ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

دنیا کو در پیش ضرورتوں اور مسائل کے بارے میں حوزہ علمیہ ٹھوس اور مستدل جوابات پیش کرے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح حوزہ علمیہ قم کے علماء، فضلا ،اساتید ، مدارس کے  مدیروں اور طلباء کے عظیم ، پر جوش اور ولولہ انگیز اجتماع سے اپنے اہم خطاب میں حوزات علمیہ میں مختلف شعبوں اور پہلوؤں میں تبدیلی اور مدیریتی تحول کے بارے میں سیر حاصل تشریح فرمائی اور اسلامی نظام اور حوزات علمیہ کے مابین تقابل کے سلسلے میں دشمنان اسلام کی طرف سے شبہات پیدا کرنے کو حوزات علمیہ ، علماء  اور اسلامی نظام کو کمزور کرنے کی ناپاک سازش قراردیا ۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے حرم کے اتابکی صحن ، مسجد اعظم، صاحب الزماں (عج) صحن اور امام خمینی (رہ)  شبستان میں علماء ، طلباء ، فضلا  اور اساتید کے عظیم اجتماع سے خطاب میں شہر مقدس قم کو عالم اسلام کا معنوی اور معرفتی مرکز قراردیتے ہوئے  فرمایا: قم آج بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے حضور مبارک کے بعد کے دور کی طرح اہلبیت علیھم السلام کے معارف کو فروغ دینے کا اصلی مرکز اور محور ہے اور وہ فعال اور متحرک قلب کی طرح بصیرت ، بیداری اور معرفت کے خون کو پوری امت اسلامیہ کے پیکر میں جاری کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی  نے اسلامی معارف کی ترویج اور تحصیل کے سلسلے میں حوزہ علمیہ قم میں دسیوں ہزار طلباء کی عظيم تلاش و مجاہدت کو بے نظیر اور بے مثال عمل قراردیا اور حوزہ علمیہ قم پر عالمی توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حوزہ علمیہ قم کا آج بین الاقوامی سیاست اور حالات میں اہم اور مؤثر کردار  او ر اہم نقش ہے جو اس سے قبل نہیں تھا اور حوزہ علمیہ کی اسی ممتاز پوزیشن کی وجہ سے آج اس کے دوست اور دشمن بھی بہت زيادہ ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے  اسی ضمن میں ایک مغالطہ اور شبہ کی جانب اشارہ کیا جس کی بنا پر یہ تبلیغ اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ حوزہ علمیہ کو سیاسی اور عالمی مسائل سے دور رہنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے حوزہ علمیہ کی محبوبیت اور اس کے احترام میں کمی اور اس کے ساتھ عداوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس شبہ اور مغالطہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: کسی بھی گرانقدر اور مؤثر مجموعہ کا الگ تھلگ اور گوشہ گير و کنارہ کش رہنے سے اس کےحقیقی احترا م کا سبب نہیں بن سکتا کیونکہ زندہ اور فعال موجودات ہی مؤثر اور مفید واقع ہوسکتی ہیں جو حقیقت میں دوستوں اور حتی دشمنوں کو بھی احترام کرنے پر مجبور کرسکتی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزہ علمیہ قم کو بے جان ، بے حرکت اورمنفعل کرنے کی کوشش کرنے والوں کے مغالطہ اور شبہ کو مضبوط اورٹھوس استدلال کے ذریعہ رد کیا اور حوزہ علمیہ کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کو بتدریج حذف کرنے کی سازشوں اور کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شیعہ علماء ہمیشہ سیاسی اور سماجی حوادث و تحولات میں پیش پیش رہے ہیں اور اسی وجہ سے عوام میں ان کا بہت زیادہ اثر اور نفوذ رہاہے جبکہ عالمی سطح پر اسلامی اور غیر اسلامی مذہبی رہنماؤں کا اتنا اثر و نفوذ نہیں رہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دین اسلام کی تقویت کو سیاسی اور عالمی مسائل میں حوزہ علمیہ کے رشد و تحرک کی دوسری دلیل قراردیتے ہوئے فرمایا: علماء ، دین اسلام کے خادم اور سرباز ہیں اگر وہ منفعلانہ طور پر حرکت کریں گے تو اس سے دین اسلام کو زبردست نقصان پہنچے گا اور یہ مسئلہ علماء کے وجودی فلسفہ کے بھی خلاف ہے۔

رہبر معظم انقلاب سلامی نے علماء کی میدان میں موجودگی کو عداوتوں کے بھڑکنے کا موجب قراردیتے ہوئے فرمایا: اس بات پر توجہ کرنی چاہیے کہ مجموعی طور پر اگر ہم زندہ اور بیدار رہیں تو یہ عداوتیں ہمارے لئے  غنیمت موقع ہیں کیوں کہ ان کی وجہ سے شبہات کا مدلل جواب دینے کے عزم و حوصلہ میں اضافہ ہوگا اور دینی غیرت و حمیت بھی بیدار ہوگی  اور تاریخ میں اس قسم کے فراواں نمونے گواہ ہیں کہ اس طرح اسلامی معارف کو فروغ دینے میں بہت زیادہ مدد ملےگی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزہ علمیہ کو سیاسی اور عالمی مسائل سے دور رکھنے کے شبہ اور مغالطہ کا ایک اور  مدلل و ٹھوس جواب دیتے ہوئے فرمایا: حوزہ علمیہ کے عدم تحرک اور سیاسی مسائل سے الگ تھلگ رہنے سے دشمنوں کے اعتراضات اور ان کی عداوتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا بلکہ اس سے دشمن کے اندرعداوت اور دشمنی کا مزید عزم و حوصلہ پیدا ہوگا۔  

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزہ علمیہ قم کے علماء ، فضلا، اساتید کے عظيم اجتماع سے خطاب میں دو غلط اور انحرافی مفاہیم یعنی مولویوں کی حکومت اور حکومتی مولویوں اور غیر  حکومتی مولویوں کی تقسیم کے مقابلے میں ہوشیار اور بیدار رہنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے اپنے خطاب کو جاری رکھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان دو انحرانی مفہوموں کے سلسلے میں دشمنان اسلام اور دشمنان نظام کی سازشوں ، پروپیگنڈوں اور ان کے اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: دشمن،  اسلام اور اسلامی نظام کو علماء کی عظیم فکری ، عقلی اور استدلالی حمایت اور سرمایہ سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے خیال و تصور میں انقلابی علماء اور میدان میں سرگرم عمل علماء کو الگ تھلگ کرنے اور انھیں بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہمیں ان کی اس ناپاک سازش اور ہدف کا ہوشیاری کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان دو انحرافی مفاہیم میں دشمن کی سازش اور راہ و روش کے پہلوؤں کی وضاحت اور اسلامی نظام اور علماء کی باہمی نسبت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے ساتھ حوزات علمیہ کی نسبت حمایت اور نصیحت اور اصلاح کے ہمراہ دفاع پر مبنی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی بحث کے ضمن میں اسلامی جمہوریہ کو مولویوں کی حکومت قراردینے کو بہت بڑا الزام اور جھوٹ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام دینی حکومت اور دینی قدروں پر مشتمل ہے اور یہ مولویوں کی حکومت نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام میں حکومتی عہدوں اور ذمہ داریوں کو ہاتھ میں لینے کے لئے صرف مولوی ہونا ہی کافی نہیں ہیں کیونکہ فقط مولوی ہونا صلاحیت یا عدم صلاحیت کا سبب نہیں بن سکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علماء کے درمیان حکومتی اور غیر حکومتی علماء کی تقسیم کو واضح اور صریح غلطی قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر دنیاوی امور و دنیاوی مسائل اور خواہشات نفسانی کی خاطر کوئی حکومتی ذمہ داریوں کو قبول کرے اور حکومت کے ساتھ رغبت دکھائے تو یہ غلط اور باطل امر ہے لیکن اگر ایک عالم دین معنوی اور الہی اہداف کے پیش نظر اسلامی نظام کی حمایت اور حکومتی ذمہ داریوں کو قبول کرے تو اس کا یہ عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے اعلی مصداق اور اللہ تعالی کی راہ میں مجاہدت کا سب سے اہم ، عمدہ اور شاندار نمونہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس شاندار اور عظیم اجتماع میں حقیقت اور اقدار کے دو مفاہیم یعنی " حوزات علمیہ پر اسلامی نظام کا نظری اور علمی اعتماد" اور " نظام کے بارے میں حوزہ علمیہ اور علماء کی بھر پور توجہ " کی تشریح کرتے ہوئے اپنے بیان کو جاری رکھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام علمی اور نظری اعتبار سے علماء اور حوزات علمیہ کا محتاج ہے اور ان کی تلاش و کوشش کی بدولت اسلامی نظام کی پشت قوی ، مضبوط اورگرم ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حقیقت کی مزيد تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوری نظام  کی ذات اور حقیقت و ماہیت دینی اور اسلامی  ہونے کی وجہ سے سیاست ، اقتصاد، مدیریت ، تعلیم و تربیت اور ان کے مانند تمام میدانوں اور تمام مسائل میں تحلیل اور تجزیہ کا کام علماء کے دوش پر ہے یعنی یہ ذمہ داری ان لوگوں کے دوش پر عائد ہوتی ہے جو اسلامی تعلیمات کے مفکر اور ماہر ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک و معاشرے کے مختلف شعبوں اور میدانوں میں دینی نظریات اورتجزیہ و تحلیل کے خلاء اور اس کی جگہ مغربی اور غیر دینی نظریات کے اثر و نفوذ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میری طرف سے یونیورسٹیوں میں انسانی علوم پر خصوصی توجہ کی بار بار تاکید اور تکرار اسی حقیقت کے پیش نظر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: موجودہ اور رائج انسانی علوم، الہی نظریات و معارف کے علاوہ غیر الہی نظریات و خطوط پر مشتمل ہیں اور ملک کے آئندہ آنے والےمدیروں اور منتظمین کو مغربی اور مادی اہداف و نظریات کی بنیاد پر تربیت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں حوزات علمیہ اور دینی علماء کی ذمہ داری ہے کہ انحراف سے بچنے کے لئے وہ مختلف شعبوں میں اسلامی نظریات کو مشخص کرکے منصوبہ بندی کے لئے حکام کے حوالے کریں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف موضوعات کے بارے میں پائے جانے والے شبہات کے جوابات کو اسلامی نظام میں دینی علماء کی ذمہ داری کا اہم مصداق قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے دشمنوں کی طرف سےمعاشرے میں دینی  ، سیاسی ، اعتقادی شبہات پیدا کرنے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ وہ اس کے ذریعہ اسلامی نظام کے اصولوں پر خدشہ وارد کرنا چاہتے ہیں لہذا معاشرے سےان غبار آلودہ شبہات کو دور کرنے کے لئے علماء اور فضلاء کی کوششیں اسلامی نظام کی بہترین مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں اور اسلامی نظام اس زاویہ سے بھی حوزات علمیہ کا محتاج ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اور حقیقت کی تشریح یعنی اسلامی نظام پرحوزات علمیہ کی بھر پور توجہ، علماء اور حوزات علمیہ بالخصوص حوزہ علمیہ قم کو " اسلامی نظام کی ماں اور نظام کو وجود میں لانے کا باعث" قراردیا اور اس نکتہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہر گز ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ماں اپنے بچہ کے بارے میں غافل اور بے توجہ رہے اور ضرورت کے وقت اس کا دفاع نہ کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں اپنے بیان کو سمیٹتے ہوئےفرمایا: حوزہ علمیہ اور اسلامی نظام کے درمیان آپسی نسبت " حمایت، تعاون اور باہمی مدد پر استوار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرے نکات میں ایک سوال کے ذریعہ "حوزات علمیہ کے استقلال و خود مختاری  " کے مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کی توضیح اور تشریح کرتے ہوئے فرمایا: کیا اسلامی نظام کی حمایت کرنےسے حوزات علمیہ کے استقلال اور اس کی خود مختاری میں کوئي خلل یا فرق پڑتا ہے یا نہیں؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزات علمیہ کے تاریخی استقلال و خود مختاری کے بارے میں  اس سوال کا جواب دیتے ہوئےفرمایا: چاہےدین مخالف حکومتوں کا دور ہو چاہے شیعہ حکومتوں کا دور ، ہر دور میں حوزات علمیہ اور علماء اسلام نےاپنے استقلال اور اپنی خودمختاری کی حفاظت کی ہے علمائے دین حتی جب بعض شیعہ حکومتوں کی مدد بھی کرتے تھے اس وقت بھی وہ حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں آئے اور شیعہ علماء جس طرح تاریخ میں ہمیشہ مستقل رہے ہیں آج بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اسی طرح مستقل ہیں اور کل بھی مستقل رہیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزات علمیہ کے استقلال پر تاکید اور اس سلسلے میں شبہ اور مغالطہ پیدا کرنے کے بارے میں بعض کوششوں کے مقابلے میں ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: بعض لوگ چاہتے ہیں کہ استقلال اور خود مختاری کے نام پر حوزات علمیہ کا اسلامی نظام سے رابطہ ختم کردیں لیکن یہ بات واضح اور آشکار ہے کہ وابستگي اور حمایت و تعاون میں فرق ہے اور استقلال کو حفظ کرتے ہوئے باہمی تعاون کو جاری رکھ سکتے ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نظام کو حوزات علمیہ کا مرہون منت قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حوزات علمیہ کے مسائل میں مداخلت کئے بغیر ان کی حمایت اور مدد جاری رکھے کیونکہ اس مجموعہ میں ایسے مسائل موجود ہیں جنکا بیت المال کی مدد کے بغیر حل ہونا ممکن نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےطلاب کی معیشت کے موضوع کو حوزات کے لئے نظام کی حمایت سے جدا اور الگ قراردیتے ہوئے فرمایا: طلاب کی معیشت کا معاملہ حوزات علمیہ کی دیرینہ اور معنوی سنت کے مطابق عوام کی شرعی وجوہات سے فراہم کرنا چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ عوام اور حوزات علمیہ کے باہمی رابطہ کا ایک دلنشیں اور مضبوط و مستحکم مظہر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کی طرف سے حوزات علمیہ کی گوناں گوں حمایتوں کو صرف مالی امداد میں محدود نہ کرتے ہوئے فرمایا: آج اللہ تعالی کے فضل و کرم سے قوم کا سب سے اہم اور عام  مقام علماء اور مراجع عظام کے ہاتھ میں ہے اور حوزہ کی مختلف شعبوں میں پشتپناہی تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزات علمیہ کے استقلال و آزادی اور اسلامی نظام کے ساتھ اس کے باہمی تعاون کے درمیان پائے جانے والے فرق کو بیان کرتے ہوئےفرمایا :اسلامی نطام اور حوزات علمیہ  دو عظیم حقیقتیں ہیں جو مختلف پہلوؤں اور خصوصیات کی بنا پر ایک دوسرے سے وابستہ اور متصل ہیں اور در حقیقت دونوں کی سرنوشت بھی ایک ہی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر چہ اسلامی نظام پر کسی بھی قسم کی ضرب سے حوزات علمیہ اور علمائے دین کو زبردست نقصان پہنچےگا لیکن اسلامی نظام پوری طرح مضبوط ،قوی اور توانا ہے اور بیشک تمام در پیش چیلنجوں پر غالب آجائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےقم کے علماء، فضلاء ، اساتذہ اور طلبا کے اس عظیم الشان اجتماع میں دینی حوزات علمیہ میں تبدیلی اور اصلاح کے اہم ترین موضوع پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صحیح و مفید تبدیلی اور غلط و انحرافی دگرگونی کے مابین فرق کو
واضح کرنے کے لئے بالکل سامنے کی بعض مثالیں پیش کرتے ہوئے فرمایا:اگر تبدیلی سے مراد حوزات کے بنیادی خطوط اورخد و خال کی تبدیلی مثلا "اجتہاد" کے طریقے کی تبدیلی مراد ہے تو یہ بالکل غلط اور نامناسب ہے اور ایسی تبدینی اور دگرگونی ہے جس کا سرانجام سقوط و تنزلی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزات علمیہ  میں رائج "اجتہاد" کے طریقے کو سب سےمناسب ، سب سے معقول طریقہ اور سب سے قوی طریقہ قراردیتے ہوئے فرمایا : آج اگر کوئی بھی، کسی بھی نام سے اجتہاد کے سلسلے میں غیر اصولی اور متعارف طریقہ  کے خلاف کسی اور روش کو اختیار کرے تو اس کا عمل نادرست اور ناقابل قبول ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مادی دنیا ، دوسروں کی مرضی و منشاء  و پسند اور استکباری طاقتوں کی خوش آمد گوئی کے لئے بعض افراد کی طرف سے فتوی صادر کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کسی نے فتوی دیا ہےکہ پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول چونکہ بڑی طاقتوں کی بدظنی اور بد گمانی کا باعث ہے اس لئے یہ عمل غیر شرعی اور جائز نہیں ہیں لیکن ہمارا یہ کہنا ہے کہ ایرانی قوم کے بارے میں بد ظنی رکھنا سامراجی طاقتوں کی غلطی اورحماقت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: البتہ اگرحوزات علمیہ رائج طریقے کی بنیاد پر بعض لوگوں کی "اجتہادی نظر" مختلف فتوؤں پر منتج ہوجائے تو بس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس سے حوزات علمیہ کو مزید علمی ترقی، پیشرفت فروغ ملے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزات علمیہ کو عالمی سطح پر فلسفی، فقہی اور عقیدتی بحثوں میں فغال طور پر حصہ لینے کی سفارش کرتے ہوئےفرمایا:حوزہ علمیہ کو چاہیے کہ وہ مختلف مسائل میں گوناگوں مکاتب فکر کے الگ الگ نظریات کے پیش نظر دنیا میں زیر بحث موضوعات اور ضرورتوں کے مدلل، مضبوط  ،مستحکم ، ٹھوس اور اطمینان بخش جوابات پیش کرے۔

رہبر مععظم انقلاب اسلامی نے پیشرفتہ مواصلاتی وسائل کے ذریعہ حوزات علمیہ سے قومی اور عالمی ضرورت کے مطابق دینی جوابات کو سرعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کو اچھا موقع قرار دیتے ہوئےفرمایا: اسلام میں معرفت شناسی،  سیاسی و اقتصادی نقطہ نگاہ اور علمی روش کی وضاحت، فقہی اور قانونی مفاہیم کی تشریح، اسلام کے اخلاقی و تربیتی نظام کی صحیح اور علمی پیشکش ایسے مسائل ہیں جن پر حوزات علمیہ میں وسیع پیمانے پرکام ہوسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزات علمیہ میں اصلاح اور تبدیلی کی بحث کو جاری رکھتے ہوئے "اجتہادی مباحث" کو اس تبدیلی کی صحیح بنیاد اور اصلی محور قرار دیتے ہوئے فرمایا: تبدیلی و تحول اوراصلاح ناگزیر چیز ہے لہذآ مراجع تقلید، علماء  بزرگ اور مفکرین کو چاہیے کہ وہ اس تبدیلی کے لئے منصوبہ بندی اور اس کی صحیح راہنمائی کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تحول سے غلط مفہوم درک کرنے کے ایک اور مصداق کی طرف اشارہ کیا اور تعلیم و تعلم کے سلسلے میں حوزات علمیہ کی طرف سے بہت ہی مفید اور سنتی  روشوں  کے ترک کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئےفرمایا : یہ  سنتی اور روایتی انداز بتدریج عالمی سطح پر مرکز توجہ بن چکا ہے لہذا اگر کچھ لوگ تحول کے نام پر اس سنتی اور روایتی طریقہ کار کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کی یہ حرکت رجعت پسندانہ حرکت ہوگی اور اس کے نتائج نا قابل قبول ہوں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے استاد کے آزادانہ انتخاب کی روش، استاد کے ساتھ علمی بحث و مباخثہ کرنے، غور کرنے، مطالعہ کرنے، کتابوں کو نہ رٹنے ، باہمی مباحثہ، استاد کے احترام اور استاد و شاگرد کے درمیان باہمی احترام کو حوزات علمیہ کی بہت عمدہ سنت و  روایت اور طریقہ قراردیتے ہوئے فرمایا: حوزات علمیہ میں تبدیلی اس روش کی تقویت کا باعث بننی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے اور عوام کی ضروریات اور حوزات علمیہ کی علمی بحثوں اور تلاش و کوشش کے مابین مطابقت کو بھی حوزات علمیہ میں مثبت تبدیلی کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: حوزات علمیہ میں تحول کے تناظر میں اخلاقیات اور نشست و برخاست کے آداب کے نظام پر بھی توجہ دینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مراجع کرام کے احترام و تکریم کو حوزات علمیہ کے اخلاقی نظام کا ایک مثبت پہلو قرار دیتے ہوئےفرمایا:مراجع عظام حوزات علمیہ کی عظیم اوربلند چوٹیوں کا درجہ رکھتے ہیں اور کوئی بھی انسان آسانی سے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا لہذا جلیل القدر مراجع تقلید کا حوزات علمیہ کے ماحول میں ہمیشہ عزت و تکریم اوراحترام کیا جانا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تہذیب نفس کو حوزات علمیہ میں مثبت تغیرات کے تسلسل کا ایک اہم ستون قرار دیتے ہوئےفرمایا: حوزات علمیہ کے اخلاقی نطام اور رجحان میں انقلابی جذبات و خیالات کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہیے کیونکہ دشمن اور ان کے آلہ کار انقلابی ماحول کو ختم کرکے اپنے مذموم اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا:انقلابی نظریات اور جذبات کی کسی فرد کی جانب سے مخالفت کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہےلیکن یہ مسئلہ اہم ہے کہ دشمن اسی مخالفت کو بنیاد بناکر مخالف ماحول بنانے کی کوشش کرتا ہے اور حوزات علمیہ کو اس موضوع پر بھی پوری توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام دشمن عناصر  کی طرف سے رضاکار و انقلابی علمائے کرام کو تنہا کرنے، شہادت اور شہیدوں کی تحقیر اور ملت ایران کے آٹھ سالہ مقدس دفاع پر سوالیہ نشان لگائے جانے کو حوزات علمیہ میں انقلابی ماحول کو کمزور کرنے کی سازش قرار دیا اور ان دینی مراکز کے بزرگوں پر زوردیا کہ وہ  اس نکتے پر خصوصی توجہ مبذول کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزات علمیہ کے انقلابی و پرجوش طلبا اور نوجوانوں کو ملک کی مستقبل کی امیدوں سے تعبیر کیا اور اس کے ساتھ انہیں یہ ہدایت بھی کی کہ وہ ہر قسم کی بے احتیاطی سے پرہیز کریں اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اس انداز سے عمل کریں کہ کوئي ان پر انتہاپسندی کی تہمت عائد نہ سکے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہر انقلابی شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کی حفاظت کرتے ہوئے بصیرت و ہوشیاری سے کام لے، وقت کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں  کو درک کرے اور مشکلات و آزمائش کے مقابلے میں پائداری ، ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ منطقی اور معقول روش اختیار کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلابی افراد پر انتہا پسندی کا الزام عائد کرنے سے اجتناب کی ضرورت پر بھی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ تہمت ایک گمراہ کن حرکت ہے جو دشمن براہ  راست یا غیر مستقیم انجام دیتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی اس بحث کے اختتامی مرحلے میں تحول و تبدیلی کی صحیح راہنمائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےفرمایا: قوی مدیریت اور صحیح انتظامی کوششوں کے بغیر حوزات علمیہ  میں وسیع اور ہمہ گیر تبدیلی ممکن نہیں ہے لہذا مراجع تقلید اور مفکرین کے معتمد افراد کے ایک گروہ کو چاہیے کہ وہ اس انتظامی ذمہ داری کو قبول کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسفہ کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حوزات علمیہ میں  عقلی علوم اور اعتقادی بحثوں نیز تفسیر قرآن کے موضوع پر خاص توجہ مبذول کرنےکی سفارش کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر قم کے حوزہ علمیہ کے علماء، فضلاء، طلبا اور اساتذہ کے عظیم اجتماع میں ہزاروں کی تعداد میں موجود دینی طالبات کو ایک بابرکت اور عظیم کامیابی قرار دیتے ہوئےفرمایا:  طالبات کےحوزات علمیہ میں بھی عالم، محقق اور فلسفی خواتین کی تربیت اور اس کے بعد عالمی سطح پر ان کی علمی سرگرمیاں ایران و انقلاب اسلامی  کے لئے یونیورسٹی کے دانشوروں کی مانند مزید عزت و سرافرازی کا باعث بن سکتی ہیں۔
اس اجتماع کے آغاز میں حوزہ علمیہ قم کے سربراہ  آیت اللہ مقتدائی نے قم کے حوزہ علمیہ کو انقلاب اسلامی کے مرکز سے تعبیر کرتے ہوئے کہا:حوزہ علمیہ کےاساتذہ، علما اور طلبا مکمل بصیرت کے ساتھ اسلامی نظام کی حفاظت و دفاع کے علمبردار ہیں  اور انحرافی افکار اور سازشوں کے مقابلے میں ولایت فقیہ کے مقام و مرتبے کی حفاظت اور شبہات کے مدلل جوابات دینے کو اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔

آیت اللہ مقتدائی نے حوزات علمیہ کی عظیم علمی و معنوی ظرفیت اور استعداد کے پیش نظر اسلامی معارف اور تمدن کے دفاع میں عظیم اور بلند و بالا اقدامات اٹھانے کی امید کا اظہار کیا۔

700 /