نے مختلف حکومتوں کے دور میں ملک کی تعمیر و ترقی اور وسیع سماجی سرگرمیوں کو تسلط پسند نظام کے خلاف پالیسی کا ایک اور مؤثر حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: دیگر ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندوں کے لئے یہ تمام قوی اور اسٹرائٹجیک عناصر ہیں جن کے ذریعہ وہ خود اعتمادی کے جذبہ کو مزید مضبوط و مستحکم بنا سکتے ہیں اور ان مضبوط عناصر کی مدد سے وہ عزت ، حکمت اور  مصلحت کی تین بنیادوں پر تسلط پسند نظام کے خلاف نئی پالیسی کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔

رہبر معظم نے تسلط پسند نظام کے خلاف پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئےقوی سفارتی عمل کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: سفارت عمل کا اثر اور اس کی قدرت فوجی ، تبلیغاتی اور مالی قدرت سے کم نہیں ہے حتی بعض موارد میں سفارتکاری کی قدرت کہیں زیادہ ہے لہذا تسلط پسند نظام کے خلاف کام کرنے کے لئے قوی ، مضبوط اور مؤثرسفارتی عمل سے استفادہ کرنا چاہیے جو عقل ، منطق اور خود اعتمادی پر مبنی ہو۔

رہبر معظم نے فعال و سرگرم سفارتی عمل کے لئے شرعی اصولوں اور انقلاب اسلامی کے افکار پر مکمل اعتقاد کو لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: سفارتی میدان میں قومی خود اعتمادی اور اسلامی و دینی اصولوں پر عمل کے لئے پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہیے ۔

رہبر معظم نے انقلابی اور شرعی اصولوں پر عمل کو سفارتی شعبہ کی قوت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: منطق کے ہمراہ یہ عمل استحکام کی علامت ہے جو مد مقابل کو خضوع و احترام کرنے پر مجبور کرےگا۔

رہبر معظم نے گذشتہ برسوں میں مغربی ممالک کی پسندیدہ تشریفات ، سلیقوں اور مفاہیم سے استفادہ کو ان سے ہمرنگ ہونے کےبعض غلط تصورات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ لوگ تصور کرتے تھے کہ مغربیوں کے مفاہیم کو دہرا کران کے مقام و منزلت میں اضافہ ہوجائے گا جبکہ مغربیوں کے الفاظ و مفاہیم دوسوسال پرانے اورقدیمی ہیں  جبکہ ایران کی بات اور اس کی پالیسی مؤثر اورجدید خطوط پر استوار ہے۔

رہبر معظم نے وزارت خارجہ میں انجام پانے والے امور  کی قدردانی اور بین الاقوامی چیلنجوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارتی میدان میں کامیابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے ایٹمی معاملے میں مغربی ممالک کے وسیع اورجھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود دنیا کی بڑی طاقتیں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکیں  اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کا نظام قوی اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔

رہبر معظم نے تاکید کرتے ہوئےفرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران نے ابتداء ہی سے اعلان کیا ہے کہ اسکا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے اور ایران پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔

رہبر معظم نے فرمایا: ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں  امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل سمیت بعض مغربی ممالک کے پروپیگنڈے جھوٹے ہیں اور جہاں تک ضرورت ہوئی ایران اس میدان میں پیشرفت حاصل کرکے خودکفیل بننے کی کوشش کرےگا۔

رہبر معظم نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے کردار پرتنقید کرتے ہوئے فرمایا: بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی بعض رپورٹیں  اس بین الاقوامی ادارے کے عدم استقلال کا مظہر ہیں۔

رہبر معظم نے فرمایا: بین الاقوامی ایٹمی ادارے کو امریکہ اور بعض یورپی ممالک سے متاثر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس قسم کے یک طرفہ اقدامات عالمی سطح پر بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی اور اقوام متحدہ کے لئے ذلت و رسوائی کا موجب بنیں گے۔

رہبر معظم نے فرمایا: وزارت خارجہ میں کام و فعالیت کی بنیاد تسلط پسند نظام کے خلاف اقدام کو آگے بڑھنے پر مبنی ہونی چاہیے اور قوی ڈپلومیسی کے ذریعہ بین الاقوامی روابط اثر انداز ہونا چاہیے اور ڈپلومیسی کی کیفیت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے سفارتی شعبہ میں ہر بات و ملاقات کو سنجیدہ اور صحیح اصولوں پر استوار ہونا چاہیے۔

رہبر معظم نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں سفارتی عمل اور مذاکرات کے پیچیدہ موضوع سے مکمل آشنائی کو ملک کے سفارتکاروں کے لئے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: عام ڈپلومیسی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاقیت و ایجاد ہے اور اس پر زیادہ توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم نےبیرونی ممالک میں مقیم ایرانیوں کے ساتھ مؤثر ارتباط بھی تاکید کی۔

اس ملاقات کے آغاز میں وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں دیگر ممالک میں تعینات ایرانی سفیروں اور نمائندوں کے اس سال کے اجلاس کے موضوع کو " عالمی مدیریت کی تبدیلی اور عدالت پر مبنی سفارتکاری " قراردیتے ہوئے کہا: سیاسی و اقتصادی میدان میں ایران کا علاقائی سطح پر استحکام،قومی مفادات و امن و سلامتی کے مسائل،اسلامی یکجہتی کی تقویت،لبنان و فلسطین میں مقاومت کی حمایت، غیر علاقائی طاقتوں کی مداخلت اور تسلط کے خلاف اقدامات اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔

وزیر خارجہ نے ایشیاء  ، افریقہ ، لاطینی امریکہ اور یورپ میں وزارت خارجہ کی فعالیت پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: تمام علاقائی اور غیر علاقائی ممالک میں عزت و حکمت اور مصلحت کی بنیاد پر روابط کو استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

700 /